Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 32

سورة الكهف

وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾

And present to them an example of two men: We granted to one of them two gardens of grapevines, and We bordered them with palm trees and placed between them [fields of] crops.

اور انہیں ان دو شخصوں کی مثال بھی سنا دے جن میں سے ایک کو ہم نے دو باغ انگوروں کے دے رکھے تھے اور جنہیں کھجوروں کے درختوں سے ہم نے گھیر رکھا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی لگا رکھی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Example of the Rich Idolators and the Poor Muslims Allah says, وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لاِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا And put forward to them the example of two men: unto one of them We had given two gardens of grapes, and We had surrounded both with date palms; and had put between them green crops (cultivated fields). After mentioning the idolators who were too arrogant to sit with the poor and weak among Muslims, showing off before them with their wealth and noble lineage, Allah then gives a parable for them of two men, one of whom Allah gave two gardens of grapes, surrounded with palm trees and cultivated with crops throughout. All of the trees and plants were abundantly fruitful, providing readily accessible, good quality produce. Allah says:

فخر و غرور چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا ، انگوروں کے باغ ، اردگرد کھجوروں کے درخت ، درمیان میں کھیتی ، درخت پھلدار ، بیلیں ہری ، کھیتی سرسبز ، پھل پھول بھر پور ، کسی قسم کا نقصان نہیں ادھر ادھر نہریں جاری تھیں ۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود ، مالدار شخص ۔ اس کی دوسری قرأت ثمر بھی ہے یہ جمع ہے ثمرۃ کی جیسے خشبہ کی جمع خشب ۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں ، عزت و اولاد میں ، جاہ و حشم میں ، نوکر چاکر میں ، تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں ۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر اکڑ انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا ۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں ، یہ پھلدار درخت ، یہ جاری نہریں ، یہ سرسبز بیلیں ، کبھی فنا ہو جائیں ۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی بے ایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی ۔ اسی لئے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں ۔ اور اگر بالفرض آئی تھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پیارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَــلْحُسْنٰى 50؀ ) 41- فصلت:50 ) اگر میں لوٹایا گیا تو وہاں میرے لئے اور اچھائی ہو گئی ۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77؀ۭ ) 19-مريم:77 ) یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو تو کر رہا ہے ہماری آیتوں سے کفر اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بہی بکثرت مال و اولاد ملے گی ، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے ؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔ 33۔ 2 جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔ 32۔ 3 یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] ایک مال دار کافر اور غریب مومن کے طرز عمل کا موازنہ :۔ یہ مثال دراصل ان قریشی سرداروں پر منطبق ہوتی ہے جنہوں نے رسول اللہ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ کسی وقت ان مسکینوں کو اپنی مجالس سے اٹھا دیں تو ہم اطمینان سے آپ کی باتیں سنیں۔ اس مثال میں جن دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کافر و مشرک تھا۔ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مالدار اور صاحب جائداد تھا جیسا کہ قریشی سردار تھے، دوسرا توحید پرست تھا، مومن تھا اللہ پر بھروسہ رکھنے والا تھا لیکن غریب اور مفلس تھا جیسا کہ صحابہ کرام (رض) تھے جن کے متعلق قریشی سرداروں نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انھیں اپنی مجلس سے ہٹا دیں۔ رہی یہ بات کہ اس مثال میں جو دو کردار بیان کیے گئے ہیں یہ محض سمجھانے کے لیے بطور تمثیل بیان کیے گئے ہیں یا فی الواقع ایسے شخص اس دنیا میں کسی وقت موجود تھے ؟ اور یہ واقعہ اس دنیا میں پیش آیا تھا ؟ اس بات پر مفسرین کا اختلاف ہے اور جن لوگوں نے انھیں واقعہ تسلیم کیا ہے انہوں نے تو ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں کہ وہ دو حقیقی بھائی تھے۔ باپ کی طرف سے ورثہ ملا تھا۔ ایک جو دنیا دار تھا اس نے اس ورثہ سے جائداد خریدی پھر خوب محنت کی تو دو باغوں کا مالک بن گیا۔ دوسرا درویش منش انسان تھا اور اسے مال و دولت سے کچھ دلچسپی نہ تھی اسے جو ورثہ ملا وہ بھی اس نے اللہ کے راستہ میں خرچ کردیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ دو آدمی ہمسائے تھے جن کی پوری طرز زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھی۔ جو بھی صورت ہو اس تمثیل سے جو اصل فائدہ مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی جاتا ہے۔ [٣٥] جو شخص کافر و مشرک اور دو باغوں کا مالک تھا اس آیت میں اس کے باغوں کی بہار کا منظر پیش کیا گیا ہے یعنی ان دونوں کے درمیانی حصہ میں کھیتی باڑی ہوتی تھی اور غلہ اگتا تھا۔ ارد گرد پھل دار درخت تھے پھر ان باغوں کی چار دیواری کھجوروں کے درختوں کی تھی جن پر انگور کی بیلیں چڑھائی گئی تھیں۔ ان دونوں باغوں کے درمیان ایک نہر جاری تھی جو انھیں سیراب کرتی اور آپس میں ملاتی تھی۔ زمین زرخیز و شاداب تھی لہذا پھل دار درخت بھی بھرپور پھل لاتے اور غلہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ گویا اس شخص کو بیٹھنے کے لیے ٹھنڈی چھاؤں، پینے کے لیے ٹھنڈا پانی، کھانے کو باافراط غلہ & پھل اور دیکھنے کو خوش نما منظر سب کچھ موجود تھا جس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ ۔۔ : کفار کو مسلمان فقراء کے مقابلے میں اپنے اموال و انصار پر فخر تھا، اس بنا پر وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے اور مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ بیان فرما کر سمجھایا کہ یہ چیزیں فخر کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ ایک لمحہ میں فقیر غنی ہوسکتا ہے اور غنی فقیر۔ دنیا میں اگر فخر کی کوئی چیز ہے تو وہ ہے اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت اور یہ ان فقراء کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافر و مومن کی ایک مثال بیان فرمائی کہ دو آدمی تھے (ان کے نام یا زمانہ معلوم نہیں، نہ ہی اس میں کوئی فائدہ ہے) ان میں سے ایک کو، جو کافر تھا، اللہ تعالیٰ نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے، جو بہت ہی خوب صورت اور نفع آور تھے۔ انگوروں کے باغوں کو کھجوروں نے گھیر رکھا تھا، دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی اور دونوں باغوں کے درمیان اللہ کے حکم سے نہر چل رہی تھی۔ باغوں اور کھیتوں کو پانی کی کوئی کمی نہ تھی، چناچہ دونوں باغوں نے پوری پیداوار دی اور کسی قسم کی کمی نہیں کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :۔ اور آپ (دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی پائیداری ظاہر کرنے کے لئے) دو شخصوں کا حال (جن میں باہم دوستی یا قرابت کا تعلق تھا) بیان کیجئے (تا کہ کفار کا خیال باطل ہوجائے اور مسلمانوں کو تسلی ہو) ان دو شخصوں میں سے ایک کو (جو کہ بد دین تھا) ہم نے دو باغ انگور کے دے رکھے تھے اور دونوں (باغوں) کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنا رکھا تھا اور ان دونوں (باغوں) کے درمیان میں کھیتی بھی لگا رکھی تھی (اور) دونوں باغ اپنا پورا پھل دیتے تھے، اور کسی کے پھل میں ذرا بھی کمی نہ رہتی تھی (بخلاف عام باغوں کے کہ کبھی کسی درخت میں اور کسی سال پورے باغ میں پھل کم آتا ہے) اور ان دونوں (باغوں) کے درمیان نہر چلا رکھی تھی اور اس شخص کے پاس اور بھی مال داری کا سامان تھا سو (ایک دن) اپنے اس (دوسرے) ساتھی سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے کہنے لگا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور مجمع بھی میرا زبردست ہے (مطلب یہ تھا کہ تو میرے طریقے کو باطل اور اللہ کے نزدیک ناپسند کہتا ہے تو اب تو دیکھ لے کہ کون اچھا ہے، اگر تیرا دعوی صحیح ہوتا تو معاملہ برعکس ہوتا، کیونکہ دشمن کو کوئی نوازا نہیں کرتا اور دوست کو کوئی نقصان نہیں پہونچاتا) اور وہ (اپنے اس ساتھی کو ساتھ لے کر) اپنے اوپر جرم (کفر) قائم کرتا ہوا اپنے باغ میں پہونچا، (اور) کہنے لگا کہ میرا تو خیال نہیں ہے کہ یہ باغ (میری زندگی میں) کبھی بھی برباد ہوگا (اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کے وجود اور ہر چیز پر اس کی قدرت کا قائل نہ تھا، بس ظاہری سامان حفاظت کو دیکھ کر اس نے یہ گتفگو کی) اور (اسی طرح) میں قیامت کو نہیں خیال کرتا کہ آوے گی اور اگر (بفرض محال قیامت آ بھی گئی اور) میں اپنے رب کے پاس پہونچایا گیا (جیسا تیرا عقیدہ ہے) تو ضرور اس باغ سے بھی بہت زیادہ اچھی جگہ مجھ کو ملے گی ( کیونکہ جنت کی جگہوں کا دنیا سے اچھا اور بہتر ہونے کا تو تجھے بھی اقرار ہے، اور یہ بھی تجھے تسلیم ہے کہ جنت اللہ کے مقبول بندوں کو ملے گی، میری مقبولیت کے آثار و علامات تو تو دنیا ہی میں دیکھ رہا ہے اگر میں اللہ کے نزدیک مقبول نہ ہوتا تو باغات کیوں ملتے، اس لئے تمہارے اقرار و تسلیم کے مطابق بھی مجھے وہاں یہاں سے اچھے باغ ملیں گے) اس (کی یہ باتیں سن کر اس) سے اس کے ملاقاتی نے ( جو کہ دیندار مگر غریب آدمی تھا) جواب کے طور پر کہا کیا تو (توحید اور قیامت سے انکار کر کے) اس ذات (پاک) کے ساتھی کفر کرتا ہے جس نے تجھ کو (اول) مٹی سے (جو کہ تیرا مادہ بعیدہ ہے بواسطہ آدم (علیہ السلام) کے) پیدا کیا پھر (تجھ کو) نطفہ سے (جو کہ تیرا مادہ قریبہ ہے رحم مادر میں بنایا) پھر تجھ کو صحیح سالم آدمی بنایا (اس کے باوجود تو توحید اور قیامت سے انکار اور کفر کرتا ہے تو کیا کر) لیکن میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہ (یعنی) اللہ تعالیٰ میرا رب (حقیقی) ہے اور میں اس کے ساتھی کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور (جب اللہ تعالیٰ کی توحید اور قدرت مطلقہ ہر چیز پر ثابت ہے، اور اس کے نتیجہ میں یہ کچھ بعید نہیں کہ باغ کی ترقی اور حفاظت کے تیرے سارے اسباب و سامان کسی وقت بھی بیکار اور معطل ہوجائیں اور باغ برباد ہوجائے، اس لئے تجھے لازم تھا کہ مسبب الاسباب پر نظر کرتا) تو تو جس وقت اپنے باغ میں پہنچا تھا تو تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ جو اللہ کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے (اور) بدون خدا کی مدد کے (کسی میں) کوئی قوت نہیں (جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ باغ قائم رہے گا اور جب چاہے گا ویران ہوجائے گا) اگر تو مجھ کو مال و اولاد میں کمتر دیکھتا ہے (اس سے تجھ کو اپنے مقبول ہونے کا شبہ پڑگیا ہے) تو مجھ کو وہ وقت نزدیک معلوم ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ کو تیرے باغ سے اچھا باغ دیدے (خواہ دنیا ہی میں یا آخرت میں) اور اس (تیرے باغ) پر کوئی تقدیری آفت آسمان سے (یعنی بلا واسطہ اسباب طبیعہ کے) بھیج دے جس سے وہ باغ دفعۃ ایک صاف (چٹیل) میدان ہو کر رہ جائے یا اس سے اس کا پانی (جو نہر میں جاری ہے) بالکل اندر (زمین میں) اتر ( کر خشک ہو) جائے پھر تو اس (کے دوبارہ لانے اور نکالنے) کی کوشش بھی نہیں کرسکے (یہاں اس دیندار ساتھی نے اس بےدین کے باغ کا تو جواب دے دیا، مگر اولاد کے متعلق کچھ جواب نہیں دیا، شاید وجہ یہ ہے کہ اولاد کی کثرت جبھی بھلی معلوم ہوتی ہے جب اس کی پرورش کے لئے مال موجود ہو ورنہ وہ الٹا وبال جان بن جاتی ہے، حاصل اس کلام کا یہ ہوا کہ تیرے بدعقیدہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ تجھے دنیا میں اللہ نے دولت دے دیاس کو تو نے اپنی مقبولیت کی علامت سمجھ لیا، اور میرے پاس دولت نہ ہونے سے مجھ کو غیر مقبول سمجھ لیا، تو دنیا کی دولت و ثروت کو مقبولیت عند اللہ کا مدار سمجھ لینا ہی بڑا دھوکا اور غلطی ہے، دنیا کی نعمتیں تو رب العالمین سانپوں، بچھو وں اور بھیڑوں اور بدکاروں سبھی کو دیتے ہیں، اصل مدار مقبولیت کا آخرت کی نعمتوں پر ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں اور دنیا کی نعمتیں سب زوال پذیر ہیں) اور (اس گفتگو کے بعد واقعہ یہ پیش آیا کہ) اس شخص کے سامان کو تو آفت نے آگھیرا، پس اس نے جو کچھ باغ پر خرچ کیا تھا اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ باغ اپنی ٹیٹوں پر گرا ہوا پڑا تھا، اور کہنے لگا کیا خوب ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ( اس سے معلوم ہوا کہ باغ پر آفت آنے سے وہ یہ سمجھ گیا کہ یہ وبال کفر شرک کے سبب سے آیا ہے، اگر کفر نہ کرتا تو اول تو یہ آفت ہی شاید نہ آتی، اور آ بھی جاتی تو اس کا بدلہ آخرت میں ملتا، اب دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہی خسارہ ہے، مگر صرف اتنی حسرت و افسوس سے اس کا ایمان ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ یہ حسرت، ندامت تو دنیا کے نقصان کے وجہ سے ہوئی، آگے اللہ کی توحید اور قیامت کا اقرار جب تک ثابت نہ ہو اس کو مومن نہیں کہہ سکتے) اور اس کے پاس ایسا کوئی مجمع نہ ہوا جو خدا کے سوا اس کی مدد کرنا) اس کو اپنے مجمع اور اولاد پر ناز تھا وہ بھی ختم ہوا) اور نہ وہ خود (ہم سے) بدلہ لے سکا، ایسے موقع پر مدد کرنا تو اللہ برحق ہی کا کام ہے (اور آخرت میں بھی) اسی کا ثواب سب سے اچھا ہے اور (دنیا میں بھی) اسی کا نتیجہ سب سے اچھا ہے (یعنی مقبولین کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو دونوں جہاں میں اس کا ثمرہ نیک ملتا ہے بخلاف کافر کے کہ بالکل خسارہ میں رہ گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَہُمَا زَرْعًا۝ ٣٢ۭ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ حفَ قال عزّ وجلّ : وَتَرَى الْمَلائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ [ الزمر/ 75] ، أي : مطیفین بِحَافَّتَيْهِ ، أي : جانبيه، ومنه قول النبيّ عليه الصلاة والسلام : «تَحُفُّه الملائكة بأجنحتها» «2» . وقال الشاعر له لحظات في حَفَافِي سریره «3» وجمعه : أَحِفَّة، وقال عزّ وجل : وَحَفَفْناهُما بِنَخْلٍ [ الكهف/ 32] ، وفلان في حَفَفٍ من العیش، أي : في ضيق، كأنه حصل في حفف منه، أي : جانب، بخلاف من قيل فيه : هو في واسطة من العیش . ومنه قيل : من حَفَّنَا أو رفّنا فلیقتصد «4» ، أي : من تفقد حفف عيشنا . وحَفِيفُ الشجر والجناح : صوتهما، فذلک حكاية صوتهما، والحَفُّ : آلة النساج، سمّي بذلک لما يسمع من حفّه، وهو صوت حرکته . ( ح ف ف ) الحٖف ( ن) کے معنی کسی چیز کو حافتیں یعنی دونوں جانب سے گھیر نے یا احاطہ کرلینے کے ہیں ) قرآن میں ہے ۔ وَحَفَفْناهُما بِنَخْلٍ [ الكهف/ 32] اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے ۔ وَتَرَى الْمَلائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ [ الزمر/ 75] اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیر ڈالے ہوئے ہیں ۔ یعنی اس کے دونوں جانب کو گھیر سے ہوئے ہیں ایک حدیث میں ہے ۔ (89) تحفۃ الملائکۃ باجنح تھا اسکو کہ فرشتے اس پر اپنے پروں کے ساتھ گھیر ڈال لیتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (113) لہ لحظات فی حفافی سریرہ اس کی نظریں اس کے تحت کے دونوں جانب لگی رہتی ہیں ۔ حفاف کی جمع احفۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ فلان فی حفف من العیش یعنی تنگ حال ہے ۔ گویا وہ خوشحالی سے ایک جانب میں ہے ۔ اس کے برعکس خوشحالی کے لئے کہا جاتا ہے ۔ ھوفی واسطۃ من العیش اسی سے محاورہ ہے ( مثل) من حفنا اور فمنا فلیقتصد ۔ یعنی جو شخص ہماری تعریف کرے اسے چاہیے کہ درمیانہ روی سے کام لے ( نہا یہ ) حفیف الشجر والجناح درخت کے بلنے یا پرندے پروں کی سرسرا ہٹ یہ حکایت صوت ہے ۔ المحف شانہ بافندہ و تیغ آں ) کیونکہ اس سے حرکت کے وقت آواز آتی ہے ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٤٣) آپ اہل مکہ کے سامنے دو شخصوں کا حال بیان کیجیے کہ بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہودا اور دوسرا کافر جس کا نام ابو فطروس تھا۔ کافر کو دو باغ ہم نے انگوروں کے دے رکھے تھے اور ان دونوں باغوں کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنارکھا تھا اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں کھیتی بھی لگا رکھی تھی۔ دونوں باغ ہر سال اپنا پورا پھل دیتے تھے اور کسی کے پھل میں ذرا بھی کمی نہ رہتی تھی اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں نہر چلا رکھی تھی اور اس کے پاس باغ کا پھل تھا اور بھی تمول کا سامان تھا چناچہ ایک دن وہ اپنے مسلمان ساتھی سے اپنے مال پر فخر کرتا ہوا کہنے لگا کہ میرا مال بھی تجھ سے زیادہ ہے اور میرے خدم وحشم بھی بکثرت ہیں۔ اور پھر وہ اتفاق سے اپنے اوپر کفر کا جرم قائم کرتا ہوا اپنے باغ میں پہنچا اور کہنے لگا کہ میرا تو خیال نہیں ہے کہ یہ باغ کبھی بھی برباد ہو اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ قیامت آئے گی اور اگر میں اپنے رب کے پاس پہنچایا گیا جیسا کہ تو کہا کرتا ہے تو اس باغ سے بہت زیادہ اچھی جگہ مجھے کو ملے گی۔ یہ سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کے کفر سے اعراض کرتے ہوئے کہا کیا تو اس ذات پاک کا انکار کرتا ہے جس نے تمہیں آدم کی اولاد سے پیدا کیا اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر تجھے تیرے باپ کے نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے صحیح وسالم انسان بنایا لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا رب حقیقی اور میرا خالق و رازق ہے اور میں ان بتوں میں سے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور جب وقت تو باغ میں داخل ہوا تھا تو نے یوں کیوں نہیں کہا، یہ سب اللہ تعالیٰ کا انعام ہے میری کیا حیثیت اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے میری کیا طاقت ہے۔ اور اگر تو مجھ کو خدم وحشم میں کم تر سمجھتا ہے تو مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ مجھے آخرت میں تیرے اس دنیاوی باغ سے بہتر باغ دے دے اور تیرے اس باغ پر آگ بھیج دے کہ یہ اچانک چٹیل میدان ہو کر رہ جائے یا اسکا پانی بالکل اندر زمین میں اتر کر خشک ہوجائے اور پھر تو اس کے نکالنے کی کوئی کوشش بھی نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے پھل اور سامان تمول کو آفت نے ہلاک کردیا پس اس نے جو کچھ اس باغ پر خرچ کیا تھا۔ اور جو اس کی آمدنی تھی اس پر حسرت و ندامت میں ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا پڑا تھا اور وہ قیامت کے دن بھی کہے گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ ان بتوں کو شریک نہ ٹھہراتا۔ اور اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہ آئی کہ عذاب الہی سے اس کی حفاظت کرتی اور نہ وہ خود اپنے سے عذاب الہی کو ٹال سکا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اس رکوع میں دو اشخاص کے باہمی مکالمے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور بہت سی دوسری دنیوی نعمتوں سے نواز رکھا تھا۔ وہ شخص اپنی خوشحالی میں اس قدر مگن ہوا کہ اس کی نگاہ اللہ سے ہٹ کر مادی وسائل پر ہی جم کر رہ گئی اور انہی اسباب و وسائل کو وہ اپنے توکل اور بھروسے کا مرکز بنا بیٹھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا شخص تھا جو دنیوی لحاظ سے خوشحال تو نہیں تھا مگر اسے اللہ کی معرفت حاصل تھی۔ اس نے اس دولت مند شخص کو نصیحت کی کہ اللہ نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے مگر تم اسے بالکل ہی بھولے ہوئے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ دولت مند شخص نے گھمنڈ میں آکر اس کی نصیحت کا بہت تلخ جواب دیا اور کہا کہ مجھے تو یہ ساری نعمتیں اس لیے ملی ہیں کہ میں اللہ کا چہیتا ہوں جبکہ میرے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ کے اس بندے نے اسے پھر سمجھایا کہ دیکھو اپنے دنیوی مال و اسباب پر مت اتراؤ ‘ کیونکہ اللہ اگر چاہے تو تمہارے یہ سارے ٹھاٹھ باٹھ پل بھر میں ختم کر کے رکھ دے۔ وہ چاہے تو تمہاری ساری دولت اور مال و اسباب کو ضائع کرسکتا ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ میں نے اپنے مال و اسباب کی حفاظت کا خوب بندوبست کر رکھا ہے۔ الغرض ان تمام نصیحتوں کا اس شخص پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ دنیوی اسباب کے نشے نے اس کو اس قدر اندھا کر رکھا تھا کہ اسے حقیقی مسبب الاسباب کی قدرت کا کچھ اندازہ ہی نہ رہا۔ بالآخر اس کے اس رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا اور وہ اپنے رویے پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اپنی بربادی کے بعد جب اس شخص کی آنکھیں کھلیں تو تب بہت دیرہو چکی تھی۔ یہاں اس دولت مند شخص کا وہ فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے جو اپنی بربادی کے بعد پچھتاتے ہوئے اس کی زبان سے نکلا تھا کہ ” کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا ! “ دیکھا جائے تو اس سارے واقعے میں کسی ظاہری شرک کا ارتکاب نظر نہیں آتا۔ کسی دیوی یا دیوتا کی پوجا پاٹ کا بھی کوئی حوالہ یہاں نہیں آیا اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا بھی ذکر نہیں ہوا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا اقدام تھا جس پر وہ شخص پچھتایا کہ کاش میں نے اپنے رب سے شرک نہ کیا ہوتا ! اس پہلو سے اگر اس سارے واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں جس شرک کا ذکر ہوا ہے وہ ” مادہ پرستی “ کا شرک ہے۔ اس شخص نے اپنے مادی اسباب و وسائل کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ جو بھروسا اور توکل اسے حقیقی مسبب الاسباب پر کرنا چاہیے تھا وہ بھروسا اور توکل اس نے اپنے مادی وسائل پر کرلیا تھا اور اس طرح ان مادی وسائل کو معبود کا درجہ دے دیا تھا۔ یہی رویہ اور یہی سوچ مادہ پرستی ہے اور یہی موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ موجودہ دور ستارہ پرستی اور بت پرستی کا دور نہیں۔ آج کا انسان ستاروں کی اصل حقیقت جان لینے اور چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد ان کی پوجا کیونکر کرے گا ؟ چناچہ آج کے دور میں اللہ کو چھوڑ کر انسان نے جو معبود بنائے ہیں ان میں مادہ پرستی اور وطن پرستی سب سے اہم ہیں۔ آج دولت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مادی وسائل اور ذرائع کو مسبب الاسباب سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا بہت خطرناک شرک ہے اور اس سے محفوظ رہنے کے لیے اسے بہت باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ (جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ ) انگوروں کی بیلوں کے گردا گرد کھجوروں کے درختوں کی باڑ تھی تاکہ نازک بیلیں آندھی ‘ طوفان وغیرہ سے محفوظ رہیں۔ (وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا) بنیادی طور پر وہ انگوروں کے باغات تھے۔ ان کے اطراف میں کھجوروں کے درخت تھے جن کی دوہری افادیت تھی۔ ان درختوں سے کھجوریں بھی حاصل ہوتی تھیں اور وہ حفاظتی باڑ کا کام بھی دیتے تھے۔ درمیان میں کچھ زمین کاشت کاری کے لیے بھی تھی جس سے اناج وغیرہ حاصل ہوتا تھا۔ گویا ہر لحاظ سے مثالی باغات تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. In order to understand the significance of this parable we should keep in view( Ayat 28 )in which arrogant chiefs of Makkah were told that the poor companions of the Prophet (peace be upon him) would not be discarded to please them.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :36 اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آکر نہیں بیٹھ سکتے ، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آکر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم ، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے ۔ نیز سورہ مریم ، آیات ۷۳ ، ۷٤ ۔ سورہ المومنون ، آیات ۵۵ تا ٦۱ ۔ سورہ سبا ، آیات ۳٤ تا ۳٦ ، اور حٰمٰ سجدہ ، آیات ٤۹ ۔ ۵۰ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

24: آیت نمبر 28 میں کافر سرداروں کے اس تکبر کی طرف اشارہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ غریب مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ ایک ایسا واقعہ بیان فرما رہے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مال و دولت کی زیادتی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر کوئی شخص اترائے۔ اگر اللہ تعالیٰ ساتھ رشتہ مضبوط نہ ہو تو بڑے بڑے مال دار لوگ انجام کار ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صحیح ہو تو غریب لوگ ان سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ جن دو آدمیوں کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے ان کی کوئی تفصیل کسی مستند مرفوع روایت میں موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض مفسرین نے کچھ روایتوں کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ یہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور انہیں اپنے باپ سے وراثت میں بڑی دولت ہاتھ آئی تھی ان میں سے ایک نے کافر ہو کر اسی دولت سے دل لگا لیا۔ اور دوسرے نے اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا، اور اس کی وجہ سے اس کی دولت پہلے شخص کے مقابلے میں گنتی میں کم رہ گئی۔ لیکن آخر کار کافر شخص کی دولت پر آفت آگئی، اور اسے حسرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٤٤:۔ اوپر ان مالدار مشرکین مکہ کا ذکر تھا جو غریب مسکین مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنے سے گھبراتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک کہاوت بیان کی کہ دو مرد تھے ایک کے دو باغ تھے انگور اور کھجور کے جن کے درمیان میں کھیتی بھی ہوتی تھی۔ ہر طرح کے درخت اور پھل پھول اور میوے پیدا ہوتے تھے ولم تظلم منہ شیئا سے اسی مطلب کو ادا فرمایا ہے۔ پھر فرمایا ان باغوں میں نہریں جاری تھیں پھر فرمایا اس باغ والے نے اپنے دوسرے بھائی سے بطور فخر کے کہا کہ میں تجھ سے مال واولاد اور خدمت گاروں میں زیادہ عزت والا ہوں اور وہ اپنی باغ میں اپنے بھائی کا بھی ہاتھ پکڑ کر میں قیامت کے قائم ہونے کا خیال نہیں رکھتا اور اگر بالفرض قیامت ہوے تو بھی میں وہاں بہتر باغ پاؤں گا کیونکہ بقول تیرے اے بھائی یہ دنیا مقام فانی ہے اور آخرت باقی ہے تو جس طرح میں یہاں مالدار ہوں اسی طرح آخرت میں بھی غنی ہوں گا یہ نہ سمجھا کہ دنیا کی آسودگی خدا کی طرف سے ایک ڈھیل ہے اب آگے اللہ تعالیٰ اس دوسرے شخص ایمان والے کے حال سے خبر دیتا ہے کہ اس نے بات چیت کے وقت اس سے کہا کیا تو کافر ہوگیا اس خدا سے کہ جس نے تجھ کو اور تیرے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر ان کی نسل کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ترمذی ابوداؤد اور صحیح ابن حبان میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پتلے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کی مٹی لی ہے اس طرح کی مٹی کی خاصیت کے سبب سے اولاد آدم میں کوئی گورا ہے کوئی کالا ١ ؎۔ خلقک من تراب کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے بعد اگرچہ اولاد آدم کی پیدائش نطفہ سے ہے لیکن سب اولاد آدم کی پیدائش میں آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی مٹی کا اثر ضرور ہے اس ایماندار شخص نے یہ بھی کہا کہ میں تو اللہ ہی کو اپنا معبود جانتا ہوں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا اور یہ بھی کہا کہ بجائے اس فخر اور ناشکری کے لفظوں کے تو یہ کہتا کہ انسان کی کیا قدرت تھی کہ وہ ایسا باغ لگاتا اور اتنا مال کماتا تو خوب ہوتا کیونکہ انسان کو جو کچھ فارغ البالی ہوتی ہے وہ اللہ ہی کے چاہنے سے ہوتی ہے اگرچہ مال و اولاد نہ ہونے کے سبب سے تو مجھ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے مگر مجھ کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ آخرت میں تیرے اس باغ سے بہتر کوئی باغ دیوے اور تیری اس ناشکری اور نافرمانی کے سبب سے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ دور نہیں کہ وہ تیرے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج دیوے۔ آخر کو اس ایماندار شخص کی زبان سے جو نکلا تھا وہی ہوا کہ جس باغ پر وہ قیامت کا منکر اتراتا تھا آسمانی آفت سے وہ باغ کھیتی سب کچھ برباد ہوگیا اور وہ اترانے والا شخص اپنے اترانے پر پچھتاتا اور نقصان پر افسوس سے ہاتھ ملتا ہوا رہ گیا اور اللہ کے عذاب کے آگے اس اترانے والے کی کوئی کچھ مدد نہ کرسکا۔ آخر قصہ پر اللہ تعالیٰ نے اس ایماندار شخص کے قول کی تائید فرمائی کہ قیامت کے دن ایمانداروں کو اچھا بدلا ملنے والا ہے۔ مسند امام احمد میں جابر بن عبداللہ (رض) کی صحیح روایت ہے جس میں اللہ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بدری صحابہ میں سے کوئی شخص دوزخ میں نہیں جائے گا ٢ ؎۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ مالدار مشرکین مکہ غریب مسلمانوں کو طرح طرح سے ستاتے تھے جن علماء نے بدری صحابہ کے نام تفصیل سے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ خباب بن الارت بدری صحابہ میں ہیں اور ان کو غریب جان کر ہجرت سے پہلے مالدار مشرکین مکہ بہت ستاتے تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٣ ؎ کہ مشرکین مکہ میں کے بڑے بڑے سردار بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کے وعدہ کو سچا پالیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے وہ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ٤ ؎۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نیک بندوں کے لیے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئی ہیں وہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں نے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ان رواتیوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جن مالدار مشرکوں کے دھمکانے اور غریب مسلمانوں کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کہاوت بیان فرمائی ان دونوں کا انجام یہ ہوا کہ مغرور مالدار مشرکوں نے دنیا میں جان اور مال کا نقصان جدا اٹھایا اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور جن غریب مسلمانوں کو یہ لوگ حقیر جانتے تھے دنیا میں ان کا انجام یہ ہوا کہ ان جاننے والوں کا مال ان غریبوں کے ہاتھ آیا اور عقبیٰ میں وہ قطعی جنتی ٹھہرے جس جنت کی نعمتوں کی پوری تفصیل اللہ تعالیٰ ہی کو خوب معلوم ہے اس واسطے اللہ تعالیٰ نے جنت کو نیک عملوں کا اچھا بدلہ فرمایا۔ ١ ؎ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر۔ ٢ ؎ تفسیر ہذاص ٢٧٦ ج ٣ ٣ ؎ تفسیر ہذاص ٢٣ ج ٣۔ ٤ ؎ تفسیر ہذاص ١٢ ج ٣

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:32) حففنھما۔ حففنا۔ ماضی جمع متکلم ہما ضمیر مفعول تثنیہ مذکر غائب۔ الحف (باب نصر) کے معنی کسی چیز کو دونوں جانب سے گھیرنے یا احاطہ کرلینے کے ہیں۔ حف مادہ ہم نے ان دونوں کو گھیر لیا۔ ہم نے ان دونوں کے گردا گرد پیدا کردیا۔ حففنہما بنخل ہم نے ان دونوں کے گرد کھجور کے درخت اگا رکھے تھے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے وتری الملئکۃ حافین من حول العرش (39:75) اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں یعنی اس کے دونوں جانب کو گھیرے ہوئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یا اسے خوب نفع اور آمدنی بھی حاصل تھی ثمر کے معنی پھل اور نفع دونوں ہوسکتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف دنیا میں بھی یہی مثالیں موجود ہیں جو اقوام کے حالات میں بھی نظر آتی ہیں اور افراد کے حالات میں بھی آپ انہیں ان دو آدمیوں کی مثال دیجئے جو دونوں دوست تھے مگر ان میں سے ایک کو ہم نے زیادہ مالدار کردیا ، اس کے انگوروں کے باغات تھے جن کے گردا گرد کے درخت اور درمیان میں زرعی زمین تھی یعنی کھجوریں پھل اور غلہ جیسی سب نعمتیں بیک وقت ان باغوں سے حاصل ہوتیں ، اور وہ پورا پورا پھل دیتے کبھی ان میں کمی نہ آتی تھی ، ان باغوں کے درمیان ہم نے نہر جاری کردی تھی جس کے سبب وہ ہمیشہ سرسبز رہتے اور ہر موسم کا پھل بہتات سے حاصل ہوتی ، جبکہ دوسرا دوست ایسا مالدار نہ تھا ، ایک روز باتوں باتوں میں اس امیر آدمی نے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ اے دوست میں تیری نسبت بہت زیادہ امیر اور مال وزر کا مالک ہوں اور میری ساتھ میری اطاعت کرنے والے لوب بھی بہت ہیں ، جبکہ تو خیال کرتا ہے کہ میرا عقیدہ اور طریقہ باطل ہے اور تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، لہذا تجھے اللہ جل جلالہ سے انعام ملے گا تو معاملہ تو بالکل برعکس ہے ، مال وزر ، خدم وحشم اور باغات سب کچھ میرے پاس ہے اگر تو سچا ہوتا تو یہ نعمتیں تیری پاس ہوتیں ، وہ اپنے باغات میں داخل ہوا تو بہت اکڑ رہا تھا اور دولت نے اسے اندھا کردیا تھا کہنے لگا بھلا ایسے شاداب باغات جن کے درمیان دریا بہتا ہو کبھی خراب بھی ہو سکتے ہیں کبھی نہیں اور یہ جو قیامت کی بات کرتے ہیں میں اس پر یقین نہیں کرتا یہ تو غریب لوگوں نے کود کو تسلی دینے کے لیے سہانے خواب تراش رکھے ہیں ، لیکن اگر ایسا ہوا بھی اور مجھے اپنے پروردگار کے حضور جانا بھی پڑا تو مجھے ان باغات سے بہتر باغات مل جائیں گے کہ تمہارا خیال بھی تو جنت کے دنیا سے بہتر ہونے کا ہے اور مقبول بندوں کو ہی ملے گی لہذا میرا دولت مند ہونا میری مقبولیت ہی کی دلیل تو ہے جیسے آج کل بھی محض دولت دیکھ کر کہہ دیا جاتا ہے اس پر اللہ جل جلالہ کا بہت کرم ہے خواہ اسے ایمان بھی نصیب نہ ہو ، کہ دولت دنیا بھی ایمان کے ساتھ ہی نعمت ہے ورنہ وبال ہے ، تو اس کے دوست نے کہا بلکہ زور دے کر کہا کہ تو ایسے عظیم خالق سے کفر کرنے لگا ہے جس نے تجھے ایک مشت غبار سے پیدا کیا اس کے وسیع نظام میں وہ خاک غذا بنی ، مختلف اجسام میں پہنچی ، پھر نطفہ بنی شکم مادر میں گئی اور اللہ جل جلالہ نے تجھے ایک نطفے سے کیا خوبصورت انسان بنا دیا ۔ اگر تو کفر بھی کرے تو میں تیری دولت سے مرعوب ہو کر تیرے پیچے نہ چلوں گا ، بلکہ میرا تو عقیدہ ہے کہ اللہ جل جلالہ ہی میرا رب ہے وہی میری حاجات کو پورا کرنے والا ہے اور میں اس کی ذات یا صفت میں ہرگز کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ۔ تیرے لیے بھی بہت بہتر ہوتا کہ جب تو اپنے باغ میں پہنچا اپنی دولت اور شان و شوکت دیکھی تو کہتا ” ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ کہ اللہ جل جلالہ ہی جو چاہے وہ ہوتا ہے ، اس کے سوا کوئی طاقت نہیں تو نے مجھے مال یا اولاد میں اپنے سے کم تر پایا تو تجھے اس پر اللہ جل جلالہ کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا نہ کہ کفر کرنے لگتا ۔ کہ اللہ جل جلالہ قادر ہے مجھے تیرے باغات سے بہتر باغات عطا کردے تو تیری باغات پہ کوئی آفت نازل کردے جو اسے تباہ کر دے اور تو ہاتھ ملتا رہ جائے کہ باغات کی جگہ چٹیل میدان سامنے ہو ، یا وہ قادر ہے کہ تیری نہر کا پانی خشک کر دے جو باغات کی شادابی کا سبب ہے اور باغ اجڑ جائیں اور تو نہر میں پانی واپس تو نہ لاسکے گا ۔ اور ایسا ہی ہوا اس کے کفر اور متکبرانہ رویے پر اس کے باغ اجاڑ دیئے گئے ، سارے پھل تباہ ہوگئے اور ایک صبح وہ گیا تو باغات اکھڑ کر اوندھے پڑے تھے ، اور ہر طرف ویرانی کا راج تھا تو اس نے بہت ہاتھ ملے اور کہنے لگا کاش میں اپنے پروردگار سے شرک نہ کرتا تو ممکن تھا کہ ایسی آفت نہ آتی یا دنیا کی مصیبت آتی تو آخرت کا اجر تو تباہ نہ ہوتا ، اب تو دونوں عالم تباہ ہوگئے ، اس حال میں اسے کچھ کام نہ آیا نہ دولت دنیا اور نہ خدام کی فوج اس کی کوئی مدد کرسکی اور یہ بات ظاہر ہوگئی کہ سب اختیار اللہ جل جلالہ کو ہے اور اسی کا اقتدار سچا ہے ، اسی کے انعامات کام آسکتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ورنہ اگر وہ عطا نہ کرے تو کوئی بھی نہ دنیا میں کام آسکتا ہے اور نہ آخرت میں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 32 تا 34 اضرب بیان کر، مار۔ رجلین (رجل) مردوں، دو آدمی۔ اعناب (عنب) انگور۔ حففنا ہم نے گھیر لیا۔ محفوظ کرلیا۔ نخل کھجور۔ زرع کھیتی۔ کلتا دونوں۔ اکل پھل۔ لم تظلم کم نہیں کیا۔ فجرنا ہم نے بہا دیا۔ یح اور بات چیت کرتا ہے۔ اعز میں زیادہ عزت والا ہوں۔ نفر لوگ، جماعت۔ تبید اجڑ جائے گا۔ الساعۃ قیامت، گھڑی۔ رددت میں لوٹایا گیا۔ منقلب (بہترین) جگہ لوٹنے کی۔ تشریح : آیت نمبر 32 تا 34 کفار مکہ کے اس مطالبہ کا ذکر گزشتہ آیات میں کیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کے پاس آنا چاہتے ہیں مگر جب ہم یہ دیھکتے ہیں کہی آپ کے پاس ہمارے معاشرہ کے وہ غریب اور بدحال لوگ بیٹھے ہیں جن کے پاس بیٹھنا ہماری توہین ہے تو ہم آپ کے پاس آنے سے رک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مغرور اور متکبر لوگوں کو سمجھانے کے لئے بطور مثال ایک واقعہ بیان کیا ہے وہ دو آدمی تھے ان میں سے ایک تو اللہ کی بےانتہا نعمتوں کے باوجود نا شکرا پن اور تکبر کا اظہار کر کے اپنی بڑائی بیان کرتا تھا دوسرا شخص اللہ کا فرماں بردار اور عاجزی و انکساری کا پیکر تھا۔ یہ دونوں ہو سکتا ہے بنی اسرائیل کے دو آدمی ہوں یا اس واقعہ کو ایک مثال کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہو۔ بہرحال ان آیتوں میں سردار ان مکہ اور قیامت تک آنے والے ہر متکبر اور مغرور شخص کو بتایا گیا ہے کہ اللہ کسی کا غرور اور تکبر قطعاً پسند نہیں ہے اسے عاجزی، انکساریا ور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرنے والے لوگ بےانتہا پسند ہیں۔ فرمایا کہ ان دونوں میں سے ایک شخص وہ تھا جسے پھولوں سے لدے ہوئے دو باغ دیئے گئے تھے جن میں انگور اور کھجوروں کی باڑھ تھی۔ سرسبز و شاداب کھیتیاں، پھل دار درخت اور بہتی ندی تھی جس سے ہر طرح کا نفع حاصل ہوتا تھا۔ مال و دولت کی ریل پیل، عزت و سربلندی، رشتہ داروں اور دوستوں کے ہجوم نے اس کو اتنا مغرور کردیا تھا کہ ایک دن اپنے کسی غریب دوست یا رشتہ دار کو پھلوں اور پھولوں سے لدے پھندے باغات میں لے جا کر کہنے لگا کہ یہ میرے باغات ہیں، لہلاتی کھیتیاں، سرسبزی و شادابی ، دنیا کا بےانتہا سامان، رشتہ داروں اور لوگوں کی بھیڑ میری عزت و سربلندی اتنی زیادہ ہے کہ اب مجھے نہ تو کوئی برباد کرسکتا ہے اور یہ آخرت ، قیامت سب کہنے کی باتیں ہیں پتہ نہیں قیامت آئے گی یا نہیں۔ میں تو اللہ کا محبوب بندہ ہوں کیونکہ اگر وہ اللہ مجھ سے ناراض ہوتا تو مجھے یہ سب کچھ کیوں دیتا۔ آخرت میں بھی میں راحت و آرام سے رہوں گا کیونکہ جب میں اللہ کا محبوب بندہ ہوں تو وہ مجھے وہاں آخرت کی نعمتوں سے کیوں محروم رکھے گا۔ اس کے یہ سب کچھ کہنے کا مقصد اس غریب آدمی کا مذاق اڑانا تھا جو اللہ اور آخرت پر ایمان و یقین رکھنے والا اور تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی گذارنے والا شخص تھا۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں تمہاری نیکی اور پرہیز گاری نے کیا دیا ؟ سوائے فقر و فاقہ اور غربت و افلاس کے تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس واقعہ کی تفصیل تو اس سے اگلی آیات میں آرہی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کفار مکہ ان مومنوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے جو ایمان و عمل صالح کی وجہ سے فقر و فاقہ کی زندگی گذار رہے تھے۔ حالانکہ اللہ نے انجام کے اعتبار سے صحابہ کرام کو دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا فرمائی تھیں۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تھی اس واقعہ کی باقی تفصیل اگلی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں اور جنتیوں کے ذکر سے پہلے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے حوالے سے مومنوں کو سمجھایا گیا کہ وہ دنیا پرست لوگوں کے پیچھے لگنے سے بچیں۔ اب نیک اور دنیا دار کی مثال پیش فرما کر دونوں کے کردار اور انجام کا فرق بیان کیا جاتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کے سامنے دو آدمیوں کا واقعہ بیان کریں۔ جن میں ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عنایت فرمائے اور ان کی حفاظت کھجور کے درختوں کے ساتھ کی اور ان کے درمیان فصل پیدا کی باغوں کو سیراب کرنے کے لیے ان کے درمیان نہریں جاری کیں۔ یہ باغ بھر پور طریقے سے پھل دیتے تھے ان کی پیداوار میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوتی۔ اس مثال میں بیک وقت دو باتیں سمجھائی جا رہی ہیں۔ ایک دنیوی اعتبار سے اور دوسری آخرت کے حوالے سے۔ دنیا کے اعتبار سے باغبانی کی طرف اشارہ ہے کہ زمیندار کس طرح زمین سے بیک وقت زیادہ فصلیں اگا سکتا ہے۔ آخرت کے حوالے سے یہ سمجھایا جارہا ہے کہ آدمی کو اترانے کی بجائے عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے جس طرح لہلہاتا باغ خاکستر ہوسکتا ہے اسی طرح وقت آئے گا جب دنیا کی چہل پہل بھی ختم ہوجائے گی۔ باغ کے مالک کی طرح دنیا پرست کو بھی پچھتانا پڑے گا۔ چناچہ جس شخص کے پاس یہ باغ تھے وہ اپنے ساتھی سے اس بات پر اترا رہا تھا کہ میں تجھ سے مال اور افرادی قوت کے اعتبار سے بڑا ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دن وہ متکبرانہ انداز میں اپنے باغ میں داخل ہو کر کہنے لگا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ باغ کبھی اجڑ جائیں گے اور نہ ہی میں یہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت بر پا ہوگی۔ بالفرض اگر قیامت قائم ہوئی اور میں اپنے رب کے حضور پیش کیا گیا۔ تو مجھے یقین ہے کہ میں اس سے اچھا مقام اور بہترین انعام پاؤں گا۔ یہاں مال دار متکبر کی مالدارانہ ذہن کی عکاسی کی جارہی ہے کہ جب انسان دولت میں مست ہوجائے۔ تو وہ اس قدر متکبر اور اللہ کے خوف سے غافل ہوجاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی عیش و عشرت اور مال و دولت ہمیشہ رہنے والے ہیں اور آخرت کا فیصلہ بھی دنیا کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا کہ دنیا میں جو مال دا رہے یا منصب دار ہے۔ آخرت میں بھی اسے سب کچھ دیا جائے گا۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ صالح کردار کی بجائے دنیا کے مال اور اقتدار کو عزت کا معیا رسمجھتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے سے کم ترلوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ جو دنیا کا مال و اسباب ہمیں ملا ہے۔ یہ ہماری ذاتی محنت کا نتیجہ اور اللہ تعالیٰ کے ہم پر راضی ہونے کی دلیل ہے۔ اس خوش فہمی کی وجہ سے فخروغرور میں آکر کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں دوسروں سے بہتر ہیں اگر ہم اپنے رب کے حضور لوٹائے گئے تو آخرت میں بھی نیک لوگوں سے بہتر ہوں گے۔ دنیا کے اقتدار اور اسباب کی مستی میں وہ بھول جاتے ہیں جو مال انہیں دیا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور اس کی ناراضگی کا سبب ہے۔ وہ اس لیے ایسے لوگوں کو دنیا کے مال واسباب زیادہ دیتا ہے تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ یہی قریش کا حال تھا وہ مال اور افرادی قوت کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو حقیرسمجھتے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔ بالآخر باغ والے شخص کی طرح برباد ہوئے ہیں۔ قرآن مجیدنے اس بات کو یوں بیان فرماتا ہے کہ کفار یہ خیال نہ کریں کہ ہم انھیں جو مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں اچھی ہے۔ ہرگز نہیں ہم ان کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ وہ اور زیادہ گناہ کرلیں بالآخران کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٧٨) دنیا پر اترانے والے قارون کا انجام : (فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِنْ فِءَۃٍ یَنْصُرُوْنَہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ )[ القصص : ٨١] ” ہم نے اسے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ ٢۔ مال و دولت پر فخرو غرور نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ دنیا کا مال ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن غرور وتکبر نہیں کرنا چاہیے : ١۔ دنیا دار نے اپنے نیک ساتھی سے کہا کہ میں تم سے مال و دولت کے لحاظ سے بہتر ہوں۔ (الکھف : ٣٤) ٢۔ اللہ فخر و غرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٤۔ زمین میں اکڑ اکڑ کر نہ چل تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٥۔ زمین میں اکڑاکڑکر نہ چل اللہ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٦۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو دنیا میں تکبر و فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ دو باغ انگوروں سے بھرے ہوئے تھے اور ان کے اردگرد کھجوروں کی باڑھ لگی ہوئی تھی اور ان کے درمیان زرعی زمین بھی تھی اور ان کے درمیان پانی کی ایک نہر تھی۔ یہ ایک خوبصورت منظر تھا اور اس میں بھرپور زندگی تھی اور سامان زندگی تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عبرت کے لیے دو شخصوں کی مثال، ان میں ایک باغ والا اور دوسرا غریب تھا ان آیات میں ایک واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں ایک باغ والے کافر و مشرک اور دوسرے مومن موحد کی گفتگو نقل فرمائی ہے۔ علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ ١٦١ ج ٣ میں لکھتے ہیں کہ یہ آیات اہل مکہ میں سے دو شخصوں کے بارے میں نازل ہوئیں دونوں بنی مخزوم میں سے تھے۔ ایک تو حضرت ابو سلمہ (رض) تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے حضرت ام سلمہ (رض) کے شوہر تھے اور دوسرا شخص جو کافر تھا وہ اسود بن عبد الاسد تھا یہ ایک قول ہے۔ دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل میں سے دو شخصوں کا ہے جو آپس میں دونوں بھائی تھے ایک مومن تھا اور ایک کافر تھا اس واقعہ کو بطور مثال فریق اول عیینہ بن حصین اور اس کے ساتھیوں اور فریق دوم حضرت سلمان فارسی اور ان کے ساتھیوں ( رض) کے بارے میں ذکر فرمایا (یاد رہے کہ عیینہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یوں کہا تھا کہ آپ ان غریبوں اور مسکینوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیجیے تاکہ ہم آپ کے پاس بیٹھ سکیں۔ ) صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ آیات بالا میں جن دو شخصوں کا ذکر فرمایا ہے یہ بنی اسرائیل میں سے ایک بادشاہ کے بیٹے تھے، ایک نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اور دوسرے شخص نے کفر اختیار کیا اور وہ دنیا کی زینت میں مشغول ہوگیا اور مال کو بڑھانے میں لگ گیا واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے خوب مال دیا اس کے انگور کے دو باغ تھے اور ان دونوں باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے۔ جنہوں نے باڑ کی طرح سے ان دونوں باغوں کو گھیر رکھا تھا۔ ان دونوں باغوں میں کھیتی بھی تھی، درختوں کے پھلوں اور کھیتی کی پیداوار سے وہ بڑا مالدار بنا ہوا تھا ان باغوں کے درمیان نہر بھی جاری تھی دونوں باغ بھرپور پھل دیتے تھے ذرا سی بھی کمی نہ ہوتی تھی۔ یہ تو باغ والے کا حال تھا (جو اوپر مذکور ہوا) اس کے احوال کے برخلاف ایک دوسرا شخص تھا، وہ مال اور آل و اولاد کے اعتبار سے زیادہ حیثیت والا نہ تھا، جس شخص کے باغ تھے اسے بڑا غرور تھا اس نے اپنے اس کم حیثیت والے ساتھی سے کہا کہ میں مال کے اعتبار سے تجھ سے زیادہ ہوں اور افراد کے اعتبار سے تجھ سے بڑھ کر ہوں کیونکہ میری جماعت زبردست ہے، اول تو اس نے اس کم حیثیت والے ساتھی سے تکبر اور تفاخر سے خطاب کیا اور دوسرا کام یہ کیا کہ وہ اپنے باغ میں اپنے نفس پر ظلم کرنے کی حالت میں یعنی کفر پر قائم ہوتے ہوئے داخل ہوا وہاں بھی اس نے وہی کفر کیا اور کفران نعمت کی باتیں کیں کہنے لگا کہ میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ میرا یہ باغ کبھی بھی برباد ہوگا اور یہ جو قیامت قائم ہونے والی باتیں کرتے ہو یہ یوں ہی کہنے کی باتیں ہیں میرے خیال میں تو قیامت قائم ہونے والی نہیں۔ فرض کرو کہ اگر قیامت آہی گئی اور میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو اس دنیا میں جو میرا باغ ہے مجھے وہاں اس سے بڑھ کر بہت زیادہ اچھی جگہ ملے گی۔ دنیا والوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کافر اور فاجر ہوتے ہوئے یوں سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقبول بندے ہیں جب اس نے ہمیں یہاں دولت دی ہے تو وہاں بھی ہمیں خوب زیادہ نعمت و دولت ملے گی، یہ لوگ قیامت کو مانتے تو نہیں ہیں لیکن اہل ایمان سے قیامت کی باتیں سن کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ اگر بالفرض قیامت آ ہی گئی تو وہاں بھی ہماری نوازش میں کوئی کمی نہ ہوگی یہ نہیں جانتے کہ وہاں جو کچھ ملے گا ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ملے گا چونکہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم اور تبلیغ کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ اس لیے روز جزاء میں جو نعمتیں ملیں گی، ان نعمتوں کے ملنے کے قانون سے واقف نہیں ہوتے اور بہت سی مرتبہ حقیقت جانتے ہوئے بھی اہل ایمان کے سامنے منہ زوری کرکے اپنے آپ کو دونوں جہانوں میں برتر اور بہتر بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خود ہی خیال جما لیتے ہیں کہ ہم یہاں بھی بہتر ہیں وہاں بھی بہتر ہوں گے۔ وہ جو اس کا ساتھی تھا جس سے اس نے فخر اور تمکنت کی باتیں کی تھیں اور اسے اپنے سے گھٹیا بتایا تھا اس نے اول تو اسے عار دلائی اور ایک اچھے انداز میں اس کی نادانی اور بےوقوفی پر متنبہ کیا اور کہا کہ جس ذات پاک نے تجھے مٹی سے پھر نطفہ سے پیدا فرمایا پھر تجھے صحیح سالم آدمی بنا دیا کیا تو نے اس کے ساتھ کفر کیا یعنی تجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، چونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے جو ہر انسان کے باپ ہیں اور پھر ہر انسان مادہ قریبہ یعنی نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جو رحم مادر میں جاتا ہے اس لیے مادہ بعیدہ اور قریبیہ دونوں کو ذکر کردیا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ دیکھ رحم مادر میں نطفہ پہنچ کر جو بچہ بن کر باہر آتا ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ ٹھیک ہو اور اس کے اعضاء صحیح سالم ہوں تجھے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تیرے اعضاء کو صحیح سالم بنایا اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تجھے مرد بنایا، بجائے مومن بندہ بننے کے تو کافر ہوگیا۔ تف ہے ایسی سمجھ پر اس کے بعد اس مومن بندہ نے اپنا عقیدہ بتایا اور یوں کہا کہ اللہ میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اس میں اپنے دین و عقیدہ کا اعلان بھی ہے اور مخاطب پر تعریض بھی ہے کہ تو مشرک ہے اور مشرک ہونا بدترین چیز ہے، اس کے بعد اس مومن موحد نے اپنے مخاطب سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو تجھے باغ کی نعمت دی ہے تجھے اس نعمت پر شکر گزار ہونا چاہیے باغ میں جاکر تو نے یوں کہا کہ میرے خیال میں یہ باغ کبھی برباد نہ ہوگا اور تو قیامت آنے کا بھی منکر ہوگیا اس کے بجائے تجھے یوں کہنا چاہیے تھا کہ ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ (یعنی اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور اللہ کی مدد کے بغیر کوئی قوت نہیں) یہ باغ صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وجود میں آیا ہے اسی نے تجھے اس پر قبضہ دیا ہے جب وہ چاہے گا اسے برباد کردے گا اور تو دیکھتا رہ جائے گا، رہی یہ بات کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں تو یہ بات میرے لیے کوئی غمگین اور متفکر ہونے کی نہیں ہے مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عنقریب تیرے باغ سے بہتر باغ عطا فرما دے گا دنیا میں ہو یا آخرت میں یا دونوں میں، اور وہ وقت بھی دور نہیں معلوم ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ تیرے باغ پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے اور تیرا باغ ایک صاف میدان ہو کر رہ جائے، یا اس کا پانی زمین میں اتر جائے پھر تو اس پانی کو طلب کرنے کی کوشش بھی نہ کرسکے، مطلب یہ ہے کہ تو جو یہ کہتا ہے کہ میرا باغ ہمیشہ رہے گا یہ اس لیے کہتا ہے کہ اسباب ظاہرہ موجود ہیں سیراب کرنے کے لیے پانی ہے باغ کی سینچائی کے لیے آدمی موجود ہیں۔ یہ تیری بھول ہے جس ذات پاک نے تجھے یہ باغ دیا ہے وہ اس پر قادر ہے کہ آسمان سے اس پر کوئی آفت بھیج دے۔ پھر نہ کوئی درخت رہے نہ ٹہنی نہ برگ رہے نہ بار، اسے اس بات پر بھی قدرت ہے کہ جس پانی پر تجھے گھمنڈ ہے وہ اس پانی کو اندر زمین سے دور پہنچا دے اور یہ پانی اتنی دور چلا جائے کہ تو اسے محنت اور کوشش کرکے دوبارہ اپنی کھیتی کی سطح تک لانے کی ہمت نہ کرسکے۔ مومن و موحد بندہ نے جو کافر و مشرک ناشکرے کو شرک چھوڑنے اور توحید اختیار کرنے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت ماننے اور اس کی گرفت سے بچنے کی تلقین کی تھی اس پر اس کافر نے دھیان نہ دیا عذاب آ ہی گیا۔ اور اس کے پاس جو مال تھا اور مالدار بننے کے جو اسباب تھے ان سب کو ایک آفت نے گھیر لیا بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ایک آگ تھی جس نے اس کی مالیت کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اب تو یہ شخص حیران کھڑا رہ گیا اور اپنے باغ پر جو کچھ خرچ کیا تھا اس پر اپنے ہاتھ کو الٹتا پلٹتا رہ گیا اس کا باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا تھا (یعنی جن ٹٹیوں پر انگور وغیرہ کی بیلیں چڑھاتے ہیں وہ جل کر گرگئی تھیں پھر اوپر سے پورا باغ ہی جل کر ان ٹٹیوں پر گرگیا ) وہ شخص افسوس کر رہا تھا، کبھی یوں ہاتھ پیٹتا تھا اور کبھی یوں، اور کہتا تھا کہ ہائے افسوس میں اس باغ پر مال خرچ نہ کرتا جیسا تھا ویسے ہی بڑھتا رہتا۔ اگر اس پر مال نہ خرچ کرتا تو باغ جل جاتا مگر مال تو رہ جاتا، باغ بھی ہلاک ہوا اور جو کچھ اس پر لگایا تھا وہ بھی گیا اب اسے اپنے مومن ساتھی کی نصیحت یاد آئی اور کہنے لگا (یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبّْیْٓ اَحَدًا) (ہائے کاش کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ ) باغ کی بربادی اور صاحب باغ کی حسرت بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ شانہ نے اس کی عاجزی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ لَمْ تَکُنْ لَّہٗ فِءَۃٌ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) (اور اللہ کے سوا اس کے پاس کوئی جماعت اور جتھا نہ تھا جو اس کی مدد کرتے) (وَ مَا کَانَ مُنْتَصِرًا) (اور وہ بدلہ لینے والا نہ تھا) اتنی بڑی آفت کسی پر نازل ہوجائے تو وہ تو مخلوق سے بھی بدلہ لینے سے عاجز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی شخص بدلہ لے ہی نہیں سکتا۔ اللہ نے اس پر کفر و شرک کی وجہ سے عذاب بھیجا اور وہ اس حال میں ہوگیا کہ کسی طرح کہیں سے بھی مدد پاکر کسی طرح کا بدلہ لینے کے قابل نہ رہا۔ یاد رہے کہ رکوع کے شروع میں دو باغوں کا تذکرہ فرمایا تھا لیکن بعد میں ایک ہی باغ کا ذکر فرمایا یہ بطور جنس کے ہے جو دونوں باغوں کو شامل ہے اور جب باغ برباد ہوئے تو کھیتی بھی ختم ہوئی اور جن افراد پر اسے گھمنڈ تھا ان کی قوت اور شوکت بھی دھری رہ گئی کیونکہ جماعت اور جتھا بھی اسی وقت کام آتا ہے جب ان پر خرچ کرنے کے لیے مال موجود ہو، آخر میں فرمایا (ھُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ ) ایسے موقع پر مدد کرنا اللہ ہی کا کام ہے جو حق ہے (وہ بندوں کے اموال کو تباہ کرکے پھر سے عطا فرما سکتا ہے) (ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا) (وہ ثواب کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے) مطلب یہ ہے کہ اپنے اموال کو اللہ پاک کی رضا مندی کے لیے خرچ کریں وہ اچھے سے اچھا بدلہ دے گا اور جو کچھ اس کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے گا، اس کا انجام بھی سب سے اچھا ہوگا۔ اس میں یہ بتادیا کہ مومن بندوں کا اگر کوئی نقصان ہو بھی جائے تو انجام کے اعتبار سے اسے کوئی خسارہ یا نقصان نہیں کیونکہ وہ دونوں جہان میں یا کم از کم آخرت میں اس کا بدلہ پالے گا اور آخرت میں جو کچھ ملے گا اس کا اس دنیا میں حساب نہیں لگایا جاسکتا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مومن مرد اور مومن عورت کو اس کے جان میں اور مال اور اولاد میں تکلیف پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو اس کا ایک گناہ بھی باقی نہ رہے گا (تکلیفوں کی وجہ سے سب گناہ دھل چکے ہوں گے۔ ) (رواہ الترمذی کما فی المشکوٰۃ صفحہ ١٣٦) فائدہ : گزشتہ رکوع میں ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے دنیاوی اموال پر فخر کرتے ہوئے اور بڑائی جتاتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ بات پیش کی تھی کہ آپ غرباء مسلمین کو اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوجایا کریں اور یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ ضعفاء مسلمین کو حقیر سمجھتے تھے اور انہیں اس لائق نہیں جانتے تھے کہ خود ان کے ساتھ بیٹھیں ان لوگوں کی خواہش اور فرمائش کا تذکرہ کرنے کے بعد اول تو دوزخ کا عذاب بتایا جس میں کافر مبتلا ہوں گے پھر جنت کی نعمتیں ذکر فرمائیں جو مومنوں کو ملیں گی۔ اس کے بعد باغ والے کافر کا قصہ بیان فرمایا جسے ایک مومن بندہ نے سمجھایا تھا لیکن وہ کافر نہ مانا، عذاب آیا اور اس کا مال تباہ و برباد ہوگیا۔ اس قصہ میں بہت بڑی عبرت ہے کوئی شخص اپنے مال پر گھمنڈ نہ کرے اللہ کا مومن بندہ بنے اور جن مومن بندوں کے پاس مال نہیں ہے انہیں حقیر نہ جانے اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہ کرے، ناشکری کی وجہ سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں پھر ایسے وقت میں کوئی مددگار نہیں ہوتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40:۔ جو لوگ دنیوی شان و شوکت اور کثرت مال و دولت پر مغرور ہو کر حق اور توحید کو ٹھکرا دیتے اور زر و جواہر کے خزانوں پر فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ اور کمال رحمت کے تحت تین طریقوں سے نصیحت فرماتا ہے تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ اول دولت کے دنیا ہی میں موجب عذاب ہونے کا اظہار فرما کر، دوم دنیوی مال و دولت کی قلت اور حقارت بیان فرما کر، سوم دولت دنیا کے آخرت میں بھی موجب عذاب ہونے کا ذکر فرما کر۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے دو اسرائیلی بھائیوں قطروس مشرک اور یہودا مومن کا قصہ بیان کر کے پہلے طریقہ کے مطابق پند و نصیحت فرمائی ہے۔ یہ واقعہ دنیوی مال و متاع کے بےثباتی، اور دولت دنیا پر مغرور ہو کر اللہ کی توحید کو چھوڑنے کے بد انجام کا واضح ثبوت اور شاہد ہے کہ قطروس مشرک اپنے باغات، مال و اولاد اور اپنے کنبے پر اس قدر مغرور تھا کہ اللہ کی توحید کو پس پشت ڈال دیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے عذاب بھیج کر اس کے باغات کو تباہ و برباد کردیا اور جن بزرگوں اور پیروں کی نصرت و یاری اور جس خاندانی جمعیت کی طاقت پر اس کو بھروسہ تھا ان میں سے کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔ المقصود من ھذا ان الکفار افتخروا باموالھم وانصارھم علی فقراء المسلمین فبین اللہ تعالیٰ ان ذلک مما لایوجب الافتخار ولاحتمال ان یصیر الفقیر غنیا والغنی فقیرا اما الذی یجب حصول المفاخرۃ بہ فطاعۃ اللہ وعبادتہ (کبیر ج 5 ص 711) ۔ 41:۔ ان دونوں بھائیوں میں سے ایک (قطروس مشرک) کے انگور کے دو باغ تھے جن کے گرد کھجور کے درخت تھے اور جو زمین دونوں باغوں کے درمیان واقع تھی اس میں غلے اور سبزی کے کھیت لہلہا رہے تھے۔ حاصل یہ کہ اس کی زمین ہر قسم کے میووں، پھلوں اور غلوں کے لیے نہایت موزوں اور اعلی درجہ کی زرخیز تھی اور پھر باغوں اور کھیتوں کی ترتیب نہایت عمدہ اور خوشنما تھی۔ جعلناھا ارضا جامعۃ للاقوات والفوا کہ ووصف العمارۃ بانہا متواصلۃ متشابکۃ لم یتوسطھا ما یقطعھا مع الشکل الحسن والترتیب الانیق (مدارک ج 3 ص 10) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

32 اور اے پیغمبر آپ ان لوگوں کے لئے جو دنیا سے محبت کرتے ہیں اور آخرت اور عقبیٰ سے بےزار ہیں ان دو شخصوں کا حال بیان کردیجیے جن دو میں سے ہم نے ایک کو تو انگور کے دو باغ دیئی تھے اور ہم نے ان دونوں باغوں کو چاروں طرف سے کھجور کے درختوں سے گھیر رکھا تھا اور دونوں باغوں کے چاروں طرف کھجور کے درختوں کی باڑھ لگا رکھی تھی اور دونوں باغوں کے درمیان ہم نے کھیتی بھی پیدا کی تھی۔ یعنی انگوروں کے دو باغ چاروں طرف کھجوروں کی باڑ بیچ میں کھیتی اور اگٓے بہتا ہے نہر کا پانی یہ دونوں شخص یا تو قرابت دار تھے یا دونوں آپ میں ملاقات اور میل رکھتے تھے یہ دو باغ والا بد دین تھا اور دوسرا دین دار تھا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اگلے زمانے میں ایک شخص مالدار مرگیا۔ دو بیٹے رہے برابر مال بانٹ لیا ایک نے زمین خرید کی دو طرف میوے کے باغ لگائے بیچ میں کھیتی اور ندی کاٹ کر ان میں ڈالی کہ مینہہ نہ ہو تو بھی نقصان نہ آوے اور عمدہ جگہ بیاہ کیا اولاد ہوئی اور نوکر رکھے تدبیر دنیا درست کر کے آسودہ گزران کرنے لگا۔ دوسرے نے سب مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا آپ قناعت سے بیٹھ رہا۔ 12