Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 218

سورة البقرة

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۱۸﴾

Indeed, those who have believed and those who have emigrated and fought in the cause of Allah - those expect the mercy of Allah . And Allah is Forgiving and Merciful.

البتہ ایمان لانے والے ، ہجرت کرنے والے ، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں ، اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, those who have believed, and those who have emigrated (for Allah's religion) and have striven hard in the way of Allah, all these hope for Allah's mercy. And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. Hence, Allah has greatly elevated their hopes of gaining what they had wished for.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٨٩] یہ آیت دراصل مجاہدین کے اسی دستہ کے متعلق ہے جنہیں نخلہ کی طرف بھیجا گیا تھا۔ ان مجاہدین کو یہ تردد تھا کہ آیا اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں دو غلطیاں ہوگئیں تھیں ایک یہ کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت کے بغیر جہاد کیا تھا دوسری غلطی یہ کہ یکم رجب کو لڑائی کی جس کا انہیں علم نہ ہوسکا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہیں اللہ کی رحمت کا امیدوار ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ غلطیوں کو معاف کردینے والا ہے۔ مہربان ہے۔ جہاد دراصل ہر اس کوشش کا نام ہے جو اسلام کی راہ میں مزاحم ہونے والی رکاوٹوں کو دور کردے۔ اگر کوئی شخص ذہن سے اس قسم کی تدابیر سوچتا ہے یا کافروں کی تدابیر کا توڑ سوچتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے اور اگر شخص زبان یا قلم سے اس مقصد پر دوسروں کو آمادہ کرتا ہے یا معاندین اسلام کے اعتراضات کی تردید کرتا ہے اور انہیں جواب دیتا ہے تو یہ بھی جہاد ہے یعنی ہر امکانی کوشش کو اس مقصد میں صرف کردینے کا نام جہاد ہے اور اس کی آخری حد یہ ہے کہ اگر جان کی بازی لگانے کی ضرورت پیش آئے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے اور جہاد کی غرض وغایت یہ ہے کہ دوسرے تمام ادیان کے مقابلہ میں اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو۔ اس غرض کے علاوہ اور کسی بھی مقصد کے لیے جنگ کی جائے تو اسے جنگ یا قتال تو کہہ سکتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہہ سکتے۔ چناچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک گنوار (لاحق بن ضمیرہ باہلی) آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کوئی شخص لوٹ حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے، کوئی ناموری کے لیے، کوئی اپنی بہادری جتانے کے لیے اور کوئی حمیت (قومی یا قبائلی) کے لیے لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ میں کون لڑتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا (کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے تھے وہ کھڑے کھڑے سوال کر رہا تھا) اور فرمایا : جو کوئی اس نیت سے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، اللہ کی راہ میں وہی لڑتا ہے۔ (بخاری کتاب الجہاد، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہھی العلیا) اس مضمون کی اور بھی احادیث بخاری اور مسلم میں مذکور ہیں۔ جن کے استقصاء سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں شرکت کے لیے عوام الناس میں مندرجہ ذیل پانچ قسم کے محرکات ہی پائے جاسکتے ہیں۔ ١۔ بعض لوگ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوٹ مار سے مال ہاتھ آئے گا یا اموال غنیمت کے علاوہ دوسرے دنیوی مفادات حاصل ہوں گے۔ ٢۔ کچھ اس وجہ سے لڑتے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں ثبت ہوگا۔ ٣۔ کچھ اس لیے لڑتے ہیں کہ لوگ ان کے بہادری کے کارنامے فخریہ طور پر بیان کریں گے۔ ٤۔ کچھ اپنے کسی خون یا پہلی شکست کا بدلہ لینے کے لیے انتقام کے طور پر لڑتے ہیں۔ ٥۔ اور کچھ لوگ اپنے وطن، قوم اور قبیلہ کی حمایت میں لڑتے ہیں۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں بھی انسان کی ذہنی سطح اس مقام سے ذرہ بھر بھی بلند نہیں ہوسکی۔ صرف انداز واطوار ہی بدلے ہیں مقاصد کے لحاظ سے انہی مندرجہ بالا وجوہ میں سے کوئی نہ کوئی بات نظر آئے گی۔ مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب مقاصد کے علاوہ ایک بلند تر مقصد کا پتہ دیا کہ جہاد فی سبیل اللہ صرف وہ کہلا سکتا ہے، جو اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑا جائے، بالفاظ دیگر دنیا سے فتنہ و فساد ختم کر کے اسے احکام و فرامین الٰہی کے سامنے سر جھکا دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں انسان کی اپنی کسی ذاتی خواہش کو ذرہ بھر بھی دخل نہ ہونا چاہیے۔ جنگ کے متعلق یہ تصور دنیا بھر کے لیے ایک انوکھا تصور تھا۔ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تربیت یافتہ صحابہ کرام (رض) بھی ابتداء میں اس تصور جہاد پر بہت متعجب ہوئے۔ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا : && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو شخص مالی فائدے یا ناموری کے لیے جنگ کرتا ہے اسے کیا ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : && اسے کچھ نہیں ملے گا۔ && سائل اس سوال پر بہت متعجب ہوا اور آ کر دوبارہ یہی سوال کیا، آپ نے دوبارہ وہی جواب دیا۔ اس کا اطمینان اب بھی نہ ہوا، سہ بارہ اور چوتھی بار پلٹ کر آیا اور یہی سوال کرتا رہا : آپ نے اس کے تعجب کی وجہ بھانپ کر فرمایا && اللہ کوئی عمل اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ خاص اس کی خوشنودی اور رضا کے لیے نہ کیا جائے۔ && (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب من غزایلتمس الاجر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھَاجَرُوْا : ” ھَجَرَ یَھْجُرُ (ن) “ کا معنی کسی سے دل یا زبان یا بدن کے ساتھ جدا ہوجانا ہے اور ” ھَاجَرُوْا “ اس میں سے باب مفاعلہ ہے، جس میں مبالغہ مقصود ہے، یعنی ” کسی سے قطع تعلق کرکے الگ ہوجانا “ مراد دار الکفر کو چھوڑ کر دار الاسلام میں آجانا ہے۔ (مفردات) وَجٰهَدُوْا :” جَھَدَ یَجْھَدُ (ف) “ کا مطلب ہے ” کسی کام میں کوشش کرنا۔ “ ” جَاھَدَ مُجَاہَدَۃً وَجِہَادًا “ کا معنی ہے ” دشمن سے لڑنا۔ “ (القاموس) ” جَھَدَ “ سے باب مفاعلہ کی وجہ سے اس کا معنی اپنی ساری کوشش صرف کرنا ہے۔ اس لیے اصحاب لغت نے اس کا معنی ” لڑنا “ کیا ہے کیونکہ کوشش کی انتہا یہی ہے۔ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ : یعنی ایمان، ہجرت اور جہاد ایسے اعمال ہیں جن کے نتیجے میں دل کے اندر اللہ کی رحمت کی امید پیدا ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا دامن ان سے خالی ہے وہ لاکھ اللہ کی رحمت کی امید کا دعویٰ کریں، حقیقت میں ان کے دل کے اندر رحمت کی امید پیدا نہیں ہوتی ؂ جو میں سربسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں اس میں ان مجاہدوں کے لیے بشارت ہے جن کا ذکر حرمت والے مہینوں میں حملہ کرنے کے ضمن میں آیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢١٨ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ رَّجَاءُ ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عواملو وجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] ، اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح/ 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء/ 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١٨) اگلی آیات پھر حضرت عبداللہ بن جحش (رض) اور ان کے ساتھیوں کی شان میں نازل ہوئی ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی اور عمرو بن حضرمی کافر کو قتل کیا یقیناً ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی جنت میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے افعال کو معاف کرنے والا ہے، ان سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٨ (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا اولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِط۔ یہاں ان لوگوں پر بڑا لطیف طنز ہے جو خود تو حرام کے راستے پر جا رہے ہیں ‘ لیکن یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان پر رحم فرمائے گا۔ اللہ ایسی روش اختیار کرنے والوں پر رحمت نہیں فرماتا ‘ اللہ کی رحمت کا مستحق بننا پڑتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت کا مستحق وہی ہے جو ایمان ‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے لوگ بجا طور پر اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) وہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

234. Jihad denotes doing one's utmost to achieve something. It is not the equivalent of war, for which the Arabic word is qital. Jihad has a wider connotation and embraces every kind of striving in God's cause. A mujahid is a person who is single-mindedly devoted to his cause, who uses his mental capacity to reflect how best he can achieve it, propagates it by word of mouth and by the pen, uses his physical energy in striving to serve it, spends all the resources at his disposal to promote it, employs all the force he commands in confronting any power which might stand in its way, and, whenever necessary, does not shirk risking his very life for it. All this is Jihad. ' Jihad in the way of God' is that strife in which man engages exclusively to win God's good pleasure, to establish the supremacy of His religion and to make His word prevail.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :234 جہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کردینا ۔ یہ محض جنگ کا ہم معنی نہیں ہے ۔ جنگ کے لیے تو ”قِتَال“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جِھَاد اس سے وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور اس میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے ۔ مجاہد وہ شخص ہے ، جو ہر وقت اپنے مقصد کی دھن میں لگا ہو ، دماغ سے اس کے لیے تدبیریں سوچے ، زبان و قلم سے اسی کی تبلیغ کرے ، ہاتھ پاؤں سے اسی کے لیے دوڑ دھوپ اور محنت کرے ، اپنے تمام امکانی وسائل اس کو فروغ دینے میں صرف کر دے ، اور ہر اس مزاحمت کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے جو اس راہ میں پیش آئے ، حتّٰی کہ جب جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی دریغ نہ کرے ۔ اس کا نام ہے ”جہاد“ ۔ اور جہاد فی سبیل اللہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس غرض کے لیے کیا جائے کہ اللہ کا دین اس کی زمین پر قائم ہو اور اللہ کا کلمہ سارے کلموں پر غالب ہو جائے ۔ اس کے سوا اور کوئی غرض مجاہد کے پیش نظر نہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:218) ھاجروا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ مھاجرۃ (مفاعلۃ) مصدر انہوں نے (اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے) وطن چھوڑا جاھدوا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ مجاھدۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ انہوں نے جہاد کیا۔ یرجون۔ مضارع جمع مذکر غائب رجاء (باب نصر) وہ امید رکھتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ہجرت کے معنی ہیں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ سکونت پذیر ہونا مگر اس ہجرت سے مراد ہے دارالکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانا۔ مفردات راغب) عبد اللہ بن جحش (رض) اور انکے ساتھیوں کے بارے میں جب گزشتہ آیت اتری اور وہ لوگ ڈرنے لگے کہ شاید ہمیں کوئی ثواب بھی نہ ملے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ فتح البیان۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کی جدّو جہد دین اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ لہٰذا ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ مسلمانوں کی کوشش و کاوش اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہمیشہ کی جنت ہے۔ جس میں انہیں حیات جاوداں نصیب ہوگی۔ بعض لوگ سچے ایمان اور صالح کردار کے بغیر جنت کے وارث بننے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کا فرمان ہے کہ جب تک مسلمان مخلص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے مال و جان کی قربانی پیش نہیں کرو گے۔ اس وقت تک تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب نہیں ہوسکتی۔ اسی نظریہ کی دو ٹوک وضاحت کی جارہی ہے کہ بلا شک جو لوگ خلوص دل کے ساتھ ایمان لائے، عزم و استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایمان و ایقان کی خاطر انہیں باغ و بہار ‘ کاروبار اور مکان ومقام بھی چھوڑنے پڑے تو وہ بےپروا ہو کر نکل پڑے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے میدان جنگ وجدال میں اترنا پڑا تو قربانیوں کی ایسی داستانیں رقم کرتے چلے گئے کہ رہتی دنیا تک ان کی جرأت وبہادری کو شہسوارِجنگ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ اگر ان سے بتقاضائے بشریت خطائیں سرزد ہوگئیں تو انہیں پورا یقین رکھنا چاہیے کہ ان کا رب ان کو ضرور معاف کرے گا۔ وہ تو ہمیشہ سے معاف فرمانے والا اور نہایت ہی شفیق و مہربان ہے۔ یاد رہے کہ علمی، مالی، جانی اور ذاتی صلاحیتوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کرنے کا نام جہاد ہے۔ تفسیر بالقرآن خدا کی رحمت کے مستحق کون ؟ ١۔ رب کریم کی رحمت کے امیدوار اور ان کی صفات۔ (البقرۃ : ٢١٨، الاعراف : ١٥٦) ٢۔ گناہ گار کو رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٤۔ اللہ کی رحمت کی وسعت و کشادگی ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ (المؤمن : ٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جن لوگوں کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جائے ۔ وہ اللہ کی خصوصی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور جس کا دل ایمان سے معمور ہو وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتاإِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَةَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ، وہ رحمت الٰہی کے جائز امید وار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔ “ جب ایک مومن رحمت خداوندی کا امیدوار ہو تو اللہ اسے کبھی نامراد نہیں لوٹاتے ۔ مہاجرین وانصار کے مخلص مومنین نے ، اگرچہ وہ قلیل تعداد میں تھے ، اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو اپنے کانوں سے سنا تھا ، انہوں نے جہاد کیا ، مشکلات پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کردیا ۔ بعض کو شہادت نصیب ہوئی اور بعض کو نصرت خداوندی پہنچی ۔ دونوں خیر ہیں۔ دونوں اللہ کی رحمت ہیں ۔ یہ لوگ اللہ کی مغفرت اور اللہ کی رحمت کے مراتب پر فائز ہوگئے کیونکہ اللہ غفور ہے اور رحیم ہے ۔ یہ ہے طریقہ مومن۔ اب سیاق کلام بعٓض منہیات کی طرف آتا ہے ۔ شراب اور جوئے کے احکام بیان ہوتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزیں ان لذات میں سے ہیں ۔ جن میں عرب کانوں تک غرق تھے ۔ کیونکہ اس دور میں اس کے سامنے کچھ اونچے مقاصد نہ تھے جن وہ اپنے آپ کو مصروف رکھتے اور یوں ان کی قیمتی قوتیں کام میں صرف ہوتیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں یہ جو فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَ جَاھَدُوْا) (الایۃ) اس کے بارے میں مفسر ابن کثیر ص ٢٥٤ ج ١ لکھتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن جحش (رض) اور ان کے ساتھیوں کا مسئلہ حل ہوگیا اور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لائے ہوئے مال کو جو کافروں سے لے لیا تھا ٥/١ نکال کر باقی مال انہی پر تقسیم فرما دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اس بات کی امید کریں کہ جو کچھ ہم نے کیا یہ ہمارے لیے جہاد شرعی میں شمار ہوجائے گا اور اس میں ہمیں وہ اجر مل جائے گا جو مجاہد کو ملا کرتا ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ شانہ نے واضح طور پر بتادیا کہ بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں یہ لوگ رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ان لوگوں کا امید رکھنا بھی صحیح ہے اور ان لوگوں سے جو خطا اجتہادی کے طور پر ایک آدمی قتل ہوگیا تھا وہ بھی اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ فائدہ : (قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ) (آپ فرما دیجیے کہ اشہر حرام میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے) اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ اشہر حرام میں قتال کرنا ممنوع ہے سورة برأۃ کی آیت (اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ) سے بھی خوب واضح طور پر چار مہینوں میں قتال کرنے کی حرمت معلوم ہو رہی ہے۔ ان چار مہینوں میں قتال کی حرمت اب بھی باقی ہے یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عطاء بن أبی رباح فرماتے تھے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ لہٰذا أشہر حرم میں قتال کرنا جائز نہیں۔ الایہ کہ دشمن قتال کرنے لگے تو اس کے جواب میں قتال کرنا جائز ہوگا، حضرت سلیمان بن یسار اور سعید بن المسیب (رض) فرماتے تھے کہ اشہر حرم میں قتال کی ممانعت منسوخ ہوگئی اور اب اشہر حرم میں قتل کرنا جائز ہے، علامہ ابوبکر جصاص (رح) لکھتے ہیں : وَ ھو قول فقھاء الأمصار ( کہ یہی فقہاء امصار کا قول ہے) ۔ پھر لکھتے ہیں کہ پہلا حکم حرمت قتال والا منسوخ ہے۔ آیت کریمہ (فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ ) اور دوسری آیت (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَ لَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ) أشہر حرام میں قتال کی ممانعت کے بعد نازل ہوئی۔ (احکام القرآن ص ٢٢٢ ج ١) علامہ قرطبی ص ٤٣ ج ٣ میں لکھتے ہیں کہ جمہور کا مذہب ہے کہ اشہر حرم میں قتل کرنے کی ممانعت منسوخ ہوچکی ہے اور اب ان میں قتال کرنا مباح ہے، اس کا ناسخ کون ہے اس میں اختلاف ہے حضرت زہری نے فرمایا کہ آیت کریمہ (وَ قاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً ) (سورۂ توبہ) نے اسے منسوخ کردیا اور بعض حضرات کا فرمانا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشہر حرام میں بنی ثقیف سے جہاد فرمایا تھا اور حضرت أبو عامر اشعری (رض) کو اشہر حرام میں وادی اوطاس میں جہاد کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ا ھ بہر حال جمہور کا مذہب ہے کہ أشہر حرم میں قتال کرنے کی ممانعت منسوخ ہے۔ ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور اگر دشمن جنگ کی ابتدا کردیں تو اس صورت میں وہ حضرات بھی جنگ کرنے کی اجازت دیتے ہیں جو اس حکم کو منسوخ نہیں مانتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

423 ایمان چونکہ تمام اعمال کی قبولیت کی شرط ہے اور اس کے بغیر نہ ہجرت مفید ہے نہ جہاد۔ اس لیے پہلے اس کا ذکر فرمایا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا۔ اللہ کے دین اور اس کی توحید کی خاطر اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا وطن چھوڑا۔ وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔ اللہ کے دین اور اس کی توحید کو سربلند کرنے کے لیے کفار سے جہاد کیا۔ اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ ۔ اُولٰۗىِٕكَ سے صفات بالا کے حاملین کی طرف اشارہ ہے اور رجاء سے قطع اور یقین مراد ہے۔ المراد من الرجاء القطع والیقین۔ کو مزید اطمینان دلا دیا کہ گناہ کی معافی کے ساتھ ساتھ اجر وثواب بھی ملے گا

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

جو لوگ دین حق پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں ہجرت کی یعنی ترک وطن کیا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا تو حقیقتاًک یہی لوگ ایسے ہیں جو کہ رحمت خداوندی کے امید وار ہیں اور ایسے ہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہوا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بڑا ہی مغفرت اور مہربانی کرنے والا ہے (تیسیر) جہاد کی نیت سے جانا بھی جہاد ہی ہے اس لئے ایمان اور ہجرت تو پہلے ہی سے موجود تھے اب جہاد کو نکلے تو مجاہد بھی ہوگئے اور اگر کوئی معمولی غلطی ہوگئی تو ہم غفور ہیں اس کو معاف کردیں گے اور رحیم ہیں اس لئے تمہارے ایمان لانے اور تمہاری ہجرت اور تمہارے جہاد کو قبول فرما کر تم پر مہربانی فرمائیں گے۔ (تسہیل)