Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 75

سورة الكهف

قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکَ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا ﴿۷۵﴾

[Al-Khidh r] said, "Did I not tell you that with me you would never be able to have patience?"

وہ کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He said: "Did I not tell you that you can have no patience with me!" Once again, Al-Khidr reiterates the condition set in the first place, so Musa says to him:

موسیٰ علیہ السلام کی بےصبری ۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے اس دوسری مرتبہ اور زیادہ تاکید سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی منظور کی ہوئی شرط کے خلاف کرنے پر تنبیہہ فرمائی ۔ اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اس بار اور ہی راہ اختیار کی اور فرمانے لگے اچھا اب کی دفعہ اور جانے دو اب اگر میں آپ پر اعتراض کروں تو مجھے آپ اپنے ساتھ نہ رہنے دینا ، یقینا آپ بار بار مجھے متنبہ فرماتے رہے اور اپنی طرف سے آپ نے کوئی کمی نہیں کی اب اگر قصور کروں تو سزا پاؤں ۔ ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کوئی یاد آجاتا اور اس کے لئے آپ دعا کرتے تو پہلے اپنے لئے کرتے ۔ ایک روز فرمانے لگے ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور موسیٰ پر کاش کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اور بھی ٹھہرتے اور صبر کرتے تو اور یعنی بہت سی تعجب خیز باتیں معلوم ہوتیں ۔ لیکن انہوں نے تو یہ کہہ کر چھٹی لے لی کہ اب اگر پوچھوں تو ساتھ چھوٹ جائے ۔ میں اب زیادہ تکلیف میں آپ کو ڈالنا نہیں چاہتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَ لَمْ اَقُلْ لَّكَ : ” کیا میں نے تجھے نہیں کہا تھا “ ان الفاظ میں تنبیہ پہلے سے سخت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ درگزر دو دفعہ ہوتی ہے، تیسری دفعہ کوئی معاف نہ کرے تو وہ حق بجانب اور معذور ہے اور یہ کہ استاذ اگر سمجھے کہ میں طالب علم کو نہیں پڑھا سکتا تو وہ عذر کرسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِيَ صَبْرًا۝ ٧٥ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:75) لن تستطیع۔ تو ہر کز نہیں کرسکے گا۔ ملاحظہ ہو آیت 67 سورة ہذا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ١١) اسرارومعارف حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے تو آپ سے پہلے کہہ دیا تھا کہ آپ برداشت نہ کر پائیں گے آپ شریعت کے محافظ جبکہ میں آپ کی شریعت کا مکلف نہیں ہوں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بھئی ٹھیک ہے ، ایک بار برداشت کرلیجئے اور مجھے دیکھ لینے دیں اگر پھر میں کوئی سوال کروں تو آپ میری راہ الگ کر دیجئے کہ اب بہت ہوچکا اور اس سے زیادہ عذر معذرت بھی مناسب نہیں ۔ (اولیاء اللہ شریعت کے مکلف ہیں) کسی آدمی کے غلط کام کو اس کے کشف پر محمول نہیں کیا جاسکتا کہ اولیاء اللہ شریعت کے مکلف ہوتے ہیں جب تک دنیا میں ہیں ، اور بعد وصال کی عام آدمی کو خبر نہیں ہوتی ، چناچہ پھر روانہ ہوئے تو ایک بستی پہ گذر ہوا ، جہاں انہیں کھانے کی طلب ہوئی مگر پوری بستی میں سے کسی نے بھی ان کی میزبانی نہ کی اور کھانا نہ دیا وہاں ایک گھر کی دیوار پر نظر پڑی جو گرنے والی ہو رہی تھی ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے بطور کرامت درست کردی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے پھر رہا نہ گیا فرمایا آپ چاہتے تو مزدوری اور اجرت حاصل کرسکتے تھے جس سے کھانے پینے کا سامان ہو سکتا تھا ، بھلا آپ کو ایسی مفت کی کرامات کا کیا شوق چرایا جبکہ ہم ضرورت مند بھی ہیں تو انہوں نے کہا کہ اب آپ اور میں اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور جدا ہوتے ہیں ، لیکن میں آپ کو تشنہ نہ چھوڑوں گا بلکہ جو باتیں آپ کو عجیب لگی ہیں ان کی حقیقت عرض کیے دیتا ہوں ۔ سب سے پہلے بات کشتی کی تھی تو اس کے مالک بہت غریب لوگ تھے جو اسی کشتی پر مزدوری کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتے تھے مگر جس طرف وہ جا رہے تھے وہاں ایک جابر بادشاہ نے کشتیاں ضبط کرنے کا حکم دے رکھا تھا ، چناچہ میں نے ان کی کشتی کو عیب دار کردیا کہ بادشاہ کے کارندے نقص دیکھ کر ضبط کریں گے اور بڑے نقصان سے محفوظ رہیں گے ، دوسری بات اس بچے کی تھی تو وہ لڑکا ایک بہت نیک اور خدا رسیدہ میاں بیوی کا بیٹا تھا مگر اس کے مزاج میں بگاڑ تھا جو ہو سکتا ہے والدین ہی کے کسی گناہ کا نتیجہ ہو ، غیر صالح غذا یا کوئی بھی بات ، مگر اللہ جل جلالہ نے انہیں مصیبت سے بچا لیا کہ لڑکا اگر بڑا ہوتا تو اس کے مزاج کا بگاڑ بھی بڑھتا اور یہ برائی اور کفر کو پھیلانے کا سبب بنتا ، چناچہ اللہ جل جلالہ نے اس کے بدلے انہیں نیک بہتر اور محبت کرنے والی اولاد عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا لہذا اسے موت دے دی ، رہی دیوار تو وہ دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کے لیے مال دفن تھا جو ان کے باپ نے رکھا تھا جو بہت نیک تھا تو اللہ کریم نے چاہا کہ تب تک اس کی حفاظت کی جائے کہ وہ خود جوان ہو کر اسے حاصل کرلیں اور یہ سب اللہ جل جلالہ کے احسانات تھے ، میں نے اپنی پسند سے کچھ بھی نہیں کیا یہ عالم اسباب ہے اور سنت اللہ ہے کہ ہر کام کے پیچھے ایک سبب ہوتا ہے چناچہ اللہ جل جلالہ نے مجھے ان امور کا سبب بنا دیا ۔ (نیک لوگوں سے فائدہ پہنچتا ہے) نیک والدین کا اثر اولاد کو فائدہ کی صورت نصیب ہوتا ہے دنیا اور دین دونوں کے اعتبار سے اور محض اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہوتا ہے چناچہ بزرگوں ، علماء اور مشائخ کی اولاد کا احترام کرنا اور ان سے رعایت کا معاملہ کرنا چاہئے تو یہ وہ حالات تھے جن کے لیے یہ سب کچھ ظہور پذیر ہوا جس پر آپ سے صبر نہیں ہو پا رہا تھا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب خضر (علیہ السلام) کے ہم سفر ہوئے۔ حضرت خضر نے انہیں پہلے سے ہی یہ بات کہہ دی کہ آپ اس شرط پر میرے ہمسفر ہوسکتے ہیں کہ دوران سفر جو کچھ میں کروں آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہوا یہ کہ بحری سفر کے دوران خضر (علیہ السلام) نے بیڑے کا ایک تختہ توڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) چونک اٹھے اور کہا کہ کیا آپ سب کو غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اعتراض نہ کرنے کا وعدہ یاد کروایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کشتی سے اتر کر جب ان کا گزر ایک بستی کے قریب سے ہوا تو خضر (علیہ السلام) نے ایک نونہال کا اس زور سے گلہ دبوچا جس سے چند لمحوں میں بچے کی جان نکل گئی۔ اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس المیہ پر تڑپ اٹھے اور خضر (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ٹوکا کہ آپ نے ناقابل برداشت ظلم کیا ہے۔ آپ نے ایک معصوم بچے کو قتل کر ڈالا ہے اس پر پھر خضر نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے سفر کے آغاز میں عہد کیا تھا کہ میں آپ کے کسی کام پر اعتراض نہیں کروں گا لیکن آپ نے دوسری دفعہ مجھ سے سوال کر ڈالا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک دفعہ پھرجانے دیجئے۔ آئندہ آپ کے کسی کام پر اعتراض کروں تو ہماری رفاقت ختم ہوجائے گی کیونکہ آپ کی طرف سے حجّت پوری ہوجائے گی۔ اس اقرار کے بعد جب دونوں بزرگ ایک بستی سے گزرے تو انہوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن بستی والوں نے انہیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک مکان کی گرتی ہوئی دیوار کو مرمّت کیا۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں توجہ دلائی کہ ہمیں ان سے مزدوری کے عوض کوئی چیز کھانے کے لیے طلب کرنا چاہیے تھی۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو خضر (علیہ السلام) بول اٹھے کہ اب ہم اکٹھے سفر نہیں کرسکتے۔ لہٰذا میرے اور آپ کے درمیان علیحدگی ہے، تاہم جو میں نے سفر کے دوران کام کیے ہیں ان کی حقیقت آپ کو بتلائے دیتا ہوں۔ مہمان نوازی کا اجر : (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ۔۔ وَأَیُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ یَقْرُوہُ فَإِنَّ لَہُ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ )[ رواہ ابوداود : باب النَّہْیِ عَنْ أَکْلِ السِّبَاعِ ] ” حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔۔ جو مہمان کسی قوم سے اپنی مہمانی نوازی کا مطالبہ کرے اور وہ اس سے انکاری ہو تو مہمان ان سے اپنی مہمان نوازی کے مطابق لے سکتا ہے۔ “ (لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ “ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآءِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے۔ مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کرے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ اب ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ وہ اب سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دو مرتبہ وعدہ خلافی کرلی۔ اور ان کی یاد دہانی کے بعد پھر وہ بھول گئے۔ چناچہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی اپنے لئے آخری بار مقرر فرماتے ہیں کہ اگر اب کے میں نے خلاف ورزی کی تو آپ مجھے علیحدہ کردیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

75 حضرت خضر علیہ ال سلام نے فرمایا میں نے آپ سے نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کرسکیں گے۔