Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 13

سورة الكهف

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ نَبَاَہُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّہُمۡ فِتۡیَۃٌ اٰمَنُوۡا بِرَبِّہِمۡ وَ زِدۡنٰہُمۡ ہُدًی ﴿٭ۖ۱۳﴾

It is We who relate to you, [O Muhammad], their story in truth. Indeed, they were youths who believed in their Lord, and We increased them in guidance.

ہم ان کا صحیح واقعہ تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ۔ یہ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اور ہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Their Belief in Allah and their Retreat from their People Allah نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ امَنُوا بِرَبِّهِمْ ... We narrate unto you their story with truth: Truly, they were young men who believed in their Lord (Allah), From here Allah begins to explain the story in detail. He states that they were boys or young men, and that they were more accepting of the truth and more guided than the elders who had become stubbornly set in their ways and clung to the religion of falsehood. For the same reason, most of those who responded to Allah and His Messenger were young people. As for the elders of Quraysh, most of them kept to their religion and only a few of them became Muslims. So Allah tells us that the people of the cave were young men. Mujahid said, "I was informed that some of them wore some kind of earrings, then Allah guided them and inspired them to fear Him, so they recognized His Oneness, and bore witness that there is no god besides Him." ... وَزِدْنَاهُمْ هُدًى and We increased them in guidance. From this and other similar Ayat, several scholars, such as Al-Bukhari and others, understood that faith may increase, that it may vary in degrees, and that it may fluctuate. Allah says: وَزِدْنَاهُمْ هُدًى (and We increased them in guidance), as He said elsewhere: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْاْ زَادَهُمْ هُدًى وَءَاتَـهُمْ تَقُوَاهُمْ While as for those who accept guidance, He increases their guidance and bestows on them their Taqwa. (47:17) فَأَمَّا الَّذِينَ ءامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـناً وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ As for those who believe, it has increased their faith, and they rejoice. (9:124) لِيَزْدَادُواْ إِيمَـناً مَّعَ إِيمَـنِهِمْ ...that they may grow more in faith along with their (present) faith. (48:4) There are other Ayat indicating the same thing. It has been mentioned that they were followers of the religion of Al-Masih `Isa, `Isa bin Maryam, but Allah knows best. It seems that they lived before the time of Christianity altogether, because if they had been Christians, the Jewish rabbis would not have cared about preserving because of their differences. We have mentioned above the report from Ibn Abbas that the Quraysh sent a message to the Jewish rabbis in Al-Madinah to ask them for things with which they could test the Messenger of Allah, and they told them to ask him about these young men, and about Dhul-Qarnayn (the man who traveled much) and about the Ruh. This indicates that this story was something recorded in the books of the People of the Book, and that it came before Christianity. And Allah knows best.

اصحاب کہف کا قصہ یہاں سے تفصیل کے ساتھ اصحاب کہف کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آ گئے قریش میں بھی یہی ہوا تھا کہ جوانوں نے تو حق کی آواز پر لبیک کہی تھی لیکن بجز چند کے اور بوڑھے لوگ اسلام کی طرف جرات سے مائل نہ ہوئے کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض کے کانوں میں بالے تھے یہ متقی مومن اور راہ یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے اس کی توحید کے قائل ہو گئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے ۔ یہ اور اس جیسی اور آیتوں اور احادیث سے استدلال کر کے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ محدثین کرام کا مذہب ہے کہ ایمان میں زیادتی ہوتی ہے ۔ اس میں مرتبے ہیں ، یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں ہے ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا اور جگہ ہم آیت ( وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ 17؀ ) 47-محمد:17 ) ہدایت والوں کو ہدایت بڑھ جاتی ہے الخ اور آیت میں ہے ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ١٢٤؁ ) 9- التوبہ:124 ) ایمان والوں کے ایمان کو بڑھاتی ہے الخ اور جگہ ارشاد ہے آیت ( هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ ۭ وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا Ć۝ۙ ) 48- الفتح:4 ) تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بڑھ جائیں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دین پر تھے واللہ اعلم ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے پہلے کا واقعہ ہے اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود اس قدر توجہ سے نہ ان کے حالات معلوم کرتے نہ معلوم کرنے کی ہدایت کرتے ۔ حالانکہ یہ بیان گزر چکا ہے قریشیوں نے اپنا وفد مدینے کے یہود کے علماء کے پاس بھیجا تھا کہ تم ہمیں کچھ بتلاؤ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کرلیں تو انہوں نے کہا کہ تم اصحاب کہف کا اور ذوالقرنین کا واقعہ آپ سے دریافت کرو اور روح کے تعلق سوال کرو پس معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی کتاب میں ان کا ذکر تھا اور انہیں اس واقعہ کا علم تھا جب یہ ثابت ہوا تو یہ ظاہر ہے کہ یہود کی کتاب نصرانیت سے پہلے کی ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں قوم کی مخالفت پر صبر عطا فرمایا اور انہوں نے قوم کی کچھ پرواہ نہ کی بلکہ وطن اور راحت و آرام کی بھی تج دیا ۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومی بادشاہ کی اولاد اور روم کے سردار تھے ۔ ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا بڑا سخت اور سرکش شخص تھا ۔ سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے عبادتیں اور ذبیحہ صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے رکنے لگے ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آ گئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہو گئے حالانکہ ایک دوسرے میں تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے ایک دوسرے کو ملا دیا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ روحیں بھی ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے ( بخاری ومسلم ) عرب کہا کرتے تھے کہ جنسیت ہی میل جول کی علت ہے ۔ اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتا دوں گا تو یہ دشمن ہو جائیں گے کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بیزار ہے ۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے ۔ اس پر ایک نے کہا بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ آسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں ؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن گئے آپس میں اتحاد و اتفاق ہو گیا ۔ يہ انہوں نے ایک جگہ مقرر کر لی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی دل مضبوط کر لیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک خالق ہے ۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں اس لئے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے ۔ یہ نہایت ہی بےجا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے ۔ یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کر سکتی ، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا ۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن یہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے اس لئے انہوں نے قوم ، وطن ، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کر لیا ۔ یہی حکم بھی ہے کہ جب انسان دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے ۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاوں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے ۔ پس ایسے حال میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانا امر مشروع ہے ۔ ہاں اگر ایسی حالت نہ ہو ، دین کی بربادی کا خوف نہ ہو تو پھر جنگلوں میں نکل جانا مشروع نہیں کیونکہ جمعہ جماعت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے ۔ جب یہ لوگ دین گے بچاؤ کے لئے اتنی اہم قربانی پر آمادہ ہو گئے تو ان پر رب رحمت نازل ہوئی ۔ فرمادیا گیا کہ ٹھیک ہے جب تم ان کے دین سے الگ ہو گئے تو بہتر ہے کہ جسموں سے بھی ان سے جدا ہو جاؤ ۔ جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہو گی وہ تمہیں تمہارے دشمن کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرمائے گا ۔ پس یہ لوگ موقعہ پا کر یہاں سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے ۔ بادشاہ اور قوم نے ہر چندان کی تلاش کی ، لیکن کوئی پتہ نہ چلا اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا ۔ دیکھئے یہی بلکہ اس سے بہت زیادہ تعجب خیز واقعہ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا ۔ آپ مع اپنے رفیق خاص یار غار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غار ثور میں جا چھپے مشرکین نے بہت کچھ دوڑ دھوپ کی ، تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی ، لیکن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری تلاش اور سخت کوشش کے باوجود نہ ملے ، اللہ نے ان کی بینائی چھین لی ، آس پاس سے گزرتے تھے ، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے اپنے پیر کی طرف بھی نظر ڈال لی تو ہم دیکھ لئے جائیں گے آپ نے اطمینان سے جواب دیا کہ ابو بکر ان دو کے ساتھ تیرا کیا خیال ہے ، جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ اگر تم میرے نبی کی امداد نہ کرو تو کیا ہوا ؟ جب کافروں نے اسے نکال دیا ، میں نے خود اس امداد کی جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سکون اس پر نازل فرمایا اور ایسے لشکر سے اس کی مدد کی جسے تم نہ دیکھ سکتے تھے آخر اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور اپنا کلمہ بلند فرمایا ۔ اللہ عزت و حکمت والا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر اور انوکھا ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کو قوم اور بادشاہ نے پا لیا جب غار میں انہیں دیکھ لیا تو بس کہا بس ہم تو خود ہی چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے اس کا منہ ایک دیوار سے بند کر دیا کہ یہیں مر جائیں لیکن یہ قول تامل طلب ہے قرآن کا فرمان ہے کہ صبح شام ان پر دھوپ آتی جاتی ہے وغیرہ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 اب اختصار کے بعد تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان، بعض کہتے ہیں عیسائیت کے پیروکار تھے اور بعض کہتے ہیں ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا، دقیانوس، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ فِتْیِۃ جمع قلت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان کی تعداد 9 یا اس سے بھی کم تھی۔ یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے، آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ کا چرچا ہوا، تو بادشاہ تک بات پہنچ گئی اور اس نے انھیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پوچھا، تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی بالآخر پھر بادشاہ اور اپنی مشرک قوم کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کردی اور وہ تین سو نو (309) سال وہاں سوئے رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] مزید رہنمائی سے مراد اپنے ایمان پر ڈٹ جانا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے اعلان سے معلوم ہو رہا ہے انھیں زبان سے کفر و شرک کا کلمہ کہنا اس قدر دشوار تھا کہ انہوں نے ایسی بات کہنے پر اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑنے کو ترجیح دی اور سوسائٹی کی نظروں سے روپوش ہوگئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧنَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بالْحَقِّ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مشہور تھا، مگر اس میں بہت سی خرافات اور غلط باتیں شامل تھیں، اس لیے فرمایا کہ ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ ۭ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) کے بیان کا خلاصہ یہ ہے، اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ چند نوجوان تھے اور نوجوان بوڑھوں کی نسبت حق کو زیادہ قبول کرنے والے ہوتے ہیں، اسی لیے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہنے والے اکثر نوجوان تھے۔ قریش کے بوڑھے بزرگ اپنے دین ہی پر باقی رہے، ان میں سے بہت کم ہی ایمان لائے۔ کئی ایک ائمہ مثلاً بخاری (رض) وغیرہ نے ” وَزِدْنٰهُمْ هُدًى“ (اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کردیا) سے استدلال فرمایا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم بھی۔ امام بخاری (رض) نے اس کے لیے آٹھ آیات اور بہت سی احادیث بیان فرمائی ہیں۔ اتنی واضح آیات و احادیث کو پڑھ کر بھی کئی حضرات اڑے ہوئے ہیں کہ اصل ایمان میں سب برابر ہیں، وہ نہ کم ہوتا ہے نہ بڑھتا ہے، ہمارا اور ابوبکر (رض) اور جبرائیل (علیہ السلام) سب کا ایمان برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے نبی کی بات پر ” سَمِعْنَا وَ آمَنَّا “ کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ : یعنی یہ چند جوان تھے جو اپنی قوم کے اونچے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جیسا کہ ان کے کھانا منگواتے ہوئے سب سے ستھرا کھانا رکھنے والے شخص سے کھانا منگوانے کی فرمائش سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ان کی قوم اور بادشاہ مشرک بت پرست تھے، مگر یہ نوجوان بت پرستی چھوڑ کر اپنے رب کی توحید پر پختہ اور خالص ایمان لے آئے اور اس پر ڈٹ گئے اور اللہ کی خاطر خویش و اقارب، مال و منال اور وطن کو چھوڑ کر ہجرت کر گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اور زیادہ ہدایت و ایمان سے نواز دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: فِتْيَةٌ(fityah) in: إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ (They were young men - 13) is the plural of: فَتٰی (fata) which means someone young. According to Tafsir schol¬ars, this word indicates that the time ripe for correction of deeds and mo¬rals, and the inculcation of guidance and righteousness, is invariably the time when one is young. When old, formerly acquired deeds and morals become so deeply rooted that - no matter how evident becomes the truth against these - it is very difficult to break loose from their shackles. Those among the noble Companions who responded to and believed in the call of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were, after all, mostly young people. (Ibn Kathir, Abu Hayyan)

خلاصہ تفسیر : ہم ان کا واقعہ آپ سے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں ( اس میں اشارہ کردیا کہ اس کے خلاف جو کچھ دنیا میں مشہور ہے وہ درست نہیں) وہ لوگ (اصحاب کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر (اس زمانے کے دین عیسوی کے مطابق) ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کی ہدایت میں اور ترقی کردی (کہ صفات ایمان ثابت قدمی اور بلاؤں پر صبر دنیا سے اعراض، آخرت کی فکر وغیرہ بھی عطا کردیں، انہی صفات ایمان و ہدایت میں ایک بات یہ تھی کہ) ہم نے ان کے دل مضبوط کر دئیے جبکہ وہ پختہ ہو کر (آپس میں یا مخالف بادشاہ کے رو برو) کہنے لگے کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ہم تو اس کو چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہ کریں گے (کیونکہ اگر خدا نخواستہ ہم نے ایسا کیا) تو اس صورت میں ہم نے یقینا بڑی بےجا بات کہی، اور یہ جو ہماری قوم ہے انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود قرار دے رکھے ہیں، (کیونکہ ان کی قوم اور بادشاہ وقت سب بت پرست تھے، سو) یہ لوگ اپنے معبودوں (کے معبود ہونے) پر کوئی کھلی دلیل کیوں نہیں لاتے (جیسا کہ موحدین توحید پر واضح اور یقینی دلیل رکھتے ہیں) تو اس سے زیادہ کون غضب ڈھانے والا ہوگا جو اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دے (کہ اس کے کچھ ساجھی اور شریک بھی ہیں) اور پھر (آپس میں کہا کہ) جب تم ان لوگوں سے عقیدہ ہی میں الگ ہوگئے اور ان کے معبودوں (کی عبادت) سے بھی (الگ ہوگئے ہو) مگر اللہ سے (الگ نہیں ہوئے، بلکہ اسی کی وجہ سے سب کو چھوڑا ہے) تو اب (مصلحت یہ ہے کہ) تم (فلاں) غار میں (جو مشورے سے طے ہوا ہوگا) چل کر پناہ لو (تا کہ امن اور بےفکری کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکو) تم پر تمہارا رب اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے اس کام میں کامیابی کے سامان درست کر دے گا (اللہ تعالیٰ سے اسی امید اور توقع پر غار میں جانے کے وقت) انہوں نے سب سے پہلے یہ دعا کی کہ (آیت) رَبَّنَا اٰتِنَامن لدنک رحمۃ وھیء لنا من امرنا رشدا) معارف و مسائل : اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ، فتی کی جمع ہے، نوجوان کے معنی میں آتا ہے، علما تفسیر نے فرمایا کہ اس لفظ میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اصلاح اعمال و اخلاق اور رشد و ہدایت کا زمانہ جوانی ہی کی عمر ہے، بڑھاپے میں پچھلے اعمال و اخلاق ایسے پختہ ہوجاتے ہیں کہ کتنا ہی اس کے خلاف حق واضح ہوجائے ان سے نکلنا مشکل ہوتا ہے، صحابہ کرام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر ایمان لانے والے بیشتر نوجوان ہی لوگ تھے (ابن کثیر، ابو حیان)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ ۭ اِنَّهُمْ فِتْيَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنٰهُمْ هُدًى 13۝ ڰ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) ہم بذریعہ قرآن کریم آپ سے ان کا واقعہ بیان کرتے ہیں، یہ چند نوجوان تھے ہم نے ان کو دین کے معاملہ میں بصیرت عطا کی تھی یا یہ کہ اس چیز میں ان کو ثابت قدمی عطا کی تھی یا یہ کہ ان کو ایمان پر ثابت قدمی عطا کی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَاَهُمْ بالْحَقِّ ) یہ واقعہ جیسے وقوع پذیر ہوا تھا بالکل ویسے ہی ہم آپ کو بلا کم وکاست سنانے جا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9. The oldest evidence of this story is found in a homily written in Syriac by Jacob of Sarug, a Christian priest of Syria, who was born in A.D. 452, a few years after the death of the companions of the cave. The homily which describes the legend in great detail was composed by him in or about A.D. 474. On the one hand, this same Syriac version came into the hands of our early commentators, and Ibn Jarir Tabari cited it in his commentary with various authorities. And on the other hand, it reached Europe where its translations and abridged versions were published in Greek and Latin. The abridged story as told by Gibbon in Chapter 33 of his The Decline and Fall of the Roman Empire under the heading, “The Seven Sleepers”, so closely resembles the story told by our commentators that both the versions seem to have been drawn from the same source. For instance, the name of the king, whose persecutions made the Seven Christian youths of Ephesus take refuge in the cave, was Emperor Decius according to Gibbon. He ruled the Roman Empire from A.D. 249 to 251 and whose reign is very notorious because of his persecution of the followers of Prophet Jesus (peace be upon him), while our commentators call him Decanus or Decaus, etc. The city, where this event happened was Aphesus or Aphesos according to our commentators, while according to Gibbon it was Ephesus, which was the biggest Roman city and seaport on the west coast of Asia Minor. The ruins of this city can still be seen 20 to 25 miles south of the modern Turkish city of Izmir. Again the name of the king, during whose reign the companions of the cave awoke, was Tezusius according to the Muslim commentators and Theodosius II according to Gibbon. He ruled over Rome from A.D. 408 to 450, after the Roman Empire had accepted Christianity. The resemblance between the two versions is so close that even the name of the companion whom the sleepers sent to the city to buy food after waking up has been mentioned as Jamblicha by the Muslim scholars and Jamblichus by Gibbon. The details of the story in both the versions are also similar which are briefly as follows. When during the reign of the Emperor Decius, the followers of Prophet Jesus (peace be upon him) were being mercilessly persecuted, the seven Christian youths hid themselves in a cave and fell into a sleep. Then in the 38th year of the reign of the Emperor Theodosius II (approximately in A.D. 445 or 446) they awoke when the entire Roman Empire had become Christian. Thus, they slept in the cave for nearly 196 years. On this ground some orientalists have rejected that the above mentioned story is the same as that given in the Quran because the period of their stay in the cave according to the Quran (Ayat 25) was 309 years. We have, however, answered this objection in (E.N. 25). There are a few minor differences between the Quranic and Syriac versions, on the basis of which Gibbon has charged the Prophet (peace be upon him) with ignorance. However, the Syriac version, on the basis of whose authenticity he has committed this gross insolence, was even according to him written thirty to forty years after the event by a Syrian. He has not taken the trouble to consider the fact that verbal versions of events do change a bit during such a long time while they are communicated from one country to the other. Therefore it is wrong to take such a version of the story for granted and literally true and to charge the Quran with discrepancy for any main difference with it. Such an attitude is worthy only of those people who are so blinded by religious prejudices that they discard even the most ordinary demands of reason. The city of Ephesus where the event of the sleepers of the cave took place, was built about 11th century B.C. and became a great center of idol worship, its chief deity being the moon goddess, Diana, whose temple was regarded as a wonder of the ancient world. Most of her devotees belonged to Asia Minor and the Roman Empire also had accepted her as one of its deities. After Prophet Jesus (peace be upon him) when his message started reaching different parts of the Roman Empire, a few youths of Ephesus also gave up idol worship and accepted God as their only Lord. Gregory of Tours has collected details about these Christian youths in his Meraculorum Liber, which are briefly as follows. They were seven youths. When the Emperor Decius heard of their change of faith, he summoned them and questioned them about their new religion. In spite of knowing that the Emperor was deadly against the followers of Christ, they frankly admitted before him that their Lord is the Lord of the earth and heavens, and that they recognized none else as Deity for if they did so, they would be committing a grave sin. The Emperor became furious to hear this, and warned that he would have them killed, but then considering their tender age, he granted them three days in which they were counseled to revert to their old faith, otherwise they would be put to death. The seven youths took advantage of the situation and fled the city to conceal themselves in a cave in the mountains. On the way a dog also followed them. They did their best to scare it away, but it would not leave them. At last they found a spacious cave as a suitable refuge and hid in it and the dog sat at the entrance. Being tired they soon fell into a deep slumber. This happened in about 250 A.D. After about 197 years, in 447 A.D., during the reign of Emperor Theodosius II, they awoke suddenly when the whole Roman Empire had embraced Christianity and the Ephesians had given up idolatry. At this time a fierce controversy was going on among the Romans regarding the reality of the life after death and Resurrection, and the Emperor himself was anxious to eradicate somehow the disbelief in the life after death from the minds of his people. So much so that one day he prayed that God in His mercy may show a sign which may help restore and correct the people’s belief. In precisely the same days the seven sleepers awoke in the cave. After waking up, the youths started asking one another about how long they might have slept. Some said it might have been a day, others said it was a part of a day. When they reached no conclusion, they stopped arguing, leaving the knowledge of the exact period to God. Then they sent Jean, a companion, to the city with a few silver coins to buy food, and warned him to be on his guard lest the people should recognize him, for they feared that if they were discovered the Ephesians would force them to bow before Diana. But when Jean came to the city he was astonished to see that the world had changed. The entire population had embraced Christianity, and there was nobody in the city to worship Diana. He came to a shop and wanted to buy a few loaves of bread. When he paid in a coin bearing the image of Emperor Decius, the shopkeeper could not believe his eyes and asked the stranger from where he had obtained that coin. When the young man said that it was his own, a dispute began between them and soon a crowd gathered around them, and the matter reached the chief officer of the city. The officer himself was puzzled and wanted to know the whereabouts of the treasure house from where the young man had taken the coin, but the latter insisted that it belonged to him. The officer did not believe him because he thought that a young man like him could not possibly possess a centuries old coin which had not even been seen by the elders in the city. When Jean came to know that the Emperor Decius had died, he was pleasantly surprised. He told the crowd that he and his six companions had fled the city only the other day and taken refuge in a cave to escape Decius’persecution. The officer was greatly surprised and followed the young man to see the cave where his companions lay in hiding. And a great crowd followed behind them. When they came to the cave, it was fully established that the youths really belonged to the Emperor Decius’period. Consequently, Emperor Theodosius was informed and he also visited the cave to receive grace. Then the seven youths went back into the cave and lay down and breathed their last. Seeing this clear sign the people’s belief in the life after death was restored, and a monument was ordered to be built over the cave by the Emperor. The story of the sleepers of the cave as narrated above, corresponds so closely with that mentioned in the Quran that the seven youths can easily be regarded as Ashab-i- Kahf (the companions of the cave). Some people, however, have raised the objection that this story concerns a city of Asia Minor, and the Quran does not discuss or refer to any event that might have taken place outside Arabia, therefore it would be against the Quranic style and spirit to label this Christian story as the story of Ashab-i-Kahf. In our opinion this objection is not correct. The Quran means to impress and warn the Arabs by relating stories concerning the various ancient tribes who had transgressed from the right path and with whom they were familiar, whether they lived and flourished inside Arabia or outside it. It is for this very reason that a mention has been made of the ancient history of Egypt in the Quran, whereas Egypt has never been a part of Arabia. The question is that when the history of Egypt can be mentioned in the Quran, why cannot Rome and the Roman history with which the Arabs were as familiar as with the Egyptian history? The Roman frontiers adjoined the northern Hijaz and the Arab caravans traded with the Romans almost throughout the year. Then there were a number of Arab tribes who were directly under Roman domination and the Roman Empire was in no way unknown to the Arabs, a fact which is fully borne out by Surah Ar-Room. Another thing which should be borne in mind is that the story of the sleepers of the cave has been related in the Quran in response to a query raised by the disbelievers of Makkah, who had been prompted by the Jews and Christians to question the Prophet (peace be upon him) on such matters as were wholly unknown to the Arabs in order to test his Prophethood. 10. That is, when they had believed sincerely, Allah increased their faith in the guidance and enabled them to become firm and steadfast on the way of the truth even at the risk of their lives rather than surrender before falsehood.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :9 اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے ۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ٤۵۲ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ٤۷٤ کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے ۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے ۔ گبن نے اپنی کتاب تاریخ زوال و سقوط دولت روم کے باب ۳۳ میں سات سونے والوں ( Seven Sleepers ) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں ۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے ، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس ( Decius ) تھا جس نے ۲٤۹ سے ۲۵۱ تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے ۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں ، اور گبن اس کا نام اِفِسُس ( Ephesus ) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا ، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر ازمیر ( سمرنا ) سے ۲۰ ۔ ۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں ( ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ٤۳ ) ۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈو سیس ( Theodosious ) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ٤۰۸ سے ٤۵۰ تک روم کا قیصر رہا ۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ ( Jamblichus ) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال ( یعنی تقریباً ٤٤۵ یا ٤٤٦ء میں ) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی ۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹٦ سال بنتی ہے ۔ بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے ۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے ۔ اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جہالت کا الزام لگایا ہے ، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے ۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس سیکسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے ، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ ( قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخر میں درج ہے ) ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :10 یعنی جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں ، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کرلیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٣۔ ١٦:۔ اوپر مختصر طور پر قصہ کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں اس کی تفصیل بیان فرمائی۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے یہود کے سکھانے سے قریش نے تم سے ان چند جوان شخصوں کا قصہ جو پوچھا ہے جو جیتے جی غائب ہوگئے وہ صحیح قصہ یوں ہے کہ ان چند جوانوں کی ساری قوم تو بت پرست تھی مگر یہ چند جوان اللہ کی وحدانیت اور عیسائی دین پر قائم تھے پھر فرمایا جب کہ بت پرست بادشاہ دقیانوس نے بت پرستی اختیار کرنے کے لیے ان جوانوں کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ثابت قدمی بڑھا دی اور ان کے دلوں کو خوب مضبوط کردیا جس سے انہوں نے دقیانوس کو یہی جواب دیا کہ ہم سوا اللہ تعالیٰ کے بتوں کے معبود ہونے کا خلاف عقل اقرار ہرگز زبان پر نہیں لاسکتے کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کی سمجھ میں آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو اور انسان کی سب ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا تو اس کے شکریہ میں انسان پر اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے ہماری قوم کے لوگ اللہ کی تعظیم میں اوروں کو جو شریک کرتے ہیں ان کے پاس اس کی کوئی ایسی سند نہیں جو ہر ایک کی سمجھ میں آئے پھر بےسند بات کو دین ٹھہرانا اللہ پر یہ جھوٹ باندھنا ہے کہ یہ بےسند دین اللہ تعالیٰ کا ٹھہرایا ہوا ہے دنیا کے حاکموں پر کوئی جھوٹ باندھے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں فرق ڈالے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ گار نہیں ١ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ بےسند شرک میں پھنسنا اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی گناہ نہیں۔ مجاہد کے قول کے موافق اس قصہ میں یہ بھی ہے کہ ان جوانوں کی یہاں تک کی باتیں سن کر دقیانوس نے ان جوانوں کی یہاں تک کی باتیں سن کر دقیانوس نے ان جوانوں سے کہا کہ تمہاری جوانی پر مجھ کو ترس آتا ہے اس واسطے میں تمہارے قتل کرانے میں جلدی نہیں کرتا لیکن تم کو مہلت دیتا ہوں اگر اب مہلت کے بعد تم نے قوم کا مذہب اختیار نہیں کیا تو تم ضرور قتل کردیئے جاؤ گے یہ کہہ کر دقیانوس نے ان جوانوں کو اپنے دربار سے نکلوا دیا اس مہلت کے زمانہ میں ان جوانوں نے اپنے دین پر قائم رہنے اور غار میں چھپ جانے کا مشورہ کیا اور اس ارادہ کے پورا ہوجانے میں اللہ کی رحمت پر بھروسہ کیا اسی کا ذکر آخری آیت میں ہے غار میں چھپ جانے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے وہ یہی لفظ تھے جن کا ذکر انہوں نے اس مشورہ میں کیا تھا۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جو بستی کے رہنے میں دین کا خلل دیکھ کر پہاڑ پر یا جنگل میں جار ہیں ٢ ؎۔ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دین کے خلل کے وقت ایماندار آدمی کو یہی کرنا چاہیے اس قصہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ مہلت کے بعد جب یہ جوان دقیانوس کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے تو دقیانوس ان کے رشتہ دار لوگوں پر بہت خفا ہوا اور ان جوانوں کے حاضر کرنے کا حکم دیا جوانوں کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ گھروں سے تو وہ جوان چلے گئے مگر سنتے ہیں کہ بستی کے پاس جو پہاڑ ہے اس کے غار میں چھپ گئے ہیں یہ سن کر دقیانوس نے غار کے منہ پر ایک دیوار چنوا دی تاکہ وہ جوان بھوکے پیاسے اس غار کے اندر مرجائیں مگر تقدیر الٰہی کے آگے کسی کی کوئی تدبیر نہیں چلتی اللہ تعالیٰ نے اس دیوار کو ان جوانوں کی حفاظت کا ایک ذریعہ ٹھہرا دیا تاکہ باہر سے کوئی اس غار میں جاکر ان جوانوں کی نیند میں خلل نہ ڈالے معتبر سند سے ترمذی ابوداؤد اور ابن ماجہ میں ابوسعید خدری (رض) سے اور صحیح سند سے طارق بن شہاب سے جو روایتیں ہیں ان میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ظالم بادشاہ کے روبرو حق بات منہ سے نکالنے میں کچھ خوف نہ کرے گا اس کو قیامت کے دن بڑا اجر ملے گا ٣ ؎۔ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ ان جوانوں نے دقیانوس کے روبرو حق بات جو منہ سے نکالی وہ بڑے اجر کا کام ہے۔ ١ ؎ تفسیر ہذاص ٢٤٩ ج ٣۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٦٢ کتاب الفتن۔ ٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٢٢ کتاب الامارۃ والقضائ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:13) نباہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کی خبر۔ ان کا قصہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 سلف و خلف رحم اللہ میں سے بہت سے مفسرین کا بیان ہے کہ یہ چند آدمی شہزادے تھے۔ ان کی قوم بتوں کی پوجا کرتی اور ان کے نام پر چڑھاوے چڑھاتی تھی لیکن اللہ نے انہیں توفیق دی اور انہوں نے توحید کی راہ اختیار کی۔ اس پر ان کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس بتایا جاتا ہے۔ ان کے درپے آزاد ہوگیا اور پوری قوم کو ان کے خلاف بھانے لگا اسی کشمکش میں انہوں نے فتنہ سے بچنے کے لئے غار میں پناہ لی۔ عموماً قدیم وجیہہ محققین کا خیال یہ ہے کہ ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ کے بعد کا ہے اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ ہی کا دین قبول کیا تھا مگر ابن کثیر نے حضرت عیسیٰ سے پہلے کا زمانہ بتایا ہے کیونکہ اگر وہ عیسیٰ کے دین پر ہوتے تو یہود اس قصہ کو اتنی اہمیت نہ دیتے۔ واللہ علم شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ بادشاہ کے خدام اور نوکر تھے جو بت پرست بادشاہ سے چھپ کر شہر سے نکل گئے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف تو سنئے ہم نے آپ کو ان واقعہ کا ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے تو بہت بےسروپا باتین اس میں شامل کر رکھی ہوں گی ، لہذا ارشاد ہوا کہ درست واقعات یہاں کتاب میں بیان کئے جاتے ہیں کہ وہ کچھ نوجوان تھے جو اللہ جل جلالہ پر ایمان لائے ، اپنے پروردگار کی عظمت کو خلوص دل سے تسلیم کرلیا تو ہم نے ان کے لیے راہ ہدایت کی سوجھ بوجھ بڑھا دی اور انہیں نیکی اور بدی میں فرق کا احساس شدت سے ہوگیا ایسا کہ جو بدی کو چھوڑنے اور نیکی کو اپنانے پر مجبور کر دے ۔ (ایمان کی خصوصیت) اس جگہ ایمان کی خصوصیت ارشاد ہوئی ہے کہ اگر خلوص نصیب ہو تو ایمان کے باعث اللہ جل جلالہ کی طرف سے شعور بیدار ہوجاتا ہے نیکی اور برائی کا نہ صرف فرق سمجھ آنے لگتا ہے بلکہ آدمی بڑی سے بڑی قربانی دے کر نیکی اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور برائی سے بچنے کی بھرپور سعی کرتا ہے ، لہذا دعوی ایمان کے ساتھ مسلسل برائی کرنا غالبا خلوص میں کمی کی علامت ہے ، ورنہ جذبہ خلوص پہ اس کا قدرتی پھل ضرور لگتا ہے اور خلوص قلب کا خاصہ ہے اسی لیے گروہ صوفیا ذکر قلبی پہ بہت زور دیتے ہیں نیز ذاکرین کے لیے بھی یہی معیار ہے کہ ذکر قلبی کی بدولت نیکی طبعا مرغوب ہونے لگے اور بدی سے نفرت پیدا ہوجائے ۔ (خلوص قلبی پہ دوسرا انعام) ہم نے ان کے دلوں سے ایک خاص تعلق کے ذریعے ان کو بہت مضبوط کردیا ، یہ خلوص قلبی پہ دوسرا انعام مرتب ہوتا ہے کہہ ہدایت سے مراد نیکی کی پہچان ہے تو قلب کے رابطے اور مضبوطی سے مراد دل کی وہ جرات رندانہ ہے کہ سب کچھ قربان کر کے بھی اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی کو اختیار کرنے کا حوصلہ پالے ۔ (رابطہ) راہ سلوک میں لطائف کی درستی اور قلب کی روشنی کے بعد شیخ توجہ اور ہمت سے طالب کے قلبی انوارات کا رشتہ عرش عظیم سے استوار کرتا ہے اور اسے یہ حال نصیب ہوتا ہے کہ اللہ جل جلالہ پر اس کے دل سے جو نور اٹھتا ہے وہ عرش عظیم سے جا کر لگے اس کو رابطہ کہ جاتا ہے جب یہ رابطہ مضبوط ہوجائے تو روح کے لیے زینہ کا کام دیتا ہے اور وح اس پر سفر کرکے عالم بالا میں داخل ہو سکتی ہے جس کی منازل میں سے پہلی منزل احدیت کے نام سے موسوم ہے ، غالبا اس کا تذکرہ پہلے گذر چکا ، دنیا کے اعتبار سے اس قلبی حال کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کا حامل جان دے کر بھی اللہ جل جلالہ کی اطاعت ہی اختیار کرتا ہے ۔ چناچہ جب ان جوانوں کے قلوب کو یہ ربط نصیب ہوا تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہمارا رب تو وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے ہم اس کی ذات کے سوا کسی کو معبود قبول نہیں کرتے کہ یہ شان صرف اس کی ہے ساری کائنات کا اکیلا پروردگار اکیلا ہی عبادت کا مستحق بھی ہے ، یہ محض ہمارے کہنے کی بات نہیں بلکہ حق یہی ہے ، خدانخواستہ اگر ہم بھی اس کے خلاف کہہ دیں جیسے باقی کی ساری قوم کہہ رہی ہے تو اس کی شان میں کوئی فرق نہ آئے گا الٹا ہماری بات ہی خلاف عقل اور جاہلانہ ہوگی ۔ (نوجوانوں پہ زیادہ توجہ کی ضرورت) یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ عادات کو بدلنا بھی نوجوانوں کے لیے آسان ہوتا ہے اور بوڑھوں کے لیے مشکل نیز کچھ کر گذرنے کا جذبہ جو جوانی میں ہوتا ہے بڑھاپے میں سرد پڑجاتا ہے لہذا انقلابی تبدیلی کے لیے نوجوان نسل پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والوں میں نوجوانوں کی کثرت تھی جو ابتدا سے اسلام میں آگے آئے ۔ رہی بات ہماری قوم کی مشرکانہ رسومات اور کافرانہ عقائد کی کہ انہوں نے اللہ جل جلالہ کی ذات کے علاوہ مختلف بتوں کی پوجا شروع کر رکھی ہے اور اس کے علاوہ ان کو معبود بنایا ہوا ہے تو اپنی بات پر کوئی دلیل کیوں نہیں لاتے جیسے اللہ جل جلالہ کی تخلیق اور بقائے عالم ہی اس کی عظمت پہ گواہی کے لیے کافی ہے ، ان کے معبودان باطلہ نے کیا تخلیق کیا اور کس کے پروردگار ہیں جبکہ وہ خود ایک ادنی درجے کی مخلوق یعنی مٹی ، گارا یا پتھر ہیں۔ (مشرکانہ رسومات اور بدعات دراصل ذات باری پر بہتان باندھنے کے برابر ہے) اور اس سے بڑھ کر کسی ظلم کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اللہ جل جلالہ پر جھوٹ بولے کہ کسی بھی رسم کو ثواب بتانا یا ماننا جبکہ شرعا اس کا ثبوت نہ ہو تو وہ اللہ جل جلالہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے کہ کسی کام کو ثواب یا پسندیدہ بتانا یہ خود اللہ جل جلالہ کا منصب ہے اور نبی اللہ جل جلالہ ہی کے حکم سے بتاتا ہے اپنی طرف سے رسومات اور بدعات ایجاد کرنے والا گویا اللہ جل جلالہ پر جھوٹ بولتا ہے اور بہتان لگاتا ہے جو اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے لوگوں سے مل کر رہنا بھی خطرے سے خالی نہیں کسی وقت بھی عذاب الہی آسکتا ہے ۔ الہذا انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جب ہم نے قوم کے معبودان باطلہ کو چھوڑا ان کی رسومات و خرافات سے الگ ہوئے تو اب ان کے ساتھ رہنا درست نہیں ، خواہ دنیا کی ساری نعمتیں چھوڑنا پڑیں ، ماحول دوست احباب ، رشتہ دار ، گھر بار ، آرام یہ سب قربان کیا جاسکتا ہے ، اور عالیشان مکانوں کی جگہ غار میں وقت بسر کرلو مگر ان سے الگ ہوجاؤ ۔ (جہاں اللہ جل جلالہ کی عبادت نہ ہو سکتی ہو وہ جگہ چھوڑ دینا یہ انبیاء کی سنت ہے) گویا قانون یہ ہے اور یہی تمام نبیوں کا طریقہ ہے کہ جس آبادی میں اللہ جل جلالہ کی عبادت نہ ہو سکتی ہو یا عقائد محفوظ نہ رہ سکتے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے کہ اس سے ویرانے بہتر ہیں ، اس میں ان لوگوں کے لیے درس عبرت ہے جو رات دن گھر بار بیچ کر یورپ اور مغربی دنیا جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ چناچہ ان نوجوانوں نے ایک غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا کہ جب ہم اسباب دنیا کو اللہ جل جلالہ کے لیے چھوڑ دیں گے تو وہ ہمیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لے گا اور اپنی قدرت کاملہ سے ہمارے آرام و سکون کا اہتمام کر دے گا ۔ (اصحاب کہف پر اللہ جل جلالہ کا انعام اور ان کی کرامات) چناچہ جب انہوں نے اس وجہ سے وہ اختیاری اسباب جو ان کے آرام کے تھے ترک کردیئے کہ وہ انہیں اللہ جل جلالہ کی راہ سے ہٹا نہ دیں تو اللہ جل جلالہ نے ان اسباب کو بھی ان کی خدمت پر لگا دیا جن پہ ان کا اختیار نہ تھا مثلا انہوں نے قیمتی مکان چھوڑے تو اللہ جل جلالہ نے کھلی چھت کے نیچے بھی سورج کی تمازت اور دھوپ کی گرمی کو ان سے روک دیا اور اے مخاطب تو دیکھے گا کہ ہر طلوع و غروب کے وقت سورج اپنا دامن ان سے بچاتا ہے اور اپنی کرنوں کو ان سے روک کر بکھیرتا ہے کہ انہوں دھوپ پریشان نہ کرسکے حالانکہ وہ غار کی ڈھکی ہوئی جگہ پر نہیں بلکہ کھلی ہوئی جگہ میں آرام کر رہے ہیں ۔ اکثر علماء نے غار کی سمت کا اندازہ لکھا ہے کہ اس کا رخ شمالا جنوبا ہو تو دھوپ نہ لگے بعض نے ریاضی کے قواعد سے طول بلد اور عرض بلد کی بحث سے ثابت کرنا چاہا ہے ، مگر حق یہ ہے کہ یہ خرق عادت ہے اور اسے ان کی کرامت کے طور پر قدرت کاملہ کی بہت بڑی نشانی کہہ کر بیان فرمایا ہے ۔ کہ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اس کی قدرت کاملہ کی بہت بڑی نشانی ہے کہ کچھ لوگ سرمیدان آرام کر رہے ہیں اور موسم اپنے اثرات کا دامن ان سے سمیٹ رہے ہیں نہ صرف یہ کہ دھوپ نے ان پر اثر نہ کیا بلکہ تمام موسموں کے تغیر وتبدل کا بہت بڑا مرکز بھی تو سورج ہے اور تین سونوسال ان کے وجودوں پر کسی موسم نے کوئی اثر نہ کیا نہ صرف وجود بلکہ لباس تک فرسودہ نہ ہوئے نہ ان پہ گرد پڑی اور نہ بارش نہ گرمی وسردی نے متاثر کیا اور نہ طوفانی ہواؤں نے چھیڑا کہ اللہ جل جلالہ نے ان اسباب کو جن پر ان کا اختیار نہ تھا ان کی حفاظت پر لگا دیا اور یہ اس کی قدرت کاملہ کی دلیل بھی ہے ۔ لہذا یاد رکھو کہ اللہ کو دل کی گہرائی سے ماننا ہی باعث کمال ہے کہ جو اللہ جل جلالہ سے تعلق قائم کرے اور اللہ جل جلالہ اس کو ہدایت دے وہی ہدایت پاسکتا ہے اور جسے اللہ جل جلالہ محروم کر دے یعنی اللہ کے لیے اس کے دل میں خلوص نہ ہو اور اللہ جل جلالہ اسے گمراہ کردے تو پھر نہ کوئی اسے ہمدرد نصیب ہوتا ہے اور نہ کوئی مرشد جو اسے راہ پر لے آئے گویا شیخ کا ملنا بھی عطائے باری ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 13 تا 16 نقص ہم بیان کرتے ہیں۔ نبا خبر، حال۔ زدنا ہم نے بڑھا دیا۔ ربطنا ہم نے باندھا، مضبوط کردیا۔ شطط عقل سے ور کوئی بات۔ سلطان مبین کھلی اور واضح دلیل۔ اعتزلتموھم تم ان سے الگ ہوگئے۔ فاو تم ٹھکانا بنا لو۔ ینشر وہ پھیلا دے گا۔ مرفق آرام ، آسائش۔ تشریح : آیت نمبر 13 تا 16 گزشتہ آیات میں اصحاب کہف کا مختصر واقعہ بیان کیا گیا تھا۔ ان ایٓات میں اس واقعہ کے کچھ مزید پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ کچھ نوجوان تھے جنہوں نے بادشاہ وقت (دقیانوس) کے غلط عقیدوں، بت پرستی، غرور وتکبر کے سامنے سر جھکانے اور بت پرستی کے بجائے بےپناہ جرأت، ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بےجان بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی کا صاف انکار کردیا تھا اور نہایت دلیری سے اللہ پر ایمان لانے کا اعلان کردیا تھا اور بادشاہ وقت پر اس بات کو واضح کردیا تھا کہ انہوں نے ایمان کے جس راستے پر چلنے کا فیصلہ کرلیا ہے ان کو کسی جابر و ظالم کی دھمکی، ظلم و ستم اس راستے سے ہٹا نہیں سکات۔ انہوں نے بتا دیا کہ ہم نے جس پروردگار کی اطاعت کو قبول کرلیا ہے وہی ساری کائنات کا مالک، رازق اور خالق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ایک اللہ کا انکار کرتے اور اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے پتھر کے بےجان بتوں کو اپنا معبود سمجھتے ہیں وہ ایک ایسے راستے پر چل رہے ہیں جس کی ان کے پاس کوئی واضح نشانی اور روشن دلیل نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کی دماغی کیفیت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے جو بےسند باتوں، توہمات اور جھوٹے معبودوں کو اپنا کار ساز بنائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس معبود حقیقی کو چھوڑ کر کسی انسان یا بتوں کے سامنے اپنا سرجھکائیں۔ یہ چند نوجوان جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شہزادے یا بادشاہ کے خادم تھے ان کی ان باتوں سے بت پرستوں کے ایوانوں میں زلزلے پڑگئے۔ بادشاہ وقت نے جو مسلمانوں کا سخت دشمن اور ان کو جڑ و بنیاد سے کھود ڈالنے میں ہر طرح کے ظلم و ستم کے لئے مشہور تھا اس نے ان نوجوانوں کو اپنے پاس بلایا۔ ان کو اپنے اور اپنے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ بادشاہ نے نوجوانوں کی جذباتی باتیں سمجھ کر ان سے کہا کہ وہ اس انکار کے نتیجے میں سخت سزاؤں اور بدترین انجام پر اچھی طرح غور و فکر کرلیں۔ جب ان نوجوانوں نے اس بات کو اچھی طرح بھانپ لیا کہ ظالم بادشاہ سے بچنا ممکن ہی نہیں ہے تو و ایک ایک کر کے پہاڑوں کی طرف نکل گئے تاکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرسکیں۔ یہ چند نوجوان جو ایک دور سے سے ناواقف تھے حسن اتفاق کہ وہ ایک ہی پہاڑ پر جمع ہوتے گئے۔ جب تھوڑے عرصے کے بعد ان کو معلوم ہوگیا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہیں لیکن اسلام اور ایمان کے جذبے میں یکساں نظر رکھتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ساتھی بن گئے۔ ان میں سے ایک کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جو ان کے ساتھ ساتھ لگا رہا۔ چونکہ ایک چوڑے غار کو ” کہف “ کہا جاتا ہے اور یہ اس جگہ تھا جس کو ” رقیم “ کہا جاتا تھا اس لئے قرآن کریم نے ان کو اصحاب کہف اور اصحاب رقیم فرمایا ہے۔ ان آیات اور واقعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں جو قابل غور ہیں۔ (1) اصل چیز ایمان اور اس کی طاقت ہے جو انسان کو ایک خاص جرأت ، ہمت اور ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ کیونکہ جو شخص ایک اللہ سے ڈرتا ہے پھر وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جان نثاروں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے کفر و شرک سے توبہ کر کے اپنے دلوں میں ایمان کی شمع کو روشن کرلیا تو وہ اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے ہر ظالم سے ٹکرا گئے اور آخر کار طوفانوں کے رخ کو موڑ کر رکھ دیا۔ ایمان ایک ایسی طاقت ہے کہ جب فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے بھرے دربار میں بڑے بڑے جادوگروں نے حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر ایمان قبول کرلیا تب وہ فرعون کی طاقت و قوت اور اس کے ظالمانہ حربوں سے بےنیاز ہوگئے اور انہوں نے فرعون سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ہمیں کتنی ہی بڑی سے بڑی سزا دینے کا فیصلہ کرلے ہم اپنے ایمان سے نہ پھریں گے۔ چناچہ جب فرعون نے اس بات کی دھمکی دی کہ وہ ان کو پھانسی پر چڑھا دے گا۔ مخالف سمتوں سے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے گا اور در بدر کی ٹھوکریں کھلا دے گا اس وقت ان تمام اہل ایمان نے صرف یہی ایک جواب دیا کہ اے فرعون جو تو کرسکتا ہے کرلے ہم کسی مصلحت کی وجہ سے اپنا ایمان نہ چھوڑیں گے اور ہم غیر اللہ کے سامنے سر نہ جھکائیں گے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح طریقہ پر سامنے آجاتی ہے کہ جو لوگ ایمان رکھنے کے باوجود حکمرانوں اور طاقت وروں کے سامنے جھک جاتے ہیں اور بہت سی مصلحتوں کا سہارا لے لیتے ہیں وہ ایک کمزور ایمان کے مالک ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے نور سے ان کے دل پوری طرح روشن ومنور نہیں ہوئے ہیں۔ (2) دوسری بات یہ سمجھ میں اتٓی ہے کہ ایمان صرف جرأت و ہمت ہی کا نام نہیں ہے بلکہ دو اجنبیوں کو آپس میں جوڑنے والا اور ملانے کا ذریعہ بھی ہے بلکہ دو مختلف خاندانوں اور قبیلوں کو آپس میں شیر و شکر کرنے والی چیز ایمان ہی ہے۔ یہ ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو دو اجنبیوں کو ایک کردیتا ہے۔ (3) تیسری بات یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے توہمات، بےسند باتوں، بےبنیاد خیالات اور بےدلیل جذبات کے بجائے حق و صداقت کے پیکر ہوتے ہیں۔ (4) چوتھی بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص جھوٹے معبودوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایمان کی دولت کو گلے لگا لتا ہے تو کائنات کی قوتیں اس کی مددگار بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح پر قائم رکھے اور اپنے سوا ہر ایک کے خوف سے بےنیاز فرما دے۔ (آمین)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ چونکہ لوگوں نے اس کو مختلف طور پر مشہور کیا تھا اس لئے فرمایا کہ ٹھیک وہ جو قرآن میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تمہید کے بعد اب واقعہ کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر لفظ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ لیکن بعض واقعات اور احکام کی مرکزیت اور اہمیت ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف منسوب فرماتا ہے۔ اس واقعہ میں توحید کے اثبات اور نوجوانوں کے کردار کو نمایاں کرنے، شرک کے ابطال اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے موقف کو بےحیثیت اور بعث بعد الموت ثابت کرنے کے لیے اس بات کو اپنی ذات اقدس کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم اس واقعہ کو آپ کے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ایمان اور ہدایت میں مزید آگے بڑھادیا۔ ان کے دلوں کو مضبوط کیا۔ جب وہ عزم بالجزم کے ساتھ اس دعوت کو لے کر اٹھے اور کہا کہ لوگو ! ہمارا رب وہ رب ہے جو زمین آسمان کا خالق ہے۔ ہم اس کے سوا کسی دوسرے کو خالق، مالک اور عبادت کے لائق نہیں سمجھتے۔ اگر ہم اس کے سوا کسی اور کو عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں۔ تو ہمارا اس طرح سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہوگا۔ ہماری قوم کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے زمین و آسمان کے خالق ومالک کے سوا دوسروں کو معبود بنا کر حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے۔ یہ لوگ ان کے بارے میں کوئی ٹھوس، شرعی، اور عقلی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا اور اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ ایسے شخص سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس واقعہ میں پہلی حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کا خالق، مالک صرف ایک اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنا اور کہنا پرلے درجے کا ظلم اور حماقت ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کے پاس شرعی اور عقلی لحاظ سے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوسری حقیقت یہ واضح کی گئی ہے کہ جب کوئی جواں مرد اللہ پر ایمان اور اس پر بھروسہ رکھتے ہوئے توحید کی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جذبہ ایمان میں کئی گنااضافہ فرماکر اس کے کام کو آسان کردیتا ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ نوجوان طبقہ نیکی اور برائی میں ہر اول دستہ کا کام دیتا ہے۔ انبیاء کرام کے ابتدائی ساتھی ہمیشہ نوجوان طبقہ ہی ہوا کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے دوٹوک انداز میں فرمایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے جوانوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ کیونکہ وہ فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں کے مظالم سے ڈرتے تھے۔ فرعون ملک میں بڑا متکبر اور کفر میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔ (یونس : ٨٣) دوسرے مقام پر فرمایا کہ فرعون کی قوم اس سے ڈر کر اس کی تابع دار ہوگی۔ حقیقت میں یہ لوگ نافرمان تھے۔ (الزخرف : ٥٤) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ میں آپ پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ سیرت نگار لکھتے ہیں بزرگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر (رض) ایمان لائے۔ غور فرمائیں حالانکہ حضرت ابوبکر (رض) کی عمر پونے اٹھتیس سال کے قریب تھی۔ جب حضرت عمر (رض) نے کلمہ پڑھا تو وہ ستائیس اور اٹھائیس سال کے درمیان تھے۔ حضرت سعد (رض) انیس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان (رض) ستائیس سال کے قریب تھے۔ حضرت علی (رض) دس بارہ سال کے تھے۔ اصحاب کہف کی عمر کے بارے میں ” فتیۃ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لغت کے لحاظ سے اس کا معنیٰ ہے ” چودہ سال سے لے کر اٹھائیس سال کے جوان تک بولا جاتا ہے “۔ جوانی کی عبادت کا مقام : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہٗ )[ رواہ البخاری : باب من جلس فی المسجد ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) عدل کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب وہ مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں جانے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو باہم اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین و جمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) وہ جس نے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید میں جو قصص بیان ہوئے ہیں وہ برحق ہیں۔ ٢۔ اصحاب کہف چند نوجوان تھے جو ایمان لائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو ہدایت میں آگے بڑھایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے دل مضبوط کردیئے۔ ٥۔ اصحاب کہف نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا بڑے گناہ اور ظلم کی بات ہے۔ تفسیر بالقرآن نو جوانوں کا کردار : ١۔ وہ کچھ جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے انکی ہدایت میں اضافہ کردیا۔ (الکہف : ١٣) ٢۔ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ (الانبیاء : ٦٠) ٣۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص : ١٤) ٤۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم عطا کیا۔ (یوسف : ٢٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس قصے کے مناظر میں سے یہ پہلا منظر ہے۔ انھم فتیۃ امنوا بربھم (٨١ : ٣١) ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے۔ “ اور مزید یہ کہ وزدنھم ھدی (٨١ : ٣١) ” وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے۔ “ اور مزید یہ کہ وزدنھم ھدی (٨١ : ٣١) ” اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔ “ عینی ان کو یہ الہام کردیا تھا کہ وہ اپنے معاملات میں کس طرح تدابیر اختیار کریں اور پھر و ربطنا علی قلوبھم (٨١ : ٣١) ” اور ہم نے ان کے دل مضبوط کردیئے۔ “ چناچہ یہ لوگ اپنے ایمان پر ثابت قدم ہوگئے۔ راسخ العقیدہ ہوگئے اور جس سچائی کو انہوں نے اختیار کیا تھا اور جان لیا تھا اس پر استقامت اختیار کرلی تھی اور جو ایمان انہوں نے اپنایا تھا وہ انہیں بہت ہی عزیز تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب کہف کا تفصیلی واقعہ جیسا کہ دو تین صفحہ قبل ہم نے ذکر کیا کہ یہ چند نوجوان اپنی بت پرست قوم سے بھاگ نکلے تھے ان کا مقصود اپنا ایمان بچانا تھا اور جان بچانا بھی پیش نظر تھا کیونکہ وہاں جو بادشاہ تھا وہ اہل ایمان کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا اور جو شخص انکار کردے اسے قتل کردیتا تھا۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ نوجوان روم کے بادشاہ اور سرداروں کی اولاد میں سے تھے اس زمانہ کا بادشاہ جس کا نام دقیانوس تھا ظالم آدمی تھا اور وہ لوگوں کو بت پرستی کی دعوت دیتا تھا جب یہ نوجوان تہوار کے موقع پر اپنے اپنے خاندان کے ساتھ نکلے تو بت پرستی کا ماحول اور ماجرا دیکھ کر ان کے قلوب میں بہت زیادہ ناگواری کی شان پیدا ہوگئی اور وہاں سے بھاگ نکلے ہر شخص علیحدہ علیحدہ فرار ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ سب ایک جگہ اکٹھے ہوگئے پہلے ایک شخص ایک درخت کے سایہ میں آکر بیٹھا اور پھر دوسرا اور تیسرا آیا اور آتے چلے گئے قلوب کی وحدت ایمانیہ نے بہ مصداق الجنس یمیل الی الجنس سب کو ایک جگہ جمع کردیا۔ اصحاب کہف کا ایک جگہ جمع ہونا اور آپس میں متعارف ہو کر باہم گفتگو کرنا جمع تو ہوگئے لیکن ایک دوسرے سے ڈر بھی رہے تھے کیونکہ ہر ایک کو ایک دوسرے کے عقیدہ کا پتہ نہ تھا ایسے ہی بیٹھے بٹھائے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہر شخص یہ بتائے کہ وہ اپنی قوم سے کیوں جدا ہوا، اور تنہا اکیلا ہوجانا اس نے کیوں گوارا کیا، اس پر ایک شخص بولا کہ میں تو اس لیے قوم سے جدا ہوا ہوں کہ میرے نزدیک میری قوم باطل پر ہے جو غیر اللہ کو سجدہ کر رہی ہے۔ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں کو زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر ہے سب کچھ پیدا کیا، یکے بعد دیگرے دوسرے افراد نے بھی یہی جواب دیا اس پر وہ آپس میں سچے ایمانی بھائی اور ایک دوسرے کے ہمدرد بن گئے اور انہوں نے مل کر ایک عبادت خانہ تجویز کرلیا جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے جب ان کی قوم کو صورت حال کا علم ہوا تو بادشاہ کو بات پہنچا دی بادشاہ نے ان کو بلوایا اور ان سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا دین ہے اللہ جل شانہ نے ان کے دل مضبوط کردئیے اور انہوں نے بغیر کسی خوف و خطر کے نڈر ہو کر اپنا عقیدہ توحید بیان کردیا، اور بادشاہ کو بھی توحید کی دعوت دی، بادشاہ نے ان کی دعوت توحید قبول کرنے سے انکار کردیا اور انہیں ڈرایا دھمکایا اور ان کا لباس اتروا دیا۔ جو وہ عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے اور انہیں مہلت دیدی کہ تم غور کرلو اور اپنی قوم کے دین میں واپس آجاؤ۔ بادشاہ کو اور پوری قوم کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا یہ مہلت ملنا ان کے لیے مبارک ہوا، اس سے انہوں نے فائدہ اٹھایا اور موقع پاکر فرار ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کا دل بھی مضبوط کردیا تھا انہوں نے بادشاہ کو توحید کی دعوت دی اور توحید کی دلیل بھی بتادی کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے، اس میں یہ بتادیا کہ خالق کائنات جل مجدہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا عقلمندی کے خلاف ہے اور ساتھ ہی (لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا) بھی کہہ دیا یعنی ہم ہرگز کبھی اپنے رب کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ اور مزید یوں کہا : (لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا) (اگر بالفرض ہم اپنے رب کے سوا کسی کو معبود بنائیں تو یہ تو بڑے ظلم اور زیادتی کی بات ہوگی) آپس میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جو ہماری قوم کے لوگ ہیں انہوں نے خالق اور مالک جل مجدہ کے علاوہ دوسرے معبود بنالیے ہیں ان کے پاس اس کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے اگر ہے تو کوئی واضح دلیل بیان کردیں۔ جب کوئی دلیل نہیں ہے تو ان کا عقیدہ اور عمل اور قول ظلم ہی ظلم ہے چونکہ مشرکین یوں بھی کہا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عمل سے راضی ہے اس لیے ان نوجوانوں نے یہ بھی کہا (فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا) (کہ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے۔ ) باہمی مشورہ کرکے غار میں داخل ہوجانا اصحاب کہف جب اپنی قوم سے جدا ہوئے اور ان لوگوں کو چھوڑ کر بالکل علیحدہ ہوگئے تو آپس میں کہنے لگے کہ تم نے اپنی قوم کو چھوڑا ان کے باطل معبودوں سے گریز کیا اور یہ معلوم ہے کہ دوبارہ انہیں میں واپس ہونے اور اپنے گھروں کو لوٹنے میں خیر نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ پھر اپنا دین اختیار کرنے پر مجبور کریں گے لہٰذا اب ہمیں کسی غار میں ٹھکانہ پکڑلینا چاہیے، آپس میں مشورہ سے یہ بات طے تو ہوئی لیکن انسانی ضروریات کا سوال بھی پیش نظر تھا کہ غار میں رہیں گے تو کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا کیا بنے گا ؟ اس سوال کو حل کرنے کے لیے آپس میں یوں کہنے لگے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید رکھنی چاہیے انشاء اللہ تعالیٰ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا اور وہ ہم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور جس مقصد خیر یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے نکلے ہیں اس کے لیے آسانیاں پیدا فرما دے گا، باہمی مشورہ سے غار میں جانا طے ہوا اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید باندھ لی اور غار میں داخل ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ اب یہاں سے اصحاب کہف کے واقعہ کی تفصیل شروع ہوتی ہے گویا کہ پہلے شبہہ اولیٰ کا اجمالی جواب ذکر کیا گیا اور یہاں اسے تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ شروع فی تفصیل ما اجمل فیما سلف ای نحن نخبرک بتفصیل خبرھم الذی لہ شان و خطر (روح ج 5 ص 216 ابو السعود ج 5 ص 685) ۔ 14:۔ پہلے اجمالی ذکر میں اصحاب کہف کے مومن و موحد ہونے کی طرف اشارہ تھا۔ یہاں ان کے ایمان، توحید پر ان کی استقامت اور شرک سے ان کی بیزاری کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس تفصیل میں چار چیزیں مذکور ہیں۔ (1) ۔ ” امنوا بربھم “ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لے آئے۔ (2) ۔ ” و زدنھم ھدی “ انہیں ایمان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے کر ان کو ہدایت میں اور ترقی دیدی۔ (3) ۔ ” و ربطنا علی قلوبہم اذا قاموا “۔ ظرف ” ربطنا “ سے متعلق ہے۔ جب ظالم و جابر اور مشرک بادشاہ کی طلبی پر وہ اس کے دربار میں اس کے سامنے کھڑے ہوئے اور بادشاہ نے ان کو دین توحید چھوڑنے اور بت پرستی اختیار کرنے کا حکم دیا اور بصورت دیگر انہیں قتل کی دھمکی دی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مضبوط ومطمئن کردیا۔ اور انہیں اپنے دین پر ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائی۔ اذ قامو بین یدی الجبار وھو دقیانوس۔ چناچہ انہوں نے سر دربار علی رؤوس الاشہاد توحید کا اعلان اور شرک سے بیزاری کا اظہار کردیا اور صاف کہہ دیا ” ربنا رب السموات والارض “ ہمارا پروردگار اور مالک وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک ہے۔ ” لن ندعوا من دونہ الھا “ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہو وہی ساری کائنات کا خالق ومالک ہوسکتا ہے اور وہی عبادت و پکار کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہم اللہ کے سوا کسی خود ساختہ معبود اور کسی جھوٹے ٹھاکر کو کبھی پکارنے کے لیے تیار نہیں ہیں ” لقد قلنا اذا شططا “ کیونکہ اگر ہم ایسا کریں تو یہ نہایت ہی بےجا اور حد سے بڑھی ہوئی بات ہوگی۔ (4):۔ ” ھؤلاء قومنا الخ “ ہماری قوم کے ان مشرکوں نے خود ساختہ ٹھاکروں کو اللہ کے معبود بنا رکھا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی واضح ثبوت ہے۔ تو کیوں پیش نہیں کرتے۔ ” فمن اظلم من افتری علی اللہ کذبا “ بھلا شرک جیسی بری اور قبیح لذاتہ بات کے حق میں کیا ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے جو شخص خدا کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے۔ وہ خدا پر افترا کرتا ہے۔ اور وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اصحاب کہف کے ایمان و اعتقاد کی اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ وہ تو خود اللہ تعالیٰ ہی کو اپنا مالک و کارساز سمجھتے تھے۔ اس کی عبادت کرتے اور اسی کے نام کی نذریں دیتے۔ اور اسے ہی پکارتے تھے۔ وہ شرک اور غیر اللہ کی عبادت اور پکار سے سخت بیزار تھے۔ وہ اپنے اس ایمان پر اتنے مضبوط تھے کہ ایک ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے بھی انہوں نے اس کا اعلان کردیا۔ بھلا جن کا اپنا یہ حال ہو، پھر ان کی عبادت کرنا، ان کو پکارنا اور ان کے تنام کی نذریں نیازیں دینا سراسر حماقت اور عقل کے خلاف ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 ہم ان اصحاب کہف کی خبر اور ان کا واقعہ آپ کو ٹھیک ٹھیک بیان کرتے اور سناتے ہیں چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت کے اعتبار سے اور زیادہ کردیا۔ یعنی یہ نوجوان خاندانی تھے ان کو بت پرستی سے نفرت تھی اور یہ دین عیسوی یا دین موسوی کی شریعت پر ایمان لے آئے تھے۔ ابن کثیر کی رائے یہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے قبل کا واقعہ یہ نوجوان اپنے بزرگوں کے ساتھ بت پرستوں کا کوئی میلہ دیکھنے گئے تھے وہاں ان کو بت پرستی سے نفرت ہوئی اور یہ موحد ہوگئے اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی اور ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی ایمان سے زیادہ درجہ دیا اولیاء کیا۔ 12