Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 25

سورة الكهف

وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمۡ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَ ازۡدَادُوۡا تِسۡعًا ﴿۲۵﴾

And they remained in their cave for three hundred years and exceeded by nine.

وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Length of their Stay in the Cave Allah says: وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَثَ مِايَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا And they stayed in their cave three hundred years, adding nine. Here Allah tells His Messenger the length of time the people of the Cave spent in their cave, from the time when He caused them to sleep until the time when He resurrected them and caused the people of that era to find them. The length of time was three hundred plus nine years in lunar years, which is three hundred years in solar years. The difference between one hundred lunar years and one hundred solar years is three years, which is why after mentioning three hundred, Allah says, `adding nine.' قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ... لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا

اصحاب کہف کتنا سوئے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے ، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھے ۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کر فرق پڑتا ہے ، اسی لئے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اسکا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کو صحیح علم ہے ، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے ، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے ۔ قتاردہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھیرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرأت مروی ہے ۔ لیکن قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لئے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں تین سو نو کا ان کا قول تامل نہیں ، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے ۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے ، یہی اختیار امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت دونوں منقطع ہیں ۔ پھر شاذ بھی ہیں ، جمہور کی قرأت وہی ہے جو قرآنوں میں ہے پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے ، ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے ، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے ۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں ، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں ۔ سب کے علم دیکھ رہا ہے ، سب کی باتیں سن رہا ہے ، خلق کا خالق ، امر کا مالک ، وہی ہے ۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں نہ کوئی شریک اور مشیر ہے وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے ، تمام نقائص سے دور ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے 309 سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انھیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ' کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھرے رہنے کا بخوبی علم ہے ' جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت :۔ یہ مدت شمسی تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو سال تھی اور قمری تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو نو سال تھی۔ اس آیت میں مذکور مدت اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ اگر مہینوں اور دنوں کی کسور کو چھوڑ دیا جائے تو تین سو شمسی سالوں کے قمری سال تین سو نو ہی بنتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ مدت کی تعیین اللہ کا کلام ہے یا لوگوں کے اقوال ہیں جو یہاں اللہ تعالیٰ نے حکایتاً نقل فرمائے ہیں تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ لوگوں کے اقوال ہیں اگر یہ اللہ کا قول ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں یوں نہ فرماتے کہ && اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت وہ (غار میں) ٹھہرے رہے &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ۔۔ : بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نو سالوں کا ذکر الگ اس لیے فرمایا کہ اگر شمسی سال ہوں تو تین سو سال اور قمری ہوں تو ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال تھی۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ” ثَلاَثَمِاءَۃٍ وَ تِسْعَ سِنِیْنَ “ (یعنی تین سو نو سال) کہنا کافی بھی تھا اور مختصر بھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شمسی اور قمری کے اس فرق کی کوئی دلیل نہیں۔ نو سالوں کو الگ ذکر کرنے کی وجہ آیات کے فواصل (آخری الفاظ) ہیں، جن سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور بلاغت کے لحاظ سے قرآن کے الفاظ ” ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا “ کے درمیان اور ” ثَلاَثَمِاءَۃٍ وَ تِسْعَ سِنِیْنَ “ کے درمیان فرق زمین و آسمان کا ہے۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ کبھی اختصار میں حسن ہوتا ہے اور کبھی تطویل میں۔ اس لیے ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال ہی تھی، قمری سال تھے تو سب قمری اور شمسی تھے تو سب شمسی۔ تین سو شمسی اور تین سو نو قمری کی تفریق ایک ذہنی اپج کے سوا کچھ نہیں۔ (محاسن التاویل)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

As for the period of sleep in the Cave given as three hundred nine years in the third verse (27), this statement concerning the time dura¬tion, as evident from the sequential arrangement of the Qur’ an, is but from Allah Ta’ ala. Ibn Kathir has declared this to be the position of the majority of commentators, earlier and later. Abu Hayyan and al-Qurtubi have also adopted this view. But, they have also reported another saying from Qatadah and others. It holds that this statement of three hundred nine years is also the saying of some of those who had differed and that the saying of Allah was what was said later: اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا (Allah knows best how long they stayed - 26). The reason is, had the earlier statement giving the duration as three hundred nine years been the word of Allah, there would have been no occasion for saying: اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا (Allah knows best how long they stayed) after that. But, the majority of commentators have said that both these sentences are the word of Allah. The first one describes reality as it is. The second one warns those who differ with it. They have been told that once the statement giving the duration has come from Allah, accepting it is mandatory. Since He is the One who really knows, trying to differ with Him on the basis of mere conjectures and opinions is (to make an understatement) unreasonable. The question that arises here is about the manner in which the Holy Qur&an has described the duration of stay. First it mentions three hun¬dred years. After that, it has said that added to those three hundred there are nine. The number three hundred nine was not given initially. According to commentators, there is a reason for it. Since the Jews and Christians followed the Solar Calendar, their count remained three hun¬dred years. And since Islam goes by the Lunar Calendar in which three more years are added every hundred years, therefore, three hundred years of Solar Calendar become nine more years in accordance with the Lunar Calendar. It was to tell the difference between the two years that this expressive diction was employed.

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے معاملے میں خود ان کے زمانے میں، پھر عہد نبوی کے اندر یہود و نصاری میں دو باتیں زیر اختلاف تھیں ایک اصحاب کہف کی تعداد دوسری غار میں ان کے سوتے رہنے کی مدت، قرآن نے ان دونوں کو بیان تو کردیا، مگر اس فرق کے ساتھ ان کی تعداد کا بیان صریح الفاظ میں نہیں آیا، اشارے کے طور پر آیا، کہ جو قول صحیح تھا اس کی تردید نہیں کی اور مدت کی تعیین کو صاف وصریح الفاظ میں بتلایا وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اپنے اس اسلوب سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ تعداد کی بحث تو بالکل ہی فضول ہے، اس سے کسی دینوی دینی مسئلہ کا تعلق نہیں البتہ مدت دراز تک خلاف عادت انسانی سوتے رہنا اور بغیر غذا کے صحیح تندرست رہنا پھر اتنے عرصہ کے بعد صحت مند اور قوی اٹھ کر بیٹھ جانا ایک نظیر حشر ونشر کی ہے اس سے مسئلہ قیامت و آخرت پر استدلال ہوسکتا ہے، اس لئے اس کو بصراحت بیان کردیا۔ جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں یا کم از کم آج کل کے مستشرقین یہود و نصاری کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر ان میں تاویلیں کرنے کے خوگر ہوگئے ہیں انہوں نے اس آیت میں بھی حضرت قتادہ کی تفسیر کا سہارا لے کر تین سے نو سال کی مدت انہی لوگوں کا قول قرار دے کر رد کرنا چاہا ہے، مگر اس پر غور نہیں کیا کہ قرآن کے ابتدائی جملے میں جو لفظ سِنِيْنَ عَدَدًا کا آیا ہے اس کو تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا قول نہیں کہا جاسکتا، خرق عادت اور کرامت کے ثبوت کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ سالہا سال کوئی سوتا رہے اور پھر صحیح، تندرست زندہ اٹھ کر بیٹھ جائے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۝ ٢٥ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ كهف الْكَهْفُ : الغار في الجبل، وجمعه كُهُوفٌ. قال تعالی: أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] . ( ک ہ ف ) الکھف کے معنی پہاڑ میں غار کے ہیں اس کو جمع کھوف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ مئة المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال : أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ. م ی ء ) المائۃ ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غار میں اصحاب کہف کی مدت قیام قول باری ہے (ولبثوا فی کھفھم ثلثمائۃ سنین وازدادواتسعاً ) اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمار میں) نو سال اور بڑھ گئے ہیں) قتادہ سے مروی ہے یہ یہود کے قول کی حکایت ہے اس لئے کہ اللہ نے فرمایا (قل اللہ اعلم بما لبثوا تم کہو اللہ ان کے قایم کی مدت زیادہ جانتا ہے ) مجاہد، ضحاک اور عبید بن عمیر کا قول ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ غار میں ان کے قیام کی مدت اتنی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اگر اہل کتاب اس معاملے میں تم سے بحث کرنے پر اتر آئیں تو ان سے کہہ دو ۔ اللہ ان کے قیام کی مدت کو زیادہ جانتا ہے۔ قتادہ کا قول واضح نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی خبر کو کسی دلیل کے بغیر کسی اور کے قول کی حکایت قرار دینا درست نہیں ہے۔ نیز یہ قول اس امر کو بھی واج بکر رہا ہے کہ اصحاب کہف کے قیام کی مدت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مدت کے بیان کے ذریعے یہ چاہا ہے کہ ہم عبرت حاصل کریں اور اس کی قدرت کی رنگا رنگی اور اس کی مشیت کے نفاذ پر اس سے دستدلال کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) اور وہ غار میں بیدار ہونے سے پہلے تین سو نو سال تک رہے ہیں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ والبثوا فی کہفہم “۔ (الخ) ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( آیت) ” ولبثوا فی کہفھم ثلث مائۃ “۔ تو آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے تین سو سال مراد ہیں یا تین سو مہینے پھر اس پر یہ جملہ نازل ہوا۔ ( آیت ) ” سنین وازدادواتسعا “۔ یعنی تین سو برس تک رہے اور نو برس اوپر اور ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا) یعنی غار میں ان کے سونے کی مدت شمسی کیلنڈر میں تین سو سال جبکہ قمری کیلنڈر کے مطابق تین سو نو سال بنتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25. This sentence is connected with the theme preceding the parenthetical clause like this. Some people will say: “They were three and the fourth was their dog...”, and some people will say that they remained in the cave for three hundred years and some others would add nine more years (to the reckoning of the period). We are of the opinion that the number of the years, 300 or 309, has not been stated by Allah Himself but Allah has cited these as sayings of the people. This opinion is based on this succeeding sentence: Allah knows best about the period of their stay there. If the number of years, given in (Ayat 25), had been from Allah, this succeeding sentence would have been meaningless. Abdullah bin Abbas has also opined that this is not the saying of Allah but that of the people which has been cited as a part of the story.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :25 اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے ۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی قول ۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے ۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی ، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے ۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی شمشی حساب سے تین سو سال تک اور قمری حساب سے تین سو نو سال تک سوتے رہے کیونکہ تین سو خمشی سالوں کا گر قمری سالوں سے حساب کیا جائے تو تین سو نو سال بنتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 25 تا 26 لبثوا وہ ٹھہر رہے، رکے رہے۔ ثلث مائۃ تین سو، (سال) ۔ ازدادوا انہوں نے بڑھایا۔ تسعاً (نو 9) ۔ اعلم زیادہ بہتر جانتا ہے۔ ابصربہ اس کے ساتھ زیادہ دیکھنے کی طاقت۔ اسمع بہ اس کے سننے کی زیادہ طاقت۔ احد کوئی ایک، کسی کو۔ تشریح : آیت نمبر 25 تا 26 اللہ کو اس بات کا پوری طرح اور بہتر علم ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جنہیں اصحاب کہف کہا جاتا ہے وہ تین سو نوسال تک اس غار میں سوتے رہے ہیں۔ وہ جتنی دیر بھی سوئے انہیں اٹھنے کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دن بھر یا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ انہیں اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ ان پر صدیاں بیت گئیں۔ جس شہر میں وہ رہتے تھے اس شہر کا انداز، رہن سہن، سلطنت کا انداز، سکہ (کرنسی) سب بدل چکے تھے۔ اصحاب کہف کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی طویل مدت تک سوتے رہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ تم چپکے سے پوری احتیاط کے ساتھ شہر جا کر ہم سب کے لئے کھانا لے آؤ۔ اس طرح جانا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ چناچہ اصحاب کہف میں سے ایک شخص جس کا نام مفسرین نے یملیخا بتایا ہے وہ شہر گیا اور اس طرح (جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے) لوگوں پر ان کا حال کھل گیا۔ اس پوری واقعہ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سے سامنے آتی ہے کہ اس کائنات میں ساری قدرتیں صرف اللہ کی ہیں غیب کا سارا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ وہ اس میں سے جس کو چاہے جتنا چاہے غیب کا علم فرما دیتا ہے لیکن قدرتیں اللہ کی ہیں غیب کا سارا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ وہ اس میں سے جس کو چاہے جتنا چاہے غیب کا علم فرما دیتا ہے لیکن غیب کا علم جاننے سے کوئی شخص عالم الغیب نہیں بن جاتا صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے۔ چناچہ اس واقعہ میں صاف ظاہر ہے کہ اصحاب کہف کو کچھ معلوم نہ تھا کہ صدیوں تک انپر کیا گذری ہے۔ اسی طرح حضرت یوسف جو اللہ کے پیغمبر ہیں ان کا یہ حال ہے کہ جب حضرت یوسف کے حاسد بھائیوں نے ان کنوئیں میں پھینک دیا اور اس سے مطمئن ہوگئے کہ حضرت یوسف تڑپ تڑپ کر اس کنوئیں میں جان دے چکے ہوں گے تب انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب کو یہ جھوٹی خبر پہنچائی کہ حضرت یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کی بات پر صبر فرما لیا۔ اور ان کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ ان کا لخت جگر صرف کچھ فاصلے پر ایک کنوئیں میں پھینک دیا گیا ہے لیکن جب حضرت یوسف مصر کے بادشاہ بن گئیا ور انہوں نے اپنے والد کے لئے اپنا قمیص بھیجاتا کہ وہ قمیص ان کے چہرے پر ڈال دیا جائے اور ان کی بینائی دوبارہ لوٹ آئے ادھر وہ قمیص مصر سے فلسطین کی طرف روانہ ہوا ہے (وہ فلسطین جو مصر سے ایک طویل فاصلے پر ہے) تو حضرت یعقوب نے فرمایا کہ مجھے یوسف کے پیراہن کی خوشبو آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔ وہی ہر غیب کا پوری طرح علم رکھتا ہے اور علم الغیب جتنا کسی کو دینا چاہے دیدیتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اس کائنات میں ساری قوتیں صرف اللہ کے لئے ہیں اس کو ہر چیز کا علم ہے وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات کے نظام کو چلاتا ہے۔ وہ اس کائنات کے چلانے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ یہ انسان کی سعادت ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اصحاب کہف کی غار میں مدت قیام تین سونو سال بتلانے کے بعد پھر یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کو بتلا دیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اس میں کتنی مدت ٹھہرے رہے۔ وہی زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ وہ ہر چیز کو خوب دیکھتا اور ہر بات کو اچھی طرح سننے والا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہاں یہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے اسی طرح کائنات کا خالق ومالک ہونے کے ساتھ واحد حاکم ہے۔ اس کے ہر حکم میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ زمین و آسمانوں میں کوئی ہستی نہیں جو اس کے حکم میں مداخلت کرسکے وہ حاکم مطلق ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ اس کے بندوں پر اسی کا حکم چلنا چاہیے۔ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ )[ المائدۃ : ٤٤] ” جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ “ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ )[ المائدۃ : ٤٥] ” جو اس کے حکم کو نافذ نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے وہ ظالم ہے۔ “ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ )[ المائدۃ : ٤٧] ” جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ کے حکم کے نفاذ کے فوائد : (عَنِ ابِنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتیں بارش نازل کرنے سے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ اصحاب کہف غار میں تین سو نو سال ٹھہرے رہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غائب کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کار ساز نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا حکم نافذہونا چاہیے : ١۔ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف : ٢٦) ٢۔ اللہ جیسا چاہتا ہے حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کو رد کرنے والا نہیں۔ (الرعد : ٤١) ٣۔ آپ ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ : ٤٩) ٤۔ خبردار اسی کے لیے حکم ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٥۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے وہ حق بیان کرتا ہے۔ (الانعام : ٥٧) ٦۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٧۔ اچھی طرح سنو ! کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے اور وہی حاکم مطلق ہے۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے ان کے بارے میں فیصلہ کن بات۔ اللہ جو عالم ہے غیوب السموات والارض کا اس نے یہ اطلاع دے دی۔ وہی ہے جو بہترین سننے والا ہے اور وہی ہے جو بہترین دیکھنے والا ہے۔ اس اعلان کے بعد کسی کے لئے کوئی بحث وجدال کی گنجائش نہیں ہے۔ اس قصے پر اب یہ تبصرہ سامنے آتا ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک ولی ہے اور اس کے حکم اور اس کے قانون میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب کہف کتنا عرصہ غار میں رہے پہلی آیات میں غار مذکورہ میں اصحاب کہف کے رہنے کی مدت بیان فرمائی اور فرمایا کہ وہ اپنے غار میں تین سو نو سال رہے پھر دوسری آیت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدت اقامت کو خوب زیادہ جاننے والا ہے وہ آسمانوں اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اصحاب کہف کا غار بھی زمین ہی میں ہے اور وہ لوگ بھی زمین ہی میں تھے پھر ان کا اور ان کے غار کا اسے کیوں علم نہیں ہوگا ؟ مزید توضیح اور تاکید کے لیے فرمایا (اَبْصِرْبِہٖ وَ اَسْمِعْ ) عربی زبان میں یہ دونوں تعجب کے صیغہ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ سے بڑھ کر کوئی دیکھنے والا یا سننے والا نہیں ہے اس کی صفت سمع و بصر کا بندوں سے بیان نہیں ہوسکتا وہ سب سے بڑا سمیع اور بصیر ہے۔ (ان دونوں لفظوں کا جو اوپر ترجمہ کیا گیا ہے تقریبی ترجمہ ہے حقیقت میں ان کا ترجمہ اردو زبان میں ادا نہیں ہوسکتا۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ یہ امر متفرع ذکر کرنے کے بعد اصل واقعہ کی طرف عود ہے جو چیز پہلے ” فضربنا علی اذانہم فی الکہف سنین عددا “ میں بالاجمال ذکر کی تھی یہاں اس کی تفصیل کردی۔ یعنی اصحاب کہف نیند کی حالت میں غار میں تین سو نو برس ٹھہرے۔ قال مجاھد ھو بیان لمجمل قولہ تعالیٰ فضربنا علی اذانھم فی الکہف سنین عددا (بحر ج 6 ص 116) ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ” لبثوا الخ “ بھی ” یقولون “ کے تحت داخل ہے اور اس سے بھی بعض لوگوں کا قول نقل کرنا مقصود ہے۔ مگر یہ خیال سراسر غلط ہے قرآن کا اسلوب نظم اس کی تائید نہیں کرتا کیونکہ دونوں مضمونوں کے درمیان دو تین مختلف مضامین کا فاصلہ حائل ہے۔ ” قل اللہ اعلم بما لبثوا الخ “ ازالہ شبہہ کے بعد واقعہ اصحاب کہف پر چھ امور متفرع کیے گئے۔ یہ پہلا امر متفرع ہے۔ آپ فرما دیجئے کہ اصحاب کہف کے ٹھہرنے کی صحیح مدت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اس لیے صحیح مدت وہی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ یعنی تین سو نو سال ای ھو اعلم من الذین اختلفوا فیہم بمدۃ لبثھم والحق ما اخبرک بہ (مدارک ج 3 ص 9) ۔ اصحاب کہف کا قصہ یہاں ختم ہوا۔ اس کا آخری جملہ قصے کا ثمرہ ہے۔ یعنی اصحاب کہف غار میں کتنا عرصہ سوئے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ خود اصحاب کہف کو بھی اس مدت کا علم نہیں۔ تو جو لوگ خود اپنے حال سے بیخبر ہیں وہ دوسروں کے کارساز اور حاجت روا کس طرح بن سکتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

25 اور وہ اصحاب کہف اپنے اس غار اور کھوہ میں تین سو برس رہے اور نو برس اوپر ینی اصحاب کہف جہاں جا کر چھپے تھے وہاں کے سونے اور جاگنے کی مدت تین سو نو برس تھی گویا صحیح بات یہ ہے کہ ان کی نیند کی مدت تین سو نو برس تھی اس کے بعد جاگے اگر اس میعاد پر بھی یہ اپنی عادت کے موافق اختلاف کریں تو آگے اس کا جواب ہے۔