Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 82

سورة بنی اسراءیل

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۙ وَ لَا یَزِیۡدُ الظّٰلِمِیۡنَ اِلَّا خَسَارًا ﴿۸۲﴾

And We send down of the Qur'an that which is healing and mercy for the believers, but it does not increase the wrongdoers except in loss.

یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is a Cure and a Mercy Allah tells: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْانِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا And We send down of the Qur'an that which is a cure and a mercy to the believers, and it increases the wrongdoers in nothing but loss. Allah tells us that His Book, which He has revealed to His Messenger Muhammad, the Qur'an to which falsehood cannot come, from before it or behind it, (it is) sent down by the All-Wise, Worthy of all praise, is a cure and a mercy for the believers, meaning that it takes away whatever is in their hearts of doubt, hypocrisy, Shirk, confusion and inclination towards falsehood. The Qur'an cures all of that. It is also a mercy through which one attains faith and wisdom and seeks goodness. This is only for those who believe in it and accept it as truthful, it is a cure and a mercy only for such people. As for the disbeliever who is wronging himself by his disbelief, when he hears the Qur'an, it only makes him further from the truth and increases him in his disbelief. The problem lies with the disbeliever himself, not with the Qur'an, as Allah says: قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَأءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـيِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ Say: "It is for those who believe, a guide and a cure. And as for those who disbelieve, there is heaviness in their ears, and it is blindness for them. They are those who are called from a place far away (so they neither listen nor understand)." (41:44) وَإِذَا مَأ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـذِهِ إِيمَـناً فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كَـفِرُونَ And whenever there comes down a Surah, some of them (hypocrites) say: "Which of you has had his faith increased by it!" As for those who believe, it has increased their faith, and they rejoice. But as for those in whose hearts is a disease, it will add suspicion and doubt to their suspicion, disbelief and doubt; and they die while they are disbelievers. (9:124-125) And there are many other similar Ayat. وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْانِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوْمِنِينَ ... And We send down of the Qur'an that which is a cure and a mercy to the believers, Qatadah said, "When the believer hears it, he benefits from it and memorizes it and understands it." ... وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا and it increases the wrongdoers in nothing but loss. They do not benefit from it or memorize it or understand it, for Allah has made this Qur'an a cure and a mercy for the believers.

قرآن حکیم شفا ہے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی بابت جس میں باطل کا شائبہ بھی نہیں ، فرماتا ہے کہ وہ ایمانداروں کے دلوں کی تمام بیماریوں کے لئے شفا ہے ۔ شک ، نفاق ، شرک ، ٹیڑھ پن اور باطل کی لگاوٹ سب اس سے دور ہو جاتی ہے ۔ ایمان ، حکمت ، بھلائی ، رحمت ، نیکیوں کی رغبت ، اس سے حاصل ہوتی ہے ۔ جو بھی اس پر ایمان و یقین لائے اسے سچ سمجھ کر اس کی تابعداری کرے ، یہ اسے اللہ کی رحمت کے نیچے لا کھڑا کرتا ہے ۔ ہاں جو ظالم جابر ہو ، جو اس سے انکار کرے وہ اللہ سے اور دور ہو جاتا ہے ۔ قرآن سن کر اس کا کفر اور بڑھ جاتا ہے پس یہ آفت خود کافر کی طرف سے ، اس کے کفر کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ قرآن کی طرف سے وہ تو سراسر رحمت و شفا ہے چنانچھ اور آیت قرآن میں ہے ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ 44؀ۧ ) 41- فصلت:44 ) کہہ دے کہ یہ ایمانداروں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں پردے ہیں اور ان کی نگاہوں پر پردہ ہے یہ تو دور دراز سے آوازیں دئیے جاتے ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْھُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖٓ اِيْمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ١٢٤؁ ) 9- التوبہ:124 ) جہاں کوئی سورت اتری کہ ایک گورہ نے پوچھنا شروع کیا کہ تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں بڑھایا ؟ سنو ایمان والوں کے تو ایمان بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں ہاں جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی گندگی پر گندگی بڑھ جاتی ہے اور مرتے دم تک کفر پر قائم رہتے ہیں ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ الغرض مومن اس پاک کتاب کو سن کر نفع اٹھاتا ہے ، اسے حفظ کرتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے ، اس کا خیال رکھتا ہے ۔ بے انصاف لوگ نہ اس سے نفع حاصل کرتے ہیں ، نہ اسے حفظ کرتے ہیں ، نہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں ، اللہ نے اسے شفا و رحمت صرف مومنوں کے لئے بنایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

82۔ 1 اس مفہوم کی آیت (يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) 10 ۔ یونس :57) میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٣۔ الف ] یعنی یہ قرآن نسخہ کیمیا اور شفا بخش ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے اور اسے منزل من اللہ سمجھتے ہیں۔ ان کے دلوں کے سب روگ مثلاً کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ، بخل، بدنیتی وغیرہ سب کچھ دور کردیتا ہے اور ان اخلاق رذیلہ کے علاج کے بعد معاشرہ میں ایک دوسرے سے رحمت، محبت، شفقت اور الفت کا سبب بنتا ہے لیکن جو لوگ بہرحال قرآن کی مخالفت اور استہزاء پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ قرآن کی ایک ایک آیت اور ایک ایک سورة سے اس کی بدبختی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ان کا یہ رویہ انھیں دنیا میں بھی لے ڈوبے گا اور آخرت میں بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ ۔۔ : یعنی قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ نازل کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اہل ایمان کے دل میں اگر شک و شبہ یا کفر و نفاق کی کوئی بیماری پیدا ہوجائے تو قرآنی آیات کے ساتھ وہ تمام بیماریاں دور ہو کر ان کے دل اور روح کو مکمل شفا و رحمت حاصل ہوجائے۔ (” سراسر شفا “ کا مفہوم مصدر اور تنوین سے ظاہر ہو رہا ہے) مگر ظالموں کو یعنی کفار و مشرکین کو اس سے خسارے ہی میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ پہلی آیات کے ساتھ ان آیات کے انکار سے ان کا کفر اور بڑھ جاتا ہے۔ یہاں شفا سے مراد روحانی شفا، یعنی ایمان و یقین کی دولت مراد ہے، جو کفار کو حاصل نہیں ہوتی۔ دیکھیے سورة یونس (٥٧) ، حم السجدہ (٤٤) اور توبہ (١٢٤، ١٢٥) ۔ اگرچہ اس آیت میں شفا سے اولین مراد روحانی شفا یعنی کفر و نفاق، شکوک و شبہات اور جہل سے شفا ہے، مگر اس کے احکام پر عمل کرنے سے انسان جسمانی بیماریوں سے بھی شفا پاتا ہے اور ان سے محفوظ بھی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ قرآن دم کے لیے پڑھا جائے تو اس سے مسلم و کافر دونوں کی جسمانی بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ ابوسعید خدری (رض) کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک قبیلہ جنھوں نے کچھ مسافر صحابہ (رض) کی مہمانی سے انکار کردیا تھا، اتفاق سے اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، وہ لوگ اپنی ساری کوشش کے بعد صحابہ کے پاس دم کی درخواست لے کر آئے، ابوسعید خدری (رض) نے تیس بکریوں کی شرط پر سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل تندرست ہوگیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ [ بخاری، الإجارۃ، باب ما یعطي في الرقیۃ۔۔ : ٢٢٧٦، ٥٠٠٧ ] اسی طرح خارجہ بن صلت (رض) کے چچا نے سفر کے دوران ایک قبیلے کے لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک پاگل کو سورة فاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا اور ان لوگوں نے انھیں سو بکریاں دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خُذْھَا فَلَعَمْرِيْ لَمَنْ أَکَلَ بِرُقْیَۃِ بَاطِلٍ لَقَدْ أَکَلْتَ بِرُقْیَۃِ حَقٍّ ) [ أبو داوٗد، الطب، باب کیف الرقٰی : ٣٨٩٦، صححہ الألباني ] ”(بکریاں) لے لو، مجھے اپنی عمر کی قسم ! جس نے باطل دم کے ساتھ کھایا (وہ کھاتا رہے) بلاشبہ یقیناً تو نے حق دم کے ساتھ کھایا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

We can now move to the last verse (82) cited above: وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْ‌آنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ (And We reveal the Qur&an which is a cure). That the Holy Qur&an cures hearts and delivers people from shirk and kufr, low morals and spiritual ailments is no secret. The entire Muslim ummah agrees with it. And according to some ` Ulama&, the way the Qur’ an is a cure for spiritual ail¬ments, it is also a cure for physical diseases. The sense is that reciting the verses of the Qur&an and blowing the breath on the body of the sick person or to write its words on an amulet and putting it around the neck is also expected to be a cure for physical diseases. Hadith narratives bear testimony to it. The Hadith of Sayyidna Abu Said al-Khudri (رض) can be seen in all books of Ahadith. It says that a party of the noble Com¬panions (رض) was in travel. In a village on their way, a scorpion had bitten the chief. The village people asked the Companions if they could suggest some treatment for it. They recited the Surah al-Fatihah seven times, blew their breath on him and the ailing patient stood cured. Later, when this incident was mentioned before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، he declared this action of the Companions to be permissible. Similarly, there are several other Hadith reports which prove that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has done it himself. After having recited the last two verses of the Qur&an, he would blow his breath on the sick person. It is also proved that the Sahabah and the Tabi` in used to treat sick people with the recital of the last two verses of the Qur’ an as well as with the recital of other verses from it. That it was written and placed around the neck as an amulet also stands proved. Al-Qurtubi has given details about it under his commentary on this verse. The last sentence of the verse: (And it adds noth¬ing to the unjust but loss - 82) tells us that the Holy Qur&an - when recit¬ed with faith and reverence - is certainly a cure. It is open. It is proven. Conversely, any denial of the Qur’ an, or irreverence to it, could also become a source of loss and misfortunes.

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ قرآن کریم کا قلوب کے لئے شفاء ہونا شرک و کفر اور اخلاق رذیلہ اور امراض باطنہ سے نفوس کی نجات کا ذریعہ ہونا تو کھلا ہوا معاملہ ہے اور تمام امت اس پر متفق ہے اور بعض علماء کے نزدیک قرآن جس طرح امراض باطنہ کی شفاء ہے امراض ظاہرہ کی بھی شفاء ہے کہ آیات قرآن پڑھ کر مریض پر دم کرنا اور تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا امراض ظاہرہ کے لئے بھی شفاء ہوتا ہے روایات حدیث اس پر شاہد ہیں تمام کتب حدیث میں ابوسعید خدری کی یہ حدیث موجود ہے کہ صحابہ کرام (رض) اجمعین کی ایک جماعت سفر میں تھی کسی گاؤں کے رئیس کو بچھو نے کاٹ لیا تھا لوگوں نے حضرات صحابہ سے پوچھا کہ آپ کچھ اس کا علاج کرسکتے ہیں انہوں نے سات مرتبہ سورة فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا مریض اچھا ہوگیا پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا تذکرہ آیا تو آپ نے صحابہ کرام (رض) اجمعین کے اس عمل کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح دوسری متعدد روایات حدیث سے خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معوذات پڑھ کر دم کرنا ثابت ہے اور صحابہ وتابعین سے معوذات اور دوسری آیات قرآن کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرنا لکھ کر گلے میں ڈالنا ثابت ہے جس کو اس آیت کے تحت قرطبی نے تفصیل سے لکھا ہے۔ (آیت) وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو جب اعتقاد و احترام کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا شفا ہونا جس طرح ظاہر اور ثابت ہے اسی طرح قرآن کا انکار یا بےادبی خسارہ اور آفات کا ذریعہ بھی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا 82؀ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ شفا والشِّفَاءُ من المرض : موافاة شفا السّلامة، وصار اسما للبرء . قال في صفة العسل : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] ، وقال في صفة القرآن : هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] ، وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] . ( ش ف و ) شفا الشفاء ( ض ) من المرض سلامتی سے ہمکنار ہونا یعنی بیماری سے شفا پانا یہ مرض سے صحت یاب ہونے کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں شہد کے متعلق فرمایا : فِيهِ شِفاءٌ لِلنَّاسِ [ النحل/ 69] اس میں لوگوں کے ( امراض کی ) شفا ہے ۔ هُدىً وَشِفاءٌ [ فصلت/ 44] وہ ہدایت اور شفا ہے ۔ وَشِفاءٌ لِما فِي الصُّدُورِ [يونس/ 57] وہ دلوں کی بیماریوں کی شفا ہے ۔ ، وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ [ التوبة/ 14] اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) اور ہم قرآن کریم میں ایسی چیزیں بیان کرتے رہتے ہیں جو ایسے حضرات کے لیے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے ہیں گمراہی اور کفر وشرک اور نفاق سے شفاء اور بیان اور عذاب سے رحمت ہے، اور مشرکین کا ان نازل شدہ احکامات سے الٹا نقصان بڑھتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ) یہاں پر پھر قرآن کا لفظ ملاحظہ ہو۔ نوٹ کیجیے کہ خود قرآن کا ذکر اس سورت میں جتنی مرتبہ آیا ہے کسی اور سورت میں نہیں آیا۔ اس آیت میں قرآن کے احکام کو اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہی مضمون سورة یونس میں اس طرح بیان ہوا ہے : (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ) ” اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں ( کے امراض) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور رحمت “۔ یعنی قرآن ایک مؤمن کے سینے کو تمام آلائشوں اور بیماریوں (مثلاً کفر شرک تکبر حسد حب مال حب جاہ حب اولاد وغیرہ) سے صاف اور پاک کردیتا ہے۔ (وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا) جیسا کہ سورة البقرۃ میں فرمایا گیا ہے : (يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا ۭ وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ ) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102. That is, those people who make the Quran their guide and their book of law, are favored with the blessing of Allah and are cured of all their mental, psychological, moral and cultural diseases. On the other hand, those wicked people who reject this and turn their back on its guidance, in fact, are unjust to themselves. Therefore, the Quran does not allow them to remain even in that bad condition in which they were before its revelation or its knowledge but involves them in a greater loss than before. This is because before the revelation of the Quran or their acquaintance with it, they suffered from ignorance alone but when the Quran came before them and made distinct the difference between truth and falsehood, no excuse was left with them to remain in their previous condition of ignorance. After this, if they reject its guidance and persist in their deviation, it is a clear proof that they are not ignorant but workers of iniquity and worshipers of falsehood, which are averse to the truth. For then their position is of the one who, when presented both poison and elixir, makes a choice of poison. Therefore, they themselves are in that cast fully responsible for their deviation and whatever crimes they commit after that, shall incur their full punishment. It is obvious that the consequent loss of wickedness must be far greater than the loss of ignorance. The Prophet (peace be upon him) has summed this up in this concise and comprehensive sentence: The Quran is either an argument in your favor or against you.

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :102 یعنی جو لوگ اس قرآن کو اپنا راہنما اور اپنے لیے کتاب آئین مان لیں ان کے لیے تو یہ خدا کی رحمت اور ان کے تمام مذہبی ، نفسانی ، اخلاقی اور تمدنی امراض کا علاج ہے ۔ مگر جو ظالم اسے رد کر کے اور اس کی راہنمائی سے منہ موڑ کر اپنے اوپر آپ ظلم کریں ان کو یہ قرآن اس حالت پر بھی نہیں رہنے دیتا جس پر وہ اس کے نزول سے ، یا اس کے جاننے سے پہلے تھے ، بلکہ یہ انہیں الٹا اس سے زیادہ خسارے میں ڈال دیتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک قرآن آیا نہ تھا ، یا جب تک وہ اس سے واقف نہ ہوئے تھے ، ان کا خسارہ محض جہالت کا خسارہ تھا ۔ مگر جب قرآن ان کے سامنے آگیا اور اس نے حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھ دیا تو ان پر خدا کی حجت تمام ہو گئی ۔ اب اگر وہ اسے رد کر کے گمراہی پر اصرار کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جاہل نہیں بلکہ ظالم اور باطل پرست اور حق سے نفور ہیں ۔ اب ان کی حیثیت وہ ہے جو زہر اور تریاق ، دونوں کو دیکھ کر زہر انتخاب کرنے والے کی ہوتی ہے ۔ اب اپنی گمراہی کے وہ پورے ذمہ دار ، اور ہر گناہ جو اس کے بعد وہ کریں اس کی پوری سزا کے مستحق ہیں ۔ یہ خسارہ جہالت کا نہیں بلکہ شرارت کا خسارہ ہے جسے جہالت کے خسارے سے بڑھ کر ہی ہونا چاہیے ۔ یہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت مختصر سے بلیغ جملے میں بیان فرمائی ہے کہ القراٰن حجة لک او علیک یعنی قرآن یا تو تیرے حق میں حجت ہے یا پھر تیرے خلاف حجت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٢۔ کفر نقاق حسد بغض وغیرہ امراض باطنی کے لیے قرآن شریف کا شفا بخش ہونا تو ظاہر ہے کیونکہ ان امراض باطنی میں سے کوئی مرض ایسا نہ تھا جو قرآن شریف کے نازل ہونے سے پہلے اہل عرب میں نہ تھا قرآن شریف کے طفیل سے ان امراض کے حق میں پھر وہ شفا اہل عرب نے پائی کہ اس شفا کے اثر سے اور ملک کے لوگوں کو بھی ان امراض سے شفا نصیب ہوگئی غرض سوا اس شفا باطنی کے امراض ظاہری کی شفا کی اثر بھی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ چناچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کی جو حدیث ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کبھی کوئی مرض ہوتا تھا تو آپ قل ھو اللہ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے ١ ؎، اور الحمد پڑھ کر بچھو جہاں کاٹے وہاں منہ کا لعاب لگانے سے بچھو کا زہر اتر جاتا ہے یہ حدیث بھی بخاری میں ہے ٢ ؎۔ اور اس قسم کی بہت سی روایتیں کتب صحاح میں ہیں اور بہت لوگوں کو تجربہ ہے کہ تعویذ کے طور پر لکھ کر باندھنے یا پڑھ کر دم کرنے سے بہت سی آیتوں سے طرح طرح کے امراض کو فائدہ ہوتا ہے۔ تعویذ منتر ان عملیات سے منع ہے جس میں کچھ خلاف شریعت الفاظ ہوں یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معنے معلوم نہ ہونے سے ان کے خلاف شریعت ہونے کا دھوکا ہو رہا ہو آیات قرآنی سے تعویذ و منتر کا عمل کرنا جائز بلکہ مستحب ہے لیکن تعویذ منتر میں اتنا عقیدہ ضرور رکھنا چاہیے کہ تعویذ منتر میں خدا اثر دیوے گا تو اثر ہوگا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ابوداؤد ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی جو حدیث ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعویذ گنڈے سے منع فرمایا ہے اور تعویذ وغیرہ کو شرک فرمایا ہے ٣ ؎ وہ منع اسی تعویذ گنڈے کے حق میں ہے جو خلاف شریعت کسی شر کی الفاظ سے ہو۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر کی حدیث اس ممانعت کے بعد کی جو ہے اس میں اس ممانعت کے سبب کی صراحت خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعویذ گنڈے منتر سے منع فرمانے کے بعد عمرو بن حزم کے کنبے کے کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضرت ہم لوگوں کو زمانہ جاہلیت کا ایک منتر بچھو کا یاد ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اب ایسی باتوں سے منع فرما دیا ہے اس لیے آپ کی اجازت کے بغیر ہم اس منتر کا استعمال نہیں کرسکتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ منتر مجھ کو پڑھ کر تو سناؤ جب انہوں نے وہ منتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس میں تو کچھ ممانعت نہیں ہے ٤ ؎۔ اور صحیح مسلم میں دوسری حدیث حضرت عوف ابن مالک (رض) کی ہے اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صاف فرما دیا ہے کہ جس منتر میں کچھ شرک کا خوف نہیں ہے اس کے استعمال میں کچھ حرج نہیں ہے ٥ ؎۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو موسیٰ (رض) اشعری کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے ٦ ؎۔ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ ایماندار لوگوں کے لیے یہ قرآن اللہ کی رحمت کا سبب ہے اور منکر قرآن لوگوں کے لیے نقصان کا سبب ہے۔ یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایماندار لوگ قرآن کی نصیحت کے موافق عمل کر کے قیامت کے دن اللہ کی رحمت سے اسی طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح مینہ کے پانی سے اچھی زمین کو فائدہ پہنچتا ہے اور قرآن کے منکر لوگوں کے حق میں قرآن کی نصیحت اس طرح رائیگاں ہے جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے اس لیے نئی نئی آیتوں کے انکار کے سبب سے قیامت کے دن کا عذاب ان کے حق میں روز بروز بڑھتا جاتا ہے جو وقت مقررہ پر ان کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٨٣ کتاب فضائل القرآن۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٥٨ باب الاجارہ۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٨٩ بحوالہ سنن ابوداؤد ص ٤٥٢ ج ٢ باب فی تعلیق التمائم۔ ٤ ؎ مشکوؤۃ ص ٣٨٨ کتاب الطب والرقی۔ ٥ ؎ ایضا۔ ٦ ؎ تفسیر ہذاص ٣٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:82) لا یزید۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب وہ نہیں بڑھاتا ہے (یعنی قرآن) الظلمین اس کا مفعول ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جس سے کفر و نفاق اور شک و ریب کی تمام بیماریوں سے دل پاک ہوجاتے ہیں۔ ویسے قرآن ظاہری امراض کے لئے بھی شفا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے منتر ہے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ کیونکہ وہ اسے مانتے ہیں جس سے حق تعالیٰ کی رحمت ان پر ہوتی ہے، اور عقائد و اعمال فاسدہ سے شفا ہوتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا دوسرا نام ” الفرقان “ ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ” حق و باطل میں فرق کردینے والی کتاب “۔ جس طرح دلائل کے حوالے سے اس کے سامنے باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح ہی اس کی غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنے سے کفرو شرک اور نفاق کی بیماریاں دل میں جگہ نہیں پا سکتیں۔ قرآن کے بےشما راوصاف حمیدہ اور اس کے دنیا وآخرت میں لاتعداد فوائد ہیں۔ ان فوائد میں سے دو کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید پر جو شخص حقیقی طور پر ایمان لائے گا۔ قرآن مجید اس کے لیے رحمت بن جائے گا۔ جو معاشرہ جنگ وجدال، برائی و بےحیائی اور ہر قسم کی ناہمواری کا شکار تھا۔ جو نہی قرآن کا راج نافذ ہوا۔ ہر طبقہ انسانی کو اپنے اپنے حقوق ملے اور معاشرہ مذہبی، معاشی اور معاشرتی بےاعتدالیوں سے پاک ہوا۔ جنت بےنظیر کا نمونہ بن گیا۔ حالانکہ قرآن مجید کے نزول سے پہلے اس معاشرہ کا یہ نقشہ تھا۔ تم آگ کے گڑھے کے اوپر کھڑے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گرنے سے بچالیا اور اللہ کے فضل وکرم سے تم آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران : ١٠٣) جہاں تک قرآن مجید کا ” شفاء “ ہونے کا تعلق ہے۔ اگر اس کے بتلائے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جائے۔ تو آدمی جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ سورة المدثر کی ابتداء میں یہ تعلیم دی گئی کہ انسان کو لباس اور جسمانی طور پر پاک صاف رہنا چاہیے۔ (المدثر : ٤، ٥) جسمانی پاکیزگی کا خیال رکھنے والوں کو اس شرف کے ساتھ نوازتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔ “ (التوبہ : ١٠٨) انسان کو جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ تو اس سے روحانی اور جسمانی طور پر تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جس سے نا صرف روحانی موت واقع ہوتی ہے بلکہ اس سے جسمانی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ عقیدہ توحید کی کمزوری کی وجہ سے آدمی بزدل، فکری انحطاط اور وہم کا شکار ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حسد ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو آدمی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ کسی کے ساتھ بغض اپنی حد سے تجاوز کر جائے تو جنگ وجدال کی نوبت پیش آتی ہے۔ جس سے مالی جانی نقصان کے ساتھ پورا خاندان پر یشانیوں کا شکار رہتا ہے۔ غرض کہ روحانی بیماریاں دنیا وآخرت کے نتائج کے اعتبار سے زیادہ نقصان دہ اور خطر ناک ہوتی ہیں۔ یہاں صرف ” اَلشِّفَا “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب کہ سورة یو نس میں فرمایا ہے۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ ) [ یونس : ٥٧] ” اے لوگو ! یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئیجو سینوں کے لیے سراسر شفاء اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لِکُلِّ شَیءٍ صِقَالَۃٌ وَصِقَالَۃُ القُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیءٍ أنجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ قَالُوْاوَلا الجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَلَا أن یَضْرِبَ بِسَیْفِہِ حَتّٰی یَنْقَطِعَ )[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر چیز کو صاف کرنے کے لیے ایک پالش ہوتی ہے۔ دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر عذاب سے نجات دلوانے والی کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیا اللہ کے راستے میں جہادبھی ؟ آپ نے جواب دیا : ہاں ! چاہے کوئی تلوار کے ساتھ لڑے اور اس کی گردن تن سے جدا ہوجائے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفار اور رحمت ہے۔ ٢۔ ظالم لوگ خسارہ میں آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مومنوں کے لیے باعث شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٢۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ اس کتاب کی آیات محکم ہیں اور یہ حکیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ یقیناً قرآن سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩) ٥۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٦۔ اگر قرآن کو پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ بھی اللہ کے ڈر کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (الحشر : ٢١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وتنزل من القران ما ھو شفاء ورحمۃ للمومنین (٧١ : ٢٨) ” ہم اس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے “۔ یقینا قرآن میں شفاء ہے۔ یقینا قرآن میں رحمت الٰہی کے خزانے میں۔ لیکن ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں ایمان کی تازگی داخل ہوچکی ہو ، ان کے دل روشن ہوچکے ہوں اور وہ قبولیت حق کے لئے کھل گئے ہیں اور وہ روح قرآن کو اپنے اندر جذب کر رہے ہوں اور ان کے دلوں میں سکون اور سکینت اور طمانیت داخل ہوچکی ہو۔ قرآن کریم تمام وسوسوں ، تمام حیرانیوں ، اور تمام بےچینیوں کی دوا ہے ور اس میں ان روحانی بیماریوں کی شفاء ہے۔ یہ بندے کے دل کو اللہ سے جوڑتا ہے۔ یوں اسے سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اسے یہ شعور ملتا ہے کہ وہ اللہ کی حمایت میں ہے اور حالت امن و سلامتی میں ہے۔ اس طرح وہ اللہ سے راضی ہو کر راضی رہتا ہے۔ زندگی خوشی سے گزارتا ہے اور زندگی کے جو حالات بھی ہوں ان میں راضی رہت ا ہے۔ بےچینی بھی ایک قسم کا مرض ہے ، حیرانی بھی ایک مرض ہے۔ وسوسہ بھی ایک بیماری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اہل ایمان کے لئے رحمت ہے۔ اسی طرح قرآن مجید ، ہوائے نفس ، گندگی ، لالچ ، حسد اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے مقابلے میں بھی شفاء ہے۔ یہ قلبی اور روحانی بیماریاں ہیں جن کے نتیجے میں دلی بیماریاں ضعف اور تکان پیدا ہوتی ہے۔ اور انسانی روح اور دل بوسیدہ ہو کر ٹوٹ جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مومنین کے لئے شفاء و رحمت ہے۔ قرآن کریم میں شعور اور فکر کی بےلگامی کا بھی علاج ہے۔ عقل و فکر کے انتشار سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ قرآن انسان کو بےفائدہ کاموں میں اپنی جسم و عقل کی قوتوں کے خرچ کرنے سے روکتا ہے۔ اور مفید اور ترقی کے کاموں میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے لئے آزاد چھوڑتا ہے۔ وہ انسان کے لئے ایک صحت مند اور مضبوط منہاج زندگی تجویز کرتا ہے۔ انسانی سرگرمیاں فائدہ مند اور محفوظ ہوتی ہیں اور لغزشوں اور بےراہ رویوں سے قرآن انسان کو بچاتا ہے۔ جسمانی میدان میں بھی قرآن انسان کو اعتدال کی راہ دکھاتا ہے۔ وہ حکم دیتا ہے ہے کہ اپنی قوتوں کو اعتدال کے ساتھ صحت مند میدانوں میں خرچ کرو ، نہ جسمانی قوتوں پر غیر ضروری پابندی ہے اور نہ ان کے استعمال میں بےراہ روی کی اجازت دی گئی ہے۔ لہٰذ اجسمانی قوت کی بھی حفاظت کی جاتی ہے ، تاکہ وہ صحت مند میدانوں میں صرف ہو۔ لہٰذا یہ اہل ایمان کے لئے ایک قسم کی رحمت ہے۔ پھر قرآن شریف میں ان اجتماعی بیماریاں کا بھی علاج ہے جن سے کسی سوسائٹی کے اجتماعی نظام میں خلل اور بیماری پیدا ہوتی ہے ، جن سے سوسائٹی کا امن اور سلامتی تباہ ہوجاتی ہے۔ اور افراد معاشرہ کے درمیان کوئی اطمینان نہیں رہتا۔ قرآن ہدایات پر عمل کے بعد اسلامی سوسائٹی اسلام کے اجتماعی عدل اور اجتماعی سلامتی اور امن کے زیر سایہ ، نہایت ہی اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے ، لہٰذا اس مفہوم میں بھی قرآن رحمت اور شفاء ہے۔ ولا یزید الظلمین الا خسارا (٧١ : ٢٨) ” مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا “۔ کیونکہ ظالم اس نسخہ و شفاء سے استفادہ نہیں کرتے ، جو اس قرآن کے اندر موجود ہے۔ پھر ظالم یوں بھی خسارے میں ہوتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان قرا ان کے ریعہ سربلندی حاصل کرتے چلے جاتے ہیں ، وہ دل ہی دل میں کڑھتے ہیں اور ان کو زبردست غصہ آتا ہے ، مگر بےبس ہوتے ہیں اور جہاں ان کا بس چلتا ہے وہ وہاں ظلم و ستم کا ریکارڈ قائم کردیتے ہیں۔ پھر وہ دنیا میں مسلمانوں کے مقابلے میں مغلوب ہوجاتے ہیں لہٰذا وہ خسارے میں ہیں اور آخرت میں ان کے کفر کی وجہ سے ان کو عذاب ہوگا نیز وہ جن سرکشیوں میں غرق تھے اور ان پر اصرار کرتے تھے ان کی وجہ سے انہیں سخت سزا ہوگی۔ لہٰذا اس سے بڑا اور کیا خسارہ ان کو ہوسکتا ہے۔ اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ ظالموں کے لئے خسارے کے سوا کسی اور چیز میں اضافہ نہ ہوگا۔ اور جب انسان اللہ کی رحمت اور شفاء سے محروم کردیا جائے اور جب اسے اس کی خواہشات نفس اور سفلی جذبات اور میلانات کے حوالے کردیا جائے۔ اگر وہ مالی لحاظ سے خوشحالی ہو تو وہ مغرور ، متکبر اور سرکش ہوجاتا ہے۔ اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا ، اللہ کو یاد نہیں کرتا ، اور اگر اس پر کوئی مصیبت یا بدحالی آجائے تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور قنوطی ہوجاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی تاریک ہی تاریک نظر آتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

74:۔ یہ مومنین کے لیے بشارت اور منکرین کے لیے زجر ہے۔ قرآن مجید فی لواقع اللہ تعالیٰ کی رحمت اور تمام روحانی بیماریوں کے لیے پیام شفاء ہے مگر منکرین کے لیے سراسر نقصان و خسران کا باعث ہے کیونکہ انکار و جحود کی وجہ سے وہ اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 اور یہ قرآن کریم جو ہم نازل فرما رہے ہیں یہ مسلمان اور مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے اور نا انصافوں اور ظالموں کو یہ نہیں بڑھاتا مگر نقصان یعنی مومن چونکہ اس پر ایمان لاتے ہی اور اس کو مانتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں تو ان کے لئے موجب رحمت اور امراض باطنی کی شفا کا سبب ہے اور کافر چونکہ اس قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں اسلئے ان کو اس سے الٹا نقصان ہی پہونچتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں روگ چنگے ہوں، دل کے شبہے اور شک مٹیں اور اس کی برکت سے بدن کے روگ بھی رفع ہوں۔ 12