Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 81

سورة بنی اسراءیل

وَ قُلۡ جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا ﴿۸۱﴾

And say, "Truth has come, and falsehood has departed. Indeed is falsehood, [by nature], ever bound to depart."

اور اعلان کر دے کہ حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا ۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ... And say: "Truth has come and falsehood has vanished..." This is a threat and a warning to the disbelievers of the Quraysh, for there has come to them from Allah the truth of which there can be no doubt and which they have no power to resist. This is what Allah has sent to them of the Qur'an, faith and beneficial knowledge. Their falsehood has perished or vanished and been destroyed, it cannot remain or stand firm in the face of the truth. بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَـطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ Nay, We fling the truth against the falsehood, so it destroys it, and behold, it disappears. (21:18) Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Mas`ud said: The Prophet entered Makkah (at the Conquest), and around the House (the Ka`bah) were three hundred and sixty idols. He started to strike them with a stick in his hand, saying, ... جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا Truth has come and falsehood has vanished. Surely falsehood is ever bound to vanish. جَأءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِىءُ الْبَـطِلُ وَمَا يُعِيدُ Truth has come, and falsehood can neither create anything nor resurrect (anything). (34:49)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ ) 17 ۔ الاسراء :81) ۔ اور (قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) 34 ۔ سبأء :49) پڑھتے جاتے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣] فتح مکہ کی پیشگوئی :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش مکہ کے لیے ایک اضحوکہ & پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا۔ مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے نو سال بعد آپ فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے مگر اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آچکی تھی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے ان بتوں کو ٹھونکا دیتے جاتے اور فرماتے جاتے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀) 17 ۔ الإسراء :81) (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپ اس میں داخل نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ آپ نے ابراہیم اور اسماعیل کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ آپ نے فرمایا : && اللہ کی قسم ! انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی && (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً ) ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیم اور بی بی مریم کی تصویریں ہیں۔ آپ نے فرمایا : && قریش کے کافروں کو کیا ہوگیا ہے وہ سن تو چکے ہیں کہ جس گھر میں مورتیں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ یہ ابراہیم کی تصویر ہے۔ ان کو کیا ہوا بھلا وہ پانسوں سے فال لیا کرتے تھے &&۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ بشارت سنا دینے کا حکم دیا جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد پوری ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں ایک لکڑی کے ساتھ کچو کے مارتے جاتے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور یہ کہتے جاتے تھے : (جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) ” حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا ہے۔ “ (جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) [ سبا : ٤٩ ] ” حق آگیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، سورة بني إسرائیل، باب : ( و قل جاء الحق وزھق الباطل ) : ٤٧٢٠ ] اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 3 : ” ہمیشہ سے “ کا مفہوم ” كَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی نے لکھا ہے : ” أَیْ کَانَ غَیْرَ مُسْتَقَرٍّ وَلَا ثَابِتٍ فِيْ کُلِّ وَقْتٍ “ کہ باطل ہر دور میں یعنی ہمیشہ سے نا پائیدار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 81: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (And say, |"Truth has come and false-hood has vanished|" ) was revealed after Hijrah about the conquest of Makkah. Sayyidna Ibn Masud (رض) says that on the day Makkah was con¬quered, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) entered Makkah. At that time, there were three hundred and sixty idols standing around the Baytullah. Some ` Ula¬ma& report a reason for this particular number. They say that the Mush¬riks of Makkah had a separate idol for each day of the year that they used to worship on the given day. (Qurtubi) When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) reached there, this was the verse he had on his blessed lips: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (Truth has come and falsehood has vanished) while he went round striking at each single idol on the chest with his stick. (al-Bukhari and Mus¬lim) It appears in some Hadith narratives that the end of this stick had a pewter or iron ferrule mounted on it. So, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would hit an idol on the chest, it would fall back. In the end, when all idols fell down, he gave orders that they be demolished. (Qurtubiwithrefer¬ence to Qadi ` Iyad and al-Qushairi) It is necessary to erase customs and symbols of polytheism, disbelief and falsehood Imam al-Qurtubi said that this verse proves that it is wajib (neces¬sary, obligatory) to erase the idols of Mushriks and all other polytheistic symbols and signs - and all such false instruments that are used in the way of sin and disobedience as well. They too come under the purview of the game injunction. Ibn al-Mundhir said that pictures and sculpted fig¬ures made in wood or metal etc. also come under the injunction govern¬ing idols. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had torn the curtain having pictures made on it in lines and colors. This, incidentally, tells us about the gener¬al injunctions covering common pictures. According to Sahih Hadith, when Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) will come towards the later times, he will undo the cross and eliminate the swine. These things prove that it is neces¬sary to demolish and eliminate the instruments of shirk, kufr and batil.

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ یہ آیت ہجرت کے بعد فتح مکہ کے بارے میں نازل ہوئی حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بتوں کے مجسمے کھڑے ہوئے ہوئے تھے بعض علماء نے اس خاص تعداد کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ مشرکین مکہ سال بھر کے دنوں میں ہر دن کا بت الگ رکھتے تھے اس دن میں اس کی پرستش کرتے تھے (قرطبی) آپ جب وہاں پہنچنے تو یہ آیت آپ کی زبان مبارک پر تھی وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اور اپنی لکڑی ایک ایک بت کے سینے میں مارتے جاتے تھے (بخاری ومسلم) بعض روایات میں ہے کہ اس چھڑی کے نیچے رانگ یا لوہے کی شام لگی ہوئی تھی جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس بت کے سینہ میں اس کو مارتے تو وہ الٹا گر جاتا تھا یہاں تک کہ یہ سب بت گر گئے اور پھر آپ نے ان کے توڑنے کا حکم دے دیا (قرطبی بحوالہ قاضی عیاض و قشیری) شرک و کفر اور باطل کی رسوم و نشانات کا مٹانا واجب ہے : امام قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی دلیل ہے کہ مشرکین کے بت اور دوسرے مشرکانہ نشانات کو مٹانا واجب ہے اور تمام وہ آلات باطلہ جن کا مصرف صرف معصیت ہو ان کا مٹانا بھی اسی حکم میں ہے ابن منذر نے فرمایا کہ تصویریں اور مجسمے جو لکڑی پیتل وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں وہ بھی بتوں ہی کے حکم میں ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پردے کو پھاڑ ڈالا جس پر تصوریں نقش و رنگ سے بنائی گئی تھیں اس سے عام تصاویر کا حکم معلوم ہوگیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر زمانے میں تشریف لاویں گے تو صحیح حدیث کے مطابق صلیبوں کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے یہ سب امور اس کی دلیل ہیں کہ شرک و کفر اور باطل کے آلات کو توڑنا اور ضائع کردینا واجب ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81؀ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ زهق زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] . ( ز ھ ق ) زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة/ 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔ بطل البَاطِل : نقیضالحق، وهومالاثباتلهعندالفحصعنه، قالتعالی: ذلِكَبِأَنَّاللَّهَهُوَالْحَقُّوَأَنَّمايَدْعُونَمِنْدُونِهِهُوَالْباطِلُ [ الحج/ 62] ( ب ط ل ) الباطل یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج/ 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) اور کہہ دیجیے کہ اب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کے ساتھ تشریف لے آئے ہیں یا یہ کہ اب اسلام کا غلبہ ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی کثرت ہوگئی ہے اور شیطان اور شرک اور مشرکین سب ہلاک ہوئے اور واقعی یہ باطل چیزیں تو یوں ہی آتی جاتی رہتی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ) بظاہر تو ابھی اس انقلاب کے آثار نمودار نہیں ہوئے تھے ابھی آٹھ سال بعد جا کر کہیں مکہ فتح ہونے والا تھا ‘ لیکن عالم امر میں چونکہ اس کا فیصلہ ہوچکا تھا لہٰذا ابھی سے آپ کی زبان مبارک سے حق کی آمد اور باطل کے فرار کا اعلان کرایا جا رہا ہے ۔ (اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) باطل کو ثبات نہیں۔ جب بھی اس کا حق کے ساتھ معرکہ ہوگا تو حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :101 یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبشہ میں پناہ گزین تھی ، اور باقی مسلمان سخت بیکسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی ۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے ۔ مگر اسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اڑا دیا ۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔ جآء الحق ومایُبدءُ الباطل ومایُعید ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

48: اس آیت کریمہ میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ حق یعنی اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہونے والا ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا اور حرم میں داخل ہو کر کعبے میں بنے ہوئے بت گرائے تو اس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہی آیات تھیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:81) زھق۔ ماضی واحد مذکر غائب زھوق مصدر (باب فتح) وہ نکل بھاگا۔ مٹ جانے والا۔ زھق بمعنی خرج بھی آتا ہے۔ زھق روحہ اس کی روح نکل گئی۔ اور دوسری جگہ قرآن مجید میں آتا ہے وتزھق انفسہم وہم کافرون (9:85) اور ان کی جانیں اس حالت میں نکلیں کہ وہ کافرہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 چناچہ چند ہی سال کے بعد آنحضرت فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ایک روایت میں ہے : آپ کعبہ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے ہاتھ میں لکڑی تھی۔ اس لکڑی سے ایک ایک بت پر ضرب لگاتے اور یہ آیت (قل جاء الحق) تلاوت فرماتے جاتے۔ (بخاری)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ چناچہ ہجرت کے بعد مکہ فتح ہوا، اور سب وعدے پورے ہوگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقل ……(٧١ : ١٨) ” اور اعلان کر دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ، باطل تو مٹنے ہی والا ہے “۔ یعنی اللہ کی جانب سے جو اقتدار نبی اور داعیوں کو ملتا ہے اس کی بدولت۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کردو کہ یہ اقتدار اب آہی گیا اور اس کی وجہ سے باطل گویا مٹ ہی گیا کیونکہ حق اپنے اندر قوت ، سچائی اور ثبات رکھتا ہے۔ اور باطل کے مزاج میں کمزوری اور مٹنا ہے۔ سچائی کا مزاج یہ یہ کہ وہ زندہ رہے ، پھلے پھولے اور قائم و دوائم رہے اور باطل کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ مٹ جائے ، ختم ہوجائے اور اس کا نام و نشان تک نہ رہے۔ ” باطل مٹنے والا ہے “۔ یہ ایک الٰہی حقیقت ہے اور اللہ اسے نہایت ہی تاکیدی الفاظ میں بیان فرما تا ہے۔ اگرچہ بظاہر باطل رائج نظر آئے ، اس کی حکومت ہو اور اس کا رعب ہو ، کیونکہ باطل پھلا اور پھولا نظر آتا ہے لیکن اس کا موٹاپا بیماری کا موٹاپا ہوتا ہے۔ وہ چونکہ بےحقیقت ہوتا ہے اس لئے اس کے غبارے سے جلد ہی ہوا نکل جاتی ہے۔ اور اس پر کبھی کسی قوم کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن باطل ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرکے ان کو مرعوب کردے اور ایسے ذرائع اختیار کرتا ہے کہ وہ مستقل اور پختہ اور ایک عظیم نظام نظر آئے لیکن اسکی مثال ایسی خود روگھاس کی ہوتی ہے جو جلد ہی خشک ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ کسی خشک گھاس اور پھوس کو آگ لگ جائے تو یکدم شعلے آسمانوں تک پھیل جاتے ہیں لیکن جلد ہی وہ شعلے بیٹھ جاتے ہیں اور راکھ کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جبکہ ایک مضبوط انگارہ دھکتا رہتا ہے اور اس کی چنگاریاں دیر تک راکھ میں بھی دبی رہتی ہیں یا اس طرح کہ وہ جھاگ کی طرح ہوتا ہے۔ یکدم پھول جاتا ہے لیکن جلدی بیٹھ جاتا ہے اور پانی جو ایک حقیقت رکھتا ہے اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ ان الباطل کان زھوقا (٧١ : ١٨) ” بیشک باطل مٹنے ہی والا ہے “۔ کیونکہ باطل کے اندر باقی رہنے والے عناصر ہی نہیں ہوتے۔ بعض خارجی عوامل ہوتے ہیں جن سے وہ وقتی طور پر فائدہ لیتا ہے۔ اس کا وجود غیر طبیعی ہوتا ہے۔ جب یہ خارجی عوامل ختم ہوتے ہے اور یہ خارجی سہارے دور ہوتے ہیں یا کمزور پڑتے ہیں تو یہ دھڑام سے گرتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں تک حق اور سچائی کا تعلق ہے اس کی ذات کے اندر اس کے دوام کا سامان ہوتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ لوگوں کی خواہشات نفس سچائی کے خلاف ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ماحول سچائی کے خلاف ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات وقت کے اہل اقتدار سچائی کے خلاف ہوتے ہیں۔ لیکن حق کا ثبات اس کا سکون و اطمینان آخر کار اسے فتح سے ہمکنار کرتا ہے اور اس کے بقاء کا ضامن ہوتا ہے اس لئے کہ یہ حق اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کا نام ہی حق ہے اور اللہ چونکہ زندہ باقی اور لازوال ہے اس لئے سچائی اور حق بھی لازوال ہے۔ ان الباطل کان زھوقا (٧١ : ١٨) ” بیشک باطل مٹنے والا ہے “۔ اس کے پیچھے بعض اوقات بڑی قوت ہوتی ہے اور وقت کا اقتدار بھی اس کا حامی ہوتا ہے لیکن اللہ کا وعدہ سچا ہے ور اللہ کی قوت اور سلطنت اور اقتدار بزرگ و برتر ہے۔ جن اہل ایمان نے ایمان کا حقیقی ذائقہ چکھ لیا ہوتا ہے وہ اللہ کے وعدے کی مٹھاس اور اللہ کے اس وعدے کی سچائی کو محسوس کرتے ہیں۔ کون ہے جو اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا ہے اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ سچی بات کرنے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فتح مکہ کا ذکر ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ اس وقت بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ کی ایک ٹہنی سے گراتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے۔ (جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا) اور یہ بھی پڑھتے جاتے تھے۔ (جَآءَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ ) سورة سبا کی آیت ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ حق کے آنے اور باطل کے چلے جانے کا اعلان کردیں۔ چناچہ آپ نے بتوں کو گراتے ہوئے سورة بنی اسرائیل کی آیت پر بھی عمل کیا اور سورة سبا کی آیت پر بھی۔ تیسری آیت میں فرمایا کہ ہم جو قرآن میں نازل کرتے ہیں یہ مومنین کے لیے سراپا شفاء اور رحمت ہے، اور رہے ظالم جو حق پر بھی ظلم کرتے ہیں (اسے قبول نہیں کرتے) اور اپنی جانوں پر بھی ظلم کرتے ہیں تو یہ لوگ حق سے منہ موڑنے کی وجہ سے اپنے کو عذاب آخرت کے لیے تیار کرتے ہیں ان کا جو طریقہ ہے وہ خود ان کے حق میں بربادی اور خسارے کا سبب ہے۔ یہی قرآن جو اہل ایمان کے لیے شفاء اور رحمت ہے جو لوگ انکار کرتے ہیں ان کے لیے یہی قرآن خسارہ اور بربادی کا سبب بن جاتا ہے اور جیسے جیسے کوئی آیت نازل ہوتی ہے اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اپنے خسارہ میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ قال صاحب الروح واسناد الزیادۃ المذکورۃ الی القرآن مع انھم المزادون فی ذلک لسوء صنیعھم باعتبار کونہ سببا لذلک۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ یہ غلبہ اسلام کی بشارت اور پیشگوئی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پورا فرمایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

8 1 اور آپ کو کہہ دیجیے کہ دین حق یعنی اسلام آ پہونچا اور باطل دین یعنی کفر و شرک کیا گزرا ہوا اور بھا گ گیا اور واقعی باطل تو زائل اور بھاگ جانے الی ہی چیز ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی غلبہ دین آیا اور کفر بھاگا مکہ میں سے اور تمام عرب میں سے 12 چناچہ ہجرت کے بعد مکہ معظمہ فتح ہوا اور کفر کا دھڑ ٹوٹ گیا اور یہ پیشین گوئی شان دار طریقہ سے پوری ہوئی۔