Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 141

سورة البقرة

تِلۡکَ اُمَّۃٌ قَدۡ خَلَتۡ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ لَکُمۡ مَّا کَسَبۡتُمۡ ۚ وَ لَا تُسۡئَلُوۡنَ عَمَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴۱﴾٪  16

That is a nation which has passed on. It will have [the consequence of] what it earned, and you will have what you have earned. And you will not be asked about what they used to do.

یہ امّت ہے جو گزر چکی ، جو انہوں نے کیا ان کے لئے ہے اور جو تم نے کیا وہ تمہارے لئے ، تم ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہ کئے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ... That was a nation who has passed away. meaning, existed before you. ... لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ... They shall receive the reward of what they earned, and you of what you earn. meaning, they bear their deeds while you bear yours. ... وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ And you will not be asked of what they used to do. meaning, the fact that you are their relatives will not suffice, unless you imitate their good deeds. Further, do not be deceived by the fact that you are their descendants, unless you imitate them in obeying Allah's orders and following His Messengers who were sent as warners and bearers of good news. Indeed, whoever disbelieves in even one Prophet, will have disbelieved in all the Messengers, especially if one disbelieves in the master and Final Messenger from Allah, the Lord of the worlds, to all mankind and the Jinns. May Allah's peace and blessings be on Muhammad and the rest of Allah's Prophets.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141۔ 1 اس آیت میں پھر کسب و عمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف سے لگاؤ یا ان پر اعتماد کو بےفائدہ قرار دیا گیا۔ جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا سلسلہ اسے اگے نہیں بڑھائے گا۔ مطلب ہے کہ تمہارے خاندان کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گیچھ نہیں ہوگی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) 035:018 ۔ آیت (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى) 053:039 کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] یہ آیت انہی الفاظ سے پہلے بھی گزر چکی ہے (آیت نمبر ١٣٤) وہاں اس آیت کے مخاطب یہود تھے اور یہاں یہودی، عیسائی اور مسلمان سبھی مخاطب ہیں اور اسے دوبارہ لانے سے غرض صرف مزید تنبیہ و تاکید ہے کہ نجات اخروی کے لیے اپنے انبیاء و صالحین پر بھروسہ کرنا بالکل عبث بات ہے۔ تم اپنے اعمال کے لیے خود جواب دہ ہوگے اور خود ہی ان کی سزا بھگتو گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت میں دوبارہ تنبیہ فرمائی کہ نجات کا تعلق تو اپنی کمائی اور اپنے عمل پر ہے، اگر نجات چاہتے ہو تو ان انبیاء و صالحین کی طرح خود عمل کرو، ورنہ محض ان کی طرف نسبت اور ان کی کرامتیں بیان کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ أَبْطَأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ ) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب فضل الاجتماع ۔۔ : ٢٦٩٩، عن أبی ہریرۃ (رض) ]” جس کے عمل نے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ ‘

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ۝ ٠ ۚ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ۝ ٠ ۚ وَلَا تُسْـَٔـلُوْنَ عَمَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ١٤١ ۧ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں خلا الخلاء : المکان الذي لا ساتر فيه من بناء ومساکن وغیرهما، والخلوّ يستعمل في الزمان والمکان، لکن لما تصوّر في الزمان المضيّ فسّر أهل اللغة : خلا الزمان، بقولهم : مضی الزمان وذهب، قال تعالی: وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] ، تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] ، قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ [ آل عمران/ 137] ، إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] ، مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] ، وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] ، وقوله : يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] ، أي : تحصل لکم مودّة أبيكم وإقباله عليكم . وخَلَا الإنسان : صار خَالِياً ، وخَلَا فلان بفلان : صار معه في خَلَاءٍ ، وخَلَا إليه : انتهى إليه في خلوة، قال تعالی: وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] ، وخلّيت فلانا : تركته في خَلَاءٍ ، ثم يقال لكلّ ترک تخلية، نحو : فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] ، وناقة خَلِيَّة : مُخْلَاة عن الحلب، وامرأة خَلِيَّة : مخلاة عن الزّوج، وقیل للسّفينة المتروکة بلا ربّان خَلِيَّة، والخَلِيُّ : من خلّاه الهمّ ، نحو المطلّقة في قول الشاعر : مطلّقة طورا وطورا تراجع والخلَاءُ : الحشیش المتروک حتّى ييبس، ويقال : خَلَيْتُ الخَلَاءَ : جززته، وخَلَيْتُ الدّابة : جززت لها، ومنه استعیر : سيف يَخْتَلِي، أي : يقطع ما يضرب به قطعه للخلا . ( خ ل و ) الخلاء ۔ خالی جگہ جہاں عمارت و مکان وغیرہ نہ ہو اور الخلو کا لفظ زمان و مکان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چونکہ زمانہ میں مضی ( گذرنا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے اہل لغت خلاالزفان کے معنی زمانہ گزر گیا کرلیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) تو صرف ( خدا کے ) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر ہوگزرے ہیں ۔ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلاتُ [ الرعد/ 6] حالانکہ اس سے پہلے عذاب ( واقع ) ہوچکے ہیں ۔ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ [ البقرة/ 141] یہ جماعت گزر چگی ۔ تم لوگوں سے پہلے بھی بہت سے واقعات گزر چکے ہیں ۔ إِلَّا خَلا فِيها نَذِيرٌ [ فاطر/ 24] مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے ۔ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ [ البقرة/ 214] تم کو پہلے لوگوں کی سی ۔ وَإِذا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنامِلَ مِنَ الْغَيْظِ [ آل عمران/ 119] اور جب الگ ہوتے ہیں تو تم پر غصے کے سبب انگلیاں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ [يوسف/ 9] پھر ابا کی توجہ تمہاری طرف ہوجائے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ پھر تمہارے ابا کی محبت اور توجہ صرف تمہارے ہی لئے ۔ رہ جائے گی ۔ خلا الانسان ۔ تنہا ہونا ۔ خلافلان بفلان کسی کے ساتھ تنہا ہونا ۔ خلا الیہ کسی کے پاس خلوت میں پہنچنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِذا خَلَوْا إِلى شَياطِينِهِمْ [ البقرة/ 14] اور جب اپنے شیطانوں میں جاتے ہیں ۔ خلت فلانا کے اصل معنی کسی کو خالی جگہ میں چھوڑ دینے کے ہیں ۔ پھر عام چھوڑ دینے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ فرمایا :۔ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ [ التوبة/ 5] تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ ناقۃ خلیۃ ۔ اونٹنی کو دودھ دوہنے سے آزاد چھوڑ دینا ۔ امراءۃ خلیۃ مطلقہ عورت جو خاوند کی طرف سے آزاد چھوڑ دی اور جو کشتی ملاحوں کے بغیر چل رہی ہو اسے بھی خلیۃ کہا جاتا ہے ۔ الخلی جو غم سے خالی ہو ۔ جیسا کہ مطلقۃ کا لفظ سکون و اطمینان کے معنی میں آجاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے ( طویل ) (146) تطلقۃ طورا طورا تراجع میں ( کسی اسے سکون ہوجاتا ہے اور کبھی وہ دو ( عود کر آتی ہے ) میں تطلقۃ کا لفظ اسی معنی میں استعمال کیا ہے ۔ الخلاء ۔ خشک گھاس ۔ کہاجاتا ہے :۔ خلیت الخلاء ۔ میں نے خشک گھاس کاٹی ۔ خلیت الدابۃ ۔ جانور کو خشک گھاس ڈالی ۔ سیف یختلی ۔ تیز تلوار جو گھاس کی طرح ہر چیز کو کاٹ ڈالے ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤١) یہ ایک جماعت تھی جو گزر گئی، اس کے لیے اس کی نیکیاں ہیں اور تمہارے لیے تمہارے نیک کام ہیں، اور وہ جو دنیا میں کام کرتے تھے، بدلہ کے دن تم سے ان کی باز پرس نہیں ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤١ (تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج) یہ اس مقدس جماعت کے گل سرسبد تھے جن کا تذکرہ ہوا۔ (لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج) ۔ جو عمل انہوں نے کمائے وہ ان کے لیے ہیں ‘ تمہارے لیے نہیں۔ تمہارے لیے وہی ہوگا جو تم کماؤگے۔ (وَلاَ تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کیا کیا ‘ تم سے تو یہ سوال ہوگا کہ تم نے کیا کیا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس آیت میں دوبارہ تنبیہہ اور تہدید کی ہے کہ آخری نجات اور سعادت کا تعلق تو کسب و عمل پر ہے اگر نجات چاہتے ہو تو عمل صالح میں ان انبیاء اور صالحین کی اتباع کرو ورنہ محض ان شخصیتوں کی طرف انتساب اور ان کی کرامتیں بیان کرنا مفید نہیں ہو سکے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ من ابطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ / کہ جس کے عمل کنے اسے پیچھے رکھا اس کا نسب آگے بڑھ سکے گا۔ (ابن کثیر) اس سے ان لوگوں کی عبرت حاصل کرنی چاہیے جو خود بےعمل رہ کر اپنے بزرگو کے اعمال پر تکیہ کر کے اپنے آپ کو بےبنیاد اور غلط قسم کی آرزؤں میں مگن رکھتے ہیں۔ (ترجمان )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ جب خالی تذکرہ بھی نہ ہوگا تو اس سے تم کو نفع پہنچنا درکنار بلکہ اس کے برعکس یہ (ثابت ہوتا ہے کہ کسی بزرگ سے محض کسی نسبت کا ہونا نجات آخرت کے لیے کافی نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب بات اپنی انتہائی بلندی تک جاپہنچتی ہے ۔ اس مسئلے کا خاطر خواہ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور یہ بتایا دیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور اولاد یعقوب (علیہم السلام) کے مابین اور ان کے موجود نام نہاد پیروکاروں کے درمیان مکمل تضاد پایا جاتا ہے ۔ وہ کچھ اور تھے اور یہ کچھ اور ۔ اس لئے یہاں خاتمہ کلام اس فقرے پر کیا جاتا ہے جو پہلے گزرچکا ہے تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (١٤١) ” یہ کچھ لوگ تھے جو گزرچکے ۔ ان کی کمائی ان کے لئے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لئے ۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہ ہوگا۔ “ یہ ایک فیصلہ کن بات اب گویا نزاع ختم کردیا گیا ہے اور ان لوگوں کے فضول دعوؤں کے متعلق آخری بات کہہ دی گئی۔ واخر دعوانا ان الحمد ﷲرب العالمین

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نسب پر غرور کرنے والوں کو تنبیہ یہ آیت مکر رہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہود کو دوبارہ متنبہ فرمایا ان کی طبیعتوں میں جو باپ دادوں پر فخر کرنا اور نسب پر بھروسہ کرنا مستحکم تھا اس کے نافع نہ ہونے پر دوبارہ بطور تاکید کے تنبیہ فرمائی اور بتادیا کہ اللہ تمہیں تمہارے اعمال پر جزا دے گا اور تمہارا باپ دادوں کا عمل تمہیں کچھ نفع نہ دے گا اور قیامت کے دن تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادے کیا عمل کرتے تھے (یعنی ان کے اعمال کا بالکل ذکر نہ ہوگا) بلکہ تم سے تمہارے اعمال کا سوال ہوگا اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ یہ آیت پہلے جو گزری ہے وہاں اہل کتاب کو خطاب تھا اور یہاں امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ التحیہ کو تنبیہ ہے کہ تم لوگ یہود کی اقتدا نہ کرنا اور ان کی طرح سے آباؤ اجداد پر فخر نہ کرنا اور اپنے ذاتی اعمال کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

268 یہود اور نصاریٰ کے دلوں میں اپنے آباء و اجداد پر فخر و غرور مضبوطی سے بیٹھ چکا تھا اور وہ اپنی نجات کے بےبس اپنے اسلاف ہی کے اعمال کو کافی سمجھتے تھے اس لیے ان کے اس بےفائدہ فخر کو توڑنے کے لیے اور انہیں اس غلط خیال کے بد انجام سے ڈرانے کے لیے اس آیت کا اعادہ کیا گیا۔ تکریر لما تقدم للمبالغۃ فی التحذیر عما استحکم فی الطباع عن الفتخار بالآباء والاتکال علیہم (روح ص 401 ج 1) یہاں تک توحید و رسالت کے نقلی دلائل کا بیان تھا۔ اب آگے رسالت کے متعلق یہود اور نصاریٰ اور مشرکین کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔۔ پہلا شبہ : جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لائے اس وقت آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ سولہ یا سترہ ماہ بعد آپ کو خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا۔ تحویل قبلہ کا حکم دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بطور پیش گوئی آپ کو بتادیا کہ مستقبل قریب میں جب آپ کو تحویل قبلہ کا حکم ملے گا اس وقت احمق اور بیوقوف لوگ اس بات پر اعتراض کریں گے کوئی کہے گا کہ اس نے بیت المقدس کو جو تمام انبیاء کا قبلہ تھا چھوڑ دیا ہے اس لیے یہ پیغمبر نہیں، کوئی کہے گا کہ بیت المقدس سے بیت اللہ کا رخ کیا ہے شاید وطن کی یاد نے ستایا ہے اور دیکھو عنقریب مدینہ چھوڑ کر مکہ واپس آنے والا ہے غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ یا اعتراض کا جواب دیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 وہ بڑے لوگوں کی ایک جماعت تھی جو اپنے زمانے میں گزر چکی جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کے لئے ہے اور ان کے کام آئے گا اور جو کچھ تم کما رہے ہو اور کسب کر رہے ہو وہ تمہارے کام آئیگا۔ اور ان کے اعمال کی تم سے کوئی باز پرس اور پوچھ گچھ تک نہ کی جائیگی۔ (تیسیر) مطلب وہی ہے کہ جو کچھ وہ کر گئے اس کے متعلق تم سے سوال تک نہ ہوگا چہ جائے کہ ان کا محض انتساب تمہارے کام آئے اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ تمہارے اعمال تمہارے عقائد ان بزرگوں کے صریح خلاف ہوں تو اس صورت میں تمہاری ان کے ساتھ نسبت یا فرضی محبت کے جھوٹے دعوے کب کام آسکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف مکہ کی عظمت، خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت وغیرہ کا ذکر کرنے اور تمہید بیان کرنے کے بعد اب تحویل قبلہ اور اس کے متعلقات کو بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)