Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 257

سورة البقرة

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵۷﴾٪  2

Allah is the ally of those who believe. He brings them out from darknesses into the light. And those who disbelieve - their allies are Taghut. They take them out of the light into darknesses. Those are the companions of the Fire; they will abide eternally therein.

ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالٰی خود ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں ۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں ، یہ لوگ جہنّمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; اللّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ امَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّوُرِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَوْلِيَأوُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ... Allah is the Wali (Protector or Guardian) of those who believe. He brings them out from darknesses into light. But as for those who disbelieve, their Awliya' (supporters and helpers) are Taghut (false deities and false leaders), they bring them out from light into darknesses. Allah stated that whoever follows what pleases Him, He will guide him to the paths of peace, that is Islam, or Paradise. Verily, Allah delivers His believing servants from the darkness of disbelief, doubt and hesitation, to the light of the plain, clear, explained, easy and unequivocal truth. He also stated that Shaytan is the supporter of the disbelievers who beautifies the paths of ignorance and misguidance that they follow, thus causing them to deviate from the true path into disbelief and wickedness. ... أُوْلَـيِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ Those are the dwellers of the Fire, and they will abide therein forever. This is why Allah mentioned the light in the singular while mentioned the darkness in the plural, because truth is one, while disbelief comes as several types, all of which are false. Similarly, Allah said, وَأَنَّ هَـذَا صِرَطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّـكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ And verily, this is my straight path, so follow it, and follow not (other) paths, for they will separate you away from His path. This He has ordained for you that you may have Taqwa. (6:153) وَجَعَلَ الظُّلُمَـتِ وَالنُّورَ And originated the darknesses and the light. (6:1) and, ظِلَـلُهُ عَنِ الْيَمِينِ to the right and to the lefts. (16:48) There are many other Ayat on the subject that mention the truth in the singular and falsehood in the plural, because of falsehood's many divisions and branches.

اندھیرے سے اجالے کی طرف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کی رضامندی کے طلبگار کو وہ سلامتی کی راہنمائی کرتا ہے اور شک و شبہ کے کفر و شک کے اندھیروں سے نکال کر نور حق کی صاف روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے ، کفار کے ولی شیاطین ہیں جو جہالت و ضلالت کو کفر و شرک کو مزین کرکے انہیں ایمان سے اور توحید سے روکتے ہیں اور یوں نور حق سے ہٹا کر ناحق کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں ، یہی کافر ہیں اور ہمیشہ یہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے ، لفظ نور کو واحد لانا اور ظلمات کو جمع لانا اس لئے ہے کہ حق اور ایمان اور سچا راستہ ایک ہی ہے اور کفر کی کئی قسمیں ہیں ، کافروں کی بہت سی شاخیں ہیں جو سب کی سب باطل اور ناحق ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ) 6 ۔ الانعام:153 ) میری سیدھی راہ یہی ہے تم اسی کی تابعداری کرو اور ، اور راستوں پر نہ چلو ورنہ اس راہ سے بھٹک جاؤ گے ۔ یہ وصیت تمہیں تمہارے بچاؤ کیلئے کر دی اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ) 6 ۔ الانعام:1 ) اور بھی اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے ، اور باطل میں تفرق و انتشار ہے ، حضرت ایوب بن خالد فرماتے ہیں ، اہل ہوا یا اہل فتنہ کھڑے کئے جائیں گے جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہو وہ تو روشن صاف اور نورانی ہوگا اور جس کی خواہش کفر کی ہو وہ سیاہ اور اندھیروں والا ہوگا ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦٧] دو مقاموں کے درمیان سیدھا راستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ جبکہ ٹیڑھی راہیں بیشمار ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر کفر و ضلالت کے اندھیرے کئی طرح کے اور بیشمار ہیں جبکہ اسلام کا نور ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کا ہے۔ اسی طرح طاغوت بیشمار ہوسکتے ہیں جبکہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ اسی لحاظ سے اس آیت میں اسلام کی سیدھی راہ یا روشنی کے لیے واحد اور کفر کی تاریکیوں کے لیے جمع کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے اس مضبوط حلقہ کو تھامے رکھتا ہے۔ اللہ اس کا سرپرست بن جاتا ہے اور اسے کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر اسلام کی روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جو لوگ اس مضبوط حلقہ یا شریعت سے اعراض و انکار کرتے ہیں تو ہر طرح کے طاغوت اس کے سرپرست بن جاتے ہیں جو اس کو ہدایت کی راہ سے منحرف کر کے کفر و ضلالت کی گمراہیوں اور تاریکیوں میں جا دھکیلتے ہیں۔ پھر اسے اسلام کی روشنی نظر آ ہی نہیں سکتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قرآن پاک میں جہاں بھی ” الظُّلُمٰتِ “ اور ” النُّوْرِ “ کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے، ما سوائے سورة انعام (١) (وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ڛ ) کہ وہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (رازی) اس آیت میں ” النُّوْرِ “ کا لفظ بصیغہ واحد اور ” الظُّلُمٰتِ “ کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر و شرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں، وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفر کی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہوتا ہے، مگر یہ معنی مراد نہیں بلکہ جو شخص ابتدا ہی سے مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں ہے : (لَمَّآ اٰمَنُوْا كَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ) [ یونس : ٩٨ ] ” جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا۔ “ حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح فرمایا : (ڐوَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِ ) [ النحل : ٧٠ ] ” اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ “ حالانکہ وہ پہلے کبھی نکمّی عمر میں نہ تھے جس کی طرف دوبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا : ” أَشْھَدُ أَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( خَرَجَ مِنَ النَّارِ ) ” یہ شخص آگ سے نکل آیا۔ “ [ مجمع الزوائد : ١/٣٣٤ ] حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا : (اِنِّىْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ) [ یوسف : ٣٧ ] ” میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے “ حالانکہ یوسف (علیہ السلام) کبھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض ! قرآن و حدیث میں اس قسم کے محاورات بکثرت مذکور ہیں، خوب سمجھ لو۔ (رازی) اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ : یعنی یہ کافر اور ان کے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٤) اور سورة انبیاء (٩٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This verse also tells us that faith (&Iman ایمان ) is the greatest blessing and disbelief (kufr کفر ) is the greatest misfortune, and that there is darkness in friendship with those who disbelieve (kuffar کُفار ).

خلاصہ تفسیر : اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (الیٰ قولہ) خٰلِدُوْنَ اللہ تعالیٰ ساتھی ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے ان کو (کفر کی) تاریکیوں سے نکال کر یا بچاکر نور (اسلام) کی طرف لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے ساتھی شیاطین ہیں (انس یا جن) وہ ان کو نور (اسلام) سے نکال کر یا بچاکر (کفر کی) تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں ایسے لوگ (جو اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار کریں) دوزخ میں رہنے والے ہیں (اور) یہ لوگ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے۔ معارف و مسائل : آیت سے ایمان کا سب سے بڑی نعمت اور کفر کا سب سے بڑی مصیبت ہونا بھی معلوم ہوا اور یہ کہ کافروں کی دوستی میں بھی ظلمت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝ ٠ ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝ ٠ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝ ٠ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝ ٠ ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٢٥٧ ۧ ولي والوَلَايَةُ : تَوَلِّي الأمرِ ، وقیل : الوِلَايَةُ والوَلَايَةُ نحو : الدِّلَالة والدَّلَالة، وحقیقته : تَوَلِّي الأمرِ. والوَلِيُّ والمَوْلَى يستعملان في ذلك كلُّ واحدٍ منهما يقال في معنی الفاعل . أي : المُوَالِي، وفي معنی المفعول . أي : المُوَالَى، يقال للمؤمن : هو وَلِيُّ اللهِ عزّ وجلّ ولم يرد مَوْلَاهُ ، وقد يقال : اللهُ تعالیٰ وَلِيُّ المؤمنین ومَوْلَاهُمْ ، فمِنَ الأوَّل قال اللہ تعالی: اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] ، إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] ، وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] ، ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] ، وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] ، قال عزّ وجلّ : قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] ، وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] ، ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] ( و ل ی ) الولاء والتوالی الوالایتہ ( بکسر الواؤ ) کے معنی نصرت اور والایتہ ( بفتح الواؤ ) کے معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دلالتہ ودلالتہ کی طرح ہے یعنی اس میں دولغت ہیں ۔ اور اس کے اصل معنی کسی کام کا متولی ہونے کے ہیں ۔ الوالی ولمولی ۔ یہ دونوں کبھی اسم فاعل یعنی موال کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی اسم مفعول یعنی موالی کے معنی میں آتے ہیں اور مومن کو ولی اللہ تو کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن مولی اللہ کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰٰ کے متعلق ولی المومنین ومولاھم دونوں طرح بول سکتے ہیں ۔ چناچہ معنی اول یعنی اسم فاعل کے متعلق فرمایا : ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا [ البقرة/ 257] جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست خدا ہے إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ [ الأعراف/ 196] میرا مددگار تو خدا ہی ہے ۔ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 68] اور خدا مومنوں کا کار ساز ہے ۔ ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا[ محمد/ 11] یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا خدا کار ساز ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال/ 40] خوب حمائتی اور خوب مددگار ہے ۔ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى[ الحج/ 78] اور خدا کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست ہے اور خوب دوست ہے ۔ اور ودسرے معنی یعنی اسم مفعول کے متعلق فرمایا : ۔ قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ [ الجمعة/ 6] کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔ وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ [ التحریم/ 4] اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو خدا ان کے حامی اور ودست دار ہیں ۔ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ [ الأنعام/ 62] پھر قیامت کے تمام لوگ اپنے مالک پر حق خدائے تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٧) جو حضرات ایمان لائے یعنی عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ ان کا مددگار اور محافظ ہے، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو نکالا اور توفیق عطا کی کہ تاکہ یہ کفر سے نکل کر ایمان میں داخل ہوجائیں اور کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی ان کا دوست شیطان ہے وہ ان کو ایمان سے کفر کی طرف بلاتا ہے، یہ سب جہنمی ہیں، جس میں نہ کسی کو کبھی موت آئے گی اور نہ اس سے نکالے جائیں گے۔ شان نزول : ولی الذین امنوا “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عبدۃ ابن ابی لبابہ (رض) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ وہ حضرات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور پھر جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو آپ پر یہ ایمان لائے، ان ہی حضرات کے بارے میں یہ آیت مبارکہ اتری ہے۔ اور مجاہد (رح) سے روایت کیا گیا ہے کہ ایک جماعت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی تھی اور ایک جماعت نے ان کا انکار کیا تھا، جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا تھا، وہ آپ پر ایمان لے آئے اور جو حضرت (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے، انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کردیا، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٧ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا) ایمان درحقیقت اللہ اور بندے کے درمیان ایک دوستی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ یہ ولایت باہمی یعنی دو طرفہ دوستی ہے۔ ایک طرف مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کا ولی بن جائے : ( اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ) (یونس) یاد رکھو ‘ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ دوسری طرف اللہ بھی اہل ایمان کا ولی ہے ‘ یعنی دوست ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ مددگار ہے ‘ کارساز ہے۔ (یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی ‘ طرف۔ آپ نوٹ کریں گے کہ قرآن میں نور ہمیشہ واحد آتا ہے۔ اَنوار کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ‘ اس لیے کہ نور ایک حقیقت واحدہ ہے۔ لیکن ظُلُمٰت ہمیشہ جمع میں آتا ہے ‘ اس لیے کہ تاریکی کے ‘ shades مختلف ہیں۔ ایک بہت گہری تاریکی ہے ‘ ایک ذرا اس سے کم ہے ‘ پھر اس سے کمتر ہے۔ کفر ‘ شرک ‘ الحاد ‘ مادہ پرستی ‘ لا ادریت ‘ (Agnosticism) وغیرہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔ تو جتنے بھی غلط فلسفے ہیں ‘ جتنے بھی غلط نظریات ہیں ‘ جتنی بھی عمل کی غلط راہیں ہیں ‘ ان سب کے اندھیاروں سے نکال کر اللہ اہل ایمان کو ایمان کی روشنی کے اندر لاتا رہتا ہے۔ (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُہُمُ الطَّاغُوْتُ ) (یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط) اگر کہیں نو رکی تھوڑی بہت رمق انہیں ملی بھی تھی تو اس سے انہیں محروم کر کے انہیں تاریکیوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ (اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ) ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ۔ آمین یا رب العالمین ! اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

287. The 'darkness' mentioned here means the darkness of Ignorance, which throws man off the path of salvation and well-being and directs his energies and efforts to wrong directions in defiance of reality. 'Light' here means the knowledge of Truth with the help of which man comes to know his own realitv and that of the universe; this knowledge also shows him the purpose of his life, and thus leads him consciously, to adopt the Right Way. 288. Here taghut (see n. 286 above) has a plural connotation. It implies that by turning away from God a man is subjected not to the tyranny of one, but to the tyranny of many tawaghit (evil one) . One of these is Satan, who throws up new temptations and allurements. Another potential taghut (transgressor) is man's own animal self, which seeks to subjugate him to his appetites and desires. There are many more taghut in the world outside oneself ; one's wife and children, one's relatives, one's family and one's community, one's friends and acquaintances, one's social environment and one's people, one's leaders and guides, one's government and rulers are all potential taghut, each one of whom seeks to have his purposes served. Man remains subjected to these innumerable masters throughout his life, not knowing precisely whom he should please and whose displeasure he should avoid.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :287 تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں ، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دور نکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صرف کرنے لگتا ہے ۔ اور نور سے مراد علم حق ہے ، جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر علیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہ عمل پر گامزن ہوتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :288 ”طاغُوت“یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے ، یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا ، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ ایک طاغوت شیطان ہے ، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے ۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے ، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے ۔ اور بےشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ بیوی اور بچے ، اعزہ اور اقربا ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا ، سوسائٹی اور قوم ، پیشوا اور رہنما ، حکومت اور حکام ، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں ، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقاؤں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

ابن جریر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ بعض نصرانی پہلے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے۔ اور جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت مشہور ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لائے ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے ١ معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو شخص اللہ کے حکم کے موافق رسول وقت کی اطاعت کرتا ہے اللہ اس کو سیدھا راستہ روز روشن کی طرح ہر وقت دکھلا دیتا ہے اور جو شخص شیطان کے بہکائے میں ہے وہ گمراہی کے اندھیرے میں پڑ کر فطرتی ایمان بھی کھو دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:257) یخرجھم۔ یخرج مضارع واحد مذکر غائب۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ الذین امنوا کے لئے ہے۔ من الظلمت الی النور۔ صاحب تفسیر مظہری اس آیت کی شرح میں رقمطراز ہیں۔ ” جن لوگوں کا مومن ہونا خدا چاہتا ہے تو ان کو اپنی توفیق اور ہدایت کی مدد سے جہالت ۔ نفس پرستی ۔ وسوسوں اور کفر تک پہنچانے والے شبہات سے نکال کر اسے صراط مستقیم پر لا ڈالتا ہے جو ایمان تک ان کو پہنچا دیتی ہے۔ واقدی نے لکھا ہے کہ ” قرآن مجید میں جس جگہ الفاظ ظلمات والنور آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہے ہاں سورة انعام کی آیت جعل الظلمت والنور (6:1) میں شب و روز مراد ہیں۔ آیر مذکور بتارہی ہے کہ ایمان (اختیاری نہیں) صرف عطیہ خداوندی ہے۔ جملہ یخرجہم من الظلمت الی النور۔ یا تو اللہ کی دوسری خبر ہے۔ یا امنوا کی ضمیر کا حال ہے یا الذین کا حال ہے یا دونوں سے حال ہے۔ یا مستقل علیحدہ کلام ہے جس سے مفہوم دلایت کی توضیع یا تاکید ہو رہی ہے۔ یخرنھم۔ میں ضمیر فاعل الطاغوت کی طرف راجع ہے جبکہ ضمیر مفعول (ہم) الذین کفروا کے لئے ہے۔ اولئک۔ اسم اشارہ جمع مذکر۔ مشار الیہ الذین کفروا۔ فیہا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ النار کے لئے ہے۔ خلدون۔ خلود (باب نصر) سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بحالت رفع۔ ہمیشہ رہنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 طاغوت (برزن فعلوت) کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں اس سے مرا شیطان بھی ہوسکتا ہے ہے اور ہر معبود باطل بھی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں طاغوت شیطان ہے۔ (ابن کثیر) نیز ہر وہ شخص جو راس الضلال بن کر لوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کر اتا ہے اسے طاغوت کھا جاتا ہے۔ (ترجمان)4 قرآن پاک میں جہاں بھی ظلمات اور نور کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے ماسوائے آیت سورت الانعام وجعل الظلمات والنور کے کہ یہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (کبیر) اس آیت میں نور کا لفظ بصیغہ واحد اوظلمات کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمشہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر وشرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں ہے اور وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفر کی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہو تو ہے مگر یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ جو شخص ابتدا سے ہی مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا مثلا قرآن میں ہے : فلما امنوا کشفنا عنھم عذاب الخذی (یونس 18) حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہو اتھا اسی طرح فرمایا : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ ( النحل : 70) حالانکہ وہ کبھی پہلے ارذل لعمر میں تھے جس کی طرف وہ و بارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا اشھد ان محمد ارسول اللہ تو آپ نے فرمایا خرج من لنار (یہ شخص آگ سے نکل آیا) حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ترکت ملتہ قوم لا یومنون باللہ۔ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے حا لان کہ یوسف (علیہ السلام) کبھی بھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض قرآن و حدیث میں اس قسم کے مح اور ات بکثرت مذکور ہیں۔ خوب سمجھ لو (کبیر)5 یعنی یہ کافر اور انکے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے دیکھئے بقرہ 24 ۔ الا نبی اء 98 ۔ (کبیر، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق جوڑنے کا نام ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ از راہ کرم اسے اپنا دوست بنا کر روشن مستقبل کی رہنمائی فرماتا ہے۔ جب آدمی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لائے اور شیطانی قوتوں کا انکار اور ان کے خلاف سینہ سپر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی ہدایت کے راستے کھول دیتا ہے۔ یہاں ہدایت کو نور اور طاغوتی راستوں کو ظلمات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیوں کہ شاہراہ ہدایت ایک ہی ہے اور شیطان کے راستے بیشمار ہیں جیسا کہ روشنی ایک ہے اور اندھیرے کئی قسم کے ہیں۔ یہی ایمان قیامت کے دن نور بن کر جنتیوں کے لیے مشعل راہ ہوگا۔ کفر و نفاق تاریکی بن کر جنت کے راستے میں حائل ہوجائے گا۔ ایسے لوگ جہنم میں دھکیلے جائیں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ [ الحدید : ١٣] جب آدمی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے تو اللہ بندے کو اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اسے اپنی طرف آنے کی توفیق بخشتا اور اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ جوں جوں بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار اور اس کے حکم پر نثار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آنکھ، کان اور جوارح پر چھا جاتا ہے اور وہ اپنے دوستوں کی رہنمائی ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے بندے کے دشمن کا دشمن ہوجاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میرے دوستوں کو دنیا و آخرت میں کوئی خوف نہ ہوگا۔ اس کے برعکس شیطان اپنے دوستوں کو نور ہدایت سے نکال کر گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَ تَہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر سوال کرے تو میں اسے عطا کرتا ہوں ‘ اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتا جتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی۔ “ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہٖ قَالَ إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّیْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَإِذَا أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید ] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بات بیان کرتے ہیں جو آپ اللہ تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں یعنی یہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔ ٢۔ شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ ٣۔ شیطان کے دوست ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ النور : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی روشنی نہیں دے سکتا۔ (النور : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٤۔ رسول لوگوں کو روشنی کی دعوت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ تورات وانجیل نور ہیں۔ (المائدۃ : ٤٦) ٦۔ قرآن بھی نور ہے۔ (المائدۃ : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سلسلہ کلام اور آگے بڑھتا ہے ۔ ایک متحرک اور محسوس انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے ۔ ہدایت کا صراط مستقیم اور گمراہی اور ضلالت کے راستے صاف صاف آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیسی ہے ؟ اسکرین پر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہاتھ سے پکڑ کر اندھیروں سے نکالتے ہیں اور روشنی میں لاتے ہیں جبکہ طاغوت جو کفار کے مددگار ہیں اہل کفر کا ہاتھ تھامے ہوئے انہیں نور ایمان سے ظلمات کفر میں لے جاتے ہیں ۔ یہ ایک عجیب پر کیف زندہ منظر ہے ۔ رہوار خیال کبھی ایک منظر کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اور کبھی دوسرے کی طرف ۔ ادہر سے واپس ہوتا ہے تو ادہر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہ انداز گفتگو ایسے جامد اور غیر متحرک انداز میں کلام کی جگہ اختیار کرتا ہے جو را ہوار خیال کو مہمیز نہیں دے سکتا ۔ نہ اس سے انسانی احساس لطف اندوز ہوسکتا ہے نہ شعور ووجدان میں طلاطم آتا ہے۔ اور جو صرف ذہن انسانی سے بذریعہ الفاظ ہی خطاب کرسکتا ہے ۔ اگر ہم کلام الٰہی کی عظمت کا صحیح اندازہ کرنا چاہیں تو اسی مفہوم کو ہم مختلف الفاظ میں لفظ اور معانی کا اظہار کرسکتے ہیں مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ مسلمانوں کا دوست ہے وہ انہیں راہ ایمان کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر اختیار کرتے ہیں ، وہ انہیں راہ کفر کی طرف کھینچتے ہیں ۔ “ دیکھئے یہ الفاظ اور انداز کلام ہمارے سامنے مردہ پڑا ہے ۔ اس میں وہ گرمی ، وہ حرکت اور القاء نہیں ہے جو کلام الٰہی میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی فصل طریقہ قرآن) لیکن اس حسی اور القائی تصویر کشی کے ساتھ قرآن کریم کا حسن تعبیر اور حقیقت پسندانہ اظہار مفہوم دیکھئے ۔ اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ................ ” جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ “ حقیقت یہ ہے ایمان نور ہے ۔ وہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے ایک منفرد نور ہے ۔ اور بیشک کفر اندھیرے ہیں اور یہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے متعدد اور متنوع ہیں لیکن ہیں سب کے سب اندھیرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی تعبیر نور کے ساتھ اور کفر کی تعبیر ظلمات کے ساتھ ایک بہترین تعبیر ہے ۔ یہ نہایت ہی حقیقت پسندانہ انداز تعبیر ہے ۔ جب دل مومن میں پہلے پہل ایمان کی چنگاری سلگتی ہے تو اس کے ذریعہ مومن کی پوری شخصیت نور سے بھرجاتی ہے ۔ اس کی روح روشن ہوتی ہے اور اسے تشفی ہوجاتی ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن کی روح اپنے ماحول میں روشنی پھیلاتی ہے ۔ اس کا ماحول روشن اور واضح ہوجاتا ہے ۔ اس نور سے تمام موجودات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ تمام اقدار کی تشریح ہوجاتی ہے ۔ تمام تصورات حیات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے ۔ مومن کا دل و دماغ ان تمام حقائق کو بغیر کسی ملاوٹ کے واضح طو رپر پالیتا ہے ۔ وہ ہر قدر کو اپنی جگہ دیکھتا ہے اور اسے اس کا صحیح مقام دیتا ہے۔ ایمان ایک ایسا نور ہوتا ہے جس کے ذریعہ ایک مومن اس کائنات میں رائج قانون قدرت کو پالیتا ہے ۔ اب یہ مومن اپنے طرز عمل کو اس کائنات میں رائج قانون قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلیتا ہے ۔ جو اس کے ارد گرد جاری وساری ہوتا ہے ۔ اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ پروقار طریقے سے اپنی راہ پر آگے بڑھتا ہے ۔ وہ اپنی راہ کو چونکہ اچھی طرح پالیتا ہے اس لئے وہ نہ کہیں گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی راہ میں غیر اہم رکاوٹوں کے ساتھ الجھتا ہے ۔ یہ ایک ایسی روشنی ہے جو صرف ایک اور منفرد راستہ دکھاتی ہے ۔ کفر کی گمراہیاں تو وہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں ۔ شہوت وخود سری کی تاریکی ، فسق وفجور کی تاریکی ، کبر و غرور اور سرکشی کی تاریکی ، غلامی اور ضعیفی کی تاریکی ، ریاکاری اور نفاق کی تاریکی ، لالچ اور نفع اندوزی کی تاریکی ، شک اور بےچینی کی تاریکی ، غرض بیشمار اور لاتعداد ظلمات ہیں جو سب کے سب کفر وگمراہی کی تاریکیاں ہیں اور سب کا مزاج یہ ہے کہ ان میں گھرا ہوا انسان اللہ کی راہ سے بےطرف ہوجاتا ہے۔ وہ غیر اللہ سے ہدایت حاصل کرتا ہے اور غیر اسلامی نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جونہی ایک انسان اللہ کے اس منفرد نور اس واحد حقیقت پسندانہ اور واضح روشنی کو ترک کردیتا ہے ، وہ کفر کے مختلف اندھیروں میں سے کسی اندھیرے میں پھنس جاتا ہے ۔ یہ اندھیرے متنوع ہیں اور سب ہپی اندھیرے ہیں ۔ اور ان اندھیروں کا انجام کیا ہے ؟ جو لوگ ان اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ................ ” یہ لوگ آگ والے ہیں اور یہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں ۔ “ اگر یہ لوگ اسلام کی روشنی میں راہ پانے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہمیشہ آگ میں رہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی ایک اور منفرد حقیقت ہے ۔ سچائیاں دو نہیں ہوسکتیں اور گمراہی کی مختلف انواع و اقسام ہیں اور حق وصداقت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب گمراہی ہے ۔ اس سے پہلے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کرکے آگے بڑھیں ، مناسب یہ ہے کہ ہم اس قاعدے یعنیلاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے بارے میں ایک اصولی بات کردیں ۔ اس قاعدہ کلیہ کے ساتھ ساتھ اسلام میں فرضیت جہاد کا بھی حکم دیا گیا ہے اور ایسے مواقع پیش آئے ہیں جن میں اسلام نے جہاد میں حصہ لیا ہے ۔ حالانکہ ایک سابقہ آیت میں کہا گیا ہے ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ (بقرہ ١٩٣) ” اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور نظام زندگی اللہ کا ہوجائے ۔ “ اسلام کے بعض مفاد پرست دشمنوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ لاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے اصولی قاعدہ کے ساتھ ساتھ جہاد کی فرضیت کا حکم دینا ایک متضاد بات ہیں۔ اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے بظاہر اسلام کی مدافعت کرتے ہوئے اور بباطن اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شعور سے جذبہ جہاد ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگ فریضہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام کے قیام اور اس کی نشرواشاعت میں فریضہ جہاد نے بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔ ایسے لوگ بڑی مکاری سے ، نہایت ہی نرم انداز سے اور نہایت ہی حکیمانہ انداز سے مسلمانوں کے دل میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ آج جہاد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور نہ آئندہ کبھی فریضہ جہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ بظاہر یہ لوگ یہ بات اسلام کی مدافعت میں کرتے ہیں (دیکھئے آرنلڈ کی کتاب ” دعوت اسلامی “ ترجمہ ڈاکٹر ابراہیم حسن وبرادرز) یہ دونوں قسم کے لوگ مستشرقین ہیں ۔ جو ایک ہی میدان میں کام کرتے ہیں ۔ یہ دونوں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ یہ اسلامی منہاج میں تحریف کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ اس شعور کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نظام جہاد ایک مسلمان کے نفس میں پیدا کردیتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے شعور جہاد سے خائف ہیں ۔ اس لئے کہ میدان جہاد میں وہ کبھی بھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے ۔ اس لئے اس شعور کو مٹاکر یہ اپنے لئے امن و اطمینان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جب سے انہوں نے دل مسلم سے جہاد ختم کیا ہے یا اسے الجھا دیا ہے ، انہوں نے امت مسلمہ کے جسم پر مختلف پہلوؤں سے ضرب ہائے کاری لگائی ہیں اور ہر میدان میں اسے شکست دے دی ہے ۔ یہ لوگ امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم اقوام اور استعماری قوم کی جنگ فقط معاشی اور تجارتی منڈیوں کی جنگ ہے ۔ لہٰذا اس جنگ میں امت مسلمہ کو جذبہ جہاد کو بیچ میں نہیں لاناچا ہئے جو فقط نظریاتی جنگ میں کارآمد ہوتا ہے ۔ اس لئے اس دور جدید میں جہاد کی بات بلاجواز ہے ۔ اسلام نے پہلے پہل جہاد اس وقت شروع کیا جس وقت مسلمانوں پر مظالم توڑے جارہے تھے تاکہ ان کی جان ، مال اور نظریہ حیات کو محفوظ کیا جاسکے ۔ یعنی جہاد برائے قیام امن ۔ اس تفسیر کے حصہ دوئم میں اس اصول کی تشریح آیت وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ................ ” اور فتنہ و فساد قتل سے زیادہ شدید ہیں “ کی تفسیر کے موقع پر کرچکے ہیں ۔ اس اصول کے مطابق اسلام نے نظریاتی تشدد اور اس کی وجہ سے جسمانی اذیت اور اہل نظریہ پر بوجہ نظریہ ظلم وتشدد کو قتل سے زیادہ شدید قرار دیا ۔ اس اصول کے مطابق نظریات کی قدر و قیمت انسانی زندگی سے بھی زیادہ ہے ۔ اگر ایک مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی جان کی حفاظت میں ہتھیار اٹھاسکتا ہے تو اسے بطریق اولیٰ اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے دین ، عقیدے اور نظریہ کی حفاظت اور دفاع میں ہتھیار اٹھائے ۔ اس وقت مسلمان محض اپنے عقیدے کی وجہ سے ظلم وتشدد کی چکی میں پس رہے تھے ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ وہ اپنی عزیز ترین دولت یعنی دولت ایمان کی مدافعت میں ہتھیار اٹھائیں ۔ ان پر یہ تشدد محض ان کے عقیدے کی وجہ سے ہورہا تھا اور کرہ ارض کے مختلف حصوں میں ان پر یہ مظالم ڈھائے جارہے تھے ۔ سرزمین اندلس نے ان وحشیانہ مظالم کو دیکھا ہے ۔ وہ اس اجتماعی قتل و غارت کی گواہ ہے ۔ جو مسلمانوں پر محض ان کے دین اور عقیدے کی وجہ سے ڈھائے گئے ۔ پھر یہ سرزمین ان مظالم کی بھی گواہ ہے جو وہاں عیسائیوں کے کیتھولک فرقے نے دوسرے فرقوں کے خلاف روا رکھے تاکہ انہیں زبردستی کیتھولک بنایاجائے۔ آج اسپین کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے مسلمان اور دوسرے عیسائی فرقوں کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے ۔ پھر بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے اسلامی علاقے صلیبی حملوں سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ جن کا ہدف صرف اسلامی نظریہ حیات اور دین اسلام پر غلبہ پانا تھا ۔ ان جنگوں کا دفاع بھی اہل اسلام نے اسلامی نظریہ حیات کے پلیٹ فارم سے کیا اور وہ اس میں بہت اچھی طرح کامیاب رہے ۔ اور اس علاقے کو اندلس کے انجام بد سے بچالیا ۔ آج بھی اشتراکی علاقوں ، بت پرست علاقوں ، یہودی علاقوں اور مسیحی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور یہ محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ لہٰذا اگر صحیح معنوں میں مسلمان ہیں تو آج بھی ان پر جہاد فرض ہے جس طرح پہلے فرض تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف ان مظالم کو بند کیا جاسکے ۔ اسلام کے نظریہ جہاد کی پشت پر دوسرا محرک یہ تھا کہ نظریاتی آزادی کے بعد نظریاتی دعوت وتبلیغ کی آزادی کے لئے بھی مواقع پیدا کئے جائیں ۔ اس لئے اسلام انسانی زندگی اور اس کائنات کا ایک بہترین حل پیش کرتا ہے ۔ وہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی نشوونما کے لئے ایک بہترین نظام تجویز کرتا ہے ۔ وہ اس بہترین عقیدے اور مکمل نظام کو پوری انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ تاکہ وہ اسے سنیں اور سمجھیں ۔ اور سننے اور سمجھنے کے بعد پھر وہ آزاد ہیں کہ وہ اسے قبول کرلیں یا رد کردیں ۔ اس لئے کہ دین وہ عقیدے کے بارے میں وہ کسی جبر واکراہ کا قائل نہیں ہے ۔ لیکن مکمل نظریاتی آزادی سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام انسانوں تک اسلامی پیغام کے پہنچنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے یہ پیغام تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ لہٰذا وہ تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں جو عوام الناس کو اس پیغام کے سننے ، اسے قبول کرنے اور اگر وہ چاہیں تو قافلہ ہدایت یافتگان میں شامل ہونے کی راہ میں حائل ہیں ۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کرہ ارض پر قائم طاغوتی نظام زندگی ہوتا ہے ۔ یہ نظام عوام الناس اور اس پیغام کی راہ میں حائل ہوتا ہے ۔ اور جو لوگ کسی طرح اس عقیدے اور پیغام کو سن کر اپنالیتے ہیں۔ یہ طاغوتی نظام ان پر تشدد شروع کردیتا ہے ۔ لہٰذا اسلام نے جب بھی جہاد کیا ہے اس نے ایسے باطل اور طاغوتی نظامہائے زندگی کا قلع قمع کیا ہے ۔ اور اس نے ایسے نظاموں کی جگہ ایسا عادلانہ نظام زندگی قائم کیا ہے جس میں ہر جگہ دعوت حق اور داعی حق کو پوری پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ مقصد اور ہدف آج بھی قائم ہے ۔ لہٰذا آج بھی مسلمانوں پر جہاد فرض ہے تاکہ وہ اس پیغام کو عام کرسکیں بشرطیکہ مسلمان ، مسلمان ہوں۔ ایک دوسرا مقصد جس کے لئے اسلام نے جہاد کو روا رکھا ہے وہ اسلامی نظام زندگی کا قیام اور اس کی حفاظت ہے۔ یہ واحد نظام زندگی ہے جو ایک انسان کو اپنے دوسرے انسان بھائی تک رسائی حاصل کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اور اس میں ہر انسان دوسرے انسان کی نسبت سے بالکل آزاد بھی ہے ۔ اس نظام میں بندگی صرف خدائے واحد بلندو برتر کے لئے مخصوص ہے ۔ اور یہ نظام اس دنیا سے انسان کی جانب سے دوسرے انسان کے لئے ہر قسم کی غلامی کا قلع قمع کردیتا ہے ۔ اس نظام میں کوئی فرد ، کوئی طبقہ اور کوئی قوم دوسرے انسان کے لئے قانون سازی کا کام نہیں کرسکتی ۔ اور نہ اس قانون سازی کے ذریعہ انسانوں کو کوئی اپنا غلام اور زیر دست بناسکتا ہے ۔ اس نظام میں سب انسانوں کا ایک ہی رب ہے ۔ وہ تمام انسانوں کے قانون وضع کرتا ہے بالکل مساوات کے ساتھ ۔ اور تمام انسان صرف اس رب کی بارگاہ میں خضوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں ، صرف اس رب واحد کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ اس نظام میں انسان کی جانب سے کسی دوسرے انسان کی اطاعت صرف ایک ہی صورت میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کا نافذ کنندہ ہو۔ اور امت کی جانب سے نفاذ شریعت کا کام اس کے سپرد کردیا گیا ہو ۔ نفاذ شریعت کا کام بھی کوئی از خود نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ قانون سازی صرف اللہ کا کام ہے ۔ انسانی زندگی میں شریعت شان خداوندی کا اظہار ہے ۔ اس لئے کوئی انسان اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے شریعت سازی کا کام مخصوص کرسکے حالانکہ وہ صرف ایک بندہ اللہ ہے ۔ یہ اسلامی نظام حیات کا اصل الاصول ہے اور اس اصول ودستور کے نتیجے میں ایک ایسا پاک اخلاقی نظام زندگی پرورش پاتا ہے جس میں تمام بنی نوع انسان کو کامل حریت اور آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ان انسانوں کو بھی جو اسلامی عقیدہ حیات کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے ۔ اس نظام میں ہر شخص کی عزت محفوظ ہوتی ہے ، یہاں تک کہ جو لوگ اسلامی نظام زندگی کو قبول ہی نہیں کرتے ہر اس باشندے کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں جو کسی اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہوتا ہے ۔ چاہے اس کا عقیدہ جو بھی ہو ۔ اس نظام میں کسی بھی شخص کو اسلامی عقیدہ اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں دین کے بارے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں صرف تبلیغ کی آزادی ہوتی ہے۔ محض اسلام نے جہاد کو اس لئے فرض کیا ہے کہ وہ دنیا میں مذکورہ بالا ارفع اور اکمل نظام زندگی کو قائم کرے اور اس کی حمایت اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے ۔ یہ اسلام کا حق تھا کہ وہ بذریعہ جہاد باطل اور فاسد نظام ہائے زندگی کا قلع قمع کردے جو اس اصول پر قائم تھے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کے غلام ہیں اور جن میں بعض انسان خدائی کے مقام کے مدعی ہوتے ہیں جو خدائی فرائض سنبھالتے ہیں ، حالانکہ یہ ان کا حق نہیں ہوتا ۔ اور ظاہر ہے کہ جب اسلام اس نصب العین کو لے کر اٹھتا ہے تو باطل نظامہائے زندگی بھی اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ اسلام ان طاغوتی نظاموں کا قلع قمع کرکے ان کی جگہ اس کرہ ارض پر اپنے ارفع اور اکمل نظام کا اعلان کردے ۔ اور پھر اس نظام کے زیر سایہ انہیں اپنے مخصوص عقائد کے اندر آزادی عطاکردے اور ان پر صرف اسلام کے اجتماعی سول کوڈ ، اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو ۔ رہے دینی اور قلبی عقائد ورجحانات تو وہ ان میں مکمل طور پر آزاد ہیں ۔ ان کے شخصی قوانین ومعاملات میں بھی وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اپنے عقائد کے مطابق اپنے معاملات طے کریں لیکن اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہو جو ان کی حفاظت کرے ۔ ان کی آزادی اس کے سایہ میں محفوظ ہو ۔ ان کو مکمل آزادی رائے حاصل ہو ۔ ان کی عزت محفوظ ہو اور ان کے مکمل اساسی حقوق انہیں حاصل ہوں لیکن اس نظام کے دائرے کے اندر۔ یہ جہاد اب بھی باقی ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے اس جہاد کو قائم رکھیں ۔ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ ” یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور جنس دین اللہ کا ہوجائے۔ “ اور اس دنیا سے انسان کی خدائی ختم ہو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی اور غلامی دنیا میں نہ رہے ۔ (مسئلہ جہاد کی زیادہ وضاحت کے لئے ملاحظہ فرمائیے کتاب الجہاد فی الاسلام مصنفہ المسلم العظیم سید ابوا لاعلیٰ مودودی ۔ نیز میری کتاب ” السلام العالمی فی الاسلام “ (سید قطب) غرض اسلام نے تلوار اس لئے نہیں اٹھائی کہ وہ لوگوں کو اسلامی اعتقادات اور تصورات اپنانے پر مجبور کردے ۔ نہ دنیا میں اسلام کا پھلاؤ تلوار کے بل بوتے پر ہوا ہے جیسا کہ اسلام کے بعض اعداء اسلام یہ الزام لگاتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جہاد اس لئے شروع کیا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پر امن نظام زندگی قائم کردے جس کے سائے میں تمام عقائد اور مختلف دینی تصورات رکھنے والے لوگ امن وآشتی کی زندگی بسر کرسکیں ۔ ہاں وہ اسلام کے سیاسی دائرے عمل میں رہتے ہوئے اپنے عقائد محفوظ رکھیں اور آزادی سے رہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی عقائد قبول نہ کریں۔ اسلامی نظام کے وجود ، اس کے پھیلاؤ اور اہل اسلام کے امن و سکون کے لئے اور ان لوگوں کے امن و اطمینان کے لئے جو لوگ اس نظام زندگی میں داخل ہونا چاہتے تھے اسلام کی مسلح قوت کی اشد ضرورت تھی ۔ نیز اقامت دین اور حفاظت دین کے لئے بھی مسلح قوت کا وجود از بس ضروری تھا ۔ اسلامی جہاد کا ادارہ کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہ تھا ۔ نہ وہ ایسا تھا کہ اس کی اس وقت کوئی ضرورت نہ ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو یا یہ کہ مستقبل میں اس کی ضرورت نہ ہو ۔ مسلمانوں کا بدترین دشمن یہ بات ان کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے ۔ اس نظام کو ایک اجتماعی قوت کی ضرورت ہے ۔ اور یہ قوت اسلام کے جذبہ جہاد میں مضمر ہے ۔ یہ اسلام کا مزاج ہے جس کے بغیر نہ اسلام قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................” دین میں جبر نہیں ہے “ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید یہ حکم بھی دیتا ہے وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ” اور تم لوگ ، جہاں تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ “ اسلام کی نظر میں یہ بنیادی نقطہ ہے اور اسی کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنا چاہئے اور اسی نقطہ نظر سے اہل اسلام کو اپنی تاریخ پڑھنا چاہئے ۔ اسلام کے نظریہ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو ایسا موقف اختیارنہ کرنا چاہئے جس میں وہ ایک ملزم کی طرح کھڑے ہوں اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ اس سلسلے میں انہیں ایک پر اعتماد ، پر عزم اور خود دار شخص کا موقف اختیار کرنا چاہئے جسے یہ یقین ہو کہ وہ اس دنیا کے تمام تصورات سے بلند تر ہے ۔ اسلامی نظام تمام نظاموں کے مقابلے میں بلند تر ہے ۔ دین اسلام تمام ادیان سے بالاتر ہے۔ اہل اسلام کو ان لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے جو بظاہر دین اسلام کا دفاع کررہے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان کے دل و دماغ سے تصور جہاد کھرچ کھرچ کر نکال رہے ہیں تاکہ وہ خود اسلام دشمن اقوام کو محفوظ کرسکیں ۔ جہاد دراصل ظالم طاغوت کی برتری کو ریزہ ریزہ کرنے والا عمل ہے ۔ اور جہاد میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے ۔ اور انسانیت کا سب سے بڑ دشمن وہ شخص ہے جو اسے جہاد سے محروم کرتا ہے اور انسانیت اور جہاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ۔ لہٰذا یہ شخص انسانیت کا دشمن نمبر ایک قرار پاتا ہے۔ اور انسانیت میں اگر رشد وہدایت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس عظیم دشمن انسانیت کا پیچھا کرے ۔ اس لئے کہ اہل ایمان امت مختار ہیں ۔ انہیں دولت ایمان سے برگزیدہ بنایا گیا ہے ۔ اس لئے خود ان کے اپنے نفوس کے لئے بھی اور پوری انسانیت کی خاطر بھی یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ منکر جہاد کا تعاقب کریں اور یہ ان کا ایسا فریضہ ہے جس کے بارے میں ازروئے شریعت وہ عنداللہ مسئول ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے ولی ہیں اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں ولی مددگار کار ساز اور دوست کو کہتے ہیں، اس آیت شریفہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا ولی ہے وہ ایمان والوں کو کفر و شرک کی اندھیریوں سے نکالتا ہے ان کو اسلام کی روشنی میں لاتا ہے ان کو نور پر ثابت قدم رکھتا ہے اور اندھیریوں سے بچاتا ہے۔ اور جن کے لیے ایمان مقدر ہے ان کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر نور ایمان عطا فرماتا ہے برخلاف کافروں کے کہ ان کے اولیاء یعنی دوست شیاطین ہیں۔ شیاطین ان کو ایمان قبول کرنے نہیں دیتے اور ان کو کفر کی تاریکیوں ہی میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ کفر پر مریں شیاطین خود دوزخ والے ہیں وہ اپنے ماننے والوں کو بھی دوزخ میں لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں سب دوزخی ہیں اور ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اہل ایمان کے بارے میں جو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالتا ہے اس کے عام معنی مراد لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کفر کی تاریکیوں سے اور گناہوں کی تاریکیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور نور کو عام لیا جائے تو تمام اعمال صالحہ کے نور کو بھی اس کا شمول ہوگا والأ ولی أن یحمل الظلمات علی المعنی الذی یعم سائر انواعھا ویحمل النور أیضا علی مایعم سائر انواعہ، و یجعل فی مقابلۃ کل ظلمۃ مخرج منھا نور مخرج الیہ۔ (ص ١٤ ج ٣) صاحب روح المعانی یہ بھی لکھتے ہیں کہ نور کو مفرد اور ظلمات کو جمع لایا گیا ہے۔ کیونکہ حق ایک ہی ہے جسے نور سے تعبیر فرمایا ہے اور تاریکیاں چونکہ بہت ساری ہیں اور طرح طرح کی ہیں (کیونکہ گمراہی کے راستے بہت سے ہیں) اس لیے اس کے لیے لفظ جمع یعنی ظلمات لایا گیا ہے۔ اہل کفرکا ذکر فرماتے ہوئے جو (یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ) فرمایا اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اس سے یا تو وہ نور فطری مراد ہے جس پر تمام انسان پیدا کیے گئے (و ھو المراد بقولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل مولود یولد علی الفطرۃ، الحدیث) اور نور بینات بھی مراد ہوسکتا ہے کھلے کھلے دلائل کے ذریعہ جو حق واضح ہوچکا ہے وہ سراپا نور ہے شیاطین اپنے ماننے والوں کو اس سے بچاتے ہیں اور کفر و شرک کے فائدے ان کو سمجھاتے ہیں اور حق قبول کرنے نہیں دیتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

505 یہ پہلے قانون کا بیان ہے۔ ولی کے معنی ناصر اور مددگار کے ہیں۔ ظلمات سے کفر وشرک اور شبہات کے اندھیرے مراد ہیں اور نور سے مراد یقین و ایمان کی روشنی ہے اور الذین آمنوا سے وہ لوگ مراد ہیں جو حق کے متلاشی اور ایمان لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ولمراد بھم من اراد الایمان (روح ص 14 ج 3) یعنی جو لوگ حق کے طالب ہوں الہدی کی طرف انابت کریں اور ایمان لانے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا اور ان کی مدد کرتا ہے اور انہیں کفر وشرک اور شکوک و شبہات کی الجھنوں سے نکال کر ان کے دلوں کو نور ایمان سے منور اور دولت یقین سے مالا مال کردیتا ہے۔506 یہ دوسرا قانون ہے۔ لیکن جو لوگ ضد وعناد کی وجہ سے کفر پر رہنا چاہتے ہیں اور اپنے اختیار سے کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے ایمان کی توفیق چھین کر شیطانوں کو ان پر مسلط کردیتا ہے جو ان کے دلوں میں طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے دل شبہات کی سیاہی سے بالکل ڈھک جاتے ہیں اور ان سے فطری نور چھین لیا جاتا ہے اور ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ جاتی ہے۔ 507 اولئک کا اشارہ الذین کفروا کی طرف ہے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے عناداً اور اختیاراً کفر قبول کیا ہے۔ وہ جہنمی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ اس کے بعد اللہ نے تین قصے بیان فرمائے ہیں۔ جو ان دونوں قاعدوں پر لف ونشر غیر مرتب کے طور پر متفرع ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ساتھی اور معاون و مدد گار ہے جو ایمان لائے ان کو کفر کی تاریکیوں میں سے ایمان کی روشنی کی طرف نکال لاتا ہے اور جو لوگ کافرانہ روش رکھتے ہیں اور اہل کفر ہیں ان کے دوست شیاطین ہیں خواہ وہ جن ہوں یا انسان ہوں ۔ یہ شیاطین ان کو ایمان کی روشنی سے کفر کی تاریکیوں کی جانب نکالتے اور بچاتے ہیں ، لہٰذا ایسے لوگ جو اسلام کو چھوڑ کر کفر کو اختیار کریں اصحاب نار اور اہل جہنم ہیں یہ لوگ اس دوزخ کی آگ میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ( تیسیر) ولی کے معنی قریب کے ہیں ۔ یہ قرب کبھی با اعتبار محبت کے ہوتا ہے اور کبھی با اعتبار نصرت اور مدد کے ہوتا ہے اس لئے اس کے بہت سے معنی کئے جاتے ہیں دوست ، ہمدرد ، کار ساز، مدد گار ، سرپرست ، خیر خواہ وغیرہ۔ ہم نے محبت و نصرت دونوں کے لحاظ سے ساتھی اور معاون کردیا ہے۔ اخراج کا مطلب یہ ہے کہ شکوک و شبہات اور وساوس و خطرات سے اہل ایمان کو محفوظ رکھتا ہے یا یہ مطلب ہے کہ کفر سے بچا کر انہیں ایمان کی طرف نکال لاتا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نور ایمان سے بڑھا کر نور ایقان تک پہنچاتا ہے ۔ اور نور ایقان سے بڑھا کر عین الیقین کے نور تک پہنچاتا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جس کی قسمت میں ایمان کے نور سے منور ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ ہدایت کا اہل ہے اسے کفر کی تاریکی سے بچا کر ایمان کی روشنی کی جانب لے آتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک شبہ کی بنا پر لوگوں نے مختلف جواب دینے کی کوشش کی ہے اور اسی وجہ سے کئی طور پر لفظ اخراج کا مطلب بیان کیا گیا ہے اور وہ شبہ یہ ہے کہ اخراج کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے سے کوئی شخص داخل ہو پھر اس کو نکالا جائے تو جو لوگ اہل ایمان ہیں وہ کفر میں کب داخل ہیں جو ان کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔ صاحب روح المعانی نے اس شبہ کا جواب یہ دیا ہے کہ اخراج کے معنی روکنے کے ہیں ۔ اخراج کے لئے یہ ضروری نہیں کہ داخل ہونے کے بعد اخراج متحقق ہو۔ لہٰذا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو کفر کی تاریکیوں سے روکتا اور بچاتا ہے فقیر کے نزدیک یہ تمام تکلفات ہیں ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اہل ایمان کو حضرت حق تعالیٰ کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے اور اس حمایت سے جو اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں ان کو اخراج سے تعبیر فرمایا ہے اور چونکہ اہل کفر کے رفیق شیاطین اور گمراہ کرنے والے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان بدبختوں کی دوستی سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کو بھی اخراج سے تعبیر فرما دیا ہے۔ اہل ایمان نور ہدایت کی طرف بڑھتے ہیں اور اہل کفر سرکشی اور طغیانی کی تاریکیوں میں گھستے چلے جاتے ہیں ۔ طاغوت کی طرف اخراج کی نسبت مجازی ہے ، چونکہ طاغوت کافروں کے کفر کا سبب ہیں اس لئے ان کی طرف اخراج کی نسبت کردی ہے اسی طرح ان کو اولیاء کہنا بھی مجازاً ہے وہ کافروں کے اولیاء نہیں بلکہ وہ تو ان کے دشمن اور ان کو جہنم میں لے جانے کے سبب ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جہاد ہے کافروں کی ضد توڑنے کو اور ہدایت اللہ کرتا ہے جس کی قسمت میں رکھی ہے ان کو شبہ آیا تو ساتھ ہی خبردار کردیا ۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو تقریر فرمائی ہے وہ مختصر اور نہایت عمدہ ہے اور یہ وہ معنی ہیں جن کو ہم نے تسہیل میں ابتداء ً اختیار کیا ہے یعنی شکوک و شبہات وغیرہ سے اہل ایمان کو محفوظ رکھتا ہے۔ ( واللہ اعلم بالصواب) اب آگے انہی معاملات مذکور کے متعلق اشخاص کے تین قصے مذکور ہیں۔ ( تسہیل)