Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 33

سورة الكهف

کِلۡتَا الۡجَنَّتَیۡنِ اٰتَتۡ اُکُلَہَا وَ لَمۡ تَظۡلِمۡ مِّنۡہُ شَیۡئًا ۙ وَّ فَجَّرۡنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا ﴿ۙ۳۳﴾

Each of the two gardens produced its fruit and did not fall short thereof in anything. And We caused to gush forth within them a river.

دونوں باغ اپنا پھل خوب لائے اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ کی اور ہم نے ان باغوں کے درمیان نہر جاری کر رکھی تھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اتَتْ أُكُلَهَا ... Each of those two gardens brought forth its produce, meaning, produced its fruits, ... وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْيًا ... and failed not in the least therein, meaning, nothing at all was diminishing. ... وَفَجَّرْنَا خِلَلَهُمَا نَهَرًا and We caused a river to gush forth in the midst of both. means, rivers were flowing through them here and there.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 یعنی اپنی پیداوار میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے بلکہ بھرپور پیداوار دیتے تھے۔ 33۔ 2 تاکہ باغوں کو سیراب کرنے میں کوئی رکاوٹ واقع نہ ہو۔ یا بارانی علاقوں کی طرح بارش کے محتاج نہ رہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَہَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَـيْــــًٔـا ۝ ٠ۙ وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَہُمَا نَہَرًا۝ ٣٣ۙ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو خل ( درمیان) الخَلَل : فرجة بين الشّيئين، وجمعه خِلَال، کخلل الدّار، والسّحاب، والرّماد وغیرها، قال تعالیٰ في صفة السّحاب : فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ [ النور/ 43] ، فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، قال الشاعر : 143- أرى خلل الرّماد ومیض جمر وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] ، أي : سعوا وسطکم بالنّميمة والفساد . ( خ ل ل ) الخلل ۔ دو چیزوں کے درمیان کشاد گی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مچلا بادل اور گھروں کے درمیا کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خلال ہے ۔ چناچہ بادل کے متعلق فرمایا : فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے ۔ اور گھروں کے متعلق فرمایا : اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے ۔ شاعر نے کہا ہے میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں ۔ اور آیت کریمہ : وَلَأَوْضَعُوا خِلالَكُمْ [ التوبة/ 47] اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے ۔ یعنی چغل خواری اور اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ (كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ اٰتَتْ اُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْهُ شَـيْــــًٔـا) وہ دونوں باغات ہر سال موسم کے مطابق خوب پھلتے تھے اور ان کی پیدوار میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی تھی۔ ان باغوں کا مالک شخص سالہا سال سے ان کی پیداوار سے مسلسل فائدہ اٹھاتے اٹھاتے انہیں دائمی سمجھ بیٹھا اور وہ بالکل ہی بھول گیا کہ یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور اجازت ہی سے ممکن ہے۔ (وَّفَجَّرْنَا خِلٰلَهُمَا نَهَرًا) ان دونوں باغوں کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی تھی۔ گویا ان کی آب پاشی کا نظام بھی مثالی تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:33) کلتا۔ تاکید تثنیہ مؤنث کے لئے آتا ہے اس کا استعمال تثنیہ مذکر کلا کی طرح ہے ہر دو ۔ دونوں ۔ دونوں میں سے ہر ایک۔ اکلھا۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا میوہ۔ اس کا پھل۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب دونوں جنتوں میں سے ہر ایک جنت کے لئے ہے۔ کلتا الجنتین اتت اکلھا۔ یہ دونوں باغ اپنے اپنے پھل لائے۔ لم تظلم۔ مضارع واحد مؤنث غائب نفی حجد بلم اس نے نہ گھٹایا۔ اس نے نہ کم کیا۔ اس نے ظلم نہ کیا۔ یہاں ظلم کے معنی گھٹانے کے ہیں۔ اور کم کرنے کے ہیں۔ لم کے استعمال سے مضارع ماضی منفی کے معنی میں ہوگیا ہے۔ ضمیرفاعل ہر دو جنتوں میں سے ہر جنت کے لئے ہے یعنی دونوں باغوں میں سے کسی باغ نے بھی پھل لانے میں کوئی کمی نہ کی۔ (یعنی ہر دو باغ پورا پورا پھل لائے تھے اور کسی قسم کی کسر نہ اٹھا رکھی تھی) ۔ منہ میں ضمیر ہُ واحد مذکر غائب اکل (ثمر، پھل) کے لئے ہے۔ شیئا۔ مفعول کی وجہ سے منصوب ہے۔ فجرنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ تفجیر (تفعیل) مصدر۔ ہم نے بہایا۔ ہم نے پھاڑ کر بہایا۔ ہم نے پھاڑا۔ یعنی ہم نے جاری کر رکھی تھی (ایک نہر) دونوں کے درمیان ۔ یا ہم نے دونوں باغوں میں نہریں بہا رکھی تھیں۔ (انھار متفرقۃ ھنا وھنا) خللہما مضاف مضاف الیہ۔ خلل درمیان ۔ وسط۔ بیچ۔ خلل کی جمع ہے جس کے معنی دو چیزوں کے درمیان کشادگی کے ہیں

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” دونوں باغ خوب پھلے پھولے اور بار آور ہونے میں انہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی “۔ یہاں قرآن کریم نقص اور کمی کے لئے لفظ ” ظلم “ استعمال کرتا ہے تاکہ ان دونوں باغوں اور ان کے مالک کے کردار کے درمیان تقابل پیدا کیا جاس کے ، کیونکہ باغات نے تو اپنا حق ادا کردیا ، جبکہ باغات کے مالک نے تکبر کیا ، سرکشی اختیار کی اور کبرو غرور کی وجہ سے اللہ کا شکر ادا نہ کیا اور ظلم کیا۔ اب ذرا ان دو باغوں کے اس مالک کو ملاحظہ کریں کہ اس کا پیمانہ بھر جاتا ہے اور وہ ان کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے۔ فخر و مباہات سے اس کا سر غرور میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس کا پیمانہ مرغی کے پیمان کی طرح ہے ، جلدی بھر جاتا ہے اور پھر یہ طائوس کی طرح فخر سے ناچنے لگتا ہے اور اپنے فقیر ساتھی اور ہمسائے پر بوجہ کبر ، اپنے آپ کو بلند سمجھتا ہے اور یوں گویا ہوتا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ یہاں طلم کے معنی کم کرنے کے ہیں، ولم تظلم منہ شیئا ای لم تنقص (مفردات ص 318) ان باغوں کا معاملہ دوسرے باغوں سے بالکل جدا گانہ تھا عام طور پر پھلدار درخت ایک سال زیادہ پھل دیتے ہیں اور ایک سال کم، مگر قطروس کے باغوں کے درخت اور پودے ہر سال بکثرت پھل اور میوے پیدا کرتے تھے (روح ج 15 ص 274) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

33 وہ دونوں باغ اپنے پورے پھل لایا کرتے تھے اور پھل لانے میں ذرا سی بھی کمی نہیں کرتے تھے اور پھلوں کو گھٹاتے نہیں تھے اور ان دونوں باغوں کے درمیان ہم نے نہر جاری کر رکھی تھی۔