Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلْخَلَلُ: دو چیزوں کے درمیان کشادگی اور فاصلہ کو کہتے ہیں مثلاً بادل اور گھروں کے درمیان کا فاصلہ یا راکھ وغیرہ کا اندرونی حصہ اس کی جمع خِلَالٌ ہے۔چنانچہ بادل کے متعلق فرمایا: (فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ) (۳۰۔۴۸) تم دیکھتے ہو کہ اس کے بیچ میں سے بارش برسنے لگتی ہے اور گھروں کے متعلق فرمایا: (فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ) (۱۷۔۵) اور وہ شہروں کے اندر پھیل گئے۔شاعر نے کہا ہے: (1) (۱۳۹) اَرَیٰ خَلَلَ الرِّمَادِ وَمِیْضَ جَمْرٍ میں راکھ کے اندر آگ کے انگارے کی چمک دیکھتا ہوں۔اور آیت کریمہ: (وَّ لَا۠اَوۡضَعُوۡا خِلٰلَکُمۡ ) (۹۔۴۷) اور تم میں دوڑے دوڑے پھرتے۔یعنی چغل خوری اور فساد سے تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کی کوشش کرتے۔ اَلْخِلَالُ: دانت وغیرہ صاف کرنا کا تنکا کہا جاتا ہے۔خَلَّ سِنَّہٗ اس نے اپنا دانت صاف کیا۔خَلَّ ثَوبَہٗ کپڑے میں سوراخ کرنا۔خَلَّ (ن) لِسَانَ الْفَصِیلِ اونٹ کے بچے کی زبان کو چھید کر تھوتھنی ڈالنا تاکہ اونٹنی کا دودھ نہ پی سکے۔ خَلَّ الرَّمِیَّۃَ بِالسَّھْمِ: نشانہ پر تیز مار کر سوراخ کردیا۔حدیث میں ہے: (2) (۱۱۷) خَلِّلُوا اَصَابِعَکُمْ (وضو میں انگلیوں کا خلال کیا کرو) اَلْخلَلُ فِی الْاَمْرِ کسی کام میں خرابی کا پیدا ہوجانا۔جیسا کہ دو چیزوں کے درمیان رخنہ پڑجاتا ہے۔ خَلَّ (ض) خَلًّا وَّخِلَالًا لَحْمُہٗ: گوشت کا دبلا اور کم ہوجانا۔شاعر نے کہا ہے: (3) (۱۴۰) اِنَّ جِسْمِیْ بَعْدَ خالِیْ لَخَلٌّ: کہ ماموں کے مرنے کے بعد میرا جسم گھل گیا ہے۔ اَلْخَلَّۃُ: ریگ زار کے اندر راستہ کو کہتے ہیں اور اسے خَلَّۃ یا تو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دشوار گزار ہوتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ راستہ ریگ زار کے اندر سے گزرتا ہے۔نیز ترش سرکہ کو بھی خَلّۃ کہتے ہیں کیونکہ ترشی اس میں سرایت کئے ہوتی ہے۔اَلخِلَّۃُ تلوار کی نیام کا چمڑا جو اس کے اوپر منڈھا ہوا ہوتا ہے۔نیام چونکہ اس کے اندر رہتی ہے اس لئے اس چمڑے کو خِلَّۃ کہا جاتا ہے۔ اَلْخَلَّۃُ: (ایضا) طبیعت کی خرابی یا عارضہ جو کسی چیز کی خواہش یا سخت احتیاج کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے اس لئے خَلَّۃ کے معنیٰ حاجت اور خصلت بیان کئے جاتے ہیں۔ اَلخْلَّۃُ: مودت،دوستی،محبت اور دوستی کو خْلَّۃ یا تو اس لئے کہتے ہیں کہ وہ دل کے اندر سرایت کرجاتی ہے اور یا اس لئیے کہ وہ کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے اور یا اس لئیے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ خَالَلْتُہٗ مُخَالَّۃً وَخِلَالًا فَھُو خَلِیْلٌ: اور آیت کریمہ: (وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ) (۴۔۲۵) اور خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا تھا۔میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے جس کی طرف آیت: (اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ) (۲۸۔۲۴) میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے۔میں اشارہ پایا جاتا ہے۔اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے(4) : (۱۱۸) اَللّٰھُمَّ اغْنِنیْ بِالاِفْتِقَارِ اِلَیْکَ وَلَانُفْقِرْنِی بِالْاِستِغنائِ عَنْکَ: اے اﷲ! مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذلت سے بے نیاز کرکے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا۔بعض نے کہا ہے کہ: خَلِیلٌ خُلَّۃٌ سے ہے اور اﷲ کے حق میں خْلَّۃ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ابوالقاسم البلخی کا کہنا ہے(5) کہ یہ خُلّۃ (احتیاج) سے ہے اور خْلّۃ (دوستی) سے نہیں ہے جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اس لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے لیکن خْلّۃ دوستی جائز نہیں ہے کیونکہ خلّۃ کے معنیٰ دوستی کے دل میں سرایت کرجانے کے ہیں۔جیسا کہ شاعر نے کہا ہے(6) (۱۴۱) قَدْ تَخلَّلْتَ مَسْلَکَ الرُّوْح مِنِّیْ وبِہٖ سُمِّیَ الْخَلِیْلُ خَلِیْلًا :تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہو اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے۔ اسی بناء پر مشہور محاورہ ہے۔تَمَازَجَ رُوحَانَا: ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں۔اور محبت کے معنیٰ حبۂ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں۔یہ حَبَیْتُہٗ سے مشتق ہے جس کے معنیٰ حبۂ پر مارنے کے ہیں لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد احسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنیٰ خْلۃ سے مراد احسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنیٰ خْلۃ سے مراد ہوں گے کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے۔مگر حُبٌّ سے حَبَّۃُ الْقَلْبِ مراد لینا اور خُلَّۃ سے اﷲ تعالیٰ کے حق میں تخلل کا معنیٰ لینا صحیح نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے۔ (7) اور آیت کریمہ: (لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ ) (۲۔۲۵۴) جس میں نہ اعمال کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی کے معنیٰ یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خریدوفروخت ہوگی اور نہ ہی مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت: (وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی ) (۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور آیت کریمہ: (لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خِلٰلٌ ) (۱۴۔۳۱) جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی۔میں بعض نے کہا ہے کہ خِلاَل باب مفاعلہ سے مصدر ہے اور بعض کے نزدیک یہ خَلِیْل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اَخِلَّۃٌ وَّخِِلَالٌ دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی آیت کے ہم معنیٰ ہے۔
Surah:2Verse:254 |
گہری دوستی
friendship
|