Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 203

سورة البقرة

وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ ؕ فَمَنۡ تَعَجَّلَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۚ وَ مَنۡ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَیۡہِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۲۰۳﴾

And remember Allah during [specific] numbered days. Then whoever hastens [his departure] in two days - there is no sin upon him; and whoever delays [until the third] - there is no sin upon him - for him who fears Allah . And fear Allah and know that unto Him you will be gathered.

اور اللہ تعالٰی کی یاد ان گنتی کے چند دنوں ( ایام تشریق ) میں کرو ، دو دن کی جلدی کرنے والے پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں یہ پرہیزگار کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اُسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Remembering Allah during the Days of Tashriq - Days of Eating and Drinking Allah says; وَاذْكُرُواْ اللّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ ... And remember Allah during the Appointed Days. Ibn Abbas said, `The Appointed Days are the Days of Tashriq (11-12-13th of Dhul-Hijjah) while the Known Days are the (first) ten (days of Dhul-Hijjah)." Ikrimah said that: وَاذْكُرُواْ اللّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ (And remember Allah during the Appointed Days), means reciting the Takbir -- Allahu Akbar, Allahu Akbar, during the days of Tashriq after the compulsory prayers. Imam Ahmad reported that Uqbah bin Amr said that Allah's Messenger said: يَوْمُ عَرَفَةَ وَيَوْمُ النَّحْرِ وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الاْسْلَمِ وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْب The day of Arafah (9th of Dhul-Hijjah), the day of the Sacrifice (10th) and the days of the Tashriq (11-12-13th) are our `Id (festival) for we people of Islam. These are days of eating and drinking. Imam Ahmad reported that Nubayshah Al-Hudhali said that Allah's Messenger said: أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وشُرْبٍ وَذِكْرِ الله The days of Tashriq are days of eating, drinking and Dhikr (remembering) of Allah.) Muslim also recorded this Hadith. We also mentioned the Hadith of Jubayr bin Mut`im: عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ وَأيَّامُ التَّشْرِيقِ كُلُّهَا ذَبْح All of Arafat is a standing place and all of the days of Tashriq are days of Sacrifice. We also mentioned the Hadith by Abdur-Rahman bin Ya`mar Ad-Diyli: وَأَيَّامُ مِنىً ثَلَأثَةٌ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَأ إثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَأ إِثْمَ عَلَيْه The days of Mina (Tashriq) are three. Those who hasten in two days then there is no sin in it, and those who delay (i.e., remain in Mina for a third day) then there is no sin in it.) Ibn Jarir reported that Abu Hurayrah narrated that Allah's Messenger said: أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أيَّامُ طُعْمٍ وَذِكْرِ الله The days of Tashriq are days of eating and remembering Allah. Ibn Jarir reported that Abu Hurayrah narrated that; Allah's Messenger sent Abdullah bin Hudhayfah to Mina proclaiming: لاَا تَصُومُوا هذِه الاْاَيَّامَ فَإنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللهِ عَزَّ وَجَل Do not fast these days (i.e., Tashriq days), for they are days of eating, drinking and remembering Allah the Exalted and Most Honored. The Appointed Days Miqsam said that Ibn Abbas said that; the Appointed Days are the days of Tashriq, four days: the day of the Sacrifice (10th of Dhul-Hijjah) and three days after that. This opinion was also reported of Ibn Umar, Ibn Az-Zubayr, Abu Musa, Ata, Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Abu Malik, Ibrahim An-Nakhai, Yahya bin Abu Kathir, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi, Az-Zuhri, Ar-Rabi bin Anas, Ad-Dahhak, Muqatil bin Hayyan, Ata Al-Khurasani, Malik bin Anas, and others. In addition, the apparent meaning of the following Ayah supports this opinion: فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَل إِثْمَ عَلَيْهِ (But whosoever hastens to leave in two days, there is no sin on him and whosoever stays on, there is no sin on him). So the Ayah hints to the three days after the day of Sacrifice. Allah's statement: وَاذْكُرُواْ اللّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ And remember Allah during the Appointed Days, directs remembering Allah upon slaughtering the animals, after the prayers, and by Dhikr (supplication) in general. It also includes Takbir and remembering Allah while throwing the pebbles every day during the Tashriq days. A Hadith that Abu Dawud and several others collected states: Tawaf around the House, Sa`i between As-Safa and Al-Marwah and throwing the pebbles were legislated so that Allah is remembered in Dhikr. ... فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَ إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَل إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى ... But whosoever hastens to leave in two days, there is no sin on him and whosoever stays on, there is no sin on him, if his aim is to do good When mentioning the first procession (refer to 2:199) and the second procession of the people upon the end of the Hajj season, when they start to return to their areas, after they had gathered during the rituals and at the standing places, Allah said, ... وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ and obey Allah (fear Him), and know that you will surely be gathered unto Him. Similarly, Allah said: وَهُوَ الَّذِى ذَرَأَكُمْ فِى الاٌّرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ And it is He Who has created you on the earth, and to Him you shall be gathered back. (23:79)

ایام تشریق آیت ( ایام معدودات ) سے مراد ایام تشریق اور ایام معلومات سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں ، ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں عرفے کا دن قربانی کا دن اور ایام تشریق ہمارے یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں اور یہ دن کھانے پینے کے ہیں ( احمد ) اور حدیث میں ہے ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ( احمد ) پہلے یہ حدیث بھی بیان ہو چکی ہے کہ عرفات کل ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایام تشریق سب قربانی کے دن ہیں ، اور یہ حدیث بھی پہلے گزر چکی ہے کہ منی کے دن تین ہیں دو دن میں جلدی یا دو دیر کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں ، ابن جریر کی ایک حدیث میں ہے کہ ایام تشریق کھانے اور ذکر اللہ کرنے کے دن ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھیجا کہ وہ منی میں گھوم کر منادی کر دیں کہ ان دنوں میں کوئی روزہ نہ رکھیں یہ دن کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں ، ایک اور مرسل روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ مگر جس پر قربانی کے بدلے روزے ہوں اس کے لئے یہ زائد نیکی ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ منادی بشر بن سحیم رضی اللہ عنہ تھے اور حدیث میں ہے کہ آپ نے ان دنوں کے روزوں کی ممانعت فرمائی ہے ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفید خچر پر سوار ہو کر شعب انصار میں کھڑے ہو کر یہ حکم سنایا تھا ، کہ لوگو یہ دن روزوں کے نہیں بلکہ کھانے پینے اور ذکر اللہ کرنے کے ہیں ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ایام معدودات ایام تشریق ہیں اور یہ چار دن ہیں دسویں ذی الحجہ کی اور تین دن اس کے بعد کے یعنی دس سے تیرہ تک ، ابن عمر ، ابن زبیر ، ابو موسیٰ ، عطاء مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، ابو مالک ، ابراہیم نخعی ، یحییٰ بن ابی کثیر ، حسن ، قتادہ ، سدی ، زہری ، ربیع بن انس ، ضحاک ، مقاتل بن حیان ، عطاء خراسانی ، امام مالک وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ان میں جب چاہو قربانی کرو لیکن افضل پہلا دن ہے مگر مشہور قول یہی ہے اور آیت کریمہ کے الفاظ کی ظاہری دلالت بھی اسی پر ہے کیونکہ دو دن میں جلدی یا دیر معاف ہے تو ثابت ہوا کہ عید کے بعد تین دن ہونے چاہئیں اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنا قربانیوں کے ذبح کے وقت ہے ، اور یہ بھی پہلے بیان ہو چکا ہے کہ راجح مذہب اس میں حضرت امام شافعی کا ہے کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے ایام تشریق کے ختم ہونے تک ہے ، اور اس سے مراد نمازوں کے بعد کا مقررہ ذکر بھی ہے اور ویسے عام طور پر یہی اللہ کا ذکر مراد ہے ، اور اس کے مقررہ وقت میں گو علماء کرام کا اختلاف ہے لیکن زیادہ مشہور قول جس پر عمل درآمد بھی ہے یہ ہے کہ عرفے کی صبح سے ایام تشریق کے آخر دن کی عصر کی نماز تک ، اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی دار قطنی میں ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں واللہ اعلم ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ میں تکبیر کہتے اور آپ کی تکبیر پر بازار والے لوگ تکبیر کہتے ہیں یہاں تک کہ منی کا میدان گونج اٹھتا اسی طرح یہ مطلب بھی ہے کہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کے وقت تکبیر اور اللہ کا ذکر کیا جائے جو ایام تشریق کے ہر دن ہوگا ، ابو داود وغیرہ میں حدیث ہے کہ بیت اللہ کا طواف صفا مروہ کی سعی شیطانوں کو کنکریاں مارنی یہ سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے ہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حج کی پہلی اور دوسری واپسی کا ذکر کیا اور اس کے بعد لوگ ان پاک مقامات کو چھوڑ کر اپنے اپنے شہروں اور مقامات کو لوٹ جائیں گے اس لئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور یقین رکھو کہ تمہیں اس کے سامنے جمع ہونا ہے اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا پھر وہی سمیٹ لے گا پھر اسی کی طرف حشر ہو گا پس جہاں کہیں ہو اس سے ڈرتے رہا کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

203۔ 1 مراد ایام تشریق ہیں یعنی 11، 12 اور 13 ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (اَ للّٰہُ اَکبَرْ ، اللّٰہُ اَکبَر، ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ) 203۔ 2 رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) 3 دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (11 اور 12 ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧٢۔ ا ] ایام معدودات سے مراد ماہ ذی الحجہ کی گیا رہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ ان دنوں میں بکثرت اللہ کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔ رمی جمار کے وقت بھی بآواز بلند تکبیر کہی جائے اور تمام حالات میں بھی بازاروں میں چلتے پھرتے وقت بھی اور ہر نماز کے بعد بھی اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر (تین مرتبہ) (لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد) عیدین کی تکبیریں بھی یہی ہیں اور ایام تشریق میں بھی یہی باواز بلند کہتے رہنا چاہیے۔ ایام تشریق کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ یہ کھانے پینے اور ذکر الٰہی کے دن ہیں۔ تکبیرات کے شروع اور ختم کرنے میں اگرچہ اختلاف ہے۔ تاہم صحیح اور راجح یہی بات ہے کہ ذی الحجہ کی ٩ تاریخ ( عرفہ یا حج کے دن) کی صبح شروع کر کے تیرہ تاریخ کی عصر کو ختم کی جائیں۔ اس طرح یہ کل تئیس نمازیں بنتی ہیں۔ ہر نماز کے بعد کم از کم تین بار اور زیادہ سے زیادہ جتنی اللہ توفیق دے۔ بآواز بلند تکبیرات کہنا چاہئیں۔ رمی جمار کا عمل تین دن یعنی ذی الحجہ کی ١٠، ١١، ١٢ کو ہوتا ہے۔ دس ذی الحجہ کا دن تو حجاج کے لیے بہت مصروفیت کا دن ہوتا ہے۔ اس کے بعد تین دن منیٰ میں ٹھہرنا مسنون ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص اس سے پہلے جانا چاہے تو وہ دوسرے دن بھی جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کے دل میں تقویٰ ہو اور حج کے تمام مناسک ٹھیک طور پر بجا لانے کا ارادہ رکھتا ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ) عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا : ” ایام معدودات ایام تشریق (١١، ١٢، ١٣ ذوالحجہ) ہیں۔ “ [ بخاری، العیدین، باب فضل العمل۔۔ قبل، ح : ٩٦٩ ] پھر امام بخاری (رض) نے باب باندھا ہے : ” منیٰ میں ٹھہرنے کے دنوں میں تکبیر کہنا اور جب عرفات کو جائے۔ “ عمر (رض) منیٰ میں اپنے خیمے کے اندر تکبیر کہتے، مسجد والے اسے سنتے تو وہ بھی تکبیر کہتے اور بازاروں والے بھی تکبیر کہتے، یہاں تک کہ منیٰ تکبیرات سے گونج اٹھتا۔ اسی طرح ابن عمر (رض) بھی ان دنوں میں منیٰ میں تکبیر کہتے، نمازوں کے بعد تکبیر کہتے اور اپنے بستر پر، اپنے خیمے میں، اپنی مجلس میں اور چلتے پھرتے ان تمام دنوں میں تکبیر کہتے اور ام المومنین میمونہ (رض) قربانی کے دن تکبیر کہتیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عمر بن عبد العزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تشریق کی راتوں میں تکبیر کہتیں۔ [ بخاری، العیدین، باب التکبیر أیام منیً ۔۔ ، قبل ح : ٩٧٠ ] معلوم ہوا ان ایام سے مراد عرفہ کی صبح سے لے کر ١٣ ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے تک کا وقت ہے۔ قربانی کے دن اور ایام تشریق میں روزہ رکھنا منع ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔ “ [ مسلم، الصیام، باب تحریم صوم أیام التشریق ۔۔ : ١١٤١ ] اللہ کے ذکر سے مراد وہ تمام تکبیرات ہیں جو جمرات کو کنکر مارتے وقت، جانور ذبح کرتے وقت یا دوسرے اوقات میں کہی جاتی ہیں اور تکبیر کے علاوہ کوئی بھی ذکر ہو، وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔ یعنی ان ایام میں ذکر الٰہی میں مصروف رہو۔ (لِمَنِ اتَّقٰى ۭ ) یعنی گیارہ اور بارہ کو دو دن جمرات کو کنکر مار کر چلا آئے، تب بھی جائز ہے اور اگر کوئی تاخیر کرے یعنی پورے تین دن منیٰ میں ٹھہرا رہے تو بھی جائز ہے، بشرطیکہ دل میں تقویٰ ہو اور حج کے احکام خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر) (اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ) حج کے موقع پر لوگ حشر کی طرح جمع ہوتے ہیں، اس لیے حج کے ذکر کے ساتھ حشر کا دن یاد دلا کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The emphasis on remembering Allah in Mina In the last of the eight verses relating to injunctions about Hajj, that is, وَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ (And recite the name of Allah in the given number of days), the Hajj pilgrims have been asked to engage themselves in the remembrance of Allah so that their Hajj meets a perfect ending and their post-Hajj life becomes correct and fruitful. These &given number of days& refer to (ayyam al-tashriq) ایام التشریق during which it is necessary (wajib) to say takbir (which is, اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد). Immediately following is a clarification of the duration of stay at Mina منٰی and the deadline for throwing pebbles at the three Pillars. This was an issue debated by the people of Jahiliyyah. Some thought it was necessary to stay at Mina منٰی upto the 13th of Dhul-Hijjah and throw pebbles at the three Pillars. According to them, to come back from Mina منٰی on the 12th was impermissible and those who did so were sinners. Similarly, others regarded coming back on the 12th necessary and staying there through the 13th, a sin. Both were corrected in this verse by saying: فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ‌ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ : &Then whoever is early (in leaving) after two days there is no sin on him and whoever remains behind, there is no sin on him ...& thereby proving that both parties calling each other sinners are involved in excess and error. The correct position is that Hajj pilgrims have the option of acting on either of the two permissions. However, it is better and preferable to stay there through the third day (that is, 13th of Dhul-Hijjah). Jurists say that one who leaves Mina before sunset on the second day (i.e. 12th of Dhul-Hijjah), it is not necessary for him to do his ramy رَمِی (throwing of pebbles on the three Pillars) for the third day. But, should the sun set while he is still in Mina, it does not remain anymore permissible for him to leave Mina until he has done his ramy رَمِی for the third day. However, the ramy رَمِی for the third day has a special concession that it can also be done between the post-morning and pre-noon hours. If we look at the manner in which the choice of returning from Mina has been given to the Hujjaj حَجَّاج - no sin if they return on the second day and no sin if they return on the third day - we shall realize that all this is for the convenience of one who fears Allah and obeys His commands, for he really deserves the Hajj, as said elsewhere in the Holy Qur&an إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ﴿٢٧﴾which means that Allah Almighty accepts (acts of prayer and worship) only from those who are God-fearing and obedient. Now, one who has been involved in sins much before Hajj, continued being negligent even during the Hajj and was callous enough not to abstain from sins even after Hajj, his Hajj is certainly not going to be of any good to him, although, the formal obligation has been validly fulfilled, releasing him from the possible crime of not having performed the Hajj. Closing this eight-verse unit, it was said: وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُ‌ونَ (And fear Allah and be sure that you are going to be gathered before Him), where He shall make you account for all your open and hidden deeds and give you the reward and punishment for these. This last line is really the essence of all Hajj injunctions given in these verses. It means that one should keep fearing Allah during the special days of the Hajj guarding oneself from any shortcoming in the prescribed acts of Hajj, as he should keep fearing Allah after the Hajj guarding himself against any pride of performance, and keep abstaining from sins because, on the day human deeds shall be weighed on the Balance, his sins will eat away his good deeds, that is, they will nullify the effect and weight of the good deeds. In a hadith about the great ` ibadah عبادہ of Hajj, it has been said that one who returns after having accomplished his Hajj, is so cleansed of his sins as if he was born on that day. This is why those performing Hajj have been instructed to maintain the quality of Taqwa, (that vital sense of responsibility before Allah). Being one who has been purified from sins, it is necessary to take all possible precautions against what tempts man to fall into sin so that one can earn the best of both the worlds, the dunya دنیا and the akhirah آخِرَ‌ةِ. If this is not done and the performer of Hajj goes back to a life of sin, even after such a cathartic experience, he shall find that the elimination of his past sins by forgiveness is not going to be of any use to him. Contrary to this, the ` ulama& have said that one who returns from his Hajj with his heart free from the love of dunya دنیا and attracted to the concern for the akhirah آخِرَ‌ةِ , his Hajj is accepted and his sins are forgiven and his prayers are answered. From place to place during the Hajj, people pledge their obedience to Allah before His House, how can these pledges be thoughtlessly broken after the Hajj? If those who are lucky to perform their Hajj are a little more mindful of this factor, they might stay by their solemn pledge later on. A pious elder said: When I returned from Hajj, it was by chance that a suggestion of sin crept into my heart whereupon I heard a voice from the Unseen: Didn&t you perform the Hajj? Didn&t you perform the Hajj? This voice became a wall between me and that sin. Allah Almighty protected me.& As against this, there is the case of another pious man from Turkey, who was a disciple of the famous Maulana Jami. He was in such an unusual state of spiritual excellence in his normal life that he used to observe a halo of radiance over his head. He went to perform his Hajj, but after his return he discovered that he has lost that unusual state totally. He talked about it to his master, Maulana Jami. He said: &Before your Hajj, you had the gift of humbleness, you wept before Allah thinking of yourself as a sinner. After your Hajj, you became proud and picked up the airs of someone righteous, spiritually elevated. Therefore, this very Hajj of yours became the cause of your pride and that is why you lost that state of radiance.& The emphasis on Taqwa (the fear of Allah) towards the conclusion of Hajj injunctions has yet another secret. It goes without saying that Hajj is a great act of ` ibadah. Once it has been accomplished, that eternal adversary of man, the Satan شیطان ، generally injects into man&s heart the thought of self-righteousness which simply ruins all his deeds. Therefore, the final word said was about the need to fear Allah and the necessity to obey Him, not only before the Hajj and during the Hajj, but also after the Hajj when one must become much more particular in fearing Allah and alert in abstaining from sins by conscious effort, lest all that one has done in the form of the ` ibadah of Hajj goes waste. اللھم وفقنا لما تحب وترضی من القول والعمل والنیہ O Allah, give us the ability to do what You love and are pleased with - in word, deed and intention.

منیٰ میں دو یا تین دن کا قیام اور ذکر اللہ کی تاکید : آٹھویں آیت جو اس جگہ احکام حج کی آخری آیت ہے اس میں حجاج کو ذکر اللہ کی طرف متوجہ کرکے ان کے مقصد حج کی تکمیل اور آئندہ زندگی کو درست رکھنے کی ہدایت اس طرح فرمائی گئی وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ یعنی اللہ کو یاد کرو گنتی کے چند دنوں میں ان چند دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں جن میں ہر نماز کے بعد تکبیر کہنا واجب ہے، آگے ایک مسئلہ کی وضاحت کی گئی کہ منٰی میں قیام اور جمرات پر کنکریاں مارنا کب تک ضروری ہے اس میں اہل جاہلیت کا اختلاف رہا کرتا تھا بعض لوگ تیرہویں تاریخ ذی الحجہ تک منیٰ میں قیام اور جمرات پر رمی کرنے کو ضروری سمجھتے تھے اس سے پہلے بارہویں کو واپس آجانے کو ناجائز اور ایسا کرنے والوں کو گنہگار کہا کرتے تھے اسی طرح دوسرے لوگ بارہویں تاریخ کو چلے آنا ضروری سمجھتے اور تیرھویں تک ٹھہرنے کو گناہ جانتے تھے اس آیت میں ان دونوں کی اصلاح اس طرح کی گئی کہ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ یعنی جو شخص عید کے بعد صرف دو دن منٰی میں قیام کرکے واپس آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن تک مؤ خر کرے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں یہ دونوں فریق جو ایک دوسرے کو گنہگار کہتے ہیں غلو اور غلطی میں مبتلا ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ حجاج کو دونوں صورتوں میں اختیار ہے جس پر چاہیں عمل کریں ہاں افضل واولیٰ یہی ہے کہ تیسرے دن تک ٹھہریں، فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص دوسرے دن غروب آفتاب سے پہلے منٰی میں چلا آیا اس پر تیسرے دن کی رمی واجب نہیں لیکن اگر آفتاب منیٰ میں غروب ہوگیا پھر تیسرے دن کی رمی کرنے سے پہلے وہاں سے واپس آجانا جائز نہیں رہتا البتہ تیسرے دن کی رمی میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ وہ زوال آفتاب سے پہلے صبح کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ منیٰ سے واپسی کا اور اس میں حجاج کو اختیار دینے کا ذکر فرمانے کے بعد جو کچھ کہا گیا کہ دوسرے دن واپس آجائے تو کچھ گناہ نہیں اور تیسرے دن واپس آجائے تو کچھ گناہ نہیں یہ سب اس شخص کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہے کیونکہ درحقیقت حج اسی کا ہے، جیسا قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہے اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ (٢٧: ٥) یعنی اللہ تعالیٰ عبادت انہی کی قبول کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور اطاعت شعار بندے ہیں، اور جو شخص حج سے پہلے بھی گناہوں میں ملوّث تھا اور حج کے اندر بھی بےپروائی سے کام لیتا رہا حج کے بعد بھی گناہوں سے پرہیز نہ کیا تو اس کا حج کوئی فائدہ نہ دے گا اگرچہ اس کا حج فرض ادا ہوگیا ترک حج کا مجرم نہیں رہا۔ آخر میں ارشاد فرمایا واتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ یعنی ڈرتے رہو اللہ تعالیٰ سے اور یقین کرو کہ تم سب اللہ کے پاس جمع ہونے والے ہو وہ تمہارے کھلے ہوئے اور چھپے ہوئے اعمال کا حساب لیں گے اور ان پر جزا وسزا دیں گے احکام حج جو اوپر کی آیات میں بیان کئے گئے ہیں یہ جملہ درحقیقت ان سب کی روح ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ خاص ایام حج میں جب کہ اعمالِ حج میں مشغول ہو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرو احکام حج میں کوئی کوتاہی نہ کرو کیونکہ وزن اعمال کے وقت انسان کے گناہ اس کے نیک اعمال کو کھا جائیں گے نیک اعمال کا اثر اور وزن ظاہر نہ ہونے دیں گے عبادت حج کے متعلق حدیث میں ہے کہ جب انسان حج سے فارغ ہو کر آتا ہے تو اپنے سابقہ گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے وہ ماں کے پیٹ سے آج پیدا ہوا ہے اس لئے خاص طور سے حجاج کو آئندہ کے لئے تقویٰ کی ہدایت کی گئی کہ پچھلے گناہوں سے پاک ہوچکے ہو آگے احتیاط رکھو تو دنیا وآخرت کی بھلائی تمہارے لئے ہے ورنہ جو شخص حج کے بعد پھر گناہوں میں مبتلا ہوگیا تو پچھلے گناہوں کی معافی اس کو اس طرح کوئی خاص کام نہ آوے گی بلکہ علماء نے فرمایا ہے کہ حج مقبول کی علامت یہ ہے کہ اپنے حج سے اس طرح واپس آئے کہ اس کا دل دنیا کی محبت سے فارغ اور آخرت کی طرف راغب ہو ایسے شخص کا حج مقبول اور گناہ معاف ہیں اور دعاء اس کی مقبول ہے دوران حج میں جگہ جگہ انسان اللہ تعالیٰ سے اطاعت و فرمانبرداری کا معاہدہ اس کے بیت کے سامنے کرتا ہے اگر حج کرنے والے اس کا دھیان رکھیں تو اس معاہدہ کے پورا کرنے کا آئندہ اہتمام میسر آسکتا ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں حج سے واپس آیا تو اتفاقاً میرے دل میں ایک گناہ کا وسوسہ پیدا ہوا مجھے غیب سے ایک آواز آئی کہ کیا تو نے حج نہیں کیا ؟ کیا تو نے حج نہیں کیا ؟ یہ آواز میرے اور اس گناہ کے درمیان ایک دیوار بن گئی اللہ تعالیٰ نے مجھے محفوظ فرمادیا، ایک ترکی بزرگ جو مولانا جامی کے مرید تھے ان کا حال یہ تھا کہ ہمیشہ اپنے سر پر ایک نور کا مشاہدہ کیا کرتے تھے وہ حج کو گئے اور فارغ ہو کر واپس آئے تو یہ کیفیت بجائے بڑہنے کے بالکل سلب ہوگئی اپنے مرشد مولانا جامی سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ حج سے پہلے تمہارے اندر تواضع و انکسار تھا اپنے آپ کو گنہگار سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے الحاح وزاری کرتے تھے حج کے بعد تم اپنے آپ کو نیک اور بزرگ سمجھنے لگے اس لئے یہ حج ہی تمہارے لئے غرور کا سبب بن گیا اسی وجہ سے یہ کیفیت زائل ہوگئی۔ احکام حج کے ختم پر تقویٰ کی تاکید میں ایک راز یہ بھی ہے کہ حج ایک بڑی عبادت ہے اس کے ادا کرنے کے بعد شیطان عموماً انسان کے دل میں اپنی بڑائی اور بزرگی کا خیال ڈالتا ہے جو اس کے تمام عمل کو بیکار کردینے والا ہے اس لئے خاتمہ کلام میں فرمایا کہ جس طرح حج سے پہلے اور حج کے اندر اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اس کی اطاعت لازم ہے اسی طرح حج کے بعد اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور گناہوں سے پرہیز کا اہتمام کرتے رہو کہ کہیں یہ کری کرائی عبادت ضائع ہوجائے۔ اللہم وفقنا لما تحب وترضی من القول والفعل والنیۃ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرُوا اللہَ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ۝ ٠ ۭ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝ ٠ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْہِ۝ ٠ ۙ لِمَنِ اتَّقٰى۝ ٠ ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَ۝ ٢٠٣ عجل العَجَلَةُ : طلب الشیء وتحرّيه قبل أوانه، وهو من مقتضی الشّهوة، فلذلک صارت مذمومة في عامّة القرآن حتی قيل : «العَجَلَةُ من الشّيطان» «2 قال تعالی: سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] ، ( ع ج ل ) العجلۃ کسی چیز کو اس کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا تعلق چونکہ خواہش نفسانی سے ہوتا ہے اس لئے عام طور پر قرآن میں اس کی مذمت کی گئی ہے حتی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العجلۃ من الشیطان ( کہ جلد بازی شیطان سے ہے قرآن میں ہے : سَأُرِيكُمْ آياتِي فَلا تَسْتَعْجِلُونِ [ الأنبیاء/ 37] میں تم لوگوں کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھاؤ نگا لہذا اس کے لئے جلدی نہ کرو ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر تقوي والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ ومن تاخر فلا اثر علیہ لمن اتقی پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس تو کوئی حرج نہیں اور جو کچھ دیر ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں) اس آیت کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں اول یہ کہ جو شخص دو دنوں میں واپس ہوگیا اس پر کوئی گناہ نہیں اس لئے کہ حج مقبول کی بنا پر اس کی سیئات اور اس کے گناہوں کی تکفیر ہوگئی ہے۔ اسی طرح کی روایت حضرت عبداللہ بن مسعود سے ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اسی مضمون کی ایک روایت ہے ۔ آپ نے فرمایا (من حج فلو یرفث ولم یفسق رجع کیوں مرولدتہ امہ۔ جس شخص نے حج کیا اور حج کے دوران رفث اور فسق سے اجتناب کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹے گا جس طرح اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ دو ہی دن میں واپسی کے اندر جلدی کرنے میں اس پر کوئی گناہ نہیں۔ حسن وغیرہ سے اسی قسم کی تفسیر مروی ہے۔ قول باری ہے (من تاخر فلا اثم علیہ) اس لئے کہ اس کے لئے تاخیر مباح ہے اور قول باری (لمن اتقی) میں یہ احتمال ہے کہ جو شخص ان تمام باتوں سے جو اللہ نے (فلا رفث ولا فسوق لاجدال فی الحج میں بتائی ہیں احرام کی حالت میں بچتا رہا۔ اگر نہیں بچا تو اس سے کسی ثواب کا وعدہ نہیں۔ نیت درست نہ ہو تو بھلی باتیں کرنے والا منافق ہوسکتا ہے

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٣) اور ایام معلوم یعنی ایام تشریق کے پانچ دنوں میں یوم عرفہ، یوم النحر اور ١١، ١٢، ١٣ کو اللہ تعالیٰ کی حمد و تہلیل (لا الہ الا اللہ) بہت زیادہ کیا کرو۔ اور جو شخص دسویں تاریخ کے دو دن بعد ہی اپنے گھر واپس آنا چاہے تو اس جلدی میں کوئی گناہ نہیں اور جو شخص تیرہویں تاریخ تک منی میں ٹھہرے تو اس میں بھی کوئی گناہ کی بات نہیں، اس کی بخشش ہوجائے گی، تو تیرہویں تاریخ تک شکار کرنے سے رکا رہے گا اور تیرہویں تاریخ تک شکار کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٣ (وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ط) اس سے مراد ذوالحجہ کی گیارہویں ‘ بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں یوم نحر کے بعد منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے۔ اِن تین دنوں میں کنکریاں مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے۔ دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں تکبیر اور ذکر الٰہی کثرت سے کرنا چاہیے۔ (فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ج) ۔ یعنی جو کوئی تین دن پورے نہیں کرتا ‘ بلکہ دو دن ہی میں واپسی اختیار کرلیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ (وَمَنْ تَاَخَّرَ ) یعنی منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تین دن کی مقدار پوری کرے۔ (فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ط) ۔ اصل چیز تقویٰ ہے۔ جو کوئی زمانۂ حج میں پرہیزگاری کی روش اختیار کیے رکھے تو اس پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کرے یا تین دن۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر محفوظ ہے۔ اگر کسی شخص نے منیٰ میں قیام تو تین دن کا کیا ‘ لیکن تیسرے دن اس نے کچھ اور ہی حرکتیں شروع کردیں ‘ اس لیے کہ جی اکتایا ہوا ہے اور طبیعت کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہے تو وہ تیسرا دن اس کے لیے کچھ خاص مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اصل شے جو اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے شرط لازم ہے ‘ وہ تقویٰ ہے۔ آگے پھر فرمایا : (وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ) ۔ تم سب کے سب ہانک کر اسی کی جناب میں لے جائے جاؤ گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

222 Whether a person returned on the 12th or on the 13th of Dhu al-Hijjah from Mina to Makka during the day of tashriq (i.e. from the 10th to 13th of Dhu al-Hijjah) was immatcrial. What was of real importance was not the number of days spent at Mina but the intensity of one's devotion to God during the period of one's stay.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :222 یعنی ایام تشریق میں منٰی سے مکے کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرھویں تاریخ کو ، دونوں صورتوں میں کوئی حرج نہیں ۔ اصل اہمیت اس کی نہیں کہ تم ٹھیرے کتنے دن ، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ان میں خدا کے ساتھ تمہارے تعلق کا کیا حال رہا ۔ خدا کا ذکر کرتے رہے یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

135: منیٰ میں تین دن گزارنا سنت ہے اور اس دوران جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے، البتہ ١٢ تاریخ کے بعد منی سے چلا جانا جائز ہے، ١٣ تاریخ تک رکنا ضروری نہیں، اور اگر کوئی رکنا چاہے تو ١٣ تاریخ کو بھی رمی کرکے واپس جاسکتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ گنے ہوئے دن چار دن ہیں عید الضحٰی کا ایک روز اور تین روز اس کے بعد کے اور ایک جماعت صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے صحیح مسلم و مسند امام احمد وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرما کر یہ فرمایا ہے کہ یہ دن کھانے پینے اور اللہ کی یاد کرنے کے ہیں ٢۔ موسم حج میں لوگ حشر کی طرح جمع ہوتے ہیں۔ اس لئے حج کے ذکر کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حشر کے دن کے جمع ہونے کو یاد دلایا اور ان دنوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے مراد تکبیرات ہیں جو ان دنوں میں فرض نماز کے بعد کہی جاتی ہیں اور وہ تکبیرات بھی ہیں جو حاجی لوگ شیطانوں کے کنکریاں مارنے کے وقت ان دنوں میں کہتے ہیں اور اسلام سے پہلے بعض لوگ تو مقام منیٰ سے گیارہویں ذی الحجہ کو چلے آتے تھے اور بعض بارہویں کو اور جلدی کرنے والے دیر کرنے والوں پر اعتراض کرتے تھے اور وہ ان پر اللہ تعالیٰ نے رفع ہرج کے لئے دونوں حالتوں کو جائز فرمادیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:203) فی ایام معدودات دن جو معدودے چند ہیں۔ چند گنتی کے دن، چند دن گنتی کے۔ فائدہ : حج کا ذکر ہو رہا ہے مزدلفہ میں رات بسر کرکے دسویں تاریخ ذوالحجہ کو صبح سویرے بعد از نماز فجر وہاں سے نکل کر منی پہنچے۔ 10 /11/12 تاریخ کو منیٰ میں قیام کیا اور ذکرو اذکار میں مشغول رہے۔ اور دیگر مناسک حج کی ادائیگی کی مثلاً دس تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کی ، قربانی دی، سرمنڈایا، احرام سے باہر آئے، طواف زیارت کیا۔ صفا ومروہ کے درمیان سعی کی۔ اور واپس منیٰ آئے۔ اب منیٰ سے مکہ کی طرف واپسی کی دو صورتیں ہیں اگر کوئی شخص دسویں تاریخ کے بعد صرف دو دن قیام کرکے بارہ تاریخ کی شام کو مکہ معظمہ چلا جائے تو بھی درست ہے اور جس کا جی چاہیے بارہ تاریخ کو وہیں ٹھہرے۔ اور تیرہ تاریخ کی شام کو مکہ معظمہ واپس مڑے تب بھی درست ہے فمن تعجل فی یومین ۔۔ لمن اتقی میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔rnٍ 9 کی فجر تا 13 ذوالجحہ کی عصر تک ایام تشریق کہلاتے ہیں۔ تعجل۔ ماضی واحد مذکر غائب تعجل (تفعل) مصدر اس نے جلدی کی۔ اس نے عجلت سے کام لیا من تعجل فی یومین۔ جو شخص جلدی کرکے دو دن میں ہی چلا گیا۔ یعنی یوم النحر (دسویں تاریخ کے بعد 11 اور 12 کو منیٰ میں ٹھہر کر 12 کی شام کو مکہ معظمہ میں واپس ہوگیا۔ فلا اثم علیہ اس پر کوئی حرج نہیں ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من موصولہ ہے۔ من تاخیر۔ تاخر۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تاخر (تفعل) مصدر پیچھے رہنا۔ پیچھے ہوجانا۔ وہ پیچھے رہ گیا۔ یا پیچھے رہا۔ جس نے تاخیر کی۔ یعنی 12 تاریخ کو بھی منیٰ میں ٹھہرا رہا اور 12 کی شام کو واپس ہوا۔ لمن اتقی۔ ای ذلک التخیر ونفی الاثم للحاج المتقی یعنی اس تاخیر میں اس حاجی کے لئے کوئی حرج نہیں جو دل میں خوف خدا رکھتا ہو۔ اور جس نے یہ تاخیر تقویٰ کی خاطر کی ہو۔ تحشرون ۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر، تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔ حشر (باب نصر، ضرب) مصدر ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ان ایام سے ایام تشریق یعنی 11 ۔ 12 ۔ 13، ذی الحجہ کے دن مراد ہیں ان ایام میں ذکر الہی یہ ہے کہ رمی کے وقت ہر کنکر کے ساتھ بآواز بلند تکبیر کہی جائے۔ نیر عام اوقات خصو صافرض نماوں کے بعد تکبیرات اور ذکر الہی میں مشغول رہا جائے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اپنے خیمہ میں اور چلتے پھر تے اور نما زوں کے بعد بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے۔ ، حدیث میں ہے۔ ایاما التشریق ایام اکل وشرب وذکر اللہ۔ کہ تشریق کے دن کھا نے پینے اور ذکر الہی کے دن میں تکبیر ات کی ابتدا اور انتہا میں گو اختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز سے شروع کی جائیں اور تشریق کے آخری دن یعنی 13 تاریخ کا نماز عصرتک تیئس نمازوں کے بعد کہی جاتیں۔ یہی مسلک اکا بر صحابہ کا ہے اور حدیث سے بھی مرفوعا ثابت ہے ارتکبیر کے الفاظ یہ ہیں اللہ اکبر (تین مرتبہ) کہ کر پھر کہے الا لہ اللہ الا للہ واللہ اکبر اللہ اکبر واللہ الحمد (اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے کے لیے تعریف ہے۔ (فتح البیان، رازی) نیز دیکھئے سورت الحج آیت 28)3 یعنی گیا رہ اور بارہ کو دو دن میں رمی حجار بھی جائز ہے اور اگر تا خیر کرے یعنی پورے تین دن منی میں ٹھہر ارہے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ انسان کے دل میں تقوی ہو اور جملہ مناسک حج خلوص سے ادا کرے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ کفّار نے منٰی کو تفریح کا میدان اور اس کے اجتماع کو ایک اجتماع عام کا رنگ دے کر تفاخر کا ذریعہ بنالیا تھا۔ شاعر اپنا اپنا کلام پیش کرتے جس میں عشق وعاشقی کی داستانیں اور اپنے آباء و اجداد کے کارناموں کو اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کرتے جس میں دوسرے قبائل کی توہین پائی جاتی۔ بسا اوقات لوگوں میں تصادم کی صورت پید اہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے چند دن کا لفظ استعمال فرما کر یہ احساس دلایا ہے کہ ان قیمتی ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ تم نے انہیں بھی فخروغرور کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ تمہیں اپنے رب کا شکر گزار اور اسے کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ جس کی توفیق سے تمہیں حج کی سعادت اور اس کے گھر کی حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ یہاں اس فکری اختلاف کو بھی ختم کردیا گیا ہے جو منٰی میں قیام کے بارے میں پایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ دو کے بجائے تین دن ٹھہرنا ضروری سمجھتے تھے اور وہ منٰی میں دو دن قیام کرنے والوں سے مجادلہ اور تکرار کرتے کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس طرح دو یوم قیام کرنے والے تین دن ٹھہرنے کو برا سمجھتے۔ یہاں یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ تم چاہو تو تین دن ٹھہرو نہیں تو دو دن۔ دونوں میں سے کوئی ایک مدت ٹھہرنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ اجر تو اس شخص کے لیے ہے جو فخر و غرور اور دنیاوی رسومات سے پرہیز کرتا ہے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے۔ یاد رکھو جس طرح تم یہاں اکٹھے ہوئے ہو ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب تمام کے تمام رب کبریا کی عدالت میں دست بستہ جمع کیے جاؤ گے۔ وہاں تقو ٰی اور رب کی یاد ہی کام آئے گی۔ مسائل ١۔ ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٢۔ منٰی میں دو یا تین دن ٹھہرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے وہ سب کو اکٹھا کرنے والا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ” یہ گنتی کے چند روز ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہئیں ۔ پھر جو کوئی جلدی کرے دوہی دن میں واپس ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھہر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کئے ہوں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے ۔ “ راجح بات یہ ہے کہ ایام ذکر یوم عرفہ ، یوم نحر اور پھر ایام تشریق ہیں ۔ ابن عباس (رض) عنہمافرماتے ہیں کہ ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں ۔ عکرمہ (رح) کہتے ہیں کہ معدود دنوں میں ذکر سے مراد تکبیریں ہیں جو ایام تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں ۔ اللہ اکبر ، اللہ اکبر ۔ پہلے ہم عبدالرحمن بن معمر دیلمی کی حدیث نقل کر آئے ہیں کہ ” منیٰ کے دن تین ہیں ۔ اب اگر کوئی دوہی دنوں میں شتاب واپس ہوگیا تو بھی کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی تاخیر کرکے پورے وقت کے بعد آئے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ غرض عرفہ ، حج اور ایام تشریق سب میں مناسب ہے کہ اللہ کا ذکر زیادہ سے زیادہ ہو ، چاہے ان میں پہلے دونوں کو منتخب کیا جائے یا دوسرے دو دنوں کو ، لیکن ہر معاملے میں اللہ خوفی اور پرہیز گاری پیش نظر رہے۔” بشرطیکہ یہ دن تقویٰ کے ساتھ بسر کئے۔ “ لِمَنِ اتَّقَى۔ حج کی گہماگہمی کی مناسبت سے ، اب یہاں یوم حشر کا ذکر کیا گیا جہاں تمام مخلوق حساب و کتاب کے لئے جمع ہوگی ۔ وہاں ایک خوفناک منظر ہوگا لہٰذا اس مقام کی تیاری کرو اور پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرو وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ ” اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔ “ ان آیات کے مطالعے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے عربوں کے مروجہ حج کو کس طرح ایک اسلامی فریضہ قرار دیا۔ اس کا ربط جاہلیت کے پس منظر سے ٹوٹ گیا ۔ اب وہ اسلامی زندگی کا ایک جزو بن گیا ۔ اسے بداخلاقیوں اور گندگیوں سے پاک کردیا ۔ اسلام نے زندگی کے تمام معاملات میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے ، جس رسم ، جس عبادت کو بھی باقی رکھا ہے اسے جاہلیت کے شوائب سے پاک کرکے رکھا ہے ۔ اس کی وہ شکل بدل گئی ہے جو ایام جاہلیت میں ہوا کرتی تھی ۔ یوں نظر آتا ہے جیسا کہ جدید لباس میں ایک موزوں ٹکڑا۔ اب حج معروف معنوں میں اہل عرب کا ایک عادی اور رسمی فعل نہ رہا بلکہ اب وہ ایک اسلامی عبادت قرار دے دی گئی ہے کیونکہ اب اسلام ہی معیار ہے۔ اسلام کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی مفید رسم کو باقی رکھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایام تشریق میں ذکر اللہ اور رمی جمار کی مشغولیت آیت بالا میں اول تو یہ فرمایا کہ چند دنوں میں اللہ کا ذکر کرو۔ ان دنوں سے ایام تشریق مراد ہیں جن میں قربانیاں کی جاتی ہیں اور حجاج کا منیٰ میں قیام ہوتا ہے۔ اور جمرات کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اس سے پہلے مزدلفہ میں ذکر کرنے کا حکم فرمایا اور عرفات میں تو ذکر اور دعا ہی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جمرات کو کنکریاں مارنا اور صفا مروہ کی سعی کرنا اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ (رواہ التر مذی و قال حدیث حسن صحیح) اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ مومن بندوں کو ہر وقت اس میں لگا رہنا چاہئے، بعض خاص ایام اور خاص اوقات میں ذکر کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے : (اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) (نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو) جیسا کہ سب جانتے ہیں نماز اول سے آخر تک ذکر ہی ہے، نماز سے پہلے اذان و اقامت ہے وہ بھی ذکر ہے، نماز کے بعد تسبیحات اور دعائیں ہیں یہ بھی ذکر ہے۔ حج سراپا ذکر ہے تلبیہ ذکر ہے، طواف میں ذکر ہے، سعی میں ذکر ہے، عرفات میں ذکر ہے، مزدلفہ میں ذکر ہے، ایام منیٰ میں ذکر ہے۔ رمی کرتے وقت ذکر ہے۔ قربانی کرتے وقت ذکر ہے۔ سید المرسلین خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی کے تمام احوال و اشغال میں اذکا روادعیہ کی تعلیم دی۔ درحقیقت ذکر ہی اس دنیا کی روح ہے جس دن اللہ کا ذکر نہ ہوگا یہ دنیا ختم ہوجائے گی۔ صحیح مسلم ص ٨٤ ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایسا وقت نہ آجائے کہ زمین میں اللہ اللہ نہ کہا جائے۔ سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ کان یذکر اللّٰہ فی کل احیانہ (صحیح مسلم) منیٰ کے قیام کے دوران خوب اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ تفسیر روح المعانی ص ٩٣ ج ٢ میں ہے : واذ کروا اللّٰہ ای کبروہ أدبار الصلوات و عند ذبح القرابین و عند رمی الجمار وغیرھا۔ یعنی اللہ کی بڑائی بیان کرو نمازوں کے بعد اور قربانی کرتے وقت رمی جمار وغیرہ کے وقت۔ پھر فی ایام معدودات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : وھی ثلثۃ ایام التشریق و ھو المروی فی المشھور عن عمرو علی و ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم۔ اور تفسیر معالم التنزیل (ص ١٧١ ج ١) میں لکھا ہے : و من الذکر فی أیام التشریق التکبیر۔ (یعنی ان دنوں کے ذکر میں سے یہ بھی ہے کہ ان میں تکبیر کہی جائے) پھر لکھا ہے کہ حضرت عمر (رض) اور عبداللہ ابن عمر (رض) نمازوں کے بعد منیٰ میں تکبیر کہتے تھے اور مجلس میں بھی اور بستر پر ہوتے ہوئے بھی اور راستہ میں بھی ١ ھ تکبیر تشریق بھی ان ایام میں مشروع ہے، منیٰ میں موجود ہوں یا اپنے وطن میں مقیم ہوں غرض نمازوں کے بعد اس کا پڑھنا واجب ہے۔ مرد زور سے تکبیر تشریق پڑھیں اور عورتیں آہستہ کہیں۔ یہ تکبیر نویں تاریخ کی فجر سے لے کر تیرھویں کی عصر تک پڑھی جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے اسی طرح منقول ہے۔ ایام تشریق میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر کا اہتمام کرنا چاہئے، ان دنوں میں روزہ رکھنا ممنوع ہے فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لا تصوموا فی ھذا الأیام فاتھا ایام أکل و شرب و ذکر اللّٰہ) ۔ (صحیح مسلم ص ٣٦٠ ص ١) یعنی ان دنوں میں روزہ نہ رکھو، کیونکہ یہ دن کھانے پینے کے اور اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں۔ رمی جمار کے بعض مسائل : ذکر کا حکم فرمانے کے بعد رمی جمار کے بعض مسائل بیان فرمائے جس کی تشریح یہ ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ کبریٰ کی رمی کی جاتی ہے۔ اس کا وقت سورج نکلنے کے بعد سے لے کر آنے والی صبح صادق تک ہے لیکن رات میں کنکریاں مارنا قوت اور صحت والوں کے لیے مکروہ ہے۔ گیارہ اور بارہ تاریخ کی کنکریاں مارنے کا وقت زوال آفتاب کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور وہ بھی آنے والی صبح صادق تک رہتا ہے، قوت و صحت والوں کے لیے رمی کرنا ان دونوں راتوں میں بھی مکروہ ہے۔ گیارہویں اور بارہویں تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کی جاتی ہے۔ دس گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کی رمی کرنا واجب ہے۔ منیٰ میں چھوٹے چھوٹے تین منارے سے بنائے ہوئے ہیں ان کو جمرات کہتے ہیں جو جمرۃ کی جمع ہے، پہلا جمرہ مسجد خیف کے قریب ہے اس کو جمرہ اولیٰ اور جمرہ صغریٰ کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو جمرہ ہے اسے جمرہ وسطی کہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد جو جمرہ ہے اس کو جمرہ کبریٰ اور جمرہ اخریٰ اور جمرۃ العقبۃ کہتے ہیں۔ اس کے قریب منیٰ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ ان تینوں جمرات کے نیچے جڑ میں دائرے بنے ہوئے ہیں۔ ان دائروں میں کنکریاں گرنا ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان تینوں جگہ شیطان نے وسوسہ ڈال کر ورغلانے کی کوشش کی تھی آپ نے اس کو کنکریاں ماری تھیں۔ کنکریاں مارنااسی کی یاد گار ہے ہر کنکری کے ساتھ (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ رَغْمًا للشَّیْطَانِ وَرِضًی للرَّحْمٰنِ ) پڑھے (میں اللہ کا نام لے کر رمی کرتا ہوں، اللہ سب سے بڑا ہے، یہ رمی شیطان کو ذلیل کرنے کے لیے ہے اور رحمن کو راضی کرنے کے لیے ہے) ١٣ ذی الحجہ کی رمی چھوڑ دینا جائز ہے : ان دو دنوں (گیارہ بارہ تاریخ) کی رمی کرنے کے بعد اگر کوئی شخص چاہے کہ منیٰ سے چلا جائے اور تیرہویں تاریخ کی رمی نہ کرے تو اس کی اجازت ہے۔ اسی کو فرمایا (فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ) لیکن افضل یہ ہے کہ منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تیرہویں تاریخ کی رمی کرکے منیٰ سے روانہ ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر تیرھویں تاریخ کی رمی بھی کی تھی جیسا کہ گیارہ بارہ تاریخ کو زوال کے بعد رمی کی، تیرھویں تاریخ کی رمی کا وقت صرف غروب آفتاب تک ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ بارہویں تاریخ کو اگر منیٰ میں ہوتے ہوئے سورج غروب ہوجائے تو تیرہویں کی رمی چھوڑ کر جانا مکروہ ہے۔ اور اگر منیٰ میں ہوتے ہوئے تیرھویں کی صبح ہوجائے تو تیرھویں کی رمی کرنا بھی واجب ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص گیارہ بارہ کی رمی کرکے چلے جانے کی اجازت ہوتے ہوئے منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تیرہویں کی رمی کرکے جائے۔ اس کے بارے میں فرمایا (وَمَنْ تَأخَّرَ فَلاآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی) (اور جو شخص تاخیر کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ لفظ (فَلَآ اِثْمَ ) جو دو جگہ وارد ہوا ہے اس سے دونوں باتوں میں اختیار دینا مقصود ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد دو دن کی رمی کر کے چلا جائے تو اس کا بھی اختیار ہے اور تیسرے دن کی رمی کے لیے ٹھہر جائے اور منیٰ سے روانگی میں تاخیر کرے تو اس کا بھی اختیار ہے۔ اس پر یہ جو اشکال ہوتا ہے کہ جب تیرہویں تاریخ کی رمی کرکے جانا افضل ہے تو اس کے بارے میں (فَلَا اِثْمَ ) کے بجائے ایسا لفظ ہونا چاہئے تھا جو افضلیت پر دلالت کرتا۔ اس کے جواب میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس سے افضلیت کی نفی نہیں ہوتی (کیونکہ جو چیز افضل ہوتی ہے فلاآ اِثْمَ عَلَیْہِ اس پر بھی صادق آتا ہے) لیکن یہ بات پھر بھی قابل توجہ ہے کہ نفی الاثم کو دونوں جگہ کیوں اختیار کیا گیا۔ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اہل جاہلیت کی تردید کرنے کے لیے یہ طرز اختیار فرمایا ہے کیونکہ وہ آپس میں اختلاف رکھتے تھے۔ بعض لوگ کہتے تھے تعجیل گناہ ہے اور بعض کہتے تھے کہ تاخیر گناہ ہے۔ ١ ھ۔ علامہ قرطبی نے بھی (ص ١٣ ج ٣) یہ بات لکھی ہے کہ اہل عرب کی تردید کے لیے یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے حیث قال فمعنی الآیۃ أن کل ذالک مباح و عبر عنہ بھذا التقسیم اھتما ما و تاکیدا اذکان من العرب من یذم المتعجل و بالعکس، فنزلت الآیۃ رافعۃ للجناح فی کل ذالک ١ ھ۔ صاحب معالم التنزیل نے (ص ١٧٩ ج ١) آیت کی تفسیر میں بعض حضرات سے یوں نقل کیا ہے کہ حج کرنے والے پر کوئی گناہ باقی نہیں رہے گا۔ خواہ بارہ تاریخ کو رمی کرکے چلا جائے خواہ تیرہویں کی رمی کے لیے ٹھہر جائے۔ اور اس معنی کی تائید کے لیے حدیث من حج للّٰہ فلم یرفث ولم یفسق پیش کی ہے۔ اور پھر فرمایا ہے کہ حضرت علی (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے اس معنی کو لینے سے لمن اتقی کا تعلق بھی واضح ہوجاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ تعجیل کرے یا تاخیر کرے کوئی گناہ باقی نہ رہے گا بشرطیکہ اس حج میں تقویٰ اختیار کیا ہو اور گناہوں سے بچا ہو، صاحب معالم التنزیل نے حضرت ابن مسعود کا قول (اِنما جعلت مغفرۃ الذنوب لمن اتقی اللّٰہ تعالیٰ فی حجہ) اس معنی کی تائید کے لیے نقل کیا ہے ...... اور حضرت ابو العالیہ سے لمن اتقی کی تفسیر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ (ذھب ائمۃ لمن اتقی فیما بقی من عمرہ) (یعنی بعض ائمہ نے لمن اتقی کا معنی یہ کیا ہے کہ حج کرنے کے بعد باقی عمر میں گناہوں سے بچتا رہے) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

389 ایاما معدودات سے مراد تین ایام تشریق ہیں یعنی 10، 11، 12 ذوالحجہ 9 ذی الحجہ کی رات مزدلفہ میں گزار کر علی الصباح حجاج کرام منی کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے کوئی چار میل کے فاصلے پر شام سے ذرا مغرب کی طرف ہٹ کر واقع ہے۔ اس جگہ 10 سے لے کر 12 کو غروب آفتاب تک قربانیاں کی جاتی ہیں اور جمرات کی رمی کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ یہ ایام، تکبیر وتہلیل اور میری حمدوثنا اور دعاء و پکار ہی میں گذارو۔390 منی میں قیام کے دوران تین جگہوں پر جنہیں جمرات کہتے ہیں۔ کنکریاں پھینکی جاتی ہیں۔ پہلے دن یعنی 10 کو طلوع صبح کے وقت اور سب سے آخر میں جمرہ عقبہ پر۔ ہر جمرہ پر سات کنکریاں پھینکے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منی میں قیام کی دو صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک تو یہ کہ دسویں تاریخ کے بعد دو دن ٹھہرے دونوں صورتوں کا اختیار دیا ہے کہ جس پر چاہے عمل کرے کوئی گناہ نہیں۔ مگر یہ گناہ وثواب تو اس کے لیے ہے جسے خدا کا خوف ہو اور گناہ وثواب کا احساس ہو جس کے دل میں خدا کا خوف نہیں اسے گناہ وثواب کی کیا پرواہ ہے۔391 اپنے تمام اعمال میں خدا سے ڈرتے رہو اور اس بات کا یقین رکھو کہ دوبارہ زندہ ہونے کے بعد تم خدا کے یہاں اکٹھے کیے جاؤ گے اور تمہارے تمام اعمال کا حساب ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور منیٰ میں اللہ تعالیٰ کا گنتی کے چند روز تک ذکر کرتے رہو یعنی دس ۔ گیارہ۔ بارہ یا تیرہ بھی اور جو شخص دسویں کے بعد دو ہی دن میں مکہ واپس آنے میں جلدی کرے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو مکہ واپس ہونے کے لئے ان دونوں میں تاخیر کرے یعنی بجائے بارہویں کے تیرھویں کو آئے تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں یہ سب طور طریقے اس شخص کے لئے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور جو نہ ڈرے اس کو گناہ ثواب سے کیا۔ غرض اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتے رہو اور اس بات کو خوب جان لو کہ تم سب اسی کے حضور میں جمع کئے جائو گے۔ (تیسیر) مزدلفہ کی واپسی پر منا میں قیام کرنے کا حکم ہے یہاں دس تاریخ کی صبح کو پہونچتے ہیں منامین تین پتھر ہیں جن کو جمرہ کہتے ہیں ان پر سات سات کنکریاں ماری جاتی ہیں کنکریاں مارنے کو رمی کہتے ہیں۔ دسویں تاریخ کو تو صرف جمرہ عقبہ کی رمی ہوتی ہے باقی گیارہ بارہ کو اور کوئی ٹھہرے تو تیرہ کو بھی تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے جمرئہک عقبہ کی رمی کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد سے شروع ہوجاتا ہے ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا مستحب ہے گیارہ بارہ کو تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے اور ان تاریخ میں رمی کا وقت زوال کے بعدش روع ہوجاتا ہے اور کوئی تیرہ کو بھی ٹھہرے تو اس دن بھی رمی کرنا ضروری ہوتا ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تیرھویں کی صبح صادق کے بعد بھی رمی کی جاسکتی ہے اگرچہ افضل یہی ہے کہ تیرھویں کو بھی زوال کے بعد رمی کی جائے آیت میں انہی تین دنوں کی طرف اشارہ ہے اختیار ہے کہ بارھویں کو تینوں جمروں کی رمی کرکے مکہ چلے آئو۔ اور چاہو تو تیرہ کو رمی کرکے آئو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ان آیتوں میں یہ فرمانا کہ کفر کے وقت دستور تھا کہ حج سے فارغ ہوکر تین روز عید کے بعد خوشی کرتے اور بازار لگاتے اور اپنے باپ دادوں کے سا کے بیان کرتے اب اللہ نے تین روز ٹھہرنا مقرر کیا کہ اللہ کو یاد کرو ان دنوں میں دوپہر کو کنکر پھینکتے ہیں اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہتے ہیں اور سوائے نماز ہر وقت اور کوئی چاہے تو دو ہی دن رہ کر رخصت ہو اور یہ تین دن رہے تو بہتر اور یہ فرمایا جن کو رغبت نری دنیا پر ہے وہ آخر ت سے محروم ہیں اب حج کا مذکور ہوچکا ہے (موضح القرآن) خلاصیہ یہ کہ اسلام نے اس مذموم رسم کو بھی بدل دیا کیونکہ گذشتہ باپ دادوں کا ذکر کرنا ایک قسم کا بےجا فخر اور بےکاربات تھی ان کے واقعات کو دہرانے سے نہ ان کو کچھ فائدہ نہ بیان کرنے والوں کو کچھ حاصل اسکی جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر مقرر کیا گیا حج کے ذکر میں چونکہ دو قسم کے لوگوں کا ذکر آیا تھا ایک وہ جو دنیا ہی دنیا چاہتے ہیں دوسرے وہ جو دارین کی بھلائی کے طالب ہیں اب آگے اسی قسم کے دو شخصوں کا ذکر فرماتے ہیں ایک بد ترین منافق ہے اور دوسرا مخلص مسلمان ہے۔ (تسہیل)