Surat ul Kaahaf

Surah: 18

Verse: 9

سورة الكهف

اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾

Or have you thought that the companions of the cave and the inscription were, among Our signs, a wonder?

کیا تو اپنے خیال میں غار اور کتبے والوں کو ہماری نشانیوں میں سے کوئی بہت عجیب نشانی سمجھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of the People of Al-Kahf Here Allah tells us about the story of the people of Al-Kahf in brief and general terms, then He explains it in more detail. He says: أَمْ حَسِبْتَ ... Do you think, -- O Muhammad -- ... أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ايَاتِنَا عَجَبًا that the people of Al-Kahf and Ar-Raqim were a wonder among Our signs! meaning, their case was not something amazing compared to Our power and ability, for the creation of the heavens and earth, the alternation of night and day and the subjugation of the sun, moon and heavenly bodies, and other mighty signs indicate the great power of Allah and show that He is able to do whatever He wills. He is not incapable of doing more amazing things than the story of the people of the Cave. Similarly, Ibn Jurayj reported Mujahid saying about, أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ايَاتِنَا عَجَبًا (Do you think that the people of Al-Kahf and Ar-Raqim were a wonder among Our signs), "Among Our signs are things that are more amazing than this." Al-Awfi reported that Ibn Abbas said: أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ ايَاتِنَا عَجَبًا (Do you think that the people of Al-Kahf and Ar-Raqim were a wonder among Our signs), "What I have given to you of knowledge, the Sunnah and the Book is far better than the story of the people of Al-Kahf and Ar-Raqim." Muhammad bin Ishaq said: "(It means) I have not shown My creatures a proof more amazing than the story of the people of the Al-Kahf and Ar-Raqim." Al-Kahf refers to a cave in a mountain, which is where the young men sought refuge. With regard to the word Ar-Raqim, Al-Awfi reported from Ibn Abbas: "it is a valley near Aylah." This was also said (in another narration) by Atiyah Al-`Awfi and Qatadah. Ad-Dahhak said: "As for Al-Kahf, it is a cave in the valley, and Ar-Raqim is the name of the valley." Mujahid said, "Ar-Raqim refers to their buildings." Others said it refers to the valley in which their cave was. Abdur-Razzaq recorded that Ibn Abbas said about Ar-Raqim: "Ka`b used to say that it was the town." Ibn Jurayj reported that Ibn Abbas said, "Ar-Raqim is the mountain in which the cave was." Sa`id bin Jubayr said, "Ar-Raqim is a tablet of stone on which they wrote the story of the people of the Cave, then they placed it at the entrance to the Cave." إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا اتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّيْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا

اصحاف کہف اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہو گا فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بیشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے ۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں آسمان زمین کی پیدائش رات دن کا آنا جانا سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلایا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بے انداز ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس پر کوئی مشکل نہیں اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے ۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یہ کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ حنان اور لفظ اواہ اور لفظ رقیم کو ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رقیم کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے ۔ سعید کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا ۔ عبد الرحمن کہتے ہیں قرآن میں ہے کتاب مرقوم پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر رضی اللہ عنہ کا مختار قول ہے کہ رقیم فعیل کے زون پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح واللہ اعلم ۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ ۔ ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر ۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اللہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر ۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے ۔ یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں ۔ امد کے معنی عدد یا گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہم کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] قریش مکہ کے تین تاریخی سوال :۔ اس تمہید کے بعد اب کفار مکہ کے ان سوالوں کے جوابات کا آغاز ہو رہا ہے جو انہوں نے اہل کتاب سے پوچھ کر اور ان کے مشورہ سے آپ سے پوچھے تھے کفار مکہ دراصل یہ چاہتے تھے کہ وہ آپ سے قرون گذشتہ کے متعلق کچھ ایسے تاریخی سوال کریں جن کا کم از کم مشرکین مکہ اور عام اہل عرب کو کچھ علم نہ تھا۔ چناچہ انہوں نے اس معاملہ میں اہل کتاب کے عالموں سے مدد لی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے ایسے سوال کرنے سے پتہ چل جائے گا کہ آیا یہ شخص فی الواقع نبی ہے یا نہیں۔ اگر یہ جواب نہ دے سکے تو اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا اور اگر درست جواب دے دے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس کے پاس واقعی کوئی علم غیب کا ذریعہ موجود ہے۔ گویا ان سوالوں سے دراصل ان کا مقصود آپ کی نبوت کا امتحان تھا چناچہ اہل کتاب نے جو سوالات قریش مکہ کو بتائے ان میں سرفہرست اصحاب کہف کا قصہ تھا پھر دوسرے نمبر پر قصہ موسیٰ و خضر اور تیسرے نمبر پر ذوالقرنین کا قصہ تھا۔ بعض روایات کے مطابق دوسرا سوال قصہ موسیٰ و خضر کے بجائے روح کے متعلق تھا جس کا ذکر پہلے سورة بنی اسرائیل میں گذر چکا ہے یہ بات اس لیے درست معلوم نہیں ہوتی کہ ان دونوں سورتوں کے نزول کے درمیان ایک طویل مدت ہے۔ ترتیب نزولی کے لحاظ سے سورة بنی اسرائیل کا نمبر ٥٠ جبکہ اس سورة کا نمبر ٦٩ ہے علاوہ ازیں اس سورة میں ان ہی تین قصوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تین سوالوں کا جواب ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ ایسے امور کی بھی ساتھ ساتھ وضاحت کردی ہے جو انسانی ہدایت کے لیے نہایت ضروری ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان کا خاصہ ہے علاوہ ازیں ان قصوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہت حد تک قریش مکہ کے حالات سے مطابقت رکھتے تھے۔ کہف اور رقیم کے معنی :۔ کہف کسی پہاڑ کی اس کھوہ کو کہتے ہیں جو کھلی اور کشادہ ہو اور اگر تنگ ہو تو اسے غار کہتے ہیں اور رقیم، مرقوم کے معنوں میں ہے یعنی یہ اصحاب کہف یک دم معاشرہ سے غائب ہوگئے اور تلاش بسیار کے باوجود ان کا پتہ نہ چل سکا تو ان سرکاری مفرور مجرموں کے نام اور پتے قلمبند کرلیے گئے جو مدتوں حکومت کے ریکارڈ میں رہے اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ نام اس وقت ریکاڑد کیے گئے تھے جب لوگوں کو ان کا پتہ چل گیا ان کا چرچا عام ہوا اور یہ لوگ دوبارہ اس غار میں داخل ہوگئے تو لوگوں نے ان کے نام اور پتے وغیرہ لکھ کر غار سے باہر کتبہ لگا دیا اور ان کے مختصر حالات بھی درج کردیئے گئے۔ غار والوں کا قصہ چونکہ بعث بعد الموت پر ایک واضح دلیل اور خرق عادت امر تھا لہذا اس قصہ کا آغاز ہی اس جملہ سے کیا گیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قصہ اللہ تعالیٰ کی حیران کن نشانیوں میں سے ایک بڑی اہم نشانی تھی ؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری نشانیاں اس واقعہ سے بہت زیادہ حیران کن ہیں جو کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی ہیں اور خود ان کی اپنی جانوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ جو کچھ پہلے تخلیق کرچکا ہے اس کے مقابلے میں بعث بعدالموت اس کے لیے بہت آسان اور حقیر چیز ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭاَمْ حَسِبْتَ ۔۔ :” الْكَهْفِ “ پہاڑ میں وسیع غار۔ ” الرَّقِيْمِ “ بمعنی ” مَرْقُوْمٌ“ یعنی لکھی ہوئی تختی یا سل یا کتاب والے۔ ان لوگوں کو ” اصحاب الرقیم “ اس لیے کہتے ہیں کہ جب وہ اچانک غائب ہوگئے اور بہت تلاش کے باوجود نہ ملے تو ان کے نام ایک تختی یا سل پر لکھ کر خزانے میں محفوظ کردیے گئے، یا یہ کہ ان کے پاس شریعت کے احکام پر مشتمل لکھی ہوئی کتاب تھی۔ (شنقیطی) یا یہ کہ ان کے جاگنے کے بعد لوگوں نے غار پر ایک تختی نصب کردی جس پر ان کے نام لکھے ہوئے تھے۔ ۭاَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر جو اکثر مفسرین، مثلاً طبری، ابن کثیر، شنقیطی (رح) نے کی ہے، یہ ہے کہ ” اَمْ “ منقطعہ انکار کے لیے ہے۔ شنقیطی (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرما رہے ہیں کہ کیا تم نے اصحاب کہف کے قصے کو ہماری نشانیوں میں بڑی عجیب نشانی سمجھ لیا ہے۔ بیشک لوگ اسے بہت بڑی اور عجیب بات سمجھیں، مگر یہ ہماری قدرت اور عظیم نشانیوں کے سامنے کچھ عجیب نہیں، کیونکہ ہمارا آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا، پھر زمین میں اس کی زینت کی ہر چیز پیدا کرنا، پھر قیامت کے دن اسے چٹیل میدان بنادینا اصحاب کہف کے معاملے سے بہت زیادہ عجیب ہے، جنھیں ہم نے تین سو نو (٣٠٩) سال سلائے رکھا، پھر دوبارہ اٹھا دیا۔ اس کی دلیل بہت سی آیات ہیں، ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے ذکر سے پہلے زمین اور اس کی زینت پیدا کرنے، پھر اسے چٹیل میدان بنانے کا ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قصہ ان چیزوں کے مقابلے میں کچھ عجیب نہیں جو اس سے کہیں بڑی ہیں۔ قرآن مجید میں بہت سی جگہ لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ آسمان و زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑی بات ہے، جیسا کہ فرمایا : (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ المؤمن : ٥٧ ] ” یقیناً آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کرنا لوگوں کو پیدا کرنے سے بہت بڑا ہے۔ “ اور دیکھیے نازعات (٢٧ تا ٣٣) یاد رہے کہ ” اصحاب کہف “ اور ” اصحاب رقیم “ ایک ہی گروہ کے نام ہیں اور صحیح بخاری میں مذکور غار کے اندر پناہ لینے والے تین آدمیوں کا اس واقعہ سے تعلق بہت بعید ہے، جن میں سے ایک والدین سے حسن سلوک کرنے والا، ایک پاک دامن رہنے والا اور ایک اجرت پر مزدور رکھنے والا تھا۔ اور یہ بات یاد رکھیں کہ اصحاب کہف کے قصے، ان کے ناموں اور یہ کہ وہ زمین کے کس حصے میں تھے ؟ اس سب سے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے علاوہ کوئی بات ثابت نہیں جو قرآن سے زائد ہو۔ مفسرین نے ان کے متعلق بہت سی اسرائیلی روایات بیان کی ہیں جن کے قابل اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے ان کی طرف توجہ نہیں کی۔ “ (شنقیطی ملخصاً ) ایک اور تفسیر جو پہلی تفسیر کے علاوہ صاحب روح المعانی اور ابن عاشور ; وغیرہ نے ذکر فرمائی ہے، یہ ہے کہ ” حِسْبَانٌ“ گمان اور علم دونوں معنوں میں آتا ہے، ہاں ” اَم “ انکار کے لیے نہیں بلکہ تقریری ہے، یعنی یہ بتانے کے لیے ہے کہ یقیناً یہ لوگ واقعی عجیب تھے۔ گویا یہ کہا گیا : ” اِعْلَمْ أَنَّھُمْ عَجَبٌ“ ” جان لے کہ یقیناً وہ لوگ بڑے عجیب تھے۔ “ جیسا کہ تم کہتے ہو : ” أَعَلِمْتَ أَنَّ فُلاَنًا فَعَلَ کَذَا “ ” کیا تمہیں معلوم ہے کہ فلاں نے اس طرح کیا۔ “ یعنی یقیناً اس نے اس طرح کیا ہے۔ ان مفسرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے واقعے کا عجیب ہونا ذکر کرنے کے بعد تفصیل سے واقعہ بیان کر رہے ہیں، تاکہ مخاطب کو سننے کا شوق پیدا ہوجائے۔ یہ تفسیر بھی ہوسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Lexical Explanation Kahf is a large mountainous cave or cavern. If not large, it will be a ghar. The word: الرَّ‌قِيمِ (al-Raqim) literally denotes: اَلمَرقُوم (al-marqum) that is, something written. What does it mean at this place? The sayings of commentators differ about it. Dahhak, Sudiyy and Ibn Jubayr following the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) declare it to mean a written tablet on which the ruler of the time had inscribed the names of the People of Kahf and had it fixed on the entrance to the Cave. For this reason, the People of Kahf are also called the People of al-Raqim (the inscribed ones). Qatadah, ` Atiyyah, ` Awfi and Mujhid have said that Raqim is the name of the valley adjoining the mountain in which the hollow cavern of the People of Kahf was located. Some others have identified this mountain itself as the Raqim. ` Ikrimah says, |"I have heard Sayyidna ibn ` Abbas رضی اللہ تعالیٰ عنہما saying - I do not know whether Raqim is the name of some inscribed tablet or some town.|" Ka&b al-Alahbar and Wahb ibn Munabbih report from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that Raqim is the name of a town near Ailah, that is, &Aqabah, situated in the kingdom of the Romans. Fityah (فِتْيَةُ ) in verse 10 is the plural of: فَتٰی : fata, which means a young man. The expression: فَضَرَ‌بْنَا عَلَىٰ آذَانِهِمْ (translated as &so, We veiled their hear¬ing [ putting them to sleep ] & - 11) literally means to plug ears to prevent someone from hearing. It is used to convey the sense of deep sleep. When sleeping, eyes close first but ears remain active. Sounds are heard. When sleep takes over completely, ears stop functioning. Later, when awake, ears resume their function first for sound startles the person sleeping who then comes out of his sleep. Commentary The story of the People of Kahf and Raqim There are a few subjects of study in this story. First of all, it needs to be determined whether People of Kahf and People of Raqim are two names of the same group, or these are two separate groups. Though, no clarification of this appears in any Sahih Hadith, but Imam al-Bukhari, in his Sahih, has given two separate chapter headings - Ashab al-Kahf and Ashab al-Raqim. Then, under Ashab al-Raqim, he mentions the well-known story of three persons being locked shut into a cave with no way out, which opened later through prayers, and which is there in details in all books of Hadith. From this innovative device of Imam al-Buk¬hari, it is gathered that, according to him, the People of Kahf are one group, and the appellation of the People of Raqim has been used for those three persons who had taken shelter in the cave at some earlier time. Then a huge rock from the mountain fell on the entrance to the cave and blocked it totally, making it impossible for them to come out. At that moment, it was with reference to whatever righteous deeds they each had done in life that the three of them supplicated before Allah: Our Lord, if we had done this thing for Your good pleasure, please open the passage for us. Following the prayer of the first person, the rock moved a little and light started coming in. By the prayer of the second one, it moved a little more. Then, by the prayer of the third one, the passage opened up fully. But, Hafiz ibn Hajar has made it clear in Sharh al-Bukhari that, in the light of Hadith reports, there is no clear-cut proof about the People of Raqim being the name for the three persons referred to above. What has happened here is that some narrators have added to the report of Sayyidna Nu` man ibn Bashir (رض) ، a reporter of the incident of the cave, by saying that Sayyidna Nu` man ibn Bashir while mentioning the story of the cave said, &I heard the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) mentioning Raqim. He was relating the story of the three who got shut into the cave.& This addition appears in the report of al-Bazzar and al-Tabarani as quoted by Fath-al-Bari. But, to begin with, none of the reports from the usual narrators of this Hadith which are available in details in the six Sahihs and other books of Hadith have included this sentence of Sayyidna Nu` man ibn Bashir (رض) . Even the report of al-Bukhari itself does not have this sentence in it. Then, even within this sentence, it has not been made clear whether or not the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had called those three persons who got shut into the cave by the name of the People of Raqim. In fact, the words are: &he was mentioning Raqim.& Those three were mentioned as a corollary to this statement. As for the difference in the sayings of the Sahabah, &Tabi` in and commentators in general concerning the meaning of Raqim, it is by itself a proof that there was no Hadith reported from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) about the meaning of Raqim as determined by him. Otherwise, how was it possible that once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself determines the meaning of a word, the Sahabah, Tabi` in and other commentators opt for some other saying contrary to it? Therefore, Hafiz ibn Hajar, the commentator of al-Bukhari, denies that the People of Kahf and the People of Raqim are two separate groups. According to him, the correct position is that both these names apply to one single group. The mention of three persons getting shut into a cave could have been made with the mention of Raqim. It does not necessarily follow from it that these very three persons were &the Ashab al-Raqim& (the People of Raqim). Hafiz ibn Hajar has also clarified at this place that the very context of the story of the People of Kahf as described by the Qur&an tells us that the People of Kahf and Raqim are but one group. This is why the major¬ity of commentators and Hadith experts agree that they both are one and the same. The second issue to be determined here is that of the details of the story. It has two parts. Part one is the spirit of the story, and the real ob¬jective. It provides an answer to the question asked by the Jews, and guidance and good counsel for Muslims as well. The second part deals with the historical and geographical aspects of the story. As for the delin-eation of the objective, it plays no role there, for instance: When and where did this event come to pass, who was the infidel king these people ran from and hid in the cave? What were his beliefs, what did he actual¬ly do to them because of which they were compelled to run and hide in the cave? How many were they? Exactly how long did they remain asleep? Are they still alive or are they dead? The Holy Qur&an, under its wise principles and unique methodology, has not related any story in all its detail and order throughout the Qur&an (with the sole exception of the story of Sayyidna Yusuf علیہ السلام) - a common method used in books of history. Instead, it has introduced only a part of each story that was appropriate to the occasion and was partic-ularly related to guiding and teaching human beings. (The reason for exclud¬ing the story of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) from the parameter of this method appears in the Tafsir of Surah Yusuf included in Volume V, pages 24, 25) The same method was used in relating the story of the People of Kahf. Here, the Qur’ an has described its particular parts that were rele¬vant to the real objective. No mention was made of the remaining parts that were purely historical or geographical. Of course, mention was made of the number of the People of Kahf. The questions regarding the period of time they remained asleep were certainly alluded to, even an in¬dication was released towards the answer but, along with it, an instruc¬tion was also given that it was not appropriate to investigate and debate such issues. These should be entrusted with Allah Ta` ala. This is the rea¬son why the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who was duty-bound to explain the meanings of the Holy Qur’ an never related those parts of the story in any Hadith. It is on the grounds of this Qur&anic methodology that great men among the Sahabah and Tabi` in have declared the essential policy guideline in such matters by saying: اَبھَمُوا مَآ اَبھَمَہُ اللہُ (الاتقان للسیوطی) What Allah has left undetermined, you too leave it undeter¬mined. (a1-Itqan li-Suyuti) This approach and conduct of leading Sahabah and &I&abi` in required that, in this Tafsir too, those parts of the story should be ignored as ig¬nored by the Qur&an and Hadith. But, this is a time when historical and geographical breakthroughs are taken as great achievements. Therefore, later day scholars of Tafsir have described those parts as well in varying lengths. As far as Tafsir Ma` ariful-Qur&an is concerned, the parts of the story that have already been mentioned in the Qur&an will be covered under the explanation of its verses. The remaining historical and geo¬graphical parts of the story are being described here within the limits of their need. However, the truth of the matter is that, even after this description, the end result will remain the same - that is, it is impossible to arrive at a categorical decision in these matters. The reason is that writ¬ings in Islamic, and then Christian history, relating to this subject are so different, even contradictory, that one writer determines something in the light of his investigation, opinion and evidence while the other pre¬fers something else. Events relating to hiding in caves to protect faith have been many and widespread One major reason for differences existing among historians lies in the great importance attached to monasticism by adherents to the faith brought by Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) . As a result, there were several instances spread around different regions and countries of the world where some people took shelter in caves to devote themselves to the worship of Allah Ta’ ala living there for the rest of their lives. Now, where so ever some such event has occurred, it was not so far out for a historian to suspect it to be that of the People of Kahf.

تشریح اللغات : کہف، پہاڑی غار جو وسیع ہو اس کو کہف کہتے ہیں، جو وسیع نہ ہو اس کو غار کہا جاتا ہے، رقیم، لفظی اعتبار سے بمعنے المرقوم ہے، یعنی لکھی ہوئی چیز اس مقام پر اس سے کیا مراد ہے، اس میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں، ضحاک اور سدی اور ابن جبیر (رض) بروایت ابن عباس (رض) اس کے معنی ایک لکھی ہوئی تختی کے قرار دیتے ہیں، جس پر بادشاہ وقت نے اصحاب کہف کے نام کندہ کر کے غار کے دروازہ پر لگا دیا تھا، اسی وجہ سے اصحاب کہف کو اصحاب الرقیم بھی کہا جاتا ہے، قتادہ، عطیہ، عوفی، مجاہد کا قول یہ ہے کہ رقیم اس پہاڑ کے نیچے کی وادی کا نام ہے جس میں اصحاب کہف کا غار تھا، بعض نے خود اس پہاڑ کو رقیم کہا ہے، حضرت عکرمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ رقیم کسی لکھی ہوئی تختی کا نام ہے یا کسی بستی کا، کعب احبار، وہب بن منبہ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت کرتے ہیں کہ رقیم، ایلہ یعنی عقبہ کے قریب ایک شہر کا نام ہے جو بلاد روم میں واقع ہے۔ فتیۃ، فتی کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نوجوان۔ (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ کے لفظی معنی کانوں کو بند کردینے کے ہیں، غفلت کی نیند کو ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ نیند کے وقت سب سے پہلے آنکھ بند ہوتی ہے، مگر کان اپنا کام کرتے رہتے ہیں، آواز سنائی دیتی ہے، جب نیند مکمل اور غالب ہوجاتی ہے تو کان بھی اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں، اور پھر بیداری میں سب سے پہلے کان اپنا کام شروع کرتے ہیں کہ آواز سے سونے والا چونکتا ہے پھر بیدار ہوتا ہے۔ خلاصہ تفسیر : کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے (یہ دونوں ایک ہی جماعت کے لقب ہیں) ہماری عجائبات (قدرت) میں سے کپھ تعجب کی چیز تھے (جیسا کہ یہود نے کہا تھا کہ ان کا واقعہ عجیب ہے، یا خود ہی سوال کرنے والے کفار قریش نے اس کو عجیب سمجھ کو سوال کیا تھا، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے کی یہ واقعہ بھی اگرچہ عجیب ضرور ہے مگر اللہ تعالیٰ کی دوسری عجائبات قدرت کے مقابلہ میں ایسا قابل تعجب نہیں جیسا ان لوگوں نے سمجھا ہے، کیونکہ زمین و آسمان اور چاند و سورج اور تمام کائنات زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانا اصل عجائب نہیں، اس تمہید کے بعد اصحاب کہف کا قصہ اس طرح بیان فرمایا اور) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ ان نوجوانوں کے (ایک بےدین بادشاہ کی گرفت سے بھاگ کر) اس غار میں (جس کا قصہ آگے آتا ہے) جا کر پناہ لی پھر (اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا مانگی) کہا کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو اپنے پاس سے رحمت کا سامان عطا فرمائیے اور ہمارے (اس) کام میں درستی کا سامان مہیا کر دیجئے (غالبا رحمت سے مراد حصول مقصود ہے اور درستی کے سامان سے مراد وہ اسباب و مقدمات ہیں جو حصول مقصد کے لئے عادۃ ضروری ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا، اور ان کی حفاظت اور تمام پریشانیوں سے نجات دینے کی صورت اس طرح بیان فرمائی کہ) سو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک نیند کا پردہ ڈال دیا پھر ہم نے ان کو (نیند سے) اٹھایا تاکہ ہم (ظاہری طور پر بھی) معلوم کرلیں کہ (غار میں رہنے کی مدت میں بحث و اختلاف کرنے والوں میں سے) کونسا گروہ ان کے رہنے کی مدت سے زیادہ واقف تھا (نیند سے بیدار ہونے کے بعد ان میں ایک گروہ کا قول تو یہ تھا کہ ہم پورا دن یا کچھ حصہ ایک دن کا سوئے ہیں، دوسرے گروہ نے کہا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ تم کتنے دن سوتے رہے، آیت میں اشارہ اسی طرف ہے کہ یہ دوسرا گروہ ہی زیادہ حقیقت شناس تھا، جس نے مدت کی تعیین کو اللہ کے حوالہ کیا، کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہ تھی) معارف و مسائل : قصہ اصحاب کہف و رقیم : اس قصہ میں چند مباحث ہیں، اول یہ کہ اصحاب کہف و اصحاب رقیم ایک ہی جماعت کے دو نام ہیں، یا یہ الگ الگ دو جماعتیں ہیں، اگرچہ کسی صحیح حدیث میں اس کی کوئی تصریح نہیں، مگر امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں اصحاب الکہف اور اصحاب الرقیم دو عنوان الگ الگ دئیے، پھر اصحاب الرقیم کے تحت وہ مشہور قصہ تین شخصوں کے غار میں بند ہوجانے پھر دعاؤں کے ذریعہ راستہ کھل جانے کا ذکر کیا ہے، جو تمام کتب حدیث میں مفصل موجود ہے، امام بخاری کی اس صنیع سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک اصحاب کہف ایک جماعت ہے، اور اصحاب رقیم ان تین شخصوں کو کہا گیا ہے جو کسی زمانے میں چھپے تھے، پھر پہاڑ سے ایک بڑا پتھر اس غار کے دہانے پر آ گرا جس سے غار بالکل بند ہوگیا، ان کے نکلنے کا راستہ نہیں رہا، ان تینوں سے اپنے اپنے خاص نیک اعمال کا واسطہ کر کے اللہ سے دعا کی کہ یہ کام اگر ہم نے خالص آپ کی رضا کے لئے کیا تھا تو اپنے فضل سے ہمارا راستہ کھول دے، پہلے شخص کی دعا سے پتھر کچھ سرک گیا، روشنی آنے لگی، دوسرے کی دعا سے اور زیادہ سرکا، پھر تیسرے کی دعا سے راستہ بالکل کھل گیا۔ لیکن حافظ ابن حجر نے شرح بخاری میں یہ واضح کیا کہ ازروئے روایت حدیث اس کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے کہ اصحاب رقیم مذکورہ تین شخصوں کا نام ہے، بات صرف اتنی ہے کہ واقعہ غار کے ایک راوی حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت میں بعض راویوں نے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رقیم کا ذکر کرتے ہوئے سنا آپ غار میں بند رہ جانے والے تین آدمیوں کا واقعہ سنا رہے تھے، یہ اضافہ فتح الباری میں بزار اور طبرانی کی روایت سے نقل کیا ہے، مگر اول تو اس حدیث کے عام راویوں کی روایات جو صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری کتابوں میں مفصل موجود ہیں، ان میں کسی نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کا یہ جملہ نقل نہیں کیا، خود بخاری کی روایت بھی اس جملے سے خالی ہے، پھر اس جملے میں بھی اس کی تصریح نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار میں بند ہونے والے ان تین شخصوں کو اصحاب الرقیم فرمایا تھا، بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ آپ رقیم کا ذکر فرما رہے تھے، اس ضمن میں ان تین شخصوں کا ذکر فرمایا، لفظ رقیم کی مراد کے متعلق صحابہ وتابعین اور عام مفسرین میں جو اختلاف اقوال اوپر نقل کیا گیا ہے وہ خود اس کی دلیل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رقیم کی کوئی مراد متعین کرنے کے بارے میں کوئی روایت حدیث نہیں تھی، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لفظ کی مراد خود متعین فرما دیں، پھر صحابہ وتابعین اور دوسرے مفسرین اس کے خلاف کوئی قول اختیار کریں، اسی لئے حافظ ابن حجر شارح بخاری نے اصحاب کہف و رقیم کے دو الگ الگ جماعتیں ہونے سے انکار فرمایا، اور صحیح یہ قرار دیا کہ یہ دونوں ایک ہی جماعت کے نام ہیں، غار میں بند ہوجانے والے تین شخصوں کا ذکر رقیم کے ذکر کے ساتھ آ گیا ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہی تین شخص اصحاب الرقیم تھے۔ حافظ ابن حجر نے اس جگہ یہ بھی واضح کردیا کہ قرآن نے جو قصہ اصحاب کہف کا بیان کیا ہے اس کا سیاق خود یہ بتلا رہا ہے کہ اصحاب کہف و رقیم ایک ہی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ جمہور مفسرین اور محدثین ان دونوں کے ایک ہی ہونے پر متفق ہیں۔ دوسرا مسئلہ اس جگہ خود اس قصے کی تفصیلات کا ہے جس کے دو حصے ہیں ایک وہ جو اس قصہ کی روح اور اصل مقصود ہے، جس سے یہود کے سوال کا جواب بھی ملتا ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایات و نصائح بھی، دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق اس قصہ کی صرف تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے ہے، بیان مقصود میں اس کا کوئی خاص دخل نہیں، مثلا یہ قصہ کس زمانے میں اور کس شہر اور بستی میں پیش آیا، جس کافر بادشاہ سے بھاگ کر ان لوگوں نے غار میں پناہ لی تھی وہ کون تھا، اس کے کیا عقائد و خیالات تھے، اور اس نے ان لوگون کے ساتھ کیا معاملہ کیا جس سے یہ بھاگنے اور غار میں چھپنے پر مجبور ہوگئے، پھر یہ کہ ان لوگوں کی تعداد کیا تھی، اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا کل زمانہ کتنا تھا، اور پھر یہ لوگ اب تک زندہ ہیں یا مر گئے۔ قرآن حکیم نے اپنے حکیمانہ اصول اور اسلوب خاص کے تحت سارے قرآن میں ایک قصہ یوسف (علیہ السلام) کے سوا کسی قصے کو پوری تفصیل اور ترتیب سے بیان نہیں کیا، جو عام تاریخی کتابوں کا طریقہ ہے، بلکہ ہر قصے کے صرف وہ اجزا موقع بموقع بیان فرمائے ہیں جن سے انسانی ہدایات اور تعلیمات کا تعلق تھا۔ (قصہ یوسف (علیہ السلام) کو اس اسلوب سے مستثنی کرنے کی وجہ سورة یوسف کی تفسیر میں گزر چکی ہے) ۔ قصہ اصحاب کہف میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن میں اس کے صرف وہ اجزاء بیان کئے گئے جو مقصود اصلی سے متعلق تھے، باقی اجزا جو خالص تاریخی یا جغرافیائی تھے ان کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، اصحاب کہف کی تعداد اور سونے کے زمانے کی مدت کے سوالات کا ذکر تو فرمایا اور جواب کی طرف اشارہ بھی فرمایا مگر ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ ایسے مسائل میں زیادہ غور و فکر اور بحث و تکرار مناسب نہیں ان کو حوالہ بخدا تعالیٰ کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کا فرض منصبی معانی قرآن کو بیان کرنا ہے آپ نے بھی کسی حدیث میں ان اجزاء قصہ کو بیان نہیں فرمایا، اور اکابر صحابہ وتابعین نے اسی قرآنی اسلوب کی بنا پر ایسے معاملات میں ضابطہ کار یہ قرار دیا کہ : اَبْھِمُوْا مَآ اَبْھَمَہ اللّٰہ (اتقان، سیوطی) |" یعنی جس غیر ضروری چیز کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا تم بھی اسے مبہم رہنے دو (کہ اس میں بحث و تحقیق کچھ مفید نہیں |" ) اکابر صحابہ وتابعین کے اس طرز عمل کا مقتضی یہ تھا کہ اس تفسیر میں بھی ان اجزاء قصہ کو نظر انداز کردیا جائے جن کو قرآن اور حدیث نے نظر انداز کیا ہے، لیکن یہ زمانہ وہ ہے جس میں تاریخی اور جغرافیائی انکشافات ہی کو سب سے بڑا کمال سمجھ لیا گیا ہے، اور متاخرین علمائے تفسیر نے اسی لیے کم و بیش ان اجزا کو بھی بیان فرما دیا ہے، اس لئے زیر نظر تفسیر میں قصے کے وہ اجزا جو خود قرآن میں مذکور ہیں ان کا بیان تو آیات قرآن کی تفسیر کے تحت آجائے گا، باقی تاریخی اور جغرافیائی اجزائے قصہ کو یہاں بقدر ضرورت بیان کیا جاتا ہے، اور بیان کرنے کے بعد بھی آخری نتیجہ وہی رہے گا کہ ان معاملات میں کوئی قطعی فیصلہ ناممکن ہے، کیونکہ اسلامی اور پھر مسیحی تاریخوں میں اس کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خود اس قدر مختلف اور متضاد ہے کہ ایک مصنف اپنی تحقیق و رائے کے پیش نظر مقدمات و قرائن کی مدد سے کسی ایک چیز کو متعین کرتا ہے تو دوسرا اسی طرح دوسری صورت کو ترجیح دیتا ہے۔ دین کی حفاظت کے لئے غاروں میں پناہ لینے والوں کے واقعات مختلف شہروں اور خطوں میں متعدد ہوئے ہیں : مورخین کے اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دین مسیح (علیہ السلام) میں چونکہ رہبانیت کو دین کا سب سے بڑا کام سمجھ لیا گیا تھا تو ہر خطے اور ہر ملک میں ایسے واقعات متعدد پیش آئے ہیں کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے غاروں میں پناہ گزین ہوگئے وہیں عمریں گذار دیں، اب جہاں جہاں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے اس پر مورخ کو اصحاب کہف کا گمان ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَہْفِ وَالرَّقِيْمِ۝ ٠ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَــبًا۝ ٩ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ كهف الْكَهْفُ : الغار في الجبل، وجمعه كُهُوفٌ. قال تعالی: أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] . ( ک ہ ف ) الکھف کے معنی پہاڑ میں غار کے ہیں اس کو جمع کھوف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ رقم الرَّقْمُ : الخطّ الغلیظ، وقیل : هو تعجیم الکتاب . وقوله تعالی: كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] ، حمل علی الوجهين، وفلان يَرْقُمُ في الماء «2» ، يضرب مثلا للحذق في الأمور، وأصحاب الرَّقِيمِ «3» ، قيل : اسم مکان، وقیل : نسبوا إلى حجر رُقِمَ فيه أسماؤهم، ورَقْمَتَا الحمار : للأثر الذي علی عضديه، وأرض مَرْقُومَةٌ: بها أثر نبات، تشبيها بما عليه أثر الکتاب، والرُّقْمِيَّاتُ : سهام منسوبة إلى موضع بالمدینة . ( ر ق م ) الرقم کے معنی گاڑھے خط کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ رقم کے معنی کتاب پر اعراب اور نقطے لگانے کے ہیں ۔ اور آیت ؛كِتابٌ مَرْقُومٌ [ المطففین/ 9] وہ ایک کتاب ہے ( وقتا فوقتا ) اس کی خانہ پری ہوتی رہتی ہے ۔ میں مرقوم کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی گاڑھے اور جلی خط میں لکھی ہوئی یا نقطے لگائی ہوئی ۔ اور جو شخص کسی کام کا ماہر اور حاذق ہو اس کے متعلق ضرب المثل کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ فلان یرقم فی الماء یعنی وہ ماہر ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ [ الكهف/ 9] کہ غار اور لوح والے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ رقیم ایک مقام کا نام ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس پتھر کی طرف نسبت ہے جس میں ان کے نام کنندہ تھے اور گدھے کے دونوں بازؤوں پر جو نشان ہوتے ہیں انہیں رقمتا الحمار کہا جاتا ہے اور ارض مرقومۃ تھوڑی گھاس والی زمین کو کہتے ہیں گو یا وہ کتابت کے نشانات کی طرح ہے ۔ الرقمیات تیروں کو کہتے ہیں جو مدینہ کے ایک مقام کی طرف منسوب ہیں ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور پہاڑ والے ہماری عجائبات قدرت چاند، سورج آسمان و زمین ستارے اور سمندر وغیرہ میں سے کوئی تعجب کی چیز ہیں۔ کہف اس پہاڑ کا نام ہے جس میں وہ غار تھا اور رقیم وہ پیتل کی تختی ہے جس پر ان نوجوانوں کے نام اور ان کا واقعہ مرقوم تھا یا یہ کہ اس وادی کا نام ہے جس میں کہف پہاڑ تھا یا یہ کہ رقیم ایک شہر کا نام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيْمِ ۙ كَانُوْا مِنْ اٰيٰتِنَا عَجَبًا) اب اصحاب کہف کے متعلق اس سوال کے جواب کا آغاز ہو رہا ہے جو یہود مدینہ نے قریش مکہ کے ذریعے حضور سے پوچھا تھا۔ کہف کے معنی غار کے ہیں اور رقیم سے مراد وہ تختی ہے جس پر اصحاب کہف کے حالات لکھ کر اسے غار کے دہانے پر لگا دیا گیا تھا۔ اس نسبت سے انہیں اصحاب کہف بھی کہا جاتا ہے اور اصحاب الرقیم بھی۔ مراد یہ ہے کہ تم لوگ شاید اصحاب کہف کے واقعہ کو ایک بہت غیر معمولی واقعہ اور ہماری ایک بڑی عجیب نشانی سمجھتے ہو مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری تخلیق اور صناعی میں تو اس سے بھی بڑے بڑے عجائبات موجود ہیں۔ اس قصے کے بارے میں اب تک جو ٹھوس حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : حضرت مسیح کی فلسطین میں بعثت کے وقت بظاہر یہاں ایک یہودی بادشاہ کی حکمرانی تھی مگر اس بادشاہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہ تھی اور عملی طور پر یہ پورا علاقہ رومن ایمپائر ہی کا حصہ تھا۔ رومی حکمران مذہباً بت پرست تھے جبکہ فلسطین کے مقامی باشندے اہل کتاب (یہودی) تھے۔ حضرت مسیح کے رفع سماوی کا واقعہ ٣٠ اور ٣٣ عیسوی کے لگ بھگ پیش آیا۔ اس کے بعد یہودیوں کی ایک بغاوت کے جواب میں رومی جنرل ٹائیٹس نے ٧٠ عیسوی میں یروشلم پر حملہ کر کے اس شہر کو بالکل تباہ و برباد کردیا ہیکل سلیمانی مسمار کردیا گیا یہودیوں کا قتل عام ہوا اور جو یہودی قتل ہونے سے بچ گئے انہیں ملک بدر کردیا گیا۔ مقامی عیسائیوں کو اگرچہ علاقے سے بےدخل تو نہ کیا گیا مگر حضرت عیسیٰ کے پیروکار اور موحد ہونے کی وجہ سے انہیں رومیوں کی طرف سے اکثر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ اسی حوالے سے رومی بادشاہ دقیانوس (Decius) کے دربار میں چند راسخ العقیدہ موحد نوجوانوں کی پیشی ہوئی۔ بادشاہ کی طرف سے ان نوجوانوں پر واضح کیا گیا کہ وہ اپنے عقائد کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرلیں ورنہ انہیں سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ بادشاہ کی طرف سے انہیں اس فیصلے کے لیے مناسب مہلت دی گئی۔ اسی مہلت کے دوران انہوں نے شہر سے نکل کر کسی غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ لوگ غار میں پناہ گزیں ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان پر ایسی نیند طاری کردی کہ وہ تقریباً تین سو سال تک سوتے رہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت ٢٥٩ میں بھی اسی نوعیت کے ایک واقعہ کا ذکر ہے کہ حضرت عزیر کو ان کی موت کے سو سال بعد زندہ کردیا گیا) اور ان کی نیند کے دوران ان کی کروٹیں بدلنے کا بھی باقاعدہ اہتمام رہا۔ جس غار میں اصحاب کہف سو رہے تھے وہ ایسی جگہ پر واقع تھی جہاں لوگوں کا آنا جانا بالکل نہیں تھا۔ اس غار کا دہانہ شمال کی جانب تھا جس کی وجہ سے اس کے اندر روشنی منعکس ہو کر تو آتی تھی لیکن براہ راست روشنی یا دھوپ نہیں آتی تھی۔ اس طرح کے غاروں کا ایک سلسلہ افسس شہر (موجودہ ترکی) کے علاقے میں پایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان (ایجنٹا) میں بھی ایسے غار موجود ہیں۔ بعد ازاں قسطنطین (Constantine) نامی فرمانروا نے عیسائیت قبول کرلی اور اس کی وجہ سے پوری رومن ایمپائر بھی عیسائی ہوگئی۔ پھر ٤٠٠ عیسوی کے لگ بھگ Theodosius کے عہد حکومت میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو جگایا۔ جاگنے کے بعد انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو چاندی کا ایک سکہ دے کر کھانا لینے کے لیے شہر بھیجا اور ساتھ ہدایت کی کہ وہ محتاط رہے ایسا نہ ہو ان کے غار میں چھپنے کی خبر بادشاہ تک پہنچ جائے۔ (وہ اپنی نیند کو معمول کی نیند سمجھ رہے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ تین سو سال تک سوئے رہے تھے۔ ) بہرحال کھانا لانے کے لیے جانے والا ان کا ساتھی اپنی تین سو سال پرانی وضع قطع اور کرنسی کی وجہ سے پکڑا گیا اور یوں ان کے بارے میں تمام معلومات لوگوں تک پہنچ گئیں۔ جب لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہم مذہب ہونے کی وجہ سے عیسائی آبادی کی طرف سے ان کی بہت عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بعد وہ لوگ غار میں پھر سے سوگئے یا اللہ تعالیٰ نے ان پر موت طاری کردی۔ ان لوگوں کی طبعی موت کے بعد غار کے دہانے کو بند کردیا گیا اور ایک تختی پر ان لوگوں کا احوال لکھ کر اسے اس جگہ پر نصب کردیا گیا۔ اصحاب کہف کا یہ قصہ گبن کی کتاب The Decline and fall of Roman Empire میں بھی Seven Sleepers کے عنوان سے موجود ہے۔ اس قصے کا ذکر چونکہ رومن لٹریچر میں تھا اور یہودی ان تمام تفصیلات سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے یہ سوال حضور سے امتحاناً پوچھ بھیجا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6. The Arabic word Kahf literally means a vast cave. 7. There is a difference of opinion about the meaning of arraqim. Some companions and their followers opined that it was the name of that habitation where this event took place and that it was situated somewhere between Aylah and Palestine. There are other commentators who take it to mean the inscription that had been set up at the cave as a memorial to the sleepers of the cave. Abul Kalam Azad, in his commentary, Tarjmanul-Quran, has preferred the first meaning and opined that it is the same place which has been called Rekem in the Bible (Joshua, 18: 27). Then he identifies it with the ancient historical city of Petra. But he has not considered the fact that Rekem, as mentioned in the Bible, belonged to the children of Benjamin and according to the Book of Joshua, the territory of this clan was situated to the west of river Jordan and the Dead Sea and that the ruins of Petra are situated to the south of Jordan. That is why the modern archaeologists do not believe that Petra and Rekem are one and the same place. (Please refer to Encyclopedia Britannica, 1946, Vol XVII, page 658). We are also of the opinion that by Arraqim is meant the inscription. 8. This question has been posed to expose the skeptical attitude of the disbelievers towards the “Sleepers of the Cave,” as if to say: Do you think that Allah, Who has created the heavens and the earth, does not have the power to keep a few persons in a state of sleep for a couple of hundred years and then to raise them up same as they were at the time of going to sleep. If you ever had pondered over the wonderful creation of the sun and the moon and the earth, you would never have expressed any doubt that such a thing was anything difficult for Allah.

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :6 عربی زبان میں کہف وسیع غار کو کہتے ہیں اور غار کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ مگر اردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :7 الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے ۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا ، اور وہ اَیلہ ( یعنی عَقَبہ ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی ۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع ( باب ۱۸ ۔ آیت ۲۷ ) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے ۔ پھر وہ اسے نبطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں ۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوواہ اور ادومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا ۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں ( ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹٤٦ جلد ۱۷ ۔ ص ٦۵۸ ) ۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :8 یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے ؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہرگز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: ان حضرات کے واقعے کا خلاصہ قرآنِ کریم کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ یہ کچھ نوجوان تھے جو ایک مشرک بادشاہ کے عہد حکومت میں توحید کے قائل تھے۔ بادشاہ نے ان کو توحید پر ایمان رکھنے کی بنا پر پریشان کیا تو یہ حضرات شہر سے نکل کر ایک غار میں چھپ گئے تھے۔ وہاں اﷲ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری فرمادی، اور یہ تین سو نو(۳۰۹) سال تک اُسی غار میں پڑے سوتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نیند کے دوران اپنی قدرت کاملہ سے ان کی زندگی کو بھی سلامت رکھا، اور اُن کے جسم بھی گلنے سڑنے سے محفوظ رہے۔ تین سو نو سال بعد اُن کی آنکھ کھلی تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی لمبی مدت تک سوتے رہے ہیں۔ لہٰذا ان کو بھوک محسوس ہوئی تو اپنے میں سے ایک صاحب کو کچھ کھانا خرید کر لانے کے لئے شہر بھیجا، اور یہ ہدایت کی کہ احتیاط کے ساتھ شہر میں جائیں، تاکہ ظالم بادشاہ کو پتہ نہ چل سکے۔ اﷲ تعالیٰ کا کرنا یسا ہوا کہ اس تین سو سال کے عرصے میں وہ ظالم بادشاہ مرکھپ گیا تھا، اور ایک نیک اور صحیح العقیدہ شخص بادشاہ بن چکا تھا۔ یہ صاحب جب شہر میں پہنچے تو کھانا خریدنے کے لئے وہی پُرانا سکہ پیش کیا جو تین سو سال پہلے اس ملک میں چلا کرتا تھا، دُکان دار نے وہ پرانا سکہ دیکھا تو اس طرح یہ بات سامنے آئی کہ یہ حضرات صدیوں تک سوتے رہے تھے۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اُس نے ان لوگوں کو بڑی عزّت اور اکرام کے ساتھ اپنے پاس بلایا، اور بالآخر جب اُن حضرات کی وفات ہوئی تو اُن کی یادگار میں ایک مسجد تعمیر کی۔ عیسائیوں کے یہاں یہ واقعہ ’’سات سونے والوں‘‘ (Seven Sleepers) کے نام سے مشہور ہے۔ معروف مؤرخ ایڈورڈ گبن نے اپنی مشہور کتاب ’’زَوال و سقوطِ سلطنتِ رُوم‘‘ میں بیان کیا ہے کہ وہ ظالم بادشاہ ڈوسیس تھا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم ڈھانے میں بہت مشہور ہے۔ اور یہ واقعہ ترکی کے شہر افسس میں پیش آیا تھا۔ جس بادشاہ کے زمانے میں یہ حضرت بیدار ہوئے، گبن کے بیان کے مطابق وہ تھیوڈوسیس تھا۔ مسلمان مؤرخین اور مفسرین نے بھی اس سے ملتی جلتی تفصیلات بیان فرمائی ہیں، اور ظالم بادشاہ کا نام دقیانوس ذکر کیا ہے۔ ہمارے دور کے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اُردُن کے شہر عمان کے قریب پیش آیا تھا جہاں ایک غار میں کچھ لاشیں اب تک موجود ہیں۔ یہ تحقیق میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں بیان کردی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بات بھی اتنی مستند نہیں ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جاسکے۔ قرآنِ کریم کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ کسی واقعے کی اُتنی ہی تفصیل بیان فرماتا ہے جو فائدہ مند ہو۔ اس سے زیادہ تفصیلات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان حضرات کو ’’اصحاب الکہف‘‘ (غار والے) کہنے کی وجہ تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ لیکن ان کو ’’رقیم‘‘ والے کیوں کہتے ہیں؟ اس کے بارے میں مفسرین کی رائیں مختلف ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ’’رقیم‘‘ اُس غار کے نیچے والی وادی کا نام ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’رقیم‘‘ تختی پر لکھے ہوئے کتبے کو کہتے ہیں، اور ان حضرات کے انتقال کے بعد اُن کے نام ایک تختی پر کتبے کی صورت میں لکھوا دئیے گئے تھے، اس لئے ان کو ’’اصحاب الرقیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسرے بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اُس پہاڑ کا نام ہے جس پر وہ غار واقع تھا۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ 4: جن لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان نوجوانوں کے بارے میں سوال کیا تھا، اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اُن کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ اس آیت میں اُنہی کے حوالے سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قدرت کے پیشِ نظر یہ واقعہ کوئی بہت عجیب نہیں ہے، کیونکہ اُس کی قدرت کے کرشمے تو بیشمار ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ ١٢:۔ ان آیتوں میں اصحاب کہف کے قصہ کی بابت پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ کھوہ والوں کا قصہ ہماری قدرت کے روبرو عجیب بات نہیں ہے کس لیے کہ آسمان و زمین کی پیدائش رات دن کا بدلنا چاند سورج اور اس کے سوا بڑی بڑی نشانیاں ہماری قدرت کی ہیں جو اصحاب کہف کے قصہ سے بھی عجیب ہیں سیرۃ محمد بن اسحاق تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں ان آیتوں کی تفسیر کے متعلق جس قدر قصہ مجاہد سے ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ کہف کے معنے غار کے ہیں اور جو لوگ غار میں پہنچے عیسائی تھے روم کے بت پرست دقیانوس بادشاہ نے ان لوگوں کو عیسائی مذہب کی حفاظت کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا مانگی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور وہ باوجود تلاشی کے دقیانوس کے سپاہیوں کو نظر نہ آئے اور اللہ کے حکم سے ان اصحاب کہف کو اس غار میں ایسی نیند آئی کہ تین سو برس تک ان کی آنکھ نہ کھلی جب یہ اصحاب کہف اس وقت کے لوگوں کو نظر نہ آئے تو ان لوگوں نے اصحاب کہف کے نام اور ان کے غائب ہوجانے کی تاریخ یہ سب حال ایک پتھر پر کندہ کرا کے اس غار میں وہ پتھر رکھ دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے موافق اسی پتھر کے کندہ کو رقیم فرمایا ہے کیونکہ جس طرح قتیل مقتول کی جگہ بولا جاتا ہے اسی طرح رقیم مرقوم کی جگہ بولا جاتا ہے ان کے غائب ہوجانے کے زمانہ کا تو کوئی شخص اس تین سو برس کے عرصہ میں زندہ نہیں رہا کہ ان کے غائب ہوجانے کی صحیح تاریخ اس کو یاد ہوتی اس لیے اصحاب کہف کی قوم کے نئے لوگوں میں دو گروہ ہوگئے ایک گروہ ان کے غائب ہوجانے کی مدت کچھ بتلاتا تھا اور دوسرا کچھ اختلاف کے رفع ہوجانے کے لیے اللہ کے حکم سے اتنے عرصہ میں ان کی آنکھ کھلی باقی کا قصہ آگے کی آیتوں میں آتا ہے لنعلم ای الحزبین اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دنیا میں اس گروہ کا حال ظاہر ہوجائے جس نے اس پتھر کے کندے کے موافق اس قصہ کی صحیح تاریخ یاد رکھی ورنہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ‘ چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے ١ ؎۔ کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر وہ سب اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ ١ ؎ مثلا تفسیر ہذاص ٣٠ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(18:9) أم۔ أم حرف عطف ہے اس کی دو قسمیں ہیں متصل۔ منقطع۔ متصل وہ ہے جس کے پہلے ہمزہ تسویہ (سواء کا ہمزہ) آئے جیسے سواء علیہم انذرتہم ام لم تنذرہم (2:6) یا اس سے پہلے ہمزہ استفہام ایسا آئے جس کو أم کے ساتھ ملانے سے تعیین و تخصیص مطلوب ہو مثلاً : أزید عندک أم عمرو یا جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے أ الذکرین حرم ام الانثیین (6:143) اس کو متصل اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا ماقبل اور مابعد دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ منقطعہ جو متصل کے خلاف ہو۔ جیسے ام جعلوا للہ شرکاء (13:16) ام منقطعہ کے وہ معنی جو اس سے کبھی جدا نہیں ہوتے ” اضراب “ ہے (اضراب یعنی پہلی بات سے اعراض کرنا) ۔ ام۔ کئی معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ مثلاً یا۔ خواہ۔ کیا۔ اور کبھی بمعنی بل استعمال ہوتا ہے۔ اور کبھی بل اور ہمزہ استفہام کے لئے آتا ہے۔ جیسا جمہور کے قول کے مطابق آیہ ہذا میں ہے ۔ اس صورت میں ام حسبت ای بل أحسبت تو کیا تو خیال کرتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے۔ ام منقطعہ کی مستقل خصوصیت اضراب یعنی پہلی بات سے اعراض ہے۔ اوپر آیات 7:8 میں زمین کو پیدا کرنے اور پھر روئے زمین پر زینت و آرائش کے مختلف سامانوں کے پیدا کرنے اور پھر اس کائنات کی ساری رعنائیوں اور دلفریبیوں کو فنا کر کے بےآب وگیاہ چٹیل میدان میں تبدیل کرنے کا ذکر ہے اور آیۃ 9 میں اصحاب کہف والرقیم کے قصہ کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے کہ جس ذات والا صفات کے قبضۂ قدرت میں تخلیق ارض وسماوات بمعہ ان کے جملہ لوازمات ہے کیا اس کا اصحاب کہف کو کچھ مدت کے لئے ان پر نیند طاری کر کے مرور وقت سے بیخبر رکھ کر دوبارہ اٹھا کر کھڑنا تعجب کی بات ہے ؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس تخلیق کے مقابلہ میں یہ بات تو بالکل معمولی اور حقیر سی ہے۔ ام۔ بعض دفعہ زائدہ بھی آتا ہے جیسے افلا تبصرون ام انا خیر (43:51 ۔ 52) اس عبارت کی تقدیر یوں ہے افلا تبصرون انا خیر۔ (کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں بہتر ہوں) ۔ لغت ِ یمن میں ام ال کے بدل میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً لیس من امبر أمصیام فی امسفر۔ ای لیس من البر الصیام فی السفر (سفر میں روزہ رکھنا خاص نیکی نہیں) ۔ الکہف۔ پہاڑ میں وسیع غار کو کہف کہتے ہیں۔ اس کی جمع کھوف ہے۔ الرقیم۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں : (1) بعض کے نزدیک اصحاب کہف کے کتے کو رقیم کہتے ہیں۔ جیسا کہ امیہ بن صلت کا قول ہے۔ (2) الرقیم۔ روم میں ایک قریہ کا نام ہے الضحاک۔ (3) یہ اس پہاڑی کا نام ہے جس میں الکہف ہے۔ (4) الرقہم بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے نوشتہ۔ تحریر۔ لکھی ہوئی عبارت۔ قرآن میں اور جگہ آیا ہے کتاب مرقوم (83:9، 20) ایک لکھی ہوئی کتاب۔ لہٰذا الرقیم وہ لوح جس پر اصحاب کہف کے نام۔ ان کا حسب ونسب ۔ ان کا قصہ اور ان کے خروج کے اسباب تحریر ہیں اور جو ان کے مدفن پر لگائی گئی ہے۔ بعض کے نزدیک اصحاب کہف اور اصحاب رقیم دو مختلف طائفہ ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ ایک ہی گروہ تھا۔ اور لفظ اصحاب کی اضافت دواشیاء کی طرف کی گئی ہے کیونکہ قرآن میں صرف اصحاب کہف کا ہی تذکرہ ہے اصحاب الرقیم کا الگ کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ عجبا۔ مصدر ہے بمعنی عجیب بطور صفت کے آیا ہے اور یہ عجیب ہے زیادہ بلیغ ہے اس کا موصوف محذوف ہے۔ ای ایۃ او شیئا عجبا۔ تعجب خیز آیت یا شئے۔ اصحاب الکہف والرقیم۔ اسم کانوا فعل ناقص۔ حسبت عجبا۔ کانوا کی خبر۔ من ایتنا حال ہے۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ تو کیا تو خیال کرتا ہے کہ اصحاب الکہف والرقیم ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب خیز شے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ہماری قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں کے سامنے ان لوگوں کا قصہ جو آگے آرہا ہے کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر حد سے زیادہ حیرت کا اظہار کیا جائے بلکہ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ قریش نے یہود کے مشورے سے آنحضرت سے بطور آزمئاش جن اموال کہے۔ روح کیا ہے ؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا ہے ؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا ہے ؟ اور انہوں نے اصحاب کہف کے قصے کو خاص اہمیت دی۔ ان کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ کہف عربی زبان میں وسیع غار کو کہتے ہیں اور رقم (تختی) سے مراد پتھر یا شیشے کا وہ کتبہ جس پر انہی اصحاب کہف کے نام لکھے تھے بعض قدیم مفسرین نے اس سے مراد وہ بستی لی ہے جہاں یہ قصہ پیش آیا تھا اور جو ایلہ (عقبہ) کے قریب یا نینوی (موصل) کے قریب یا رومیوں کی سر زمین میں واقع تھی اور اس کا نام اقس یا افسوس تھا۔ ان دنوں اردن کے دارالسلطنت عمان سے دس بارہ میل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جس کا نام ” الرقیب “ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک غار پایا جاتا ہے اس بستی کے رہنے والوں کا خیال ہے کہ اصحاب کہف کا قصد یہیں پیش آیا تھا اور اس بستی کا اصل نام الرقیم تھا جو بعد میں بگڑ کر الرقیب ہوگیا مگر یہ کوئی محقق بات نہیں ہے۔ اس زمانہ کے بعض مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غار ترکی کے شہر از میر (سمرنا) کے قریب واقع تھا۔ واللہ اعلم

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 9 تا 12 حسبت تو نے گمان کیا۔ اصحب ساتھی۔ الکھف لمبا چوڑا غار۔ الرقیم کوہ، غار کا دوسرا نام۔ اویٰ ٹھکانہ بنا یا۔ الفتیۃ (فتی) جوان، نوجوان، نوعمر۔ ھیء بتا دے۔ مہیا کردے۔ رشد صحیح راستہ۔ نجات کا راستہ ہے۔ ضربنا ہم نے مارا۔ پردہ ڈالدیا۔ اذان (اذن) کان۔ سنین (سنۃ) سال ، کئی برس۔ عدد گنتی۔ الحزبین (حزب) دو جماعتیں۔ دو گروہ۔ احصی زیادہ واقف۔ لبثوا وہ ٹھہرے، رکے رہے۔ امد مدت۔ تشریح : آیت نمبر 9 تا 12 بعض یہودیوں کے کہنے پر کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف کے واقعہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے پوچھا تھا اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکیں گے اور ہمیں ان کا مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کو بیان نہ کیا جاسکے بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ کی نشانیاں اس کائنات میں موجود ہیں جن پر اگر غور و فکر کیا جائے تو بہت سی حقیقتیں سامنے آتی چلی جائیں گی۔ اصحاب کہف کے واقعہ کو تفصیل سے بیان کرنے سیپ ہلے مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا کہ یہ چند ایسے نوجوان تھے جو حضرت عیسیٰ کے پیروکار تھے۔ انہیں بت پرستی سے سخت نفرت تھی۔ ان کے زمانہ میں رومی شہنشاہ دقیانوس نے لوگوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ لوگ اس کی اور اس کے بنائے ہوئے بتوں کی عبادت و بندگی کریں۔ یہ چند نوجوان جن کو بتوں کے سامنے سجدہ کرنے پر مجبور کیا یا تو انہوں نے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے ایک غار کو جو وادی رقیم میں واقع تھا اس میں پناہ لے لی تھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی الٰہی ! ہم پر اپنا رحم و کرم نازل فرما اور ان ظالموں کے ظلم سے نجات عطا فرما۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرما کر ان پر ایک ایسی نیند کو طاری کردیا جس سے وہ برسوں پڑے سوتے رہے۔ جب تین سو نو سال کے بعد وہ سو کر اٹھے تو اس وقت ملک روم کی سلطنت اور اس کا انداز بالکل بدل چکا تھا اور بت پرستوں کا صفایا ہوچکا تھا ۔ اس واقعہ کی تفصیلات اگلی آیات میں آرہی ہیں۔ یہاں بتایا جا رہا ہے کہ اصحاب کہف اللہ کی نشانیوں کی طرح ایک نشانی ہیں جس میں اللہ کی قدرت کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصحاب کون تھے ؟ کیا تھے ؟ کتنے تھے ؟ ان بحثوں میں الجھنے کے بجائے اصحاف کہف کے اس جذبہ کو پیش نظر رکھا جائے جس نے ان کو اپنے گھر بار اور اس کی راحتیں چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور وہ جذبہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور ایمان کی سلامتی تھا۔ اس جذبہ نے ان کو اللہ کی ایک ایسی نشانی بنا دیا تھا جو دوسروں کے لئے قیامت تک عبرت و نصیحت بن گئی۔ فرمایا کہ جب وہ نوجوان اس غار میں پہنچے تو اللہ نے ان کے کانوں پر تھپکی دی یعنی ان کو گہری نیند سلا دیا۔ پھر وہ اللہ کی نشانی بن کر اٹھے اور پھر سو گئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ غار والے اور پہاڑ والے دونوں ایک ہی جماعت کے لقب ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ دنیا کی بدولت رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا ہے۔ جس میں اہل کفر کو یہ بتلایا ہے کہ اس طرح کا سلوک اصحاب کہف کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بالآخر ان کی دعوت کو شہرت عام اور دوام بخشا۔ اصحاب کہف کے واقعہ میں سب سے بڑی تعجب خیز بات یہ ہے کہ چند نوجوان اپنی جان اور ایمان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ جو انسانی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ایک سو سال تک موت کی آغوش میں رکھا تھا۔ (أَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ أَنّٰی یُحْیِی ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاَءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِءَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ إِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً للنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )[ البقرۃ : ٢٥٩] ” یا اس شخص کی طرح جس کا گزر ایک بستی سے ہوا جو اپنی چھتوں کے بَل گری ہوئی تھی۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ اس کو فنا کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اللہ نے اس کی روح سو سال تک کے لیے قبض کرلی، پھر اس کو اٹھایا اور پوچھا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو۔ اس نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم سو برس ٹھہرے رہے ہو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو، وہ خراب نہیں ہوئیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھو ہم انھیں کس طرح جوڑتے اور ان پر گوشت چڑھاتے ہیں جب یہ بات اس کے مشاہدے میں آئی تو بول اٹھا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ اس لیے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں ؟ کہ اصحاب کہف اور الرقیم والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے عجب نشانی ہیں۔ جن کا واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چند نوجوان تھے جب توحید کا عقیدہ اپنانے اور اس کی تبلیغ کرنے پر ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ یہ دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہمیں کامیابی کے لیے اسباب عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ یہاں ان کے سونے کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکائے رکھا۔ شدید آندھیاں، موسلادھار بارشیں، پرندوں کی آوازیں اور درندوں کی دھاڑیں غرض کہ کوئی چیز ان کو بیدار نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ آپس میں معلوم کریں کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ہیں۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں اسی وجہ سے قرآن ان جزئیات اور تفصیلات کا ذکر نہیں کرتاجن کا تعلق براہ راست ہدایت کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے یہ نہیں بتلایا کہ وہ کون لوگ تھے اور کس علاقے کے رہنے والے تھے۔ البتہ یہ بات اس واقعہ میں کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ یہ عمر کے لحاظ سے جوان لوگ تھے اور عقیدہ توحید کی بنیاد پر ان کا لوگوں کے ساتھ شدید اختلاف ہوا۔ وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار اور سنگسار کرنے کی کوشش کی وہ اپنا ایمان اور جان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غار میں تین سو نو سال تک سلائے رکھا ایک کتا جو راستے میں ان کے ساتھ مانوس ہو اوہ ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ جب یہ نوجوان دعا کرتے ہوئے غار میں لیٹ گئے تو کتا غار کے دھانے پر بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو بھی تین سو نو سال تک اسی حالت میں وہاں بٹھائے رکھا کبھی کبھار اگر کوئی شخص اس غار کے قریب جاتا تو پہاڑوں کے درمیان عجیب قسم کی غار، اس میں لیٹے اور کروٹیں لیتے ہوئے انسان اور غار کے دہانے پر بیٹھے ہوئے کتے کو دیکھ کر ڈر کے مارے قریب جانے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ اتنی دیر کتا زندہ رہا یا مرنے کے باوجود اس حالت میں بیٹھا رہا۔ بہر حال دیکھنے والا یوں محسوس کر تاکہ اگر اس نے غار کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو کتا اس پر حملہ آور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال سلانے کے بعد اٹھایا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے ہیں ؟ ان جوانوں کو اصحاب کہف اور الرقیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔” الرَّقِیْمُ “ کے بارے میں اہل علم کے دو خیال ہیں۔ ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ” الرَّقِیْمُ “ اس بستی کا نام ہے جہاں کے یہ لوگ رہنے والے تھے دوسرے فریق کا کہنا ہے۔” الرَّقِیْمُ “ اس تختی کا نام ہے جو تین سو نو سال کے بعد ایک بادشاہ نے غار کے دھانے پر آویزاں کی تھی۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے تھے۔ ٢۔ اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے غار میں ان کے کانوں پر پردہ ڈال دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور ہدایت کا طلبگا ررہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ١۔ انہوں نے دعا کی اے اللہ ! ہمیں رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں آسانی فرما۔ (الکھف : ١٠) ٢۔ اے ہمارے پرو ردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں رحمت عطا فرما۔ (آل عمران : ٨) ٣۔ تیر ارب بےپرواہ اور رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٤۔ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٥۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٦۔ وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے۔ (العنکبوت : ٢١) ٧۔ فرما دیجیے اے میرے رب ! معاف فرما اور رحم فرماتو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١١٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ اس قصے کی تلخیص ہے اور اس کی روٹ لائن اس میں دی گئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک گروہ تھا۔ تعداد معلوم نہیں ہے۔ یہ اہل ایمان تھے۔ انہوں نے غار میں پناہ لی تھی۔ ان کے کانوں پر مہر لگا دی گئی تھی یعنی سو گئے تھے ، کئی سال تک سالوں کی تعداد معلوم نہیں اس طویل نیند سے وہ اٹھائے گئے۔ ان کی میعاد کہف کے بارے ان میں دو گروہ ہوگئے تھے تاکہ معلوم ہو کہ کس کا اندازہ زیادہ درست ہے اور یہ کہ یہ قصہ عجیب و غریب ہونے کے باوجود عجیب نہیں ہے۔ اس کائنات میں اس سے بھی زیادہ عجوبے ہیں اور اصحاف کہف اور اصحاب رقمی سے زیادہ عجیب تر۔ یہ پرکشش تلخیص دینے کے بعد اب اس قصے کی تفصیلات دی جا رہی ہیں۔ تفصیلات سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ ان کے بارے میں چونکہ تاریخی روایات میں بےحد اضطراب پایا جاتا ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ہم جو کچھ بتا رہے ہیں وہ فیصلہ کن امر ہے اور یہی حق الیقین ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب کہف اور اصحاب رقیم کون تھے یہاں سے اصحاب کہف کا قصہ شروع ہو رہا ہے کہف غار کو کہتے ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، چند نوجوان اپنے زمانہ کے بادشاہ اور دیگر کافرین سے اپنی جان اور دین و ایمان بچانے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے تھے اس لیے انہیں اصحاب کہف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کا واقعہ انشاء اللہ آئندہ آنے والے دو رکوع میں بیان کیا جائے گا لیکن چونکہ مذکورہ آیت میں (اَصْحَابُ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ ) فرمایا ہے اس لیے رقیم کا معنی بھی جاننا چاہیے اس کے بارے میں بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ یہ اصحاب کہف کے کتے کا نام ہے یہ حضرت انس صحابی (رض) اور حضرت شعبی تابعی (رض) سے منقول ہے اور حضرت سعید بن جبیر (رض) نے فرمایا کہ یہ ایک تختی تھی جو پتھروں سے تراشی ہوئی تھی اس میں اصحاب کہف کا قصہ لکھا ہوا تھا جو غار کے دروازہ پر رکھی ہوئی تھی اور حضرت ابن عباس (رض) کا دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایلہ اور فلسطین کے درمیان وادی کا نام ہے اور اسی وادی میں وہ غار تھا جس میں اصحاب کہف نے پناہ لی تھی، حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ جب ان سے رقیم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں پھر فرمایا کہ میں نے کعب سے پوچھا (جو یہودیوں کے عالم تھے انہوں نے حضرات صحابہ کرام (رض) کے زمانہ میں اسلام قبول کیا) کیا رقیم اس بستی کا نام ہے جس میں سے یہ حضرات نکلے تھے۔ صاحب روح المعانی (ص ٤٠٩ ج ١٥) فرماتے ہیں کہ ان سب اقوال کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوا کہ اصحاب الکہف والرقیم کا مصداق ایک ہی جماعت ہے پھر ایک قول نقل کیا ہے کہ اصحاب کہف اور اصحاب رقیم الگ الگ دو جماعتیں تھیں لیکن اس قول کی انہوں نے تائید نہیں کی اور اصحاب رقیم کے بارے میں احادیث صحیحہ ملتی بھی نہیں ہیں واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ اصحاب کہف کا زمانہ اصحاب کہف کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (صفحہ ١١٤ ج ٢) میں لکھا ہے کہ یہ لوگ دقیانوس بادشاہ کے زمانہ میں تھے اور بادشاہوں کی اولاد سے تھے ایک دن ایسا ہوا کہ عید کے موقع پر اپنی قوم کے ساتھ جمع ہونے کا اتفاق پڑگیا انہوں نے دیکھا کہ ان کی قوم بتوں کو سجدہ کر رہی ہے اور بتوں کی تعظیم میں مشغول ہے ان کا یہ حال دیکھ کر ان سے نفرت ہوگئی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے پردے اٹھا دئیے اور ان کے دلوں میں ہدایت ڈال دی۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ صحیح دین پر نہیں ہیں لہٰذا انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا دین بنالیا چونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں میں رہیں گے تو یہ ہمیں دین توحید پر نہیں رہنے دیں گے اس لیے انہوں نے غار میں پناہ لے لی، ان کے ساتھ ایک کتا بھی تھا وہ ان کے دروازہ پر بیٹھا رہتا تھا۔ اللہ جل شانہ نے پہلے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعجب دور فرمایا اور فرمایا کیا آپ نے یہ خیال کیا ہے کہ کہف اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب چیز تھے یہ کوئی عجیب چیز نہیں ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر دوسری عجائبات اور آیات موجود ہیں مثلاً آسمان و زمین کو پیدا فرمانا وغیرہ ذلک یہ چیزیں بالکل معدوم تھیں ان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیا اصحاب کہف کے قصہ میں اتنی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مدت دراز تک سلا دیا ان کے جسم نہیں گلے۔ مخالفین ان کے واقعہ کو تو تعجب کی چیز سمجھتے ہیں اور اسی لیے آپ سے سوال کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر جو تعجب کی چیزیں ہیں ان میں غور نہیں کرتے اللہ تعالیٰ شانہ نے (اَمْ حَسِبْتَ ) فرما کر آپ کو مخاطب فرمایا اور اسی کے ذیل میں دوسروں سے بھی خطاب ہوگیا اور ان کو بھی بتادیا کہ یہ قصہ گو عجیب ہے لیکن اس سے بڑھ کر جو عجیب چیزیں ہیں ان کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی عجیب نہیں ہے۔ اصحاب کہف کا غار میں داخل ہونا اس کے بعد اصحاب کہف کے واقعہ کا بیان شروع فرمایا ارشاد فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جبکہ نوجوانوں کی جماعت نے کہف میں ٹھکانہ پکڑا اور ٹھکانہ پکڑتے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یوں دعا کی (رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ) (اے رب ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما) (وَھَیِّءْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا) (اور ہمارے لیے ہمارے کام میں اچھی صورت حال مہیا کردیجیے) سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے ہوتا ہے اور وہ جس پر فضل فرمانا چاہے ہر جگہ فضل فرما سکتا ہے کوئی شخص جہاں بھی ہو، جس حال میں ہو، تنہا ہو، باجماعت ہو، آبادی میں ہو یا جنگل میں، پہاڑ میں ہو یا غار میں، اللہ تعالیٰ اسے دشمنوں سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے اس کے دین و ایمان کو بھی سالم رکھ سکتا ہے اور اس کے تمام حالات کو بھی درست فرما سکتا ہے، چونکہ اصحاب کہف اپنی قوم کو کفر و شرک میں مبتلا دیکھ کر فرار ہوئے تھے اور اس علاقہ میں غلبہ کافروں ہی کا تھا اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رحمت کی اور خیر و خوبی کی اور اچھی صورت حال کی دعا کی، اللہ تعالیٰ شانہ نے ان کی دعا قبول فرمائی کافروں سے محفوظ فرما دیا اور اسی غار میں انہیں سلا دیا جس میں انہوں نے پناہ لی تھی اور وہ اس میں اتنی مدت دراز تک سوئے اور سو کر اٹھنے کے بعد آپس میں یوں سوال کرنے لگے کہ بھئی اس غار میں آپ لوگ کتنے دن ٹھہرے ہیں ؟ اسی کو فرمایا (ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا) (پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم جان لیں کہ دونوں گروہ میں سے کونسا گروہ ان کے ٹھہرنے کی مدت کو ٹھیک طرح شمار کرنے والا ہے۔ ) بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ پہلے گروہ سے انہیں میں سے وہ جماعت مراد ہے جنہوں نے سوال کیا کہ کتنے دن رہے اور دوسرے گروہ سے ان کی وہ جماعت مراد ہے جنہوں نے جواب میں یوں کہا (رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ) (تمہارا رب ہی زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنے دن ٹھہرے۔ ) حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ ایک گروہ سے اصحاب کہف اور دوسرے گروہ سے بادشاہ مراد ہیں جو اس طویل مدت میں (جس میں یہ حضرات سوتے رہے) یکے بعد دیگرے بادشاہ بنے (ذکرہ صاحب الروح صفحہ ٢١٢ ج ١٥) اللہ جل شانہ نے اصحاب کہف پر جو نیند مسلط فرما دی تھی اسے (فَضَرَبْنَا عَلیٰٓ اٰذَانِھِمْ ) سے تعبیر فرمایا انسان سوتا تو ہے آنکھوں سے لیکن گہری نیند وہ ہوتی ہے جبکہ سونے والا آواز سن کر بھی بیدار نہ ہوسکے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : والمراد انمناھم انامۃ ثقیلۃ لا تنبھھم فیھا الاصوات بان یجعل الضراب علی الاذان کنایۃ عن الانامۃ الثقیلۃ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ پہلے شبہ کا جواب :۔ یہاں سے لے کر احصی لما لبثوا امدا تک پہلے شبہ کا اجمالی رد ہے۔ شبہہ یہ تھا کہ اصحاب کہف عرصہ دراز تک غار میں سوئے رہے اس دوران میں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہاں تک کہ اس عرصہ میں دھوپ بھی ان پر نہیں پڑی۔ سورج جب غار کے سامنے آتا تو رخ بدل لیتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متصرف فی الامور اور مختار تھے۔ اس بنا پر لوگوں نے ان کو کارساز اور غیب داں سمجھ کر پکارنا اور ان کے نام کی نذریں نیازیں دینا شروع کردیا۔ چناچہ وہ سات روٹیاں ان کے نام پر اور ایک ان کے کتے کے نام پر دیتے ہیں۔ ان آیتوں میں کئی طریقوں سے مذکورہ شبہہ کا جواب دیا گیا ہے۔ اول و دوم ” کانوا من ایتنا عجبا “۔” ام حسبت “ میں استفہام انکار کے لیے ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے اصحاب کہف کا واقعہ بہت ہی عجیب اس لیے کہ کافروں نے اس واقعہ کو آپ کی صداقت کا معیار قرار دیا ہے ایسا نہیں ہے بلکہ ہماری قدرت کی بہت سی نشانیاں اس سے کہیں زیادہ عجیب ہیں۔ قال الطبری تقریر لہ (علیہ السلام) علی حسبانہ ان اصحب الکہف کانوا عجبا بمعنی انکار ذلک علیہ ان لا یعظ ذلک بحسب ماعظم علیک السائلون من الکفرۃ فان سار ایات اللہ اعظم من قصتھم (بحر ج 6 ص 101) ۔ استفہام انکار سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں تو اصحاب کہف کے قصہ سے کہیں زیادہ عجیب اور عظیم الشان ہیں نادان لوگ اسی واقعہ کو دیکھ کر اصحاب کہف کو غیب داں اور کارساز سمجھ بیٹھے نیز اس سے معلوم ہوا کہ اصحاب کہف کا واقعہ قدرت خداوندی کی ایک نشانی تھی۔ ان کا غار میں سینکڑوں برس خیر و عافیت سے سوئے رہنا، دھوپ کا ان پر نہ پڑنا اور ھر عرصہ دراز کے بعد ان کا بیدار ہونا یہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت اور اس کے تصرف سے ہوا تھا اس میں اصحاب کہف کا کوئی دخل یا اختیار نہیں تھا۔ سوم :۔ ” اذ اوی الفتیۃ الخ “۔ جب اصحاب کہف اپنا دین و ایمان بچا کر شہر سے نکل بھاگے تو ایک غار میں ناہ گزین ہوئے۔ یہ ان کے عجز و بیچارگی کی واضح دلیل ہے اگر وہ متصرف و کارساز ہوتے تو انہیں بھاگ کر غار میں پناہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ چہارم :۔ ” فقالوا ربنا اتنا الخ “ جب وہ غار میں پناہ گزین ہوچکے تو اللہ سے بصد عجز و نیاز دعا کی ” ربنا اتنا من لدنک رحمۃ “ رحمۃ میں میں تنوین تعظم کے لیے ہے۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنی طرف سے اپنی خاص رحمت سے نوا۔ رحمت سے مراد عام ہے۔ یعنی معرفت حق، توحید پر ثبات، استقلال، رزق اور دشمنوں سے حفاظت وغیرہ۔ وھی الھدایۃ بالمعرفۃ والصبر والرزق والامن من الاعداء (کبیر ج 5 ص 681) ۔ ” وھیئ لنا من امرنا رشدا “ اور ہمارے اس معاملہ ہجرت میں ہماری صحیح راہنمائی فرما۔ اصحاب کہب تو خود اللہ تعالیٰ کو عالم الغیب متصرف و کارساز اور خزائن رحمت کا مالک سمجھ کر اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں اور اس کے سامنے اپنی بےکسی اور بےبسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھلا وہ کس طرح الہ (معبود) بننے کے لائق ہوسکتے ہیں۔ پنجم :۔ ” فضربنا علی اذانھم الخ “ جب وہ غار میں داخل ہوئے اور سستانے کی غرض سے لیت گئے تو ہم نے ان پر نیند طاری کردی اور ان کو سینکڑوں برس اسی حالت میں پڑا رہنے دیا۔ اصحاب کہف کو اس بات کا خیال تک نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایسا عجیب و غریب واقعہ پیش آنے والا ہے اور انہیں تین سو سال تک حالت خواب میں رہنا ہوگا اس سے بھی ان کے متصرف و کارساز ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ ششم :۔ ” ثم بعثنھم الخ “ عرصہ دراز کے بعد ہم نے ان کو بیدار کیا۔ انہیں بیدار ہونے کا اختیار نہیں تھا۔ ہفتم :۔ ” لنعلم ای الحزبین الخ “ اللہ تعالیٰ کا علم چونکہ محیط کل ہے اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں اس لیے علم سے یہاں اظہار مراد ہے تسمیۃ للسبب باسم المسبب۔ ” الحزبین “ سے اصحاب کہف کی دو جماعتیں مراد ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے کہا تھا کہ ہم تو ایک دن سے بھی کم سوئے ہیں دوم وہ جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ ہی جانتا ہے ہم کتنا عرصہ سوئے ہیں۔ وھم القائلون لبثنا یوما او بعض یوم۔ والقائلون (ربکم اعلم بما لبثتم) (روح ج 5 ص 213) ۔ ہم نے کئی سو سال بعد ان کو بیدار کیا۔ تاکہ ہم ظاہر کریں کہ ان میں سے کس کو ٹھہرنے کی صحیح مدت یاد رہی۔ اصحاب کہف تو خود اپنے حال سے بیخبر تھے اور انہیں حالت خواب کی صحیح مدت بھی یاد نہ رہی تو وہ غیب داں کیونکر ہوسکتے ہیں۔ 12:۔ ” اصحب الکہف والرقیم “ کہف پہاڑ میں اس غار یا کھوہ کہ کہتے ہیں جو فراخ ہو۔ الکہف النقب المتسع فی الجبل (قرطبی ج 1 ص 356) ۔ ” الرقیم “ میں مفسرین کے اقول بہت مختلف ہیں۔ دو قول زیادہ مشہور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ الرقیم سے مراد وہ پتھر کی تختی ہے جو ان کے غار پر نصب کردی گئی تھی جس پر ان کے نام کندہ تھے۔ قیل نسبو الی حجر رقم فیہ اسماءھم (مفردات راغب ص 301) ۔ قال الفراء الرقیم لوح کان فیہ اسماءھم وصفاتھم (کبیر ج 5 ص 280) اس صورت میں الرقیم بمعنی المرقوم فیہ ہوگا۔ بعض کہتے ہیں الرقیم اصحاب کہف کے گاؤں کا نام تھا۔ زعم کعب انھا قریۃ خرجوا منھا (قرطبی ) ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک مشرک بادشاہ دقیانوس نامی تھا جو خود بھی بت پرست تھا اور رعیت کو بھی بت پرستی پر مجبور کرتا تھا۔ اصحاب کہف کا واقعہ اسی دور میں پیش آیا۔ چند نوجوان جو خوشحال اور میر گھروں کے چشم و چراغ تھے۔ انھم اولاد عظماء تلک المدینہ (قرطبی ص 365) ۔ بلکہ دقیانوسکے درباریوں اور خواص امراء کی اولاد تھے۔ وکانوا من خواص دقیانوس (مدارک ج 3 ص 4) ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نور بصیرت عطا فرمایا وہ شرک سے بیزار ہوگئے اور صرف خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے۔ اگرچہ انہوں نے اخفاء حال سے کام لیا مگر پھر بھی کسی نہ کسی طرح کچھ لوگوں کو ان کا حال معلوم ہوگیا۔ اور انہوں نے بادشاہ سے ان کی شکایت کردی۔ بادشاہ نے ان موحد نوجوانوں کو دربار میں طلب کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اس کے دین کا اتباع کریں۔ اس کے معبودوں کی عبادت کریں، اور ان کے ناموں کی نذریں نیازیں دیا کریں۔ اور ساتھ ہی انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اس کے دین سے سرتابی کی تو انہیں قتل کردیا جائیگا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان نوجوانوں کو دولت استقامت سے مالا مال فرمادیا۔ اور وہ سر دربار بول اٹھے ” ربنا رب السموت والرض الایۃ “ ہمارا رب اور معبود تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ومالک ہے۔ ہم تو اس کے سوا کسی اور کو ہرگز نہیں پکاریں گے یہ سن کر بادشاہ نے ان نوجوانوں کو مہلت دی اور کہا ابھی تم عقل کے خام ہو۔ اس لیے اپنے معاملہ میں غور وفکر کرلو۔ نوجوانوں نے اس مہلت کو گنیمت سمجھا اور اپنا دین و ایماب چانے کیلئے شہر سے نکل کر کہیں چل دئیے۔ راستے میں انہیں ایک چرواہا ملا جو ان کی طرح موحد تھھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ چرواہے کا کتا بھی ان کے پیچھے چل دیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے جب وہ سستانے کیلئے لیٹے تو اللہ تعالیٰ نے عرصہ دراز کے لیے ان پر نیند کو مسلط فرما دیا۔ کئی سو سال کے بعد وہ بیدار ہوئے تو ایساتھی کو کھانا لانے کیلئے بازار بھیجا۔ جب دکاندار کو رقم ادا کی تو وہ پرانے سکے دیکھ کر حیران ہوا اور خود اس آدمی کی شکل و صورت بھی ایسی اجنبی سی معلوم ہوئی۔ چناچہ بادشاہ وقت بیدروس کے سامنے پیش کردیا گیا جو مومن اور موحد تھا۔ جب اس نوجوان کے بتانے سے بادشاہ کو معلوم ہوا کہ یہ انہیں نوجوانوں میں سے ہے جو دقیانوس کے زمانے میں روپوش ہوگئے تھے تو وہ بہت خوش ہوا اور بہت سے شہریوں کو ساتھ لے کر اس نوجوان کے ہمراہ غار پر پہنچا اور باقی نوجوانوں سے ملاقات کی جب نوجوانوں کو معلوم ہوا کہ بادشاہ اور بہت سی رعایا توحید قبول کرچکے ہیں تو بہت مسرور ہوئے۔ اس کے بعد اصحاب کہف اسی غار میں خلوت گزیں ہوگئے اور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔ من القرطبی وغیرہ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 آگے اصحاب کہف کے قصہ کی تمہید ہے یہود کے مشورے سے کافر عرب نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیت ین سوال کئے تیھ ایک روح کی حققیت دوسرے اصحاب کہف کا حال تیسرے ذوالقرنین چناچہ روح کا جواب گزر چکا۔ ذوالقرنین کا حال سورت کے آخر میں آئے گا اور اصحاب کہف کا بیان یہاں ہوتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے اے پیغمبر کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور کھو والے ہماری قدرت کے نشانات میں سے کچھ تعجب اور اچنبھے کی چیز تھے۔ شاید یہود نے کہا تھا کہ اصحاب کہف کا حال عجیب و غریب ہے اس لئے فرمایا ہو کہ اصحاب کہف کے واقعہ سے زیادہ تو تم روزمرہ اس کے نشانات دیکھتے ہو ان کے مقابلے میں تو کہف والوں کا حال کچھ زیادہ تعجب انگیز نہیں ہے۔ آسمان و زمین میں جو قدرت کارفرما ہے اور قوموں کے عروج وزوال اور حق و باطل کے نشیب و فراز جو تمہاری نگاہوں سے گزرتے رہتے ہیں وہ بہت عجیب و غرب ہیں۔ اصحاب کہف اور اصحاب الرقیم اکثر مفسرین کے نزدیک ایک ہی ہیں ابن کثیر نے کہا رقیم یا توایلہ کے پاس کی دادی کا نام ہے یا اس عمارت کا نام ہے جو اس جگہ تعمیر کی گئی تھی یا پہاڑ کا نام ہے یا کسی اور آبادی کا نام۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ رقیم کو میں نہیں جانتا کہ رقیم کتاب کا نام ہے یا اس بنا کا جو وہاں تعمیر کی گئی۔ بعض نے کہا رقیم بمعنی مرقوم ہے چونکہ ایک تختی پر ان لوگوں کے حالات لکھ کر شاہی خزانے میں رکھ دیئے تھے اس لئے ان کو اصحاب رقیم کہتے ہیں۔ بعض نے اصحاب رقیم ان تین شخصوں کو کہا جن کے غار میں چھپنے اور غار کے منہ پر پتھر گر جانے کا واقعہ بخاری میں آتا ہے۔ (واللہ اعلم) رومی بادشاہوں میں سے کوئی بادشاہ بت پرست ہوگیا تھا ہوسکتا ہے کہ اس کا نام دقیانوس ہو، بہرحال وہ لوگوں کو زبردستی بتوں کی پرستش پر مجبور کرتا تھا۔ یہ چند نوجوان جو اعیان سلطنت میں سے تھے اپنے ایمان کو بچانے اور دقیانوس کے ظلم سے بچنے کے لئے پہاڑ کے کسی غار اور کھوہ میں جا چھپے تھے جن کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی ان کا کتا بھی ان کے ساتھ تھا جس کا نام ابن کثیر نے حمران بتایا ہے۔