Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 18

سورة البقرة

صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ۙ۱۸﴾

Deaf, dumb and blind - so they will not return [to the right path].

بہرے گونگے اندھے ہیں ۔ پس وہ نہیں لوٹتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are deaf, dumb, and blind, so they return not (to the right path). صُمٌّ (deaf), and thus cannot hear the guidance. بُكْمٌ (dumb), and cannot utter the words that might benefit them. عُمْيٌ (and blind), in total darkness and deviation. Similarly, Allah said, فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. (22:46), and this why they cannot get back to the state of guidance that they were in, since they sold it for misguidance.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٤] آخر ان منافقوں کی حالت یہ ہوگئی کہ یہ حق بات سننے کے لیے بہرے، حق کہنے کے لحاظ سے گونگے ہیں اور حق سامنے موجود ہو تب بھی انہیں نظر نہیں آتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۻ ( بہرے) ” اَصَّمُ “ کی جمع ہے۔ بُكْمٌ (گونگے) ” اَبْکَمُ “ کی جمع ہے اور عُمْىٌ ( اندھے) ” اَعْمَی “ کی جمع ہے۔ ان کے بہرے، گونگے اور اندھے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے کان، زبانیں یا آنکھیں ہیں ہی نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ انھوں نے یہ سب کچھ رکھنے کے باوجود ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً ڮ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰه) [ الأحقاف : ٢٦ ] ” اور ہم نے ان کے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تو نہ ان کے کان ان کے کسی کام آئے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ ان کے دل، کیونکہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ “ ( فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ) یعنی وہ اس گمراہی سے جو خرید بیٹھے اور اس ہدایت کی طرف جسے فروخت کر بیٹھے واپس نہیں لوٹتے۔ ان آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو زبان سے مومن اور دل میں پکے کافر تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝ ١٨ ۙ صمم الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ، ( ص م م ) الصمم کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ بكم قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم . ( ب ک م ) الابکم ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔ وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔ عمی العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] ( ع م ی ) العمی ٰ یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس/ 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة/ 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة/ 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ان یہودیوں کی یہ بھی مثال بیان کی گئی ہے، جیسا کہ کسی شکست کھائے ہوئے انسان نے کوئی علم حاصل کیا اور اس کے پاس اور شکست خوردہ لوگ جمع ہوگئے پھر انہوں نے اپنے علم کو تبدیل کردیا، جس کی وجہ سے ان کا فائدہ اور امن وسلامتی سب ہی برباد ہوگئے، اسی طرح سے یہود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کے اور قرآن مجید کے ذریعے سے مدد مانگا کرتے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو انہوں نے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کفر و انکار کے سبب ان کے ایمان لانے کی خواہش اور ان کے ایمان کے نفع کو ختم کردیا اور انھیں یہودیت کی گمراہیوں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا کہ انھیں اب ہدایت کا راستہ ہی نظر نہیں آتا، یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، کہ اپنے کفر اور گمراہی سے ہرگز نہیں لوٹ سکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ ١ (صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ ) اَصَمُّ بہرے کو کہتے ہیں ‘ صُمٌّ اس کی جمع ہے ‘ اَبْکَمُ گونگے کو کہا جاتا ہے ‘ بُکْمٌ اس کی جمع ہے۔ اَعْمٰی اندھے کو کہتے ہیں ‘ عُمْیٌ اس کی جمع ہے۔ فرمایا کہ یہ بہرے ہیں ‘ گونگے ہیں ‘ اندھے ہیں ‘ اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ ابوجہل ‘ ابولہب ‘ ولید بن مغیرہ اور عقبہ ابن ابی معیط سب کے سب ابھی زندہ تھے جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں۔ یہ سب تو غزوۂ بدر میں واصل جہنم ہوئے جو سن ٢ ہجری میں ہوا۔ تو یہ لوگ اس مثال کا مصداق کامل تھے۔ آگے اب دوسری مثال بیان کی جا رہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17. They have become deaf to hear, dumb to utter and blind to perceive the truth.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :17 حق بات سُننے کے لیے بہرے ، حق گوئی کے لیے گونگے ، حق بینی کے لیے اندھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:18) صم۔ بہرے، اصم کی جمع ہے افعل فعلاء فعل کے وزن پر، صم صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ واحد مذکر۔ بکم۔ گونگے۔ ابکم کی جمع جس کے معنی پیدائشی گونگے کے ہیں۔ عمی۔ اعمی کی جمع۔ اعمی کا استعمال آنکھوں کے اندھے اور دل کے اندھے دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ صم۔ خبر اول ہے مبتدا محذوف ھم کی بکم خبر دوم اور عمی خبر سوم ، مبتدا محذوف اپنی ہر سہ اخبار سے مل کر جملہ اسمیہ ہے اور یہ معطوف علیہ ہے اگلے جملہ کا فھم لا یرجعون ۔ فاء حرف عطف بمعہ ترتیب کے۔ ھم مبتدا ۔ لا یرجعون فعل بافاعل جو جملہ فعلیہ ہوکر خبر ہے مبتدا کی۔ مبتدا اپنی خبر سے مل کر جملہ اسمیہ ہوا۔ یہ جملہ معطوف ہے جملہ سابقہ پر۔ وہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں ۔ پس وہ (کسی طرح سیدھے راستہ کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی عقل و فکر کھو دیے میں زبان سے بھی بوجہ بز دلی کے اعتراف حق نہیں کرسکتے تو پھر راہ حق کی طرف سے کیسے رجوع ہوسکتے ہیں ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی حق سے بہت بعید ہوگئے ہیں کہ ان کے کان حق سننے کے قابل نہ رہے، زبان ان کی حق بات کہنے کے لائق نہ رہی، آنکھیں حق دیکھنے کے قابل نہ رہیں سو اب ان کے حق کی طرف رجوع ہونے کی کیا امید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کا تذکرہ جاری ہے۔ منافقت کی بیماری کے ظاہری اعضا پر منفی اثرات۔ جو لوگ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو پہچاننے اور دین اسلام کے اوصاف کو جاننے کے باوجود کفر و نفاق پر ڈٹے ہوئے ہیں وہ تو اس شخص کی طرح ہیں جو آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرا اور زبان سے گونگا ہے۔ یعنی ایسے لوگ نہ عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ نصیحت کی زبان سنتے ہیں اور نہ ہی سبق آموزی کے لیے سوچنے پر تیار ہیں۔ یہ تو چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے اور لکڑی یا پتھر کے ستون کی طرح ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ لکڑی اور پتھر تو نہیں سنا کرتے ہدایت پائیں تو کس طرح ؟ کان، آنکھ اور لمس ہدایت پانے اور راہنمائی حاصل کرنے کے انسان کے جسمانی ذرائع ہیں یہ مفلوج ہوجائیں تو ایسے شخص کو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ گونگا، بہرہ اور اندھا شخص کسی کا ہاتھ پکڑے بغیر تو کہیں جا نہیں سکتا۔ یہی حالت منافق کی ہوچکی ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ) (رواہ الترمذی : باب ومن سورة ویل للمطففین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بےچین ہو کر توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کماتے تھے اس کے سبب ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے) ۔ “ مسائل ١۔ کافر اور منافق اندھے، بہرے، گُونگے ہونے کی وجہ سے اسلام کی روشنی سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن کان، آنکھ اور دل سے کام نہ لینے والے لوگ : ١۔ کفار کان، آنکھ اور دل کو استعمال نہیں کرتے۔ (الاعراف : ١٧٩) ٢۔ دل، آنکھ اور کان سے استفادہ نہ کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٣۔ جہنمی سماعت و بصیرت استعمال نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ (الملک : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ نے انسان کو آنکھ ، کان اور زبان دی ہی اس لئے ہے کہ انسان بات سن سکے ۔ روشنی کو دیکھ سکے اور نور ہدایت سے فائدہ اٹھائے ۔ لیکن انہوں نے اپنے کانوں سے کام نہ لیا ۔ بہرے قرار پائے ۔ انہوں نے اپنی زبان سے بھی کام نہ لیا ۔ پس گونگے قرار دیے گئے ، انہوں نے آنکھ سے دیکھنا ہی بند کردیا لہٰذا اندھے بن گئے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ حق کی طرف لوٹ سکیں ، راہ ہدایت کی طرف مڑسکیں اور صداقت کی روشنی کو دیکھ سکیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38 ۔ اگرچہ ان کے ظاہری حواس درست ہیں لیکن جب انہوں نے ان حواس سے کام نہ لیا، کانوں سے حق نہ سنا۔ زبان سے حق کا اقرار نہ کیا، اور بصیرت کی آنکھوں سے حق کو نہ دیکھا تو گویا ان کے حواس ہی بیکار ہوچکے ہیں۔ اور وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ کانت حواسہم سلیمۃ ولکن لما سدوا عن الاصاغۃ الی الحق مسامعہم وابوا ان ینطقوا بہ السنتھم وان ینظروا ویبصروا بعیونھم جعلوا کانما ایفت مشعرھم (مدارک ص 20 ج 1) ۔ 39 ۔ یعنی اب ان کے ہدایت پر آنے کی کوئی راہ نہیں۔ لیکن حضرت شیخ علیہ الرحمۃ والغفران نے فرمایا کہ دنیا میں جب بھی کسی داعی توحید نے دعوت توحید پیش کی ہمیشہ لوگ دو جماعتوں میں بٹ گئے۔ کچھ لوگوں نے دعوت توحید کو مان لیا اور مومنین کہلائے اور کچھ لوگوں نے اس دعوت کو نہ مانا وہ کفار کے نام سے موسوم ہوئے اگر مومنین کو مادی اور دنیوی اقتدار بھی حاصل ہوگیا تو کافروں میں خوشامدی لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہوگئی۔ یہ لوگ ایک طرف مسلمانوں کے اقتدار سے مرعوب و خائف ہوتے اس لیے ان کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے اور اپنے کو اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ظاہر کرتے اور دوسری طرف کافروں سے ملے رہتے۔ یہ منافقین کی جماعت ہے۔ کافر بھی اسلام اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہوتے ہیں لیکن منافقین کافروں سے بھی زیادہ مضر اور خطرناک ہوتے ہیں۔ کیونکہ منافقین مسلمانوں میں ملے جلے رہتے ہیں اور مسلمان ان کو اپنی جماعت کے آدمی سمجھتے ہیں اس طرح منافقوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ ریشہ دوانیاں کرنے کا خوب موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنے بن کر اس قدر نقصان پہنچاتے ہیں کہ اتنا دشمن اور بیگانے بھی نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں جماعتوں یعنی مومنین، کفار اور منافقین کا حال بیان کرنے کے بعد آخرالذکر دو جماعتوں کا حال خوب واضح کرنے کے لیے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک اعلانیہ کافروں کیلئے یعنی مَثَلُھُمْ سے لَا یَرْجِعُوْنَ تک اور ایک منافقوں کیلئے یعنی اَوْکَصَیِّبٍ سے آخر رکوع تک اس لیے مثلہم کی ضمیر مطلق کفار کی طرف راجع ہے۔ پہلی مثال کافروں کیلئے اور اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًاسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہوں گے جنہوں نے آیات بینات کے ذریعے رشد وہدایت کی آگ جلائی فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَهٗ کے بعد یہ عبارت محذوف ہے وعندہ رجال اٰخرون۔ یعنی اس آگ جلانے والے کے پاس کچھ اور لوگ بھی موجود تھے مگر یہ لوگ اس آگ کی روشنی سے محروم رہے کیونکہ آگ کے لیے روشنی کے ساتھ ساتھ بینائی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِم ْاللہ نے ان سے نور بصیرت ہی چھین لیا۔ یہ کفار مکہ تھے جو آگ جلانے والے کے پاس موجود تھے جب قرب و جوار کے لوگ اس نور ہدایت سے مستفید ہورہے تھے اس وقت کفار مکہ ضد وعناد اور بغض وحسد کی وجہ سے کفر وعصیان اور جحود و انکار پر کمر بستہ ہوگئے تو اس کا لازمی وتکوینی نتیجہ یہ ہوا کہ ان سے وہ نور بصیرت جو فطرۃً ہر انسان کو ملتا ہے چھین لیا گیا، اور ان کے دلوں سے احساس حق کی صلاحیت سلب کرلی گئی۔ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ ۔ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر جباریت ثبت کردی گئی اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دئیے گئے اور انہیں گھپ اندھیرے میں چھوڑ دیا گیا کہ اب وہ کبھی راستہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ۻ بُكْمٌ عُمْىٌ فَھُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ۔ اس آیت کا مفہوم بعینہ وہی ہے جو خَتَمَ اللہ الخ کا ہے۔ بہرے اور اندھے تو اس لیے کہ ان کے کانوں پر مہر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ گونگے اس لئے ہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ جب ان میں حق سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تو حق گوئی کا وجود بھی نہیں ہوگا۔ جب کچھ سمجھیں گے ہی نہیں تو بولیں گے کیا ؟ اور لَا یَرْجِعُوْنَ کا یہاں وہی مفہوم ہے جو وہاں لَا یُوْمِنُوْنَ کا ہے۔ ایک بات ذہن نشین رہے کہ یہاں کفار کی ذوات کو ذات مستوقد سے تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ ان کے قصے کو قصۂ مستوقد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وانما شبھت قصتھم بقصۃ المستوقد (کبیر ص 295 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ ان کی حالت اس گروہ کی حالت کے مشابہ ہے جس نے کہیں آگ جلائی ہو ، پھر جب اس آگ نے اس گروہ کے ارد گرد اور آس پاس کی تمام چیزوں کو روشن کردیا ہو تو اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے نور کو سلب کرلیا ہو اور ان کو سخت تاریکیوں میں اس طرح چھوڑ دیا ہو کہ ان کو اپنے آس پاس کی کوئی چیز نظر نہ آتی ہو ۔ وہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور اندھے ہیں ، لہٰذا وہ گمراہی سے ہدایت کی جانب نہیں لوٹیں گے۔ ( تیسیر) مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح روشنی حاصل کرنی کی غرض سے کچھ لوگ شب کی تاریکی میں آگ جلائیں اور آگ کی روشنی سے فائدہ حاصل کرنا چاہیں اور جب وہ آگ ان لوگوں کے چاروں طرف کی چیزوں کو روشن کر دے تو ایک دم آگ کی روشنی کو خدا تعالیٰ زائل کر دے اور وہ لوگ اندھیروں میں متحیر اور حیرت زدہ ہو کر رہ جائیں ۔ یہی حالت ان منافقین کی ہے کہ اسلام کی روشنی سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں مل جل کر مال غنیمت بھی حاصل کریں اور نکاح وغیرہ کے تعلقات قائم کر کے ورثہ کا بھی فائدہ اٹھائیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے محفوظ بھی رہیں ۔ لیکن ٹھیک اس وقت جبکہ ان کی یہ حرکات بآور ہونے کے قریب تھیں اور ان کے نفاق کا انشاء ہوگیا اور ان کا بھانڈا پھوٹ گیا اور یہ حیران رہ گئے یا یہ مطلب ہے کہ دنیا میں چند روز اپنی مکاری سے فائدہ اٹھاتے رہے مگر مرنے کے بعد گونا گوں عذاب میں مبتلا کئے گئے ۔ بہرحال ان کی حیرانی اور ان کے تحیر اور ان کے کفر و نفاق کی تاریکیوں میں مبتلا ہونے کی مثال بیان کی گئی ہے اور چونکہ اس تحیر کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ نہ تو بات سنتے ہیں نہ سیدھی راہ کو کسی سے دریافت کرسکتے ہیں اور نہ راست پر چل سکتے ہیں اور بالکل اس جماعت کی طرح جس کی آگ کا نور اور روشنی ختم ہوچکی ہو اور وہ تصور حیرت بن کر رہ گئی ہو ۔ ان بدبختوں کی حالت ہوگئی ہے تو بھلا اب یہ کیونکہ کفر کی تاریکیوں اور اندھیروں سے نکل کر اسلام کی طرف آسکتے ہیں ۔ کہیں بہر ا اور گونگا اور اندھا بھی سیدھی راہ پر لگ سکتا ہے ، اس لئے فرمایا فھم لا یرجعون (تسہیل)