Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
ضَعُفَ |
يَضْعُفُ |
اُضْعُفْ |
ضَعِيْف |
مَضْعُوْف |
ضَعْف/ضُعْف |
اَلضَّعْفُ: (کمزوری) یہ اَلْقُوَّۃُ کے بالمقابل آتا ہے۔ ضَعُفَ فَھُوَ ضَعِیْفٌ کمزور ہونا۔ قرآن پاک میں ہے: (ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ) (۲۲:۷۳) طالب اور مطلوب یعنی (عابد اور معبود دونوں) گئے گزرے ہیں اور اَلضَّعْفُ: رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی۔ اور اس میں ضَعْفٌ اور ضُعْفٌ دو لغت ہیں قرآن پاک میں ہے: (وَ عَلِمَ اَنَّ فِیۡکُمۡ ضَعۡفًا) (۸:۶۶) اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزوری ہے۔ خلیل کا قول ہے کہ اَلضَّعِیْفُ عقل ورائے کی کمزوری کو کہتے ہیں اور ضُعْفٌ بدنی کمزوری کو، چنانچہ آیت کریمہ: (فَاِنۡ کَانَ الَّذِیۡ عَلَیۡہِ الۡحَقُّ سَفِیۡہًا اَوۡ ضَعِیۡفًا) (۲:۲۸۲) کا لفظ ضَعْفٌ سے مشتق ہے اور ضَعِیْفٌ کی جمع ضِعَافٌ اور ضُعَفَائُ آتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (لَیۡسَ عَلَی الضُّعَفَآءِ ) (۹:۹۱) کمزوروں پر (کچھ گناہ) نہیں ہے۔ اِسْتَضْعَفْتُہٗ: میں نے اسے کمزور سمجھا، حقیر جانا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا) (۲۸:۵) اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں۔ (وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ) (۴:۷۵) اور ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوں … (قَالُوۡا فِیۡمَ کُنۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا کُنَّا مُسۡتَضۡعَفِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ) (۴:۹۷) تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتواں تھے۔ (اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ ) (۷:۱۵۰) کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھے تھے۔ اور آیت کریمہ: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا) (۳۴:۳۳) اور کمزور لوگ بڑے لوگوں سے کہیں گے، میں اِسْتِضْعَاف اِسْتِکْبَارٌ کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے۔ اور آیت کریمہ: (اَللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ ضُعۡفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ ضُعۡفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ ضُعۡفًا) (۳۰:۵۴) خدا ہی تو ہے جس نے تمہیں (ابتداء میں ) کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد طاقت عنایت کی پھر طاقت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا دیا۔ میں پہلے ضُعْف سے نطفہ یا مٹی مراد ہے اور دوسری جگہ اس سے وہ کمزوری مراد ہے جو جنین یا طفولیت کے زمانہ میں پائی جاتی ہے اور تیسرے سے وہ ضعف مراد ہے جو بڑھاپے کی عمر میں انسان کو لاحق ہوتا ہے۔ جس کی طرف کہ آیت اَرْذَلِ الْعُمَرِ میں اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح پہلی جگہ قُوَّۃً سے وہ قوت مراد ہے جو بچے کو حرکت کرنے، ہدایت پانے، دودھ مانگنے اور رو کر اپنے آپ سے تکلیف کو دفع کرنے کے لیے عطا کی جاتی ہے اور دوسری جگہ قُوَّۃٍ سے مراد وہ قوت ہے جو بلوغت کے بعد عطا ہوتی ہے اور آیت کریمہ میں ضَعْفٌ کو نکرہ لانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر جگہ ضَعْفٌ سے ایک ایسی حالت کی طرف اشارہ ہے جو پہلی حالت کی غیر ہے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ اسم نکرہ کو مکرر لاکر اگر پہلا معنی قمصود ہو تو اسے معرفہ بنالیا جاتا ہے جیسے رَأیْتُ رَجُلًا فقال لی الرجل کذا۔ مگر جب اس نکرہ کو دوبارہ نکرہ ہی لایا جائے تو پہلے معنی کا غیر مراد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے آیت کریمہ: (فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا …… اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ) (۹۴:۵-۶) کی تفسیر میں فرمایا: لَنْ یَّغِلْبِ عُسْرٌ یُسْرَیْنٍ کو دویسر پر ایک عسر غالب نہیں آسکتا۔(1) اور آیت کریمہ: (خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ) (۴:۲۸) اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا وہا ہے، میں ضَعِیْفًا کے لفظ سے انسان کی شدت احتیاجی کی طرف اشارہ ہے جس سے کہ ’’ملااعلیٰ‘‘ مستغنی ہوتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّ کَیۡدَ الشَّیۡطٰنِ کَانَ ضَعِیۡفًا) (۴:۷۶) (ڈرو مت) کیونکہ شیطان کا داؤ کمزور ہوتا ہے۔ میں شیطانی فریب کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ اﷲ کے بندوں پر اس کی تدابیر کارگر نہیں ہوسکتیں جیسے فرمایا: (اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ) (۱۷:۶۵) جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اَلضِّعْفُ: یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم و معنی کے تحقق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نِصْفٌ زَوْجٌ اور ضِعْفٌ (دگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اَضْعَفْتُ الشَّیْ وَضَعَّفْتہٗ وَضاعَفْتُہٗ کے معنی ہیں: کسی چیز کو دوچند کردینا۔ بعض نے کہا ہے کہ ضَاعَفْتُ (مفاعلہ) میں ضَعَّفْتُ (تفعیل) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر قراء نے آیت کریمہ: (یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ) (۳۳:۳۰) ان کو دگنی سزا دی جائے گی۔ اور آیت: (وَ اِنۡ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفۡہَا) (۴:۴۰) اور اگر نیکی (کی) تو اس کو دوچند کردے گا، میں یُضَاعِفْ (مفاعلہ) پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گنا ہونے کی طرف اشارہ ہے جیساکہ آیت: (مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا) (۶:۱۶۰) سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضَعَفْتُہٗ ضَعْفًا فَھُوَ مَضْعُوْفٌ: تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضَعْفٌ مصدر ہوگا۔ اور ضِعْفٌ اس جیساکہ شَیْئُ اور شِیْئٌ ہے اس اعتبار سے ضِعْفٌ الشیء کے معنی ہیں: کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور، جس سے وہ چیز دگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی دوچند مراد ہوتا ہے۔ لہٰذا ضِعْفُ العشرۃ اور ضِعْفُ المائۃ کے معنی بلااختلاف بیس اور دوسو کے ہوں گے چنانچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے۔( 2) (الطّویل) (۲۸۵) جزیْتُکَ ضِعْفَ الودِّ لما اشْتَکَیْتَہٗ … وَمَا ان جَزَاکَ الضِعْفَ منْ اَحَدٍ قَبْلِیِ جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دوچند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دوچند بدلہ نہیں دیا۔ اور اَعْطِہٗ ضِعْفَیْ وَاحِدٍ کے معنی یہ ہیں کہ اسے سہ چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ ایک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضِعْفٌ کا لفظ مضاف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (فَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ) (۳۴:۳۷) ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا۔ اور آیت کریمہ: (فَاٰتِہِمۡ عَذَابًا ضِعۡفًا مِّنَ النَّارِ) (۷:۳۸) تو ان کو آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی، باری تعالیٰ سے مطالبہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دوگنا عذاب دیا جائے ایک تو ان کے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ہمیں گمراہ کرنے کا جیساکہ آیت کریمہ: (لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ) (۱۶:۲۵) یہ قیامت کے دن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بے تحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اُٹھائیں گے۔ سے مفہوم ہوتا ہے پھر اس کے بعد (ِکُلٍّ ضِعۡفٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَعۡلَمُوۡنَ) (۷:۳۸) کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہورہا ہے جتناکہ دوسرے کو نظر آرہا ہے۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی۔ ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے۔ حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے۔ اور آیت: (لَا تَاۡکُلُوا الرِّبٰۤوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَۃً ) (۳:۱۳۰) بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اَضْعَافًا کے بعد مُضَاعَفَۃً کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مُضَاعَفَۃً کا لفظ ضَعْفٌ (بفتح الضاد) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود، جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا: (یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ) (۲:۲۷۶) کہ اﷲ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے۔(3) (الطّویل) (۲۸۶) زیَادَۃُ شَیْبٍ وَھِیَ نَقْصُ زیَادَتِیْ کہ بڑھاپے کی افزونی دراصل عمر کی کمی ہے۔
Surah:2Verse:245 |
تو وہ بڑھا دے اس کو
so (that) He multiplies it
|
|
Surah:2Verse:261 |
بڑھاتا ہے
gives manifold
|
|
Surah:4Verse:40 |
وہ دوگنا کرتا ہے اسکو
He doubles it
|
|
Surah:11Verse:20 |
دوگنا کیا جائے گا
And will be doubled
|
|
Surah:25Verse:69 |
دوگنا کیا جائے گا
Will be doubled
|
|
Surah:33Verse:30 |
دوگنا کیا جائے گا
will be doubled
|
|
Surah:57Verse:11 |
پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو
so He will multiply it
|
|
Surah:57Verse:18 |
دوگنا کیا جائے گا
it will be multiplied
|
|
Surah:64Verse:17 |
وہ دوگنا کردے گا اس کو
He will multiply it
|