Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 43

سورة الكهف

وَ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ فِئَۃٌ یَّنۡصُرُوۡنَہٗ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مُنۡتَصِرًا ﴿ؕ۴۳﴾

And there was for him no company to aid him other than Allah , nor could he defend himself.

اس کی حمایت میں کوئی جماعت نہ اٹھی کہ اللہ سے اس کا کوئی بچاؤ کرتی اور نہ وہ خود ہی بدلہ لینے والا بن سکا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمْ تَكُن لَّهُ فِيَةٌ ... and he could only say: "Would that I had ascribed no partners to my Lord!" And he had no group of men, meaning a clan or children, as he had vainly boasted, ... يَنصُرُونَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مُنتَصِرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 جس جتھے پر اس کو ناز تھا، وہ بھی اس کے کام نہیں آیا نہ وہ خود ہی اللہ کے عذاب سے بچنے کا کوئی انتظام کرسکا

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ ۔۔ : ” مُنْتَصِرًا “ کا معنی انتقام لینے والا بھی ہے اور خود بچنے والا بھی، یعنی عذاب آیا تو اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اس کی مدد کرتے، سوائے اللہ کے اور نہ وہ خود بچنے والا تھا۔ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ “ کا ایک مطلب یہ ہے جو ترجمے میں گزرا۔ زمحشری اور کئی مفسرین نے یہی معنی کیا ہے، یعنی اس ” وقت اللہ کے سوا “ اسے کوئی بچانے والا نہ تھا، مگر اس کو وہ ناراض کرچکا تھا۔ ” مِن دُوْنِ اللّٰهِ “ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ پھر ” اللہ کے مقابلے میں “ اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اس کی مدد کو پہنچتا۔۔ یہ معنی بھی کئی مفسرین نے کیا ہے۔ کسی بھی کافر کو جب یہ معاملہ پیش آتا ہے تو وہ اس وقت ہر طرف سے ناامید اور مجبور ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، مگر تب وقت گزر چکا ہوتا ہے اور اس کا ایمان اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا، جیسا کہ فرعون غرق ہوتے وقت ایمان لے آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے یونس (٩٠ تا ٩٢) انبیاء ( علیہ السلام) کے مخالفین نے اللہ کا عذاب دیکھا تو کہنے لگے، ہم اللہ اکیلے پر ایمان لے آئے۔ (دیکھیے مومن : ٨٤) اور قارون کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے بعینہ یہ الفاظ فرمائے جو زیر تفسیر قصے والے شخص کے متعلق فرمائے، فرمایا : (فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ ۣ فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۤ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ ) [ القصص : ٨١ ]” تو ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، پھر نہ اس کے لیے کوئی جماعت تھی جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کرنے والوں میں سے تھا۔ “ مگر ان میں سے کسی کے ایمان نے اسے فائدہ نہ دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمْ تَكُنْ لَّہٗ فِئَۃٌ يَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا۝ ٤٣ۭ فئة الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّة «2» وکما قال : 361- إنّما الدّنيا كظلّ زائل «3» والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی: إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] . ( ف ی ء ) الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل/ 48] جنکے سائے ۔۔۔۔۔۔ لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر/ 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو ۔۔۔۔۔ دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب/ 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة/ 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران/ 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء/ 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص/ 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال/ 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (وَلَمْ تَكُنْ لَّهٗ فِئَةٌ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَمَا كَانَ مُنْتَصِرًا) اللہ کے مقابلے میں بھلا کون اس کی مدد کرسکتا تھا اور اس صورت حال میں وہ کس سے انتقام لے سکتا تھا ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:43) فئۃ۔ گروہ۔ بقول راغب وہ گروہ جو باہم مددگار ہو۔ اور ایک دوسرے کی طرف مدد کرنے کے لئے لوٹے۔ الفییٔ الفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں جیسے قرآن مجید میں آیا ہے فان فاء وا (2:226) اگر وہ لوٹ آئیں۔ رجوع کرلیں۔ ینصرونہ کہ وہ اس کی مدد کریں (نصر ینصر) سے جمع مذکر غائب ہٗ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ فعل جمع مذکر غائب اس لئے لایا گیا ہے کہ فئۃ میں جمعیت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ من دون اللہ۔ اللہ کو چھوڑ کر۔ اللہ کے ورے۔ بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ اللہ کے مقابلہ میں۔ منتصرا۔ اسم فاعل واحد مذکر منصوب انتصار (افتعال) مصدر۔ بدلہ لینے والا۔ یعنی نہ ہی وہ بدلہ لینے کے قابل تھا۔ انتصر بمعنی غالب آنا۔ بدلہ لینا۔ انتقام لینا۔ قرآن میں دوسری جگہ آیا ہے والذین اذا اصابہم البغی ھم ینتصرون (42:39) اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم وتعدی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں۔ انتصر۔ ظالم سے بچنا۔ انتصر : امتنع من ظالمہ (المعجم الوسیلط) وما کان منتصرا۔ الخازن لکھتے ہیں۔ ای ممتنعا لا یقدر علی الانتصار لنفسہ نہ ہی اس کو اپنے آپ کو اس (نقصان) سے بچنے کی قدرت ہوئی (نہ بچا سکا) الخازن۔ صاحب تفہیم القرآن اور عبداللہ یوسف علی نے بھی انہی معنوں میں ترجمہ کیا ہے۔ تفہیم القران میں ہے۔ اور نہ کرسکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ۔ نہ ہی وہ اپنے آپ کو بچا سکا۔ عبداللہ یوسف علی۔ انہی معنوں میں اور جگہ آیا ہے یرسل علیکما شواظ من نارونحاس فلا تنتصران (55:35) تم دونوں پر آگ کا شعلہ اور دھواں چھوڑا جائے گا سو تم نہ ہٹا سکو گے (یعنی تم اس سے بچ نہ سکو گے یا اپنے آپ کو بچا نہ سکو گے) ۔ سورة القمر میں ہے فدعا ربہ انی مغلوب فانتصر (54:10) اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میں درماندہ ہوں تو بدلہ لے لے (تفسیر ماجدی) میں مغلوب ہوں سو تو میری مدد کر (عبداللہ یوسف علی) انتصر بمعنی انتقم وامتنع پر دوصورت میں مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب پردہ کرتا ہے اور یہ منظر بھی اوجھل ہوجاتا ہے جس میں باغ مکمل تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا وہ اپنی تنیوں پر پڑا تھا مالک ہاتھ مل رہا تھا اور شرمندگی سے سرنگوں تھا۔ اللہ کا جلال اس منظر پر سایہ لگن تھا۔ جس کے سامنے انسانی قوت اور انسانی طاقت نیست و نابود ہوی ہے۔ اس منظر کے بعد اب حیات دنیا کو ایک تمثیل سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو حیات دنیا اس باغ کی طرح ہی ہے ، یہ بہت ہی ناپختہ ، مختصر اور بےقرار ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو جس خاندانی جمعیت پر اسے ناز تھا اور جن معبودوں کو وہ اللہ کے سوا کارساز اور متصرف سمجھتا تھا ان میں سے اس آڑے وقت میں کوئی بھی اس کے کام نہ آیا اور نہ اپنے ہی قوت بازو سے اللہ کے عذاب سے اپنے باغوں کو بچا سکا۔ ” ھنالک الولایۃ للہ الحق “ اس واقعہ سے معلوم ہوگیا کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں۔ اور اس نے کوئی اختیار کسی کے حوالے نہیں کر رکھا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

43 حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مال تو اللہ کی نعمت تھی پر اترانے سے اور کفر بکنے سے آفت آئی اور اس کے لئے کوئی جماعت ایسی نہ ہوئی جو اللہ تعالیٰ کے سوا اس کی مدد کرسکتی اور نہ وہ خود ہی اپنا بدلا لے سکا یعنی نہ اپنے میں بدلہ لینے کی سکت اور نہ کوئی اور جتھا اور مال و اولاد کی کثرت اس کے کام آسکی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں آخر اس باغ پر وہی ہوا جو اس نیک کی زبان سے نکلا رات کو آگ لگ گئی آسمان سے سب جل کر ڈھیر ہوگیا مال خرچ کیا پونجی بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ 12