Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 17

سورة الكهف

وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرۡشِدًا ﴿٪۱۷﴾  14

And [had you been present], you would see the sun when it rose, inclining away from their cave on the right, and when it set, passing away from them on the left, while they were [laying] within an open space thereof. That was from the signs of Allah . He whom Allah guides is the [rightly] guided, but he whom He leaves astray - never will you find for him a protecting guide.

آپ دیکھیں گے کہ آفتاب بوقت طلوع ان کے غار سے دائیں جانب کو جھک جاتا ہے اور بوقت غروب ان کے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اس غار کی کشادہ جگہ میں ہیں یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالٰی جس کی رہبری فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Location of the Cave Allah tells; وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ ... And you might have seen the sun, when it rose, declining to the right from their cave, and when it set, turning away from them to the left, while they lay in the midst of the cave. This indicates that the entrance to the cave faced north, because Allah tells us ... that when the sun was rising, sunlight entered the cave ذَاتَ الْيَمِينِ (the right), meaning that the shade decreased towards the right, as Ibn Abbas, Sa`id bin Jubayr and Qatadah said: تَّزَاوَرُ (declining) means leaning. Every time the sun rises on the horizon, its rays decline until there is nothing left in such a place when it reaches its zenith. So Allah said, ... وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ ... and when it set, turning away from them to the left, meaning, it entered their cave from the left of its entrance, which means from the west. This proves what we say, and it is clear to anyone who thinks about the matter and has some knowledge of astronomy and the paths of the sun, moon and stars. If the entrance of the cave faced east, nothing would have entered it when the sun set, and if it faced the direction of the Qiblah (in this case, south), nothing would have entered it at the time of sunrise or sunset, and the shadows would have leaned neither to the right nor the left. If it had faced west, nothing would have entered it at the time of sunrise, until after the sun had passed its zenith, and would have stayed until sunset. This supports what we have said, and to Allah is the praise. Ibn Abbas, Mujahid and Qatadah said that "turning away from them" means, that it would shine on them and then leave them. Allah has told us this, and He wants us to understand it and ponder its meaning, but He did not tell us the location of this cave, i.e., in which country on earth it is, because there is no benefit for us in knowing that, and no legislative objective behind it. If there was any spiritual or religious interest that could be served by our knowing that, Allah and His Messenger would have taught us about it, as the Prophet said: مَا تَرَكْتُ شَيْيًا يُقَرِّبُكُمْ إِلَى الْجَنَّةِ وَيُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلاَّ وَقَدْ أَعْلَمْتُكُمْ بِه I have not left anything that will bring you closer to Paradise and keep you further away from Hell but I have certainly taught you about it. So Allah has told us about the features of the cave, but He did not tell us where it is, and He said, وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ... And you might have seen the sun, when it rose, declining from their cave. Malik narrated from Zayd bin Aslam, "Leaning." ... ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ ... the right, and when it set, turning away from them to the left, while they lay in the midst of the cave. meaning, the sun entered the cave without touching them, because if it had touched them, it would have burnt their bodies and clothes. This was the view of Ibn `Abbas. ... ذَلِكَ مِنْ ايَاتِ اللَّهِ ... That is from the Ayat of Allah, how He guided them to this cave where He kept them alive, and the sun and wind entered the cave preserving their bodies. Allah says, ذَلِكَ مِنْ ايَاتِ اللَّهِ (That is from the Ayat of Allah). Then He says: ... مَن يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِي ... He whom Allah guides, he is the rightly-guided; meaning that He is the One Who guided these young men to true guidance among their people, for the one whom Allah guides is truly guided, ... وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا but he whom He sends astray, for him you will find no guardian to lead him. and the one whom Allah leaves astray will find no one to guide him.   Show more

غار اور سورج کی شعائیں یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس غار کا منہ شمال رخ ہے ۔ سورج کے طلوع کے وقت ان کے دائیں جانب دھوپ کی چھاؤں جھک جاتی ہے پس دوپہرے کے وقت وہاں بالکل دھوپ نہیں رہتی ۔ سورج کی بلندی کے ساتھ ہی ایسی جگہ سے شعاعیں دھوپ کی کم ہوتی جاتی ہیں اور سورج کے ڈوبنے کے وقت دھوپ ان کے غار کی ط... رف اس کے دروازے کے شمال رخ سے جاتی ہے مشرق جانب سے ۔ علم ہیئت کے جاننے والے اسے خوب سمجھ سکتے ہیں ۔ جنہیں سورج چاند اور ستاروں کی چال کا علم ہے ۔ اگر غار کا دروازہ مشرق رخ ہوتا تو سورج کے غروب کے وقت وہاں دھوپ بالکل نہ جاتی اور اگر قبلہ رخ ہوتا تو سورج کے طلوع کے وقت دھوپ نہ پہنچتی اور نہ غروب کے وقت پہنچتی اور نہ سایہ دائیں بائیں جھکتا اور اگر دروازہ مغرب رخ ہوتا تو بھی سورج نکلنے کے وقت اندر دھوپ نہ جا سکتی بلکہ زوال کے بعد اندر پہنچتی اور پھر برابر مغرب تک رہتی ۔ پس ٹھیک بات وہی ہے جو ہم بیان نے کی فللہ الحمد تقرضہم کے معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے کئے ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ، نہ اس سے کسی شرعی مقصد کا حصول ہوتا ہے ۔ پھر بھی بعض مفسرین نے اس میں تکلیف اٹھائی ہے کوئی کہتا ہے وہ ایلہ کے قریب ہے کوئی کہتا ہے نینویٰ کے پاس ہے کوئی کہتا ہے ، روم میں ہے کوئی کہتا ہے بلقا میں ہے ۔ اصل علم اللہ ہی کو ہے وہ کہاں ہے اگر اس میں کوئی دینی مصلحت یا ہمارا کوئی مذہبی فائدہ ہوتا تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں بتا دیتا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کرا دیتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہیں جو جو کام اور چیزیں جنت سے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی تھیں ان میں سے ایک بھی ترک کئے بغیر میں نے بتا دی ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اس کی صفت بیان فرما دی اور اس کی جگہ نہیں بتائی ۔ فرما دیا کہ سورج کے طلوع کے وقت ان کے غار سے وہ دائیں جانب جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت انہیں بائیں طرف چھوڑ دیتا ہے ، وہ اس سے فراخی میں ہیں ، انہیں دھوپ کی تپش نہیں پہنچتی ورنہ ان کے بدن اور کپڑے جل جاتے یہ اللہ کی ایک نشانی ہے کہ رب انہیں اس غار میں پہنچایا جہاں انہیں زندہ رکھا دھوپ بھی پہنچے ہوا بھی جائے چاندنی بھی رہے تاکہ نہ نیند میں خلل آئے نہ نقصان پہنچے ۔ فی الواقع اللہ کر طرف سے یہ بھی کامل نشان قدرت ہے ۔ ان نوجوانوں موحدوں کی ہدایت خود اللہ نے کی تھی ، یہ راہ راست پا چکے تھے کسی کے بس میں نہ تھا کہ انہیں گمراہ کر سکے اور اس کے برعکس جسے وہ راہ نہ دکھائے اس کا ہادی کوئی نہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی، حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے۔ فجوۃ کے معنی ہیں کشادہ جگہ۔ 17۔ 2 یعنی سورج کا اس طرح نکل جانا کہ باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے، اللہ کی نش... انیوں میں سے ہے۔ 17۔ 3 جیسے دقیانوس بادشاہ اور اس کے پیروکار ہدایت سے محروم رہے تو کوئی انھیں راہ یاب نہیں کرسکا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] غار کا محل وقوع اور ہوا کی آمد ورفت :۔ اس غار کا منہ شمال کی جانب تھا اور دوسری طرف کچھ چھوٹے موٹے سوراخ تھے لیکن وہ اتنے تنگ تھے کہ ان میں سے آدمی گزر نہیں سکتا تھا اس طرح غار میں ہوا کی آمدورفت بھی رہتی تھی اور گاہے گاہے سورج کی روشنی اور دھوپ بھی اندر پہنچ جاتی تھی لیکن چونکہ اس کا دہانہ شم... ال کی جانب تھا لہذا دھوپ کی شدت اور تمازت سے یہ لوگ بالکل محفوظ تھے۔ سانس لینے کے لیے جس قدر تازہ ہوا یا آکسیجن کی ضرورت تھی وہ بھی انھیں مہیا ہو رہی تھی اور صحت کے لیے جتنی دھوپ ضروری تھی وہ بھی چھوٹے موٹے سوراخ سے اندر پہنچ جاتی تھی۔ [١٦] یعنی اللہ تعالیٰ کا ان توحید پرستوں کو ایسی غار کی جانب رہنمائی کردینا پھر انھیں صدیوں تک سلائے رکھنا یہ باتیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے تعلق رکھتی ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں راہ ہدایت پر ثابت قدم رکھا بلا شبہ جو شخص راہ ہدایت پر ڈٹ جانے کا عزم کرلیتا ہے تو اللہ اس کے لیے کوئی راہ پیدا فرما دیتا ہے جس سے اس کی مشکل آسان ہوجاتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ ۔۔ : یعنی ان کے غار کا منہ شمال کی طرف تھا، جب سورج چڑھتا تو دھوپ دائیں طرف ہوجاتی اور غروب کے وقت بائیں طرف ہوجاتی تھی۔ ان کے بدن غار کے کشادہ حصے میں سورج کی تیز شعاؤں سے محفوظ تھے۔ مَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ : ” ھُوَ “ معرفہ کے بعد خبر ” الْمُهْتَدِ ... “ بھی معرفہ ہے، اس سے حصر کا معنی حاصل ہوا، یعنی جسے اللہ سیدھی راہ پر چلائے سو وہی سیدھی راہ پانے والا ہے، جیسا کہ اصحاب کہف کو ایمان کی نعمت، پھر اعلان حق کی ہمت، پھر ہجرت کی توفیق اور غار میں جانے کا راستہ عطا فرمایا، جہاں زندہ رہنے کے لیے دھوپ اور ہوا کی جس مقدار میں ضرورت تھی موجود تھی اور وہ لوگوں کی نگاہوں اور دشمن کی دسترس سے بھی محفوظ رہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In these verses, Allah Ta` ala has told us about three states of the People of Kahf. All three are indeed unique and it was the karamah, a matter of wonder, that manifested itself in an extraordinary way around these people devoted to Allah (a thing of wonder that manifests itself at the hands of a prophet of Allah is called a mujizah or miracle, while if it appears at the hand of some ... other pious persons, it is called &Karamah& ). First of all, to be overtaken by continuous sleep for a long time and to stay alive in that state without eating and drinking is by itself a matter of wonder, and certainly contra-habitual and extraordinary. Its details will appear in the verses that follow. Given here is one state of their long sleep, that is, Allah Ta’ ala had arranged for their protection in the Cave in a way that the Sun would pass by them morning and evening but would not shine over their bodies inside the Cave. The advantages of the sunshine passing by them were things like the stabilization of the traces of life, moderation and balancing of the effects of wind, chill and heat etc. And then, the Sun not hitting their bodies directly may have also been a factor in keeping their bodies and dress protected. This arrangement of keeping them shielded from direct sunlight could also be conceived if the cave lies situated in a particular structural position and the opening of its entrance happens to face south or north in a way that sunlight does not get in there naturally. Ibn Qutaibah went to the trouble of making elaborate mathematical calculations to de¬termine the peculiar location of this Cave precisely in terms of latitude and longitude. (Mazhari) Contrary to this was the approach of al-Zajjaj who said that the staying of sunshine away from them was not because of any inherent situation or formation of the Cave, instead, it was an ex¬traordinary phenomenon manifested as a karamah. It seems when it was said: ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ (That is one of the signs of Allah) at the end of the verse, it was obviously there to prove that this arrangement of protection from the Sun was not the outcome of any particular formation or location of the Cave. Instead, it was a sign of the perfect power of Allah Ta` ala. (Qurtubi) To put it candidly, Allah Ta` ala had it all arranged for them that sunlight will not reach their bodies. It may have been caused through its particular formation or location or through the barrier of a cloud or so¬mething similar when the Sun would start shining, or the very rays of the Sun would be moved away from them in an extraordinary manner. All these probabilities exist within the verse. There is no need to insist upon fixing any of these as the absolute reality.  Show more

خلاصہ تفسیر : اور اے مخاطب (وہ غار ایسی وضع پر واقع ہوا ہے کہ) جب دھوپ نکلتی ہے تو تو اس کو دیکھے گا کہ وہ غار سے داہنی جانب کو بچی رہتی ہے (یعنی غار کے دروازے سے داہنی طرف الگ ہو کر رہتی ہے) اور جب وہ چھپتی ہے تو (غار کے) بائیں طرف ہٹی رہتی ہے (یعنی اس وقت بھی غار کے اندر دھوپ نہیں جاتی کہ جا کہ ا... ن کو دھوپ کی تپش سے تکلیف نہ پہونچے) اور وہ لوگ اس غار کے ایک فراخ موقع میں تھے (یعنی ایسے غاروں میں جو عادۃ کہیں تنگ کہیں کشادہ ہوتے ہیں، تو وہ اس غار کے ایسے موقع پر تھے جو کشادہ تھا تاکہ ہوا بھی پہنچنے اور جگہ کی تنگی سے جی بھی نہ گھبرائے) یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے (کہ اسباب ظاہری کے خلاف ان کے لئے آرام کا سامان مہیا کردیا پس معلوم ہوا کہ) جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے اور جس کو وہ گمراہ کردیں تو آپ اس کے لئے کوئی مددگار راہ بتانے والا نہ پائیں گے۔ (غار کی جو ہیئت بتلائی گئی ہے کہ اس میں نہ طلوع کے وقت صبح کو دھوپ اندر جاتی نہ شام کو غروب کے وقت، یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ غار شمال رویہ یا جنوب رویہ ہو، کیونکہ داہنی بائیں غار میں داخل ہونے والے کی مراد ہوں تو غار شمال رویہ ہوگا، اور داہنی بائیں جانب غار سے نکلنے والے کی مراد ہوں تو غار جنوب رویہ ہوگا) اور اے مخاطب ( تو اگر اس وقت جبکہ وہ غار میں گئے اور ہم نے ان پر نیند مسلط کردی ان کو دیکھتا تو) ان کو جاگتا ہوا خیال کرتا حالانکہ وہ سوتے تھے (کیونکہ اللہ کی قدرت نے ان کو نیند کے آثار و علامات سے محفوظ رکھا تھا، جیسے سانس کا تغیر، بدن کا ڈھیلا پن، آنکھیں اگر بند بھی ہوں تو سونے کی یقینی علامت نہیں) اور (اس نیند کے زمانہ دراز میں) ہم ان کو (کبھی) داہنی طرف اور (کبھی) با ہیں طرف کروٹ دیدیتے تھے اور (اس حالت میں) ہم ان کا کتا (جو کسی وجہ سے ان کے ساتھ آ گیا تھا غار کی) دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے (بیٹھا) تھا (اور ان کے رعب و جلال خدا داد کی یہ حالت تھی کہ) اگر (اے مخاطب) تو ان کو جھانک کر دیکھتا تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوتا اور تیرے اندر ان کی دہشت سما جاتی (اس آیت میں خطاب عام مخاطبین کو ہے، اس سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرعوب ہونا لازم نہیں آتا، اور یہ تمام سامان حق تعالیٰ نے ان لوگوں کی حفاظت کے لئے جمع کردیئے تھے، کیونکہ جاگتے ہوئے آدمی پر حملہ کرنا آسان نہیں ہوتا اور نیند کے طویل زمانے میں کروٹیں نہ بدلی جائیں تو مٹی ایک کروٹ کو کھا لیتی، اور غار کے دروازے پر کتے کا بیٹھنا بھی سامان حفاظت ہونا ظاہر ہے۔ معارف و مسائل : ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے اصحاب کہف کے تین حال بتائے ہیں، اور تینوں عجیب ہیں جو ان حضرات کی کرامت سے بطور خرق عادت ظاہر ہوئے۔ اول زمانہ دراز تک مسلسل نیند کا مسلط ہونا اور اس میں بغیر کسی غذا وغیرہ کے زندہ رہنا سب سے بڑی کرامت اور خرق عادت ہے، اس کی تفصیل تو اگلی آیات میں آئے گی، یہاں اس طویل نیند کی حالت میں ان کا ایک حال تو یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غار کے اندر اس طرح محفوظ رکھا تھا کہ صبح شام دھوپ ان کے قریب سے گذرتی مگر غار کے اندر ان کے جسموں پر نہ پڑتی تھی، قریب سے گزرنے کے فوائد زندگی کے آثار کا قیام، ہوا اور سردی، گرمی کا اعتدال وغیرہ تھے، اور ان کے جسموں پر دھوپ نہ پڑنے سے جسموں کی اور ان کے لباس کی حفاظت بھی تھی۔ دھوپ کے ان کے اوپر نہ پڑنے کع یہ صورت غار کی کسی خاص وضع کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا دروازہ جنوب یا شمال میں ایسی وضع پر ہو کہ دھوپ طبعی اور عادی طور پر اس کے اندر نہ پہونچے، ابن قتیبہ نے اس کی وضع خاص متعین کرنے کیلئے یہ تکلف کیا کہ ریاضی کے اصول و قواعد کی رو سے اس جگہ کا طول بلد عرض بلد اور غار کا رخ متعین کیا،{ مظہری } اور اس کے بالمقابل زجاج نے کہا کہ دھوپ کا ان سے الگ رہنا کسی وضع اور ہیئت کی بنا پر نہیں بلکہ ان کی کرامت سے بطور خرق عادت تھا، اور اس آیت کے آخر میں جو یہ ارشاد ہے ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ یہ بھی بظاہر اسی پر دلالت کرتا ہے کہ دھوپ سے حفاظت کا یہ سامان غار کی کسی خاص وضع و ہیئت کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک نشانی تھی (قرطبی) اور صاف بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایسا سامان مہیا فرما دیا تھا کہ دھوپ ان کے جسموں پر نہ پڑے، خواہ یہ سامان غار کی خاص ہیئت اور وضع کے ذریعے ہو یا کوئی بادل وغیرہ دھوپ کے وقت حائل کردیا جاتا ہو یا براہ راست آفتاب کی شعاعوں کو ان سے بطور خرق عادت کے ہٹا دیا جاتا ہو، آیت میں یہ سب احتمالات ہیں، کسی ایک کو متعین کرنے پر زور دینے کی ضرورت نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَرَى الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ كَہْفِہِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُہُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَہُمْ فِيْ فَجْــوَۃٍ مِّنْہ ُ ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ ۝ ٠ۭ مَنْ يَّہْدِ اللہُ فَہُوَالْمُہْتَدِ۝ ٠ۚ وَمَنْ يُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۝ ١٧ۧ شمس ا... لشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ طلع طَلَعَ الشمسُ طُلُوعاً ومَطْلَعاً. قال تعالی: وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] ، حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] ، والمَطْلِعُ : موضعُ الطُّلُوعِ ، حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] ، وعنه استعیر : طَلَعَ علینا فلانٌ ، واطَّلَعَ. قال تعالی: هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] ، فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] ، قال : فَأَطَّلِعَ إِلى إِلهِ مُوسی[ غافر/ 37] ، وقال : أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] ، لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] ، واسْتَطْلَعْتُ رأيَهُ ، وأَطْلَعْتُكَ علی كذا، وطَلَعْتُ عنه : غبت، والطِّلاعُ : ما طَلَعَتْ عليه الشمسُ والإنسان، وطَلِيعَةُ الجیشِ : أوّل من يَطْلُعُ ، وامرأةٌ طُلَعَةٌ قُبَعَةٌ «1» : تُظْهِرُ رأسَها مرّةً وتستر أخری، وتشبيها بالطُّلُوعِ قيل : طَلْعُ النَّخْلِ. لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] ، طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ، أي : ما طَلَعَ منها، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وقد أَطْلَعَتِ النّخلُ ، وقوسٌ طِلَاعُ الكفِّ : ملءُ الكفِّ. ( ط ل ع ) طلع ( ن ) الشمس طلوعا ومطلعا کے معنی آفتاب طلوع ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ [ طه/ 130] اور سورج کے نکلنے سے پہلے ۔۔۔۔۔ تسبیح وتحمید کیا کرو ۔ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔ اور مطلع کے معنی ہیں طلوع ہونیکی جگہ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَطْلُعُ عَلى قَوْمٍ [ الكهف/ 90] یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے ۔۔۔۔۔ اسی سے استعارہ کے طور طلع علینا فلان واطلع کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں کسی کے سامنے ظاہر ہونا اور اوپر پہنچ کر نیچے کی طرف جھانکنا قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَنْتُمْ مُطَّلِعُونَ [ الصافات/ 54] بھلا تم اسے جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو اتنے میں وہ خود جھانکے گا ۔ فَاطَّلَعَ [ الصافات/ 55] پھر اوپر جاکر موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کو دیکھ لوں ۔ أَطَّلَعَ الْغَيْبَ [ مریم/ 78] کیا اس نے غیب کی خبر پالی ۔ لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى إِلهِ مُوسی[ القصص/ 38] تاکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں ۔ استطعت ( میں نے اس کی رائے معلوم کی ۔ اطلعت علٰی کذا میں نے تمہیں فلان معاملہ سے آگاہ کردیا طلعت عنہ میں اس سے پنہاں ہوگیا ( اضداد الطلاع ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع کرتا ہو یا ( 2 ) انسان اس پر اطلاع پائے طلعیۃ الجیش ہر اول دستہ امرء ۃ طلعۃ قبعۃ وہ عورت جو بار بار ظاہر اور پوشیدہ ہو اور طلوع آفتاب کی مناسبت سے طلع النخل کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی درخت خرما کے غلاف کے ہیں جس کے اندر اس کا خوشہ ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] جن کا گا بھاتہ بتہ ہوتا ہے طَلْعُها كَأَنَّهُ رُؤُسُ الشَّياطِينِ [ الصافات/ 65] ان کے شگوفے ایسے ہوں گے جیسے شیطانوں کے سر ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] اور کھجوریں جن کے شگوفے لطیف ونازک ہوتے ہیں ۔ الطلعت النخل کھجور کا شگوفے دار ہونا ۔ قو س طلاع الکھف کمان جس سے مٹھی بھر جائے ۔ زور الزَّوْرُ : أعلی الصّدر، وزُرْتُ فلانا : تلقّيته بزوري، أو قصدت زوره، نحو : وجهته، ورجل زَائِرٌ ، وقوم زَوْرٌ ، نحو سافر وسفر، وقد يقال : رجل زَوْرٌ ، فيكون مصدرا موصوفا به نحو : ضيف، والزَّوَرُ : ميل في الزّور، والْأَزْوَرُ : المائلُ الزّور، وقوله : تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] ، أي : تمیل، قرئ بتخفیف الزاي وتشدیده «1» وقرئ : تَزْوَرُّ «2» . قال أبو الحسن : لا معنی لتزورّ هاهنا، لأنّ الِازْوِرَارَ الانقباض، يقال : تَزَاوَرَ عنه، وازْوَرَّ عنه، ورجلٌ أَزْوَرُ ، وقومٌ زَوَّرٌ ، وبئرٌ زَوْرَاءُ : مائلة الحفر وقیل لِلْكَذِبِ : زُورٌ ، لکونه مائلا عن جهته، قال : ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ، وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] ، لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] ، ويسمّى الصّنم زُوراً في قول الشاعر : جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصم لکون ذلک کذبا ومیلا عن الحقّ. ( ز و ر ) الزور ۔ سینہ کا بالائی حصہ اور زرت فلانا کے معنی ہیں میں نے اپنا سینہ اس کے سامنے کیا یا اس کے سینہ کا قصد ( کیا اس کی ملا قات کی ) جیسا کہ وجھتہ کا محاورہ ہے یعنی اس کے سامنے اپنا چہرہ کیا یا اس کے چہرہ کا قصد کیا رجل زائر : ملاقاتی ۔ زائر کی جمع زور آتی ہے جیسا کہ سافر کی جمع سفر مگر کبھی رجل زور بھی آجاتا ہے اس صورت میں یہ مصدر ہوتا ہے جیسا کہ ضعیف کا لفظ ہے نیز الزور کے معنی سینہ کے ایک طرف جھکا ہونا کے ہیں اور جس کے سینہ میں ٹیٹرھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَتَزاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ [ الكهف/ 17] کے معنی یہ ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے یہاں تز اور میں حرف زاد پر تشدید بھی پڑھی جاتی ہے اور بغیر تشدید کے بھی اور بعض نے تزور ( افعال ) پڑھا ہے مگر الحسن (رض) فرماتے ہیں یہ قرات یہاں موزوں نہیں ہے کیونکہ الازورار کے معنی ہیں منقبض ہونا ۔ کہا جاتا ہے تز اور عنہ وازور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی ۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا اور جس کنویں کی کھدائی میں ٹیڑھا پن ہوا سے بئر زوراء کہا جاتا ہے ۔ اسی سے جھوٹ کو الزور کہتے میں کیونکہ وہ بھی جہت راست سے ہٹا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ ظُلْماً وَزُوراً [ الفرقان/ 4] ظلم اور جھوٹ سے ۔ وقَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] جھوٹی بات سے ۔ مِنَ الْقَوْلِ وَزُوراً [ المجادلة/ 2] اور جھوٹی بات کہتے ہیں ۔ لا يَشْهَدُونَ الزُّورَ [ الفرقان/ 72] وہ جھوٹی شہادت نہیں دیتے ۔ اور شاعر کے قول ۔ جاء وا بزوريهم وجئنا بالأصموہ اپنے وہ جھوٹے خدا لے کر آگئے اور ہم اپنے بہادر سردار کو میں زور کے معنی بت کے ہیں کیونکہ بت پرستی بھی جھوٹ اور حق سے ہٹ جانے کا نام ہے ۔ غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ فجا قال تعالی: وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ [ الكهف/ 17] ، أي : ساحة واسعة، ومنه : قوس فِجَاءٌ وفَجْوَاءٌ: بان وتراها عن کبدها، ورجل أَفْجَى بيّن الفجا، أي : متباعد ما بين العرقوبین . ( ف ج و ) الفجوۃ دوچیزوں کے درمیان کشادگی ۔ کھلی جگہ قرآن میں ہے : وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ [ الكهف/ 17] اور وہ اس کے میدان میں تھے یعنی وسیع میدان میں تھے ۔ اسی سے قوس فجاء وفجواء ہے یعنی کمان جو کھینچی ہوئی حالت میں ہو ۔ رجل افجیٰ جس کے دونوں پنڈلیوں کے درمیان فاصلہ ہو ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اور وہ غار ایسی وضع پر ہے کہ دھوپ نکلنے کے وقت تو غار کے داہنی جانب کو بچھی رہتی ہے اور ڈوبنے کے وقت بائیں طرف کو ہٹی رہتی ہے اور وہ لوگ اس غار کے ایک کونے میں تھے یا یہ کہ وہ لوگ اس غار کے ایک کشادہ روشن موقع میں تھے اصحاب کہف کا جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں می... ں سے جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ہدایت عطا فرمائے، وہ ہی ہدایت پاتا ہے اور جس کو وہ اپنے دین سے گمراہ کر دے تو آپ اس کے لیے کوئی مددگار اور ہدایت کا راستہ بتانے والا نہ پائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَات الشِّمَالِ ) یعنی اس غار کا منہ شمال کی طرف تھا جس کی وجہ سے سورج کی براہ راست روشنی یا دھوپ اس میں دن کے کسی وقت بھی نہیں پڑتی تھی۔ ہمارے ہاں بھی دھوپ اور سائے کا یہی اصول کار فرما ہے۔ سورج کسی بھی موسم میں شمال کی طرف نہیں جاتا۔ اسی اصول کے تحت کارخانوں وغیرہ ... کی بڑی بڑی عمارات میں یہاں north light shells کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ایسے shells سے روشنی تو بلڈنگ میں آئے مگر دھوپ براہ راست نہ آئے۔ (وَهُمْ فِيْ فَجْــوَةٍ مِّنْهُ ) یعنی غار اندر سے کافی کشادہ تھی اور اصحاب کہف اس کے اندر کھلی جگہ میں سوئے ہوئے تھے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12. It has not been mentioned that in accordance with this mutual resolve, they left the city and went to a secret cave in the mountains in order to escape from death or forced apostasy. 13. This is to show that the mouth of the cave faced the north. That is why the light of the sun could not enter inside the cave and the one who passed by it could not see who was inside it.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :12 بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرارداد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :13 یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی ... کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اس غار کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اس میں دھوپ نہیں آتی تھی۔ طلوع آفتاب کے وقت سورج اس کی دائیں جانب ہٹ کر نکل جاتا تھا اور غروب کے وقت بائیں جانب اور اس طرح یہ لوگ دھوپ کی تپش سے محفوظ بھی رہے اور اس سے ان کے جسم اور کپڑے بھی خراب نہیں ہوئے اور دھوپ کے قریب سے گذرنے کی وجہ سے گرمی کے فوائد بھی...  حاصل ہوتے رہے۔ 10: یعنی ان لوگوں کا اس غار میں پناہ لینا، اتنے لمبے عرصے تک سوتے رہنا اور دھوپ سے محفوظ رہنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی تھی۔   Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧: اس قصہ میں اللہ کی قدرت کی جس طرح اور نشانیاں ہیں یہ بھی ایک نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جوانوں کے جسموں کو دھوپ مینہ اور برف کے صدمہ سے بچا دیا ہے مینہ اور برف ہر روز کے صدمہ کی چیزیں نہیں ہیں موسمی چیزیں ہیں اس واسطے فقط دھوپ کا ذکر فرمایا کہ بارہ مہینے کے صدمہ کی چیز ہے بعضے علماء نے غار کے...  دیواروں کی بلندی کو دھوپ کے غار میں نہ آنے کا سبب قرار دیا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ دیواروں کی بلندی مینہ اور برف کو نہیں روک سکتی اس واسطے یہی قول صحیح ہے کہ جس صاحب قدرت نے اس غار سے مینہ اور برف کو روکا اس نے دھوپ کو غار کے دائیں بائیں کر کے غار کو دھوپ سے بچا دیا علاوہ اس کے ان جوانوں کا سونا غار کے میدان میں بیان کر کے دھوپ کے دائیں بائیں کے جانب کردینے کا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے یاد دلانے کا ذکر جو آیت میں اس سے بھی اس قول کا صحیح ہونا معلوم ہوتا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص جنت میں جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل اور جو لوگ جس انجام کے قابل پیدا ہوئے ہیں ان کو ویسے ہی کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس آیت اور دوسری آیتوں میں قدرت کی نشانیوں کا جو ذکر ہے ان قدرت کی نشانیوں سے وہی لوگ راہ راست پر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں جنت کے قابل ٹھہر چکے ہیں اور جو لوگ دوزخ کے قابل ٹھہر چکے ہیں ان کو گمراہی کے کام اچھے اور آسان معلوم ہوتے ہیں اس لیے کوئی قدرت کی نشانی ان کو راہ پر نہیں لاسکتی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے کی توفیق نہیں دی جاتی کیونکہ دنیا نیک وبد کے امتحان کے لیے پیدا کی گئی ہے کسی کو مجبور کر کے راہ راست پر لانے کے لیے نہیں پیدا کی گئی کس لیے کہ مجبوری کی حالت میں وہ امتحان اور آزمائش کا موقع باقی نہیں رہتا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:17) تز اور مضارع واحد مؤنث غائب الزور کے معنی ملاقات کرنا۔ زیارت کرنا باب تفاعل سے باہم ایک دوسرے کی زیارت کرنا الزور کے معنی سینے کے ایک طرف جھکا ہونے کے بھی ہیں۔ اسی لئے جس کے سینے میں ٹیڑھا پن ہو اسے الازور کہتے ہیں جب تز اور کے صلہ میں عن آئے تو رخ بچانے، سینہ موڑنے ، بچ کر نکلنے اور کترا... نے کے معنی ہوتے ہیں لہٰذا تز اور عنہ اس نے اس سے پہلو تہی کی۔ اس سے ایک جانب ہٹ گیا۔ یہاں اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں۔ تز اور اصل میں تتز اور تھا تخفیف کے لئے ایک ت کو حذف کیا گیا۔ تز اور عن کھفہم کے معنی ہیں کہ سورج ان کے غار سے ایک طرف کو ہٹ کر نکل جاتا ہے۔ تقرضہم۔ مضارع واحد مؤنث غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ وہ ان سے کترا جاتی ہے قرض کے معنی کترنا اور قطع کرنے کے ہیں۔ اس سے مقراض بمعنی قینچی قرضۃ ومقروض ہیں۔ فجوۃ۔ الفجوۃ کے معنی ود چیزوں کے درمیان کشادگی کے ہیں۔ کھلی جگہ، وسیع میدان ۔ منہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کہف کے لئے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان کے غار کا منہ شمال کے رخ تھا۔7 کہ انہیں غار کی راہ دکھائی جہاں زندہ رہنے یک لئے دھوپ اور ہوا کی جس مقدار کی ضرورت تھی وہ انہیں ملتی رہی اور وہ لوگوں کی نگاہ سے محفوظ بھی رہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 18 طلعت نکلی ہے۔ نکلا ہے۔ تز اور بچ جاتا ہے۔ ذات الیمین دائیں جانب۔ تقرض کترا جاتی ہے۔ ذات الشمال بائیں طرف ۔ فجوۃ کشادہ۔ کھلی جگہ۔ مرشد راستہ پر لانے والا۔ ایقاظ جاگتا ہوا۔ رقود سوئے ہوئے۔ نقلب ہم بدلتے ہیں۔ کلب کتا۔ باسط پھیلانے والا۔ ذراعین دونوں بازو۔ الوصید دہلیز۔ غار...  کا منہ ۔ اطلعت تو نے جھانکا۔ ولیت تو مڑ جاتا ہے۔ فرار بھاگنا۔ ملئت بھر دیا گیا۔ رعب دہشت، رعب۔ تشریح آیت نمبر 17 تا 18 اصحاب کہف اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں اس لئے اللہ نے اپنی قدرت کا ملہ سے ان کے لئے ایسا نظام فرما دیا کہ جس پر جتنا بھی غور کیا جائے گا علم و عقل رکھنے والے اس کو ایک نشانی ماننے پر مجبور ہوجائیں گے۔ دھوپ اور تازہ ہوا انسای جسم کے لئے ضروری ہے اس لئے اللہ نے اس غار میں ایسا انتظام فرما دیا تاکہ سورج کی گرمی، تپش اور شدت انہیں محسوس نہ ہوا اور تازہ ہوا برابر انہیں پہنچتی رہے۔ فرمایا کہ وہ غار ایک کھلی جگہ پر واقع ہے جب سورج نکلتا ہے تو وہ ان کے غار سے داہنی طرف سے بچ کر نکل جاتا ہے اور جب سورج ڈھلتا ہے تو وہ بائیں طرف سے کترا کر نکل جاتا ہے۔ اس طرح وہ غار ہر طرح کی گرمی اور شدت سے محفوظ رہتا ہے۔ فرمایا کہ یہ اللہ کی کھلی ہوئی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے یہ اس کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے جس کو ہر آنکھ والا دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی بہت سے لوگ ہدایت حاصل کرنے کے بجائے گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو دیکھتے بھالتے راہ ہدایت سے منہ موڑ لیتے ہیں ان کو کوئی ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اللہ کے ان ظاہری انتظامات سے اصحاب کہف نہایت آرام اور سکون سے بیخبر سو رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کو دیکھے تو اسے ایسا معلوم ہوگا۔ جیسے وہ جاگ رہے ہیں۔ اللہ ان کو ایک پہلو پر نہیں لٹاتا بلکہ ان کو ادھر ادھر کروٹیں دلاتا رہتا ہے۔ فرمایا کہ وہ شکاری کتا جو ان میں سے کسی کے ساتھ لگ کر آگیا تھا وہ بھی غار کے دھانے پر اپنے دونوں پاؤں پھیلائے بیٹھا ہے۔ یعنی سارے ایسے انتظامات کردیئے ہیں جس سے دیکھنے والا یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ کچھ لوگ ہیں جو ذرا دیر کے لئے آرام کرنے لیٹ گئے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے ایک انتظام یہ بھی کردیا ہے کہ اگر کوئی ان کو دیکھے تو اس پر ایک ایسا رعب و دہشت طاری ہوجائے کہ جس سے وہ الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوجائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے گھر بار اور اس کی راحتوں کو چھوڑ کر ایمان کی سلامتی کے لئے پہاڑوں کا انتخاب کیا جہاں کسی طرح کا آرام و سکون ملنے کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں ہوتا لیکن جو لوگ اللہ کے لئے قربانیاں دیتے ہیں اللہ ان کے دلی جذبات کو قبول کر کے ان کے لئے راحت و آرام کا ہر سامان عطا فرما دیتے ہیں۔ کفار مکہ اور قیامت تک آنے والے لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ بھی اللہ کے لئے قربانیاں دیں گے تو ان کی ہر جدوجہد کی اسی طرح قدر کی جائے گی۔ نیک لوگوں کی صحبت بھی اتنی بڑی چیز ہے کہ وہ شکاری کتا جو ان صاحبان ایمان نوجوانوں کے ساتھ لگ کر آگیا تھا اور بھوکا پیاسا رہ کر بھی کسی دوسرے در پر نہیں گیا بلکہ ان نیک لوگوں کے ساتھ بھوکا پیاسا رہ کر بھی اسی در سے چمٹا رہا۔ اللہ نے اس کی اتنی قدر فرمائی کہ یہ کتا جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اس کو شرف انسانیت سے نوازا جائے گا۔ شیخ سعدی نے اسی بات کو ایک شعر میں فرمایا کہ حضرت نوح جیسے جلیل القدر پیغمبر کا بیٹا کنعان کفار و مشرکین کے طریقوں پر چلا اور ایمان کی دولت سے محروم رہا تو وہ جہنم کا مستحق بن گیا لیکن اصحاب کہف کا وہ کتا جس نے نیک لوگوں کا ساتھ نہ چھوڑا اس کو شرف انسانیت سے نوازا جائے گا۔ اس جگہ کتے کا ذکر کتے کی شرافت اور عزت کے لئے نہیں کیا گیا جس سے اپنے گھروں میں کتنے پالنے کے لئے دلیل لے لی جائے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے جو کہ بیان کردیا گیا ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے پالنے اور تصویریں لگانے کی سخت ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس گھر میں کتا اور تصویر ہوتی ہے اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ ممکن ہے گزشتہ شریعتوں میں کتنے پالنے کی گنجائش موجود ہو۔ لیکن شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ شریعت میں شکاری کتا پالنے کی تو اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے جو شرائط ہیں ان کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ کیونکہ جو کتے شوقیہ پالے جاتے ہیں شریعت میں اس کی قطعاً گنجائش اور اجازت نہیں ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی غار کے دروازے سے الگ رہتی ہے۔ 4۔ یعنی اس وقت بھی دروازے پر نہیں پڑتی تاکہ دھوپ سے ایذا نہ ہو۔ غار کی داہنی اور بائیں جانب یا تو اس میں داخل ہونے والے کے اعتبار سے پس تقدیر اول پردہ غار شمال الرویہ ہوگا، اور تقدیر ثانی پر جنوب رویہ، اور شرق رویہ ہونے میں طلوع کے وقت ان پر دھوپ پڑتی اور غروب ر... ویہ ہونے میں غروب کے وقت اور مقصود اس سے اس جگہ کا محفوظ ہونا ہے۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، جس غار میں نوجوان داخل ہوئے اس کا نقشہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رہنمائی سے انہیں ایسی غارکا انتخاب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی کہ جس کا اندرونی اور بیرونی نقشہ یوں بیان فرمایا ہے کہ صبح کے وقت سورج غار کے دہانے پر دائیں طرف مڑجاتا اور غروب کے وقت دہانے سے بائیں...  سمت ہوجاتا۔ اس طرح وہ دوپہر اور پچھلے پہر سورج کی تمازت سے محفوظ کردیئے گئے۔ اس غار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ گویا کہ غار ہر اعتبا رسے محفوظ ہونے کے ساتھ تازہ ہوا اور مناسب روشنی کی مرکز بنادی گئی۔ غار اندر سے اس قد رکشادہ اور ہموار تھی جس کے لیے ” فجوۃ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنیٰ ہے ” چٹیل میدان “۔ اسکے ساتھ ہی غار پر اس قدر اللہ تعالیٰ نے اپنی جلالت وجبروت کا رعب ڈال دیا تھا۔ کہ عام شخص تو درکنار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ آپ بھی اس غار کی ہیبت دیکھ کر اس کے اندر جانے کی ہمت نہیں کرسکیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی ہے کہ جو اس سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جو گمراہی کو پسند کرتا ہے اسے وہ گمراہ رہنے دیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی کی ملک ہیں۔ لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے وہ اپنے لیے کسی کو ولی اور مرشد نہیں پائے گا۔ سبحان اللہ یہاں کیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ دنیا میں گمراہ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ولی اور مرشد سمجھتے ہیں جو حقیقتاً ان کے دشمن اور خود گمراہ ہوتے ہیں۔ وہ ولایت کے پردے اور مرشد ہونے کی آڑ میں لوگوں کے مال، جان اور ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ غار نہ صرف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ بلکہ اس میں آرام کرنے والے توحید کے علمبرداروں کی حالت یہ ہے کہ مدت تک وہ پر سکون نیند میں محو خواب رہے۔ مگر دیکھنے والا ان کے چہروں کی تروتازگی دیکھ کر سمجھتا کہ یہ جاگ رہے ہیں نہ صرف وہ جاگ رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بھی تبدیل کرتارہا۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ٢۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے۔ ٣۔ جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن ہدایت و گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ١۔ جسے اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی دوست اور راہ بتانے والا نہیں پاؤ گے۔ (الکہف : ٧ ١) ٢۔ جس کو آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ ہدایت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ ہدایت دیتا ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پر ہے۔ جس کو وہ گمراہ کردے وہ نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ١٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٤)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ عجیب مصورانہ منظر ہے ، غار کے اندر پڑے ہوئے نوجوانوں کی ہو بہو تصویر کشی کی گئی ہے۔ الفاظ کے ذریعے ایسی تصویر کشی جس طرح فلم چل رہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں۔ سورج طلوع ہوتا ہے اور وہ ایک طرف ہو کر گزر جاتا ہے گویا وہ عمداً ایسا کر رہا ہے تو اور کا لفظ سورج کے طلوع کے عمل کے ساتھ ساتھ سورج کے ارادے ... کا اظہار بھی کرتا ہے۔ یعنی وہ ان کو چھوڑ کر دائیں طرف نکل جاتا ہے اور جب وہ غروب وہتا ہے کہ وہ شمال کی طرف ہو کر گزر جاتا ہے اور یہ لوگ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔ اس منظر کی تکمیل سے پہلے درمیان میں ایک قرآنی تبصرہ بھی آجاتا ہے۔ قرآن کا یہ مخصوص اسلوب کلام ہے کہ قصے کے درمیان مناسب جگہ پر انسانی دلوں کو اللہ کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔ ذلک من ایت اللہ (٨١ : ٨١) ” یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ “ ان کو غار میں یوں رکھنا ، سورج کی شعاعوں سے ان کو محفوظ رکھنا ، اور سورج کی روشنی ان کو فراہم کرنا اور غار کے اندر ان کو اس حال میں رکھنا کہ نہ مرتے ہیں اور نہ حرکت کرتے ہیں۔ من یھد اللہ فھو المھتد ومن یضلل فلن تجدلہ ولیا مرشداً (٨١ : ٨١) ” جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی مرشد نہیں پا سکتے۔ “ ہدایت اور ضلالت کے لئے ایک قانون قدرت اور ایک سنت الہیہ ہے جو شخص آیات الہیہ کو دیکھ کر ہدایت کی راہ لے ، اس کے ناموس قدرت کے تحت تو وہ حقیقی ہدایت ہوگا اور جس نے ہدایت کے اسباب ہی فراہم نہ کئے وہ گمراہ ہوا اور اس کی گمراہی بھی سنت الہیہ کے مطابق اور ناموس قدرت کے تحت ہوتی ہے اور اسے یوں اللہ ہی گمراہ کردیتا ہے اور پھر اس کا کوئی ولی مرشد نہیں ہوتا۔ اس درمیانی نوٹ کے بعد یہ منظر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ لوگ سوتے میں کروٹیں لے رہے ہیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ سو رہے ہیں اور ان کا کتا کتوں کی عادت کے مطابق اپنے باز و غار کے دہانے پر پھیلائے سو رہا ہے۔ گویا وہ ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں جو بھی ان کو دیکھے مرعوب ہو کر بھاگ اٹھے۔ کیونکہ وہ اس طرح سو رہے ہیں کہ جاگتے نظر آتے ہیں ، کروٹ بدل رہے ہیں اور جاگتے نہیں۔ یہ تھی اللہ کی تدبیر ان کے بارے میں تاکید وہ اپنے مقررہ وقت تک یوں ہی رہیں۔ … اچانک یہ لوگ جاگ اٹھتے ہیں۔ ان میں زندگی کی حرکت دوڑ رہی ہے دیکھو اور سنو اس نئیم نظر کو۔ “  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غار کی کیفیت، سورج کا کترا کر جانا کتے کا ہاتھ بچھا کر بیٹھا رہنا ان آیات میں اصحاب کہف کی حالت کا بیان فرمایا ہے جو غار میں داخل ہونے کے بعد پیش آئی، یہ لوگ غار کے اندر ایک کشادہ جگہ میں پہنچ کر لیٹ گئے، اس غار کی جائے وقوع اس طرح سے تھی کہ روزانہ سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں چھپ جاتا تھا لیکن ... اس کی دھوپ ان پر نہیں پڑتی تھی جب سورج نکل کر چڑھتا تھا اور دھوپ پھیلتی تھی تو غار کی داہنی جانب سے اس طرح ہٹی ہوئی رہ جاتی تھی کہ اس کے دروازہ تک نہ پہنچتی تھی اور جب سورج چھپنے لگتا تھا تو اس وقت جو تھوڑی بہت دھوپ ہوتی ہے وہ غار کی بائیں جانب رہ جاتی تھی یعنی اس وقت بھی دروازہ پر دھوپ نہ پڑتی تھی۔ اصحاب کہف کے اندر رہنے کی کیفیت بتا کر ارشاد فرمایا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کے دلوں کو مضبوط کیا اپنی قوم سے جدا ہونے میں انہوں نے ہمت اور جرأت سے کام لیا پھر اللہ کے توکل پر غار میں داخل ہوگئے اور اللہ سے رحمت کی امید باندھ لی اور اللہ کی طرف سے آسانی حاصل ہونے کی آرزو کرتے ہوئے غار میں چلے گئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، اس نے دل بھی پکا کیا ہمت بھی دی مخلوق سے کٹنے کا حوصلہ بھی دیا انہوں نے اسباب ظاہرہ پر نظر نہ کی، اپنے مولائے حقیقی پر توکل کرکے غار میں داخل ہوگئے اللہ تعالیٰ نے انہیں غار بھی وہ نصیب فرمایا جس میں دھوپ کا گزر ہی نہ تھا اگر دھوپ پڑتی تو اس سے تکلیف پہنچنے اور گرمی سے پریشان ہونے کا اندیشہ تھا۔ (مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ ) (اللہ جسے ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے) (وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَلَہٗ وَ لِیًّا مُّرْشِدًا) (اور اللہ جسے گمراہ کردے، تو اے مخاطب تو اس کے لیے کوئی مددگار ہدایت دینے والا نہ پائے گا) اس میں ایک طرف تو اصحاب کہف کی ہدایت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مشرک قوم میں سے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت دی اور دوسری طرف یہود مدینہ اور مشرکین مکہ کی بےراہی کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف کے بارے میں معلوم کیا اور جب آپ نے انہیں بتادیا پھر بھی ایمان نہ لائے، اس کے بعد اصحاب کہف کے بقیہ احوال بیان فرمائے اول تو یہ فرمایا (وَ تَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّ ھُمْ رُقُوْدٌ) اے مخاطب اگر تو ان جوانوں کے کہف میں ہونے کے زمانہ میں ان پر نظر ڈالتا تو ان کے بارے میں یہ خیال کرتا کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے، اس کے بارے میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ گو وہ سو رہے تھے لیکن آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ آنکھیں تو بند تھیں لیکن جسموں پر کوئی نیند کا اثر نہیں تھا۔ یعنی سونے کی وجہ سے جو اعضاء میں فتور اور ڈھیلا پن آجاتا ہے ان میں سے کوئی چیز ظاہر نہ تھی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ یہاں سے لے کر ” ذلک من ایت اللہ “ تک ” کانوا من ایتنا عجبا “ کی تفصیل ہے۔ ” وتری “ سے خطاب ہر مخاطب سے ہے ” تزٰور “ اصل میں تتز اور تھا۔ ایک تا تخفیفا حذف کردی گئی۔ تزاورای تمیل۔ ایک طرف ہوجاتا ہے۔ تقرضھم ای تعدل عنھم یعنی غار کے دھانے سے کترا کر گذرتا ہے۔ ” فجوۃ “ ای متسع من الکہف۔ غار کے اندر...  فراخ جگہ۔ دونوں جملوں کا حاصل یہ ہے کہ غار کچھ اس طرح واقع تھا کہ غار کے اندر سونے والوں پر دن کے کسی وقت بھی دھوپ نہیں پڑ سکتی۔ مگر تازہ ہوا ہر وقت پہنچ سکتی تھی۔ تو غار میں عرصہ دراز تک سوئے رہنا اور ہر قسم کی تکلیف اور گزند سے محفوط رہنا۔ یہاں تک کہ اس اثنا میں ان پر سورج کی کرن تک نہیں پڑی اس میں اصحاب کہف کی قدرت اور ان کے اختیار و تصرف کو کوئی دخل نہیں تھا۔ بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے کیا اور یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے واضح نشانات ہیں۔ 17:۔ اللہ تعالیٰ نے تو توحید کے دلائل واضح فرما دئیے ہیں۔ اب ہدایت اور ایمان کی توفیق صرف اسی کو ملے گی جو طلب صادق سے راہ ہدایت کا متلاشی ہوگا اور جو جان بوجھ کر عنادا گمراہی اختیار کرتے گا۔ اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 اور اے مخاطب جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو تو دیکھے گا کہ دھوپ ان کے غار سے دائیں جانب کو بچتی رہتی ہے اور جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو دھوپ ان سے بائیں جانب کترا جاتی ہے اور ان اصحاب کہف کی حالت یہ ہے کہ وہ اس کھوہ کے کشادہ اور فراخ میدان میں ہیں یہ بات باوجود میدان میں ہونے یک وہ آفتاب کی تمازت اور دھوپ...  کی گرمی سے محفوظ ہیں اللہ تعالیٰ کے نشان ہائے قدرت میں سے ایک نشانی ہے جس کی رہنمائی اللہ تعالیٰ فرمائے اور جس کو ہدایت دے وہی ہے راہ یافتہ اور جس کو وہ بےراہ رکھے اور جس سے وہ دست کش ہوجائے تو آپ اس کا کوئی ایسا مددگار نہ پائیں گے جو اس کی رہنمائی کرسکے۔ یعنی اس کھوہ کا جائے وقوع کچھ ایسا واقع ہوا ہے اور شمال رویہ یا جنوب رویہ کچھ اس طور سے وہ کھوہ واقع ہوئی ہے کہ غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کے وقت دھوپ ان اصحاب کہف سے بچ کر نکل جاتی ہے اور ان کو تکلیف نہیں ہوتی وہ ایک کشادہ میدان میں ہیں یعنی پہاڑ کے اندر کھوہ میں بعض حصے تنگ اور بعض کشاد ہ ہوتے ہیں تو وہ اصحاب کہف ایک ایسے حصے میں ہیں جو فراخ اور کشادہ ہے جہاں روشنی بھی ہے اور ہوا بھی یہ باوجود کم زوری اور ضعف کے ان کو ایسی جگہ کامل جانا اور دشمنوں سے ان کو محفوظ رکھنا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں سے ایک قدرت اور نشان ہے، اللہ تعالیٰ جس کی رہنمائی اور سرپرستی فرمائے تو اس پر ہدایت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جس سے پردہ ہاتھ اٹھا لے اور بےراہ چھوڑ دے اس کا کوئی مددگار اور رہنما نہیں ہوسکتا اور نہ تم کو اس کا کوئی سرپرست اور مرشد مل سکتا ہے۔  Show more