Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 35

سورة الكهف

وَ دَخَلَ جَنَّتَہٗ وَ ہُوَ ظَالِمٌ لِّنَفۡسِہٖ ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنۡ تَبِیۡدَ ہٰذِہٖۤ اَبَدًا ﴿ۙ۳۵﴾

And he entered his garden while he was unjust to himself. He said, "I do not think that this will perish - ever.

اور یہ اپنے باغ میں گیا اور تھا اپنی جان پر ظلم کرنے والا ۔ کہنے لگا کہ میں خیال نہیں کر سکتا کہ کسی وقت بھی یہ برباد ہو جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ ... And he went into his garden having been unjust to himself. meaning, in his disbelief, rebellion, arrogance and denial of the Hereafter. ... قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا He said: "I do not think this will ever perish." Thus he was allowing himself to be deceived because of the plants, fruits and trees that he saw, and the rivers flowing through the different parts of his gardens. He thought that it could never come to an end or cease or be destroyed. This was because of his lack of understanding and the weakness of his faith in Allah, and because he was enamored with this world and its adornments, and because he disbelieved in the Hereafter. So he said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ایک موحد اور ایک کافر و مشرک کی مثال :۔ ایک دن وہ اپنے باغ کے پاس کھڑا تھا کہ اس کے مفلس ہمسایہ کا ادھر سے گذر ہوا تو اس سے اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا اور اس سے کہنے لگا جیسی زندگی تم گزار رہے ہو میں بہرحال تم سے بہتر ہوں۔ مالدار بھی اور اولاد بھی کافی ہے یہی باتیں کہتے کہتے وہ اپنے ہمسایہ کو لیے ہوئے اپنے باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے اس باغ پر اتنی محنت کی ہے اور ایسے انتظامات مکمل کردیئے ہیں کہ کم از کم میری زندگی میں یہ باغ اجڑ نہیں سکتا اور جس قیامت کی تم باتیں کرتے رہتے ہو، اول تو مجھے اس کا یقین ہی نہیں اور اگر قائم ہوئی بھی جیسا کہ تم کہتے ہو تو جس خدا نے مجھ پر اس دنیا میں اتنی مہربانی اور اپنا فضل کیا ہے آخر وہ اس زندگی میں مجھ پر کیوں فضل نہ کرے گا ؟ اور قریشی سرداروں کا بھی یہی نظریہ تھا۔ اس آیت میں دراصل دنیا دار لوگوں کے اس غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے کہ اگر انھیں اس دنیا میں آسودہ حالی مہیا ہے تو یہ اللہ کی ان پر خوشنودی کی دلیل ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت آزمائش میں پڑے ہوتے ہیں کہ آیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا اس کے نافرمان بن کر رہتے ہیں لیکن وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جنت تو ہمیں مل ہی گئی ہے اب اور کون سی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۔۔ : اپنی جان پر ظلم کرنے والا اس لیے کہ اس نے تین باتیں کہیں جو تینوں کفر ہیں، اگرچہ وہ رب تعالیٰ کے وجود کو مانتا تھا، جیسا کہ ” وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ “ سے ظاہر ہے۔ پہلی یہ کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا، حالانکہ اللہ کے سوا کسی بھی چیز کو ہمیشہ سے یا ہمیشہ کے لیے باقی سمجھنا نری جہالت اور دہریت ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار اور ارادے کا انکار ہے، وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو ” کُنْ “ کہہ کر فنا کرسکتا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ میں قیامت کو قائم ہونے والی نہیں سمجھتا، حالانکہ یہ اللہ کی قدرت کا انکار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ بھی قادر ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض میں اپنے رب کی طرف دوبارہ لے جایا گیا تو مجھے یہاں سے بہتر جگہ ملے گی، کیونکہ یہ میرا حق ہے۔ دیکھیے حم السجدہ (٥٠) اور سورة مریم (٧٧) یہ اعمال کی جزا و سزا سے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و عدل سے انکار ہے اور مذکورہ تینوں باتیں کفر ہیں۔ (مہائمی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَدَخَلَ جَنَّتَہٗ وَہُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۝ ٠ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ ہٰذِہٖٓ اَبَدًا۝ ٣٥ۙ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ بيد قال عزّ وجل : ما أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هذِهِ أَبَداً [ الكهف/ 35] ، يقال : بَادَ الشیءُ يَبِيدُ بَيَاداً : إذا تفرّق وتوزّع في البَيْدَاء، أي : المفازة، وجمع البیداء : بِيد، وأتان بَيْدَانَة : تسکن البادية البیداء . ( ب ی د ) باد ( ض) الشئی یبید بیادا کے اصل معنی بیداء یعنی بیابان میں کسی چیز کے متعلق اور پر اگنداہ ہونے کے ہیں اور اسی اعتبار سے کامل تباہی اور بربادی کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے ۔ ما أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هذِهِ أَبَداً [ الكهف/ 35] کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو ۔ البیداء کے معنی لق و دق صحراء کے ہیں اس کی جمع بید ہے اور مادہ خروشی کو اتان بیدانۃ کہا جاتا ہے ۔ ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا) یعنی میرا یہ باغ ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ اسے میں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ بنا رکھا ہے۔ انگوروں کی نازک بیلوں کے گردا گرد کھجوروں کے بلند وبالا درخت سنتریوں کی طرح کھڑے ہر قسم کے طوفان اور باد صرصر کے تھپیڑوں سے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ آب پاشی کے لیے نہر کا وافر پانی ہر وقت موجود ہے۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ اسے کبھی کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37. He considered his gardens to be Paradise. Thus he behaved like those mean persons who, when rise to power and wealth, are always involved in the misunderstanding that they are enjoying Paradise in this world, therefore they do not stand in need of any other Paradise.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :37 یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا ۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے ، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے ، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:35) تبید۔ باد یبید (ضرب) بیاد سے مضارع واحد مؤنث غائب وہ ہلاک ہوگی۔ وہ برباد ہوگی۔ وہ تباہ ہوگی۔ وہ خراب ہوگی۔ باد کے اصل معنی بیداء یعنی بیاباں میں کسی چیز کے متفرق اور پراگندہ ہونے کے ہیں اور اسی اعتبار سے کامل تباہی اور بربادی کے متعلق استعمال ہوتا ہے یہاں مطلب یہ ہے کہ :۔ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 افسوس کہ اکثر مسلمان مال دار بھی اسی غرور میں مبتلا ہیں، مساکین بلکہ علماء صلحا تک کو نہایت حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ اس نے توحید کے مسئلہ میں کلام کیا کہ تو جو صانع عالم کا اور اس کی قدرت وغیرہ کا قائل ہے سو میں نہیں سمجھتا کہ اسباب طبعیہ کو کعئی معطل کرسکے، اور اس باغ وغیرہ کا کارخانہ جس کی آبادی کے سارے اسباب جمع ہیں کس طرح محتمل ویرانی کا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہمیشہ اصحاب جاہ و مال اور اہل ثروت اور اہل ِ اقتدار کے دلوں میں یہی سودا سمایا ہوتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ان کی قدرو منزلت ہے ، اسی طرح آخرت میں بھی انہیں ییہ اعزاز ملے گا۔ عالم بالا میں بھی کرسی نسین ہوں گے۔ اگر اہل ِ دنیا کے ہاں ان کا یہ مرتبہ ہے تو اہل سماء میں کیوں نہ ہوگا۔ اب ذرا اس کے اس ساتھی کو دیکھئے جو فقیر ہے اور اس کے پاس کوئی دولت نہیں ہے۔ نہ کہ اس کے پاس باغ ہے اور نہ اس کے پھل ہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک ان باغات کے مقابلے میں ایک اور چیز ایسی ہے جو زیادہ قیمتی ہے۔ اسے اپنے عقیدت اور ایمان پر فخر ہے۔ اسے اپنے اس رب پر بھی فخر ہے جس کے سامنے بڑے بڑے سر جھک جاتے ہیں۔ یہ شخص اپنے اس مغرور سر پھرے اور منکر حق متکبر ساتھی کو بڑے اعتماد سے مخاطب کرتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی چیز سمجھتے ہو ، لیکن ذرا اپنی پیدائش کو تو دیکھو کہ تمہیں ایک ناپاک پانی سے پیدا کیا ہے ، پھر کیچڑ ہے وہ اسے یاد دلاتا ہے کہ منعم حقیقی کا شکر ادا کرنا لازم ہے اور کبرو غرور کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ یہ رجل صالح ات کہتا ہے کہ تمہارے باغ و راغ کی بہ نسبت مجھے عند اللہ بہتر اجر ملے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ جب وہ اپنے باغ میں داخل ہوا اور اس کی سرسبزی و شادابی اس کی خوبصورتی اور پھلوں کی کثرت کو دیکھا تو وہ حب دنیا اور حرص و آز کے خیالات میں کھو گیا اور بول اٹھا کہ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تو یہ باغ تباہ نہیں ہوگا۔ اور ہمیشہ اسی تازگی، شادابی اور رونق کے ساتھ برقرار رہے گا، اور میرا بھائی جس قیامت سے مجھے ڈراتا ہے اور جس آخرت کی آسائش و راحت کے لیے مجھے توحید اور اعمال حسنہ کی تلقین کرتا ہے، اول تو وہ قیامت آنے کی نہیں۔ ” و لئن رددت “ اور اگر بالفرض قیامت آ بھی گئی تو آخرت میں بھی میرا انجام اچھا ہوگا اور وہاں بھی مجھے مال و دولت اور عیش و عشرت کی زندگی نصیب ہوگی وہ اس شبہہ میں مبتلا تھا کہ اللہ کے یہاں اس کی بڑی قدر و منزلت ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا میں مال و دولت، جاہ و حشم اور شان و شوکت کی زندگی عطا فرمائی ہے اور وہ ان تمام انعامات کا مستحق ہے اس لیے آخرت میں اللہ کے نزدیک اس کی یہ قدر و منزلت اور اس کا استحقاق باقی رہے گا۔ اور اسے وہاں بھی ساری نعمتیں میسر ہوں گی (کبیر ج 5 ص 718) حضرت شیخ فرماتے ہیں وہ مشرک تھا جیسا کہ آخر میں خود اس نے اظہار ندامت کے طور پر کہا تھا کہ کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا وہ بزرگوں کو حاجت روا، مشکل کشا اور مانع و معطی سمجھا تھا، اس کا اعتقاد تھا کہ جن بزرگوں کے طفیل دنیا میں اسے دولت و شوکت حاصل ہے ان کی سفارش آخرت میں بھی کام دے گی اور وہاں بھی اسے ہر قسم کا عیش حاصل ہوگا۔ لعل ذلک الکافر مع کونہ منکرا للبعث کان عابد صنم الخ (کبیر ج 5 ص 719) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

35 اور وہ اسی حالت میں کہ وہ اپنے حق میں برا کر رہا تھا اپنے ساتھی کو لئے ہوئے اپنے باغ میں داخل ہوا باغ میں داخل ہونے کے بعد کہنے لگا کہ میں تو یہ خیال نہیں کرتا اور میں تو یہ نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی بھی برباد ہو۔