Surat Marium

Surah: 19

Verse: 85

سورة مريم

یَوۡمَ نَحۡشُرُ الۡمُتَّقِیۡنَ اِلَی الرَّحۡمٰنِ وَفۡدًا ﴿ۙ۸۵﴾

On the Day We will gather the righteous to the Most Merciful as a delegation

جس دن ہم پرہیزگاروں کو اللہ رحمان کی طرف بطور مہمان کے جمع کریں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Condition of the Righteous and the Criminals on the Day of Resurrection Allah informs: يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا

اللہ تعالیٰ کے معزز مہمان ۔ جو لوگ اللہ کی باتوں پر ایمان لائے ، پیغمبروں کی تصدیق کی ، اللہ کی فرمانبرداری کی ، گناہوں سے بچے رہے ، پروردگار کا ڈر دل میں رکھا وہ اللہ کے ہاں بطور معزز مہمانوں کے جمع ہوں گے نورانی سانڈنیوں کی سواری پر آئیں گے اور خدائی مہمان خانے میں بہ عزت داخل کئے جائیں گے ۔ ان کے برخلاف اللہ سے خوف نہ کھانے والے ، گنہگار ، رسولوں کے دشمن ، دھکے کھا کھا کر اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے پیاس کے مارے زبان نکالے ہوئے جبرا قہرا جہنم کے پاس جمع کئے جائیں گے ۔ اب بتلاؤ کہ کون مرتبے والا اور کون اچھے ساتھیوں والاہے ؟ مومن اپنی قبر سے منہ اٹھا کر دیکھے گا کہ اس کے سامنے ایک حسین خوبصورت شخص پاکیزہ پوشاک پہنے خوشبو سے مہکتا چمکتا دمکتا چہرہ لئے کھڑا ہے پوچھے گا تم کون ہو ؟ وہ کہے گا آپ نے پہچانا نہیں میں تو آپ کے نیک اعمال کا مجسمہ ہوں آپ کے عمل نورانی حسین اور مہکتے ہوئے تھے آئیے اب آپ کو میں اپنے کندھوں پر چڑھا کر بہ عزت واکرام محشر میں لے چلوں گا کیونکہ دنیا کی زندگی میں میں آپ پر سوار رہا ہوں ۔ پس مومن اللہ کے پاس سواری پر سوار جائے گا ۔ ان کی سواری کے لئے نورانی اونٹ بھی مہیا ہوں گے ۔ یہ سب ہنسی خوشی آبرو عزت کے ساتھ جنت میں جائیں گے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں وفد کا یہ دستور ہی نہیں کہ وہ پیدل آئے ۔ یہ متقی حضرات ایسی نورانی اونٹنیوں پر سوار ہوں گے کہ مخلوق کی نگاہوں میں ان سے بہتر کوئی سواری کبھی نہیں آئی ۔ ان کے پالان سونے کے ہوں گے ۔ یہ جنت کے دروازوں تک ان ہی سواریوں پر جائیں گے ۔ ان کی نکیلیں زبر جد کی ہونگی ۔ ایک مرفوع روایت میں ہے لیکن حدیث بہت ہی غریب ہے ابن ابی حاتم کی روایت ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں نے اس آیت کی تلاوت کی اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفد تو سواری پر سوار آیا کرتا ہے آپ نے فرمایا قسم اس اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یہ پارسا لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور اسی وقت سفید رنگ نورانی پردار اونٹنیاں اپنی سواری کے لئے موجود پائیں گے جن پر سونے کے پالان ہوں گے جن کے پیروں سے نور بلند ہو رہا ہو گا جو ایک ایک قدم اتنی دور رکھیں گے جہاں تک نگاہ کام کرے یہ ان پر سوار ہو کر ایک جنتی درخت کے پاس پہنچیں گے جہاں سے دو نہریں جاری دیکھیں گے ایک کا پانی پئیں گے جس سے ان کے دلوں کے میل دور ہو جائیں گے دوسری میں غسل کریں گے جس سے ان کے جسم نورانی ہو جائیں گے اور بال جم جائیں گے اسکے بعد نہ کبھی ان کے بال الجھیں نہ جسم میلے ہوں ان کے چہرے چمک اٹھیں گے اور یہ جنت کے دروازے پر پہنچیں گے ۔ سرخ یاقوت کا حلقہ سونے کے دروازے پر ہوگا جسے یہ کھٹکھٹائیں گے نہایت سریلی آواز اس سے نکلے گی اور حوروں کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے خاوند آگئے خازن جنت آئیں گے اور دروازے کھولیں گے جنتی ان کے نورانی جسموں اور شگفتہ چہروں کو دیکھ کر سجدے میں گر پڑنا چاہیں گے لیکن وہ فورا کہہ اٹھے گا کہ میں تو آپ کا تابع ہوں آپ کا حکم بردار ہوں اب ان کے ساتھ یہ چلیں گے ۔ ان کی حوریں تاب نہ لا سکیں گی اور خیموں سے نکل کر ان سے چمٹ جائیں گی اور کہیں گی کہ آپ ہمارے سر تاج ہیں ہمارے محبوب ہیں میں ہمیشہ آپ کی والی ہوں جو موت سے دور ہوں میں نعمتوں والی ہوں کہ کبھی میری نعمتیں ختم نہ ہوں گی میں خوش رہنے والی ہوں کہ کبھی نہ روٹھوں گی میں یہیں رہنے والی ہوں کہ کبھی آپ سے دور نہ ہوؤں گی ۔ یہ اندر داخل ہوں گے دیکھیں گے کہ سو سو گزر بلند بالاخانے ہیں لولو اور موتیوں پر زرد سرخ سبز رنگ کی دیواریں سونے کی ہیں ۔ ہر دیوار ایک دوسرے کی ہم شکل ہے ہر مکان میں ستر تخت ہیں ہر تخت پر ستر حوریں ہیں ہر حور پر ستر جوڑے ہیں تاہم ان کی کمر جھلک رہی ہے ان کے جماع کی مقدار دنیا کی پوری ایک رات کے برابر ہو گی ۔ صاف شفاف پانی کی ، خالص دودھ کی جو جانوروں کے تھن سے نہیں نکلا ، بہترین خوش ذائقہ بےضرر شراب طہور کی جسے کسی انسان نے نہیں نچوڑا ، عمدہ خالص شہد کی جو مکھیوں کے پیٹ سے نہیں نکلا ، نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ پھلدار درخت میووں سے لدے ہوئے جھوم رہے ہوں گے ۔ چاہے کھڑے کھڑے میوے توڑ لیں چاہے بیٹھے بیٹھے چاہے لیٹے لیٹے ۔ سبز وسفید پرنج اڑ رہے ہیں جس کے گوشت کھانے کو جی چاہا وہ خود بخود حاضر ہوگیا جہاں کا گوشت کھانا چاہا کھالیا اور پھر وہ قدرت الہٰی سے زندہ چلا گیا ۔ چاروں طرف سے فرشتے آرہے ہیں اور سلام کہہ رہے ہیں اور بشارتیں سنا رہے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو یہی وہ جنت ہے جس کی تم خوشخبریاں دیے جاتے رہے اور آج اس کے مالک بنا دئے گئے ۔ وہ یہ ہے بدلہ ہے تمہارے نیک اعمال کا جو تم دنیا میں کرتے رہے ۔ ان کی حوروں میں سے اگر کسی کا ایک بال بھی زمین پر ظاہر کر دیا جائے تو سورج کی روشنی ماند پڑ جائے ۔ یہ حدیث تو مرفوع بیان ہوئی ہے لیکن تعجب نہیں کہ یہ موقوف ہی ہو جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے قول سے بھی مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ٹھیک اس کے برعکس گنہگار لوگ اوندھے منہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے جانوروں کی طرح دھکے دے کر جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے اس وقت پیاس کے مارے ان کی حالت بری ہو رہی ہوگی ۔ کوئی ان کی شفاعت کرنے والا ان کے حق میں ایک بھلا لفظ نکالنے والا نہ ہوگا مومن تو ایک دوسروں کی شفاعت کریں گے لیکن یہ بدنصیب اس سے محروم ہیں یہ خود کہیں گے کہ ( فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِيْنَ ١٠٠؀ۙ ) 26- الشعراء:100 ) ہمارا کوئی سفارشی نہیں نہ سچا دوست ہے ۔ ہاں جنہوں نے اللہ سے عہد لے لیا ہے یہ استثنا منقطع ہے ۔ مراد اس عہد سے اللہ کی توحید کو گواہی اور اس پر استقامت ہے یعنی صرف اللہ کی عبادت ، دوسروں کی پوجا سے بےزاری اور لا تعلقی ، صرف اسی سے مدد کی امید ، تمام آرزوں کے پورا ہونے کی اسی سے آس ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان موحدین نے اللہ کا وعدہ حاصل کر لیا ہے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس سے میرا عہد ہے وہ کھڑا ہوجائے ۔ لوگوں نے کہا حضرت ہمیں بھی وہ بتا دیجئے آپ نے فرمایا یوں کہو ( اللہم فاظر السموات والارض عالم الغیب والشہادۃ فانی اعہد الیک فی ہذہ الحیوۃ الدنیا انک ان تکلنی الی عمل یقبنی من الشر ویباعدنی من الخیر وانیلا اثق الا برحمتک فاجعل لی عندک عہدا تودیہ لی یوم القیامۃ انک لا تخلف المیعاد ) اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے خائفا مستجیرا مسغفرا راہبا راغبا لیک ( ابن ابی حاتم )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚيَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ ۔۔ : ” وَفْدًا “ ” وَافِدٌ“ کی جمع ہے۔ ” وَفَدَ یَفِدُ وَفْدًا وَ وُفُوْدًا “ بروزن ” وَعَدَ یَعِدُ “ کسی کے پاس جانا۔ وفد چند آدمیوں کی جماعت کو کہتے ہیں جو کسی اہم کام کے لیے یا کوئی عطیہ حاصل کرنے کے لیے کسی بادشاہ یا بڑی شخصیت کے پاس جائے۔ ” نَسُوْقُ “ ” سَاقَ یَسُوْقُ سَوْقًا “ بروزن ” قَالَ یَقُوْلُ “ جانوروں کو ہانکنا۔ بعض اوقات کسی کو بھی چلانے کے معنی میں آجاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَسِيْقَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ) [ الزمر : ٧٣ ] ” اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔ “ ” الْمُجْرِمِيْنَ “ جرم وہ گناہ جسے کرنے والا سزا کا حق دار ہو۔ ” وِرْدًا “ ” وَارِدٌ“ کی جمع ہے۔ ” وَرَدَ یَرِدُ وُرُوْدًا “ پانی پینے کے لیے جانا، چونکہ اس مقصد کے لیے پیاسا ہی جاتا ہے، اس لیے ” وِرْدًا “ کا معنی ” پیاسے “ ہے۔ ان آیات میں متقین اور مجرمین کا انجام بیان ہوا ہے۔ پہلی آیت میں رحمٰن کی طرف جانے کا ذکر فرمایا، جنت وغیرہ کا ذکر نہیں فرمایا، یعنی متقی لوگ رحمٰن کے معزز مہمان بن کر جائیں گے۔ دنیا میں شاہی مہمانوں کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے، اس دن بیحد و بےانتہا رحم والے، شاہوں کے شاہ کے معزز مہمانوں کے اعزازو اکرام کا اندازہ کون کرسکتا ہے ؟ دوسری آیت میں جہنم کا ذکر ہے، رحمٰن کا ذکر نہیں۔ کیونکہ آخر دم تک جرم سے باز نہ آنے والے مجرم اس رحمٰن کے کسی رحم کے مستحق نہیں جو زمین و آسمان سے بھی زیادہ گناہوں کو سچے دل سے معافی کی ایک درخواست پر معاف کردیتا ہے۔ سورة زمر (٧١ تا ٧٣) میں متقین اور کفار کے اس مرحلے کا تفصیل سے ذکر آیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ نَحْشُرُ‌ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّ‌حْمَـٰنِ وَفْدًا |"The day We will assemble the God-fearing before the Rahman (All-Merciful) as guests.|" - 19:85. The word وفد applies to those who are received by rulers and princes with respect and honour. According to some sayings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) he said, |"These men will ride on their mounts which they used in their worldly life.|" Some say that their own virtuous deeds will take the shape of their mounts.

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا، لفظ وفا ایسے آنے والوں کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی بڑے بادشاہ یا امیر کے پاس اکرام و اعزاز کے ساتھ جائیں بعض روایات حدیث میں ہے کہ یہ لوگ سواریوں پر سوار ہو کر پہنچیں گے اور سواری ہر شخص کی وہ ہوگی جس کو وہ دنیا میں اپنے لئے پسند کرتا تھا۔ اونٹ، گھوڑا یا دوسری سواریاں بعض حضرات نے فرمایا کہ ان کے اعمال صالحہ ان کی مرغوب سواریوں کی صورت اختیار کرلیں گے یہ روایات حدیث روح المعانی اور قرطبی نے نقل کی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِيْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًا۝ ٨٥ۙ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، وفد يقال : وَفَدَ القومُ تَفِدُ وِفَادَةً ، وهم وَفْدٌ ووُفُودٌ ، وهم الذین يقدمون علی الملوک مستنجزین الحوائج، ومنه : الوَافِدُ من الإبل، وهو السابق لغیره . قال تعالی: يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمنِ وَفْداً [ مریم/ 85] . ( و ف د ) وفد القوم ( ض ) وفادۃ لوگوں کا وفد بن کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونا اور وفد وفود ان لوگوں کو کہاجاتا ہے جو اپنی ضروریات پورا کرنے کے لئے بادشاہوں کی خدمت میں حاضر ہوں ۔ اور اسی سے وافد اس اونٹ کو کہتے ہیں جو سب سے آگے نکل جانے والا ہو۔ قرآن پاک میں ہے َ : يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمنِ وَفْداً [ مریم/ 85] جس روز ہم پرہیزگاروں کو خدا کے سامنے بطور مہمان جمع کریں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥۔ ٨٦۔ ٨٧) اور قیامت کے دن جب کہ ہم کفر و شرک اور تمام برائیوں سے بچنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی دار النعیم کی طرف اونٹنیوں پر سوار کرکے جمع کریں گے (یعنی اعزاز دیں گے) اور مشرکین کو دوزخ کی طرف پیاسا ہانکیں گے اور فرشتے بھی کسی کی سفارش نہیں کریں گے مگر جو کہ کلمہ ”۔ لاالہ الا اللہ “۔ کا ماننے والا ہوگا (اس کی اللہ تعالیٰ کے حکم سے سفارش کریں گے ) ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا ) ” ( اللہ تعالیٰ کے ہاں اہل تقویٰ کا مہمانوں کی طرح استقبال کیا جائے گا ‘ جیسے سرکاری سطح پر وفود کا استقبال کیا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:85) وفدا۔ مصدر۔ مہمانی۔ وافد۔ مہمان یا کسی قوم کا نمائندہ یا قاصد اس کی جمع وفد وفود ووفاد۔ واوفاد۔ وفد یفد (ضرب) وفد الی الامیر۔ وفدبن کر آنا۔ قاصد بن کر آنا۔ چونکہ وافد مرسل الیہ کی طرف بطور مہمان جاتا ہے لہٰذا جمہور مفسرین نے یہی معنی لئے ہیں۔ یعنی متقی لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور بطور مہمان حاضر ہوں گے۔ وفدا بمعنی جماعتوں کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ یا رکبانا علی نجائب طاعتہم۔ یعنی اپنی بہترین طاعتوں کی سواریوں پر سوار ہو کر حاضر ہوں گے (ان کے نیک اعمال اس دن نہایت خوبصورت سواریوں پر سوار ہو کر حاضر ہوں گے (ان کے نیک اعمال اس دن نہایت خوبصورت سواریوں کی صورت میں حاضر ہوں گے) ۔ نسوق۔ مضارع جمع متکلم سوق مصدر (باب نصر) ہم ہانک لائیں گے۔ وردا۔ جمع ۔ اس کا واحد وارد ہے جیسے وفد کا واحد وافد اور رکب کا راکب ہے وارد پانی پر پہنچنے والے کو کہتے ہیں اور پانی لینے یا پینے کے لئے پانی پر پہنچنے والا پیاسا ہوتا ہے اس لئے وارد کا ترجمہ پیاسا کیا جاتا ہے وردا منصوب بوجہ حال ہے۔ پیاسوں کی طرح

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کا موازنہ جاری ہے۔ کفار اور مشرکین کے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے ان پر شیطان مسلّط کردیے جاتے ہیں۔ کفر و شرک سے اجتناب اور کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی اور دستگیری کرتا ہے۔ جس بنا پر ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح ان کے رب نے حکم دیا ہے۔ ایسے لوگوں پر ان کے رب کا یہ انعام ہوگا کہ جب وہ دنیا سے کوچ کریں گے تو موت سے پہلے ملائکہ انھیں ان الفاظ میں خوشخبری سنائیں گے۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر پکے ہوگئے ان پر ملائکہ کا نزول ہوگا جو انھیں تسلّی دیں گے اب تمہیں خوف اور غم کرنے کی بجائے اللہ کے کیے ہوئے وعدہ کے مطابق جنت پر خوش ہونا چاہیے۔ اللہ دنیا کی زندگی میں بھی تمہارا خیر خواہ اور کارساز تھا اور آخرت میں بھی ہوگا۔ تمہیں سب کچھ ملے گا جو تم چاہو گے۔ تمہاری مہمان نوازی تمہارا غفور رحیم رب فرمائے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣٠ تا ٣٢) متقی لوگ اس تسلی اور خوشخبری کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں وفود کی صورت میں پیش ہوں گے انھیں ہر قسم کا سکون اور اطمینان نصیب ہوگا۔ یاد رہے کہ کفار، مشرکین اور اللہ کے باغیوں کو ملائکہ رنجیروں میں جکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کرینگے لیکن متقین کو ملائکہ بڑے ادب واحترام کے ساتھ رب رحمن کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ متقین کو اس طرح پیش کرنے کو ازراہ کرم رب رحمن نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مسائل ١۔ متقی حضرات کی رب رحمٰن مہمان نوازی فرمائیں گے۔ ٢۔ متقین کو موت کے بعد کوئی غم اور خوف نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن متقین کا مقام اور مرتبہ : ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ متقین امن و سلامتی والے گھر میں ہوں گے۔ (الدخان : ٥١) ٣۔ متقین کے لیے دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (النحل : ٣٠) ٤۔ متقین کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ متقین کو قیامت کے دن گروہ در گروہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ (الزمر : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم تحشر المتقین الی الرحمن وفدا (٩١ : ٥٨) ” وہ دن آنے والا ہے جب متقی لوگوں کو ہم مہمانوں کی طرح رحمن کے حضور پیش کریں گے “ اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانک کرلے جائیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن متقی مہمان بنا کر لائے جائیں گے اور مجرمین ہنکا کر پیاسے حاضر کیے جائیں گے اور وہی شخص سفارش کرسکے گا جسے اجازت ہوگی ان آیات میں قیامت کے دن کی حاضری کا ایک منظر بتایا اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے متقی بندے قیامت کے دن مہمانوں کے طور پر حاضر ہوں گے ان کا اکرام کیا جائے گا اور ان کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا جائے گا اور مجرمین جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے جیسے جانوروں کو ہانکا جاتا ہے اور مجرمین پیاسے ہوں گے، اس کے بعد یہ فرمایا کہ وہاں کسی کو کسی کی سفارش کرنے کا اختیار نہ ہوگا ہاں جن بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی اجازت دی جائے گی وہی شفاعت کریں گے۔ جیسا کہ آیۃ الکرسی میں فرمایا (مَنْ ذَالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) (وہ کون ہے جو اس کے پاس سفارش کرسکے بجز اس شخص کے جسے وہ اجازت دے دے) جسے سفارش کی اجازت دی جائے گی وہی سفارش کرسکے گا اور جس کے لیے سفارش کی اجازت ہوگی اس کے لیے سفارش کی جاسکے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ یہ بشارت اخروی ہے۔ ” وَفْدًا “ ای رکبانا (روح) ۔ یعنی قیامت کے دن متقی اور شرک سے بچنے والوں کو عزت و احترام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کیا جائے گا۔ ” وَ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ الخ “ یہ تخویف اخروی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 یہ عذاب اس دن ہوگا جس دن ہم متقیوں اور پرہیز گاروں کو رحمان کے حضور میں بحیثیت مہمان کے جمع کریں گے۔