Surat Marium

Surah: 19

Verse: 36

سورة مريم

وَ اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیۡ وَ رَبُّکُمۡ فَاعۡبُدُوۡہُ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿۳۶﴾

[Jesus said], "And indeed, Allah is my Lord and your Lord, so worship Him. That is a straight path."

میرا اور تم سب کا پروردگار صرف اللہ تعالٰی ہی ہے ۔ تم سب اسی کی عبادت کرو ، یہی سیدھی راہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, Allah is my Lord and your Lord. So worship Him. That is the straight path. Among those things which `Isa said to his people while he was in his cradle is that Allah was his Lord and their Lord, and he commanded them to worship Him alone. He said, فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ (So worship Him. That is the straight path). Meaning, "That which I have come to you with from Allah is the straight path." This means that the path is correct; whoever follows it will be rightly guided and whoever opposes it will deviate and go astray. Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ ۔۔ : یہ گود میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کا آخری حصہ اور خلاصہ ہے۔ اس کا عطف ” قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ “ پر ہے، یعنی انھوں نے کہا کہ بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس کے بعد اللہ کی عطا کردہ نعمتیں بیان کیں، درمیان میں ” ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ “ سے ” كُنْ فَيَكُوْن “ تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جملہ معترضہ ہے، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس بات ”ۭوَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ ۔۔ “ پر ان کا کلام مکمل ہوتا ہے۔ یعنی عبادت اسی کا حق ہے جو ہمارا رب ہے، میری اور تمہاری پرورش کرنے والا ہے، سو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ اللہَ رَبِّيْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْہ ُ۝ ٠ۭ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۝ ٣٦ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سہدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) غرض کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو رسالت کی دعوت دینے کے لیے آئے تو فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ میرا بھی رب اور خالق و رازق ہے اور تمہارا بھی رب اور خالق و رازق ہے تو خاص اسی کی توحید کے قائل ہوجاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23. This declaration by Prophet Jesus (peace be upon him) has been cited to tell the Christians that Prophet Jesus (peace be upon him) also taught the same doctrine of Tauhid as was taught by all other Prophets. And it was they who had invented the doctrine of shirk by making him the son of God. (Please also refer to (Aal-Imran E.N. 68, and (Al- Maidah E.Ns 100, 101 and 130).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :23 یہاں عیسائیوں کو بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی دعوت بھی وہی تھی جو تمام دوسرے انبیاء علیہم السلام لے کر آئے تھے ۔ انہوں نے اس کے سوا کچھ نہیں سکھایا تھا کہ صرف خداے واحد کی بندگی کی جائے ۔ اب یہ جو تم نے ان کو بندے کے بجائے خدا بنا لیا ہے اور انہیں عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہو ، یہ تمہاری اپنی ایجاد ہے ۔ تمہارے پیشوا کی یہ تعلیم ہرگز نہیں تھی ۔ ( مزید تفصیل کے لیئے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد اور عمران ، حاشیہ 68 ، مائدہ ، حاشیہ 100 ۔ 101 ۔ 130 ۔ جلد چہارم الزخرف حواشی 57 ۔ 58 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦:۔ شروع تقریر میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں رسول ہوں اسی سلسلہ میں اب یہ فرمایا کہ اے لوگو ! جب میں اور تم سب للہ کے بندے ہیں اور وہ ہم سب کا معبود اور رب ہے تو خالص اسی کی عبادت کرنا اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا ایک یہی سیدھا راستہ ہے مطلب یہ ہے کہ سوائے اس ایک راستہ کے اور سب راستے ٹیڑھے ہیں اس لیے کہ خالص اللہ کی عبادت کو چھوڑ کر جو کوئی دوسرا راستہ چلا وہ دوزخ میں جانے کا شرکیہ راستہ ہے۔ مسند امام احمد نسائی مستدرک حاکم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے ١ ؎ اور ترمذی وغیرہ میں عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) سے معتبر روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز بہت سی لکیریں زمین پر کھینچ کر یہ فرمایا کہ ان میں سوائے ایک راستہ کے اور سب راستے دوزخ کے ہیں اور وہ ایک راستہ دوزخ سے بچا ہوا وہی ہے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں ٢ ؎۔ ان روایتوں سے اور انجیل یوحنا کے باب سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس نصیحت کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو کوئی خالص اللہ کی عبادت کا راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ چلا وہ دوزخ میں جانے کا شرک کا راستہ ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣ باب الاعتصام بالکتاب والسنہ فصل دوسری ) (٢ ؎ ایضا )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یعنی خالص خدا کی عبادت کرنا یا توحید اختیار کرنا دین کا سیدھا رستہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا ہے اور نہ ہی کسی نے اس سے جنم لیا ہے۔ وہ تو پوری مخلوق کا خالق ومالک اور بادشاہ ہے۔ اس بنا پر اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو۔ حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت اور حقیقت بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور قدرت کے بارے میں بتلایا ہے کہ اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اس کا صرف حکم چلتا ہے۔ اس کی ذات کسی حوالے سے بھی کسی کی محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ ” اللہ “ ہی میرا اور تمہارا رب ہے۔ صرف اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم ہے۔ یاد رہے ” رَبّ “ کا معنٰی ہے، ہر چیز کو پیدا کرنے والا، ہر ذی روح کو روزی پہنچانے والا، اور زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک، بادشادہ اور ہر چیز پر ہر اعتبار سے مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ایک ہی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا اور میرا رب ہے۔ یاد رہے کہ وہ میرا اور تمہارا باپ نہیں کہتے تھے جس طرح انجیل میں ان کی طرف بار بار اللہ تعالیٰ کے بارے میں باپ کے الفاظ منسوب کیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ میرا اور تمہارے رب کے مقدس اور واضح الفاظ استعمال فرماتے تاکہ لوگوں کو عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرنا صراط مستقیم ہے۔ پرانے عہد نامہ کی کتاب استثناء میں مرقوم ہے قوم اسرائیل کا مشہور کلمہ شمع (Shama) (عربی : اسمع) اپنے مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے کلمۂ شہادت اور قرآن مجید کی سورة اخلاص کی پہلی آیت سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ خصوصًا اپنے عربی و عبرانی متن میں اس کے الفاظ مبارک اس آیت کی باز گشت ہیں ملاحظہ فرمائیے : عربی : اِسْمَعْ یَااِسْرَاءِیْلُ اِن الرَّبَ اِلٰہُنَا رَبَّ وَاحِدٍ عبرانی :Shama Yisrael Adonoielohem.Adonoiehod شمع یاسرائیل ادونائی الوھیم ادونائی احاد [ بائبل عبرانی واردو، کتاب استثناء ٦: ٤۔ الکتاب المقدس عربی ٠ اط۔ بیروت ١٨٩٩ ء) پرانے اور نئے عہد نامہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے باب ہفتم۔] ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا ایک ہی خدا ہے۔ “ کتاب استثناء میں دوسری جگہ ہے : ” خدا وند ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ “ [ استثناء : ٤، ٣٥] پرانے عہد نامہ میں ہے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں : ” تو ہی واحد خدا ہے۔ “ [ زبور : ٨٦: ١٠] عہد نامہ قدیم میں ایک اور جگہ لکھا ہے : ” خدا وند فرماتا ہے میں ہی خدا ہوں مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہے اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔۔ “ [ یسعیاہ : ٤٣: ١٠، ١٢] یعنی اوّل وآخر اس کی ذات ہے۔ نیز فرمایا :” میں خدا وند سب کا خالق ہوں، میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں، کون میرا شریک ہے۔ “ [ یسعیاہ : ٤٤: ٢٤] برناباس۔ باب ١١ میں ہے : تو اس خدا کی عبادت کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور وہی تجھے صحت عطا کرے گا کیونکہ میں ویسا ہی ایک انسان ہوں جیسا تو ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بےبس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم : ١۔ کیا صراط مستقیم پر چلنے والا اور نہ چلنے والا برابر ہوسکتے ہیں ؟ (النحل : ٧٦) ٢۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس نے صراط مستقیم کی رہنمائی پالی۔ (آل عمران : ١٠١) ٣۔ صراط مستقیم یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ (آل عمران : ٥١) ٤۔ اللہ واحد کی عبادت کرنے والا ہی صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صراط مستقیم (٩١ : ٦٣) ” اللہ میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ‘ بس تم اسی کی بندگی کرو ‘ یہی سیدھی راہ ہے “۔ لہٰذا عیسیٰ کی شہادت اور ان کے قصے کی اس شہادت کے بعد اب اوہام اور اساطیر اور قصے ‘ کہانیوں کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تبصرہ مشیت اور قرار داد کی صورت میں کیا گیا ہے۔ اس تقریر اور قرار داد کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مختلف پارٹیوں کے اختلافات پر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ اس حقیقت کے آنے کے بعد اب ان اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فاختلف الاحزاب من بینھم (٩١ : ٧٣) ” مگر پھر مختلف گروہ باہم اختلاف کرنے لگے “۔ قیصر روم آفنطین نے پادریوں کیا یک مجلس منعقد کی تھی جس میں دو ہزار ایک سو ستر (٠٧١٢) پادری شریک ہوئے تھے ۔ یہ مجلس ان کی تین مجالس میں سے ایک تھی۔ اس میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ان کے درمیان شدید اختلاف ہوگیا۔ ہر فرقے نے اپنا موقف بیان کیا۔ بعض نے کہا کہ وہ خدا ہے جو زمین پر اترا ‘ جس کو چاہا زندہ کیا ‘ جس کو چاہا مارا اور پھر وہ آسمانوں پر چلا گیا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہے ‘ بعض نے کہا کہ وہ اقاینم خلاثہ میں سے ایک ہیں ‘ باپ بیٹا اور روح القدس ۔ بعض نے کہا کہ وہ تینوں میں سے ایک ہیں ‘ یعنی اللہ بھی الہٰ ہے وہ بھی الہٰ ہیں اور والدہ بھی الہٰ ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ اللہ کیب ندے ‘ اس کی روح اور اس کا کلمہ ہیں۔ ان بڑے اقوال کے علاوہ اور فرقوں نے بھی کئی اقوال پیش کئے۔ کسی عقیدے پر تین صداسی افراد سے زیادہ کا انفاق نہ ہوا ۔ یہ تعداد ایک قول پر جمع ہوگئی۔ قیصر روم اس کی طرف مائل ہوگیا اور اس قول کے ماننے والوں کی امداد کی اور دوسروں کو ختم کردیا ‘ خصوصاً اہل توحید کو نیست ونابود کردیا۔ حضرت عیسیٰ کے بارے میں غلط عقائد کا تعین چونکہ مذہبی پیشوائوں کی مجالس نے کیا تھا ‘ اس لیے یہاں سیاق کلام ان لوگوں کو ڈراتا ہے جنہوں نے توحید کے علاوہ دوسرے عقائد اختیار کئے۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے ‘ اس دن سے ‘ جس میں ان مجالس کے مقابلے میں زیادہ لوگ جمع ہوں گے اور یہ لوگ دیکھیں گے کہ کافروں کا انجام کس قدر عبرت ناک ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اعلان کہ میرا اور تمہارا رب اللہ ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے واضح طور پر اعلان فرما دیا تھا (وَاِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ) (اور بلاشبہ میرا رب اور تمہارا رب اللہ ہے سو تم اسی کی عبادت کرو یہ سیدھا راستہ ہے) یہ مضمون سورة آل عمران سورة مریم اور سورة زخرف میں بیان فرمایا ہے۔ ان تمام تصریحات کے باوجود لوگوں نے مختلف جماعتیں بنا لیں جس کے معتقد ہوئے (یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس کی بات کو تو پس پشت ڈالا اور خود سے اپنا دین تجویز کرلیا پھر کسی نے کہہ دیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات خود اللہ کی ذات ہے اور کسی نے انھیں تیسرا معبود بنا دیا۔ اسی طرح سے خود سے گمراہی میں چلے گئے جب کوئی شخص حق کو پس پشت ڈالے گا تو گمراہی کے سوا اسے کیا ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ یہ بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مقولہ ہے اور ” اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰه “ پر معطوف ہے۔ یعنی میں تو اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ ہی میرا اور تم سب کا رب اور کارساز ہے۔ اس لیے صرف اسی ہی کو پکارو اور صرف اسی کے نام کی نذریں اور منتیں دو ۔ ” ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ“ سے ما قبل کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی صرف اللہ کی عبادت اور پکار کا مسئلہ ہی صراط مستقیم اور سیدھی راہ ہے۔ ھذا ما ذکر من التوحید (روح ج 16 ص 92) ۔ (ھذا) الذی ذکرت (صراط مستقیم) فاعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا (مدارک ج 3 ص 27) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود اعلان کر رہے ہیں کہ صرف اللہ ہی کو پکارو اس لیے وہ خود پکارے جانے کے لائق نہیں ہوسکتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36 اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی پروردگار ہے لہٰذا اسی کی بندگی اور عبادت کیا کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ یعنی توحید اور دین کا سیدھا راستہ ہے۔ یہ رسول کو فرمایا کہ منکرین حق سے یہ بات کہو عبادت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اسی کی بندگی کرو اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کرو۔