Surat Bani Isareel

Surah: 17

Verse: 83

سورة بنی اسراءیل

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَـئُوۡسًا ﴿۸۳﴾

And when We bestow favor upon the disbeliever, he turns away and distances himself; and when evil touches him, he is ever despairing.

اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ بدل لیتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Turning away from Allah at Times of Ease and despairing at Times of Calamity Allah tells: وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الاِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَوُوسًا And when We bestow Our grace on man, he turns away and becomes arrogant. And when evil touches him, he is in great despair. Allah tells us about the weakness that is inherent in man, except for those whom He protects at both times of ease and calamity. If Allah blesses a man with wealth, good health, ease, provision and help, and he gets what he wants, he turns away from the obedience and worship of Allah, and becomes arrogant. Mujahid said, "(It means) he goes away from Us." I say, this is like the Ayah: فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَأ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ But when We have removed his harm from him, he passes on as if he had never invoked Us for a harm that touched him! (10:12) and; فَلَمَّا نَجَّـكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ But when He brings you safe to land, you turn away. (Ayah 67) When man is stricken with evil, which means disasters, accidents and calamities, ... كَانَ يَوُوسًا he is in great despair, meaning that he thinks he will never have anything good again. As Allah says, وَلَيِنْ أَذَقْنَا الاِنْسَـنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَيُوسٌ كَفُورٌ وَلَيِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَأءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّيَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ أُوْلَـيِكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ And if We give man a taste of mercy from Us, and remove it from him, verily, He is despairing, ungrateful. But if We let him taste good after evil has touched him, he is sure to say: "Ills have departed from me." Surely, he is exultant, and boastful. Except those who show patience and do righteous good deeds: those, theirs will be forgiveness and a great reward. (11:9-11)

انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں ، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے ۔ مال ، عافیت ، فتح ، رزق ، نصرت ، تائید ، کشادگی ، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے ۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں ۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت ، تکلیف ، دکھ ، درد ، آفت ، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا ، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی ، عافیت ، راحت ، آرام ملنے ہی کا نہیں ۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت ( وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ Ḍ۝ ) 11-ھود:9 ) انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا ، گھمنڈ میں آ گیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں ۔ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر ، اپنی طبیعت پر ، اپنی نیت پر ، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں ۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے ، صرف اللہ ہی کو ہے ۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی ۔ جیسے فرمان ہے کہ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ الخ ، بدلے کا وقت یہ نہیں ، قیامت کا دن ہے ، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی ، سب کو بدلے ملیں گے ، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

83۔ 1 اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہوجاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٤] ایک دنیا دار انسان کی حالت :۔ ایک عام انسان کی زندگی یہ ہوتی ہے کہ اس پر خوشحالی کا دور آئے تو اللہ کو یکسر بھول ہی جاتا ہے اور اگر بعد میں تنگی ترشی کا دور آئے تو مایوسی کی باتیں کرنے لگتا ہے یعنی کسی بھی حالت میں اسے اللہ سے تعلق قائم کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس کے برعکس ایک مومن کی زندگی یہ ہے کہ نعمت ملے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچے تو صبر کرتا اور نماز وغیرہ کے ذریعہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور ہر حال میں اپنے پروردگار سے تعلق قائم رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

؀ وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ ۔۔ :” الْاِنْسَانِ “ سے مراد یہاں کافر یا فاسق انسان ہے، صحیح مومن ایسا نہیں ہوتا۔ صہیب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ لَہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ ، فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ ) [ مسلم، الزھد، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر : ٢٩٩٩ ] ” مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے، کیونکہ اس کا ہر معاملہ ہی خیر ہے اور یہ چیز مومن کے سو اکسی کو حاصل نہیں، اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، سو وہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔ “ مزید دلیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورة ہود (٩ تا ١١) اور سورة معارج (١٩ تا ٣٥) اس آیت سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص اگر احسان کے باوجود بےوفائی اور ناشکری کرے تو محسن کو احسان چھوڑنا نہیں چاہیے۔ تمام کفار و فساق کی ناشکری کے باوجود اللہ تعالیٰ دنیا میں ان پر بھی بیشمار انعامات جاری رکھے ہوئے ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور (بعض) آدمی (یعنی کافر ایسا ہوتا ہے کہ اس) کو جب ہم نعمت عطاء کرتے ہیں تو (ہم سے اور ہمارے احکام سے) منہ موڑ لیتا ہے اور کروٹ پھیر لیتا ہے اور جب اس کو کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو (بالکل رحمت سے) ناامید ہوجاتا ہے (اور یہ دونوں حالتیں دلیل ہیں اللہ تعالیٰ سے بےتعلقی کی اور وہی بنیاد ہے ہر کفر و گمراہی کی) آپ فرما دیجئے کہ (مومنین اور کفار اور اخیار واشرار میں سے) ہر شخص اپنے طریقہ پر کام کر رہا ہے (یعنی اپنی اپنی عقل صحیح پر مقیم اور علم یا جہل کی بنیاد پر مختلف طرح کے کام کر رہے ہیں) تو آپ کا رب خوب جانتا ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے موافق جزاء یا سزادے گا یہ نہیں کہ جس کا دل چاہے بلا کسی دلیل کے اپنے کو ٹھیک راستہ پر سمجھنے لگے)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَآ اَنْعَمْنَا عَلَي الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ ۚ وَاِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَـــــُٔوْسًا 83؀ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ نأى يقال : نأى بجانبه . قال أبو عمرو : نأى يَنْأَى نَأْياً ، مثل : نعی: أعرض، وقال أبو عبیدة : تباعد «1» . وقرئ : نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] «2» مثل : نعی. أي : نهض به، عبارة عن التکبر کقولک : شمخ بأنفه، وازورّ بجانبه «3» . وانتأى افتعل منه، والمنتأى: الموضع البعید، وقرئ : ناء بجانبه [ الإسراء/ 83] «4» أي : تباعد . ومنه : النُّؤي : لحفیرة حول الخباء تباعد الماء عنه . والنيّة تکون مصدرا، واسما من : نویت، وهي توجّه القلب نحو العمل، ولیس من ذلک بشیء . ( ن و ء ) ناء بجانبہ ینوء ویناء کے معنی پہلو پھیر لینے کے ہیں ۔ ابوعبیدہ کے نزدیک ناء مثل ناع کے ہے جس کے معنی اٹھنے کے ہیں اور آنائہ کے معنی اٹھانے کے قرآن پاک میں ہے : ما إِنَّ مَفاتِحَهُ لَتَنُوأُ بِالْعُصْبَةِ [ القصص/ 76] کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ نَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ میں ایک قرات ناء بروز ن ناع ہے جس کے معنی پہلو اٹھانا کے ہیں اور یہ تکبر سے کنایہ ہوتا ہے جیسا کہ شمخ بانفہ وازورجانبہ کا محاورہ ہے ۔ ابو عمر کا قول ہے ۔ کہ نای بروزن فعٰی کے ہے جس کے معنی اعراض کرنے کے ہیں اور ابو عبیدہ کے نزدیک تای نیای کے معنی دور ہونے کے ہیں اور اسی سے انتاء یٰ بروزن افتعل ہے اور منتای کے معنی مکان بعید کے ہیں ۔ اور اسی سے نوئ ہے جس کے معنی خیمے کے گردا گرد گڑھے کے ہیں جو بارش کے پانی کو اس سے دور رکھتا ہے ۔ اور نای بجانبہ کے معنی پہلو تہی کرنے کے ہیں ۔ النیتہ ۔ یہ نویت کا مصدر ہے اور کبھی بطور اسم بھی استعمال ہوتا ہے اور اسکے معنی کسی کام کی جانب دل سے متوجہ ہونیکے ہیں ۔ یہ نای کے باب سے قطعا نہیں ہے / جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی شر الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف/ 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال/ 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں يأس اليَأْسُ : انتفاءُ الطّمعِ ، يقال : يَئِسَ واسْتَيْأَسَ مثل : عجب واستعجب، وسخر واستسخر . قال تعالی: فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] ، ( ی ء س ) یأس ( مصدرس ) کے معنی ناامید ہونیکے ہیں اور یئس ( مجرد) واستیئاس ( استفعال ) دونوں ہم معنی ہیں جیسے ۔ عجب فاستعجب وسخرو استسخر۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا[يوسف/ 80] جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہوکر صلاح کرنے لگے ۔ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ [يوسف/ 110] یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٣) اور کافر کو جب ہم مال اور عیش و عشرت عطا کرتے ہیں تو دعا کرنے اور شکر خداوندی سے منہ موڑ لیتا ہے اور ایمان سے دور بھاگتا ہے اور جب اس کو تکلیف اور فقر وفاقہ پہنچتا ہے تو بالکل رحمت خداوندی سے ناامید ہوجاتا ہے یہ آیت عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ ٨٤:۔ اس آیت میں اللہ پاک نے انسان کی ناشکری کا بیان فرمایا کہ جب ہم انسان پر اپنی نعمت نازل کرتے ہیں اس کو صحت و تندرستی بخشتے ہیں اس کی روزی میں ترقی کرتے ہیں فارغ البالی دیتے ہیں اور وہ وہ انعام اس پر کرتے ہیں جس کا شکر ہر گھڑی اور ہر آن واجب ہوتا ہے تو وہ ہم سے روگردان ہوجاتا ہے اور جب کوئی بلا اس پر نازل ہوتی ہے یا کوئی رنج اسے پہنچتا ہے تو پھر اسے اس بات کی امید نہیں رہتی کہ کبھی یہ سختی کا وقت ٹل جائے گا۔ پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے کہہ دیں کہ تم ہر ایک آدمی اپنے اپنے طریقہ اور نیت کے موافق عمل کرتے رہو مطلب یہ ہے کہ جس کا نفس پاک وصاف ہے وہ اچھے عمل کرتا ہے اور جس کا نفس ناپاک وخبیث ہے وہ برے عمل کرتا ہے اس میں کفار کی مذمت ہے اور مؤمنین کی تعریف ہے پھر یہ فرمایا کہ اللہ پاک سب کو جانتا ہے کہ کون گمراہی میں ہے اور کون راہ یاب ہے کیونکہ وہ خالق ہر مخلوق کا ہے ہر ایک شخص کے بھید کو جانتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی مشرکین مکہ کا حال ہے کہ مثلا کشتی کے ڈوبنے کے خوف کے وقت جب اللہ تعالیٰ سے اس خوف کے ٹل جانے کے التجا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کی وہ آفت ٹال دیتا تھا تو اس تکلیف کے رفع ہوجانے کے بعد راحت کے وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو بالکل بھول جاتے تھے اور اللہ کی مدد پر ان لوگوں کو پورا بھروسہ نہیں تھا اس لیے تکلیف کے وقت بےصبری کے سبب سے ان لوگوں کے دل میں یہ امید باقی نہیں رہتی تھی کہ یہ سختی کا وقت ٹل جائے گا لیکن اس آیت میں یہ تنبیہ ہے کہ ہر ایماندار آدمی کو اس عادت سے بچنا چاہئے کیونکہ ایماندار آدمی کی شان یہی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے صہیب رومی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایماندار آدمی کی نشانی یہ ہے کہ وہ تکلیف کے وقت کے ٹل جانے کا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کر کے ایسے وقت پر صبر کرتا ہے اور راحت کے وقت ہر طرح کی شکر گزاری سے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے ١ ؎ مشرکین مکہ کا حال بیان فرما کر ایماندار شخص کو جو تنبیہ آیت میں کی گئی ہے اس کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ مسند امام احمد نسائی اور دارمی میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خط کھینچ کر فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے اور پھر اس خط کے دائیں بائیں اور خط کھینچ کر فرمایا اس سب راستوں پر شیطان کا دخل ہے ٢ ؎۔ ترمذی میں عبداللہ بن عمرو (رض) سے اور مسند امام احمد ابو داؤد اور مستدرک حاکم میں معاویہ (رض) سے جو صحیح روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طریقہ پر میں اور میرے صحابہ (رض) ہیں وہی راستہ نجات کا ہے ٣ ؎۔ یہ حدیثیں بمن ھو اھدی سبیلا کی گویا تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو ہدایت کا راستہ تھا وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ راستہ امت کے لوگوں کو بتلایا اب اس راستہ کے برخلاف جبریہ قدریہ لوگوں کے جتنے راستے ہیں ان سب میں شیطان کا دخل ہے۔ ترمذی کی عبداللہ بن عمرو (رض) کی حدیث کی سند میں ایک لکھا اور یحییٰ بن سعید القطان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے اس واسط ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے علاوہ اس کے معاویہ (رض) کی صحیح حدیث سے بھی اس حدیث کو تقویت ہوجاتی ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذاص ٢٤ ج ٣۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٠ باب کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ۔ ٣ ؎ ملا حظہ ہو مشکوٰۃ ص ٣٠ باب الاعتصام مالکتاب والسنۃ فصل دوسری۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(17:83) اعرض۔ اعراض (افاعل) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے منہ پھیرلیا۔ اس نے کنارہ کیا۔ نا۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ نأی مصدر و مادہ (باب فتح) وہ دور ہوگیا۔ اس نے روگردانی کی۔ نابجانبہ۔ اس نے اپنے اپنے پہلو کو دور کرلیا۔ قرآن میں دوسری جگہ آیا ہے وہم ینھون عنہ وینئون عنہ (6:26) اور وہ اس سے (دوسروں کو) روکتے ہیں اور خود بھی اس سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ یئوسا۔ یأس سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے ۔ ناامید۔ یأس ویائسۃ مصدر یائس ناامید !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی بندگی سے سرکتا جاوے (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

11۔ یہ دونوں امر دلیل ہیں اللہ سے بےتعلقی کے، اور یہی بےتعلقی اصل سبب ہے ہدایت کی طرف متوجہ نہ ہونے کا اور حق میں غور نہ کرنے کا، اور اسی سے کفر وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قرآن مجید ہے لیکن اس کے منکر اس سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنے آپ کو نقصان میں آگے ہی آگے لے جارہے ہیں اور اکثر انسانوں کی یہی کیفیت ہے کہ جب انہیں کوئی نعمت عطا کی جاتی ہے تو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے کفرو شرک میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ انسان کی طبعی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ انسان صحت اور وسائل کے حوالے سے خوشحال ہوتا ہے۔ تو نا صرف اپنے رب سے ناطہ توڑ لیتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔ انسان کی اس کمزوری کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ” یقیناً انسان سرکش ہوجاتا ہے۔ جب اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے۔ حالانکہ بالآخر اس نے اپنے رب کے پاس جانا ہے۔ “ (العلق : ٦ تا ٨) انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان اپنے رب سے پہلو پھیر لیتا ہے۔ جب اسے کسی مشکل کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر ! فرما دیجیے کہ ہر شخص اپنی سوچ اور طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ تمہارا رب خوب واقف ہے۔ جو سیدھے راستے پر چلنے والا ہے۔ یہاں پہلی آیت میں انسان کی افتادہ طبع کا ذکر کیا گیا ہے کہ خوشحال ہو تو اپنے رب کی ناقدری اور ناشکری کرتا ہے۔ پریشان حال ہو تو اپنے رب کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ تنگدستی آئے تو کہتا ہے میں نے کبھی خوشحالی دیکھی ہی نہیں۔ بیمار ہوجائے تو صحت و تندرستی کا طویل دور بھول جاتا ہے۔ پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے خوشی کا کوئی لمحہ یاد نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں آپ اپنے طریقے کے مطابق عمل کرنے دیں۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے کو پسند کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے۔ طریقہ سے مراد مذہبی رسومات اور انسان کا زندگی گزارنے کا انداز ہے۔ لیکن سب کو جان لینا چاہیے کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کے راستہ پر ہے۔” شاکلہ “ کا معنیٰ ” نیت “ بھی کیا گیا ہے لہٰذا ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ (کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ )[ المومنون : ٥٣] ” ہر گروہ کے پاس جو ہے وہ اسی میں مگن ہے۔ “ (عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلٰی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ )[ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس شخص نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔ “ مسائل ١۔ انسان کو نعمت ملے تو منہ موڑ لیتا ہے۔ ٢۔ انسان کو تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ ٣۔ ہر انسان اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ راہ راست پر کون ہے۔ تفسیر بالقرآن اکثر لوگوں کی عادت : ١۔ جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٣) ٢۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹ کر پکارتا ہے جب ہم تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت ہمیں پکارا ہی نہیں۔ (یونس : ١٢) ٣۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر : ٨) ٤۔ جب انسان کو ہماری طرف سے رحمت ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زیادہ دولت مندی انسان کو سرکش اور مغرور بنا دیت ہے۔ الایہ کہ کوئی دولت مند یہ یقین رکھتا ہو کہ اس دولت کا عطا کرنے والا اللہ ہے اور وہ اللہ کا شکر بھی ادا کرتا ہو۔ لیکن اگر بدحالی آجائے تو انسان مایوس ہوجاتا ہے اور اس پر قنوطیت چھا جاتی ہے۔ الایہ کہ کسی کا تعلق باللہ مضبوط ہو ، وہ امید کرتا ہے کہ اللہ اس کی مشکلات دور کردے گا تو ایسا شخص اللہ کے رحم و فضل سے مایوس نہیں ہوتا۔ وہ ہر وقت اللہ کے فضل و کرم کا امیداوار اور خوش اور شاکر رہتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کی کیا اہمیت ہے۔ غرض مشکلات اور خوشحالی دونوں مین ایمان اللہ کی رحمت اور شفاء ہے۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ہر فریق اپنی طرز زندگی پر جما ہوا ہے ، اب اپنی خواہشات و روایات کے مطابق ہر شخص چلتا ہے اور ہر شخص کے طرز عمل کے بارے میں فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوتھی آیت میں انسان کے ناشکری کے مزاج کا تذکرہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ہم جب اس پر انعام فرماتے ہیں اور نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور اعراض بھی تھوڑا سا نہیں خوب زیادہ اعراض کرتا ہے اور وہ یہ کہ رخ پھیر کر دوسری طرف مڑ جاتا ہے۔ یہ تو اس کی حالت اس وقت ہوتی ہے جب اس کو نعمت مل جائے، اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو بس ناامید ہو کر رہ جاتا ہے۔ سورة ہود میں فرمایا (وَ لَءِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَءُوْسٌ کَفُوْرٌ وَ لَءِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ) (اور اگر ہم انسان کو اپنی مہربانی کا مزا چکھا کر اس سے چھین لیتے ہیں تو وہ ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے اور اگر اس کو کسی تکلیف کے بعد جو کہ اس پر واقع ہوئی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرا سب دکھ درد رخصت ہوا وہ اترانے لگتا ہے شیخی بگھارنے لگتا ہے مگر جو لوگ مستقل مزاج ہیں اور نیک کام کرتے ہیں وہ ایسے نہیں ہوتے ایسے لوگوں کے لیے بڑی مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

75:۔ یہ زجر ہے انسان مشرک پر، اس کا حال بھی عجیب ہے جب ہم اسے انعام و اکرام سے نوازتے ہیں تو وہ ہماری سرکار سے منہ موڑ لیتا ہے اور ان تمام نعمتوں کو اپنے خود ساختہ معبودوں کی طرف منسوب کردیتا ہے اور جب کبھی مصائب و شدائد میں گرفتار ہوگیا تو ان کا رسازوں سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور معبود حقیقی جل مجدہ کے سامنے گڑ گڑا کر عاجزی کرنے لگتا ہے اس کی پوری تفصیل کے لیے ملاحظہ تفسیر سورة ہود حاشیہ 13 ۔ ” قل کل یعمل الخ “ ہر شخص اپنے دین اور طریقے کے مطابق عمل کر رہا ہے اور ہر شخص اپنے دین کو حق جانتا ہے مگر فیصلہ لوگوں کے خیالات پر نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو دین ھق فرمایا ہے وج اس پر قائم ہوگا وہی ہدایت یافتہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کون توحید کی سیدھی راہ پر چل رہا ہے اور کون شرک و گمراہی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

83 اور انسانوں میں سے بعض انسان ایسا ہے کہ جب ہم اس کو اپنی نعمت عطا کرتے ہیں اور اپنے انعام و اکرام سے نوازتے ہیں تو وہ ہمارا حق اور ہمارے احکام ماننے سے منہ موڑتا اور اپنا پہلو پھیر لیتا ہے اور جب اس کو کوئی سختی اور دکھ پہنچتا ہے تو وہ بالکل مایوس اور ناامید ہوجاتی ہے۔ یہ کافر کی حالت بیان فرمائی کہ نعمت کی حالت میں نافرمان اور دکھ کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بازو ہٹا دے یعنی بندگی سے سرکتا جاوے۔ 12 گویا کسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق نہیں نہ نعمت میں نہ مصیبت میں۔