Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 36

سورة الكهف

وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ﴿۳۶﴾

And I do not think the Hour will occur. And even if I should be brought back to my Lord, I will surely find better than this as a return."

اور نہ میں قیامت کو قائم ہونے والی خیال کرتا ہوں اور اگر ( بالفرض ) میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو یقیناً میں ( اس لوٹنے کی جگہ ) اس سے بھی زیادہ بہتر پاؤں گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَايِمَةً ... "And I do not think the Hour will ever come..." meaning, will ever happen ... وَلَيِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لاََجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا and if indeed I am brought back to my Lord, I surely shall find better than this when I return to Him. meaning, `if there is a Hereafter and a return to Allah, then I will have a better share than this with my Lord, for if it were not that I am dear to Him, He would not have given me all this.' As Allah says elsewhere: وَلَيِن رُّجِّعْتُ إِلَى رَبِّى إِنَّ لِى عِندَهُ لَلْحُسْنَى But if I am brought back to my Lord, surely there will be for me the best with Him. (41:50) أَفَرَأَيْتَ الَّذِى كَفَرَ بِـَايَـتِنَا وَقَالَ لاوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَداً Have you seen him who disbelieved in Our Ayat and said: "I shall certainly be given wealth and children (if I will be alive again)." (19:77) He took it for granted that Allah would give him this, without any sound evidence for that. The reason why this Ayah was revealed was because of Al-`As bin Wa'il, as we will explain in the appropriate place, if Allah wills. In Allah we put our trust.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 یعنی وہ کافر عجب اور غرور میں ہی مبتلا نہیں ہوا بلکہ اس کی مد ہوشی اور مستقبل کی حسین اور لمبی امیدوں نے اسے اللہ کی گرفت اور سزا کے عمل سے بالکل غافل کردیا۔ علاوہ ازیں اس نے قیامت کا ہی انکار کردیا، پھر مذاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیامت برپا ہوئی بھی تو وہاں بھی حسن انجام میرا مقدر ہوگا۔ جن کا کفر طغیان حد سے تجاوز کرجاتا ہے، وہ مست مئے پندار ہو کر ایسے ہی متکبرانہ دعوے کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی۔ حم السجدہ۔ اگر مجھے رب کی طرف لوٹایا گیا تو وہاں بھی میرے لیے اچھائیاں ہی ہیں۔ افرءیت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالا وولدا۔ مریم۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور دعوی کیا کہ آخرت میں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗىِٕمَۃً۝ ٠ۙ وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْہَا مُنْقَلَبًا۝ ٣٦ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ (وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَةَ قَاۗىِٕمَةً ) یہ قیامت وغیرہ کی باتیں سب ڈھکوسلے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کوئی واقعہ حقیقت میں رونما ہونے والا ہے۔ (وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ لَاَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنْقَلَبًا) قیامت و آخرت کا اول تو میں قائل ہی نہیں لیکن قیامت اگر ہوئی بھی تو میں بہرحال وہاں اس سے بھی بہتر زندگی پاؤں گا۔ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص اللہ کا منکر نہیں تھا مگر دنیوی مال و دولت اور مادی اسباب و ذرائع پر بھروسا کر کے شرک کا ارتکاب کر رہا تھا۔ یہ شخص یہاں پر جو فلسفہ بیان کر رہا ہے وہ اکثر مادہ پرست لوگوں کے ہاں بہت مقبول ہے۔ یعنی اگر مجھے دنیا میں اللہ تعالیٰ نے خوشحالی و فارغ البالی سے نواز رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ مجھ سے خوش ہے۔ اسی لیے اس نے مجھے خصوصی صلاحیتیں عطا کی ہیں جن کی وجہ سے میں نے یہ اسباب و وسائل اکٹھے کیے ہیں۔ چناچہ وہ آخرت میں بھی ضرور اپنی نعمتوں سے مجھے نوازے گا۔ اور جو لوگ یہاں دنیا میں جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں وہ آخرت میں بھی اسی طرح بےیارو مددگار ہوں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

38. That is, I don’t think there is any life after death, but supposing there be one, I shall fare even better there than in my present life, for my prosperity is a clear proof that I am a favorite of God.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :38 یعنی اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے بھی تو میں وہاں اس سے بھی زیادہ خوش حال رہوں گا کیونکہ یہاں میرا خوشحال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا محبوب اور اس کا چہیتا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:36) ولئن رددت۔ ماضی مجہول واحد متکلم اور اگر میں لوٹایا گیا۔ یعنی اگر قیامت آبھی گئی اور میں اپنے رب کے حضور لایا گیا۔ رد یرد (نصر) لوٹانا۔ پھیرنا۔ واپس کرنا۔ لاجدن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ واحد متکلم۔ وجود مصدر۔ میں ضرور پائوں گا۔ وجد یجد (ضرب) سے۔ منھا۔ ای من ھذہ الجنۃ اس باغ سے (بہتر باغ مجھے ملے گا) ۔ منقلبا۔ اسم ظرف مکان ۔ لوٹنے کی جگہ۔ تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ لاجدن خیرا منہا منقلبا۔ تو میں یقینا اس باغ سے بہتر پلٹنے کی جگہ پائوں گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 کیونکہ جب اس نے دنیا میں یہ مال اور نعمتیں دی ہیں تو آخرت میں اس سے بہتر ملیں گی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایک نفس مومن کے اندر ایمانی عزت نفس اس طرح جاگ اٹھتی ہے اس لئے اسے کسی کے مال اور دولت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی وہ کسی کی دولت اور اس کی گردن فرازی سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ سچائی کی بات صاف صاف کرتا ہے اور حق کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرتا۔ ایک سچے مومن کے دل میں یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ جاہ و مال کے مقابلے میں غالب اور بھاری ہے اور یہ کہ اس دنیا کے سازو سامان کے مقابلے میں اس کے لئے قیامت میں جو اجر ہے وہ زیادہ قیمتی ہے یہ کہ وہ اللہ کا فضل چاہتا ہے اور اس کا فضل عظیم ہے اور یہ کہ اللہ کا انتقام بڑا سخت ہے اور وہ کسی بھی وقت ایسے غافلوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ اچاک سرسبزی اور شادابی کے ان مناظر سے نکل کر ہم لوگ تباہی اور بربادی کے مناظر میں داخل ہوتے ہیں۔ تکبر اور اشکبار کے منظر کے بجائے اب ندامت اور اللہ سے مغفرت طلب کا منظر آجاتا ہے۔ وہ بات اب سامنے آجاتی ہے جس کی توقع یہ رجل مومن رکھتا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 اور میں یہ بھی خیال نہیں کرتا کہ قیامت قائم ہونے والی ہے یعنی اول تو قیامت کا مجھ کو یقین ہی نہیں اور اگر میں اتفاقاً اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو بھی اپنے موقعہ بازگشت اور لوٹنے کی جگہ کو اس باغ سے بہتر ہی پائوں گا۔ یعنی نہ تو مجھ کو اس کا یقین ہے کہ میرے جیتے جی یہ باغ کبھی تباہ و ہلاک ہوگا اور نہ مجھ کو قیامت کے آنے کا گمان و یقین ہے اور اگر ایسا ہوا بھی کہ مجھے لوٹایا گیا تو وہاں بھی اس باغ سے بہتر باغ کا مالک بنوں گا اور لوٹنے کی جگہ یہاں سے اچھی ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں منکر لوگ جانتے ہیں کہ جیسے دنیا میں عیش کرتے ہیں گناہوں کے ساتھ وہی بات ہوگی آخرت میں سو ہرگز ہوتا نہیں۔ 12