Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 129

سورة البقرة

رَبَّنَا وَ ابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾٪  15

Our Lord, and send among them a messenger from themselves who will recite to them Your verses and teach them the Book and wisdom and purify them. Indeed, You are the Exalted in Might, the Wise."

اے ہمارے رب !ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ibrahim's Supplication that Allah sends the Prophet Allah mentioned Ibrahim's supplication; رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ ايَاتِكَ ... "Our Lord! Send amongst them a Messenger of their own, who shall recite unto them Your verses, Allah mentioned Ibrahim's supplication for the benefit of the people of the Sacred Area (to grant them security and provision), and it was perfected by invoking Allah to send a Messenger from his offspring. This accepted supplication, from Ibrahim, conformed with Allah's appointed destiny that Muhammad be sent as a Messenger among the Ummiyyin and to all non-Arabs, among the Jinns and mankind. Hence, Ibrahim was the first person to mention the Prophet to the people. Ever since, Muhammad was known to the people, until the last Prophet was sent among the Children of Israel, Jesus the son of Mary, who mentioned Muhammad by name. Jesus addressed the Children of Israel saying, إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِى مِن بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ I am the Messenger of Allah unto you, confirming what is before me in the Tawrah, and giving glad tidings of a Messenger to come after me, whose name shall be Ahmad. (61:6) This is why the Prophet said, دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبُشْرَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَم The supplication of my father Ibrahim and the glad tidings brought forth by Jesus the son of Mary. The Prophet said, وَرَأَتْ أُمِّي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُورُ الشَّام My mother saw a light that went out of her and radiated the palaces of Ash-Sham. It was said that; the Prophet's mother saw this vision when she was pregnant with, narrated this vision to her people, and the story became popular among them. The light mentioned in the Hadith appeared in Ash-Sham (Greater Syria), testifying to what will later occur when the Prophet's religion will be firmly established in Ash-Sham area. This is why by the end of time, Ash-Sham will be a refuge for Islam and its people. Also, Jesus the son of Mary will descend in Ash-Sham, next to the eastern white minaret in Damascus. The Two Sahihs stated, لاَا تَزَالُ طَايِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لاَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلاَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ كَذَلِك There will always be a group of my Ummah who will be on the truth, undeterred by those who fail or oppose them, until the command of Allah comes while they are on this. Al-Bukhari added in his Sahih, وَهُمْ بالشَّام And they will reside in Ash-Sham. The Meaning of Al-Kitab wal-Hikmah Allah said, ... وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ ... and instruct them in the Book, meaning, Al-Qur'an, ... وَالْحِكْمَةَ ... and Al-Hikmah, meaning, the Sunnah, as Al-Hasan, Qatadah, Muqatil bin Hayyan and Abu Malik asserted. It was also said that `Al-Hikmah', means `comprehension in the religion', and both meanings are correct. ... وَيُزَكِّيهِمْ ... and purify them, Ali bin Abi Talhah said, that Ibn Abbas said that the Ayah means, "With the obedience of Allah." ... إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ Verily, You are the Mighty, the Wise. This Ayah stated that Allah is able to do anything, and nothing escapes His ability. He is Wise in His decisions, His actions, and He puts everything in its rightful place due to His perfect knowledge, wisdom and justice.

دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ماحصل اہل حرم کے لیے یہ دعا بھی ہے کہ آپ کی اولاد میں سے ہی رسول ان میں آئے چنانچہ یہ بھی پوری ہوئی ۔ مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم ابھی مٹی کی صورت میں تھے میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسیٰ نے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ، جس سے شام کے محل چمکا دئے ۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی ۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے حضرت روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کارسول ہوں ، مجھ سے پہلے کی کتاب توراۃ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمہیں بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے ، خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے ، اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز جائے گا ۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے ۔ بخاری مسلم میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ، ان کے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے صحیح بخاری میں کہ وہ شام میں ہوں گے ۔ ابو العالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے ۔ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے حسن اور قتادہ اور مقاتل بن حیان اور ابو مالک وغیرہ کا یہی فرمان ہے اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے ۔ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا ، بھلائیں کرانا ، برائیوں سے بچانا ، اطاعت الٰہی کر کے رضائے رب حاصل کرنا ، نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا ۔ اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز نہیں کر سکتی جو ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہے یعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں ، وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

129۔ 1 یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی ج 20، ص 181، 189) 129۔ 2 کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر وثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ 129۔ 3 تلاوت وتعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦٠] یعنی اہلیان شہر مکہ میں سے رسول مبعوث فرما۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اولاد اسماعیل (علیہ السلام) میں سے نبی عربی پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں۔ && (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الثانی) [ ١٦١] حکمت کے لفظی معنی سمجھ اور دانائی ہے۔ پھر اس میں وہ سب طور طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر سر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ پہلی قسم کو حکمت علمی اور دوسری قسم کو حکمت عملی کہتے ہیں اور امام شافعی (رح) نے اپنی تصنیف && الرسالہ && میں بیشمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے تو اس سے مراد سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو ! مجھے یہ کتاب (قرآن) بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی۔ && (ترمذی) ابو داؤد وغیرہما) نیز قرآن کریم کی یہ آیت (وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۝ۘ) 59 ۔ الحشر :7) سنت رسول کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہے۔ [ ١٦٢] تزکیہ نفس مشہور لفظ ہے یعنی انہیں پاکیزہ بنائے اور سنوارے اور سنوارنے میں، اخلاق، عادات، معاشرت، تمدن، سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر صحابہ کرام (رض) کی تربیت کرنا بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری (رض) (جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے پیار بھی بہت تھا) نے حضرت بلال (رض) کو صرف یہ کہا تھا && اے کالی ماں کے بیٹے۔ && تو اتنی سی بات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر غفاری (رض) پر شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا : انک امرء فیک امرالجاھلیۃ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) یعنی تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے) یہ تھا آپ کا انداز تربیت اور یہی (یزکیھم) کا مفہوم ہے۔ (تشریح کے لیے سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٤ ملاحظہ فرمائیے۔ )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا کا خاتمہ ہے۔ ” رَسُوْلًا “ سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، کیونکہ اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہوا۔ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں اپنے متعلق بتائیں، تو آپ نے فرمایا : ” میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں اور میری والدہ کو جب میرا حمل ٹھہرا تو انھوں نے دیکھا کہ ان (کے بدن) سے ایک نور نکلا جس سے بصریٰ روشن ہوگیا اور بصریٰ شام کی سرزمین سے ہے۔ “ (اسے امام حاکم نے روایت کیا، امام ذہبی نے صحیح کہنے میں ان کی موافقت کی۔ (مستدرک : ٢؍٦٠١، ح : ٤١٧٦) شیخ البانی نے اسے صحیح کہا۔ (سلسلہ الصحیحہ : ١٥٤٥) شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گروہ کے قیامت تک حق پر رہنے کی خبر دی گئی ہے وہ بھی شام میں ہوگا۔ ابن کثیر میں صحیح بخاری کے حوالے سے ہے : ( وَھُمْ بالشَّامِ ) ” وہ شام میں ہوں گے۔ “ (حدیث : ٣٦٤١، ٧٤٦٠) ” الْكِتٰبَ “ سے مراد قرآن مجید اور ” وَالْحِكْمَةَ “ سے مراد حدیث پاک ہے اور اسلام کے بنیادی اصول یہی دو ہیں۔ پاک کرنے سے مراد شرک اور گناہوں سے پاک کرے اور اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ ” اِنَّكَ اَنْتَ “ ضمیر مکرر لانے کے علاوہ ” الْعَزِيْز “ پر الف لام سے دوہرا حصر پیدا ہوگیا، اس لیے ” تو ہی “ ترجمہ کیا گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The prayer of Ibrahim (علیہ السلام) for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Let us start by commenting on certain words which occur in this verse. The Arabic word Yatlu يَتْلُو (translated in English as |"recite|", or |"read out|" ) comes from the word Tilawah, (تلاوہ) which lexically signi¬fies |"to follow, to obey|", but in the terminology of the Qur&an and the Hadith denotes the recitation or reading of the Holy Qur&an or of a Di-vine Book, for one who reads a Divine Book is also required to obey it fully. The word also suggests that it is obligatory to read the Holy Qur&an exactly as it has been revealed by Allah, and not to add or sub-tract a word on one&s own part, not even to change the pronunciation of a word which often may, in the Arabic language, change the very meaning of the word concerned. In his |"Mufradat al-Qur&an مفردات القرآن |", Imam al-Raghib al-Isfahani (رح) says that the word Tilawah cannot, in current idi¬om, be applied to the reading of any book other than the Word of Al¬lah. The word Kitab کتاب (Book) in this verse, of course, refers to the Holy Qur&an itself. As to the word Hikmah حکمہ (usually translated in English as |"wisdom|" ), it carries various meanings in Arabic - for example, arriving at the truth , justice, exact knowledge, etc. (al-Qamus). According to al-Raghib al-Isfahani (رح) ، when the word is used in speaking of Allah, it connotes the total and perfect knowledge of all existents, and flawless creation; but when applied to someone other than Allah, it connotes a proper knowledge of the existents, and good deeds. In connection with the present verse, Maulana Mahmud al-Hasan has interpreted the word as |"profound truths, or subtle realities|", while Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) has taken it to mean |"the art of understanding properly|". The commentators from among the blessed Companions and their immediate successors, whose interpretations come directly from the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself, have advanced different connotations of the word Hikmah حکمہ - some say that it refers to the commentary and exegesis of the Holy Qur&an, others believe that it means the proper understanding of the religion (Din دین ), or the injunctions of the Shari&ah, or such commandments of Allah which have been received through the word of the Holy Prophet g . But the truth of the matter is that in spite of the apparent variety of expressions used, the substance of all these statements is the same - namely, the Way (Sunnah) of the Holy Prophet and the Hadith. This is the interpretation reported from Qatadah by Ibn Kathir and Ibn Jarir. Commentary Now, to proceed with the commentary, let us consider why Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) in praying for the well-being of his descendants in this world and in the other, requested Allah to send a prophet from among them. The reason is twofold. Firstly, the appearance of a prophet from among them would in itself be an honour and a blessing. Secondly, the prophet being a member of their own group, they would be thoroughly familiar with his past and present and with his ways, and thus find it easy to have trust in him, and to profit from his guidance. According to a hadith, in accepting this prayer Allah promised that this prophet would be sent in the last of all ages. (Ibn Jarir and Ibn Kathir) According to a hadith reported by Imam Ahmad in his |"Musnad|", the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that Allah had chosen him as the Last Prophet at a time when Sayyidna Adam (علیہ السلام) was not yet born and only his clay was being prepared, and that he was the manifestation of the prayer of his father, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، of the good tidings brought by Sayyidna ` Isa (Jesus Christ (علیہ السلام) and of the dream seen by his mother. The good-tidings refer to the announcement made by Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) as reported in the Holy Qur&an: مُبَشِّرً‌ا بِرَ‌سُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ I have brought the good-tidings of a prophet who is to come after me, and his name is Ahmad.|" (61:6) And the mother of the Holy Prophet had, during her pregnancy, seen in a dream that a light went out of her which illumined the places in far-off Syria. Then, the words of the present prayer of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) have been repeated in two different places in the Holy Qur&an - once in Surah |"&Al` Imran|" (Ch.3) and then in Surah |"Al-Jumu` ah|" (Ch. 62). Both the passages where these words have been repeated speak of the prophethood of Sayyidna Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and thus show that he is the prophet whom Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had prayed for. All these verses - namely, the present verse from Surah |"Al-Baqarah|", and the other two from Surah |"&Al-` Imran|" and Sarah |"Al-Jumu` ah|" respectively - say the same thing about the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the same words. That is to say, they define the purpose of his being sent to the world as the Messenger of Allah and his functions as a prophet. These functions are threefold. Firstly, to recite the verses; secondly, to teach the Book and also to teach |"wisdom|"; and thirdly, |"to purify|" the people. Now, let us examine the three in detail. (1) The verse speaks separately of |"reciting|" the Holy Qur&an and of |"teaching|" it. Since |"reciting|" pertains to the words, and |"teaching|" to their meanings, the explicit distinction between the two shows that the words of the Holy Qur&an are no less important in themselves and for themselves than their meanings, and that the recitation and preservation of the words is obligatory, and constitutes an act of worship. In order to understand this aspect of the question we have only to recall that the first and immediate listeners and disciples of the Holy Prophet not only knew Arabic very well but were themselves very eloquent speakers of the language, some of them being even poets. For an audience like this it should have apparently been enough to recite the Holy Qur&an, without any explanation or commentary, for them to be taught - in their case, the |"reciting|" and the |"teaching|" should have, for all practical purpose, become one and the same thing. Why has the Holy Qur&an, then, mentioned them separately as two distinct prophetic functions? If one considers the question seriously, one can easily draw two important conclusions. To begin with, one would come to see that the Holy Qur&an is not like other books where meanings are the ultimate object, while words have only a secondary place as being no more than a vehicle for the ideas, and can hence tolerate minor changes and modifications so long as the meaning does not suffer. In the case of man-made books, it would thus be totally frivolous to go on reading the words without paying any attention to the meanings. On the contrary, in the case of the Holy Qur&an the words are in themselves as necessary and inalienable a part of the intention as the meanings, and the Shari` ah has laid down particular injunctions with regard to the words of the Holy Qur&an. That is why in the Science of the Principles of Islamic Jurisprudence (Usul al-Fiqh اصول افقہ) the Holy Qur&an has been defined as comprehending words and meaning both. In other words, if the meanings of the Holy Qur&an are expressed in a different language, or even if certain other Arabic words are substituted for the revealed ones, such a version shall not be entitled to the name |"Qur&an|", in spite of the meanings being intact. Consequently, if one were to recite this modified version in Salah, one&s prayers shall not be valid. Similarly, a reading of this version shall not bring one the reward promised in the Hadith for the recitation of the Holy Qur&an, nor shall any of the injunctions related to the Holy Qur&an apply to it. Hence the Fuqaha& have forbidden the printing and publication of a translation of the Holy Qur&an without the Arabic text. It is quite wrong to speak of an |"Urdu Qur&an|" or |"English Qur&an|", simply be-cause a translation of the original into any language whatsoever cannot properly be called |"the Qur&an|". In short, the word Yatlu یتلو in the present verse leaves no doubt as to the fact that the |"recitation of the verses|" is an end in itself, for one does not |"recite|" meanings, but words. Of course, it goes without saying that Allah has sent the Holy Qur&an for us to understand it and to follow its guidance. To be content with memorizing the words alone and being indifferent to the meanings would merely show one&s ignorance of the nature of the Book of Allah, and one&s ungratefulness. But there are so many people these days who suppose that the Holy Qur&an is like other books, and believe that it is a waste of time to read or memorize its words without knowing what they mean. In view of this wide-spread error, we cannot insist too much on the truth that the recitation of the words of the Holy Qur&an is in itself a regular act of worship and brings a great reward. This is borne out by the practice of the Holy Prophet and his blessed Companions. They knew the meanings of the Holy Qur&an as no one else can, and yet they never thought that once they had understood it and acted upon it, nothing more was required of them. On the contrary, they kept reciting the Holy Qur&an again and again as long as they lived. Some of the Companions used to recite the whole Book of Allah in a single day, some in two days, and some in three. Reciting the Holy Qur&an in one week has always been quite a usual practice among the Muslims, which is indicated by the division of the Holy Qur&an into seven stages (Manazil منازل ). In fact, by instituting the recitation of the Holy Qur&an as an act of worship, carrying a reward of its own, and by giving it a separate and regular position among the prophetic functions, Allah has been very merciful to those Muslims who are not for some reason yet able to understand the meanings, and has saved them from the misfortune of being indifferent to the words and thus being totally deprived of the blessings which flow from His Book. Even such Muslims should, no doubt, keep trying to understand the meanings too so that they may receive the blessings in full, and the ultimate purpose of the Revelation may be realized. (2) According to the present verses, |"teaching the Book|" is a prophetic function distinct from |"reciting the Verses|". We can easily infer from it the principle that in order to understand the Holy Qur&an it is not sufficient merely to know the Arabic language, but that it also requires the |"teaching|" of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . As everyone knows, in order to learn a science or art - be it medicine or engineering, or something as ordinary as cookery - it is not enough to read a book or to be proficient in a language. Had it been the only qualification required, one could have easily mastered all the sciences and the arts on which one could find books written in the language one knew. To learn the meanest craft, then, one needs the regular and constant guidance of a teacher. This being so, how can one hope to understand, unaided, the Holy Qur&an which has something to say on the most difficult subjects possible, ranging from theology to philosophy and physics? Had a competence in the Arabic language been sufficient for this task, scores of Jewish and Christian scholars and men of letters in the Arabic countries today would have been counted among the greatest commentators as would have been Abu Jahl ابو جھل and Abu Lahab ابو لہب in the days of the Holy Prophet . By distinguishing |"the teaching of the Book|" from |"the reciting of the verses|" as a distinct prophetic function, the Holy Qur&an has underlined the fact that in order to understand the Book of Allah properly it is not enough, even for those who know Arabic very well, merely to listen to a recitation of the verses, but that such an understanding can be acquired only through the teaching of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and that to separate the one from the other, and to make an attempt at interpretation on one’ s own is no more than a self-delusion. Had it not really been necessary to explain and teach the meanings of the Holy Qur&an, why should have Allah sent us a Messenger? There were many other ways of conveying His Book to men. But Allah knows everything, and is All-Wise. He knows that an understanding of His Book depends on the guidance of a teacher much more than that of human sciences and arts does - in fact, on the guidance, not of an ordinary teacher, but of one who in his turn receives guidance from Allah Himself directly through Revelation (Wahy وحی ), and who is designated in Islamic terminology as a Nabiyy نبی (Prophet) and a Rasul رسول (Messenger of Allah). According to the Holy Qur&an itself, Allah has sent the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to men for the express purpose of explaining to them in detail the injunctions and the meanings of the Divine Book لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ : |"So that you should explain to men what We have revealed for them|". (16:44) According to the present verse, the prophetic function of |"teaching the Book|" also includes the |"teaching of Hikmah حِکمہ As we have shown above, although this word carries various meanings in the Arabic language, yet, with reference to this verse and similar ones, the blessed Companions and their immediate successors have interpreted Hikmah حِکمہ as |"the Sunnah|" or the Way of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . It means that along with |"teaching the Book|" the prophetic functions include the teaching of the principles and modes of spiritual discipline. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has himself said, اِنَّما بُعثِتُ مَعَلِماً have been sent only as a teacher.|" From this, it necessarily follows that his followers are required to be disciples, and that every Muslim, man or woman, should as a Muslim be a life-long student, keen to learn what the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has taught. If one cannot for some reason master the different sciences connected with the Holy Qur&an and the Sunnah, one must try to acquire at least a satisfactory knowledge and understanding of the basic doctrines of Islam and of the fundamental injunctions of the Shari&ah which are absolutely indispensable for every Muslim. (3) |"Purifying the people|" is also an essential prophetic function. The Arabic word Tazkiyah تذکیہ denotes purifying a thing or person from all kinds of filth, internal as well as external. One can see for oneself what the different kinds of external filth are - the Shari&ah has clearly defined them. The internal varieties include, on the one hand, false beliefs like infidelity (Kufr کفر ), association (Shirk شرک ), or total reliance on someone other than Allah, and, on the other hand, pride, vanity malice, jealousy, love of worldly things, etc. Although the evil nature of such beliefs and tendencies has been fully explained in the Holy Qur&an and the Sunnah, yet in making the purification of the people|" a distinct and separate prophetic function the present verse indicates that just as a mere knowledge of words and technical terms does not make one the master of a science or art, in the same way a knowledge, or even a proper understanding of its principles does not by itself make one perfect in the science or art concerned. To attain any degree of perfection one must also learn to put the principles into practice, and |"realize|" them in oneself and for oneself, which again requires the supervision of an authentic teacher and guide. In the Way of Sufis (Tariqah) the function of the spiritual guide (Shaykh) is to help the disciple in obeying the injunctions of the Holy Qur&an and the Sunnah so thoroughly that it becomes a matter, not of effort, but of habit - so to say, his very |"nature|".36 36. At this point, we must sound a note of warning. It has grown, in our day, almost habitual to speak of Islam as |"the religion of action|" - if not of |"activism|". In such phrases, the implication is never absent that |"action|" is tc be considered as an anti-thesis of |"thought|", and |"practice|" as that of |"theory|" - as if there is a dichotomy, and the two activities can hardly be reconciled with each other. And there is always the insinuation that in order to be worthy of any respect one must make an either/or kind of choice in favour of |"action|" and |"practice|" as against |"thought|" and |"theory|". Such formulations are no older than four centuries, and are the necessary products of certain dilemmas which historically arose in the society of the Christian West. They do not and cannot, as such, belong to a religious or metaphysical approach to things. In so far as an activity can be described as specifically |"human|", it cannot be purely automatic, but is preceded by thought. In other words, all |"practice|" is governed by a |"theory|", and all |"action|" guided by |"thought|" or some principle, good or bad. The rule is so general that it applies even to the action of those who have been promoting the dichotomy. As far as the Islamic way of looking at things is concerned, it goes without saying that no action or practice, however good, can have the slightest merit or spiritual efficacy until and unless it carries a divine sanction. It logically follows that the foremost duty of a Muslim is to acquaint himself with divine commandments, and then to obey them. One can, if one likes, give to the first the name of |"theory|", and the second the name of |"practice|". But there is no dichotomy involved, nor any choice called for۔ No |"practice|" can be valid without being informed by |"theory|", and no |"theory|" can be of much avail without being put into |"practice|". It is |"theory|" which makes |"practice|" meaningful, and it is through |"practice|" alone that one acquires a true knowledge of |"theory|". They are not two entities, but only two ways of considering the same reality. What finally matters is |"realization|" or making the essential truths |"real|" to oneself. In the West itself, and as late as the end of the Middle Ages, there were people who knew that theoria and praxis went together in the terminology of spiritual disciplines. In fact, the Greek word does, in its original meaning, say all that we have been trying to explain here. For, even if |"theory|" in modern European languages has come to mean just a &speculation&, or a &supposition&, even a &fancy&, the Greek verb theoreo signified |"to see|", and the noun theoros denoted the |"man who sees|". Thus, theoria was not merely a fancy, but a truth which could be |"seen|", or actively realized. Now that we are on the subject of purification (tazkiyah تزکیہ ), we might add another important consideration. From the days of the First Prophet to the days of the Last (علیہم السلام) it has been the Way of Allah that in order to guide men and to show them the Straight Path, He has been sending them not only His Books but His prophets also. This indicates the general principle that for their guidance men need, on the one hand, a Divine Teaching revealed in the form of a Book, and, on the other, a human teacher in the form of a prophet who should train and discipline them into absorbing the divine guidance fully. Men need not merely one of these, but both. For, a man alone can be the teacher of another man, and not a book - which serves only as an aid. That is why Islam began with a Book and a Prophet, and the two, working together, produced a society of men who are unparalleled in history for their rectitude. For the coming generations too, the two ba¬sic principles of guidance have continued to function in the form of the Shari&ah and the Men of Allah|". The Holy Qur&an has emphasised the point again and again. Let us quote a few instances: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩﴾: |"0 believers, fear Allah, and be with the truth-ful|" (9:119). In summing up the qualities of |"the truthful|" (Al-Sadiqun الصدیقون ), another verse ends with the words: أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ |"It is they who are truthful, and it is they who are the God-fearing|". (2:177) As we have explained in our commentary on the first chapter, the Surah |"Al-Fatihah الفاتحة |" is the quintessence of the Holy Qur&an, and the essence of this Surah is the guidance towards the Straight Path (Al-Sirat al-Mustaqim السیرۃ المتقیم). Now, in order to indicate the Straight Path the Holy Qur&an has, instead of calling it the Path of the Qur&an or the Path of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or the Path of the Sunnah, spoken of the Men of Allah who can show the Straight Path to the seeker. Says the Holy Qur&an: صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ the path of those on whom You have bestowed Your grace, not of those who have incurred Your wrath, nor of those who are misguided|". (1:7) An-other verse provides greater specification - فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِين : |"Those on whom Allah has bestowed His grace - the prophets, the truthful, the martyrs and the righteous.|" (4:69) Similarly, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has, for the benefit of all the later gen¬erations of Muslims, explicitly named certain personalities who should be followed in religious matters: یا ایھا الناس انِّی ترکتُ فیکم ما اَن اَخَذتم بہ لَن تضِلُّوا کتاب اللہ عِترَتِی اَھلِ بیتی |" I am leaving behind me two things; if you stand firm by them you will never fall into misguidance - firstly, the Book of Allah, and, secondly, my descendants and the members of my family.|" (Tirmidhi ترمذی) A hadith reported by Al-Bukhari says: اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر |"After me, follow Abu Bakr and ` Umar.|" And a third hadith says: علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین |"You must adopt my way (the Sunnah) and the way of Al-Khulafa& al-Rashidin|" - that is, the first four rightly-guided Caliphs. In short, whether it be religion or the different sciences and arts, the acquisition of knowledge in the proper sense of the term depends on profiting from authentic books and authentic teachers. In the case of religion, however, people are, while turning to these two modes, liable to fall into the error of putting exclusive or excessive emphasis on one of them alone, which brings them more harm than good. Thus, there are, on the one hand, people who neglect the Book of Allah, and begin to adore their scholars and spiritual masters, without taking the trouble of finding out whether they are obedient to the Shari` ah or not. In fact, this has been the characteristic malady of the Jews and the Christians. Speaking of them, the Holy Qur&an says: اتَّخَذُوا أَحْبَارَ‌هُمْ وَرُ‌هْبَانَهُمْ أَرْ‌بَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ : |"They have taken their rabbis and their monks as their lords apart from Allah.|" (9:31) Obviously, this is the royal road to Shirk شرک (association) and Kufr کفر (infidelity), on which millions have perished, and go on perishing. On the other hand, there are people who claim that the Book of Allah is by itself sufficient for them, and that in order to understand it they do not need the guidance of a teacher or a scholar or a spiritual master. This too is a form of misguidance, for an attempt to interpret the Book of Allah on one&s own, without the aid of reliable specialists, inevitably draws one into all sorts of errors, makes one a slave of one&s own desires and inclinations, and may, in some cases at least, lead one straight outside the pale of Islam. So, what one is required to do is to put each of these two means of knowledge in its proper place, and to profit from both. One should be quite clear about the basic principle in this respect - to Allah alone belongs the authority to lay down a commandment, and it is Allah alone we have been called upon to obey, while the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is a means of helping us to know how Allah is to be obeyed, and one obeys Him on the ground that to obey the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is to obey Allah Himself. Besides that, one should, when faced with difficulties in understanding the Holy Qur&an and the Hadith or in acting upon them, turn for help, willingly and respectfully, to the words and deeds of the masters in these subjects, and consider it to be the key to the door of salvation. There is a second conclusion to be drawn from the fact that the present verse includes the teaching of the Book among the prophetic functions. As we know, Allah has promised to safeguard the Holy Qur&an Himselfإِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ﴿٩﴾ : |"It is We who have revealed the Guidance, and it is We who watch over it.|" (15:9) Consequently, every single word, every consonant and every vowel of the Holy Qur&an has remained intact upto this day, and shall remain intact as long the world lasts. Now, according to the present verse, the teaching of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is absolutely indispensable for a proper understanding of the Holy Qur&an, and without this guidance it is not possible to act upon the Holy Qur&an in a real sense. It logically follows from it that the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should also receive divine protection in their own degree, and remain intact as a whole till the end of the world; otherwise, the preservation of the words of the Holy Qur&an would not, by itself, fully serve the purpose for which Allah has revealed it. It goes without saying that the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) are identical with what is called the Sunnah or the Hadith. Although Allah has not promised the same degree of protection to the Hadith as to the Holy Qur&an, and the words of the Sunnah have not been preserved exactly in the same manner as the words of the Holy Qur&an, yet the prophetic interpretations too must, according to the present verse, remain intact, and it has, taken as a whole, remained intact upto this day.Whenever an attempt has been made to distort a Hadith or to invent spurious ones, the specialists in the science have always exposed the fraud. Thus, in accordance with the prediction implicit in the present verse, Allah has preserved the teachings of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from the days of the blessed Companions to our own day through fully authentic collections of the Ahadith and through the masters of this subject. And this divine protection shall continue to the last day of the world. For, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself has assured us that in his Ummah there shall always remain till the end of the world a group of authentic scholars who shall jealously and watchfully guard the Holy Qur&an and the Hadith against all attempts at distortion or misrepresentation. This hadith by itself gives the lie to some contemporary writers who have, for the ulterior motive of discrediting the injunctions of the Islamic Shari&ah, been trying to propagate the notion that the whole body of the Ahadith we possess is inauthentic and hence unreliable. But anyone who has eyes to see can easily understand the stratagem - if one cannot trust the Hadith, one can no longer trust the text of the Holy Qur&an. And this is exactly what the Westerners and their local allies want to accomplish - that is, to make the Muslims turn away from the Holy Qur&an. In the end, let us note that the three prophetic functions which Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) referred to in his prayer, and which the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was sent to perform, were fulfilled in his own life-time. In order to have an idea of the great transformation which the recitation of the Holy Qur&an, the teaching of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his purifying influence brought about in men, it is enough to see what the Holy Qur&an says in praise of his Companions (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى لْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَ‌اهُمْ رُ‌كَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِ‌ضْوَانًا |"Those who are with him are hard against the disbelievers, merciful to one another; you see them-bowing and prostrating themselves (in prayers), seeking the bounty of Allah and His pleasure|". (48:29).

خلاصہ تفسیر : اے ہمارے پروردگار اور (یہ بھی دعا ہے کہ) اس جماعت کے اندر (جس کے پیدا ہونے کی دعا اپنی اولاد میں سے کر رہے ہیں) انہی میں کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیات پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب (کے مضامین) کی اور (اس میں) خوش فہمی (کا سلیقہ حاصل کرنے) کی تعلیم دیا کریں اور ان کو (اس تعلیم و تلاوت کے ذریعہ جہالت کے خیالات اور اعمال سے) پاک کریں بلاشبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام، تشریح لغات : يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ مصدر تلاوۃ سے مشتق ہے، تلاوت کے اصلی معنی اتباع اور پیروی کے ہیں اصطلاح قرآن و حدیث میں یہ لفظ قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتابوں اور کلام الہی کے پڑھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس کلام کے پڑھنے والے کو اس کا پورا اتباع کرنا لازم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ٹھیک اسی طرح پڑھنا ضروری ہے اپنی طرف سے کسی لفظ یا اس کی حرکات میں کمی بیشی یا تبدیلی کی اجازت نہیں امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ کلام الہی کے سوا کسی دوسری کتاب یا کلام کے پڑھنے کو عرفاً تلاوت نہیں کہا جاسکتا، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ اس میں کتاب سے مراد کتاب اللہ ہے اور الحکمۃ کا لفظ عربی لغت میں کئی معنے کے لئے آتا ہے حق بات پر پہونچنا، عدل و انصاف، علم وحلم وغیرہ (قاموس) امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کے لئے بولا جائے تو موجودات کی صحیح معرفت اور نیک اعمال کے لئے جاتے ہیں ترجمہ شیخ الہند میں اس کا ترجمہ تہہ کی باتیں اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے اور لفظ حکمت عربی زبان میں کئی معنی کے لئے بولا جاتا ہے علم صحیح، نیک عمل عدل و انصاف قول صادق وغیرہ (قاموس وراغب) اس لئے دیکھنا ہے کہ اس آیت میں لفظ حکمت سے کیا مراد ہے مفسریں صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین جو معانی قرآنی کی تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھ کر کرتے ہیں اس جگہ لفظ حکمت کے معنی بیان کرنے میں اگرچہ ان کے الفاظ مختلف ہیں لیکن خلاصہ سب کا ایک ہی ہے یعنی سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، امام تفسیر ابن کثیر وابن جریر نے حضرت قتادہ سے یہی تفسیر نقل کی ہے کسی نے تفسیر قرآن اور کسی نے تفقہ فی الدین فرمایا ہے اور کسی نے علم احکام شرعیہ کہا اور کسی نے کہا کہ ایسے احکام الہہ کا علم جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہی بیان سے معلوم ہوسکتے ہیں ظاہر ہے کہ ان سب کا حاصل وہی حدیث وسنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، لفظ وَيُزَكِّيْهِمْ زکوٰۃ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں طہارت اور پاکی اور یہ لفظ ظاہری اور باطنی ہر طرح کی پاکی کے لئے بولا جاتا ہے، معارف و مسائل : تشریح مذکور سے آیت کا مفہوم واضح ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آئندہ نسل کی فلاح دنیا وآخرت کے واسطے حق تعالیٰ سے یہ دعا کی میری اولاد میں ایک رسول بھیج دیجئے جو ان کو آپکی آیات تلاوت کرکے سنائے اور قرآن وسنت کی تعلیم دے اور ان کو ظاہری و باطنی گندگیوں سے پاک کرے اس میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اس رسول کے لئے اپنی اولاد میں ہونے کی اس لئے دعا فرمائی کہ اول تو یہ اپنی اولاد کے لئے سعادت وشرف ہے دوسرے ان لوگوں کے لئے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ رسول جب انہی کی قوم اور برادری کے اندر ہوگا تو اس کے چال چلن سیرت و حالات سے یہ لوگ بخوبی واقف ہوں گے کسی دھوکہ فریب میں مبتلا نہ ہوں گے، حدیث میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دعاء کا جواب حق تعالیٰ کی طرف سے یہ ملا کہ آپ کی دعا قبول کرلی گئی اور یہ رسول آخری زمانہ میں بھیجے جائیں گے (ابن جریر وابن کثیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خصوصیات : مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین اس وقت تھا جبکہ آدم (علیہ السلام) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کا خمیر ہی تیار ہو رہا تھا اور میں آپ لوگوں کو اپنے معاملہ کی ابتداء بتلاتا ہوں کہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کے خواب کا مظہر ہوں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت سے مراد ان کا یہ قول ہے وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ (٦: ٦١) اور والدہ ماجدہ نے حالت حمل میں یہ خواب دیکھا تھا کہ میرے بطن سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محلات جگمگا اٹھے پھر قرآن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے دو جگہ سورة آل عمران (آیت نمبر ١٦٤) اور سورة جمعہ آیت نمبر ٢ میں انہی الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء میں یہاں مذکور ہیں جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس رسول کے بھیجنے کی دعا فرمائی تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہیں آیت کے الفاظ کی تشریح اور اس کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد اس پر غور کیجئے، بعثت رسول کے تین مقاصد : سورة بقرہ کی اس آیت میں اور سورة آل عمران اور سورة جمعہ کی آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ایک ہی مضمون ایک ہی طرح کے الفاظ میں آیا ہے جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا میں تشریف لانے کے مقاصد یا آپ کے عہدہ نبوت و رسالت کے فرائض منصبی تین بیان کئے گئے ہیں ایک تلاوت آیات دوسرے تعلیم کتاب و حکمت تیسرے لوگوں کا تزکیہ اخلاق وغیرہ۔ پہلا مقصد تلاوت آیات : یہاں پہلی بات قابل غور ہے کہ تلاوت کا تعلق الفاظ سے ہے اور تعلیم کا معانی سے یہاں تلاوت وتعلیم کو الگ الگ بیان کرنے سے یہ حاصل ہوا کہ قرآن کریم میں جس طرح معانی مقصود ہیں اس کے الفاظ بھی مستقل مقصود ہیں ان کی تلاوت و حفاظت فرض اور اہم عبادت ہے یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلا واسطہ شاگرد اور مخاطب خاص وہ حضرات تھے جو عربی زبان کے نہ صرف جاننے والے بلکہ اس کے فصیح وبلیغ خطیب اور شاعر بھی تھے ان کے سامنے قرآن عربی کا پڑھ دینا بھی بظاہر ان کی تعلیم کیلئے کافی تھا ان کو الگ سے ترجمہ و تفسیر کی ضرورت نہ تھی تو پھر تلاوت آیات کو ایک علیحدہ مقصد اور تعلیم کتاب کو جداگانہ دوسرا مقصد رسالت قرار دینے کی کیا ضرورت تھی جبکہ عمل کے اعتبار سے یہ دونوں مقصد ایک ہی ہوجاتے ہیں اس میں غور کیا جائے تو دو اہم نتیجے آپ کے سامنے آئیں گے اول یہ کہ قرآن کریم دوسری کتابوں کی طرح ایک کتاب نہیں جس میں صرف معانی مقصود ہوتے ہیں الفاظ ایک ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ان میں اگر معمولی تغیر وتبدل بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ان کے الفاظ بغیر معنے سمجھے ہوئے پڑہتے رہنا بالکل لغو و فضول ہے بلکہ قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں اسی طرح الفاظ بھی مقصود ہیں اور الفاظ قرآن کے ساتھ خاص خاص احکام شرعیہ بھی متعلق ہیں یہی وجہ ہے کہ اصول فقہ میں قرآن کریم کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ھو النظم والمعنی جمیعا یعنی قرآن نام ہے الفاظ یا دوسری زبان میں لکھا جائے تو وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں اگرچہ مضامین بالکل صحیح درست ہی ہوں ان مضامین قرآنیہ کو بدلے ہوئے الفاظ میں اگر کوئی شخص نماز میں پڑھ لے تو نماز ادا نہ ہوگی اسی طرح وہ تمام احکام جو قرآن سے متعلق ہیں اس پر عائد نہیں ہوں گے، قرآن کریم کی تلاوت کا جو ثواب احادیث صحیہ میں وارد ہے وہ بدلی ہوئی زبان یا بدلے ہوئے الفاظ پر مرتب نہیں ہوگا اور اسی لئے فقہائے امت نے قرآن کریم کا صرف ترجمہ بلا متن قرآن کے لکھنے اور چھاپنے کو ممنوع فرمایا ہے جس کو عرف میں اردو کا قرآن یا انگریزی کا قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ درحقیقت جو قرآن اردو یا انگریزی میں نقل کیا گیا وہ قرآن کہلانے کا مستحق نہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب سے علیحٰدہ تلاوت آیات کو جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ قرآن کریم میں جس طرح اس کے معانی مقصود ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی مقصود ہیں کیونکہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی نہیں اسی لئے جس طرح رسول کے فرائض میں معانی کی تعلیم داخل ہے اسی طرح الفاظ کی تلاوت اور حفاظت بھی ایک مستقل فرض ہے اس میں شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے محض اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت کرکے بیٹھ جانا قرآن کریم کی حقیقت سے بیخبر ی اور اس کی بےقدری ہے، قرآن کریم کے الفاظ اگر بےسمجھے بھی پڑھے جائیں تو بیکار نہیں بلکہ ثواب عظیم ہیں : لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ جب تک قرآن کریم کے الفاظ کے معانی نہ سمجھے طوطے کی طرح اس کے الفاظ پڑھنا فضول ہے یہ اس لئے واضح کر رہا ہوں کہ آج کل بہت سے حضرات قرآن کریم کو دوسری کتابوں پر قیاس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک کسی کتاب کے معنی نہ سمجھیں تو اس کے الفاظ کا پڑھنا پڑھانا وقت ضائع کرنا ہے مگر قرآن کریم میں ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن الفاظ معنی دونوں کا نام ہے جس طرح ان کے معانی کا سمجھنا اور اس کے دیئے ہوئے۔ احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت اور ثواب عظیم ہے، دوسرا مقصد تعلیم کتاب : یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جو معانی قرآنی کو سب سب زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے تھے انہوں نے محض معنی سمجھ لینے اور عمل کرلینے کو کافی نہ سمجھا سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے تو ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہوتا انہوں نے ساری عمر تلاوت قرآن کو حرز جان بنائے رکھا بعضے صحابہ روزانہ ایک قرآن مجید ختم کرتے تھے بعض دو دن میں اور اکثر حضرات تین دن میں ختم قرآن کے عادی تھے اور ہر ہفتہ میں قرآن ختم کرنے کا تو پوری امت کا معمول رہا ہے قرآن کریم کی سات منزلیں اسی ہفتہ واری معمول کی علامت ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا یہ عمل بتلا رہا ہے کہ جس طرح قرآن کے معانی کا سمجھنا اور عمل کرنا اصلی عبادت ہے اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی بجائے خود ایک اعلیٰ عبادت اور موجب انوار و برکات اور سرمایہ سعادت ونجات ہے اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات کو ایک مستقل حیثیت دی گئی مقصد یہ ہے کہ جو مسلمان فی الحال معانی قرآن کو نہیں سمجھتے وہ اس بدنصیبی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ الفاظ کو فضول سمجھ کر اس سے بھی محروم ہوجائیں کوشش کرتے رہنا ضروری ہے کہ وہ قرآن کے معانی کو سمجھیں تاکہ قرآن کریم کے حقیقی انوار و برکات کا مشاہدہ کریں اور نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا ہو قرآن کو معاذ اللہ جنتر منتر کی طرح صرف جھاڑ پھونک میں استعمال کی چیز نہ بنائیں اور بقول اقبال مرحوم سورة یٰسینٓ کو صرف اس کام کے لئے نہ سمجھیں کہ اس کے پڑھنے سے مرنے والے کی جان سہولت سے نکل جاتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں فرائض رسول بیان کرتے ہوئے تلاوت آیات کو مستقل فرض کی حیثیت دے کر اس پر تنبیہ کردی گئی ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور ان کو ٹھیک اس لب و لہجہ میں پڑھنا جس پر وہ نازل ہوئے ہیں ایک مستقل فرض ہے اسی طرح تلاوت آیات کے فرض کے ساتھ تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دینے سے ایک دوسرا اہم نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن فہمی کے لئے صرف عربی زبان کا جان لینا کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول کی ضرورت ہے جیسے کہ تمام علوم وفنون میں یہ بات معلوم ومشاہد ہے کہ کسی فن کی کتاب کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے محض اس کتاب کی زبان جاننا بلکہ زبان کا ماہر ہونا بھی کافی نہیں جب تک کہ اس فن کو کسی ماہر استاذ سے حاصل نہ کیا جائے مثلاً آج کل ڈاکٹری ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک کی کتابیں عموماً انگریزی زبان میں ہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ محض انگریزی زبان میں مہارت پیدا کرلینے اور ڈاکٹری کی کتابوں کا مطالعہ کرلینے سے کوئی شخص ڈاکٹر نہیں بن سکتا انجینئرنگ کی کتابیں پڑھنے سے کوئی انجینئر نہیں بن سکتا بڑے فنون تو اپنی جگہ پر ہیں معمولی روزمرہ کے کام محض کتاب کے مطالعہ سے بغیر استاد سے سیکھے ہوئے حاصل نہیں ہوسکتے آج تو ہر صنعت وحرفت پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہوئی ہیں فوٹو دیکھ کر کام سکھانے کے طریقے بتائے ہیں لیکن ان کتابوں کو دیکھ کر نہ کوئی درزی بنتا ہے نہ باورچی یا لوہار اگر محض زبان جان لینا کسی فن کے حاصل کرنے اور اس کی کتاب سمجھنے کے لئے کافی ہوتا تو دنیا کے سب فنون اس شخص کو حاصل ہوجاتے جو ان کتابوں کی زبان جانتا ہے اب ہر شخص غور کرسکتا ہے کہ معمولی فنون اور ان کے سمجھنے کے لئے جب محض زبان دانی کافی نہیں تعلیم استاد کی ضرورت ہے تو مضامین قرآن جو علوم الہیہ سے لے کر طبعیات وفلسفہ تک تمام گہرے دقیق علوم پر مشتمل ہے وہ محض عربی زبان جان لینے سے کیسے حاصل ہوسکتے ہیں اور اگر یہی ہوتا تو جو شخص عربی زبان سیکھ لے وہ معارف قرآن کا ماہر سمجھا جائے تو آج ہزاروں یہودی اور نصرانی عرب ممالک میں عربی زبان کے بڑے ماہر ادیب ہیں وہ سب سے بڑے مفسر قرآن مانے جاتے اور عہد رسالت میں ابوجہل، ابولہب قرآن کے ماہر سمجھے جاتے، غرض یہ ہے کہ قرآن کریم نے ایک طرف تو رسول کے فرائض میں تلاوت آیات کو ایک مستقل فرض قرار دیا دوسری طرف تعلیم کتاب کو جداگانہ فرض قرار دے کر بتلا دیا کہ محض تلاوت آیات کا سن لینا فہم قرآن کے لئے عربی زبان جاننے والوں کے واسطے بھی کافی نہیں بلکہ تعلیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ذریعہ قرآنی تعلیم کا صحیح علم حاصل ہوسکتا ہے قرآن کو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا کرکے خود سمجھنے کی فکر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں اگر مضامین قرآنی کو بتلانے سکھانے کی ضرورت نہ ہوتی تو رسول کو بھیجنے ہی کی کوئی حاجت نہ تھی اللہ کی کتاب کسی دوسری طرح بھی انسانوں تک پہونچائی جاسکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہیں وہ جانتے ہیں کہ مضامین قرآنی کی تعلیم و تفہیم کے لئے دنیا کے دوسرے علوم وفنون سے زیادہ تعلیم استاد کی ضرورت ہے اور یہاں پر عام استاد بھی کافی نہیں بلکہ ان مضامین کا استاد صرف وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ سے بذریعہ وحی شرف ہم کلامی حاصل ہو جس کو اسلام کی اصطلاح میں نبی و رسول کہا جاتا ہے اس لئے قرآن کریم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد یہ قرار دیا کہ وہ قرآن کریم کے معانی و احکام کی شرح کرکے بیان فرمائیں ارشاد ہے لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ (٤٤: ١٦) یعنی ہم نے آپ کو اس لئے بھیجا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی نازل کردہ آیات کے مطالب بیان فرمائیں تعلیم کتاب کے ساتھ آپ کے فرائض میں دوسری چیز تعلیم حکمت بھی رکھی گئی ہے اور میں نے اوپر بتلایا ہے کہ حکمت کے عربی زبان کے اعتبار سے اگرچہ کئی معنی ہوسکتے ہیں لیکن اس آیت میں اور اس کے ہم معنی دوسری آیات میں صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین نے حکمت کی تفسیر سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی ہے جس سے واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ جس طرح معانی قرآنی کا سمجھانا وبتلانا فرض ہے اسی طرح پیغمبرانہ تربیت کے اصول وآداب جن کا نام سنت ہے ان کی تعلیم بھی آپ کے فرائض منصبی میں داخل ہے اور اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انما بعثت معلماً میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جب آپ کا مقصد وجود معلم ہونا ہے تو آپ کی امت کا مقصد وجود متعلم اور طالب علم ہونا لازم ہوگیا اس لئے ہر مسلمان مرد و عورت بحیثیت مسلمان ہونے کے ایک طالب علم ہونا چاہئے جس کو تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی لگن ہو، اگر علوم قرآن وسنت کی مکمل تحصیل اور اس میں مہارت کے لئے ہمت و فرصت نہیں ہے تو کم ازکم بقدر ضرورت علم حاصل کرنے کی فکر چاہئے، تیسرا مقصد تزکیہ : تیسرا فرض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تزکیہ ہے جس کے معنی ہیں ظاہری و باطنی نجاسات سے پاک کرنا ظاہری نجاسات سے تو عام مسلمان واقف ہیں باطنی نجاسات کفر اور شرک غیر اللہ پر اعتماد کلی اور اعتقاد فاسد نیز تکبر وحسد بغض حب دنیا وغیرہ ہیں اگرچہ علمی طور پر قرآن وسنت کی تعلیم میں ان سب چیزوں کا بیان آگیا ہے لیکن تزکیہ کو آپ کا جداگانہ فرض قرار دے کر اس کی طرف اشارہ کردیا گیا کہ جس طرح محض الفاظ کے سمجھنے سے کوئی فن حاصل نہیں ہوتا اسی طرح نظری وعلمی طور پر فن حاصل ہوجانے سے اس کا استعمال اور کمال حاصل نہیں ہوتا جب تک کسی مربی کے زیر نظر اس کی مشق کرکے عادت نہ ڈالے سلوک وتصوف میں کسی شیخ کامل کی تربیت کا یہی مقام ہے کہ قرآن وسنت میں جن احکام کو علمی طور پر بتلایا گیا ہے انکی عملی طور پر عادت ڈالی جائے، ہدایت و اصلاح کے دو سلسلے کتاب اللہ اور رجال اللہ : اب اس سلسلے کی دو باتیں اور قابل نظر ہیں اول یہ کہ اللہ جل شانہ نے ابتداء آفرانیش سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک دو سلسلے جاری رکھے ہیں ایک آسمانی کتابوں کا دوسرے اس کی تعلیم دینے والے رسولوں کا جس طرح محض کتاب نازل فرما دینے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح محض رسولوں کے بھیجنے پر بھی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے اللہ جل شانہ کی اس عادت اور قرآن کریم کی شہادت نے قوموں کی صلاح و فلاح کے لئے ان دونوں سلسلوں کو یکساں طور پر جاری فرما کر ایک بڑے علم کا دروازہ کھول دیا کہ انسان کی صحیح تعلیم وتریبت کے لئے نہ صرف کتاب کافی ہے نہ کوئی مربی انسان بلکہ ایک طرف آسمانی ہدایات اور الہٰی قانون کی ضرورت ہے جس کا نام کتاب یا قرآن ہے دوسری طرف ایک معلمّ اور مربی انسان کی ضرورت ہے جو اپنی تعلیم و تربیت سے عام انسان کو آسمانی ہدایات سے روشناس کرکے ان کا خوگر بنائے کیونکہ انسان کا اصلی معلم انسان ہی ہوسکتا ہے کتاب معلم یا مربی نہیں ہوسکتی ہاں تعلیم و تربیت میں معین و مددگار ضرور ہے، یہی وجہ ہے کہ جس طرح اسلام کی ابتداء ایک کتاب اور ایک رسول سے ہوئی اور ان دونوں کے امتزاج نے ایک صحیح اور اعلیٰ مثالی معاشرہ دنیا میں پیدا کردیا اسی طرح آگے آنیوالی نسلوں کے لئے بھی ایک طرف شریعت مطہرہ اور دوسری طرف رجال اللہ کا سلسلہ رہا قرآن کریم نے جگہ جگہ اس کی ہدایتیں دی ہیں ایک جگہ ارشاد ہوا ؛ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (١١٩: ٩) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ رہو، دوسری جگہ صادقین کی تعرفین اور اوصاف بیان کرکے فرمایا، اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْ آ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ (١٧٧: ٢) اور یہی لوگ سچے ہیں اور یہی ہیں پرہیزگار، پورے قرآن کا خلاصہ سورة فاتحہ ہے اور سورة فاتحہ کا خلاصہ صراط مستقیم ہدایت ہے، یہاں بھی صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے بجائے اس کے کہ صراط القرآن یاصراط الرسول یاصراط السنۃ فرمایا جاتاکچھ اللہ والے لوگوں کا پتہ دیا گیا کہ ان سے صراط مستقیم حاصل کی جائے ارشاد ہوا، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّاۗلِّيْنَ یعنی صراط مستقیم ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا ہے نہ کہ ان لوگوں کا جو گمراہ ہوگئے، دوسری جگہ ان کی مزید تعیین اور توضیح قرآن میں وارد ہوئی جن پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ (٦٩: ٤) اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام متعین کرکے دینی معاملات میں آپ کا اتباع کرنے کی ہدایت فرمائی ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے، يا أيها الناس إني قد ترکت فيکم ما إن أخذتم به لن تضلوا کتاب اللہ وعترتي أهل بيتي (ترمذی) اے لوگوں ! میں تمہارے لئے اپنے بعد میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا تو تم گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ دوسری میری اولاد اور اہل بیت، اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے : اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر۔ یعنی میرے بعد ابوبکر اور عمر کا اتباع کرو، اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا، علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الرشدین، میرے طریقہ کو اختیار کرو اور خلفائے راشدین کے طریقہ کو، خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم کی ان ہدایات اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ قوموں کی اصلاح و تربیت کے لئے ہر قرن ہر زمانے میں دو چیزیں ضروری ہیں قرآنی ہدایات اور ان کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا سلیقہ حاصل کرنے کے لئے ماہرین شریعت اور اللہ والوں کی تعلیم و تربیت اور اگر مختلف علوم وفنون اور ان کے سیکھنے سکھانے کے طریقوں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اصول تعلیم و تربیت کچھ دین اور دینیات ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم وفنون کی صحیح تحصیل اسی پر دائر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتابیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین کی تعلیم و تربیت ہر علم وفن کی ترقی و تکمیل کے یہی دو بازو ہیں لیکن دین اور دینیات میں ان دونوں بازوؤں سے فائدہ اٹھانے میں بہت سے لوگ افراط وتفریط کی غلط روش میں پڑجاتے ہیں جس کا نتیجہ بجائے فائدہ اٹھانے کے نقصان اور بجائے اصلاح کے فساد ہوتا ہے ، بعض لوگ کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے صرف علماء ومشائخ ہی کو قبلہ مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کے متبع شریعت ہونے کی تحقیق نہیں کرتے اور یہ اصلی مرض یہود و نصاریٰ کا ہے کہ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (٣١: ٩) یعنی ان لوگوں نے اپنے علماء ومشائخ کو اللہ کے سوا اپنا معبود اور قبلہ مقصود بنالیا ظاہر ہے کہ یہ راستہ شرک و کفر کا ہے اور لاکھوں انسان اس راستہ میں برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کے مقابلہ میں بعض وہ لوگ بھی ہیں جو علوم قرآن و حدیث کے حاصل کرنے میں کسی معلم ومربی کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اللہ کی کتاب کافی ہے نہ ماہر علماء کی ضرورت، نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت یہ دوسری گمراہی ہے جس کا نتیجہ دین وملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے کیوں کہ ماہرین کی امداد واعانت کے بغیر کسی فن کا صحیح حاصل ہوجانا انسانی فطرت کے خلاف ہے ایسا کرنے والا یقینا غلط فہمیوں کا شکار ہوتا ہے اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اس کو دین وملت سے بالکل نکال دیتی ہے، اس لئے ضرورت اس کی ہے کہ ان دو چیزوں کو اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے یہ سمجھا جائے کہ حکم اصلی صرف ایک وحدہ لاشریک لہ کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول بھی اس پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہے رسول کی اطاعت بھی محض اسی نظر سے کی جاتی ہے کہ وہ بعینہ اللہ جل شانہ کی اطاعت ہے ہاں اس کے ساتھ قرآن و حدیث کے سمجھنے میں اور ان کے احکام پر عمل کرنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے ماہرین کے قول وفعل سے امداد لینے کو سرمایہ سعادت ونجات سمجھنا ضروری ہے آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی میں تعلیم کتاب کو داخل فرمانے سے ایک دوسرا فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جب قرآن فہمی کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن پر صحیح عمل ناممکن ہے تو جس طرح قرآن قیامت تک محفوظ ہے اس کا ایک ایک زیر و زبر محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیمات رسول بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک بانی اور محفوظ رہیں ورنہ محض الفاظ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزول قرآن کا اصلی مقصد پورا نہ ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی ہیں جن کو سنت یا حدیث رسول کہا جاتا ہے اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ جل شانہ کی طرف سے اگرچہ اس درجہ میں نہیں ہے جس درجہ کی حفاظت قرآن کے لئے موعود ہے، اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، جس کا یہ نتیجہ ہے کہ اس کے الفاظ اور زیر زبر تک بالکل محفوظ چلے آئے ہیں اور قیامت تک اسی طرح محفوظ رہیں گے سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ اگرچہ اس طرح محفوظ نہیں لیکن محفوظ نہیں لیکن مجموعی حیثیت سے آپ کی تعلیمات کا محفوظ رہنا آیت مذکورہ کی رو سے لازمی ہے اور بحمد اللہ آج تک وہ محفوظ چلی آتی ہیں جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرین سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی اسی طرح رہے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک ایسی جماعت اہل حق اور اہل علم قائم رہے گی جو قرآن و حدیث کو صحیح طور پر محفوظ رکھے گی، اور ان میں ڈالے گئے ہر رخنہ کی اصلاح کرتی رہے گی، خلاصہ یہ ہے کہ جب قرآن پر عمل کرنے کے لئے تعلیم رسول ضروری ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآن پر عمل قیامت تک فرض ہے تو لازم ہے کہ قیامت تک تعلیمات رسول بھی باقی اور محفوظ رہیں اس لئے آیت میں تعلیمات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیامت تک باقی اور محفوظ رہنے کی بھی پیشینگوئی موجود ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام سے لے کر آج تک علم حدیث کے ماہر علماء اور مستند کتابوں کے ذریعہ محفوظ رکھا ہے اس سے اس دجل والحاد کی حقیقت کھل جاتی ہے جو آجکل بعض لوگوں نے احکام اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ ذخیرہ حدیث محفوظ اور قابل اطمینان نہیں ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذخیرہ حدیث سے اعتماد اٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا، آیت مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تیسرا فرض منصبی تزکیہ قرار دیا ہے تزکیہ کے معنی باطنی نجاسات اور گندگیوں سے پاک کرنا ہے یعنی شرک و کفر اور عقائد فاسدہ سے نیز بری اخلاق تکبر حرص وطمع بغض وحسد، حُب مال وجاہ وغیرہ سے پاک کرنا، اصلاح انسان کیلئے صرف تعلیم صحیح بھی کافی نہیں اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے : تزکیہ کو تعلیم سے جدا کرکے مستقبل مقصد رسالت اور رسول کا فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی صحیح ہو محض حاصل نہ کرے کیونکہ تعلیم کا کام درحقیقت سیدھا اور صحیح راستہ دکھلا دینا ہے مگر ظاہر ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستہ جان لینا تو کافی نہیں جب تک ہمت کر کے قدم نہ اٹھائے اور راستہ نہ چلے اور ہمت کا نسخہ بجز اہل ہمت کی صحبت اور اطاعت کے اور کچھ نہیں ورنہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے بعد بھی حالت یہ ہوتی ہے کہ، جانتا ہوں ثواب اطاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی۔ عمل کی ہمت و توفیق کسی کتاب کے پڑھنے یا سمجھنے سے پیدا نہیں ہوتی اس کی صرف ایک ہی تدبیر ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اور ان سے ہمت کی تربیت حاصل کرنا اسی کا نام تزکیہ ہے قرآن کریم نے تزکیہ کو مقاصد رسالت میں ایک مستقل مقصد قرار دے کر تعلیمات اسلام کی نمایاں خصوصیت کو بتلایا ہے کیونکہ محض تعلیم اور ظاہری تہذیب تو ہر قوم اور ہر ملت میں کسی نہ کسی صورت سے کامل یا ناقص طریق پر ضروری سمجھی جاتی ہے ہر مذہب وملت اور ہر سوسائٹی میں اس کو انسانی ضروریات میں داخل سمجھا جاتا ہے اس میں اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس نے صحیح اور مکمل تعلیم پیش کی جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر عائلی پھر قبائلی زندگی اور اس سے آگے بڑھ کر سیاسی وملکی زندگی پر حاوی اور بہترین نظام کی حامل ہے جس کی نظیر دوسری اقوام وملل میں نہیں پائی جاتی اس کے ساتھ تزکیہ اخلاق اور باطنی طہارت ایک ایسا کام ہے جس کو عام اقوام اور سوسائیٹیوں نے سرے سے نظر انداز کر رکھا ہے انسانی لیاقت و استعداد کا معیار اس کی تعلیمی ڈگریاں سمجھی جاتی ہیں انہی ڈگریوں کے وزن کے ساتھ انسانوں کا وزن گھٹتا بڑہتا ہے اسلام نے تعلیم کے ساتھ تزکیہ کا ضمیمہ لگا کر تعلیم کے اصل مقصد کو پورا کر دکھایا، جو خوش نصیب حضرات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے زیر تعلیم رہے تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کا باطنی تزکیہ بھی ہوتا گیا اور جو جماعت صحابہ کرام (رض) اجمعین آپ کی زیر تربیت تیار ہوئی ایک طرف ان کی عقل و دانش اور علم و حکمت کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا کے فلسفے اس کے سامنے گرد ہوگئے تو دوسری طرف ان کے تزکیہ باطنی اور تعلق مع اللہ اور اعتماد علی اللہ کا یہ درجہ تھا جو خود قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا، وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا (٢٩: ٤٨) اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں تم انہیں رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا مندی تلاش کرتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ وہ جس طرف چلتے تھے فتح ونصرت ان کے قدم لیتی تھی تائید ربانی ان کے ساتھ ہوتی تھی ان کے محیر العقول کارنامے جو آج بھی ہر قوم وملت کے ذہنوں کو مرعوب کئے ہوئے ہیں وہ اسی تعلیم وتزکیہ کے اعلیٰ نتائج ہیں آج دنیا میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تبدیل و ترمیم پر تو سب لوگ غور کرتے ہیں لیکن تعلیم کی روح کو درست کرنے کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی کہ مدرس اور معلم کی اخلاقی حالت اور مصلحانہ تربیت کو دیکھا جائے اس پر زور دیا جائے اس کا نتیجہ ہے کہ ہزار کوششوں کے بعد بھی ایسے مکمل انسان پیدا نہیں ہوتے جن کے عمدہ اخلاق دوسروں پر اثر انداز ہوں اور دوسروں کی تربیت کرسکیں، یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اساتذہ جس علم وعمل اور اخلاق و کردار کے مالک ہوں گے ان سے پڑھنے والے طلبہ زیادہ سے زیادہ انہی جیسے پیدا ہوسکیں گے اس لئے تعلیم کو مفید اور بہتر بنانے کے لئے نصابوں کی تدوین ترمیم سے زیادہ اس نصاب کے پڑھانے والوں کی علمی وعملی و اخلاقی حالات پر نظر ڈالنا ضروری ہے، یہاں تک رسالت ونبوت کے تین مقاصد کا بیان تھا آخر میں مختصر طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ سردار دو عالم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تین فرائضِ منصبی سپرد کئے گئے تھے ان کو آپ نے کس حد تک پورا فرمایا آپ کو ان کے پورا کرنے میں کہاں تک کامیابی ہوئی اس کے لئے اتناجان لینا کافی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے تشریف لے جانے سے پہلے پہلے تلاوت آیات کا یہ درجہ ہوگیا تھا کہ تقریباً پورے جزیرۃ العرب میں قرآن پڑھا جارہا تھا ہزاروں اس کے حافظ تھے سینکڑوں ایسے حضرات تھے جو روزانہ یا تیسرے روز پورا قرآن ختم کرتے تھے تعلیم کتاب و حکمت کا یہ مقام تھا۔ یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست کتب خانہ چند ملت بشست دنیا کے سارے فلسفے قرآن کے سامنے ماند ہوچکے تھے توراۃ و انجیل کے تحریف شدہ صحائف افسانہ بن چکے تھے قرآنی اصول کو عزت وشرف کا معیار مانا جاتا تھا تزکیہ کا یہ عالم تھا کہ ساری بد اخلاقیوں کے مرتکب افراد تہذیب اخلاق کے معلم بن گئے بد اخلاقیوں کے مریض نہ صرف صحت یاب بلکہ کامیاب معالج اور مسیحا بن گئے جو رہزن تھے رہبر بن گئے غرض بت پرست لوگ ایثار و ہمدردی کے مجسمے بن گئے تند خوئی اور جنگ جوئی کی جگہ نرمی اور صلح جوئی نظر آنے لگی چور اور ڈاکو لوگوں کے اموال کے محافظ بن گئے، الغرض حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے جن مقاصد کے لئے دعا فرمائی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا تھا وہ تینوں مقصد آپ کے عہد مبارک ہی میں نمایاں طور پر کامیاب ہوئے پھر آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے تو ان کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک ساری دنیا میں عام کردیا۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ واصحابہٖ اجمعین وسلم تسلیماً کثیراً بعد ومن صلی وصام وقعد وقام،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ١٢٩ ۧ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٩) اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں اسی خاندان میں سے ایک رسول (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث اور گناہوں سے پاک صاف کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنائے، بلاشبہ جو تیرے اس رسول کی دعوت پر لبیک نہ کہے، جس کو تو نے ان کی طرف بھیجنا ہے، اس سے شدید انتقام لینے پر قدرت رکھنے والا ہے اور رسول کے مبعوث فرمانے میں تو غالب حکمت والا ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا امتحان لیا تھا، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کلمات کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا اور ان ہی کلمات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٩ (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ ) فِیْہِمْ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نسل یعنی بنی اسماعیل مراد ہے۔ وہ دونوں دعا کر رہے تھے کہ پروردگار ! ہماری اس نسل میں ایک رسول مبعوث فرمانا جو انہی میں سے ہو ‘ باہر کا نہ ہو ‘ تاکہ ان کے اور اس کے درمیان مغائرت اور اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ (یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ ) (وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ) کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو بہت آسان کام ہے۔ اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم تر ہے۔ (وَیُزَکِّیْہِمْ ) ۔ ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہنے دے۔ (اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

128. The term 'purification' used here embraces the purification of beliefs and outlook, morals, habits and customs, and social, cultural and political life; the purification of man's life in its totality. 129. This has been said in order to indicate that the advent of Muhammad (peace be on him) was in fact God's response to the prayer of Abraham (peace be on him) .

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :129 اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہُور دراصل حضرت ابراہیم ؑ کی دُعا کا جواب ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

84: دل سے نکلی ہوئی اس دعا کی تاثیر کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کی جاسکتی چنانچہ ترجمہ صرف اس کا مفہوم ہی ادا کرسکتا ہے یہاں اس دعا کو نقل کرنے کا مقصد ایک تو یہ دکھانا ہے کہ انبیاء اپنے بڑے سے کارنامے پر بھی مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ عجز ونیاز کا مظاہرہ کرتے فرماتے ہیں اور اپنے کارنامے کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنی ان کوتاہیوں پر توبہ مانگتے ہیں جو اس کام کی ادائیگی میں ان سے سرزد ہونے کا امکان ہو دوسرے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہوتا ہے لہذا وہ اس پر مخلوق سے تعریف کرانے کی فکر کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔ تیسرے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں شامل تھی اور اس طرح خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں نہ کہ بنی اسرائیل میں سے۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان سے حضور نبی کریم ) کی تشریف آوری کے بنیادی مقاصد بھی بیان فرمادیئے ہیں ان مقاصد کو قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے اور ان کی تشریح ان شاء اللہ آگے اسی سورت کی آیت 151 میں آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا یہ خاتمہ ہے جو انہوں نے اپنی اس اولاد اور اولاد الاولاد کے لئے کی تھی جو مکہ میں سکونت کرنے والی تھی۔ ابو العالیہ قتادہ وغیرہ سلف نے کہا ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل حرم میں سے ایک رسول کے پیدا ہونے کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری دعا تو قبول ہوگئی لیکن اس دعا کے اثر کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا۔ اور سلف کے اس قول کی تائید عرباض بن ساریہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو امام احمد بن ماجر اور بیہقی نے سند معتبر سے روایت کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت آدم کے پیدا ہونے سے پہلے اگرچہ میرا نام لوح محفوظ میں خاتم النبیین لکھا ہوا تھا لیکن انبیاء کے گروہ میں میرے نام کی شہرت پانے کی ابتداء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے ٢۔ مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ نوشتہ لوح محفوظ کے موافق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء کے جواب میں پہلے پہل اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے پیدا ہونے کی بشارت حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) (علیہ السلام) کو دی اور پھر تورات اور انجیل کے نازل ہونے کے بعد یہ بشارت انبیائے بنی اسرائیل میں متواتر ہوگئی آیت میں کتاب کے معنی قرآن ہیں اور حکمۃ کے معنی سنت رسول کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا یہ ہے کہ وہ رسول ایسا ہو کہ کتاب و حکمت لوگوں کو سکھاوے اور یہ ظاہر بات ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن و سنت یہی دو چیزیں صحابہ کو سکھائی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:129) ابعث امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ بعث (باب فتح) مصدر بمعنی بھیجنا۔ تو بھیج۔ اسی باب سے بمعنی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا۔ یا کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا بھی آتا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے ثم بعثنکم من بعد موتکم (2:56) پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تم کو ازسرنو زندہ کیا۔ یہاں اس آیت میں بمعنی بھیج آیا ہے۔ فیہم اور منھم میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع یا امۃ مسلمۃ ہے یا الذریۃ ہے۔ الذریۃ زیادہ مناسب ہے۔ رسولا۔ مفعول ہے فعل ابعث کا۔ اور یتلوا۔ یعلمھم۔ یزکیہم یہ سب رسولا کی صفت واقع ہوتے ہیں۔ یتلوا۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تلاوۃ (باب نصر) مصدر ۔ جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنایا کرے۔ ویعلمہم اور ان کو (کتاب اور دانائی) سکھایا کرے۔ ویزکیہم۔ یزکی مضارع واحد مذکر غائب۔ تزکیۃ (تفعیل) اور (ان کے دلوں کو) پاک صاف کیا کرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) اور اسمعیل (علیہ السلام) کی دعا کی کا خاتمہ ہے رسولا سے مراد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی دوریت میں انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی دوسرا نبی نہیں ہو۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔ زمانہ حمل میں میں آمنہ (رض) نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام محلات روشن ہوگئے ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تو قرآن نے ذکر کیا ہ۔ اور خواب میں شام کی تخصیص اس لیے ہے کہ آخر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز بنے گا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول بھی شام میں ہوگا اور حدیث میں جس گرد کے تاقیامت رہنے کی خبر دی گئی ہے اوہ بھی شام میں ہوں گے۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ مسند احمد) الکتاب سے مراد قرآن مجید اور الحکمتہ سے راد حدیث پاک ہے اور اسلام کی یہی دو بنیادی اصول ہیں کتاب سے مراد اس کے معانی ومطالب کی وضاحت سے پاک کرے اطاعت و اخلاص کی تعلیم دے۔ (قرطبی۔ فتح القدیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے لیے خصوصی دعا جس میں واضح ثبوت ہے کہ آخری نبی بنی اسماعیل میں سے مکہ میں ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہورہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دعا اس وقت کی جب انہوں نے اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا۔ کچھ دعائیں تعمیر کعبہ کے دوران اور باقی تکمیل کے بعد اللہ کے حضور کی گئیں۔ آخری دعا میں ایک ایسے نبی کی ضرورت کا تذکرہ ہے جو نا صرف اسی قوم سے ہو بلکہ اس کی پیدائش بھی مکہ معظمہ میں ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس دعا میں نبوت کی غرض وغایت اور اس کے چار بنیادی فرائض کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں کے ساتھ اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی آخر الزماں کی بشارت سے نوازا۔ (قَدْ أُسْتُجِیْبَ لَکَ وَہُوَ کَاءِنٌ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ ) [ تفسیر ابن کثیر ] ” کہ تیری دعا مقبول ہے اور وہ نبی آخر زمانہ میں ہوگا۔ “ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ (رض) قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کَانَ أَوَّلُ اَمْرِکَ قَالَ دَعْوَۃُ أَبِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَبُشْرٰی عِیْسٰی وَرَأَتْ أُمِّیْ أَنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ مِنْھَا قُصُوْرُ الشَّامِ ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب حدیث أبی امامۃ الباہلی الصدی بن عجلان ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ کی نبوت کی ابتدا کس چیز سے ہوئی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری ماں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔ “ مسائل ١۔ کتاب اللہ کی تبلیغ، تعلیم، لوگوں کو دانش سکھلانا اور تربیت کرنا نبوت کے بنیادی کام ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد وہ مزید التجا کرتے ہیں کہ ازمنہ بعیدہ میں بھی وہ ان کی ہدایت کے لئے مستقل بندوبست فرمائیں۔ وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (١٢٩) ” اے اللہ ! ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیات تلاوت کرے ، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاک کردے ۔ بیشک تو غالب و حکیم ہے ۔ “ حضرت ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی اس دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اب اس رسول کریم کی بعثت ہوئی اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد ، اور آپ کی بعثت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہوئی جواب انہیں آیات سناتے ہیں ۔ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہاں مخلصانہ دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے لیکن وہ اپنے اس وقت میں ظاہر ہوتی ہے ، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس کے لئے مقرر کردیا ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ جلد بازی کرتے ہیں اور جو لوگ منزل مراد نہیں پاتے وہ مایوس وپریشان ہوتے ہیں۔ سورة بقرہ کی اس دعا کے نزول کے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک ہمہ گیر کشمکش جاری تھی ، ان حالات میں اس دعا کے اندر بعض اشارات بھی پنہاں ہیں اور اس کی خاص اہمیت ہے ۔ یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جن کو اس گھر کی تعمیر وتطہیر اور عبادت گزاروں ، زیارت کنندگان اور وہاں ٹھہرنے والوں کے سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔ وہ دونوں موجودہ مجاورین یعنی قریش کے آباء اجداد جن کے ہاتھ میں آج خانہ کعبہ کا انتظام ہے ۔ اور ان کا واضح فرمان ہے ۔” ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا “ اور ” ہماری اولاد سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھا “ جس طرح انہوں نے یہ بھی کہا ” اے ہمارے رب ان میں خود ان سے ایک رسول مبعوث فرما ، جو انہیں آیات پڑھ کر سنائے ، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بنادے ۔ “ گویا حضرت ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی اپنی اس دعا سے اس بات کا تقرر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ حضرت ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی جانشین وخلیفہ ہے ۔ اور اس بات کی حق دار ہے کہ اب خانہ کعبہ کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہو۔ گویا خانہ کعبہ امت مسلمہ کا مرکز ہے ۔ اور مشرکین کے مقابلہ میں یہ امت اس خانہ خدا کے انتظام وانصرام کی زیادہ حق دار ہے اور یہ کہ یہود ونصاریٰ کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ امت مسلمہ کا اپنا قبلہ ہو۔ جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں اور اپنے دین کا جوڑ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملت ابراہیمی کے وارثو جانشین ہیں اور قریش کے جو لوگ اپنا نسب نامہ حضرت اسماعیل سے ملاتے ہیں انہیں کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی اولاد کی نسبت اس جانشینی اور امامت وسلطنت کا سوال کیا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب یہ تھا۔ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ” میرا وعدہ ظالموں کی بابت نہیں ہے ۔ “ اور اس کے بعد جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لئے برکت وفراوانی رزق کی استدعا کی تو آپ نے فرمایا مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” جو اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے ۔ “ اور یہ کہ جب یہ حضرات تعمیر کعبہ کے لئے اٹھے تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے رب ! ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے ایک امت مسلمہ اٹھاتے رہیو ! اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے نبی آخرالزمان کو مبعوث فرمائیے ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور حضرت محمد بن عبداللہ کو مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ امت مسلمہ کو ازسر نو قائم فرمایا اور اس نظریاتی وراثت کو یوں جاری فرمادیا۔ قصہ ابراہیم (علیہ السلام) کے اختتام پر اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف مڑجاتا ہے جو لوگ امت مسلمہ کے حق امامت و برتری کو چیلنج کررہے تھے ، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت سے برسرپیکار تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس موضوع پر بحث وجدال میں مبتلا تھے کہ دین اسلام کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ اصل دین کیا ہے اور ان کے مزعومات کیا ہیں اس لئے قرآن مجید ان لوگوں کے بارے میں یہ تاثر دیتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل مکہ میں سے ایک رسول بھیجنے کی درخواست اور اس کی مقبولیت اس آیت میں بھی حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کی دعا کا تذکرہ ہے کعبہ شریف بناتے ہوئے جو دعائیں ان دونوں حضرات نے کی تھیں ان میں سے ایک یہ دعا بھی ہے کہ اے ہمارے رب ان میں سے ایک رسول مبعوث فرما۔ اس رسول سے خاتم النّبیین حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں جو عربی بھی تھے اور مکی بھی اور حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) دونوں کی نسل میں سے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے بھی انبیاء (علیہ السلام) مبعوث ہوئے سب انہی کی نسل میں سے تھے۔ اور حضرت سرورعالم خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ سب بنی اسحاق تھے اور صرف آپ ہی بنی اسماعیل میں سے ہیں۔ مفسر ابن کثیر نے ص ١٨٣ ج ١ مسند امام احمد سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابو امامہ (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کا ابتدائی تذکرہ اولاً کیسے شروع ہوا آپ نے فرمایا کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت ہوں اور میری والدہ نے جو خواب دیکھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جس نے شام کے محلات کو روشن کردیا۔ میں اس خواب کا مظہر ہوں یہ حدیث صاحب مشکوٰۃ نے بھی ص ٥١٣ شرح السنہ سے نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ میں اپنی والدہ کے خواب کا مظہر ہوں جنہوں نے وضع حمل کے وقت دیکھا تھا ان کے لیے ایک نور روشن ہوا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے) ۔ ...... حدیث نقل کرکے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مطلب یہ کہ سب سے پہلے جنہوں نے میرا تذکرہ کیا اور لوگوں میں مجھے مشہور کیا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ یہ تذکرہ دعا کی صورت میں تھا۔ ذکر مشہور ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے جو آخری نبی تھے یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انہوں نے آپ کا نام لیکر بشارت دی اور بنی اسرائیل کو خطاب کرکے فرمایا (یَا بَنِیْ اِِسْرَآءِیْلَ اِِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ یَاْتِیْ مِنْم بَعْدِی اسْمُہُ اَحْمَدُ ) (کہ اے بنی اسرائیل بلاشبہ میں تمہاری طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں۔ تمہارے سامنے جو توراۃ ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں۔ اور ایک ایسے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔ ) زمانہ حمل میں آپ کی والدہ نے خواب دیکھا تھا کہ ان کے اندر سے ایک نور نکلا جس کی وجہ سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔ انہوں نے اپنا خواب اپنی قوم کو سنایا۔ جو لوگوں میں مشہور ہوگیا اور یہ آپ کی تشریف آوری کے لیے ایک بہت بڑی تمہید تھی۔ آخر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی مبعوث فرمایا جس کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے جن کی بشارت دی تھی۔ آپ کا نام احمد بھی ہے اور محمد بھی۔ آپ پر اللہ تعالیٰ نے نبوت اور رسالت ختم فرما دی اور سارے عالم کے انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک آپ کو نبی اور رسول بنا کر بھیج دیا اور سورة احزاب میں آپ کے خاتم النّبیین ہونے کا اعلان فرما دیا۔ اور آپ نے لا نبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) اور ختم بی النبیون (مجھ پر نبیوں کی آمد ختم ہوگئی) اور ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی۔ ١ ؂ (سنن ترمذی) اعلان فرمایا۔ آپ کی نبوت اور رسالت عامہ کا اعلان فرمانے کے لیے سورة اعراف میں یوں ارشاد فرمایا (قُلْ یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا) (آپ فرما دیجیے کہ اے لوگو ! بیشک میں تم سب کی طرف بھیجا ہوا اللہ کا رسول ہوں) ۔ جس رسول کے آنے کی دعا کی اس کی صفات : حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے اپنی نسل میں سے جس رسول کے مبعوث ہونے کے لیے دعا کی تھی اس کی صفات میں (یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ ) اور (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ) فرمایا تھا۔ سورة آل عمران (ع ١٨) میں بھی آپ کی یہ صفات مذکور ہیں اور سورة جمعہ میں بھی آپ کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں۔ یہ کام اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد فرمائے تھے۔ آپ نے ان کو پوری طرح سے انجام دیا۔ تلاوت کتاب : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقاصد بعثت میں سورة بقرہ میں اول تو یہ فرمایا کہ (یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ ) کہ وہ نبی لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کا کلام بھی ہے اور اللہ کی کتاب بھی اس کے الفاظ کا پڑھنا، پڑھانا اور سننا اور سنانا تلاوت کرنا صحیح طریقہ پر ادا کرنا بھی مطلوب اور مقصود ہے۔ بہت سے جاہل جو تلاوت کا انکار کرتے ہیں اور بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طوطے کی طرح رٹنے سے کیا فائدہ ؟ یہ لوگ کلام الٰہی کا مرتبہ اور مقام نہیں سمجھتے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کو لوگوں کے آپس کے خطوط پر اور انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں پر قیاس کرتے ہیں اور اپنی جہالت سے یوں کہتے ہیں کہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کا سمجھنا کافی ہے۔ اس کا پڑھنا اور یاد کرنا ضروری نہیں (العیاذ باللہ) یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ قرآن مجید کے الفاظ کو محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے۔ صحیفوں پر اعتماد کئے بغیر سینوں میں یاد رکھنا لازم ہے تاکہ اگر مطبوعہ مصاحف (العیاذ باللہ) معدوم ہوجائیں تب بھی قرآن شریف ١ ؂ بلاشبہ نبوت ختم ہوگئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی ہے۔ اپنی تمام قراءتوں کے ساتھ محفوظ رہ سکے۔ تلاوت قرآن کے فضائل : نیز قرآن مجید کی تلاوت میں بہت بڑا ثواب ہے، سمجھ کر پڑھے یا بےسمجھے پڑھے۔ تلاوت پر اجر عظیم ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رب تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جسے قرآن نے میرے ذکر سے اور مجھ سے مانگنے سے مشغول کرلیا میں اسے اس سے افضل عطیہ دوں گا جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں اور کلام اللہ کی فضیلت دوسرے تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسی اللہ کی فضیلت اس کی مخلوق پر ہے۔ (رواہ التر مذی و قال حدیث حسن) اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے بدلہ میں ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس گنی ہو کر ملتی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ا آم ایک حرف ہے (بلکہ) الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے (صرف الم کا تلفظ کرنے سے تیس نیکیاں مل جائیں گی) ۔ (رواہ الترمذی وقال حسن صحیح) معلوم ہوا کہ تلاوت قرآن کو طوطے کی طرح رٹنے سے تشبیہ دینا سخت گمراہی ہے۔ جس کی تلاوت کرنے سے ہر حرف پر ایک نیکی ملتی ہو اور ہر نیکی کی دس نیکیاں بن جاتی ہوں اس کی تلاوت طوطے کی طرح رٹا لگانے کے برابر کیسے ہوئی۔ در حقیقت قرآن کی تلاوت مستقل کام ہے اس کے الفاظ کو محفوظ رکھنا مستقل ذمہ داری ہے اور اس کی تفسیر کو صحابہ اور تابعین کے طریقے پر محفوظ رکھنا اور بیان کرنا مستقل کام ہے اور اس کے معنی و مفاہیم کو سمجھنا اور اس سے احکام کا استنباط کرنا مستقل عمل ہے۔ یہ سب چیزیں ضروری ہیں امت ان کی مکلف ہے۔ جو لوگ اس پر زور دیتے ہیں کہ الفاظ کے پڑھنے اور یاد رکھنے کی ضرورت نہیں یہ لوگ نصارٰی اور یہود سے بھی عبرت نہیں لیتے ان لوگوں نے اپنی کتابوں کے الفاظ کو محفوظ نہ رکھا تو اپنی کتابوں سے محروم ہوگئے۔ ان کی کتابوں کے ترجمے تو دنیا کی زبانوں میں ملتے ہیں مگر اصل کتاب مفقود ہے۔ ترجمہ صحیح ہے یا غلط اس کے جانچنے کے لیے ان کے پاس اصل کتاب نہیں ہے اور یہیں سے ان کے یہاں تحریف کا راستہ بھی نکل آیا۔ جب اصل کتاب موجود نہیں تو جس کا جو جی چاہے ترجمہ کرسکتا ہے۔ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایک صاحب سے احقر کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے بچہ کو قرآن مجید حفظ کرنے میں لگایا ہے لیکن میرے ایک استاد آئے تھے انہوں نے کہا کہ اب قرآن حفظ کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ قرآن مجید کمپیوٹر میں آگیا ہے۔ احقر نے ان سے کہا کہ تراویح میں قرآن مجید سنانے کے لیے کیا کمپیوٹر محرابوں میں رکھ دیا جائے گا ؟ اور دنیا بھر کے دیہاتوں میں ایک ایک گاؤں میں پانچ چھ سات مسجدیں ہیں کیا گاؤں والے ہر مسجد کے لیے کمپیوٹر خریدیں گے اور کمپیوٹر سیکھنے کے لیے اپنے دیہاتی آدمیوں کو سکھانے والوں کے پاس بھیجیں گے ؟ حفظ کی ضرورت صرف اسی لیے نہیں ہے کہ یہ معلوم کرلیا جائے کہ فلانی آیت کس سورت میں ہے اور پوری آیت کس طرح سے ہے۔ قرآن کا تلاوت کرنا اور سننا اور سنانا اپنی زبان اور کانوں کو اس میں مشغول رکھنا بہت بڑا عمل صالح ہے جو تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ قرآن مجید اور حدیث شریف کو نہیں جانتے اور ایمانی تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں وہ مشرکین اور یہود و نصارٰی کی باتوں سے متاثر ہو کر الفاظ قرآنیہ سے محروم ہونے کا سبق دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایمانی سمجھ دے اور اہل شر کے شر سے بچائے۔ کتاب اور حکمت کی تعلیم : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دوسرا کام ذکر کرتے ہوئے (وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ) ارشاد فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی فریضہ ہے کہ لوگوں کو اللہ کی کتاب کی تعلیم دیں۔ کتاب اللہ کے الفاظ بھی سکھائیں اور معانی بھی سمجھائیں۔ عربی زبان جاننا قرآن کے سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ قرآن کی تفسیر وہی معتبر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائی اور جو حضرات صحابہ کرام نے سیکھی پھر ان سے تابعین اور تبع تابعین اور سلف صالحین سے ہوتے ہوئے امت تک پہنچی۔ سورة نحل میں فرمایا (اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ ) (اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ بیان کریں جو ان کی طرف تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا) آج کل بہت سے لوگ ایسے ہیں جو تھوڑی بہت عربی جان کر قرآن شریف کے معانی اور مفاہیم اپنی طرف سے بتانے لگے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم و تفسیر سے بےنیاز ہو کر گمراہ ہو رہے ہیں اور گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جہالت اور گمراہی سے کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا خط ہے۔ جو مخلوق کی طرف بھیجا گیا اور رسول کی حیثیت محض ایک ڈاکیے کی ہے۔ ڈاکیے کا کام خط پہنچا دینا ہے۔ خط پڑھ کر سنانا، سمجھانا اس کا کام نہیں۔ قرآن مجید نے تو اپنے بارے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ یہ اللہ کا خط ہے جو مخلوق کی طرف آیا ہے اس کو خود ہی سمجھ لینا اور اس کے لانے والے سے مت سمجھنا، بلکہ قرآن نے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض میں کتاب و حکمت کی تعلیم دینا بتایا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درمیان سے نکال کر قرآن سمجھنا کفر کی دعوت اور اشاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مرحومہ کو ان لوگوں کے فریب سے محفوظ فرمائے۔ آیت شریفہ میں الکتاب اور الحکمۃ دو لفظ مذکور ہیں اور دونوں کی تعلیم دینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب رسالت کے فرائض میں شمار فرمایا ہے۔ مفسر بغوی معالم التنزیل ص ١١٦ ج ١ میں لکھتے ہیں کہ الکتاب سے قرآن مجید مراد ہے اور الحکمت سے مجاہد کی تفسیر کے مطابق فہم القرآن مراد ہے اور بعض حضرات نے اس سے احکام قضا مراد لئے ہیں۔ اور بعض حضرات نے حکمت کی تفسیر العلم والعمل سے کی ہے۔ صاحب روح المعانی نے ص ٣٨٧ ج ١ بعض مفسرین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ الحکمۃ سے کتاب اللہ کے حقائق و دقائق اور وہ سب چیزیں مراد ہیں جن پر قرآن مجید مشتمل ہے اس صورت میں تعلیم کتاب سے مراد اس کے الفاظ کا سمجھنا اور اس کی کیفیت ادا بیان کرنا مراد ہے اور تعلیم الحکمۃ سے اس کے معانی اور اسرار اور جو کچھ اس میں ہے اس سے واقف کرانا مراد ہے اور بعض حضرات نے حکمت کی تفسیر یوں کی ہے۔ ما تکمل بہ النفوس من المعارف والاحکام یعنی وہ تمام معارف اور احکام جن سے نفوس کی تکمیل ہوتی ہے۔ حکمت سے وہ سب مراد ہیں۔ درحقیقت حکمت کے جو معانی حضرات مفسرین نے بتائے ہیں وہ ایک دوسرے کے معارض اور منافی نہیں ہیں مجموعی حیثیت سے ان سب کو مراد لیا جاسکتا ہے۔ تزکیہ نفوس : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تیسرا فرض منصبی وَ یُزَکِّیْھِمْ بیان فرمایا۔ لفظ یُزَکِّیْ تزکیہ سے مضارع کا صیغہ ہے۔ تزکیہ لغت میں پاک صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف کتاب اللہ کا پڑھا دینا اور سمجھا دینا ہی نہیں دیا تھا بلکہ نفوس کا تزکیہ بھی آپ کے فرض منصبی میں داخل تھا۔ (یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ ) میں تحلیۃ النفوس بالفضائل اور یُزَکِّیْھِمْ میں تخلیۃ النفوس عن الرزائل کا ذکر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو توحید خداوندی سے آراستہ کیا اور کفر اور شرک کی نجاست سے پاک کیا۔ ایمان اور یقین دیا۔ شک سے بچایا۔ گناہوں کی گندگی سے دور کیا۔ نفوس کے رزائل دور کئے۔ اخلاق عالیہ اور اعمال صالحہ بتائے اور عمل کرکے دکھایا۔ گناہوں کی تفصیل بتائی ان کے اثرات ظاہرہ باطنہ دنیویہ اخرویہ سے باخبر فرمایا۔ نیکیوں کی تفصیلی فہرست بتائی اور ان کے منافع دنیویہ واخرویہ سے مطلع کر فرمایا۔ حسد، بخل، کینہ، تکبر، حرص، لالچ، حب جاہ کی مذمت فرمائی۔ حب فی اللہ اور تواضع اور فروتنی، صلہ رحمی، سخاوت، ضعیف کی مدد، بڑوں کی خدمت، یتیم کے ساتھ رحمدلی، تقویٰ ، اخلاص، اکرام اہل ایمان، نرمی، حسن الجور، غصہ پی جانا وغیرہ وغیرہ کی تعلیم دی۔ انسان کو انسان بنایا حیوانیت اور بہیمیت سے بچایا۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بعثت لاتمم حسن الاخلاق (کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں) رواہ مالک فی الموطا۔ نفوس کا تزکیہ صرف زبانی طور پر بتادینے سے نہیں ہوجاتا اس کے لیے صحبت کی ضرورت ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کے لیے انسانوں ہی میں سے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے تاکہ وہ عملی طور پر ان کا تزکیہ کرسکیں اور تاکہ ان کی صحبت سے انسانوں کے نفوس خیر کی طرف پلٹ سکیں اور اعمال صالحہ کے خوگر ہوجائیں اور نفوس کی شرارتوں کو سمجھ سکیں اور ان سے بچ سکیں۔ سورة توبہ میں ارشاد ہے (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ) (اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ! اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) اس آیت شریفہ میں سچوں کے ساتھ ہونے کی تعلیم فرمائی ہے جو لوگ اپنے اخلاص اور عمل میں سچے ہیں ان کے ساتھ رہنے سے طبیعت اعمال صالحہ کی طرف راغب ہوتی ہے اور نفس و شیطان کی مکاریوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے پھر ان کا توڑ بھی سمجھ میں آجاتا ہے جس کسی کی صحبت اختیار کرے پہلے دیکھ لے کہ وہ متبع سنت ہے یا نہیں ؟ اس میں فکر آخرت کتنی ہے ؟ اور حب دنیا اور جلب زر کے لیے تو مرشد بن کر نہیں بیٹھا جس کسی کو متبع سنت اور آخرت کا فکر مند پائے اس کی صحبت اٹھائے، مال و جاہ کا حریص مصلح اور مرشد نہیں ہوسکتا اس کی صحبت میں رہنا زہر قاتل ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

247 ھُمْ ضمیر کا مرجع اُمَّةً مُّسْلِمَةًہے۔ رَسُوْلًا مِّنْھُمْیہاں بھی ھُمْ کا مرجع اُمَّةً مُّسْلِمَةًاور اُمَّةً مُّسْلِمَةًکے ساتھ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآکی قید گذر چکی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں کی اولاد میں جو امت مسلمہ ہو ان میں سے ایک رسول برپا کرنا یہ دعا صرف اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہے جب کہ حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ان صفات کا حامل رسول مبعوث ہو لہذا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد میں پیدا ہونے والے انبیاء کے ذریعے یہ دعاء پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ ذُرِّيَّتِنَآ میں نَا سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ہیں اس لیے کہ بنائے کعبہ کے وقت یہی دونوں وہاں موجود تھے۔ منھم سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ امت مسلمہ چونکہ انسان ہیں، خاکی ہیں، بشر اور بنی آدم ہیں لہذا ان میں سے جو رسول پیدا ہوگا وہ بھی انسان اور بشر ہی ہوگا نہ کہ کسی اور جنس اور نوع کا ہوگا۔ آگے اس رسول کی چند صفات بیان کی ہیں۔ پہلی صفت :۔ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ ۔ وہ انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کے الفاظ بلا کم وکاست ان تک پہنچائے۔ دوسری اور تیسری صفت :۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۔ ان کو کتاب و حکمت سکھائے۔ کتاب سکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے الفاظ انہیں سمجھائے، ادائے الفاظ کی کیفیت بتائے، اس کی آیات کے مطالب ومعانی اور حقائق و اسرار سے آگاہ کرے۔ بان یفھمہم الفاظہ ویبین لھم کیفیۃ اداءہ ویوقفھم علی حقائقہ واسرارہ (روح ص 387 ج 1) اور حکمت سے مراد سنت اور احکام شریعت کی تشریح وتبیین ہے۔ وقال قتادۃ الحکمۃ السنۃ وبیان النبی الشرائع (قرطبی ص 131 ج 2، بحر ص 393 ج 1) یعنی اللہ کی کتاب کے احکام کی خدا کا پیغمبر جو زبانی تشریح و تفسیر کرے گا یا ان احکام کی کیفیت تعمیل بتائے گا حکمت سے یہ سب کچھ مراد ہے اور اسے ہی اصطلاحِ شریعت میں سنت کہا جاتا ہے اس کی مزید تشریح رکوع 18 میں آئے گی۔ وَيُزَكِّيْهِمْ ۔ یہ پیغمبر کی چوتھی صفت ہے یعنی وہ پیغمبر انہیں کفر وشرک کی نجاستوں، بد عملی کی آلائشوں اور بداخلاقی کی آلودگیوں سے پاک وصاف کرے۔248 یقیناً تو ہی سب پر غالب اور ہر حکمت کو جاننے والا ہے تجھے کسی دعاء کے ردو قبول پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور ہر دعاء کا ردو قبول بھی تیری حکمت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء کا ظہور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے ہوا۔ اس دعاء کو یہود ونصاریٰ اور مشرکین کے سامنےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر بطور دلیل پیش کیا کہ یہی وہ پیغمبر ہے جس کے ظہور کے لیے تمہارے روحانی اور جسمانی باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی۔ لہذا اس پر ایمان لاؤ اور اس کی لائی ہوئی دعوت توحید کو مانو کیونکہ یہ دعوت بھی وہی ہے جو خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے سامنے پیش کی اور مرتے وقت اس پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) کعبہ کی بنیادیں بلند کررہا تھا اور اساس کعبہ پر دیواریں اٹھا رہا تھا اور اس کے ہمراہ اسکا لڑکا بھی اس کام میں شامل تھا دونوں باپ بیٹے جناب باری کی خدمت میں عرض کر رہے تھے اے ہمارے پروردگار ! ہماری اس خدمت کو اور ہمارے اس عمل کو قبول فرمالے بیشک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے اور ہمارے پروردگار ہم کو اور زیادہ مخلص اور مطیع و فرمانبردار بنادے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کر جو تیری مطیع و فرمانبردار ہو اور اے ہمارے پروردگار ! ہم کو ہمارے حج کے احکام بتادے اور سکھادے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ توجہ فرماتے ہوئے ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمادے۔ بیشک تو بڑی توجہ فرمانیوالا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ! اس امت مسلمہ میں ایک ایسا رسول مبعوث کیجیئو جو انہی میں سے ہو اور اس کی شان یہ ہو کہ وہ تیری آیتیں ان کو پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور ان کو کتاب آسمانی اور اس کے احکام کے رموز اور حکمتیں سکھائے اور احکام قرانی کے حکم و علل کی ان کو تعلیم دیا کرے اور اس تلاوت وتعلیم کے ذریعہ ان کو معاصی اور اخلاق رذیلہ سے پاک کردے اور ان کی اصلاح کرکے ان کو سنوار دے اس میں شک نہیں کہ تو ہی کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ (تیسیر) کہا جاتا ہے کہ کعبہ کی اصل بنیاد تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے ڈالی تھی مگر حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان میں اس کانشان باقی نہ رہا اور وہاں ایک ریت کا ڈھیر ہوگیا اسی ڈھیر کو صاف کرکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بنیادوں کو اونچا کیا اور پھر اس پر دیواریں اٹھائیں بعض لوگوں نے دیواریں اونچی کرنا مراد لیا ہے ان کا مطلب شاید یہ ہوگا کہ بنیادیں تو بھری ہوئی تھیں۔ دیواریں اونچی کرکے چھت پائی ہوگی ہم نے ترجمہ میں دونوں باتوں کی رعایت کردی ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چن رہے تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) گارا اور پتھر دے رہے تھے یا دونوں باری باری تعمیر کرتے ہوں گے کسی خدمت کو انجام دینے کے بعد نیک بندوں کو اس کی قبولیت کی فکر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس عمل کو قبول فرما لے۔ اسی قبولیت کی دعا فرمائی اور آخر میں فرمایا آپ ہماری دعا کے سننے والے بھی ہیں اور ہمارے قلب کی حالت سے واقف بھی ہیں کہ ہم یہ کام محض تیری خوشنودی کے لئے کر رہے ہیں۔ دوسری دعا میں موجودہ خلوص کو بڑھانے اور فرمانبرداری کو زیادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کرنے کی درخواست کی ہے جو باپ دادا کے طریقوں پر قائم رہے کیوں کہ یہ تو معلوم ہوچکا تھا کہ ان کی اولاد میں بعض ظالم بھی ہوں گے اس لئے ایک جماعت فرمایا اور اس جماعت سے غالباً حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کے لئے اشارہ ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ امت محمدیہ مراد ہو مناسک کے معنی غایت عباد ت ہے اور عام طورپر یہ لفظ حج اور احکام حج کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ حج میں تکلیف اور مشقت بہت ہوتی ہے اور اکثر کام روزمرہ کی عادت کے خلاف کرنے پڑتے ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہاں عام عبادت مراد اور یہی صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم کو ہماری تمام عبادتوں کے طریقے اچھی طرح سمجھا دے اور سکھادے۔ توبہ کے اصلی معنی رجوع کے ہیں جب یہ فعل بندے کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کے معنی خدا کی طرف رجوع کرنے کے ہوتے ہیں کہ بند ہ نے اپنی خطائوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کیا اور جب خدا کی طرف اس فعل کی نسبت کی جاتی ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی اور اپنے فضل اور اپنی رحمت کے ساتھ بندے کے حال پر توجہ فرمائی لیکن عام طورپر ترجمہ کرنیوالے بندے کا توبہ کرنا اور خدا تعالیٰ کا توبہ قبول کرنا ترجمہ کرتے ہیں۔ ہم نے تیسیر میں دونوں باتوں کی رعایت رکھی ہے چونکہ درگزر کرنے کے موقع پر حضرت حق کی مہربانی اور رحمت کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو صف رحیم سے دونوں باپ بیٹوں نے یاد کیا آخری آیت میں جس پیغمبر کیلئے دعا فرمائی ہے وہ بالاتفاق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہوں۔ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حکمت سے مراد کسی نے کہا سنت ہے کسی نے کہا فہم ہے کسی نے کہا حق و باطل کے درمیان فصل کرنا ہے کسی نے کہا علم و عمل مراد ہے کسی نے قرآن کی صحیح مراد کے سمجھنے کا سلیقہ مراد لیا ہے۔ تزکیہ کے معنی پاک کرنا اور سنوارنا ہے۔ بحمد اللہ ہم نے تیسیر میں تمام امور کا لحاظ رکھا ہے حضرت حق جل مجدہ کا انبیاء کو مبعوث فرمانا اور اپنی مخلوق کو صحیح تعلیم سے آشنا کرنا چونکہ ان کے بےانتہاء مصالح پر مبنی ہے اور انکی زبردست قوت کی دلیل ہے اس لئے اس دعا کو انک انت العزیز الحکیم پر ختم فرمایا۔ اب آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت اور ان کے طریقہ کا ذکر فرماتے ہیں اور ان کے خاندان کا توحید الٰہی پر قائم رہنا اور اسلام پر زندہ رہنا اور اسلام پر مرنا ان سب امور پر توجہ دلاتے ہیں تاکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو عبرت ہو اور وہ غور کریں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت پر کون قائم ہے اور ان کے صحیح جانشین اور قائم مقام کون ہیں۔ (تسہیل)