Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 245

سورة البقرة

مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۴۵﴾

Who is it that would loan Allah a goodly loan so He may multiply it for him many times over? And it is Allah who withholds and grants abundance, and to Him you will be returned.

ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالٰی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالٰی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے ، اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ... Who is he that will lend to Allah a goodly loan so that He may multiply it to him many times, In this Ayah, Allah encourages His servants to spend in His cause. Allah mentioned this same Ayah in several other parts of His Glorious Qur'an. The Hadith that mentions that Allah descends (every night down on the nearest heaven to us when the last third of the night remains) states that Allah says: مَنْ يُقْرِضُ غَيْرَ عَدِيمٍ وَلاَ ظَلُوم Who would give a loan to He Who is neither poor nor unjust. Allah's statement: فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (He may multiply it to him many times), is similar to His statement: مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّيَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاء The likeness of those who spend their wealth in the way of Allah, is as the likeness of a grain (of corn); it grows seven ears, and each ear has a hundred grains. Allah gives manifold increase to whom He wills. (2:261) We will mention this Ayah later on. Allah then said: ... وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ ... And it is Allah that decreases or increases (your provisions), meaning, `Spend (in Allah's cause) and do not be anxious.' Certainly, Allah is the Sustainer Who increases or decreases the provisions to whomever He wills among His servants. Allah's wisdom is perfect, and, ... وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ and unto Him you shall return, (on the Day of Resurrection).

اللہ کی راہ میں خرچ کرو: پھر پروردگار اپنے بندوں کو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے جو جگہ بہ جگہ دی جاتی ہے ، حدیث نزول میں بھی ہے کون ہے جو ایسے اللہ کو قرض دے جو نہ مفلس ہے نہ ظالم ، اس آیت کو سن کر حضرت ابو الاصداح انصاری نے کہا تھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ۔ فرمایا اپنا ہاتھ دیجئے ، پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنا باغ جس میں چھ کھجور کے درخت ہیں اللہ کو قرض دیا اور وہاں سے سیدھے اپنے باغ میں آئے اور باہر ہی کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آ جاؤ میں نے یہ باغ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے ( ابن ابی حاتم ) قرض حسن سے مراد فی سبیل اللہ خرچ ہے اور بال بچوں کا خرچ بھی ہے اور تسبیح و تقدیس بھی ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ اسے دوگنا چوگنا کر کے دے گا جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یعنی اللہ کی راہ کے خرچ کی مثال اس دانہ جیسی ہے جس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سات دانے ہوں اور اللہ اس سے بھی زیادہ جسے چاہے دیتا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر بھی عنقریب آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ، حضرت ابو ہریرہ سے ابو عثمان نہدی پوچھتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک ایک نیکی کا بدلہ ایک ایک لاکھ نیکیوں کا ملتا ہے ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کیا کرتے ہو ، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ دو لاکھ کے برابر ملتا ہے ( مسند احمد ) لیکن یہ حدیث غریب ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں مجھ سے زیادہ حضرت ابو ہریرہ کی خدمت میں کوئی نہیں رہتا تھا ، آپ حج کو گئے پھر پیچھے سے میں بھی گیا ، بصرے پہنچ کر میں نے سنا کہ وہ لوگ حضرت ابو ہریرہ کی روایت سے مندرجہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں میں نے ان سے کہا اللہ کی قسم سب سے زیادہ آپ کا صحبت یافتہ میں ہوں میں نے تو کبھی بھی آپ سے یہ حدیث نہیں سنی ، پھر میرے جی میں آئی کہ چلو چل کر خود حضرت ابو ہریرہ سے پوچھ لوں ، چنانچہ میں وہاں سے چلا یہاں آیا تو معلوم ہوا کہ وہ حج کو گئے ہیں ، میں صرف اس ایک حدیث کی خاطر مکہ کو چل کھڑا ہوا ، وہاں آپ سے ملاقات ہوئی میں نے کہا حضرت یہ بصرہ والے آپ سے کیسی روایت کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا واہ اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، پھر یہی آیت پڑھی اور فرمایا کے ساتھ ہی یہ قول باری بھی پڑھو آیت ( فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ ) 9 ۔ التوبہ:38 ) یعنی ساری دنیا کا اسباب بھی آخرت کے مقابلہ میں حقیر چیز ہے ۔ اللہ کی قسم میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ دو لاکھ نیکیاں عطا فرماتا ہے ۔ اسی مضمون کی ترمذی کی یہ حدیث بھی ہے کہ جو شخص بازار میں جائے اور وہاں دعا ( لا الہ الا اللہ واحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کلی شئی قدیر ) پڑھے ، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور ایک لاکھ گناہ معاف فرماتا ہے ، ابن ابی حاتم میں ہے آیت ( مثل الذین ) الخ ، کی آیت اتری آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب ) کی آیت اتری ، حضرت کعب احبار سے ایک شخص نے کہا میں نے ایک شخص سے یہ سنا ہے کہ جو شخص سورۃ آیت ( قل ھو اللہ ) الخ ، کو ایک دفعہ پڑھے اس کیلئے موتی اور یاقوت کے دس لاکھ محل جنت میں بنتے ہیں ، کیا میں اسے سچ مان لوں ، آپ نے فرمایا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے ، بلکہ بیس اور بھی اور بیس لاکھ اور بھی اور اس قدر کہ ان کی گنتی بجز جناب باری کے کسی کو معلوم ہی نہ ہو ، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جب اللہ تعالیٰ آیت ( اضعافا کثیرۃ ) فرماتا ہے تو پھر مخلوق اس کی گنتی کی طاقت کیسے رکھے گی؟ پھر فرمایا رزق کی کمی بیشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بخیلی نہ کرو ، وہ جسے دے اس میں بھی حکمت ہے اور نہ دے اس میں بھی مصلحت ہے ، تم سب قیامت کے دن اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

245۔ 1 قرض حسنہ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے کبھی ظاہری طور پر کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤٢] قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اوراقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آجانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا ) اس سے پہلی آیت میں اللہ کے راستے میں لڑنے کا حکم تھا، اب جہاد میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ قرض حسن سے مراد یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یا کسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کی نیت نہ ہو۔ اللہ کا کرم دیکھیے کہ خود ہی سب کچھ عطا کرکے بندوں سے مانگ رہا ہے اور اسے اپنے ذمے قرض قرار دے رہا ہے۔ سورة توبہ میں مال کے ساتھ جان کا بھی ذکر ہے، فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ) [ التوبۃ : ١١١ ] ” بیشک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے۔ “ سورة بقرہ (٢٦١) ہی میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قرض حسن کو کئی گنا بڑھا کر واپس کریں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary 1. يُقْرِ‌ضُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا (who would give Allah a good loan?) the word &loan& refers to good deeds and to the act of spending in the way of Allah, This was expressed figuratively as qard قرض (literally, &loan& ), otherwise everything belongs to Allah. It simply means that whatever you spend will surely be returned to you (in the form of a reward in the Hereafter) just as a loan is surely returned. The promise of increased or multiplied return appears in a hadith which declares that a date spent in the way of Allah is so increased by Allah Almighty that it outgrows the mountain of Uhud. Giving &loan& to Allah Almighty has also been explained as the giving of actual loan to His slaves i.e. the human beings and thereby helping them in their hour of need. So, the act of giving loan has been credited with great merit in Hadith. The noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: ما من مسلم یقرض مسلما قرضا مرۃ اِلا کان کصدقتہ مرتین For every Muslim, who gives loan to another Muslim, it will be equal to having given sadaqah (charity) twice. (Mazhari with reference to Ibn Majah) 2. Hearing this verse, says Ibn al-&Arabi, people split in three groups. The first group is that of those unfortunate people who, after hearing this verse, said: &Muhammad&s Lord is poor, and we are rich.& The reply to this comment was given by another verse: لَّقَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ فَقِيرٌ‌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ Allah has surely heard the saying of those who said, |"Allah is poor and we are rich|". (3:181) The second group is that of those who, hearing this verse, elected to act against it and adopted miserliness as their way of life. The love and greed of material possessions so tied them down that they remained deprived of the very ability to spend in the way of Allah. The third group is that of sincere Muslims who lost no time and acted as directed by the verse giving the best of their possessions in the way of Allah, such as is the case of Companion Abu al-Dahdah (رض) and others. When this verse was revealed, Sayyidna Abu al-Dahdah (رض) presented himself before the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and asked him: &0 Messenger of Allah, may my father and mother be sacrificed to you, does Allah Almighty need loan from us, although He is Ghani غنی ، the one who needs no loan?& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Yes, Allah Almighty does wish to grant you entry in Paradise through it.& Hearing this, Sayyidna Abu al-Dahdah (رض) said. &Let the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stretch his hand forward.& He stretched his hand forward. Now Abu al-Dahdah (رض) started saying: &I own two date farms. I own nothing except these. I give the loan of these two farms of mine to Allah Almighty.& The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to him: &Dedicate one of these as waqf (endowment) in the way of Allah and keep the other to take care of your family needs.& Abu al-Dahdah (رض) said: |"You be my witness that I &spend& the better of the two farms which has six hundred date trees in the way of Allah.|" He said: &Allah will bless you with Paradise in return. Abu al-Dahdah (رض) came to his house and told his wife about it. She too was very pleased with this wonderful deal. The noble Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: کم من عذق رداح و دار فباح لابی الدحداح Countless trees laden with dates and spacious palaces are eagerly waiting for Abu al-Dahdah (in Paradise). (Qurtubi) 3. While returning qard قرض (loan), paying a little more than taken is a favourable practice only if any increase on the amount of loan has not been made a pre-condition. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِن خیارکم احسنکم قضاء The best person among you is the one who fulfils his obliga¬tion (loan) in a good manner. If increase or premium has been made a condition, then, that is haram (unlawful), and it is riba (interest) as well.

خلاصہ تفسیر : جہاد وغیرہ کار خیر میں انفاق کی ترغیب : کون شخص ہے (ایسا) جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھے طور پر قرض دینا (یعنی اخلاص کے ساتھ) پھر اللہ تعالیٰ اس (قرض کے ثواب) کو بڑھا کر بہت سے حصے کو دیوے اور (اس کا اندیشہ مت کرو کہ خرچ کرنے سے مال کم ہوجائے گا کیونکہ یہ تو) اللہ (ہی کے قبضہ میں ہے وہی) کمی کرتے ہیں (وہی) فراخی کرتے ہیں (کچھ خرچ کرنے نہ کرنے پر اس کا اصلی مدار نہیں) اور تم اسی کی طرف (بعد مرنے کے) لے جائے جاؤ گے (سو اس وقت نیک کام میں خرچ کرنے کی جزاء اور واجب موقع پر خرچ نہ کرنے کی سزا تم کو ملے گی) معارف و مسائل : (١) مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا قرض سے مراد نیک عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے اس کو قرض مجازًا کہہ دیا ورنہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض ضروری دیا جاتا ہے اسی طرح تمہارے انفاق کا عوض ضروری ملے گا اور بڑھانے کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا جاوے تو اللہ تعالیٰ اس کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کا یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بندوں کو قرض دیا جائے اور ان کی حاجت برآری کی جائے، چناچہ حدیث میں قرض دینے کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ما من مسلم یقرض مسلماً قرضاً مرۃ الا کان کصدقتہ مرتین (مظہری بحوالہ ابن ماجہ) جو مسلمان دوسرے مسلمان کو قرض دے دیتا ہے یہ قرض دینا اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس مال کے دو دفعہ صدقہ کرنے کے برابر ہے۔ (٢) ابن عربی فرماتے ہیں اس آیت کو سن کر لوگوں کے تین فرقے ہوگئے، پہلا فرقہ ان بدنصیب لوگوں کا ہے جنہوں نے یہ آیت سن کر کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہماری طرف محتاج ہے اور ہم غنی ہیں اس کا جواب قرآن کریم کی ایک اور آیت لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ فَقِيْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِيَاۗءُ (١٨١: ٣) سے دیا، دوسرا فرقہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس آیت کو سن کر اس کے خلاف کیا اور بخل ہی کو اختیار کرلیا مال کی طرف زیادہ رغبت اور اس کی حرص نے ان کو اس طرح باندھ لیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی تیسرا فرقہ ان مخلص مسلمانوں کا ہے جنہوں نے فوراً ہی اس آیت پر عمل کرلیا اور اپنا پسندیدہ مال اللہ کے راستے میں دے دیا جیسا کہ ابوالدحداح وغیرہ، جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالدحداح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں، حالانکہ وہ قرض سے مستثنیٰ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعے سے تم کو جنت میں داخل کردیں۔ ابوالدحداح نے یہ سن کر کہا اللہ تعالیٰ کے رسول ہاتھ بڑھائیں آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا ابوالدحداح نے کہنا شروع کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا ایک اللہ کے راستے میں وقف کردو اور دوسرا اپنے اہل و عیال کی معاشی ضرورت کے لئے باقی رکھو، ابوالدحداح نے کہا آپ گواہ رہئے ان دونوں میں سے بہترین باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں اس کو میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہوں، آپ نے فرمایا اللہ تمہیں اس کے بدلے میں جنت عطا کریں گے، ابوالدحداح اپنے گھر آئے اور بیوی کو اس کی اطلاع دے دیتو وہ بھی ابوالدحداح کے اس بہترین سودے پر بہت خوش ہوئیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کم من عذق رداح ودار فیاح لأ بی الدحداح (قرطبی) کھجوروں سے لبریز بیشمار درخت اور کشادہ محلات کس قدر ابوالدحداح کے لئے تیار ہیں (یعنی جنت میں) (٣) قرض میں واپسی کے وقت اگر زیادتی کی شرط نہ ٹھہرائی گئی ہو اور اپنی طرف سے قرض سے کچھ زیادہ ادا کردیا تو یہ پسندیدہ ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ان خیارکم احسنکم قضاء (تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے حق (قرض) کو اچھے طریقے سے ادا کرے۔ لیکن اگر زیادتی کی شرط ٹھرائی گئی تو وہ حرام ہے اور سود ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا فَيُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَۃً۝ ٠ ۭ وَاللہُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ۝ ٠ ۠ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٢٤٥ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے قبض القَبْضُ : تناول الشیء بجمیع الکفّ. نحو : قَبَضَ السّيفَ وغیرَهُ. قال تعالی: فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] ، فَقَبْضُ الید علی الشیء جمعها بعد تناوله، وقَبْضُهَا عن الشیء جمعها قبل تناوله، وذلک إمساک عنه، ومنه قيل لإمساک الید عن البذل : قَبْضٌ. قال : يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] ، أي : يمتنعون من الإنفاق، ويستعار الْقَبْضُ لتحصیل الشیء وإن لم يكن فيه مراعاة الكفّ ، ( ق ب ض ) القبض ( ض ) کے معنی چٹکی سے کوئی چیز لینے کے ہیں اور جو چیز چٹکی سے لی گئی ہو اسے قبض وقبیصۃ کہا جاتا ہے اس لئے قمیص حقیر چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے ایک مٹھی بھر لی ۔ میں ایک قرات فقبضت قبصۃ ( صاد مہلہ ) کے ساتھ بھی ہے ۔ قبوص سبک رفتار اور چست گھوڑا جو دوڑتے وقت صرف سم ہی زمین پر لگائے ۔ اور تیز رفتار گھوڑے پر اس کا اطلاق مجازی سرعت رفتاری کے لئے قبض کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ ( ق ب ض ) القبض کے معنی کسی چیز کو پورے پنجے کے ساتھ پکڑنے کے ہیں جیسے قبض السیف وغیرہ تلوار کو پکڑنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً [ طه/ 96] تو میں نے فرشتے کے نقش پا سے مٹی کی ایک مٹھی میں لے لینے کے ہیں اور قبضھا عن الشئی کے منعی کسی چیز کو پکڑنے سے ہاتھ سکیڑ لینے کے ہیں اسی مفہوم کے لحاظ سے مال خرچ کرنے سے ہاتھ روک لینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ [ التوبة/ 67] اور خرچ کرنے سے ہاتھ بند کئے رہتے ہیں ۔ یعنی خرچ نہیں کرتے ۔ اور استعارہ کے طور پر کیس چیز کے حاصل کرلینے کو بھی قبض کہا جاتا ہے اگر چہ اسے ہاتھ سے نہ پکڑا جائے بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (من ذا الذین یقرض اللہ قرضاً حسناً فیضاعفہ لہ اضعافاً کثیرۃ، (a) کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ پھر اللہ اسے اس کے لئے کئی گنا کردے) آیت میں لطیف ترین کلام اور بلیغ ترین پیرایہ بیان کے ذریعے نیکی کے کاموں اور بھلائی کی راہوں میں اتفاق کی دعوت دی گئی ہے۔ اسے قرض نام دیا تاکہ نیکی کے کاموں پر ثواب کے استحقاق کی تاکید ہوجائے۔ کیونکہ قرض کا لازمی طورپر عوض ہوت ہے جس کا قرض دینے والا مستحق ہوتا ہے۔ یہود کو اس لطیف نکتے کی خبر نہ ہوسکی یا انہوں نے جان بوجھ کر جاہل بننے کی کوشش کی چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگ رہا ہے گویا ہم دولتمند ہیں اور وہ (نعوذ باللہ) ہمارا محتاج ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء، (a) بیشک اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں) ۔ لیکن دوسری طرف اہل اسلام نے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیا اور انہیں اللہ کی طرف سے دیئے جانے والے ثواب اور کئے جانے والے وعدے کا پورا وثوق ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ صدقات و خیرات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں ہوگئے۔ روایت ہے کہ آپ پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوال حد (رض) اح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ عطا کیا ہے اس میں سے قرض مانگ رہا ہے اور میرے پاس دو زمینیں ہیں ایک اوپر کی طرف یعنی عالیہ میں اور دوسری نیچے کی جانب یعنی سافلہ میں۔ اب میں اس میں سے بہتر زمین کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤٥) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنین کو صدقہ و خیرات کی ترغیب دی جو شخص صدقہ وثواب کی امید رکھ کر خلوص اور سچائی کے ساتھ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ایک نیکی کو بڑھا کر ہزاروں تک پہنچا دیتا ہے اور دنیا میں جس پر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، مال کی تنگی اور فراخی کردیتا ہے اور مرنے کے بعد جب حاضری ہوگی تو وہ تمہارے اعمال کا ثواب دے گا، یہ آیت مبارکہ ایک انصاری شخص ابوالدحداح یا ابو الدحداحتہ کے بارے میں اتری ہے۔ شان نزول : من ذالذی یقرض اللہ “۔ (الخ) ابن حبان (رح) نے اپنی صحیح میں اور ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ ”۔ مثل الذین ینفقون اموالھم “۔ (الخ) یعنی سات سو تک ثواب کی زیادتی والی آیت نازل ہوئی، تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی کہ اے رب میری امت کو اور زیادہ ثواب دیجیے، اس پر یہ آیت کریمہ ”۔ من ذالذی یقرض “۔ (الخ) نازل ہوئی، یعنی جو شخص خدا کے راستے میں حسن نیت کے ساتھ خرچ تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا کر اور بہت زیادہ کردیتا ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤٥ (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط) جو انفاق خالص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کیا جاتا ہے اسے اللہ اپنے ذمے ّ قرض حسنہ سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم میرے دین کو غالب کرنا چاہتے ہو ‘ میری حکومت قائم کرنا چاہتے ہو ‘ تو جو کچھ اس پر خرچ کرو گے وہ مجھ پر قرض ہے ‘ جسے میں کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کروں گا۔ (وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ ) اور اللہ تنگ دستی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی دیتا ہے۔ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی چیز کو سکیڑ دینا اور کھول دینا ‘ کسی کے رزق کو تنگ کردینا یا اس میں کشائش کردینا۔ (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) یہاں دیکھئے جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں چیزوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ جہاد بالنفس کی آخری شکل قتال ہے اور جہاد بالمال کے لیے پہلے لفظ انفاق آ رہا تھا ‘ اب قرض حسنہ لایا جا رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :267 ”قرض حسن“ کا لفظی ترجمہ”اچھا قرض“ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے ، جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے ۔ اس طرح جو مال راہ خدا میں خرچ کیا جائے ، اسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا ، بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ دوں گا ۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرض حسن ، یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے ، بلکہ محض اللہ کی خاطر ان کاموں میں صرف کیا جائے ، جن کو وہ پسند کر تا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

164: اللہ کو قرض دینے سے مراد اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ اس میں غریبوں کی امداد بھی داخل ہے، اور جہاد کے مقاصد میں خرچ کرنا بھی، اسے قرض مجازاً کہا گیا ہے ، کیونکہ اس کا بدلہ ثواب کی صورت میں دیا جائے گا۔ اور ’’اچھے طریقے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اِخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا جائے، دِکھاوا یا دنیا میں بدلہ لینا مقصود نہ ہو، اور اگر جہاد کے لئے یا کسی غریب کی مدد کے طور پر قرض ہی دیا جائے تو اس پر کسی سود کا مطالبہ نہ ہو۔ کفار اپنی جنگی ضروریات کے لئے سود پر قرض لیتے تھے۔ مسلمانوں کو تأکید کی گئی ہے اوّل تو وہ قرص کے بجائے چندہ دیں، اور اگر قرض ہی دیں تو اصل سے زیادہ کا مطالبہ نہ کریں، کیونکہ اگرچہ دنیا میں تو انہیں سود نہیں ملے گا ؛ لیکن آخرت میں اﷲ تعالیٰ اس کا ثواب اصل سے بدرجہا زیادہ عطا فرمائیں گے۔ جہاں تک اس خطرے کا تعلق ہے کہ اس طرح خرچ کرنے سے مال میں کمی ہوجائے گی، اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ تنگی اور وسعت اللہ ہی کے قبضے میں ہیں۔ جو شخص اللہ کے دِین کے خاطر اپنا مال خرچ کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو تنگی پیش آنے نہیں دیں گے بشرطیکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:245) من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا۔ من استفہامیہ ہے مبتدا۔ ذا خبر ہے الذی یا ذا کی صفت ہے یا اس سے بدل ہے قرضا حسنا منصوب بوجہ بمعنی اقراضا ہے یا بوجہ مفعول۔ حسنا صفت ہے قرضا کی۔ ترجمہ : ہے کوئی ایسا جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ ف جواب استفہام کے لئے یضاعفہ میں یضعف مضارع منصوب کا صیغہ مذکر غائب۔ مضاعفۃ (مفاعلۃ) مصدر، باب مفاعلہ مشارکت کی وجہ سے نہیں بلکہ مبالغہ کے لئے لایا گیا ہے۔ مضارع منصوب بوجہ ان مقدر ہے۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب قرضا کے لئے۔ اور لہ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب قرض دینے والے کے لئے ہے۔ اضعافا۔ ضعف کی جمع ہے ضعف اسم مصدر اور بطور مفعول مطلق مستعمل ہے اس کو اضعافا (بطور جمع) تنویع کے لئے بیان کیا ہے۔ کثیرۃ۔ بہت ، واحد مؤنث لیکن اطلاق جمع کے موقعہ پر بھی ہوتا ہے۔ ترجمہ : تاکہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) قرضہ حسنہ دینے والے کے لئے اس قرض (کی جزائ) کو کئی گنا بڑھا دے۔ یقبض۔ مضارع واحد مذکر غائب قبض (باب ضرب) مصدر۔ وہ تنگ کرتا ہے وہ روکتا ہے ۔ القبض کے معنی کسی چیز کو پورے نیچے کے ساتھ پکڑنا۔ کے ہیں۔ جیسے قبض السیف تلوار کو پکڑنا۔ یبصط۔ مضارع واحد مذکر غائب بسط (باب نصر) مصدر کشادہ کرتا ہے فراخ کرتا ہے۔ بسط مادہ۔ قرات میں بعض نے ص سے اور بعض نے س سے پڑھا ہے۔ بسط الشیء کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے بسط الثوب اس نے کپڑا پھیلایا اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے اور بسط کبھی بمقابلہ قبض بھی آتا ہے جیسے آیت ہذا میں (خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور وہی اسے کشادہ کرتا ہے) اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے : ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ (42:27) اور اگر خدا اپنے بندوں کے لئے رزق میں فراخی کردیتا۔ اور وزادہ بسطۃ فی العلم الجسم (2:247) اسی نے اسے علم بھی بہت بخشا اور تن وتوش بھی بڑا عطا کیا۔ والیہ ترجعون ۔ الیہ ای الی اللہ۔ ترجعون مضارع مجہول جمع مذکر حاضر ۔ رجع (باب ضرب) تم لوٹائے جاؤ گے۔ تم پھیرے جاؤ گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 جو اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دے یعنی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرے اور اس میں ریاکاری یا کسی کو ستانے اور اس پر احسان رکھنے کا جذبہ کا رفرمانہ ہو ایسے خرچ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ قرض دیا ہے اور اس پر کئی گنا اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک مرفوع حدیث میں ہے ان اللہ یضاعف الحسنتہ الفر ائف حسنتہ۔ اللہ تعالیٰ ایک کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کی بیش لاکھ نیکیاں بنا دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک شخص ابو الد حادح نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا ایک باغ جس میں کھجور کے چھ سودرخت تھے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ ابن کثیر۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ قرض مجازا کہہ دیا ورنہ سب خدا ہی کی ملک ہے مطلب یہ ہے کہ جیسے قرض کا عوض ضرور ہی دیا جاتا ہے اسی طرح تمہارے انفاق کا عوض ضرور ملے گا اور بڑھانے کا بیان ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک خرما اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اتنا بڑھادیتے ہیں کہ وہ احد پہاڑ سے زیادہ ہوجاتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا دفاعی فنڈ میں حصہ لینا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے برابر ہے۔ جہاد کے لیے مجاہد کی جسمانی جدوجہد کے ساتھ جو اہم ترین چیز ہے وہ مال ہے۔ جہاد میں مال اور جان دونوں لازم وملزوم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلے میں نہتا مجاہد کب تک لڑ سکتا ہے ؟ اس لیے اسلحہ اس کی پہلی اور بنیادی ضرورت ہے۔ اسلحہ مال کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد کے لیے فوجی لباس، طعام، سواری یہاں تک کہ اس کے بال بچوں کے اخراجات کی بھی ضرورت ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال ناگزیر ہے اس لیے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم ہوا ہے۔ یہ مال بظاہر تو مجاہد کی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے کیونکہ مجاہد کو اللہ ہی کے لیے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے کو اپنی ذات عالی کو قرض دینا قرار دیا ہے۔ لیکن جس طرح جہاد محض فی سبیل اللہ ہونا چاہیے اس طرح قرض بھی کسی اور غرض کی بجائے اللہ ہی کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ یہی قرض حسنہ کا معنٰی ہے کہ جس کے دینے میں کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا ذرا تصور کیجیے کہ جو کچھ اس نے بندوں کو عطا کیا ہے وہ اسی کی مہربانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنا عطا کیا ہوا مال اپنے بندوں سے قرض کے طور پر حاصل کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ تم جس ذات کریم کو قرض دے رہے ہو وہ تمہیں کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس لوٹائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مال دیتے ہوئے کمی کا خوف محسوس نہ کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے مال کو کسی اور طریقے سے کم کرسکتا ہے۔ زمیندار ہے تو فصل تباہ ہونے کی شکل میں، دکاندار ہے تو خسارے کی صورت میں، تنخواہ دا رہے تو بیماری اور حادثے کی شکل میں ‘ تاجر ہے تو نقصان کی صورت میں مال میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی حادثے کے ذریعے مال کم ہوسکتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے لیے کمی کرنا کوئی مشکل نہیں وہ بڑھانے اور کم کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ طبع انسانی میں یہ بات ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ اسے آنے والے کل کے لیے کچھ جمع کرنا چا ہے کیونکہ آج وہ صحت مند اور صاحب روز گار ہے۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں اس کے ساتھ کیا حا دثہ پیش آجائے۔ اس فکر کی بنا پر ہر آدمی کچھ نہ کچھ بچا کر رکھنے کا عا دی ہوتا ہے تاکہ کل خود اور اس کے اہل و عیال اس مال سے مستفید ہو سکیں۔ اس طرح کی انشور نس کے لیے دنیا میں بیشمار ناجائز سکیمیں جاری ہیں۔ مسلمان کا جب یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا عا رضی ہے اور موت کے بعد لا محدود زندگی کا آغاز ہونے والا ہے اور اس کا انحصار اعمال کے نتا ئج پر ہوگا تو صحیح فہم و فراست کا تقاضا ہے کہ آدمی اس جہان کے لیے ضرور اہتمام کرے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اسی انشورنس کی بنیاد پر ہی اسے آخرت کی مراعات میسر ہوں گی گویا کہ صدقہ و خیرات آدمی کے لیے الٰہی انشورنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس انشورنس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّيْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھٹرے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رزق کم اور زیادہ کرنے والا ہے۔ ٣۔ ہر کسی نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن بہترین قرض حسنہ : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید : ١١) ٣۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١) ٤۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ : ٢٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جس طرح موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اگر اللہ نے زندگی لکھی ہوئی ہے تو موت آہی نہیں سکتی ، اسی طرح مال انفاق فی سبیل اللہ سے نہیں جاتا ۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے نام قرض حسن ہوتا ہے ۔ اللہ اس کا ضامن ہے اور وہ اس قرض کو بڑھا چڑھا کر کئی گنادے گا۔ دنیا میں بھی ایسے شخص کا مال بڑھے گا اسے سعادت و برکت نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی سکون اور راحت نصیب ہوگی ۔ اور آخرت میں تو ایسے شخص کے لئے بیشمار سازوسامان اور انعام واکرام ہوگا۔ اسے اللہ کا قرب نصیب ہوگا اور اللہ راضی ہوگا۔ انسان حرص اور بخل کی وجہ سے غنی نہیں ہوتا۔ غنا وفقر تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انفاق اور خرچ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے : وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُط ” گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی ۔ “ اور آخر کار تم سب نے اللہ کی طرف پلٹ کرجانا ہے ۔ جب تم چار وناچار اللہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اس دنیا سے رخصت ہوگے ، تو اس وقت تمہیں مال و دولت سے کیا فائدہ ہوگا : وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ” اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ۔ “ اور اگر اسی کی طرف بہرحال جانا ہے تو پھر موت سے ڈرنا کیا ؟ جزع وفزع سے کیا حاصل ؟ نہ موت کا ڈر اس لئے کہ اللہ کی طرف تو جانا ہے ۔ نہ فقر ومسکنت کا ڈر ، اس لئے کہ بہرحال اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی ہے۔ تو پھر مومنین کو چاہئے کہ وہ اللہ کی راہ میں زور وشور کے ساتھ جہاد شروع کریں ۔ وہ جان بھی پیش کریں اور مال بھی ۔ وہ یقین کرلیں کہ اس دنیا میں ان کے گنے چنے سانس ہیں ۔ زندگی محدود ہے ۔ ان کا رزق مقرر ہے ۔ ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ جرأت وبہادری کی زندگی گزاریں ۔ شریفانہ اور آزادانہ زندگی بسر کریں ۔ آخر کار جانا انہوں نے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے ہے ۔ ان آیات کی تشریح ، ایمانی ہدایات کی توضیح اور تربیتی ہدایات کے اظہار کے بعد مناسب ہے کہ قرآن مجید کے حسن ادا اور اظہار خیال کی فنی خوبیوں کو بھی کچھ وقت دیں ۔ مناسب نہیں کہ یوں ہی گزرجائیں أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ” کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ؟ جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے ۔ انداز تعبیر ایسا ہے ، جیسا کہ یہ لوگ ہزارہا کی تعداد میں صفیں باندھیں کھڑے ہیں اور ان کا معائنہ ہورہا ہے۔ (جس طرح گارڈ آف آنر کا معائنہ ہوتا ہے) ، قرآن نے صرف دو الفاظ استعمال کرکے ان لوگوں کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے أَلَمْ تَرَکیا آپ نے نظر نہیں ڈالی ۔ ان دو الفاظ کے سوا ، کوئی اور انداز تعبیر وہ نقشہ نہیں کھینچ سکتا تھا جو ان دو الفاظ نے پردہ تخیل پر منقش کردیا ۔ یوں لگتا ہے کہ گویا یہ لوگ صف بستہ کھڑے ہیں اور ہم انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ گھروں سے نکل پڑے ہیں ، ڈرے سہمے ، پھٹی پھٹی نظروں سے ادہر ادہر دیکھ رہے ہیں ۔ اب قرآن مجید صرف ایک لفظ استعمال کرتا ہے اور یہ تمام لوگ میدان معائنہ کی بجائے اب میدان مقتل میں پہنچ جاتے ہیں۔ گویا گارڈ آف آنر کیا معائنہ کرنے والا حاکم مطلق ایک کاشن دیتا ہے مُوتُوا ” مرجاؤ “ اور نقشہ بدل جاتا ہے ۔ اس لفظ سے احساس دلایا جاتا ہے کہ موت کے سامنے بند نہیں باندھے جاسکتے ۔ تمہارا طرز عمل غلط ہے ۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ کے فیصلے کا کاشن کی طرح نافذ ہوتے ہیں ۔ ادہر لفظ نکلتا ہے ، ادہر اس پر عمل ہوجاتا ہے۔ جس طرح پریڈ کے میدان میں ہوتا ہے۔ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ” پھر ان کو زندہ کردیا۔ “ کیونکر ؟ اس کی کوئی تفصیل یہاں نہیں ۔ اللہ قادر ہے ، مالک ہے ۔ موت وحیات کی زمام اس کے ہاتھ میں ہے ۔ بندوں کے ہر معاملے میں خود وہ متصرف ہے ۔ اس کا کوئی ارادہ مسترد نہیں ہوسکتا۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ یہ انداز تعبیر ہی بتا دیتا ہے کہ اللہ کے ہاں موت وحیات کے فیصلے کس طرح ہوتے ہیں اور امر الٰہی کے نفاذ کا منظر کیا ہوتا ہے۔ یوں جیسے پریڈ کا میدان اور کاشن پر کاشن ۔ اوپر ہمارے پردہ تخیل پر موت وحیات کا منظر تھا۔ روح کو مٹھی میں لے لینے ، قبض کرنے اور پھر یکلخت اسے آزاد کرنے کے مناظر تھے ۔ اس کے متصلاً مابعد جب رزق کا معاملہ آتا ہے تو قرآن مجید اس کے لئے قبض اور بسط کے الفاظ استعمال کرتا ہے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ ” اللہ مٹھی بند کرتا ہے اور کھولتا ہے۔ “ تنگی رزق وفراخی رزق کی یہ تعبیر اس لئے اختیار کی تاکہ قبض روح اور اعادہ روح کے سابقہ مضامین سے متناسق الفاظ آجائیں ۔ یہ دونوں جگہ الفاظ کا اختصار ، معانی کا استحضار قرآن مجید کا عظیم الشان اعجاز ہے ۔ ایک طرف عجیب منظر کشی ہے ۔ دوسری طرف استعمال الفاظ میں عجیب تناسق اور ہم آہنگی ہے ۔ معانی چلتے پھرتے نظرآتے ہیں اور حسن ادا کی تو کوئی انتہاء نہیں ہے ۔ اب قرآن مجید دوسرا تجربہ امت مسلمہ کے سامنے رکھتا ہے ۔ اس کے کردار بنی اسرائیل ہیں ۔ واقعہ حضرت موسیٰ کے زمانہ مابعد کا ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی رضا کے لیے صدقہ خیرات کرنے کی فضیلت لباب النقول میں اس آیت کریمہ کا سبب نزول بتاتے ہوئے بحوالہ ابن حبان وغیرہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت شریفہ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ ) (آخر تک) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا (رَبِّ زِدْاُمَّتِیْ ) (یعنی اے میرے رب میری امت کو اور زیادہ عطا فرما) اس پر آیت (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا) نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے استفہام کا طریقہ اختیار فرمایا ہے ( جو ترغیب کا بہت عمدہ طریقہ ہے) کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دیتا ہے۔ قرض کا معنی تو سب ہی جانتے ہیں اور حسن اچھے کے معنی میں آتا ہے۔ صاحب روح المعانی ص ١٦٢ ج ٢ لکھتے ہیں کہ اخلاص کے ساتھ خرچ کرنا اور حلال اور طیب مال خرچ کرنا یہ سب قرض حسن کے عموم میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ محتاج نہیں ہے سب کچھ اسی نے پیدا فرمایا اور سب اسی کی ملکیت ہے۔ جو لوگ مجازی مالک ہیں وہ اور ان کے اموال سب اللہ ہی کی ملکیت ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ شانہ کا کتنا بڑا فضل ہے اور شان کریمانہ ہے کہ اس کے دیے ہوئے میں سے جو شخص اس کی مخلوق پر خرچ کرے جو خرچ کرنے والے کی اپنی جنس ہے حتیٰ کہ اپنے اوپر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور اس میں ثواب سمجھے تو اس کا نام قرض رکھ دیا اور پھر جتنا دیا ہے اس سے بہت زیادہ عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا جس کو آیت میں (اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ) فرمایا ہے، کسی نے کیا خوب کہا ؂ مال عالم ملک تست مالکاں مملوکِ تو باوجود ایں بےنیازی اقر ضوا اللہ گفتۂ صحیح بخاری ص ١٨٩ ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی شخص ایک کھجور کے برابر حلال مال سے صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال ہی کو قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لیتا ہے پھر اس کی تربیت فرماتا ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچہ کی تربیت کرتا ہے اور وہ ذرا سا صدقہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ صحیح مسلم ص ٢٥٨ ج ٢ میں ہے کہ روزانہ رات کو جب تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں۔ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے میں اس کو دے دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت مانگے میں اس کی مغفرت کروں، کون ہے جو ایسے کو قرض دے جس کے پاس سب کچھ ہے اور جو ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ صبح تک یوں ہی فرماتے رہتے ہیں۔ یہ جو فرمایا کہ کون ہے جو ایسے کو دے جس کے پاس سب کچھ ہے اس میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے مال کی حاجت نہیں ہے اس کی ملکیت میں سب کچھ ہے، کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ ضرورت مند کو دے رہا ہوں، بلکہ اپنا فائدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اور یہ جو فرمایا کہ وہ ظلم کرنے والا نہیں ہے اس میں یہ بتایا کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے ضائع نہ جائے گا اس کے مارے جانے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْسُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) اللہ تعالیٰ تنگی کرتا ہے اور کشادہ فرماتا ہے اور اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ جس کو جتنا چاہے دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس کی روزی تنگ کر دے اس کا بھی اختیار ہے اس پر کوئی پابندی لگانے والا نہیں۔ کسی کو زیادہ دینا اور دے کر کم کردینا سب اسی کے قبضہ وقدرت میں ہے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا بَصِیْرًا) (بلا شبہ تیرا رب جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق عطا فرماتا ہے اور تنگی فرما دیتا ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے دیکھنے والا ہے) یہ مضمون سورة العنکبوت رکوع ٦ اور سورة سباء رکوع ٤ اور رکوع ٥ میں بھی مذکور ہے۔ آخر میں یہ جو فرمایا (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) اس میں یہ بتایا کہ اللہ کے لیے خرچ کیا ضائع نہیں ہے۔ جب اللہ کے یہاں پہنچو گے، سب کا ثواب پالو گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

478 حکم جہاد کے بعد یہ جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور اللہ کو قرض دینے سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا مراد ہے۔ والمراد النفقة فی الجھاد لانہ لما امر بالقتال فی سبیل اللہ ویحتاج فیہ الی المال حث علی الصدقة لیتھیا اسباب الجھاد (مدارک ص 97 ج 1) ۔ فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ۭ۔ اللہ کی راہ میں دیا ہوا تمہارا مال ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ اصل استحقاق سے کہیں زیادہ تمہیں اس کا اجر وثواب دیا جائے گا۔ وَاللّٰهُ يَـقْبِضُ وَيَبْصُۜطُ ۔ جہاد میں خرچ کرنے کی وجہ سے دولت کی کمی کا خطرہ محسوس نہ کرو کیونکہ دولت کی کمی بیشی اور رزق کی فراخی وتنگی تو خدا کے اختیار میں ہے جب اس نے دولت دی ہے تو اسے اس کی راہ میں خرچ کرو۔ وہ تمہیں اور زیادہ دے گا پہلے خرچ کرنے پر ثواب آخرت کا وعدہ فرمایا۔ اور یہاں دنیا میں وسعت رزق کی امید دلائی۔ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ۔ انجام کار خدا کے سامنے حاضر کیے جاؤگے اور تم سے سوال کیا جائیگا کہ تم نے خدا کی دی ہوئی دولت کہاں کہاں خرچ کی وہاں ایک ایک پائی کا حساب ہوگا اس لیے اب وقت ہے اپنی دولت کو خدا کے پسندیدہ مصارف میں خرچ کرلو جن میں سب سے بہتر مصرف جہاد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ جو قصہ مذکور ہوا اس پر غور کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتال کرو اور اس بات کو یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سب کی باتیں سنتا اور سب کی نیتوں کو جانتا ہے کون ایسا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھے طور پر یعنی اخلاص کے ساتھ قرض دے تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض دینے کے اجر وثواب کو دگناکر دے اس طور پر کہ اس دگنے میں بہت سے دگنے ملا دے یعنی بےانتہا ثواب بڑھا دے اور اللہ تعالیٰ ہی تنگی دیتا ہے اور وہی کشائش عطاء کرتا ہے اور تم اسی کی طرف واپس کئے جائو گے۔ ( تیسیر) ان دونوں آیتوں میں جہاد فی سبیل اللہ اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی قرض مجازا ً فرمایا ہے ورنہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی سب کا مالک ہے ۔ قرض کے معنی قطع اور کاٹنے کے ہیں لیکن بلا پر بولتے ہیں خواہ وہ اچھی ہو یا بری اور گزشتہ اعمال پر بھی قرض بولا کرتے ہیں خواہ وہ اچھے ہوں یا برے ہوں ۔ یہاں قرض اقراض کے معنی میں ہے اور جس طرح جانوں کے بدلے میں جنت کی بیع کو کنایہ کے طور پر فرمایا ہے اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کر کے ثواب لینے کو قرض سے کنایہ کیا ہے ورنہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ قرض مانگنے سے منزہ اور پاک ہے۔ واللہ ھو الغنی الحمید قرض حسنہ کو تفسیر میں بعض نے اخلاص کیا ہے جس میں ریا اور دکھاوا نہ ہو۔ بعض نے جہاد میں خرچ کرنے کو قرض حسنہ کہا ہے کسی نے خوش دلی سے دینے کو کہا جس میں سائل پر احسان نہ رکھا جائے اور تکلیف نہ دی جائے کسی نے کہا ثواب کی امید پر دینے کو قرض حسنہ کہتے ہیں ۔ بعض نے کہا وصول کرتے وقت تقاضے میں سختی نہ ہو۔ کسی نے کہا قرض دار سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا جائے۔ ضعف کے معنی ہیں کسی چیز میں اس کی مثل اور اس کے برابر اور ملادینا جس کو ہمارے ہاں دگنا کرنا کہتے ہیں یہ ضاد کے کسرے سے ہے باقی ضمہ سے ہو تو کمزوریے معنی ہوں گے ۔ بعض اہل لغت نے ضاد کے فتحہ کے ساتھ بھی یہی معنی کئے ہیں۔ حضرت حق تعالیٰ نے لفظ ضعف کی جمع فرمائی پھر کثیرہ اور بڑھایا ایک مرتبہ دگنا کرنا نہیں بلکہ بیشمار مرتبہ اس میں دگنے ملاتے رہنا ۔ جب ہی تو حدیث میں فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اللہ تعالیٰ ایک کھجور کے ٹکڑے کے برابر صدقہ کو اس طرح پا لتا ہے جس طرح تم لوگ گھوڑے کے بچہ کو پالتے ہو قیامت میں وہ کھجور کا ٹکڑا احد پہاڑ کے برابرہو گا ۔ حساب میں جسے ذواضعا اقل کہتے ہیں اس کا مقابل ہے وہاں تقسیم کرتے کرتے چھوٹا عدد نکالتے ہیں اور یہاں دوگنا دو گناہ کرتے کرتے اس کو شمار سے باہر کردیتے ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ قرض حسنہ والے کے ثواب کے سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔ ابن المنذر نے حضرت سفیان (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب آیت من جاء الحسنۃ نازل ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : ” الٰہی میری امت کا ثواب بڑھا دے “ پھر الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کی آیت نازل ہوئی تب بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا : پھر من ذالذین یقر من اللہ کی آیت نازل ہوئی اس پر بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا ۔ پھر آخر میں آیت انما یو فی الصابرون اجرھم بغیر حساب نازل ہوگئی ۔ قبض کے معنی تنگی اور بسط کے معنی کشائش ہے ۔ اردو میں یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ یہ کہ تنگ دستی اور گشائش حضرت حق ہی کے قبضے میں ہے اس لئے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہئے ۔ حضرت ابو لد حداح انصاری (رض) کا واقعہ طبرانی اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت کو سن کر وپوچھایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا خدا تعالیٰ قرض طلب کرتا ہے آپ نے فرمایا ہاں ! انہوں نے عرض کیا اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ سرکار کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں نے اپنا وہ باغ جو چاردیواری میں ہے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا اس باغ میں کھجورں کے چھ سو درخت تھے ان کے بیوی بچے بھی اس باغ میں رہتے تھے باغ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اپنی کو آواز دی اور اس سے کہا بال بچوں کو لے کر نکل آ میں نے یہ باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا ہے۔ ابن حبان اور بیہقی وغیرہ نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ اتفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں سب سے پہلے تیسرے پارے کی آیت مثل الذین یفقون اموالھم نازل ہوئی ۔ جس میں ایک نیکی کو سات سو تک بڑھانے کا وعدہ ہے اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی ۔ یا اللہ ! میری امت کے اجر کو زیادہ کر دے پھر یہ آیت من ذالذی نازل ہوئی ۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی اس پر انما یو فی الصابرون کی آیت نازل ہوئی جس میں صراحتہ ً بیشمار اور ان گنت اجر کا وعدہ فرمایا ۔ قبض اور بسط کا مفہوم بہت عام ہے ہر وہ چیز جو روکی جائے اور ہر وہ چیز جس میں کشادگی کی جائے اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں خواہ وہ مال ہو عمر ہو برکت فی الاعمال ہو۔ عمل کی توفیق ہو ۔ قلب کا بخل یا سخاوت ہو ۔ نفس قلب کا قبض یا بسط ہو جو حضرات صوفیہ کی اصطلاح ہے یا شرح صدر اور ضیق صدر ہو۔ غرض ہرچیز کا قبض و بسط اللہ تعالیٰ ہی کے حیط اختیار میں ہے یہاں محض مال کی مناسبت سے تنگدستی اور فراخ دستی کا مفہوم اختیار کرلیا ہے ورنہ قرآنی مفہوم بہت وسیع ہے ۔ آخر میں باز گشت کا ذکر فرمایا تا کہ یہ بات معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے ۔ اگر خوش دلی سے خرچ کیا تو ثواب کی فروانی ہوگی اور اگر بخل کیا تو اللہ تعالیٰ مواخذہ فرمائے گا ۔ یہ آخری جملہ وعدہ اور وعید دونوں کو شامل ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اللہ کو قرض دے یعنی جہاد میں خرچ کرے۔ اس طرح فرمایا مہربانی سے اور تنگی کا اندیشہ نہ رکھے۔ اللہ کے ہاتھ کشائش ہے۔ ( موضح القرآن) اب آگے پہلی امتوں کے جہاد کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں ۔ یعنی طالوت اور جالوت کا تا کہ مسلمانوں کو تقویت ہو اور ہمت بڑھے۔ (تسہیل)