Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 252

سورة البقرة

تِلۡکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتۡلُوۡہَا عَلَیۡکَ بِالۡحَقِّ ؕ وَ اِنَّکَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿۲۵۲﴾

These are the verses of Allah which We recite to you, [O Muhammad], in truth. And indeed, you are from among the messengers.

یہ اللہ تعالٰی کی آیتیں ہیں جنہیں ہم حقانیت کے ساتھ آپ پر پڑھتے ہیں ، بالیقین آپ رسولوں میں سے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

These are the verses of Allah, We recite them to you (O Muhammad) in truth, and surely, you are one of the Messengers (of Allah). This Ayah states, `These Ayat (verses) of Allah that We have narrated for you in truth conform to the exact manner that these stories have occurred and to the truth that still remain in the (Divine) Books that the scholars of the Children of Israel have and know. Allah said: O Muhammad, وَإِنَّكَ (you are) لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (one of the Messengers (of Allah)) emphatically stating the truth of his Prophethood

یہ واقعات اور یہ تمام حق کی باتیں اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سچی وحی سے تمہیں معلوم ہوئیں ، تم میرے سچے رسول ہو ، میری ان باتوں کی اور خود آپ کی نبوت کی سچائی کا علم ان لوگوں کو بھی ہے جن کے ہاتھوں میں کتاب ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے زوردار پر تاکید الفاظ میں قسم کھا کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی ۔ فالحمداللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

252۔ 1 یہ گزشتہ واقعات جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥٥] یہاں آیات اللہ سے مراد وہ معجزہ نما واقعات ہیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے۔ جیسے وبا سے ڈر کر گھر بار چھوڑنے والے ہزاروں لوگ جنہیں اللہ نے موت کے بعد زندہ کردیا یا جیسے داؤد کا اکیلے جالوت جیسے جابر بادشاہ کو مار ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کی ایک مختصر سی جماعت کو غلبہ عطا فرمانا اور داؤد جیسے ایک گمنام چرواہے کو بادشاہی اور نبوت سے سرفراز فرمانا وغیرہ یہ واقعات ٹھیک ٹھیک ہم نے بذریعہ وحی آپ سے بیان کردیئے ہیں اور آپ کا قرون ماضیہ کے ٹھیک ٹھیک حالات لوگوں کو بتلانا یقینا آپ کی رسالت پر ایک بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی بنا پر آپ ایسے گزشتہ صحیح صحیح حالات جان سکیں اور دوسروں کو بتلا سکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی پچھلی امتوں کے یہ واقعات جو ہم آپ کو سنا رہے ہیں، یہ آپ کے نبی صادق ہونے کی واضح دلیل ہیں، کیونکہ آپ نے انھیں نہ کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی سے سنا، پھر بھی انھیں اس طرح ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں کہ بنی اسرائیل بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کے انکار پر انتہائی تاکیدی الفاظ ” اِنَّ “ اور ” لام تاکید “ کے ساتھ آپ کی رسالت کا اثبات ہے۔ کافر آپ کی رسالت کے انکاری تھے، جیسا کہ فرمایا : (وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا )[ الرعد : ٤٣ ] ” اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہتے ہیں، تو کسی طرح رسول نہیں ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار کا رد کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ” بلاشبہ تو یقیناً رسولوں میں سے ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Since the affirmation of the prophethood of the noble Messenger of Allah is also a major objective of the Holy Qur&an, it has been so asserted as and when the occasion warrants. That he is correctly reporting the event (in verses 246-251), while he neither learnt it from someone nor heard it anywhere nor saw it, is a miracle which is a sound proof of his prophethood. Verse 252 here (and verse 253 which follows) demonstrate this proof. It is being said here that these verses in which this event has been mentioned &are the verses of Allah that We recite to you with all veracity& and this proves that you are certainly among the Messengers.&

خلاصہ تفسیر : چونکہ قرآن کریم کا ایک بڑا مقصد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اثبات بھی ہے اس لئے جس جگہ مضمون کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اس کا اعادہ کردیا جاتا ہے اس موقع پر اس قصہ کی صحیح صحیح خبر دینا جب کہ آپ نے نہ کسی سے پڑھا نہ کہیں سنا نہ دیکھا، ایک معجزہ ہے جو آپ کی نبوت کی صحیح دلیل ہے اس لئے ان آیات میں آپ کی نبوت پر استدلال فرماتے ہیں۔ نبوت محمدیہ پر استدلال : یہ (آیتیں جن میں یہ قصہ مذکور ہوا) اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو صحیح صحیح طور ہم تم کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں (اس سے ثابت ہوتا ہے کہ) آپ بلاشبہ پیغمبروں میں سے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ۝ ٠ ۭ وَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٢٥٢ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس الحمد لله پاره مکمل هوا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٢) لیکن اللہ تعالیٰ دشمن کے دور کرنے میں بڑا فضل کرنے والا ہے یہ قرآن کریم جو گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کرتا ہے ہم جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آپ پر نازل کرتے ہیں، تاکہ حق و باطل نکھر جائے، اور بلا شبہ آپ تمام جنات اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٢ (تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بالْحَقِّ ط) ۔ یہ قول گویا حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کی طرف منسوب ہوگا۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں سے خطاب ہے کہ یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا رہے ہیں حق کے ساتھ۔ یہ ایک بامقصد سلسلہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

169: واقعہ بیان کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دِلائی ہے کہ آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر ان آیات کا جاری ہونا آپ کے رسول ہونے کی دلیل ہے، اس لئے کہ آپ کے پاس ان واقعات کو جاننے کا وحی کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اور ’’ٹھیک ٹھیک‘‘ کے الفاظ سے شاید اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اہلِ کتاب نے ان واقعات کو بیان کرنے میں کہیں مبالغے سے کام لیا ہے، اور کہیں من گھڑت قصے مشہور کردیئے ہیں۔ قرآنِ کریم ان میں سے صرف صحیح باتیں بیان کرتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی پچھلی امتوں کے یہ وقعات جو ہم آپ سنا رہے ہیں آپ کے نبی صادق ہونے کی واضح دلیل ہیں کیونکہ آپ نے نہیں کسی کتاب میں پڑھا اور نہ کسی سے سنا۔ بھر بھی انہیں اس طرح ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں کہ بن اسرائیل بھی ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ (ابن کثیر، رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 252 تا 254 نتلوا (ہم تلاوت کرتے ہیں) ۔ المرسلین (بھیجے گئے ہیں (المرسل) ۔ تلک الرسل (یہ رسول) ۔ فضلنا (ہم نے بڑائی دی) ۔ کلم (کلام کیا) ۔ رفع (بلند کیا) ۔ ایدناہ (ہم نے اس کو قوت دی) ۔ انفقوا (خرچ کرو) ۔ ان یاتی (یہ کہ آئے) ۔ لا بیع (تجارت نہیں ہے) ۔ لا خلۃ (دوستی نہیں ہے) ۔ لا شفاعۃ (سفارش نہیں ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 252 تا 254 جہاد کے بیان میں یہ چند آیتیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی جا رہی ہیں۔ ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی تاریخ کی ایک نہایت اہم سرگزشت کو بےمعنی اور بےمقصد بنا کر رکھ دیا تھا۔ اب ہم نے اس کو بالکل ٹھیک ٹھیک اس کے نتائج اور انجام کے ساتھ آپ کو سنا دیا ہے تا کہ آپ اور آپ کے ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا کچھ اندازہ کرسکیں۔ اور یہ اس بات کی نہایت روشن دلیل ہے کہ آپ بھی انبیاء ورسل کے مبارک سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں کو کوئی نہ کوئی فضیلت و عظمت عطا فرمائی ہے اور سب کے درجات اور مراتب ہیں۔ لیکن اہل کتاب نے جماعتی تعصب اور گروہ بندیوں میں مبتلا ہو کر اپنے رسول کے سوا بقیہ نبیوں اور رسولوں کو جھٹلایا۔ اور سب کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ فرما یا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اس صورت حال پر صبر کیجئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، اللہ اپنی حکمت و مصلحت سے ان کا فیصلہ خود ہی کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر رسول کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اسی فضیلت کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز رہے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ نے کلام فرمایا یہ ان کی فضیلت کا خاص پہلو ہے، اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کھلے کھلے معجزات دئیے گئے اور روح القدس آپ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے یہ ان کی خصوصیت ہے۔ اسی طرح تمام نبیوں اور رسولوں کو اللہ نے خاص خاص مراتب و درجات سے نوازا ۔ مگر ان کے ماننے والی امتوں نے اپنے نبی کو سب سے اعلیٰ و برتر مان کر اپنے آپ کو تعصب کے خول میں بند کرلیا۔ ورنہ اگر وہ تمام نبیوں کو مانتے تو تمام نبیوں کے مراتب سے فیض حاصل کرتے ۔ ہر رسول ان کا رسول اور ہر ہدایت ان کے لئے روشنی ثابت ہوتی اور اب وہ قرآن کریم کے نور سے بھی پورا پورا فیض حاصل کرتے مگر ان کو ان کے تعصب اور ضد نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ ہدایت و گمراہی کے سلسلہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا۔ اگر وہ جبر اور زبردستی کرتا تو پھر کسی کو بھی کفر کا راستہ اختیار کرنے کا موقع نہ ملتا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ بندوں کو پوری آزادی دی کہ وہ سوچ سمجھ کر اور ارادہ و اختیار کی آزادی کے ساتھ چاہیں تو کفر کی راہ اختیار کریں اور چاہیں تو ایمان کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن جس راستے کو بھی وہ اختیار کریں گے اس کا انجام ان کے سامنے ہونا چاہئے ۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی تسکین و تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ آپ پیغام حق ان تک پہنچاتے رہیں لیکن ان کی ہدایت کے لئے پریشان نہ ہوں۔ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کردیتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس دنیا میں مال و متاع کا کوئی ابدی اور دائمی نفع ہے تو صرف اس صورت میں کہ جب تم اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس کو ایک لازوال خزانے کی صورت میں تبدیل کرلو۔ اس لئے کہ آگے جو دن آنے والا ہے اس میں نفع پہنچانے والی چیز اگر ہے تو وہ صرف نیکی ہے جو اس دنیا میں کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ اس عالم میں کوئی چیز کام آنے والی نہیں ہے۔ اس دنیا میں خریدو فروخت سے بھی کام چل جاتے ہیں۔ دوستیاں بھی کام دے جاتی ہیں اور سفارشیں بھی بعض اوقات نفع پہنچا دیتی ہیں لیکن اس دنیا میں ان چیزوں کی ساری راہیں بند ہوں گی جہاں صرف ایمان اور عمل صالح ہی کام آئیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قلیل اور ضعیف جماعت کا اپنے سے طاقت ور اور زیادہ پر غالب آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے اس فرمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کی پیش گوئی ہے۔ جو واقعات، حقائق اور نتائج ہم آپ کے سامنے پڑھتے ہیں یہ بالکل سچ ہیں۔ جس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے معزز اور محترم امت بنایا تھا۔ ان کی راہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو پیغمبر بنایا گیا تاآنکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے۔ بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور سخت ترین احکامات، حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی حکومت و حکمت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مافوق الفطرت خلقت، حلیمی اور برد باری حلقۂ ایمان میں داخل نہ کرسکی۔ اگر یہ لوگ حقائق ‘ معجزات اور آپ کا اخلاق و اخلاص دیکھ کر حلقہ اسلام میں داخل نہیں ہو رہے تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ؟ یقین فرمائیں کہ آپ بھی اسی مقدس جماعت انبیاء کے ایک فرد اور اسی مشن کے داعی ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے اعتماد کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ضابطے کے مطابق بالآخر ظالموں کو مٹا کر آپ کو غلبہ عطا کرنے والا ہے اور یہ انقلاب آکر رہے گا۔ ظالموں کا ظلم کبھی اس سیل حق کے سامنے نہ رکاوٹ بنا اور نہ بن سکے گا۔ ( ھُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) [ ا لصف : ٩] ” اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ یہ بات مشرکوں کو ناپسند لگے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الشامیین، باب حدیث تمیم الداري ] ” یہ دین ضروربضرور وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایک ایک شہر اور بستی کے ہر گھر میں اس دین کو داخل کردے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکام حق اور سچ ہیں۔ ٢۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرسلین میں سے ایک ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ آیات عالی مقام ہیں ، دوررس مقاصد کی حامل ہیں ، اور اللہ تعالیٰ خود ان کو اپنے نبی کو پڑھ کر سناتے ہیں نَتْلُوهَا عَلَيْكَ ” ہم خود تم کو سنا رہے ہیں ۔ “ ہم خود سنا رہے ہیں ۔ کس قدر عظیم بات ہے ۔ انتہائی مہیب حقیقت ہے یہ ۔ سوچنے کی بات ہے کہ خود رب ذوالجلال ان آیات کو پڑھ کر سنارہا ہے اور جو بالحق سچائی کے ساتھ ۔ خود ذات باری یہ آیات سنارہی ہے جسے سنانے کا حق ہے ۔ جس کے حکم پر یہ آیات نازل ہورہی ہیں ، جس کے حکم سے یہ انسانوں کا دستور العمل بنی ہیں ۔ اللہ کے سوا یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اس لئے جو شخص انسانوں کے لئے از خود کوئی نظام تجویز کرتا ہے وہ مفتری ہے ۔ وہ حق تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے۔ وہ خود اپنے ظلم کررہا ہے اور بندوں پر بھی ظلم کررہا ہے ۔ وہ ایک ایسا دعویٰ کررہا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے ۔ وہ باطل پرست ہے اور اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے ۔ اطاعت تو امرالٰہی کے لئے مخصوص ہے ۔ پھر اس کی اطاعت کی جانی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت لیتا ہے ۔ اس کے سوا کوئی مستحق اطاعت نہیں ہے۔ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ” تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو ، جو رسول بناکر بھیجے گئے ہیں ۔ “ یہی وجہ ہے باری تعالیٰ خود تم پر آیات کی تلاوت فرماتے ہیں اور پوری انسانی تاریخ کے تمام تجربات سے تمہیں آگاہ کررہے ہیں ۔ قافلہ اہل ایمان کے تمام تجربے ، تمام مراحل کے نشیب و فراز تمہیں بتائے جارہے ہیں اور تمام مرسلین کی میراث تمہارے حوالے کی جارہی ہے ۔ چناچہ یہاں یہ سبق ختم ہوجاتا ہے ، جو تحریکی تجربات کیے ذخیرہ سے بھر پڑا ہے ۔ اس سبق پر فی ظلال القرآن کا یہ دوسرا حصہ بھی ختم ہوجاتا ہے ۔ جس میں تحریک اسلامی کو مختلف سمتوں میں لے جایا گیا اور مختلف میدانوں اسے پھرایا گیا ۔ اور اسے اس عظیم رول کے لئے تربیت دی گئی جس کو اس نے کرہ ارض پر ادا کرنا تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے اس کا نگران مقرر کیا اور اسے امت وسط قرار دیا تاکہ وہ زمانہ آخر تک لوگوں کے لئے اس ربانی نظام زندگی کی حامل ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

494 یہ جملہ معترضہ ہے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے اظہار کیلئے لایا گیا ہے۔ یعنی گذشتہ واقعات کا صحیح صحیح علم جو ہم آپ کو بتا رہے ہیں یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ آپ سچے پیغمبر ہیں کیونکہ ان کا علم وحی الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ نبة اللہ تعالیٰ نبی ه (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ھذہ الایات التی تقدم ذکرھا لایعلمھا الا نبی مرسل وقرطبی ص 261 ج 3) حیث تخبر بتلک الایات وقصص القرون الماضیة واخبارھا علی ماھی علیہ من غیر مطالعة کتاب ولا اجتماع باحد یخبر بذالک (روح ص 175 ج 2)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 یہ آیتیں جن بنی اسرائیل کے واقعات مذکور ہوئے یہ اللہ تعالیٰ کی آیتیں ہیں جو ہم آپ کو صحیح اور واقع کے مطابق پڑھ کر سناتے ہیں اور بلا شبہ آپ ہمارے رسولوں اور پیغمبروں میں سے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جبریل (علیہ السلام) کے واسطے سے جو یہ کلام آتا ہے تو یہ بھی ہم ہی بھیجتے ہیں ، لہٰذاجبرئیل کا پڑھنا بھی ہمارا ہی پڑھنا ہے ۔ حق کا یہ مطلب ہے کہ جو واقعات ہم بیان کرتے ہیں وہ واقعہ کے عین مطابق ہیں ان کے صحیح ہونے میں تو اہل کتاب کو ذرا شک نہیں اور چونکہ نہ تم نے یہ واقعات ان کی کتابوں میں پڑھے نہ کسی تاریخ میں دیکھے اور نہ تم کو ان کی خبر ہے پھر جو تم ان کو صحیح صحیح بیان کرتے ہو تو بجزو حی کے تمہارے پاس اور کوئی تمہارے ذریعہ نہیں اور وحی الٰہی کے ذریعہ سے کسی بات کو بیان کرنا یہی پیغمبری ہے۔ اب آگے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مخصوص حالات کا ذکر ہے۔ (تسہیل)