Surat Marium

Surah: 19

Verse: 88

سورة مريم

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۸﴾

And they say, "The Most Merciful has taken [for Himself] a son."

ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمٰن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Stern Rejection of attributing a Son to Allah After Allah affirms in this noble Surah that `Isa was a worshipper and servant of Allah and He mentioned his birth from Maryam without a father, He then begins refuting those who claim that He has a son. Holy is He and far Exalted is He above such description. Allah says, وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا

عیسیٰ علیہ السلام کا تعارف اس مبارک سورت کے شروع میں اس بات کا ثبوت گزر چکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں ۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے باپ کے بغیر اپنے حکم سے حضرت مریم صدیقہ کے بطن سے پیدا کیا ہے ۔ اس لئے یہاں ان لوگوں کی نادانی بیان ہو رہی ہے جو آپ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ۔ جس سے ذات الہٰی پاک ہے ۔ ان کے قول کو بیان فرمایا ۔ پھر فرمایا یہ بڑی بھاری بات ہے ادا اور ادا تینوں لغت ہیں لیکن مشہور ادا ہے ۔ ان کی یہ بات اتنی بری ہے کہ آسمان کپکپا کر ٹوٹ پڑے اور زمین جھٹکے لے لے کر پھٹ جائے ۔ اس لئے کہ زمین وآسمان اللہ تعالیٰ کی عزت وعظمت جانتی ہے ، ان میں رب کی توحید سمائی ہوئی ہے انہیں معلوم ہے کہ ان بدکار بےسمجھ انسانوں نے اللہ کی ذات پر تہمت باندھی ہے نہ اس کی جنس کا کوئی نہ اس کی ماں نہ اولاد نہ اس کے شریک نہ اس جیسا کوئی ۔ تمام مخلوق اس کی وحدانیت کی شاہد ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی توحید پر دلالت کرنے والا ہے ۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کے شرک سے ساری مخلوق کانپ اٹھتی ہے ۔ قریب ہوتا ہے کہ انتظام کائنات درہم برہم ہوجائے ۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی کار آمد نہیں ہوتی ۔ کیا عجب کہ اس کے برعکس توحید کے ساتھ کے گناہ کل کے کل اللہ تعالیٰ معاف فرما دے ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے اپنے مرنے والوں کو لا الہ اللہ کی تلقین کرو ۔ موت کے وقت جس نے اسے کہہ لیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جس نے زندگی میں کہہ لیا ؟ فرمایا اس کے لئے اور زیادہ واجب ہوگئی ۔ قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ زمین وآسمان اور ان کی اور ان کے درمیان کی اور ان کے نیچے کی تمام چیزیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لا الہ الا اللہ کی شہادت دوسرے پلڑے میں رکھی جائے تو وہ ان سب سے وزن میں بڑھ جائے اسی کی مزید دلیل وہ حدیث ہے جس میں توحید کے ایک چھوٹے سے پرچے کا گناہوں کے بڑے بڑے دفتروں سے وزنی ہو جانا آیا ہے واللہ اعلم ۔ پس ان کا یہ مقولہ اتنا بد ہے جسے سن کر آسمان بوجہ اللہ کی عظمت کے کانپ اٹھے اور زمین بوجہ غضب کے پھٹ جائے اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ سے دریافت کرتا ہے کہ کیا آج کوئی ایسا شخص بھی تجھ پر چڑھا جس نے اللہ کا ذکر کیا ہو؟ وہ خوشی سے جواب دیتا ہے کہ ہاں ۔ پس پہاڑ بھی باطل اور جھوٹ بات کو اور بھلی بات کو سنتے ہیں اور کلام نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب زمین کو اور اس کے درختوں کو پیدا کیا تو ہر درخت ابن آدم کو پھل پھول اور نفع دیتا تھا مگر جب زمین پر رہنے والے لوگوں نے اللہ کے لئے اولاد کا لفظ بولا تو زمین ہل گئی اور درختوں میں کانٹے پڑ گئے ۔ کعب کہتے ہیں ملائیکہ غضبناک ہوگئے اور جہنم زور شور سے بھڑک اٹھی ۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ لوگوں کی ایذاء دہندہ باتوں پر اللہ سے زیادہ صابر کوئی نہیں ۔ لوگ اس کے ساتھ شریک کرتے ہیں ، اس کی اولادیں مقرر کرتے ہیں اور وہ انہیں عافیت دے رہا ہے ، روزیاں پہنچا رہا ہے ، برائیاں ان سے ٹالتا رہتا ہے ۔ پس ان کی اس بات سے کہ اللہ کی اولاد ہے زمین وآسمان اور پہاڑ تک تنگ ہیں اللہ کی عظمت وشان کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں اولاد ہو ۔ اس کے لڑکے لڑکیاں ہوں اس لئے کہ تمام مخلوق اس کی غلامی میں ہے اس کی جوڑ کا یا اس جیسا کوئی اور نہیں زمین وآسمان میں جو ہیں سب اس کے زیر فرمان اور حاضر باش غلام ہیں وہ سب کا آقا سب کا پالنہار سب کا خبر لینے والا ہے ۔ سب کی گنتی اس کے پاس ہے سب کو اس کے علم نے گھیر رکھا ہے سب اس کی قدرت کے احاطے میں ہیں ۔ ہر مرد وعورت چھوٹے بڑے کی اسے اطلاع ہے شروع پیدائش سے ختم دنیا تک کا اسے علم ہے اس کا کوئی مددگار نہیں نہ اس کا شریک وساجی ۔ ہر ایک بےیارو مددگار اس کے سامنے قیامت کے روز پیش ہونے والا ہے ساری مخلوق کے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہی وحدہ لاشریک لہ سب کے حساب کتاب چکائے گا جو چاہے گا کرے گا عادل ہے ظالم نہیں کسی کی حق تلفی اس کی شان سے بعید ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

پہلی آیات سے مناسبت یہ ہے کہ جب شفاعت کی نفی فرمائی اور سب سے بڑھ کر شفاعت کی حق دار اولاد ہوتی ہے، اس لیے ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رکھی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی نفی فرمائی، تاکہ خاص و عام ہر سفارشی کی نفی ہوجائے اور ہر اس عزت کی نفی ہوجائے جس کے حصول کا باعث وہ اپنے معبودوں کو سمجھتے تھے۔ (بقاعی) وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا : اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل کرتے ہوئے ساتھ ہی اس کے باطل ہونے کی دلیل بھی ذکر فرما دی کہ وہ کہتے ہیں کہ اس رحمٰن نے اولاد بنا رکھی ہے جس کی بےپناہ رحمت سے ساری کائنات وجود میں آئی ہے اور ہر چیز اپنی بقا کے لیے اسی کی محتاج ہے، جبکہ وہ کسی کا محتاج نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، فرمایا : (يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللّٰهِ ) [ فاطر : ١٥ ] ” اے لوگو ! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بےپروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ “ بیٹا باپ کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ باپ اپنی کمزوری کی وجہ سے اولاد کا محتاج ہوتا ہے اور جس عقیدے، یعنی مسیح کو کفارہ بنانے کے لیے اسے اللہ کا بیٹا قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کو رحمٰن ماننے کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ 3 یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہتے تھے اور مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، جبکہ امت مسلمہ کے کئی نادان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا جزو قرار دیتے ہیں۔ ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا ۔۔ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد قرار دینے والوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شدت غضب میں ان ظالموں کو مخاطب فرما کر بات کی اور تاکید کے دو لفظوں ” لام “ اور ” قَدْ “ کے ساتھ، جن کے جمع ہونے سے قسم کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے، فرمایا قسم ہے کہ تم ایک بہت ہی بھاری بات تک آپہنچے ہو، جو اس قدر خوفناک اور بھاری ہے کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کے تصور اور اس بات کے بوجھ سے ” سَبْعٌ شِدَادٌ“ یعنی ساتوں نہایت مضبوط آسمان پھٹ پڑیں، یہ وسیع اور محکم زمین شق ہوجائے اور انتہائی ٹھوس اور سخت پہاڑ مٹی کی بوسیدہ دیوار کی طرح ڈھے کر گرپڑیں کہ ان لوگوں نے (یہاں پھر نفرت سے مشرکوں کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا ہے) رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کردیا، حالانکہ رحمٰن کے لائق ہی نہیں کہ وہ (کسی کو بھی، خواہ پیغمبر ہو یا فرشتہ) اولاد بنائے۔ قوسین کے الفاظ مفعول اول ہیں جو محذوف ہیں، ” وَلَداً “ مفعول ثانی ہے، یعنی اس کی اولاد ہونا ناممکن اور محال ہے، اس لیے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں۔ پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لیے ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ ہر کمزوری سے پاک اور اپنی ذات وصفات میں ہر ایک سے بےنیاز ہے۔ وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تفسیر۔ اس کے علاوہ اولاد بیوی سے ہوتی ہے اور خاوند بیوی کا محتاج ہوتا ہے، جب اللہ کی بیوی ہی نہیں اور وہ کسی کا محتاج ہی نہیں تو اولاد کیسی ؟ فرمایا : (اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ ) [ الأنعام : ١٠١ ] ” اس کی اولاد کیسے ہوگی، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں۔ “ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا : آسمان و زمین میں جو بھی ہے اس کا غلام بن کر حاضر ہونے والا ہے۔ اگر کوئی اولاد ہوتی تو غلام کیسے ہوتی ؟ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا : اللہ تعالیٰ نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے، ایک ایک اس کے شمار میں ہے اور سب اکیلے اکیلے اس کے پاس آنے والے ہیں، اگر زمین و آسمان میں کوئی بھی اس کی اولاد ہوتا تو یقیناً اسے معلوم ہوتا۔ کیا تم اللہ سے بھی زیادہ باخبر ہو، فرمایا : ( قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللّٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ ) [ یونس : ١٨ ] ” کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں ؟ “ نیز دیکھیے سورة یونس (٦٨) ، بنی اسرائیل (٤٠) اور نجم (١٩ تا ٢٢) ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَیْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَہٗ مِنَ اللّٰہِ إِنَّھُمْ لَیَدْعُوْنَ لَہٗ وَلَدًا وَ إِنَّہٗ لَیُعَافِیْھِمْ وَیَرْزُقُھُمْ ) [ بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : ٦٠٩٩ ] ” اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور یہ (کافر) لوگ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے اولاد (بھی) اختیار کر رکھی ہے (چنانچہ نصارٰی کثرت سے اور یہود قلت سے اور مشرکین عرب اس عقیدہ فاسدہ میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) تم نے (جو) یہ (بات کہی تو) ایسی سخت حرکت کی ہے کہ اس کے سبب کچھ بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے اڑ جاویں اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں اس بات سے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے (کیونکہ) جتنے کچھ بھی آسمانوں اور زمینوں میں ہیں سب خدا تعالیٰ کے روبرو غلام ہو کر حاضر ہوتے ہیں (اور) اس نے سب کو (اپنی قدرت میں) احاطہ کر رکھا ہے اور (اپنے علم سے) سب کو شمار کر رکھا ہے (یہ حالت تو ان کی فی الحال ہے) اور قیامت کے روز سب کے سب اس کے پاس تنہا حاضر ہوں گے (کہ ہر شخص خدا ہی کا محتاج اور محکوم ہوگا، پس اگر خدا کے اولاد ہو تو خدا ہی کی طرح وجوب وجود و لوازم وجوب کے ساتھ موصوف ہونا چاہئے اور خدا کی یہ صفات ہیں جو مذکور ہوئیں، عموم قدرت، عموم علم۔ اور غیر خدا کی یہ صفتیں ہیں افتقار وانقیاد جو ضد ہیں وجوب کے پھر ضدین کا اجتماع کیونکر ہوسکتا ہے) ۔ بلا شبہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اللہ تعالیٰ (ان کو علاوہ نعم مذکورہ اخرویہ کے دنیا میں یہ نعمت دے گا کہ) ان کے لئے (خلائق کے دل میں) محبت پیدا کر دے گا سو (آپ ان کو یہ بشارت دیدیجئے کیونکہ) ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان (عربی) میں اس لئے آسان کیا ہے کہ آپ اس سے متقیوں کو خوشخبری سنا دیں اور (نیز) اس سے جھگڑالو آدمیوں کو خوف دلاویں اور (ان خوف کی چیزوں میں سے نقمت دنیویہ کا ایک یہ بھی مضمون ہے کہ) ہم نے ان کے قبل بہت سے گروہوں کو (عذاب و قہر سے) ہلاک کردیا ہے (سو) کیا آپ ان میں سے کسی کو دیکھتے ہیں یا ان (میں سے کسی) کی کوئی آہستہ آواز سنتے ہیں ( یہ کنایہ ہے بےنام و نشان ہونے سے سو کفار اس نقمت دنیویہ کے بھی مستحق ہیں گو کسی مصلحت سے کسی کافر کے لئے اس کا وقوع نہ ہو مگر اندیشہ کے قابل تو ہے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۝ ٨٨ۭ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٨۔ ٨٩۔ ٩٠) اور یہود بھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو بیٹا بنا لیا ایسی سخت حرکت اور بڑی بھاری بات ہے کہ اس بات کی وجہ سے کوئی بعید نہیں کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اڑ جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 88 تا 98 اِد سخت، بھاری چیز۔ تکاد قریب ہے۔ یتفطرن پھٹ پڑیں گے۔ تنشق ٹکڑے ہوجائیں گے۔ تخر ڈھے پڑیں، گر جائیں۔ ھد دھڑام سے گرنا۔ ماینبغی شایان شان نہیں ہے۔ احصی اس نے شمار کر رکھا ہے۔ عد گنتی۔ ود محبت لد جھگڑالو آدمی۔ رکز آہٹ، سرسراہٹ۔ تشریح :- آیت نمبر 88 تا 98 سورة مریم کی آیات کو نصاریٰ کے اس قول اور عقیدے پر ختم کیا گیا ہے جس میں انہوں نے نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو (جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں) اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی مجرمانہ کوشش کی ہے۔ حالانکہ اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوارے ہی میں اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا اسی طرح یہودیوں نے حضرت عزیز علیہ ا السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا نیز مشرکین مکہ نے تو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں تجویز کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان گمراہوں کے اس تصور کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین کا یہ قول اس قدر بےہودہ، گستاخانہ اور احمقانہ ہے کہ اگر اللہ نے اپنی ہر صفت پر صفت حلم و تحمل اور صفت رحمل کو غالب نہ کر رکھا ہوتا تو اس گستاخی پر زمین ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی، آسمان پھٹ پڑتے اور پہاڑ ریت کے ذروں کی طرح بکھر جاتے۔ یہ تو اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے کہ آج تک وہ اللہ کے غضب سے بچے ہوئے ہیں۔ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔ قیامت میں ہر ایک کو اس کا بندہ بن کر اس کے سامنے پیش ہونا وہ سب کا پروردگار ، خالق ومالک ہے اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس نے انسان کے ایک ایک لمحے کا حساب محفوظ کر رکھا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اس کی قدرت و طاقت اور علم سے باہر ہے۔ گستاخیاں کرنے والے ہوں یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کرنے والے اس نے سب کو شمار کر رکھا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو یہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنی حاجتوں کے لئے اپنے ہزاروں معبود بنا رکھے ہیں اور اس گستاخی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنا رکھا ہے ان کا انجام تو بہت برا ہے۔ اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو وہ اللہ کے غصہ اور غضب کا شکار ہو کر رہیں گے۔ لیکن ان کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے ایمان، عمل صالح اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر رکھی ہے اللہ ان کے درمیانی سی محبت و الفت پیدا کر دے گا کہ فرشتے بھی ان سے محبت کرنے لگیں گے اور اللہ اپنی قدرت سے تمام لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دے گا۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اس قرآن حکیم کو آپ کی زبان میں نازل کیا اور اس کو اس قدر آسان بنا دیا کہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنا، ایمان، عمل صالح اورت قویٰ کی زندگی اختیار کرنا نہایت سہل ہے۔ جو لوگ ایسی زندگی اختیار کریں گے ان کا انجام بھی بہتر ہے اور ان کے لئے جنت کی ابدی نعمتوں کی خوش خبریاں ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو اتنی آسان، سہل اور سادہ تعلیمات کے باوجود کفر و شرک میں مبتلا اور غلط عقیدوں کی ہٹ دھرمی اور گندگیوں میں ملوث ہوں گے جن کا مزاج ہی جھگڑا لو اور فسادی ہے ان کا بہت برا انجام ہوگا۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اہل تقویٰ کو خوش خبریاں اور باطل پرستوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے بتا دیجیے کہ تمہیں گزشتہ قوموں کے واقعات کو یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے دین کا اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑایا۔ اسلام کی سچی تعلیمات کی پرواہ نہیں کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زبردست ترقیات اور قوت و طاقت کے باوجود ان کے برے اعمال کی وجہ سے ان کو تہس نہس کردیا گیا۔ دنیا کی چیزیں ان کے قطعات کام نہ آسکیں اور آخر کار اپنے ہر عمل کی سزا پا کر اس طرح دنیا میں تباہ و برباد ہو کر رہے کہ آج ان کی آہٹ بھی سنائی نہیں دیتی۔ ایسی قوموں کے کھنڈرات اور ویران بستیاں نشان عبرت بن چکی ہیں۔ اللہ اپنے طریقوں کو اور سنت کو تبدیل نہیں کرتا۔ اگر موجودہ نسل نے بھی وہی کیا جو گزشتہ قوموں نے کیا تھا تو ان کا انجام بھی گزشتہ قوموں سے مختلف نہ ہوگا۔ ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا انجام نیک اور پرہیز گار لوگوں کے ساتھ فرمائے اور ہمیں برے انجام سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ الحمد اللہ سورة مریم کی آیات کا ترجمہ اور تشریح مکمل ہوگئی ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اپنی بات منواسکتے ہیں انھوں نے اسی وجہ سے ہی یہ عقیدہ بنا رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اولاد رکھتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور بزرگوں کو یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی سفارش کا حق دیا جائے گا لیکن یہ لوگ اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائے گا۔ سفارش کرنے والی کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ اس حد تک ہی سفارش کرپائے گی جس حد تک اسے سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس سے بڑھ کر یہ عقیدہ اختیار کرلیا ہے کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ سے اپنی منوا سکتے ہیں بلکہ جسے چاہیں چھڑا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی اور کی بات رد کرسکتا ہے مگر اپنے چہیتے بیٹوں کی بات رد نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔ کیونکہ نہ اس کی بیوی ہے نہ وہ محبت کرنے یا کسی سے خدمت کروانے کا محتاج اور نہ اسے سلسلہ نسب رکھنے کی حاجت ہے۔ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اس کا تابع فرمان اور عاجز غلام ہے۔ اس نے ہر چیز شمار اور ہر بات کا اندراج کر رکھا ہے۔ ہر کوئی اس کی بارگاہ میں اکیلا ہی پیش ہوگا یعنی اس کے ساتھ کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا ہے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گرپڑیں۔ اولاد تو اسے رکھنے کی ضرورت ہے، جو سہارے کا محتاج ہو یا اسے کسی وارث کی حاجت ہو اللہ تعالیٰ ان ضرورتوں اور کمزوریوں سے مبّرا ہے وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم دائم رہے گا۔ اسے کسی لحاظ سے کوئی کمزوری لاحق نہیں ہوتی وہ ہر کمزوری سے پاک ہے۔ نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ وہ اسے بیٹا بنائے یا اسے اپنی خدائی میں کسی کو شریک کرے اس لیے آپ کو حکم ہوا ” کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس کا نام اللہ ہے ایک ہے وہ معبودِ برحق بےنیاز ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔ “ [ الاخلاص ] مسائل ١۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد گرداننا سنگین ترین گناہ ہے۔ ٢۔ کسی کو اولاد بنانا اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں۔ ٣۔ اس ظالمانہ اور مشرکانہ عقیدہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ زمین پھٹ جائے، آسمان شق ہوجائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرپڑیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے بےنیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنے والوں کی مذمت اور ان کے قول کی شناعت مشرکین عرب کہتے تھے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتاتے تھے اور اب بھی اپنے دعویٰ پر قائم ہیں اور ان کے علاوہ دیگر مشرکین بھی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ آیات بالا میں اول تو ان لوگوں کا قول نقل فرمایا پھر اس کی تردید فرمائی اور ان کے قول کی قباحت اور شناعت کو پوری طرح واضح فرمایا اور ارشاد فرمایا (لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا) (بلاشبہ تم نے بہت سخت بات کہی ہے) یہ معمولی بات نہیں یہ تو ایسی بات ہے کہ قریب ہے کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گرپڑیں، اولاد ہونا اس کی عظمت و جلالت اور کبریائی کے خلاف ہے اسی کو فرمایا (وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (اور رحمن کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ اولاد اختیار کرے) وہ تو ہر چیز کا خالق اور مالک ہے اسے کسی محافظ اور مددگار کی ضرورت نہیں، چونکہ خالق اور مخلوق ہم جنس نہیں اس لیے کوئی بھی اس کی اولاد نہیں ہوسکتا۔ ہر طرح کے شرک سے اس کی تنزیہ فرض ہے۔ جو چیز اس کی شان کے لائق نہیں اسے اس کے لیے تجویز کرنا اس کی ذات پاک کی طرف عیب منسوب کرنے کے مترادف ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ اسے ایسا نہ کرنا تھا اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ زندہ نہ کرے گا حالانکہ پہلی بار اور دوسری بار پیدا کرنا دونوں میرے لیے برابر ہیں۔ (یعنی یہ بات نہیں ہے کہ پہلی بار پیدا کرنا میرے لیے آسان ہو اور دوسری بار پیدا کرنا مشکل ہو) اور ابن آدم کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ یوں کہتا ہے کہ اللہ کے لیے اولاد ہے حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ کسی کو بیوی بناؤں یا اولاد بناؤں میں احد ہوں صمد ہوں نہ میں نے جنا اور نہ جنا گیا اور میرا کوئی برابر نہیں۔ (رواہ البخاری) اور حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ناگوار بات سننے پر کوئی بھی اللہ سے بڑھ کر برداشت کرنے والا نہیں ہے۔ لوگ اس کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں وہ پھر بھی انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص ١١٣، از بخاری)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ یہ شکوی ہے۔ سورة کہف کی ابتداء میں فرمایا ” ویُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا “ یعنی ان لوگوں کو زجر و تخویف سنائی جو اللہ کے سوا اوروں کو نائب و متصرف سمجھتے تھے اس کے بعد سورة کہف اور مریم میں مشرکین کے شبہات کا ازالہ کیا گیا اب آخر میں ازالہ شبہات کے بعد سورة کہف والے شکوے کا اعادہ کیا گیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نائب نہیں اور اللہ کے سوا اوروں کو متصرف اور کارساز سمجھنا بہت بڑا جرم ہے اور ولد سے یہاں ولد حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ نائب اور سفارشی مراد ہے جیسا کہ ” اتخذ “ کی تعبیر بتا رہی ہے۔ ” لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئًا اِدًّا “ سے ” اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا “ تک مشرکین کے قول مذکور کی شناعت و قباحت کو نہایت زور دار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ” شَیْئًا اِدًّا “ بہت بڑی بھاری بات۔ المنکر العظیم۔ ” ھَدًّا “” تَخِرُّ “ کا مفعول مطلق من غیر لفظہ ہے۔ ” اَنْ دْعُوْا “ سے پہلے لام تعلیلیہ مقدر ہے ای لان دعوا۔ حاصل یہ کہ انہوں نے ایسی شنیع اور گستاخانہ بات منہ سے نکالی ہے کہ اسے سن کر اگر آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تو کچھ بعید نہیں۔ اس گستاخانہ بات پر اگر غضب الٰہی بھڑک اٹھے تو سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

88 اور یہ منکر کہتے ہیں کہ رحمان اولاد رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اولاد اختیار کر رکھی ہے۔ یعنی حضرت حق تعالیٰ سے بیٹا اور بیٹیوں کی نسبت کرتے ہیں جیسے نصاریٰ اور یہود کے بعض فرقے اور کفار عرب کے بعض لوگ۔