Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 147

سورة البقرة

اَلۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُمۡتَرِیۡنَ ﴿۱۴۷﴾٪  1

The truth is from your Lord, so never be among the doubters.

آپ کے رب کی طرف سے یہ سراسر حق ہے ، خبردار آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(This is) the truth from your Lord. So be you not one of those who doubt.

پھر فرمایا کہ باوجود اس علم حق کے پھر بھی یہ لوگ اسے چھپاتے ہیں پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ثابت قدمی کا حکم دیا کہ خبردار تم ہرگز حق میں شک نہ کرنا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

147۔ 1 پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقینا حق ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٤] یعنی مسلمان جس ملک میں ہوں گے وہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے۔ اس طرح کعبہ کی سمتیں الگ الگ بھی ہوسکتی ہیں کسی ملک سے کعبہ مغرب کی جانب ہوگا کسی سے مشرق کی طرف اور کسی سے شمال یا جنوب کی طرف، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور نہ اس بات میں شک کی ضرورت ہے کیونکہ تمہارا یہ قبلہ ہمیشہ کے لیے ہے جس میں آئندہ کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اَلْحَقُّ ) میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ” یہ حق “ کیا گیا ہے، یعنی یہ حق جسے یہود و نصاریٰ چھپا رہے ہیں آپ کے رب کی طرف سے ہے، اس لیے آپ کسی شک و شبہ کا شکار نہ ہوں۔ الْمُمْتَرِيْنَ یہ ” اِمْتِرَاءٌ“ یعنی باب افتعال سے اسم فاعل کی جمع ہے، مصدر ” مِرْیَۃٌ“ (بمعنی شک) سے فعل مجرد نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ باب افتعال سے آتا ہے۔ (ابن عاشور)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ۝ ١٤٧ ۧ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ مری المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] ، فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِمَّا يَعْبُدُ هؤُلاءِ [هود/ 109] ، فَلا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقائِهِ [ السجدة/ 23] ، أَلا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقاءِ رَبِّهِمْ [ فصلت/ 54] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] ، بِما کانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] ، أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] ، فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] وأصله من : مَرَيْتُ النّاقةَ : إذا مسحت ضرعها للحلب . ( م ر ی) المریۃ کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج/ 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم/ 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں بما کانوا فِيهِ يَمْتَرُونَ [ الحجر/ 63] جس میں لوگ شک کرتے تھے ۔ أَفَتُمارُونَهُ عَلى ما يَرى[ النجم/ 12] کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو ۔ فَلا تُمارِ فِيهِمْ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] تو تم ان کے معاملے میں گفتگو نہ کرنا ۔ مگر سرسری سی گفتگو ۔ دراصل مریت الناقۃ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی ہیں اونٹنی کے تھنوں کو سہلانا تاکہ دودھ دے دے ۔ ( مریم ) علیماالسلام ۔ یہ عجمی لفظ ہے اور حضرت عیسیٰ اعلیہ السلام کی والدہ کا نام ( قرآن نے مریم بتایا ہے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٧) آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ لہٰذا اس چیز کے متعلق شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا چاہیے کہ وہ اس چیز کو جانتے نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٧ (اَلْحَقُّ مِنْ رَّ ‘ بِّکَ ) اس کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے (فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ ) خطاب کا رخ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کی وساطت سے دراصل ہر مسلمان سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس بارے میں کوئی شک و شبہ اپنے پاس مت آنے دو کہ یہی تو حق ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:147) الحق من ربک۔ کلام مستانفہ ہے۔ الحق مبتدا۔ من ربک خبر۔ حق تو آپ کے رب ہی کی طرف سے ہے۔ الممترین، اسم فاعل جمع مذکر الممتری۔ واحد۔ امتراء (افتعال) مصدر شک میں پڑنے والے تردد کرنے والے۔ مری۔ مادہ۔ امتری یمتری امترائ۔ شک میں پڑنا۔ مریۃ۔ شک۔ جھگڑا۔ مراء جھگڑا۔ بحث مباحثہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اس میں تنبیہ ہے کہ منافقین اور یہود کے پر وپکنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق لے کر آئے ہیں جو شک وشبہ سے بالا تر ہے۔ (قرطبی۔ المنار)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اہل کتاب کے سلسلے میں بیان کے بعد اب روئے سخن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف ہوجاتا ہے الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ” یہ ایک قطعی امر حق ہے ، جو تمہارے رب کی طرف سے ہے ، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو۔ “ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی شک کیا ؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ ایک دوسری آیت میں جب کہا گیا : فَاِن کُنتَ فِی شَکٍّ مِّمَّا اَنزَلنَا اِلَیکَ فَساَلِالَّذِینَ یَقرَءُونَ الکِتَابَ مِن قَبلِکَ ” جو کلام ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ، اگر تمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تم سے پہلے کتاب پڑھتے چلے آرہے ہیں ۔ “ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا !” نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی میں ان سے پوچھتا ہوں۔ “ تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذاتی طور پر کیوں مخاطب کیا گیا ؟ مسلمانوں کو متوجہ کرنا تھا ۔ چاہے وہ مسلمان جو آپ کے ساتھ موجود تھے اور یہودیوں کے خرافات سے متاثر ہورہے تھے یا وہ لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور دینی معاملات میں یہودیوں کے اباطیل واکاذیب سے متاثر ہوسکتے تھے ۔ میں کہوں گا کہ آج مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ذرا اس تنبیہ پر کان دھریں ۔ آج ہم ایسی نادانی میں مبتلا ہیں جس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے ۔ ہم اپنے دینی معاملات میں بھی یہودونصاریٰ اور اشتراکی ملحدین سے یہ ہدایت طلب کرتے ہیں اور فتویٰ لیتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں سے خود اپنی تاریخ پڑھتے ہیں ۔ ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ورثہ کے بارے میں کوئی بات کریں ۔ وہ ہمارے قرآن اور ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور آپ کی سیرت کے بارے میں جو شکوک پیدا کرتے ہیں یہ ان پر اطمینان سے کان دھرتے ہیں ۔ ہم ان کے پاس اپنے طلبہ بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان سے اسلامی تعلیمات حاصل کریں اور ان کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوکر آئیں اور جب ہمارے پاس لوٹیں تو ان کی عقل ان کا ضمیر فاسد ہوچکا ہو اور وہ فاضل کہلائیں ۔ یاد رکھئے ! یہ قرآن ہمارے لئے کتاب شریعت ہے ۔ وہ پوری امت مسلمہ کی کتاب ہے ۔ یہ امت کی وہ دائمی کتاب ہے جس میں اسے راہ عمل بتایا گیا ہے اور اسے راہ بد سے ڈرایا گیا ہے ۔ اس کے بالمقابل اہل کتاب بہرحال اہل کتاب ہیں ۔ کفار ، کفار ہیں ۔ ان کا دین ان کا دین ہے ، اور ہمارا دین ہمارا دین !

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا کہ یہ حق ہے آپ کے رب کی طرف سے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجائیں۔ صاحب روح المعانی ص ١٤ ج ٢ لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق اپنی جگہ ثابت اور متحقق ہے اور ظاہر و باہر ہے اس میں کسی کو کچھ بھی شک کرنے کی گنجائش نہیں۔ صیغہ نہی کا ہے لیکن مقصود اخبار ہے۔ حق میں شک کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان اہل کتاب کی ضد اور مخالفت کا یہ حال ہے کہ اگر آپ ان اہل کتاب کے روبرو ہر قسم کے تمام دلائل بھی پیش کردیں تب بھی یہ آپ کے قبلہ کو ماننے والے نہیں اور چونکہ آپ کا قبلہ اب ہمیشہ کے لئے کعبہ مقررہوچکا ہے تو آپ بھی ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں اور ان اہل کتاب کی تو یہ حالت ہے کہ یہ آپس میں بھی ایک فریق دوسرے فریق کے قبلہ کو نہیں مانتا اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ نے اس بات کے بعد کہ آپ کے پاس صحیح اور قطعی علم آچکا ہے خدانخواستہ کہیں ان اہل کتاب کی خواہشات نفسانی کا اتباع کیا تو یقینا آپ بھی اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے جن لوگوں کو ہم نے کتاب آسمانی عطا کی ہے وہ اس پیغمبر کو خوب ا چھی طرح پہچانتے ہیں اور ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور ایک جماعت ان میں ایسی ہے کہ وہ لوگ امر حق کو چھپاتے ہیں حالانکہ وہ اس کے حق اور قطعی ہونے کو خوب جانتے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر حق وہی ہے جو آپ کے رب کی جانب سے نازل ہوا لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں اور آپ کا شمار شک کرنے والوں میں نہ ہو۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی مخالفت اور سرکشی کا یہ عالم ہے کہ آئندہ کوئی صورت جہت قبلہ میں اتحاد کی نہیں ہے ان کے سامنے دنیا بھر کے دلائل بھی آپ پیش کردیں تو یہ کعبہ کو اپنا قبلہ نہیں بنائیں گے اور چونکہ اب صخرہ بیت المقدس جو عارضی طورپر بعض مصالح ظاہری اور باطنی کے اعتبار سے مقرر ہوا تھا وہ منسوخ ہوچکا تو اب آپ بھی اس منسوخ حکم کی تعمیل نہیں کرسکتے اور ان کی خود آپس میں یہ حالت ہے کہ یہود نے بیت المقدس کی غربی جہت کو قبلہ بنا رکھا ہے اور نصاریٰ نے بیت المقدس کی شرقی جانب کو اختیار کر رکھا ہے جہاں حضرت مریم (علیہا السلام) پر کلمۃ اللہ کا القا کیا گیا تھا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قبلہ کی یہ تقسیم ان کی خود ساختہ تھی یا آسمانی حکم سے کی گئی تھی۔ بہر حال ان حالات میں کیا توقع ہوسکتی ہے کہ یہ اہل کتاب کعبہ کی جہت کو اختیار کرلیں گے البتہ ان میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے اور اسلام قبول کرلے تو وہ بات دوسری ہے اور آیت زیر بحث میں سے اس سے کوئی تعارض بھی نہیں جو بلاوجہ شبہ کیا جائے۔ اہل کتاب کی خواہشات کی پیروی سے روکنے کا بھی یہ مطلب نہیں کہ جب بہت سی خواہشات کی پیروی کرو گے جب ہی ظالم قرار دئیے جائو گے بلکہ کسی ایک خواہش کی اتباع بھی ظالم بنانے کے لئے کافی ہے جمع کا لفظ قرآن میں اس لئے لائے کہ اہل کتاب میں بکثرت گروہ ہیں اور ہر ایک گروہ کی مختلف خواہشات ہیں۔ اگرچہ آیت میں خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد آپکی امت کے مسلمان ہوں اور اپنوں پر رکھ کر دوسروں کو سمجھانا ایک عام دستور ہے جو ہر زبان میں پایا جاتا ہے اور یہ جو فرمایا کہ وہ اس نبی کو اور اس کی نبوت کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اپنے بیٹے کی شکل صورت پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا کیونکہ بیٹا انسان کو پیارا ہوتا ہے اور اس کو گھڑی گھڑی گود میں لیتا اور پیار کرتا ہے اور اس کو خوب پہچانتا ہے اسی طرح یہ اہل کتاب اپنی کتابوں میں آپ کی صفت پڑھ کر آپ کو خوب پہچانتے ہیں اور ان کو آپ کے نبی آخر الزماں ہونے میں کوئی اشتباہ نہیں ہے است قریر پر اس مشہور شبہ کی گنجائش نہیں رہتی جو بعض لوگوں نے اس تشبیہ پر حضرت عبداللہ بن سلام کی ایک روایت سے شبہ کیا ہے حالانکہ عبداللہ بن سلام کی روایت کا وہ مطلب ہی نہیں ہے جو یہ کہا جائے کہ اقوی اور القین کی ضعف اور متحمل سے تشبیہہ لازم آتی ہے۔ اس روایت میں تو عبداللہ بن سلام (رض) کے ایقان و ادغان کا اظہار ہے اسی بنا پر حضرت عمر (رض) نے ان کو پیشانی کو بوسہ دیا تھا) اگر تفصیل مقصود ہو تو حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز (رح) کی تفسیر عزیزی ملاحظہ کی جائے یہاں بیٹے کے بیٹا ہونے میں تشبیہ نہیں ہے جو کسی نئی بحث کا دروازہ کھولا جائے بلکہ یہاں تو بیٹے کے پہچاننے میں تشبیہہ ہے اس لئے فرمایا کہ کچھ لوگ ان اہل کتاب میں ایسے ہیں جو جان بوجھ کر حق کو چھپاتے اور کتمان حق کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور چونکہ یہ قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امر واقعی ہے۔ لہٰذا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ شکی قسم کے لوگوں میں سے نہ ہوں بعض حضرات نے یعرفونہ کی ضمیر سے قبلہ کی بحث مراد لی ہے اگرچہ اس کی بھی گنجائش ہے لیکن ہم نے اپنے ترجمہ کے موافق شرح کی ہے۔ (تسہیل)