Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 34

سورة الكهف

وَّ کَانَ لَہٗ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَنَا اَکۡثَرُ مِنۡکَ مَالًا وَّ اَعَزُّ نَفَرًا ﴿۳۴﴾

And he had fruit, so he said to his companion while he was conversing with him, "I am greater than you in wealth and mightier in [numbers of] men."

الغرض اس کے پاس میوے تھے ، ایک دن اس نے باتوں ہی باتوں میں اپنے ساتھی سے کہا کہ میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور جتھے کے اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ ... And he had Thamar, It was said that what was meant here was wealth, and it was said that what was meant were fruits, which is the more apparent meaning here. This is also supported by the alternative recitation, Thumr, which is the plural of Thamrah (fruit) just as Khushb is the plural of Khashab (wood). Others recite it as Thamar. ... فَقَالَ ... and he said the owner of the two gardens ... لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ ... to his companion in the course of discussion, means, while he was disputing with him and boasting to him and showing off, ... أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَرًا I am greater than you in wealth and have a mightier entourage. meaning, `I have more servants, attendants and children.' Qatadah said, "This, by Allah, is the wish of the immoral to have a lot of wealth and a large entourage."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی باغوں کے مالک نے، جو کافر تھا، اپنے ساتھیوں سے کہا جو مومن تھا۔ 34۔ 2 نَفَر (جتھے) سے مراد اولاد اور نوکر چاکر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّكَانَ لَهٗ ثَمَــــرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ ۔۔ : ” ثِمَرٌ“ کی تنوین تکثیر کے لیے ہے، یعنی اس کے علاوہ بھی اس کے پاس بہت سا پھل تھا یا بہت نفع تھا، کیونکہ نفع کو بھی ثمر کہہ لیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد اولاد لی ہے کہ کھیتوں اور باغوں کے علاوہ اس کی اولاد بھی بہت تھی۔ اس کی دلیل آگے مومن کا قول ہے : (اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا) [ الکہف : ٣٩ ] ” اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں۔ “ دوسرا آدمی مومن تھا مگر نادار تھا، اب اس کافر نے فخر سے گفتگو کرتے ہوئے اسے کہا، میرے پاس تم سے مال بھی زیادہ ہے اور آدمی بھی، یعنی اولاد، نوکر چاکر اور دوست۔ الغرض ! اس بےایمان نے اپنے مال و جاہ کے بھروسے پر مومن بھائی پر فخر کیا اور اسے اپنے باغات کا مشاہدہ کرانے کے لیے ساتھ لے چلا۔ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word: ثَمَرٌ‌ (thamar) in: وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ‌ (And he had wealth - 34) means the fruit of trees as well as wealth, in an absolute sense. At this place, Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Mujahid and Qatadah have taken it in the later sense (Ibn Kathir) According to the Lexicon, al-Qamus, this word is used to denote the fruit of the tree and wealth of all kinds. This tells us that not only did he own gardens and farms, he also had gold, silver and other luxuries. Even his words reported by the Qur&an: (I am greater than you in wealth -34) also express the same sense. (Ibn Kathir) About the statement: مَا شآء اللہ لا قُوَۃَ اِلَّا بِاللہِ : |"[ Everything is ] as Allah wills. There is no power except with Allah,|" it has been reported in Shu&ab al-&Iman on the authority of Sayyidna Anas (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said, |"whoever sees something, likes it - and says &masha&Allahu la quwwata illa bil-lah& - nothing will harm it (that is, what he likes will stay protected).& And it appears in other reports, &whoever recites this kalimah when he likes something he sees, it will stay protected against the evil eye.& The gist of the arguments of these two persons, as explained by Maulana Ashraf Ali Thanavi (رح) in Khulasa-e-Tafsir These verses have described the event of two persons one of whom had a lot of wealth and, proud of it, he refused to accept that there is any life after death, and if there is one, he claimed, he will be given more wealth and reward therein. His argument was that if Allah was not pleased with him, he would not have this amount of wealth in this world. The other person, though less than him in wealth, was a true believ¬er. He refuted the argument of the former one by saying that the worldly wealth is not a sign of one&s being close to Allah, because the worldly ben¬efits are given by Allah, in one way or the other, even to the disbelievers and sinful persons, rather to the snakes, scorpions and beasts. It is a hor¬rible mistake to presume that they are the signs of one&s being approved by Allah. Therefore, neither your wealth is the proof of your behaviour being approved by Allah, nor my lesser wealth is a proof of disapproval by Him. Allah&s approval or disapproval depends on one&s faith and deeds alone and not on the amount of wealth one has.

معارف و مسائل : وَّكَانَ لَهٗ ثَمَــــرٌ لفظ ثمر درختوں کے پھل کو بھی کہا جاتا ہے، اور مطلق مال و زر کو بھی، اس جگہ حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، قتادہ سے یہی دوسرے معنی میں منقول ہیں (ابن کثیر) قاموس میں ہے کی لفظ ثمرہ درخت کے پھل اور انواع مال وزر سب کو کہا جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس کے پاس صرف باغات اور کھیت ہی نہیں بلکہ سونا چاندی اور تمام اسباب عیش دوسرے بھی موجود تھے، خود اس کے الفاظ میں جو قرآن نے نقل کئے اس میں اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا بھی اسی مفہوم کو ادا کرتے ہیں (ابن کثیر) مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰه شعب الایمان میں حضرت انس (رض) کی روایت سے مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخض کوئی چیز دیکھے اور وہ اس کو پسند آئے تو اگر اس نے یہ کلمہ کہہ لیا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰه تو اس کو کوئی چیز نقصان نہ پہونچائے گی (یعنی وہ پسندیدہ محبوب چیز رہے گی) اور بعض روایات میں ہے کہ جس نے کسی محبوب، پسندیدہ چیز کو دیکھ کر یہ کلمہ پڑھ لیا تو اس کو نظر بد نہ لگے گی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّكَانَ لَہٗ ثَمَــــرٌ۝ ٠ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا۝ ٣٤ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ حور الحَوْرُ : التّردّد إمّا بالذّات، وإمّا بالفکر، وقوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] ، أي : لن يبعث، وذلک نحو قوله : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] ، وحَارَ الماء في الغدیر : تردّد فيه، وحَارَ في أمره : تحيّر، ومنه : المِحْوَر للعود الذي تجري عليه البکرة لتردّده، وبهذا النّظر قيل : سير السّواني أبدا لا ينقطع «1» ، والسواني جمع سانية، وهي ما يستقی عليه من بعیر أو ثور، ومَحَارَة الأذن لظاهره المنقعر، تشبيها بمحارة الماء لتردّد الهواء بالصّوت فيه کتردّد الماء في المحارة، والقوم في حَوْرٍ أي : في تردّد إلى نقصان، وقوله : «نعوذ بالله من الحور بعد الکور» «2» أي : من التّردّد في الأمر بعد المضيّ فيه، أو من نقصان وتردّد في الحال بعد الزّيادة فيها، وقیل : حار بعد ما کار . والمُحاوَرَةُ والحِوَار : المرادّة في الکلام، ومنه التَّحَاوُر، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] ، وكلّمته فما رجع إليّ حَوَاراً ، أو حَوِيراً أو مَحُورَةً «3» ، أي : جوابا، وما يعيش بأحور، أي بعقل يحور إليه، وقوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] ، جمع أَحْوَرَ وحَوْرَاء، والحَوَر قيل : ظهور قلیل من البیاض في العین من بين السّواد، وأَحْوَرَتْ عينه، وذلک نهاية الحسن من العین، وقیل : حَوَّرْتُ الشّيء : بيّضته ودوّرته، ومنه : الخبز الحُوَّارَى، والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل : کانوا قصّارین «1» ، وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» «2» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» «3» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] . ( ح و ر ) الحور ( ن ) کے اصل معنی پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات کے ہو یا بلحاظ فکر کے اور آیت کریمہ ؛إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] اور خیال کر تھا کہ ( خدا کی طرف ) پھر کر نہیں آئے گا ۔ لن یحور ( سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا مرا د ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاو گے ۔ حار الماء فی الغدید پانی کا خوض میں گھومنا ۔ حارفی امرہ کسی معاملہ میں متحری ہونا ۔ اسی سے محور ہے ۔ یعنی وہ لکڑی جس پر چرخی گھومتی ہے اور گھومنے کے معنی کے لحاظ سے کہاجاتا ہے ۔ سیر السوانی ابدا لا ینقطع کہ پانی کھیننچے والے اونٹ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ۔ محارۃ الاذن کان کا گڑھا ۔ یہ محارۃ الماء کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس میں آواز سے ہو اس طرح چکر کاٹتی ہے ۔ جیسے گڑھے میں پانی گھومتا ہے ۔ القوم فی حوار یعنی زیادتی کے بعد نقصان کیطرف لوٹ رہے ہیں حدیث میں ہے :۔ (101) نعوذ باللہ من الحور بعد الکور ہم زیادتی کے بعد کمی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یا کسی کام کا عزم کرلینے کے بعد اس میں تردد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اسہ طرح کہا جاتا ہے ( مثل) حار بعد ماکار زیادہ ہونے کے بعد کم ہوگیا ۔ المحاورۃ رالحوار ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا اسی سے تحاور ( تبادلہ گفتگو ) ہے قرآن میں ہے ۔ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ کلمتہ فما رجع الی حوار احویرا ومحورۃ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مایعیش باحور وہ عقلمند سے زندگی بسر نہیں کر رہا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں مستور ہیں ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ میں حور ، احور اور حواراء کی جمع ہے ۔ اور حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی بقول بعض آنکھ کی ساہی میں تھوڑی سی سفیدی ظاہر ہونے کے ہیں ۔ کہا جتا ہے ۔ احورث عینہ یعنی اس کی آنکھ بہت سیاہی اور سفیدی والی ہے ۔ اور یہ آنکھ کا انتہائی حسن سمجھاجاتا ہے جو اس سے مقصود ہوسکتا ہے حورت الشئی کسی چیز کو گھمانا ۔ سفید کرنا ( کپڑے کا ) اسی سے الخبز الحوار ہے جس کے معنی امید سے کی روٹی کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَّكَانَ لَهٗ ثَمَــــرٌ) اس کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ جب ان دونوں کا آپس میں مکالمہ ہو رہا تھا اس وقت وہ دونوں باغات پھلوں سے خوب لدے ہوئے تھے جبکہ دوسرا مفہوم جو میرے نزدیک راجح ہے یہ ہے کہ اس شخص کو اللہ نے اولاد بھی خوب دے رکھی تھی۔ اس لیے کہ انسان کے لیے اس کی اولاد کی وہی حیثیت ہے جو کسی درخت کے لیے اس کے پھل کی ہوتی ہے۔ (فَقَالَ لِصَاحِبِهٖ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا) یہاں جس فخر سے اس شخص نے اپنی نفری کا ذکر کیا ہے اس کے اس انداز سے تو (وَّکَانَ لَہٗ ثَمَرٌ) کا یہی ترجمہ بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس شخص کو اولاد خصوصاً بیٹوں سے بھی نوازا گیا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:34) ثمر۔ بمعنی مال و دولت۔ (انواع و اقسام کا دیگر مال) ۔ یح اور۔ ح اور یح اور محاورۃ (مفاعلۃ) وہ گفتگو کر رہا تھا۔ وہ جواب دے رہا تھا۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ اعز۔ زیادہ زور والا۔ زیادہ عزت والا۔ عز سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ نفرا۔ اسم جمع منصوب۔ جماعت۔ کنبہ۔ خاندان۔ کثرت انصار واولاد نفری کے لحاظ سے مالا ونفرا تمیز ہیں۔ اکثر اور اعز کی

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی میں تم سے زیادہ مالدار بھی ہوں اور میرے نوکر چاکر بھی تم سے بڑھ کر ہیں۔ القصہ اس کافر نے اپنے جاہ و مال کے بھروسہ پر مومن بھائی کے مقابلے میں فخر کیا اور اسے اپنے باغات کا مشاہدہ کرانے کے لئے ساتھ لے چلا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پھر وہ اپنے اس رفیق کو لے کر ایک باغ میں پھرتا ہے۔ اس کا دل خوشی سے جوش میں آتا ہے۔ اب یہ سخت غرور کی حالت میں داخل ہوتا ہے ، اللہ کو اس نے پوری طرح بھلا دیا۔ اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہے کہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر بجا لانا بھی ضروری ہے اور اس کے دل میں یہ خیال آگیا کہ یہ باغات کبھی بھی نیست و نابود نہ ہوں۔ اس نے قیام قیامت کو بالکل بھلا دیا اور اس کا صاف صاف انکار کردیا۔ پھر اس نے قیام قیامت کا سرے سے انکار کردیا۔ چلو اگر قیامت قائم بھی ہوجائے تو وہاں بھی اس کے ساتھی ترجیحی سلو اور عزت کا معاملہ ہوگا۔ اس دنیا میں دو باغات کا مالک نہیں ہے ، لہٰذا لازمی ہے کہ وہاں بھی اسے یہ سہولتیں بہرحال حاصل ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ باغوں اور کھیتوں کا محل وقوع، حسن ترتیب اور زمینوں کی زرخیزی بیان کرنے کے بعد ان کے مالک کا غرور و استکبار بیان فرمایا کہ کس طرح وہ اپنے باغوں اور کھیتوں کی شادابی اور اپنی نفی پر غرور کرتا اور اپنے غریب اور مومن بھائی کو کس قدر ذلیل و حقیر سمجھتا تھا۔ ” انا اکثر منک الخ “۔ قطروس مشرک نے فخر و غرور سے کہا کہ میرے پاس تم سے دولت بھی زیادہ ہے اور میرے اعوان وانصار بھی طاقت ور ہیں۔ ” ظالم لنفسہ “ وہ شرک اور غرور کر کے اپنی جان پر ظلم کر رہا تھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

34 اور اس کے پاس اور بھی بہت سے پھل تھے پھر اس مالدار مگر بد دین نے اپنے دوسرے ساتھی سیب اتیں کرتے کہا میں تجھ سے مال میں بھی بڑھا ہوا ہوں۔ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور جتھے کے اعتبار سے بھی میں تجھ سے زیادہ عزت دار اور غلبہ والا ہوں۔ یعنی ان باغوں میں علاوہ کھجور اور انگور کے اور پھل بھی تھے یا یہ مطلب کہ پھلوں کے علاوہ آمدنی کے اور بھی ذرائع تھے اور اقسام مال میں سے اور بھی انواع مال اس کے پاس تھے۔ بہرحال دوران گفتگو میں اس اپنے دین دار ساتھی سے کہنے لگا کہ تو میرے طریقے کو ناپسند کرتا ہے اور اپنے طریقہ کو اچھا کہتا ہے لیکن دیکھ اگر تیرا طریقہ اچھا ہوتا تو تیری حالت اچھی ہوتی اور میرا طریقہ برا ہوتا تو میرے ساتھ برا سلوک ہوتا حالانکہ میں مال کے لحاظ سے بھی اور ساتھیوں کے اعتبار سے بھی تجھ سے بہت زیادہ اور بڑی عزت اور غلبہ کا مالک ہوں۔