Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 62

سورة الكهف

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا ۫ لَقَدۡ لَقِیۡنَا مِنۡ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا ﴿۶۲﴾

So when they had passed beyond it, [Moses] said to his boy, "Bring us our morning meal. We have certainly suffered in this, our journey, [much] fatigue."

جب یہ دونوں وہاں سے آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ لا ہمارا کھانا دے ہمیں تو اپنے اس سفر سے سخت تکلیف اٹھانی پڑی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَمَّا جَاوَزَا ... So when they had passed further on, means, past the place where they had forgotten the fish. Forgetfulness is attributed to them both even though it was actually Yusha` who forgot. This is like the Ayah: يَخْرُجُ مِنْهُمَا الُّلوْلُوُ وَالمَرْجَانُ Out of them both come out pearl and coral. (55:22), although they come from the salt water, according to one of the two opinions. When they had passed one stage beyond the place where they had forgotten the fish, ... قَالَ لِفَتَاهُ اتِنَا غَدَاءنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَذَا ... (Musa) said to his boy-servant: �Bring us our morning meal; truly, we have suffered in this, our journey, meaning, their journey beyond the place where they should have stopped. ... نَصَبًا Nasaban, means, exhaustion.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦١] رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ تھکاوٹ آپ کو اس وقت ہوئی جب آپ اپنی منزل مقصود سے آگے نکلے جارہے تھے اس سے پہلے نہیں ہوئی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا : معلوم ہوا سفر کے لیے کھانا ساتھ لے جانا انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے اور توکل کے منافی نہیں اور یہ کہ بھوک، پیاس، تھکاوٹ، بھول چوک، غرض انسان کو پیش آنے والی چیزیں انبیاء ( علیہ السلام) کو بھی پیش آتی ہیں، کیونکہ وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ آدمی کو جو عارضہ پیش آئے، اس کا ذکر کرسکتا ہے، بشرطیکہ اس کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے شکوے کا نہ ہو۔ ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا : شاید اس تھکاوٹ کی وجہ اس نعمت کا احساس دلانا ہو کہ صحیح راستے پر طلب علم کے لیے جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاص مدد شامل ہوتی ہے، جس سے تھکن نہیں ہوتی اور جب اس کی مدد نہ ہو تو انسان تھک کر رہ جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىہُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۝ ٠ۡلَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا ہٰذَا نَصَبًا۝ ٦٢ جاوز قال تعالی: فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة/ 249] ، أي : تجاوز جوزه، وقال : وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف/ 138] ، وجَوْزُ الطریق : وسطه، وجاز الشیء كأنه لزم جوز الطریق، وذلک عبارة عمّا يسوغ، وجَوْزُ السماء : وسطها، والجوزاء قيل : سمیت بذلک لاعتراضها في جوز السماء، وشاة جوزاء أي : ابیضّ وسطها، وجُزْتُ المکان : ذهبت فيه، وأَجَزْتُهُ : أنفذته وخلّفته، وقیل : استجزت فلانا فأجازني : إذا استسقیته فسقاک، وذلک استعارة، والمَجَاز من الکلام ما تجاوز موضعه الذي وضع له، والحقیقة ما لم يتجاوز ذلك . ( ج و ز ) جو ز اطریق کے معنی راستہ کے وسط کے ہیں اسی سے جازاشئیء ہے جو کسی چیز کے جائز یا خوشگوار ہونے کی ایک تعبیر ہے گو یا ۔ اس نے وسط طریق کو لازم پکرا ۔ جو اسماء وسط آسمان ۔ الجوزاء آسمان کے ایک برج کا نام ہے کیونکہ وہ بھی وسط آسمان میں ہے سیاہ بھیڑ جس کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط میں سفیدی ہو ۔ ( جاوزہ کسی چیز کے وسط سے آگے گزر جانا ؟ قرآن میں ہے فَلَمَّا جاوَزَهُ هُوَ [ البقرة/ 249] پھر جب وہ حضرت طالوت ) اس دریا کے وسط سی آگے گزر گئے یعنی پار ہوگئے ۔ وَجاوَزْنا بِبَنِي إِسْرائِيلَ الْبَحْرَ [ الأعراف/ 138] اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کردیا ۔ جزت المکان کسی جگہ میں گزرنا ۔ اجزتہ میں نے اسے نافذ کردیا اس کو پیچھے چھوڑدیا ۔ ( میں نے اس سے ( جانوروں یا کھیتی کے لئے ) پانی طلب کیا چناچہ اس نے مجھے دے دیا ۔ یہ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور کسی لفظ کا حقیقی معنی وہ ہوتا ہے جو اپنے وضعی معنی میں استعمال ہو اور اس سے تجاوز نہ کرے ورنہ اسے مجازا کہتے ہیں ) فتی الفَتَى الطّريُّ من الشّباب، والأنثی فَتَاةٌ ، والمصدر فَتَاءٌ ، ويكنّى بهما عن العبد والأمة . قال تعالی: تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] ( ف ت ی ) الفتیٰ کے معنی نوجوان کے ہیں اس کی مونث فتاۃ اور مصدر فتاء ہے بعدہ کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ ( فتی اور فتاۃ ) غلام اور لونڈی کے معنی میں استعمال ہونے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : تُراوِدُ فَتاها عَنْ نَفْسِهِ [يوسف/ 30] اپنے ٖغلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی تھی ۔ جس طرح نوجوان آدمی کو فتی کہا جاتا ہے لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ سفر السَّفْرُ : كشف الغطاء، ويختصّ ذلک بالأعيان، نحو : سَفَرَ العمامة عن الرّأس، والخمار عن الوجه، وسَفْرُ البیتِ : كَنْسُهُ بِالْمِسْفَرِ ، أي : المکنس، وذلک إزالة السَّفِيرِ عنه، وهو التّراب الذي يكنس منه، والإِسْفارُ يختصّ باللّون، نحو : وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] ، أي : أشرق لونه، قال تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] ، و «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» »من قولهم : أَسْفَرْتُ ، أي : دخلت فيه، نحو : أصبحت، وسَفَرَ الرّجل فهو سَافِرٌ ، والجمع السَّفْرُ ، نحو : ركب . وسَافَرَ خصّ بالمفاعلة اعتبارا بأنّ الإنسان قد سَفَرَ عن المکان، والمکان سفر عنه، ومن لفظ السَّفْرِ اشتقّ السُّفْرَةُ لطعام السَّفَرِ ، ولما يوضع فيه . قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] ، والسِّفْرُ : الکتاب الذي يُسْفِرُ عن الحقائق، وجمعه أَسْفَارٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] ، وخصّ لفظ الأسفار في هذا المکان تنبيها أنّ التّوراة۔ وإن کانت تحقّق ما فيها۔ فالجاهل لا يكاد يستبینها کالحمار الحامل لها، وقوله تعالی: بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15- 16] ، فهم الملائكة الموصوفون بقوله : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، والسَّفَرَةُ : جمع سَافِرٍ ، ککاتب وکتبة، والسَّفِيرُ : الرّسول بين القوم يكشف ويزيل ما بينهم من الوحشة، فهو فعیل في معنی فاعل، والسِّفَارَةُ : الرّسالة، فالرّسول، والملائكة، والکتب، مشترکة في كونها سَافِرَةٌ عن القوم ما استبهم عليهم، والسَّفِيرُ : فيما يكنس في معنی المفعول، والسِّفَارُ في قول الشاعر : 235- وما السّفار قبّح السّفار «1» فقیل : هو حدیدة تجعل في أنف البعیر، فإن لم يكن في ذلک حجّة غير هذا البیت، فالبیت يحتمل أن يكون مصدر سَافَرْتُ «2» . ( س ف ر ) السفر اصل میں اس کے معنی کشف غطاء یعنی پردہ اٹھانے کے ہیں اور یہ اعیان کے ساتھ مخصوص ہے جیسے سفر العمامۃ عن الراس اس نے سر سے عمامہ اتارا دیا ۔ سعر عن الوجہ چہرہ کھولا اور سفر البیت کے معنی گھر میں جھاڑو دینے اور کوڑا کرکٹ صاف کرنے کے ہیں اور جھاڑو کو مسفرۃ اور اس گرد و غبار کو سفیر کہا جاتا ہے جو جھاڑو دے کر دور کی جاتی ہے ۔ الاسفار ( افعال ) یہ الوان کے ساتھ مختص ہے یعنی کسی رنگ کے ظاہر ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالصُّبْحِ إِذا أَسْفَرَ [ المدثر/ 34] اور قسم ہے صبح کی جب روشن ہو ۔ اور فرمایا : ۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُسْفِرَةٌ [ عبس/ 38] کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے ۔ اور حدیث «أَسْفِرُوا بالصّبح تؤجروا» صبح خوب روشن ہونے کے بعد نماز پڑھا کرو تو زیادہ ثواب ملے گا ۔ میں اسفروا اسفرت کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی روشنی میں داخل ہونے کے ہیں جیسے اصبحت ( میں صبح میں داخل ہوا ) سفر الرجل اس نے سفر کیا اور سافر ( مسافر ) کی جمع سفر آتی ہے جیسے راکب کی جمع رکب رد علی ہذا القیاس ) اور سافر کے معنی ہیں اس نے سفر کیا یہ خاص کر باب مفاعلۃ سے آتا ہے گویا اس میں جانبین یعنی وطن اور آدمی کے ایک دوسرے سے دور ہونے کے معنی کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ اور سفر سے ہی سفرۃ کا لفظ مشتق ہے جس کے معنی طعام سفر یا توشہ دان ہیں جس میں سفری کھانا رکھا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضى أَوْ عَلى سَفَرٍ [ النساء/ 43] اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو ۔ السفر اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں حقائق کا بیان ہو گویا وہ حقائق کو بےنقاب کرتی ہے اس کی جمع اسفار آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔ یہاں ممثل بہ میں خصوصیت کے ساتھ اسفار کا لفظ ذکر کرنے سے اس بات پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ تورات اگر چہ اپنے مضامین کو محقق طور پر بیان کرتی ہے لیکن جاہل ( یہود ) پھر بھی اس کو نہیں سمجھ پاتے ۔ لہذا ان کی مثال بعینہ اس گدھے کی سی ہے جو علم و حکمت کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہو اور آیت بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15- 16] ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار نیکو کار ہیں ۔ میں سفرۃ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں دوسری جگہ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر لکھنے والے کہا ہے اور یہ سافر کی جمع ہے جیسے کاتب کی جمع کتبۃ السفیر ۔ اس فرستادہ کو کہا جاتا ہے جو مرسل کی غرض کو مرسل الیہ پر کھولتا اور فریقین سے منافرت کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ فعیل بمعنی فاعل سے ہے اور سفارۃ بمعنی رسالت آتا ہے پیغمبر فرشتے اور سماوی ) کتابیں لوگوں پر حقائق کی کشادگی کرنے میں باہم شریک ہیں ( اس نے ان سب کو سفیر کہہ سکتے ہیں ۔ اور سفیر ( فعیل ) بمعنی مفعول ہو تو اس کے معنی کوڑا کرکٹ کے ہوتے ہیں جو جھاڑ دے کر صاف کردیا جاتا ہے ۔ اور شاعر کے قول ۔ ( 229 ) وما السّفار قبّح السّفار میں بعض نے سفار کے معنی اس لوہے کے لئے ہیں جو اونٹ کی ناک میں ڈالا جاتا ہے اور اس معنی پر اگر اس شعر کے علاوہ اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہ سافرت ( مفاعلہ ) کا مصدر بھی ہوسکتا ہے نصب ( تعب) والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (لقد لقینا من سفرنا ھذا نصباً آج کے سفر تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں) اگر انسان کو کسی عبادت کے سلسلے میں تکان یا تکلیف کا سامنا کرنا پڑے تو وہ اس کا اظہار اپنی زبان سے کرسکتا ہے ۔ درج بالا آیت اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے یہ کوئی ناپسندیدہ شکایت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کا یہ واقعہ ذکر کر کے یہ بیان کردیا ہے کہ اگر حکیم یعنی دان ا کے کسی اقدام میں ضرور کا کوئی پہلو نظر آئے تو اس پر اسے ٹوکنا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ اس فعل میں جواز کا یہ پہلو بھی موجود ہو کہ اس کا یہ سارا فعل ایسی حکمت پر مبنی ہو جو کسی نہ کسی مصلحت اور بھلائی پر منتج ہوتی ہو۔ نیز یہ کہ اس قسم کا کوئی اقدام اگر کسی دانا کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ سراسر ایک بیوقوف اور سفیہ کے اس جیسے اقدام کے برعکس ہوتا ہے۔ اس کی مثال وہ بچہ ہے جسے اگر پچھپنے لگائے جائیں یا کڑوی دوا پلائی جائیتو و ہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا بلکہ ناک بھوں چڑھاتا ہے جبکہ اسے اس دوا اور علاج کے ذریعے حاصل ہونے والے فائدے کا کوئی علم نہیں ہوتا بلکہ وہ اس فائدے اور حکمت کے حقیقی معنوں سے بھی بیخبر ہتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا فعل وقوع پذیر ہوجائے جس میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو بھی موجود ہو یا اللہ تعالیٰ بندے کو اس قسم کے کسی عمل کا حکم دے دے تو اس پر ناک بھوں چڑھانا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے جبکہ اس امر پر دلالت قائم ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل اور اس کا ہر حکم حکمت اور صواب پر مبنی ہوتا ہے۔ اس باب میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کا یہ واقعہ ایک بہت بڑی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس میں ایک اور پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعترضا کو تین مرتبہ سے زائد برداشت نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ عالم سے فیض یاب ہونے والا شاگرد اگر دو یا تین مرتبہ اس کے حکم کی خلاف ورزی کرے تو اس کی یہ خلاف ورزی قابل برداشت ہوگی لیکن اس سے زائد کی صورت میں اس کے لئے اسے برداشت نہ کرنا جائز ہوگا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَاۗءَنَا ۡ لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا) یہاں مفسرین نے ایک بہت اہم نکتہ بیان کیا ہے کہ آپ کو تھکاوٹ اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ آپ مطلوبہ مقام سے آگے نکل گئے تھے۔ ورنہ اس مقام تک پہنچنے میں آپ کو کسی قسم کی تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:62) جاوزا۔ ماضی تثنیہ مذکر غائب وہ دونوں آگے چلے۔ وہ دونوں گذرے ۔ مجاوزۃ (مفاعلۃ) مصدر جس کے معنی کسی چیز سے گذر جانے۔ اس کو پار کرنے اور آگے بڑھنے کے ہیں۔ یعنی جب وہ مجمع البحرین سے آگے بڑھ گئے۔ غداء نا۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمارا ناشتہ ۔ ہمارا صبح کے وقت کا کھانا۔ دن کے ابتدائی حصہ کے کھانے کو غداء کہتے ہیں۔ ناشتہ سے یہاں مراد وہ مچھلی ہے جو وہ بھون کر کھانے کے طور پر ہمراہ لائے تھے۔ نصبا۔ تھکان۔ مشقت، تھکاوٹ، تکلیف۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ جب دونوں مجمع البحرین سے آگے نکل گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اس سفر سے بہت تھک گئے ہیں اب کھانا لاؤ۔ ” نصبا “ تعبا یعنی تھکاوٹ اور تکلیف۔ ” قال ارءیت الخ “ ساتھی کو اب مچھلی کا واقعہ یاد آیا اور اس نے جواب میں کہا جب ہم نے پتھر کے سایہ میں آرام کیا تھا، اس وقت وہ مچھلی عجیب معجزانہ طور پر زندہ ہو کر توشہ دان سے نکل کر دریا میں گھس گئی تھی مگر آپ سے اس کا حال بیان کرنا بھول گیا۔ ” قال ذالک الخ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہماری منزل مقصود کی یہی تو علامت تھی چناچہ وہیں سے الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ ” قصصا “ یہ مصدر ہے اور فعل محذوف کا مفعول مطلق ہے۔ ای یقصان قصصا۔ یا مصدر بمعنی اسم فاعل ارتدا کے فاعل سے حال ہے، یعنی اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے ہوئے واپس مڑے جہاں سے مچھلی دریا میں داخل ہوئی جب وہاں پہنچے تو قریب ہی جزیر میں خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غیب دان تھے اگر غیب داں ہوتے تو انہیں حضرت خضر کی جگہ معلوم ہوتی اور وہ اس جگہ سے آگے نہ نکل جاتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62 پھر جب وہ دونوں اس جگہ سے اگٓے بڑھ گئے اور دور چلے گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے فرمایا ہمارے چاشت کا کھانا اور ناشتہ ہمارے پاس لے آ، بلاشبہ ہم نے تو اپنے اس سفر میں بڑی مشقت اور تکلیف اٹھائی۔ یعنی جب دور نکل گئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھوک معلوم ہوئی اور مشقت و تھکن بھی زیادہ محسوس ہوئی تب خادم سے ناشتہ طلب کیا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ پہلے نہیں تھکے جب مطلوب چھوٹ رہا اس چلنے سے تھکے۔ 12 خلاصہ : یہ کہ مجمع البحرین پر سونے کے بعد اٹھے تو بھوک نہ تھی جو کھانا مانگتے مچھلی کا کوئی ذکر نہیں آیا خادم کو بھی مچھلی کا واقعہ یاد نہیں آیا۔