Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 37

سورة الكهف

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَ ہُوَ یُحَاوِرُہٗۤ اَکَفَرۡتَ بِالَّذِیۡ خَلَقَکَ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىکَ رَجُلًا ﴿ؕ۳۷﴾

His companion said to him while he was conversing with him, "Have you disbelieved in He who created you from dust and then from a sperm-drop and then proportioned you [as] a man?

اس کے ساتھی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو اس ( معبود ) سے کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر نطفے سے پھر تجھے پورا آدمی بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Response of the Poor Believer Allah tells: قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ ... His companion said to him during his discussion: Allah tells us how the rich man's believing companion replied to him, warning and rebuking him for his disbelief in Allah and allowing himself to be deceived. ... أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ... Do you disbelieve in Him Who created you out of dust... This is a denunciation, pointing out the seriousness of his rejection of his Lord Who created and formed man out of dust -- that is, referring to Adam -- ... ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلً then out of Nutfah, then fashioned you into a man!" then made his offspring from despised liquid, as Allah says: كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَتًا فَأَحْيَـكُمْ How can you disbelieve in Allah Seeing that you were dead and He gave you life. (2:28) meaning, how can you reject your Lord and His clear signs to you, which every one recognizes in himself, for there is no one among His creatures who does not know that he was nothing, then he came to be, and his existence is not due to himself or any other creature. He knows that his existence is due to his Creator, beside Whom there is no other god, the Creator of all things. So the believer said:

احسان فراموشی مترادف کفر ہے اس کا کافر مالدار کو جو جواب اس مومن مفلس نے دیا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ کس طرح اس نے وعظ و پند کی ایمان و یقین کی ہدایت کی اور گمراہی اور غرور سے ہٹانا چاہا فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے انسانی پیدائشی مٹی سے شروع کی پھر اس کی نسل ملے جلے پانی سے جاری رکھی جیسے آیت ( كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀ ) 2- البقرة:28 ) میں ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو ؟ تم تو مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا ۔ تم اس کی ذات کا ، اس کی نعمتوں کا انکار کیسے کر سکتے ہو ؟ اسکی نعمتوں کے ، اس کی قدرتوں کے بیشمار نمونے خود تم میں اور تم پر موجود ہیں ۔ کون نادان ایسا ہے جو نہ جانتا ہو کہ وہ پہلے کچھ نہ تھا اللہ نے اسے موجود کر دیا ۔ وہ خود بخود اپنے ہونے پر قادر نہ تھا اللہ نے اس کا وجود پیدا کیا ۔ پھر وہ انکار کے لائق کیسے ہو گیا ؟ اس کی توحید الوہیت سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ میں تو تیرے مقابلے میں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہوں کہ میرا رب وہی اللہ وحدہ لا شریک لہ ہے میں اپنے رب کے ساتھ مشرک بننا ناپسند کرتا ہوں ۔ پھر اپنے ساتھی کو نیک رغبت دلانے کے لئے کہتا ہے کہ اپنی لہلہاتی ہوئی کھیتی اور ہرے بھرے میوں سے لدے باغ کو دیکھ کر تو اللہ کا شکر کیوں نہیں کرتا ؟ کیوں ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ نہیں کہتا ؟ اسی آیت کو سامنے رکھ کر بعض سلف کا مقولہ ہے کہ جسے اپنی اولاد یا مال یا حال پسند آئے اسے یہ کلمہ پڑھ لینا چاہئے ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس بندے پر اللہ اپنی کوئی نعمت انعام فرمائے اہل و عیال ہوں ، دولتمندی ہو ، پھر وہ اس کلمہ کو کہہ لے تو اس میں کوئی آنچ نہ آئے گی سوائے موت کے پھر آپ اس آیت کی تاویل کرتے ۔ حافظ ابو الفتح کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کا ایک خزانہ بتا دوں ؟ وہ خزانہ لاحول قوۃ الا باللہ کہنا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے اس بندے نے مان لیا اور اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا صرف لاحول نہیں بلکہ وہ جو سورہ کہف میں ہے ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ ۔ پھر فرمایا کہ اس نیک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ مجھے آخرت کے دن اس سے بہتر نعمتیں عطا فرمائے اور تیرے اس باغ کو جسے تو ہمیشگی والا سمجھے بیٹھا ہے تباہ کر دے ۔ آسمان سے اس پر عذاب بھیج دے ۔ زور کی بارش آندھی کے ساتھ آئے ۔ تمام کھیت اور باغ اجڑ جائیں ۔ سوکھی صاف زمین رہ جائے گویا کہ کبھی یہاں کوئی چیز اگی ہی نہ تھی ۔ یا اس کی نہروں کا پانی دھنسا دے ۔ غور مصدر ہے معنی میں غائر کے بطور مبالغے کے لایا گیا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کو وعظ و تبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے جس نے تجھے مٹی اور قطرہ پانی سے پیدا کیا ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) چونکہ مٹی سے بنائے گئے تھے اس لیے انسانوں کی اصل مٹی ہی ہوئی، پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا وہاں نو مہینے اس کی پرورش کی پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر اور پھر رب کے ان احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنادیا اور اس عمل تخلیق میں کوئی اس کا شریک اور مددگار نہیں ہے یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کو ماننے کے لیے تو تیار نہیں ہے آہ، کس قدر یہ انسان ناشکرا ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧] یہ مشرک مالدار اللہ کی ہستی کا منکر نہ تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دے رکھا ہے۔ یہ اسی کی مہربانی ہے البتہ وہ روز آخرت اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا منکر تھا جسے اللہ کے انکار کے مترادف یا کفر قرار دیا گیا ہے کیونکہ آخرت میں سزا اور جزاء کا انکار دراصل اللہ کی صفت عدل کا انکار ہے علاوہ ازیں یہ سمجھ لینا کہ میرا مال و دولت اور شان و شوکت میری اپنی ہی قابلیت کا نتیجہ ہے کسی کا عطیہ نہیں اور کوئی مجھ سے چھیننے والا نہیں یہ بھی حقیقتاً اللہ کی کئی صفات کا انکار ہے اور ایسا شخص اللہ کو اپنا مالک آقا اور فرمانروا ہونے کی حیثیت سے نہیں مانتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَهُوَ يُحَاوِرُهٗٓ ۔۔ : ” تُرَابٍ “ اور ” نُّطْفَةٍ “ کی تنوین تحقیر کے لیے ہے۔ اس کے مومن ساتھی نے، جسے وہ اپنے مال و جاہ پر فخر کرتے ہوئے فقر کا طعنہ دے رہا تھا، اس سے گفتگو کرتے ہوئے اسے جواب میں کفر کا طعنہ دیا اور کہا کیا تو نے اس ہستی سے کفر کیا جس نے تجھے حقیر مٹی سے، پھر ایک قطرے سے پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھاک ایک آدمی بنادیا۔ دیکھیے حج (٥) ، بقرہ (٢٨) اور مومنون (١٢ تا ١٤) تفسیر وحیدی میں ہے : ” افسوس کہ اکثر مسلمان مال دار بھی اسی غرور میں مبتلا ہیں، مساکین بلکہ علماء و صلحاء تک کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَہُوَيُحَاوِرُہٗٓ اَكَفَرْتَ بِالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا۝ ٣٧ۭ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ كفر ( ناشکري) الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ می۔ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔ لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی میت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں میُ سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَكَفَرْتَ بالَّذِيْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًا) یہاں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ وہ شخص بظاہر اللہ کا منکر نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اللہ سے کفر کا مرتکب بتایا گیا ہے۔ وہ اس لیے کہ اس سے پہلے وہ آخرت کا انکار کرچکا تھا اور آخرت کا انکار دراصل اللہ کا انکار ہے۔ گویا جو شخص آخرت کا منکر ہو اس کا ایمان باللہ کا دعویٰ بھی قابل قبول نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

39. This shows that unbelief in Allah is not confined to the denial of the existence of God in so many words, but arrogance, pride, vanity and the denial of the Hereafter are also kufr. Although that person did not deny the existence of Allah, he professed it as is apparent from his words (And if I am brought back to my Lord), yet in spite of his profession, his neighbor charged him with unbelief in Allah. This is because the person, who considers his wealth and his grandeur etc. to be the fruits of his own power and capability and not the favors of Allah, and who thinks that they are everlasting and none can take than away from him and that he is not accountable to anyone, is guilty of unbelief in Allah, even though he might profess belief in Him, for he acknowledges Allah as a Being and not as his Master, Owner and Sovereign. In fact, belief in Allah demands not merely the profession of His existence but also the acknowledgment of His Sovereignty, Mastery, Rule and the like.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :39 اگر چہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا ، بلکہ وَلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا ، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے ۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں ، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و قابلیت کا نتیجہ ہے ، اور میری دولت لازوال ہے ، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں ، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں ، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے ، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا ۔ حالانکہ ایمان باللہ اسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:37) سوک۔ اس نے تجھ کو پورا پورا بنادیا۔ اس نے تجھ کو برابر کیا۔ ماضی واحد مذکر غائب ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ سوی یسوی تسویۃ (تفعیل) پورا پورا بنانا۔ برابر کرنا۔ کسی چیز کو ہموار کرنا۔ خدا کا کسی چیز کو اپنی حکمت کی اقتضاء کے مطابق بنانا۔ قرآن مجید میں ہے علی ان نسوی بنانہ ہم قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 وہ شخص اگرچہ خدا کے وجود کا منکر نہ تھا بلکہ ولئن رددت الی ربی “ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس کی ہستی کا قائل تھا، مگر اس کے باوجود اس کے بھائی نے اسے الفرت “ کہہ کر کافر قرار دیا ہے کیونکہ اسے ” بعث “ دوبارہ زندگی پر یقین نہیں تھا اور قیامت کے متعلق شک کرنے والا کافر ہے۔ پھر تکبر و غرور سے بڑا بول اور خدا کی قدرت سے انکار بھی کفر ہے۔ اس نے جاہ و مال کو اپنی عزت کا سبب قرار دیا اور یہ نہ سمجھا کہ عزت و ذلت کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے اور پھر مال کو اللہ تعالیٰ کی نعمت خیال نہ کیا بلکہ خود اپنی محنت ذہانت اور قابلیت کا نتیجہ قرار دیا۔ جیسے قارون نے کہا تھا : لقد اوتینہ علی علم “ اور یہ سب باتیں کفر کی ہیں۔ (از تفاسیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 37 تا 44 یح اور وہ بات کرتا ہے۔ تراب مٹی۔ سوی برابر کیا، مکمل کیا۔ ان ترن اگر تو مجھے دیکھتا ہے۔ ان یوتین یہ کہ مجھے دیدے۔ یرسل وہ بھیجتا ہے۔ حسبان آفت، مصیبت۔ صعید چٹیل میدان، نرم مٹی۔ زلق چکنی مٹی۔ غور گہرائی میں اتر جانا۔ احیط گھیر لیا گیا۔ یقلب وہ الٹتا پلٹتا ہے۔ کفیہ (کفین) اپنی دو ہتھیلیاں۔ انفقف اس نے خرچ کیا۔ خاویۃ او ندھی پڑی رہنے والی۔ عروش (عرش) بلندی، چھتیں فئۃ جماعت۔ گروہ ھنالک اسی جگہ۔ الولایۃ اختیار۔ عقب انجام، اجرت دینا۔ تشریح : آیت نمبر 37 تا 44 دنیا اور اس کی دولت کی خاصیت یہ ہے کہ اگر ایک شخص ایمان اور عمل صالح سے دور ہو تو وہ بےجا فخر و غرور اور ناشکری میں مبتلا ہو کر قارون بن جاتا ہے وہ اپنے علاوہ ہر شخص کو کم تر اور بےعقل سمجھنے لگتا ہے۔ اسے اس بات پر انتہائی فخر ہوتا ہے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے وہ صرف اس کے علم تجربے اور محنت کا ثمر ہے۔ حالانکہ علم، تجربے اور محنت ہی کو سب کچھ مان لیا جائے تو ایک مال دار شخص کے مقابلے میں انتہائی قابل، عالم، تجربہ کار اور محنتی شخص زندگی بھر مفلسی اور غربت میں گذارنا نظر آتا ہے اور ایک وہ شخص جو صورت، شکل، علم، تجربے میں بہت کم ہے عیش و عشرت کے سامان اور مال و دولت کے ڈھیر رکھتا ہے وہ اسی میں مگن رہتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا ایک نظام ہے جس کے تحت ہر شخص کو کچھ نہ کچھ عطا کیا جاتا ہے ۔ کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ جس کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔ اس پر فخر و غرور اور تکبر کا انداز اختیار نہ کرے۔ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرتا ہے تو اللہ اس سے سب کچھ چھین کر اس کو بےبس اور مجبور بنا دیتا ہے۔ چناچہ ایسے ہی دو آدمیوں کے واقعہ کو بطور مثال ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ایک شخص مال دار اور دوسرا غریب و نادار تھا۔ مال دار رئیس آدمی کے انگوروں اور کھجوروں اور ہر طرح کے ثمرات سے بھرپور دو باغ تھے۔ ہر طرف سرسبزی و شادابی، خوش حالی، رشتہ داروں اور دوستوں کی بھیڑ اس کے گرد جمع رہتی تھی۔ ایک دن وہ مال دار شخص اپنے غریب اور مفلس شخص کو اپنے باغ میں لے گیا اور کہنے لگا کہ میرے پاس دھن دولت کی کمی نہیں ہے۔ میں معاشرہ کا قابل ترین اور با عزت شخص ہوں ایک آدمی جن چیزوں کی تمنا کرسکتا ہے وہ سب کچھ مجھے حاصل ہیں۔ اب یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ کہنے لگا کہ یہ قیامت، آخرت وغیرہ سب کہنے کی باتیں ہیں مجھے تو یقین نہیں ہے کہ قیامت آئے گی بہرحال اگر قیامت برپا ہوئی اور حساب کتاب ہوا تو جس طرح میں دنیا میں عیش و آرام کے ساتھزندگی گذار رہا ہوں آخرت میں بھی اسی طرح میں باعزت اور عیش و آرام کی زندگی گذار دوں گا۔ اس نے اپنے غریب بھائی سے کہا کہ مجھے تو اپنے علم اور تجربے سے سب کچھ مل گیا تو بم بتاؤ کہ تمہیں تمہاری نیکیوں، تقویٰ اور پرہیز گاری نے کیا دیا۔ تم تو یہاں بھی نقصان اور خسارے میں ہو۔ آخرت میں کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ نہیں لگیا ا جاسکتا ہے۔ وہاں بھی تم اس حال میں رہوگے اور تمہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ جب وہ شخص اپنے غرور وتکبر کی باتیں کرچکا تو اس غریب و مفلس آدمی نے کہا کتنے افسوس کی بات ہے کہ تو ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے فخر و غرور کر رہا ہے۔ کبھی تو نے اس بات پر غور کرنے کی زحمت کی ہے کہ اللہ نے تجھے معمولی مٹی اور ناپاک خون کے ایک قطرے (نطفہ) سے پیدا کیا ہے اور تجھے صحیح سالم آدمی بنایا دیا ہے رہی میری بات تو میں عرض کروں گا کہ مجھے یقین کامل ہے کہ میرا رب صرف اللہ ہی ہے جو اپنی ذات میں یک و تنہا ہے۔ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مفلس آدمی نے مال دار سے کہا کہ اگر تو بےجا فخر و غرور کے بجائے ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ کہتا ” ماشاء اللہ ولاقوۃ الا باللہ “ یعنی جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور (اس کائنات میں) ساری طاقت و قوت اللہ ہی کی ہے۔ اگر تو شکر کا اندازاختیار کرتا تو شاید تجھے اس سے بھی دوگنا عطا کردیا جاتا۔ اللہ کی یہ قدرت و طاقت ہے کہ وہ آسمان سے کوئی آفت بھیج دے اور پھر تیرے یہ ہرے بھرے درخت سب کے سب تابہ ہو کر ایک چٹیل میدان بن جائیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس پانی سے تیرے باغوں کی یہ سرسبزی و شادابی ہے وہ پانی زمین کی گہرائیوں میں اتر جائے اور پھر ہزار کوشش کے باوجود اس پانی کو دوبارہ زین کے اوپر نہ لایا جاسکے۔ کیونکہ جب اللہ کا فیصلہ آجائے گا تو پھر کس میں یہ طاقتا ور قوت ہے کہ وہ اس کو اس کے عذاب سے بچا سکے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ایک دن اس کے باغوں پر آسمانی آفت آئی اور اس کے درختوں کے پھل اور سرسبزی و شادابی ختم ہو کر رہ گئی۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اس کا سارا باغ اس کی چھتریوں اور دیواروں پر ڈھیر ہوچکا تھا۔ تب اس کو عقل آئی اور اس نے کہا کہ کاش میں فخر و غرور اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ اس کی مکمل تباہی کے بعد وہی دوست احباب اور رشتہ دار جو اس کی خوشامد میں لگے رہتے تھے ایک ایک کر کے اس سے غائب ہونا شروع ہوگئے۔ وہ سب کے سب مل کر بھی اس کے کام نہ آسکے اور پھر اس کی جدوجہد اور کوشش بھی اس کے کام نہ آسکی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت صرف اللہ ہی کی ہے جو سچا پروردگار ہے اسی کا سارا اختیار ہے ۔ جو اس کی طاقت و قوت کے سامنے جھکتا ہے وہی انعام و اکرام کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بھی بہتر انجام ہوتا ہے۔ اس واقعہ سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔ 1- اللہ تعالیٰ کو انسان کا فخر و غرور اور تکبرق طعاً ناپسند ہے۔ اگر اس کو کوئی چیز پسند ہے تو وہ انسان کی عاجزی و انکساری اور شکر گزاری کا جذبہ ہے۔ جو لوگ عاجزی و انکساری کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اللہ ان لوگوں کو اپنے انعام و اکرام سے نوازتا ہے اور ان کا انجام بھی بہترین ہوتا ہے۔ 2- اس کے برخلاف جو لوگ بےجا فخر و غرور کرتے ہیں اور دنیا کے مال و دولت کو سب کچھ سمجھ کر آخرت تک کا انکار کر بیٹھتے ہیں وہ وقتی طور پر تو بہت ترقی کرتے نظر آتے ہیں لیکن بہت جلد اپنے غرور کے سمندر میں غرق ہوجاتے ہیں جہاں نہ تو خود اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ کوئی دوسرا ان کو بچانے آسکتا ہے۔ 3- ان آیات اور مثال میں کفار مکہ کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے کہ وہ غریب اور مفلس مسلمانوں کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنی دولت پر فخر و غرور نہ کریں کیونکہ وہ فکار برے انجام سے بہت قریب ہیں اور صحابہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت جلد کامیاب اور بامراد ہونے والے ہیں ۔ چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام دنیا میں بھی کامیاب رہے اور آخرت میں ان کا کس قدر بلند مقام ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ جو کہ یرا مادہ بعید ہے بواسطہ آدم (علیہ السلام) کے۔ 3۔ جو کہ تیرا مادہ قریبہ ہے رحم مادر میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی کی نصیحت۔ آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی نے سمجھایا کہ کیا تو اس ذات حق کا انکار کرتا ہے۔ جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر ایک نطفے سے کامل انسان بنایا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد تمام انسان نطفہ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ جب آخرت کا منکر ہر دلیل سے انکار کرتارہا تو اس کے مواحد ساتھی نے اسے کہا کہ اگر تو حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو تیری مرضی۔ لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ ” اللہ “ ہی میرا رب ہے۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہیں سمجھتا۔ یا در ہے کہ رب کا معنی ہے ” خالق، مالک، بادشاہ “ اور ہر چیز عطا فرمانے والا ہے۔ یہاں آخرت کے منکر کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے۔ وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حاکم اور عادل ہونے اور اس کی جزا وسزا کا انکار کرتا ہے۔ آخرت کا انکار کرنا دین کے تیسرے بنیادی رکن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے جو شخص آخرت کا منکر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہے۔ آخرت کا منکر اجر وثواب سے محروم رہتا ہے : (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لاَ یَنْفَعُہُ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہُ عَمَلٌ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ سے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ابن جدعان زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ عمل اس کے لیے سود مند ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اعمال کا فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت : (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ ہُرَیْرَۃَ قَالَ أَوْصَانِی خَلِیلِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلاَ تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِءَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب الصَّبْرِ عَلَی الْبَلاَءِ ] ” حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا اگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اور تجھے آگ میں جلا دیا جائے۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا جس نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا وہ مجھ سے بری الذمہ ہوگیا اور شراب نہیں پینی اس لیے کہ یہ ہر برائی کی چابی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ ٢۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا پروردگار ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ حوا آدم سے پید اہوئیں۔ (النساء : ١) ٤۔ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا۔ (المومنون : ١٢۔ ١٣) ٦۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

45:۔ قطروس مشرک کے جواب میں اس کا مومن بھائی یہوذا اسے وعظ و نصیحت کرنے لگا۔ ” اکفرت بالذی الخ “ یہاں کفر سے مراد ذات خداوندی کا انکار نہیں کیونکہ قطروس خدا کا منکر نہیں تھا وہ وجود باری تعالیٰ کا قائل و معترف تھا جیسا کہ ” ولئن رددت الی ربی “ میں اس کا اقرار گذر چکا ہے بلکہ کفر سے یہاں شرک اور اللہ کی توحید کا انکار مراد ہے۔ اس کے مشرک ہونے کا اعتراف آگے آرہا ہے، الظاھر انہ کان مشرکا کما یدل علیہ قول صاحبہ تعریضا بہ (ولا اشرک بہ احدا) وقولہ (یلیتنی لم اشرک بربی احدا) ۔ فالمراد بقولہ (اکفرت) ء اشرکت۔ (روح ج 15 ص 277) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 اور اس کے ساتھی ایمان دار نے باتیں کرتے کرتے اس کو جواب دیا کیا تو اس پاک ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھ کو ابتداء مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے جو اس مٹی کا جوہر تھا اس سے پیدا کیا پھر تجھ کو پورا اور صحیح وسالم آدمی بنایا۔