Surat Marium

Surah: 19

Verse: 92

سورة مريم

وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾

And it is not appropriate for the Most Merciful that He should take a son.

شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But it is not suitable for the Most Gracious that He should beget a son. Meaning that it is not befitting of Him, nor is it appropriate for His lofty majesty and greatness. There is no coequal for Him in His creation, because all creatures are His slaves. This is why He says, إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ إِلاَّ اتِي الرَّحْمَنِ عَبْدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] اللہ کی اولاد قرار دینا اللہ کو گالی دینے کے مترادف ہے :۔ شایاں اس لئے نہیں کہ اولاد باپ کی نہ مخلوق ہوتی ہے نہ مملوک بلکہ اس کی شریک اور ہم جنس ہوتی ہے۔ اور اللہ ایسے تمام نقائص سے مبرا ہے نہ اس کا کوئی ہم جنس ہے نہ شریک۔ سب اسی کی مخلوق، مملوک اور اس کے عاجز بندے اور غلام ہیں۔ علاوہ ازیں اسے اولاد کی ضرورت بھی نہیں۔ اولاد سے جو جو مفادات وابستہ ہوتے ہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی اسے احتیاج نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا۝ ٩٢ۭ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

بیٹا باپ کا غلام نہیں ہوتا کہ جیسے چاہے غلام کی طرح اس پر تصرف کرے قول باری ہے (وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولداً ان کل من فی السموت و الارض الا اتی الرحمٰن عبداً ۔ رحمٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ والد کی اپنے ولد پر ملکیت باقی نہیں رہتی کہ اس کی وجہ سے وہ اس کا غلام بنا رہے اور وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے بلکہ مالک ہوتے ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹے اور غلام میں فرق رکھا ہے اور عبودیت یعنی غلام ہونے کے اثبات کے ساتھ نبوت یعنی بیٹے ہونے کی نسبت کی نفی کردی ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (لا یجزی ولد والدہ الا ان یجدہ مملوکا فیشتر یہ فیعتقہ بالشری کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ چکا نہیں سکتا الا یہ کہ وہ اسے کسی کا غلام پائے اور اس سے خرید کر اس کے ساتھ ہی اسے آزاد کر دے ) یہ روایت آپ کے اس ارشاد کی طرح ہے (الناس غادیان فبائع نفسہ فموبقھا و مشتر نفسہ فمعتقھا ۔ تمام لوگ جب صبح نکلتے ہیں تو ان کے دو گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہوتا ہے جو اپنی جان فروخت کر کے اسے ہلاکت میں ڈال دیتا ہے اور ایک وہ ہوتا ہے جو اپنی جان خرید کر کے اسے آزاد کردیتا ہے) یہاں آپ کی یہ مراد نہیں ہے کہ خریداری کے بعد اپنی جان کو آزاد کرنے کی ابتدا کرتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خریداری کے ساتھ ہی وہ اسے آزاد کردیتا ہے۔ اس طرح آپ کے قول (فیشتریہ فیعتقہ ) کا مفہوم بھی یہی ہے۔ آپ کا یہ قول اس قول کے ہم معنی ہے کہ ” فیشتر یہ فیمل کہ “ (وہ اسے خرید لیتا اور اس کا مالک بن جاتا ہے) اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ خریداری کے بعد نئے سرے سے کوئی اور ملکیت حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ مفہوم ہے کہ خریداری کے ساتھ ہی وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ نفس خریداری کے ساتھ ہی وہ اس پر آزاد ہوجاتا ہے اس امر پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ آزاد آدمی کا بیٹا جو اس کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے آزاد ہوتا ہے ۔ اسے نئے سرے سے آزاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی حکم اس شخص کا بھی ہے جو اپنے بیٹے کو خرید لیتا ہے۔ اگر ایسا باپ اپنے بیٹے کو نئے سرے سے آزاد کرنے کا محتاج ہوتا تو اسے اپنی لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کی آزادی کے سلسلے میں بھی ضرورت پیش آتی کیونکہ اس کی لونڈی جو اس کے بیٹے کی ماں ہے اس کی ملکیت میں تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والا بیٹا اصل کے اعتبار سے آزاد تھا اس لئے باپ کو اسے نئے سرے سے آزاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی لیکن خریدا ہوا بیٹا غلام تھا اس لئے وہ نفس خریداری کی بنا پر آزاد نہیں ہوگا جب تک وہ اسے نئے سرے سے آزاد نہیں کرے گا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس جہت سے دونوں بیٹوں میں اختلاف ہمارے دعوے کے حق میں اس استدلال کے لئے مانع نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ بیٹے پر باپ کی ملکیت باقی نہیں رہتی۔ بلکہ مالک ہوتے ہی اس پر اس کا آزاد ہوجانا واجب ہوجاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر بیٹے پر اس کی ملکیت کا باقی رہ جانا جائز ہوتا تو پھر لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کا غلام رہ جانا بھی اس وقت تک واجب ہوتا جب تک وہ اسے آزاد نہ کردیتا۔ لونڈی کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے اور خرید شدہ بیٹے میں اس جہت سے فرق ہے کہ پہلا بیٹا اصل کے اعتبار سے آزاد ہوتا ہے اور دوسرا بیٹا اس پر آزاد ہوجاتا ہے اور اس کی ولاء باپ کے لئے ثابت ہوتی ہے، اس فرق کی وجہ صرف یہ ہے کہ خریدشدہ بیٹا کسی اور کی ملکیت میں تھا اس لئے اس کے سوا اور کوئی چارئہ کار نہیں تھا کہ خریدنے کے ساتھ ہی باپ کی جانب سے اسے آزادی حاصل ہوجاتی تاکہ اس کی ملکیت کا استقرار ہوجاتا اس لئے کہ فروخت کنندہ کی ملکیت میں اس پر آزادی کا وقوع پذیر ہونا جائز نہیں تھا کیونکہ اگر فروخت کنندہ کی ملکیت میں آزادی وقوع پذیر ہوجاتی تو اس صورت میں بیع باطل ہوجاتی۔ اس لئے کہ یہ بیع آزادی ملنے کے بعد ہوتی اور ظاہر ہے کہ ایک آزاد شخص کو فروخت کرد ینا جائز نہیں ہوتا۔ اس طرح بیع کی حلات میں آزادی کا وقوع پذیر ہونا بھی درست نہیں تھا اس لئے کہ آزادی کا حاصل ہوجانا اس حالت میں بیع کی صحت کے لئے مانع بن جاتا جس حالت میں اسے آزادی حاصل ہوئی تھی اس لئے ضرور یہو گیا کہ اسے دوسری ملکیت یعنی باپ کی ملکیت کے اندر آزادی حاصل ہو۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں کہ ملکیت نہ ہونے کی حالت میں آزادی وقوع پذیر ہوجائے اس لئے کہ اس سے یہ لازم آئے گا کہ ملکیت کے اندر نہ ہونے کی حالت میں اسے آزادی دی گئی ہے۔ اس بنا پر یہ ضروری ہوگیا کہ اسے دوسری ملکیت کے اندر آزادی حاصل ہو۔ رہ گیا وہ بیٹا جو اس کی ملکیت کے اندر اس کی لونڈی کے بطن سے پیدا ہوا ہو تو اگر ہم اس پر اس کے باپ کی ملکیت کا اثبات کردیں تو اس ملکیت کی حالت میں ہی آزادی کا مستحق وار پائے گا اس لئے اس پر اس کی ملکیت کا اثبات جائز نہیں ہوگا جبکہ بیٹے کے اندر وہ بات موجود ہو جو باپ کی ملکیت کی منافی ہے اور وہ ہے اس حالت میں آزادی کا استحقاق اس بنا پر وہ اصل کے اعتبار سے آزاد قرار دیا جائے گا اور اس پر باپ کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی۔ اور اگر ابتداً اس پر اس کی ملکیت کا ثبوت ہوجاتا تو وہ اس حالت میں آزادی کا مستحق ہوجاتا جس حالت میں باپ اس کے اثبات کا ارادہ کرتا کیونکہ اس چیز کو واجب کرنے والا سبب موجود تھا اور وہ یہ تھا کہ باپ کے لئے بیٹے کی ماں کی ملکیت ثابت تھی اور ایسی ملکیت کا اثبات درست نہیں ہوتا جو وجود میں آنے کی حالت ہی میں منتقی ہوجائے۔ دونوں بیٹوں کے درمیان اس جہت سے اختلاف اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ دونوں حالتوں میں بیٹے پر اس کی ملکیت بیٹے کی آزادی اور اس کی حریت کی موجب بن جائے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٢ (وَمَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ) ” دراصل اولاد کی خواہش اور ضرورت ایک کمزوری ہے۔ اس بات کی وضاحت پہلے بھی کی جا چکی ہے کہ اولاد کی ضرورت انسان کو ہے اور اس لیے ہے کہ وہ خود فانی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مرنا ہے ‘ اس دنیا سے ہمارا نام و نشان مٹ جانا ہے۔ اپنی اس کمزوری کے تحت ہم اولاد کی خواہش کرتے ہیں۔ ہم اپنی اولاد کے ذریعے دراصل اپنی ہستی کا تسلسل چاہتے ہیں ‘ اولاد کی شکل میں ہم اس دنیا میں اپنی بقا چاہتے ہیں۔ مندرجہ ذیل الفاظ میں Pyramids (اہرام مصر) کے حوالے سے یہی فلسفہ بیان ہوا ہے : Calm and self possessed , Still and resolute , The Pyramids echo into eternity , They define cry of man&s will , To survive and conquer the storms of time . یعنی فراعنہ مصر نے عظیم الشان اہرام اسی خواہش کے تحت تعمیر کیے تھے کہ ان کی وجہ سے ان کا نام اس دنیا میں زندہ رہے گا۔ بہر حال انسان یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ وہ فانی ہے ‘ کسی نہ کسی طریقے سے اس دنیا میں اپنا دوام چاہتا ہے۔ اسی خواہش کے تحت وہ دنیا میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑنا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ اولاد کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ بہر حال ایسی کوئی ضرورت ہم انسانوں کو ہی لاحق ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہر کمزوری سے پاک ہے۔ اسے کسی ایسے سہارے کی ضرورت بھلا کیونکر ہوگی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(19:92) ما ینبغی۔ مضارع منفی۔ واحد مذکر غائب انبغاء انفعال مصدر۔ لائق نہیں ہے۔ زیبا نہیں ہے۔ نہیں ہوسکتا ۔ سزاوار نہیں ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ناممکن اور محال ہے اس لئے کہ اولاد ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں یا پھر اولاد کمزوری میں سہارے کے لئے ہوتی ہے اور اللہ اپنی ذات اور صفات میں ہر ایک سے بےنیاز ہے وہ ہمیشہ سے عزیز و غالب ہے اور ہمیشہ عزیز و غالب رہے گا۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

92 حالانکہ رحمان کو یہ لائق نہیں اور اس کی یہ شان نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے اور وہ اولاد رکھے۔