Surat Marium

Surah: 19

Verse: 73

سورة مريم

وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا ۙ اَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ خَیۡرٌ مَّقَامًا وَّ اَحۡسَنُ نَدِیًّا ﴿۷۳﴾

And when Our verses are recited to them as clear evidences, those who disbelieve say to those who believe, "Which of [our] two parties is best in position and best in association?"

جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں بتاؤ ہم تم دونوں جماعتوں میں سے کس کا مرتبہ زیادہ ہے؟ اور کس کی مجلس شاندار ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Disbelievers boast over Their good Fortune in the World Allah says, وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ امَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ ... And when Our clear Ayat are recited to them, those who disbelieve say to those who believe: "Which of the two groups has the, Allah, the Exalted, informs that when the clear, evident Ayat of Allah are recited to the disbelievers, they reject them and turn away. They say about those who believe, while boasting to them and arguing that their false religion is correct, ... خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا best dwellings and the finest Nadiyyan. This means the best houses, with the loftiest levels and the finest Nadiyyan, which are meeting rooms for men to gather and discuss matters. Thus, this means that their meeting rooms are full of more people who come to attend. In this they were saying, "How can we be upon falsehood while we are in this manner of successful living!" These people were actually those who were concealed in the house of Al-Arqam bin Abi Al-Arqam and its likes from the other houses. This is as Allah says about them, وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَوْ كَانَ خَيْراً مَّا سَبَقُونَأ إِلَيْهِ And those who disbelieve say of those who believe: "Had it been a good thing, they (the weak and the poor) would not have preceded us thereto!" (46:11) Nuh's people said, أَنُوْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الاٌّرْذَلُونَ "Shall we believe in you, when the weakest (of the people) follow you!" (26:111) And Allah says, وَكَذلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُولواْ أَهَـوُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَأ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّـكِرِينَ Thus We have tried some of them with others, that they might say: "Is it these (poor believers) whom Allah has favored among us!" Does not Allah know best those who are grateful! (6:53)

کثرت مال فریب زندگی ۔ اللہ کی صاف صریح آیتوں سے پروردگار کے دلیل وبرہان والے کلام سے کفار کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا وہ ان سے منہ موڑ لیتے ہیں دیدے پھیر لیتے ہیں اور اپنی ظاہری شان وشوکت سے انہیں مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ کہتے ہیں بتاؤ کس کے مکانات پر تکلف ہیں اور کس کی بیٹھکیں سجی ہوئی اور بارونق ہیں ؟ پس ہم جو کہ مال ودولت ، شان وشوکت ، عزت وآبرو میں ان سے بڑھے ہوئے ہیں ہم اللہ کے پیارے ہیں یا یہ جو کہ چھپے پھرتے ہیں ؟ کھانے پینے کو نہیں پاتے ، کہیں ارقم بن ابو ارقم کے گھر چھپتے ہیں ، کہیں اور ، ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے کافروں نے کہا ( لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ۭ وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ ھٰذَآ اِفْكٌ قَدِيْمٌ 11 ؀ ) 46- الأحقاف:11 ) اگر یہ دین بہتر ہوتا تو اسے پہلے ہم مانتے یا یہ ؟ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ( انومن لک واتبعک الا رزلون ) تیرے ماننے والے تو سب غریب محتاج لوگ ہیں ہم تیرے تابعدار بن نہیں سکتے ۔ اور آیت میں ہے کہ اسی طرح انہیں دھوکہ لگ رہا ہے اور کہہ اٹھتے ہیں کہ کیا یہی وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر فضیلت دی ہے ؟ پھر ان کے اس مغالطے کا جواب دیا کہ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے لیکن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انہیں تہس نہس کر دیا ۔ ان کی مجلسیں ، ان کے مکانات ان کی قوتیں ، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں ۔ شان وشوکت میں ، ٹیپ ٹاپ میں ، تکلفات میں ، امارت میں اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے ۔ ان کے تکبر اور عناد کی وجہ سے ہم نے ان کا بھس اڑا دیا ۔ غارت اور برباد کر دیا ۔ فرعونیوں کو دیکھ لو انکے باغات انکی نہریں انکی کھیتاں انکے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دیے گئے مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ۔ مقام سے مراد مسکین اور نعمیتں ہیں ، ندی سے مراد مجلسیں اور بیٹھکیں ہیں ۔ عرب میں بیٹھکوں اور لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں کو نادی اور ندی کہتے ہیں جیسے آیت ( فِيْ نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ ۭ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 29؀ ) 29- العنكبوت:29 ) میں ہے یہی ان مشرکین کا قول تھا کہ ہم بہ اعتبار دنیا تم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں لباس میں مال میں متاع میں صورت شکل میں ہم تم سے افضل ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

73۔ 1 یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب (رض) جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابو جہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ ۔۔ : ” مَّقَامًا “ جائے قیام، یعنی رہنے کی جگہ، گھر وغیرہ۔ ” نَدِيًّا “ ” نَدَوْتُ الْقَوْمَ أَنْدُوْھُمْ “ (میں نے قوم کو جمع کیا) سے ہے۔ ” اَلنَّادِیْ “ ” اَلنَّدِیُّ “ اور ” اَلْمُنْتَدَی “ کا معنی لوگوں کی مجلس، اکٹھے ہونے کی جگہ۔ کفار جب اللہ تعالیٰ کی واضح آیات سنتے اور ان کا حق ہونا اس قدر واضح ہوتا کہ وہ کسی صورت نہ ان کا جواب دے پاتے اور نہ غلط کہہ سکتے، تو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو حق پر ثابت کرنے کے لیے دنیوی لحاظ سے کمزور ایمان والوں سے کہتے کہ اپنی حالت اور ہماری حالت دیکھو ! کس کے رہنے کے مکانات بہتر اور کس کی مجلس زیادہ شان و شوکت والی اور سجی ہوئی ہے ؟ گویا انھوں نے دنیوی سازو سامان اور شان و شوکت کو اپنے حق پر ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ان پر راضی ہونے کی دلیل قرار دیا۔ قرآن مجید میں تمام انبیاء کے زمانے کے کفار کی یہی سوچ بیان ہوئی ہے۔ دیکھیے سورة احقاف (١١) ، انعام (٥٣) ، سبا (٣٥) ، مومنون (٥٥، ٥٦) ، مریم (٧٧) ، کہف (٣٥، ٣٦) اور حم السجدہ (٥٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary خَيْرٌ‌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا |"Superior in respect of its place and better in respect of its assembly|" - 19:73. The infidels never relaxed their efforts to confuse and perplex the believers. They were very rich and possessed material wealth in great abundance. They had their retinues, their followers, friends and supporters. In contrast, the believers were poor and lacking in worldly assets. However, it is a common experience that material wealth turns people&s heads and makes them unduly proud and arrogant, so that even the sensible and wise among them are led to believe that their prosperity and affluence is the reward of their personal merit and effort, and will last forever. History is replete with instances where prosperous communities and rich nations crumbled to dust and vanished without leaving a trace. But these instances of Divine wrath hold no lesson for them and fail to turn them from their erroneous ways. On the other hand there are good people who, following the teachings of Qur&an, do not regard wealth and worldly honors as the result of their own effort and merit, but as Allah Ta` ala&s bounty to be held as a trust from Him and to be expended according to His command. They are well aware that these gifts from Allah Ta` ala will not last forever, and the prospect of their abatement or even their total loss does not cause them any concern. These are the people who are safe from the mischief resulting from wealth and material abundance to which the infidels are exposed. Prophets like Sayyidna Sulayman and Dawud (علیہما السلام) ، many a followers of The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and multitude among the pious believers fall in this category. Allah Ta` ala has dispelled the mistaken notions of the infidels by saying that the transient material prosperity cannot be regarded as a token of His goodwill nor as a symbol of their own merit, because it often happens that foolish and undeserving people are loaded with wealth while wise and learned persons spend their lives in poverty.

خلاصہ تفسیر اور جب ان منکر لوگوں کے سامنے ہماری (وہ) کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں (جن میں مومنین کا حق پر ہونا اور کفار کا باطل پر ہونا مذکور ہوتا ہے) تو یہ کافر لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ (یہ بتلاؤ ہم) دونوں فریقوں میں (یعنی ہم میں اور تم میں دنیا میں) مکان کس کا زیادہ اچھا ہے اور محفل کس کی اچھی ہے (یعنی ظاہر ہے کہ خانگی اور مجلسی ساز و سامان اور اہل و اعوان میں ہم بڑھے ہوئے ہیں۔ یہ مقدمہ تو محسوس ہے اور دوسرا مقدمہ عرفی ہے کہ انعام و احسان اور عطاء نعمت اس شخص کے لئے ہوتا ہے جو دینے والے کے نزدیک محبوب اور پسند ہو، ان دونوں مقدموں سے ثابت ہوا کہ ہم اللہ کے محبوب و مقبول ہیں اور تم مغضوب و مخذول۔ آگے اللہ تعالیٰ ایک جواب الزامی اور ایک تحقیقی دیتے ہیں۔ پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ لوگ ایسی بات کہتے ہیں) اور (یہ نہیں دیکھتے کہ) ہم نے ان سے پہلے بہت سے ایسے ایسے گروہ (ہیبت ناک سزاؤں سے کہ بالیقین عذاب تھے) ہلاک کئے ہیں جو سامان اور نمود میں ان سے بھی (کہیں زیادہ) اچھے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ مقدمہ ثانیہ غلط ہے بلکہ کسی حکمت اور مصلحت سے نعمت دنیویہ مبغوض و مردود کو بھی دی جاسکتی ہے، آگے دوسرا جواب ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیجئے کہ جو لوگ گمراہی میں ہیں (یعنی تم) اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دیتا چلا جا رہا ہے (یعنی اس نعمت دنیوی میں یہ حکمت ہے کہ مہلت دے کر اتمام حجت کر دے جیسا دوسری آیت میں ہے اَوَ لَم نُعَمِّرکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فیہِ مَن تَذَ کَّرَ ، الخ اور یہ مہلت چند روزہ ہے) یہاں تک کہ جس چیز کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے جب اس کو دیکھ لیں گے خواہ عذاب کو (دنیا میں) خواہ قیامت کو (دوسرے عالم میں) سو (اس وقت) ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ برا مکان کس کا ہے اور کمزور مددگار کس کے ہیں (یعنی دنیا میں جو اپنے اہل مجلس کو اپنا مددگار سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں وہاں معلوم ہوگا کہ ان میں کتنا زور ہے کیونکہ وہاں تو کسی کا کوئی زور ہوگا ہی نہیں۔ اسی کو اضعف فرمایا تھا اور (مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ) اللہ تعالیٰ ہدایت والوں کو (دنیا میں تو) ہدایت بڑھاتا ہے (یعنی اصل سرمایہ یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ مال و دولت نہ ہو مضر نہیں) اور (آخرت میں ظاہر ہوگا کہ) جو نیک کام ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب میں بھی بہتر ہے اور انجام میں بھی بہتر ہیں (پس ان کو ثواب میں بڑی بڑی نعمتیں ملیں گی جن میں مکان اور باغات سب کچھ ہوں گے اور انجام ان اعمال کا ابدیت اور دوام ہے ان نعمتوں کا، پس کیفیةً وکمیةً مسلمانوں ہی کی حالت اخیرہ بہتر ہوگی اور اخیر ہی کا اعتبار بھی ہے) ۔ معارف و مسائل خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا، یہاں کفار نے مسلمانوں کو مغالطہ دینے کے لئے دو چیزیں پیش کیں۔ اول دنیا کا مال و دولت اور ساز و سامان دوسرے چشم خدم اور اپنا جتھہ اور جماعت کہ یہ بظاہر کفار کو بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ حاصل تھی اور یہی دو چیزیں ہیں جو انسان کے لئے نشہ کا کام کرتی ہیں اور ان کا فخر و غرور اچھے اچھے عقلمند ذہین لوگوں کو غلط راستوں پر ڈال دیتا ہے اور پچھلے دور کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور حکومت و سلطنت والوں کی عبرت خیز تاریخ سے غافل کر کے اپنے موجودہ حال کو اپنا ذاتی کمال اور دائمی راحت کا ذریعہ باور کرا دیتا ہے۔ بجز ان لوگوں کے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق دنیا کے مال و دولت اور عزت و جاہ کسی کو اپنا ذاتی کمال یا دائمی ساتھی نہ سمجھیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر زبان سے بھی ادا کریں اور اس کی دی ہوئی نعمت کو خرچ کرنے میں بھی اس کے احکام کی پابندی کریں اور اس کے فنا یا کم ہوجانے کے خطرہ سے بھی کسی وقت غافل نہ ہوں تو وہی اس شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ جیسے انبیاء (علیہم السلام) میں، حضرت سلیمان اور داؤد (علیہما السلام) اور صحابہ کرام میں بہت سے اغنیاء صحابہ اور اسی طرح امت میں لاکھوں اولیاء، صلحاء جن کو حق تعالیٰ نے دنیا کا مال و دولت بھی خوب عطا فرمایا اور دین کی دولت اور اپنا خوف بھی بےانتہاء۔ کفار کے اس مغالطہ کو قرآن حکیم نے اس طرح دور فرمایا کہ دنیا کی چند روزہ نعمت و دولت نہ اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی علامت ہو سکتی ہے نہ دنیا ہی میں وہ کسی ذاتی کمال کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ بہت سے بےعقل جاہلوں کو دنیا میں یہ چیزیں عقلاء اور دانشمندوں سے زیادہ مل جاتی ہیں۔ پچھلی تاریخ اٹھا کر دیکھو تو یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ایسی ایسی بلکہ ان سے بھی زیادہ کتنی دولتوں اور شوکتوں کے ڈھیر زمین پر ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ رہا حشم و خدم اور دوست و احباب کی کثرت سو اس کی حقیقت بھی اول تو دنیا ہی میں ظاہر ہوجاتی ہے کہ آڑے وقت میں کوئی کام نہیں آتا۔ پھر اگر دنیا میں وہ برابر خدمت کرتے بھی رہے تو وہ کَے دن کی، اس کے بعد محشر کے میدان میں ان کا کوئی ساتھی ہوگا ؟

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا۝ ٠ۙ اَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِيًّا۝ ٧٣ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٣) اور جب نضر اور اس کے ساتھیوں کے سامنے ہمارے اوامرو نواہی کے بیان میں واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ کافر ان لوگوں سے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے ہیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھیوں سے کہتے ہیں کہ ہم میں اور تم میں مکان کس کا زیادہ اچھا ہے اور محفل کس کی اچھی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣ (وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓالا اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ” کفار مکہ مسلمانوں کو مخاطب کر کے تضحیک و استہزاء کے انداز میں سوال کرتے تھے کہ ذرا دیکھو تو سہی مجلسی شان و شوکت اور معاشرتی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ہم دونوں گروہوں میں سے کون ساگروہ بہتر ہے۔ ایک طرف محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند فقراء و مساکین کو لے کر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ابو جہل اور ولید بن مغیرہ کی چوپالوں میں امراء و رؤساء کی چہل پہل ہے۔ ان دونوں گروہوں کی حیثیت و اہمیت کا بھلا آپس میں کیا تقابل اور موازنہ ! کہاں فرش خاک پر بیٹھے بلال ‘ ّ خباب ‘ ابو فکیہہ ‘ عمار اور یاسر (رض) جیسے ُ مفلس و قلاش اور غلام ‘ اور کہاں شاہانہ محفلوں میں سرداران قریش کی سج دھج اور شان و شوکت ! یہ وہی انداز ہے جو سورة الکہف میں دو افراد کے مکالمے کے دوران دیکھنے میں آتا ہے۔ وہاں بھی ایک دولت مند متکبر شخص نے اللہ کے بندے کو مخاطب کر کے بڑے طمطراق سے کہا تھا : (اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّ نَفَرًا ) ” میں تم سے بہت زیادہ ہوں مال میں اور بہت بڑھا ہوا ہوں نفری میں ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45. In response to the recital of clear revelations, instead of accepting their message, the unbelievers put such questions as these to the believers to show that they were in the right: Who has grander houses to live in? Who has a higher standard of life? Who enjoys splendid meetings? If we are enjoying all these things while you are deprived of them, you may decide for yourselves whether we, who are enjoying happy worldly lives, are in the wrong, or you who are living miserable lives of indigence are in the right? Also see (Surah Al-Kahf E.Ns 37-38).

سورة مَرْیَم حاشیہ نمبر :45 یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو ، دنیا میں کون اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں سے نواز جا رہا ہے ۔ کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں؟ کس کا معیار زندگی زیادہ بلند ہے ؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و در ماندہ رہتے ؟ مزید تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القران ، جلد سوم ، حواشی 38 ، 37 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ ٧٤:۔ اوپر منکرین حشر کا ذکر تھا ان آیتوں میں فرمایا کہ یہ لوگ دنیا کا پیدا کیا جانا بلا نتیجہ گنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے فنا ہونے کے بعد نیک وبد کی جزاو سزا کا فیصلہ جو ضروری ٹھہرا ہے اس کو یہ لوگ جھٹلاتے ہیں اسی واسطے جزا وسزا کی قرآن کی آیتیں جب ان کو سنائی جاتی ہیں تو تنگ دست ایماندار لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تم حق پر ہوتے اور ہم ناحق پر ہوتے تو تم دنیا میں ایسے تنگدست اور ہم اس طرح کے خوشحال نہ ہوتے کیونکہ دنیا کی خوشحالی اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی نشانی ہے اللہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ان سے پہلے بڑے بڑے خوشحال منکر حشر لوگ طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیے جا چکے ہیں جس سے ہر ایک سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ اگر حشر کا انکار قابل سزا جرم نہ ہوتا اور دنیا کی خوشحالی اللہ کی مہربانی کی نشانی ہوتی تو بلا جرم ایسے قابل مہربانی لوگوں کو اللہ تعالیٰ طرح طرح کے عذابوں سے کبھی ہلاک نہ کرتا کس لیے کہ اس طرح کا ہلاک کرنا ظلم میں داخل ہے اور ظلم اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے صحیح مسلم کے حوالہ سے ابوذر (رض) کی حدیث قدسی ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ منکر شریعت لوگ عقبیٰ کے اجر کو نہیں مانتے اس لیے لوگوں کی نیکی کے بدلہ میں دنیا کی کچھ خوش حالی دنیا میں ہی ان کو مل جاتی ہے ١ ؎۔ منکر شریعت لوگوں کی دنیا کی خوشحالی کا سبب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ٣٧٤ ج ٢ باب جزاء المؤمن بحسناتہ فن الدنیا الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:73) مقاما۔ ظرف مکان۔ کھڑے ہونے کی جگہ۔ مکان۔ منزل۔ خیر کی تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ ندیا۔ وہ محفل جہاں لوگ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ ندی بمعنی مجلس اس کی جمع انداء واندیۃ ہے۔ دارالندوہ۔ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں۔ مجلس کو النادی بھی کہا جاتا ہے اور نادی بمعنی ہم مجلس بھی آیا ہے۔ قرآن پاک میں آیا ہے فلیدع نادیہ (96:17) تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلا لے۔ ندیا احسن کی تمیز ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 73 تا 80 تتلی تلاوت کی گئی، ای کون۔ احسن ندیا بہترین مجلس۔ قرن گروہ، جماعت۔ اثات سامان۔ رءی نمود و نمائش ، سروسامان۔ یمدد وہ بڑھائے گا۔ اضعف کمزور ترین ۔ جنۃ لشکر، مددگار۔ مرد انجام، آخری ٹھکانا۔ اوتین مجھے ضرور دیا جائے گا۔ فرد تنہا، اکیلا۔ تشریح : آیت نمبر 73 تا 80 انسان دنیا کی اظہری زیب وزینت ، چمک دمک اور عاضری رونقوں کو دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ دنیا کی یہ رونقیں ہمیشہ اس کے ساتھ رہیں گی۔ اولاد کی کثرت اور دولت کی ریل پیل سے آدمی دھوکا کھا جاتا ہے اور اپنے مقابلے میں دوسروں کو ذلیل و خوار اور کم تر سمجھنے لگتا ہے۔ چناچہ نزول قرآن کے وقت جب اہل ایمان کو کامیاب اور سچا اور کافروں کو ناکام اور جھوٹا ثابت کر کے اہل ایمان کے لئے جنت کی دائمی نعمتوں اور رحمتوں کا ذکر سنتے تو کفار مکہ اہل ایمان کا مذاق اڑانے کے لئے کہتے تھے کہ یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو صاحب ایمان کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں کیسے کامیاب ہوں گے جب کہ دنیا میں تو ان کا یہ حال ہے کہ پھٹے ہوئے کپڑے، فاقہ زدہ چہرے، غلاموں، غریبوں اور مفلسوں کی بھیڑ اور بےرونق محفلیں ہیں اور دوسری طرف ہمارے مال و دولت، طاقت و قوت، محفلوں کی رنگینیاں، عمارتوں کی بلندیاں، بہترین سواریاں اور چاروں طرف پھیلے ہوئے ہمارے مددگار ہیں۔ ہم دنیا کے کامیاب ترین لوگ ہیں اور ہم اس کی توقع کرسکتے ہیں کہ آخرت میں بھی ہماری یہی شان و شوکت ہوگی۔ دنیا اور آخرت میں ہم ہی کامیاب وبامراد ہوں گے۔ ان ایمان کے دعوے داروں کو نہ دنیا میں کچھ ملا ہے اور نہ آخرت میں ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کفار کی ان باتوں اور طعنوں سے اہل ایمان ناگوار محسوس کرتے تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے دل کے سکون کے لئے ان آیات کو نازل فرمایا ارشاد ہے کہ یہ کفار بڑے نادان اور تاریخ انسانی سے ناواقف ہیں اگر تاریخی اعتبار سے دیکھتے تو ان کو پوری طرح یقین ہوجاتا کہ اللہ نے ہمیشہ اہل حق کو سربلند فرمایا ہے اور وہ لوگ جن کو اپنی طاقت و قوت پر ناز تھا جن کے سجے ہوئے مکانات، پر رونق محفلیں اور شاندار عمارتیں تھیں جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مسلسل نافرمانیاں اور گناہ کئے تو اللہ نے ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور کفار و مشرکین کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان اہل ایمان کو جو دنیاوی اعتبار سے بےبس اور کمزور تھے ان کو طاقتوروں پر غالب اور مسلط کردیا اور ان کفار کی بلند وبالا عمارتیں اور محلات ایسے بےرونق کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے کہ لوگ ان کے قریب دن کی روشنی میں بھی جاتے ہوئے گھبراتے ہیں اور خوف محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ وہ ظالموں، نافرمانوں اور گناہ گاروں کو مہلت اور ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے جس سے نافرمان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں نہ کوئی شخص عزت و آبرو و والا ہے اور نہ ان کے مال و دولت اور قوت و طاقت کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر مال و دولت ، اولاد، رشتہ دار اور ان کے مددگار جن پر انہیں ناز ہوتا ہے وہ سب کے سب ان کے اردگرد سے بھاگ جاتے اور دور ہوجاتے ہیں اور وہ لوگ جس دھوکے میں مبتلا تھے فریب کے پردے ان کی آنکھوں سے اتر جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو راہ راست اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی زندگی گزارت یہیں اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کی ہدایت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے بلکہ ان کے تمام نیک اعمال کو قبول فرما کر ان کے لئے دنیا کی ہر تین کامیابیاں اور آخرت میں اپنے انعامات سے نوازتا ہے اور ان کو کامیاب و بامراد کردیتا ہے فرمایا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج جو دولت و ثروت ان کو حاصل ہے وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی بلکہ آخرت کی راحتیں بھی ان کا مقدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے سوال کیا ہے کہ ان کو آگے کی زندگی کے متعلق کیا علم غیب حاصل ہوگیا ہے ؟ یا اللہ نے ان سے کوئی معاہدہ کرلیا ہے ؟ کہ یہ مال و دولت ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو اپنی غلط فہمی دور کر لینی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ اس دنیا میں رہ جائے گا اور اگر انہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار نہ کیا تو آخرت میں بھی یہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے اور وہاں کوئی ان کے کام نہ آسکے گا۔ ایسے لوگ تن تنا اللہ کے پاس پہنچیں گے تب ان کو پوری طرح اندازہ ہوگا۔ کہ دنیا اور آخرت دونوں انہوں نے برباد کر ڈالیں۔ فرمایا کہ اللہ کا اہل ایمان سے یہ وعدہ ہے کہ ان کی دنیا میں سنور جائے گی اور آخرت میں دائمی رحمتیں اور نعمتیں ان کی منتظر ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرم اس لیے بھی جہنم میں پھینکے جائیں گے کیونکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے اور اس پر اتراتے تھے۔ مجرموں کا جہنم میں داخل ہونے کا بنیادی سبب یہ بھی ہوگا کہ وہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر اتراتے ہیں۔ انبیاء کرام ( علیہ السلام) کے مخالفین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ جب ان کے سامنے ٹھوس اور واضح دلائل اور اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے لوگ رعونت کی بنا پر ایمانداروں سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہ دنیوی مقام و مرتبہ، اور رہنے سہنے میں ہم میں سے کون بہتر ہے ؟ یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کا رویہ تھا ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ایسی قوموں کو تباہ و برباد کیا۔ جو شان و شوکت اور اسباب و وسائل کے اعتبار سے ان سے بہت آگے تھیں۔ (وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ ) [ محمد : ١٣] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جس کے رہنے والوں نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔ “ (وَکَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَا اٰتَیْنَاہُمْ فَکَذَّبُوا رُسُلِی فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرِ ) [ السبا : ٤٥] ” ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا اور یہ لوگ اس ترقی کو نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں عطا کی تھی پھر انہوں میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے ساتھ انکار کرنے کی وجہ سے انہیں کس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ “ منکرین حق کی شروع سے یہ سوچ اور طریقہ رہا ہے کہ وہ ایمانداروں کے ساتھ صالح کردار کی بجائے دنیا کی ترقی اور اسباب کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس منفی سوچ میں اس قدر گمراہی میں وہ آگے چلے جاتے ہیں کہ جس سے انھیں غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ دنیا میں جو مقام، شہرت اور ترقی ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہے تبھی تو اس نے ہمیں دنیا میں ایک مقام اور یہ سہولتیں دے رکھی ہیں۔ مسائل ١۔ منکرین حق اور دنیا دار لوگ، ایمانداروں کے مقابلہ میں دنیا کی شہرت اور آسائش سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ٢۔ دنیا کے اسباب پر اترانے والوں کو اللہ تعالیٰ تباہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور اس کے وسائل کی حقیقت : ١۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ : ١٧) ٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٣۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٤۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ہمیشہ رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ ( الکہف : ٤٦) ٥۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٦۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٧۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٨۔ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٩۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس : ٢٤) ١٠۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ١١۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ : ١٧٤) ١٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ (التوبۃ : ٣٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

بڑی بڑی مجلسیں اور عیش و طرب کی محفلیں اور وہ قدریں جن پر کبراء اور مترفین زمانہ اخلاقی فساد میں عمل پیرا ہوا کرتے ہیں اور ان کے مقابلے میں بظاہر نچلے درجے کی سوسائٹیاں اور غربت و افلاس والوں کی محفلیں جن میں ایمان کے سوا اور کوئی سازو سامان کم ہی ہوتا ہے۔ نیز ان میں زیب وزینت اور شان و شوکت کم ہوتی ہے۔ نہ قیمتی لباس ہوتے ہیں اور نہ قیمتی جائے قیام۔ اس دنیا میں لوگ ان ہی چیزوں میں باہم مقابلہ کرتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر طبقاتی امتیازات قائم ہوتے ہیں۔ اس مقابلے اور نمایش گاہ میں ‘ پہلے طبقے کے اسٹال پر بڑا بڑا دنیاوی سازو سامان ‘ مال و جمال ‘ قوت اور مرتبہ ‘ بڑے بڑے معاذات ‘ بڑی بڑی آمدنیاں ‘ کھانے پینے کے لذیذ سازو سامان ہوتے ہیں اور دوسرے طبقے کے اسٹال پر فقرو تواضع ہے۔ ایسا سازو سامان جو کبرا کے ہاں قیمتی ہے ‘ ان کی نظروں میں حقیر ہے ‘ جاہ و مرتبہ ان کے ہاں پر کا ہ کے برابر ہے۔ یہ دوسرا اسٹال عیش طرب کے لئے نہیں۔ معاذات کے لئے نہیں ‘ حکام کے ہاں اثر و رسوخ کے لئے نہیں ‘ اقتدار ہر فخر کے لئے نہیں بلکہ محض نظریاتی متاع گراں بہا کی طرف بلاتا ہے ‘ اس اسٹال پر کوئی قیمتی دنیاوی مال و متاع نہیں ہے ‘ کوئی ارائش و زیبائش نہیں ہے لیکن وہاں اللہ کے کلمے کی سر بلندی کا داعی ہے ‘ صرف کلمہ حق کی سر بلندی کی طرف یہ دوسرا فرق بلاتا ‘ نہ صرف یہ کہ یہاں مذکور دنیاوی چیزیں نہیں بلکہ مشقت ‘ جدوجہد اور قربانیاں ہیں۔ ان تمام مشقتوں کا عوض بھی اس دنیا میں نہیں ہے۔ یہاں انہیں صرف اللہ کا قرب حاصل ہوگا ‘ جہاں تک اجر اور جزاء کا تعلق ہے وہ آخرت میں ہے۔ یہ قریش جن کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں آیات الہیہ سنائی جارہی تھی ‘ وہ اہل ایمان فقراء کو دیکھ کر یہ کہتے تھے : ای الفریقین خیر مقاما واحسن ندیا (٩١ : ٣٧) ” بتائو ‘ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر حالات میں ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں “۔ وہ کبرا بہتر ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے یا وہ فقراء بہتر ہیں جو اس کے ارد گرد جمع ہیں ان میں سے کن کے حالات دنیاوی اعتبار سے بہتر ہیں اور کس کی سوسائٹی شاندار ہے۔ ایک طرف نضیر ابن حارث ‘ عمرو ابن ہشام ‘ ولید بن مغیرہ اور ان کے بھائی اور دوسرے سردار ہیں اور دوسری جانب بلال ‘ عمار ‘ باب اور ان کے دوسرے بھائی ہیں جن کے پاس ایک کوڑی نہیں ہے۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن باتوں کی طرف بلاتے ہیں وہ اچھی ہوتیں تو ان کے ساتھی یہ لوگ جن کی قریش کی سوسائٹی میں کوئی قدروقیمت نہیں ہے اور نہ ان کا کوئی رعب ہے۔ یہ لوگ سب کے سب ایک مسکین حباب کے گھر جمع ہوتے ہیں جو غریب اور بےروز گا رہے۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف بڑی بڑی شاندار مجالس میں بیٹھتے ہیں اور سوسائٹی میں ان کا اونچا مرتبہ ہے۔ یہ ہے دنیا پرستوں کی منطق اور ان کی سوچ۔ ہر زمان و مکان میں دنیا پرستوں اور کوتاہ بینوں کی یہی انداز فکر ہوتی ہے۔ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ دعوت اسلامی اور اس کے املیں دنیاوی زیب وزینت سے خاخلی ہوں ‘ زیب وزینت اور مصنوعی رنگ و روغن ان کی اصل حقیقت کو نہ چھپا سکے۔ ان کی کسی چیز میں کوئی کلا کاری نہ ہو۔ اس دعوت کو ان داعوں کی قیادت کو قبول کرنا چاہے وہ خالص اللہ کے لئے قبول کریں ‘ اس دعوت کو قبول کریں۔ اس میں دنیا اور دنیا پرستوں کا کوئی کردار نہ ہو۔ ان میں کوئی نمائش اور طمع کاری نہ ہو تاکہ جو لوگ دنیا کے مفادات چاہتے ہیں ‘ دنیا کا نفع چاہتے ہیں وہ اس طرف نہ آئیں جو دنیا کی زیب وزینت چاہتے ہیں ‘ شان و شوکت چاہتے ہیں اور مال و متاع چاہتے ہیں وہ دورر ہیں۔ ان بر خود غلط گمراہوں اور کافروں کی منطق ‘ شان و سکت اور زیب وزینت کی نمائش کرنے والوں کی اس طرز فکر کو ایک وجدانی چٹکی سے ڈرا تاریخ انسانیت کی طرف موڑ دیا جاتا ہے کہ تاریخ انسانی میں کئی اقوام ‘ اس قسم کا بظاہر شاندار مقام عزت رکھتی تھیں ‘ دنیا کے مال و متاع اور نعمتوں میں مست تھیں لیکن ذرا دیکھو ‘ ان کا کیا انجام ہوا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا سوال کہ دونوں میں مقام اور مجلس کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور ان کے سوال کا جواب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب آیات تلاوت کی جاتی تھیں جو اپنے معانی کے اعتبار سے واضح ہیں اور جن کے معانی ظاہر ہیں تو انھیں سن کر ایمان لانے کے بجائے معاندین مزید سرکشی پر تل جاتے تھے اور جنھوں نے ایمان قبول کیا ان سے کہتے تھے کہ دیکھو ایک فریق ہمارا ہے اور ایک فریق تمہارا ہے اب بتاؤ کہ دونوں میں سے کون سا فریق مقام اور مرتبہ کے اعتبار سے اور مجلس کے اعتبار سے بہتر اور اچھا ہے ؟ ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ ہم لوگ دنیا میں اچھے حال میں ہیں اچھا کھاتے پیتے اور اچھا پہنتے ہیں ہماری مجلسیں بھی اچھی ہیں بن سنور کر خوشبو لگا کر عمدہ کپڑے پہن کر مجلسوں میں جمع ہوتے ہیں اور تم لوگ ایسے ہو کہ نہ کھانے کو اور نہ پہننے کو، ان حالات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور اللہ کے مقبول بندے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ دونوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت بہتر ہے۔ ان کا کلام بظاہر ایک طرح کا سوال تھا لیکن حقیقت میں ان کا مقصد یہ تھا کہ اہل ایمان چونکہ دنیاوی اعتبار سے کمزور حالت میں ہیں اس لیے ان کے مقابلہ میں ہم اللہ کے نزدیک بہتر ہیں۔ یہ ان کی جاہلانہ بات تھی کیونکہ دنیا میں اچھے حال میں ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جو شخص صاحب مال و متاع ہو وہ اللہ کے نزدیک حق پر ہو اور اللہ کا مقبول بندہ ہو ان کے خیال کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّ رِءْ یًا) (اور ان سے پہلے ہم نے کتنی جماعتیں ہلاک کردی جو سازو سامان اور نظروں میں بھانے کے اعتبار سے اچھے تھے) مطلب یہ ہے کہ تم نے ظاہری زینت اور سازسامان کی ظاہری خوبی اور بہتری کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہونے کی دلیل بنا لیا تمہارا یہ خیال غلط ہے اس سے پہلے بہت سی امتیں اور جماعتیں گزر چکی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کی سرکشی کی وجہ سے ہلاک فرما دیا دنیاوی نعمتیں اگر اللہ کے ہاں مقبول اور معزز ہونے کی دلیل ہوتیں تو وہ لوگ کیوں ہلاک کیے جاتے اور ان کے برعکس اہل ایمان کیوں نجات پاتے، عاد اور ثمود اور دوسری امتیں جو گزری ہیں ان کے احوال تم سے سنے ان کے کھنڈرات پر گزرتے ہو ان کے تباہی کے واقعات جانتے ہو پھر بھی الٹی دلیلیں دیتے ہو اور غلط باتیں کرتے ہو۔ سورة سبا میں فرمایا (وَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ مَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَیْنٰھُمْ فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْ فَکَیْفَ کَانَ نَکِیْرِ ) (اور ان سے پہلے جو لوگ تھے انھوں نے تکذیب کی تھی اور یہ تو اس سامان کے اعتبار سے جو ہم نے ان کو دے رکھا تھا دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے انھوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی سو میرا کیسا عذاب ہوا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

73 اور جب ان دین حق کے منکروں کے سامنے ہماری واضح اور کھلی کھلی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جو لوگ منکر ہیں اور جن کی کافرانہ روش ہے وہ اہل ایمان اور حضرات مومنین سے یوں کہتے ہیں بتائو دونوں فریقوں میں سے کس کی حالت اچھی ہے یعنی ہم میں اور تم میں سے کون سا فریق خوشحال ہے اور باعتبار مکان و مسکن کے کون بہتر اور بلحاظ محفل و مجلس کے کون عمدہ اور اچھا ہے۔ یعنی جب قرآن کریم کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور ان آیتوں میں مومنین کی نجات اور کافروں کے عذاب کا حال سنتے ہیں تو منکرین مومنین سے کہت یہیں اور دنیوی عیش و تنعم پر آخرت کو قیاس کرتے ہیں اور بطور طعن کہتے ہیں ۔ مسلمانو ! بتائو دنیا میں ہم تم میں سے کون سا فریق زیادہ اچھا ہے کس فریق کے پاس رہنے کو اچھا مکان ہے کس کی سوسائٹی اچھی ہے کس کی حمایتی زیادہ ہیں۔ مدعا اط طعن کا یہ ہوتا تھا کہ ہم یہاں بھی اچھے ہیں اور اگر تمہارے اعتقاد میں وہ عالم ہوابھی تو ہم وہاں بھی اچھے ہوں گے اور تم ایسے ہی شکستہ حال ہو گے جیسے یہاں ہو یہ سب باتیں اپنے مال اور عز و جاہ کے گھمنڈ پر کہتے تھے حضرت حق تعالیٰ نے آگے جواب فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی دنیا کی رونق میں مقابلہ دیتے ہیں۔ 12