Turning away from Allah at Times of Ease and despairing at Times of Calamity
Allah tells:
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الاِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَى بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَوُوسًا
And when We bestow Our grace on man, he turns away and becomes arrogant. And when evil touches him, he is in great despair.
Allah tells us about the weakness that is inherent in man, except for those whom He protects at both times of ease and calamity. If Allah blesses a man with wealth, good health, ease, provision and help, and he gets what he wants, he turns away from the obedience and worship of Allah, and becomes arrogant.
Mujahid said,
"(It means) he goes away from Us."
I say, this is like the Ayah:
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَأ إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ
But when We have removed his harm from him, he passes on as if he had never invoked Us for a harm that touched him! (10:12)
and;
فَلَمَّا نَجَّـكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ
But when He brings you safe to land, you turn away. (Ayah 67)
When man is stricken with evil, which means disasters, accidents and calamities,
...
كَانَ يَوُوسًا
he is in great despair,
meaning that he thinks he will never have anything good again.
As Allah says,
وَلَيِنْ أَذَقْنَا الاِنْسَـنَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَيُوسٌ كَفُورٌ
وَلَيِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَأءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّيَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ
إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ أُوْلَـيِكَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ
And if We give man a taste of mercy from Us, and remove it from him, verily, He is despairing, ungrateful. But if We let him taste good after evil has touched him, he is sure to say: "Ills have departed from me."
Surely, he is exultant, and boastful. Except those who show patience and do righteous good deeds: those, theirs will be forgiveness and a great reward. (11:9-11)
انسانی فطرت میں خیر و شر موجود ہے
خیر و شر برائی بھلائی جو انسان کی فطرت میں ہیں ، قرآن کریم ان کو بیان فرما رہا ہے ۔ مال ، عافیت ، فتح ، رزق ، نصرت ، تائید ، کشادگی ، آرام پاتے ہی نظریں پھیر لیتا ہے ۔ اللہ سے دور ہو جاتا ہے گویا اسے کبھی برائی پہنچنے کی ہی نہیں ۔ اللہ سے کروٹ بدل لیتا ہے گویا کبھی کی جان پہچان ہی نہیں اور جہاں مصیبت ، تکلیف ، دکھ ، درد ، آفت ، حادثہ پہنچا اور یہ ناامید ہوا ، سمجھ لیتا ہے کہ اب بھلائی ، عافیت ، راحت ، آرام ملنے ہی کا نہیں ۔ قرآن کریم اور جگہ ارشاد فرماتا ہے آیت ( وَلَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ ۚ اِنَّهٗ لَيَـــُٔــوْسٌ كَفُوْرٌ Ḍ ) 11-ھود:9 ) انسان کو راحتیں دے کر جہاں ہم نے واپس لے لیں کہ یہ محض مایوس اور ناشکرا بن گیا اور جہاں مصیبتوں کے بعد ہم نے عافیتیں دیں یہ پھول گیا ، گھمنڈ میں آ گیا اور ہانک لگانے لگا کہ بس اب برائیاں مجھ سے دور ہو گئیں ۔ فرماتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی طرز پر ، اپنی طبیعت پر ، اپنی نیت پر ، اپنے دین اور طریقے پر عامل ہے تو لگے رہیں ۔ اس کا علم کہ فی الواقع راہ راست پر کون ہے ، صرف اللہ ہی کو ہے ۔ اس میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ وہ اپنے مسلک پر گو کار بند ہوں اور اچھا سمجھ رہے ہوں لیکن اللہ کے پاس جا کر کھلے گا کہ جس راہ پر وہ تھے وہ کیسی خطرناک تھی ۔ جیسے فرمان ہے کہ بے ایمانوں سے کہہ دو کہ اچھا ہم اپنی جگہ اپنے کام کرتے جاؤ الخ ، بدلے کا وقت یہ نہیں ، قیامت کا دن ہے ، نیکی بدی کی تمیز اس دن ہو گی ، سب کو بدلے ملیں گے ، اللہ پر کوئی امر پوشیدہ نہیں ۔