Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 260

سورة البقرة

وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوۡتٰی ؕ قَالَ اَوَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ ؕ قَالَ بَلٰی وَ لٰکِنۡ لِّیَطۡمَئِنَّ قَلۡبِیۡ ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَۃً مِّنَ الطَّیۡرِ فَصُرۡہُنَّ اِلَیۡکَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنۡہُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُہُنَّ یَاۡتِیۡنَکَ سَعۡیًا ؕ وَ اعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿۲۶۰﴾٪  3

And [mention] when Abraham said, "My Lord, show me how You give life to the dead." [ Allah ] said, "Have you not believed?" He said, "Yes, but [I ask] only that my heart may be satisfied." [ Allah ] said, "Take four birds and commit them to yourself. Then [after slaughtering them] put on each hill a portion of them; then call them - they will come [flying] to you in haste. And know that Allah is Exalted in Might and Wise."

اور جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے کہا کہ اے میرے پروردگار !مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ ( جناب باری تعالٰی نے ) فرمایا کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی فرمایا چار پرند لو ، ان کے ٹکڑے کر ڈالو پھر ہر پہاڑپر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالٰی غالب ہے حکمتوں والا ہے ،

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Khalil Supplicates to Allah to Show Him How He Resurrects the Dead Allah tells; وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُوْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَيِنَّ قَلْبِي ... "My Lord! Show me how You give life to the dead." He (Allah) said: "Do you not believe!" He (Ibrahim) said: "Yes (I believe), but to be stronger in faith." The scholars said that; there are reasons behind this request by Ibrahim. For instance, when Ibrahim said to Nimrod, رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ (My Lord (Allah) is He Who gives life and causes death,) he wanted to solidify his knowledge about resurrection by actually witnessing it with his eyes. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُوْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَيِنَّ قَلْبِي We are more liable to be in doubt than Ibrahim when he said, "My Lord! Show me how You give life to the dead." Allah said, "Don't you believe!" Ibrahim said, "Yes (I believe), but (I ask) in order to be stronger in faith." The Prophet's statement in the Hadith means, "We are more liable to seek certainty." The Answer to Al-Khalil's Request Allah said, ... قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ... He said: "Take four birds, then cause them to incline towards you." Scholars of Tafsir disagreed over the type of birds mentioned here, although this matter in not relevant due to the fact that the Qur'an did not mention it. Allah's statement, ... فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ... cause them to incline towards you, means, cut them to pieces. This is the explanation of Ibn Abbas, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Abu Malik, Abu Al-Aswad Ad-Dili, Wahb bin Munabbih, Al-Hasan and As-Suddi. ... ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ... and then put a portion of them on every hill, and call them, they will come to you in haste. Therefore, Ibrahim caught four birds, slaughtered them, removed the feathers, tore the birds to pieces and mixed the pieces together. He then placed parts of these mixed pieces on four or seven hills. Ibn Abbas said, "Ibrahim kept the heads of these birds in his hand. Next, Allah commanded Ibrahim to call the birds to him, and he did as Allah commanded him. Ibrahim witnessed the feathers, blood and flesh of these birds fly to each other, and the parts flew each to their bodies, until every bird came back to life and came walking at a fast pace towards Ibrahim, so that the example that Ibrahim was witnessing would become more impressive. Each bird came to collect its head from Ibrahim's hand, and if he gave the bird another head the bird refused to accept it. When Ibrahim gave each bird its own head, the head was placed on its body by Allah's leave and power. " This is why Allah said, ... وَاعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ And know that Allah is All-Mighty, All-Wise. and no one can overwhelm or resist Him. Whatever Allah wills, occurs without hindrance, because He is the All-Mighty, Supreme above all things, and He is Wise in His statements, actions, legislation and decrees. Abdur-Razzaq recorded that Ma`mar said that Ayub said that Ibn Abbas commented on what Ibrahim said, وَلَـكِن لِّيَطْمَيِنَّ قَلْبِي (but to be stronger in Faith), "To me, there is no Ayah in the Qur'an that brings more hope than this Ayah." Ibn Abi Hatim recorded that Muhammad bin Al-Munkadir said that; Abdullah bin Abbas met Abdullah bin Amr bin Al-`As and said to him, "Which Ayah in the Qur'an carries more hope for you?" Ibn Amr said, قُلْ يعِبَادِىَ الَّذِينَ أَسْرَفُواْ عَلَى أَنفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُواْ Say: "O Ibadi (My servants) who have transgressed against themselves (by committing evil deeds and sins)! Despair not. (39:53) Ibn Abbas said, "But I say that it is Allah's statement, وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُوْمِن قَالَ بَلَى And (remember) when Ibrahim said, "My Lord! Show me how You give life to the dead." He (Allah) said: "Do you not believe!" He (Ibrahim) said: "Yes (I believe)... Allah accepted Ibrahim's affirmation when he merely said, `Yes.' This Ayah refers to the doubts that attack the heart and the thoughts that Shaytan inspires." Al-Hakim also recorded this in Al-Mustadrak and said; "Its chain is Sahih but they did not record it."

معمہ حیات و موت حضرت ابراہیم کے اس سوال کی بہت سی وجوہات تھیں ، ایک تو یہ کہ چونکہ یہی دلیل آپ نے نمرود مردود کے سامنے پیش کی تھی تو آپ نے چاہا کہ علم الیقین سے عین الیقین حاصل ہو جائے ، جانتا تو ہوں ہی لیکن دیکھ بھی لیں ، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کے موقع کی ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم شک کے حقدار بہ نسبت حضرت ابراہیم کے زیادہ ہیں جبکہ انہوں نے کہا آیت ( وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى ) 2 ۔ البقرۃ:260 ) ، تو اس سے کوئی جاہل یہ نہ سمجھے کہ حضرت خلیل اللہ کو اللہ کی اس صفت میں شک تھا ، اس حدیث کے بہت سے جواب ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ( شاید یہ ہوگا کہ ہم خلیل اللہ سے کمزور ایمان والے ہونے کے باوجود خلاق عالم کی اس صفت میں شک نہیں کرتے تو خلیل اللہ کو شک کیوں ہوگا ؟ مترجم ) اب رب العالمین خالق کل فرماتا ہے کہ چار پرندے لے لو ، مفسرین کے اس بارے میں کئی قول ہیں کہ کون کون سے پرندے حضرت ابراہیم نے لئے تھے؟ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا علم ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس کا نہ جاننا ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ، کوئی کہتا ہے وہ کلنگ اور مور اور مرغ اور کبوتر تھے ، کوئی کہتا ہے وہ مرغابی اور سیمرغ کا بچہ اور مرغ اور مور تھے ، کوئی کہتا ہے کبوتر ، مرغ ، مور اور کوا تھے ، پھر انہیں کاٹ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو ، حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں اور روایت میں ہے اپنے پاس رکھ لیا ، جب ہل گئے انہیں ذبح کر دیا ، پھر ٹکڑے ٹکڑے الگ الگ کر دئیے ، پس آپ نے چار پرند لئے ، ذبح کرکے ان کے ٹکڑے کئے پھر اکھیڑ دئیے اور سارے مختلف ٹکڑے آپس میں ملا دئیے ، پھر چاروں پہاڑوں پر وہ ٹکڑے رکھ دئیے اور سب پرندوں کے سر اپنے ہاتھ میں رکھے ، پھر بحکم الہ انہیں بلانے لگے جس جانور کو آواز دیتے اس کے بکھرے ہوئے پر ادھر ادھر سے اڑتے اور آپس میں جڑتے اسی طرح خون خون کے ساتھ ملتا اور باقی اجزاء بھی جس جس پہاڑ پر ہوتے آپس میں مل جاتے اور پرندہ اڑتا ہوا آپ کے پاس آتا ، آپ اسے دوسرے پرند کا سر دیتے تو وہ قبول نہ کرتا ، خود اس کا سر دیتے تو وہ بھی جڑ جاتا ، یہاں تک کہ ایک ایک کرکے یہ چاروں پرند زندہ ہو کر اُڑ گئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اور مردوں کے زندہ ہونے کا یہ ایمان افروز نظارہ خلیل اللہ نے اپنی آنکھوں دیکھ لیا ، پھر فرماتا ہے کہ جان لے اللہ غالب ہے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی ، جس کام کو چاہے بےروک ہو جاتا ہے ، ہر چیز اس کے قبضے میں ہے ، وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے اسی طرح اپنے انتظام میں اور شریعت کے مقرر کرنے میں بھی ، حضرت عبداللہ بن عباس فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم سے جناب باری کا یہ سوال کرنا کہ کیا تو ایمان نہیں لایا اور حضرت خلیل اللہ کا یہ جواب دینا کہ ہاں ایمان تو ہے لیکن دِلی اطمینان چاہتا ہوں ، یہ آیت مجھے تو اور تمام آیتوں سے زیادہ امید دلانے والی معلوم ہوتی ہے ، مطلب یہ ہے کہ ایک ایماندار کے دِل میں اگر کوئی خطرہ وسوسہ شیطانی پیدا ہو تو اس پر پکڑ نہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی ملاقات ہوتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ قرآن میں سب سے زیادہ امید پیدا کرنے والی آیت کون سی ہے؟ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں آیت ( قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ) 39 ۔ الزمر:53 ) والی آیت جس میں ارشاد ہے کہ اے میرے گنہگار بندو میری رحمت سے ناامید نہ ہونا میں سب گناہوں کو بخش دیتا ہوں ، ابن عباس نے فرمایا میرے نزدیک تو اس امت کیلئے سب سے زیادہ ڈھارس بندھانے والی آیت حضرت ابراہیم کا یہ قول ، پھر رب دو عالم کا سوال اور آپ کا جواب ہے ( عبدالرزاق و ابن ابی حاتم وغیرہ )

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

260۔ 1 یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے ؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کرلے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آجائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقینا شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧٤] غیب پر انبیاء کا ایمان جس قدر پختہ ہوتا ہے دوسروں کا نہیں ہوسکتا مگر جس مشن کے لیے انہیں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں عین الیقین حاصل ہو، تاکہ وہ دوسرے لوگوں کو آنکھوں دیکھی حقیقت کی بنیاد پر ایمان بالغیب کی پرزور دعوت دے سکیں اسی لیے اکثر انبیاء کو ملکوت السموت والارض کی سیر بھی کرا دی جاتی ہے اور کسی حد تک مافوق الفطری اسباب پر مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پچھلے واقعہ میں حضرت عزیر کو ایسے اسباب دکھلائے گئے۔ اب یہاں اسی نوعیت کا سوال حضرت ابراہیم اپنے پروردگار کے حضور پیش فرما رہے ہیں۔ اور اپنا دلی اطمینان چاہتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کے دوران ملکوت السموات والارض کی سیر کرائی گئی تھی۔ نیز ایک دفعہ خواب میں اور ایک دفعہ نماز کسوف پڑھاتے وقت آپ کو جنت اور دوزخ دکھلائے گئے تھے۔ [٣٧٥] اس آیت کی جزئیات میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ چاروں پرندے ایک ہی جنس کے تھے۔ یا الگ الگ جنسوں کے، جزء اً سے مراد ان کو ذبح کر کے اور قیمہ بنا کر چاروں پرندوں کے گوشت کو ملا دینا ہے یا فقط ٹکڑے کردینا ہی کافی ہے یا ملا دینا بھی ضروری ہے۔ یہ پہاڑ بھی آیا چار ہی تھے جن پر ایک ایک حصہ رکھا گیا یا کم و بیش تھے جن پر بانٹ کر ہر حصہ رکھا گیا۔ کیا ان پرندوں کے سر حضرت ابراہیم نے ان حصوں میں ہی ملا دیئے تھے یا اپنے ہی پاس رکھے تھے۔ یہ سب تفصیلات مقصد کے لحاظ سے بےمعنی ہیں۔ مقصد تو صرف یہ تھا کہ موت کے بعد مردہ جسم کی کوئی بھی پیچیدہ سے پیچیدہ صورت بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ ہر طرح کے مردہ کو زندہ کر کے دکھلا دے۔ یہ واقعہ بھی چونکہ خرق عادات اور معجزہ ہے۔ لہذا عقل پرستوں اور منکرین معجزات کو اس کی بھی مضحکہ خیز قسم کی تاویل کرنا پڑی۔ چناچہ پرویز صاحب اس آیت کا ترجمہ یا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں :۔ & حضرت ابراہیم نے اللہ سے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی مردہ قوم بھی از سر نو زندہ ہوجائے اور اگر یہ ممکن ہے تو مجھے یہ بتلا دیجئے کہ اس کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے (یہ سب کچھ (کَیْفَ تُحْیِی الْمَوْتیٰ ) کا ترجمہ یا مفہوم ہے آپ نے موتیٰ کا ترجمہ مردہ قوم ارنی کا ترجمہ مجھے بتلاؤ اور کیف تحی کا ترجمہ مردہ قوم کے از سر نو زندہ ہونے کا طریق کار کیا ہے (اللہ نے فرمایا پہلے یہ تو بتلاؤ کہ تمہارا اس پر ایمان ہے کہ مردہ قوم کو حیات نو مل سکتی ہے ؟ ابراہیم نے کہا : اس پر تو میرا ایمان ہے لیکن میں اس کا اطمینان چاہتا ہوں۔ اللہ نے کہا تم چار پرندے لو۔ شروع میں وہ تم سے دور بھاگیں گے۔ انہیں اس طرح آہستہ آہستہ سدھاؤ کہ وہ تم سے مانوس ہوجائیں۔ آخرالامر ان کی یہ حالت ہوجائے گی کہ اگر تم انہیں الگ الگ مختلف پہاڑیوں پر چھوڑ دو اور انہیں آواز دو تو وہ اڑتے ہوئے تمہاری طرف آجائیں گے۔ بس یہی طریقہ ہے حق سے نامانوس لوگوں میں زندگی پیدا کرنے کا۔ تم انہیں اپنے قریب لاؤ اور نظام خداوندی سے روشناس کراؤ (یہ (واعلم) کا ترجمہ ہے) یہ نظام اپنے اندر اتنی قوت اور حکمت رکھتا ہے کہ اسے چھوڑ کر یہ کہیں نہ جاسکیں گے۔ & یہ (اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ٢٢٠۔ ) 2 ۔ البقرة :220) کا ترجمہ ہے۔ (مفہوم القرآن ص ١٠٣) اب دیکھئے کہ :۔ ١۔ حضرت ابراہیم تو اللہ سے مردوں کو زندہ کرنے کی بات پوچھ رہے ہیں۔ لیکن پرویز صاحب نے & مردہ قوموں & کی دوبارہ زندگی کے اسرار ورموز بیان کرنا شروع کردیئے ہیں۔ ٢۔ مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کے لیے آپ نے جو ہدایات حضرت ابراہیم سے منسوب فرمائی ہیں ان کی حضرت ابراہیم سے کوئی تخصیص نہیں۔ یہ تو تبلیغ کا عام طریقہ ہے جسے تمام انبیاء اپناتے رہے ہیں۔ مردوں کو زندہ کرنے اور بالخصوص حضرت ابراہیم کے دلی اطمینان کی اس میں کیا بات ہے ؟ ٣۔ حق سے مانوس شدہ لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کا یہ طریقہ بھی کیسا شاندار ہے کہ پہلے نبی ایسے لوگوں کو الگ الگ پہاڑیوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں، اس سے پہلے نہ بلائیں بہرحال وہ نبی کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ کیا مردہ قوموں کی دوبارہ زندگی کا یہی طریقہ ہے ؟ ٤۔ اِعْلَمْ کا ترجمہ یا مفہوم تم انہیں نظام خداوندی سے روشناس کراؤ۔ پرویز صاحب جیسے مفسر قرآن کا ہی حصہ ہوسکتا ہے۔ ٥۔ اس آیت میں لفظ جزء اً کا معنی حصہ یا ٹکڑا ہے اور پرندوں کا حصہ یا ٹکڑا اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ انہیں ذبح کردیا جائے یا کاٹ دیا جائے جس سے ان کی زندگی ختم ہوجائے اور یہی مَوْتٰی کا مفہوم ہے۔ لیکن پرویز صاحب نے اس کا مفہوم مردہ قوموں کو مانوس کرنا پھر انہیں الگ الگ کردینا بتلایا۔ اور اللہ کے عزیز حکیم ہونے کو نظام خداوندی کے قوت اور حکمت والا ہونے سے تعبیر کر کے اس واقعہ کے معجزہ ہونے سے بہرحال گلوخلاصی کرا ہی لی۔ اور یہ ثابت کردیا اللہ مردوں کو زندہ نہیں کیا کرتا ہے بلکہ مردہ قوموں کو زندہ کرتا ہے۔ وہ اپنے پیغمبروں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو مانوس کریں۔ پھر پہاڑوں پر چھوڑ آیا کریں۔ پھر انہیں بلائیں ورنہ یہ مردہ قومیں کبھی زندہ نہ ہو سکیں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور احکام ان کے پاس آتے رہتے تھے، ان کو مردوں کے جی اٹھنے میں کوئی شک نہ تھا مگر انھوں نے آنکھوں سے دیکھ لینا چاہا، انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (ابن کثیر ) فَصُرْھُنَّ : یہ ” صَارَ یَصُوْرُ “ یا ” یَصِیْرُ “ (اجوف واوی یا یائی) سے ہے۔ اس لفظ کے معنی عموماً ” اَمِلْھُنَّ “ کیے گئے ہیں، یعنی ” ان کو ہلالے۔ “ شاہ عبد القادر (رض) اپنے فائدے میں لکھتے ہیں : ” ابراہیم (علیہ السلام) کو ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ وہ زندہ ہونے کے بعد خوب پہچانے جاسکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کرکے پہاڑ پر رکھے گئے ہیں اور کوئی شبہ نہ رہے۔ اس صورت میں ” ثُمَّ اجْعَلْ “ سے پہلے ” ثُمَّ قَطِّعْھُنَّ “ محذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا کہ بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کر رہا ہے، اس لیے اسے حذف کردیا گیا۔ (بیضاوی) صحابہ و تابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے ” فَصُرْھُنَّ “ کے معنی ” قَطِّعْھُنَّ “ بھی بتائے ہیں، یعنی ” ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ “ چناچہ ابن جریر اور طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کیے ہیں۔ اصل میں یہ لفظ ” صَارَ یَصُوْرُ “ یا ” یَصِیْرُ “ سے امر کا صیغہ ہے، جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قراءت کے اختلاف نے اور زیادہ اشتباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اُضداد ابی الطیب، مجاز ابی عبیدۃ) ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) فرماتے ہیں : ” اس جگہ سوال و جواب کے انداز اور سیاق کلام سے ” قطع “ کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریباً متفق نظر آتے ہیں۔ “ (واللہ اعلم) بندۂ عاجز نے ترجمہ ” اَمِلْہُنَّ “ کیا ہے، یعنی ان کو اپنی طرف ہلا لے، مانوس کرلے۔ اس کی وجہ ایک تو استاذ مرحوم کا فائدے کے شروع میں فرمانا ہے کہ عموماً اس کا معنی یہی کیا جاتا ہے، چناچہ شاہ ولی اللہ اور ان کے دونوں فرزندان ارجمند اور بہت سے علماء نے یہی ترجمہ کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ ” فَصُرْھُنَّ “ کے بعد ” اِلَيْكَ “ (اپنی طرف) سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ البتہ ذبح کرکے ان کے ٹکڑے پہاڑوں پر رکھنے میں کوئی شک نہیں۔ ان چار جانوروں کی تعیین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے، بعض نے مرغ، مور، کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے، مگر حافظ ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں کہ جانوروں کی یہ تعیین بےفائدہ ہے، اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا۔ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ: آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی صفات پر مشتمل الفاظ ساری آیت کا خلاصہ ہوتے ہیں، یہ قرآنی اعجاز ہے۔ اس آیت میں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے مردوں کو زندہ کرنے پر اسے کامل غلبہ و قدرت حاصل ہے ” حَكِيْمٌ“ کمال حکمت والا ہے، جس کے مطابق اس نے زندوں کی موت کے لیے اور مردوں کو زندہ کرنے کے لیے ایک وقت مقرر رکھا ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ یہ تین قصے بیان فرمائے ہیں اس پر کہ اللہ خود ہدایت کرنے والا ہے جس کو چاہے، اگر شبہ پڑے تو ساتھ ہی جواب سمجھا دیتا ہے۔ اب آگے پھر جہاد کا ذکر ہے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This is the third story taken up in the above verse (260). The gist of the story is that Sayyidna Ibrahim (Abraham) (علیہ السلام) sought from Allah Almighty the favour of being shown as to how He would bring the dead back to life. Allah Almighty asked him why he had made such a request. Was it because he did not believe in His perfect power which controls everything? Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) explained his true state of mind. In fact, there was no question of his being suspi¬cious about the Resurrection, because the infinite power of Allah is manifest every moment to every sensible person both in the universe and in his own being. However, it is a part of human nature that un¬less one sees an unusual event happening before his own eyes, he keeps wondering how and in what manner it is going to happen. Such thoughts often disturb one&s peace of mind. It was in this context that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) made a request to Allah for witnessing the procedure of the revival of the dead. Accepting this request, Allah Almighty provided for him an exceptionally unusual scenario for personal sighting which, at the same time, was to show a resolution of all doubts and misgivings the disbelievers nursed. That scenario was activated when he was commanded to get hold of four birds and keep them as pets. When they grow so domesticated that they come to him at his call and he too starts knowing them well enough so that there remains no doubt about a stranger bird taking their place; then he should kill those four birds, make mince-meat of everything -- bones, feathers all included - dividing it in several portions. After that, using his own discretion, he should place one portion each on top of a different hill. Then he was to call them. Insh’ Allah انشاء اللہ ، they shall come back to life by the perfect power of Allah Almighty and come running to him. In Tafsir Ruh al-Ma` ani, on the authority of Ibn al-Mundhir, it has been narrated from Sayyidna Hasan (رض) that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) did what he was commanded to do. When he called them, then in no time, bone to bone, feather to feather, flesh to flesh, everything took its original form, the birds became alive and came running to Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) Allah Almighty said: &0 Ibrahim, this is how, on the Day of Resurrection, I shall assemble in no time all parts and bodies, and breathe life into them.& The Qur&an has used the expression يَأْتِينَكَ سَعْيًا :(and to you they shall come running). These particular words mean that the birds will come running, which tells us that they will not come flying because if they came flying across the sky, the doubt -- that they went out of sight and were replaced in the process -- would remain. Now if they came running on the ground, they will be fully in sight. Through this happening, Allah Almighty made Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) see a sample indicator of life after death, following resurrection, which helped resolve, through visual experience, all doubts expressed by polytheists and disbelievers. That there is rising after death and that there is life in the Hereafter give disbelievers their greatest difficulty in comprehension. They think man becomes dust after death, then somewhere this dust scatters away with the wind, somewhere it flows away with water, somewhere it reappears in the form of trees and planted fields, so much so that its particles spread out to the far sides of the world. Now to gather these scattered parcels and human parts and to infuse life into them are things short-sighted man finds difficult to understand because he measures everybody on the scale of his own power and status, and does not deliberate in the non-analogous Power above him! Although, should he peep a little into his own being, he would start seeing that, even today, his existence is a collection of parts and particles spread all over the world. The mother and father through whom man comes into being and the food that goes to make their blood and body are themselves nothing else but particles brought together from different corners of the world. Then comes the post-birth period, deliberation in which will show that the food causing growth, causing formation of blood and flesh is totally composed of different particles coming from all over the world. The milk that man drinks is part of some cow or water buffalo or goat and these composed parts came into those animals through the fodder that they have eaten. Who knows the chaff and grain in their fodder came from which country and who can tell how the winds roaming round the world have introduced particles from many an unnamed land into their nurture. So, one can only marvel in how many ways and from how many corners of the world the perfect power and the precise plan of Allah Almighty has accumulated in the body of one man the whole wide world&s produce, its grains and fruits and everything else man eats and uses as medicine, and which become part of his body. If man, negligent and short-sighted, would for a moment leave the world aside and get on with doing a little research on his own body, he would discover that his being itself is composed of so many parts some of which belong to the East, some to the West, some to the South and still some to the North. Right this day, the precise plan of Divine power has accumulated in his body all those particles scattered around the world, and after death, these particles will disperse again in the same manner. Now, why should it be at all difficult for His perfect power to assemble them a second time? Especially so, when He was the One who had assembled these scattered particles in his being. Some related questions and their answers The incident mentioned in the above verse raises certain questions: 1. To begin with, why did Ibrahim (علیہ السلام) raise this question at all while he was, in accepting faith in the perfect power of Allah Almighty, the foremost believer out of the whole world of his time? This has already been answered earlier when it was said that the question raised by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was not, in reality, based on any doubt. The purpose of the question was to reaffirm that Allah Almighty will raise the dead on the Day of Resurrection. Given His perfect power, this was not distant or surprising in any manner at all; it was rather absolutely certain. But raising the dead to life is beyond man&s power. He never saw a dead person rising to life. Then, the act of raising the dead to life could take different modes and forms. Now it is man&s nature that he keeps inquiring into modes and forms of that which he does not know by visual experience. In doing so, his thoughts wander in different directions as a result of which he bears by the pain of mental distraction. The state that helps remove this mental distraction and is replaced by a heart at rest is called sukun or peace. This is what Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) sought through his request. Incidentally, the difference between ایمان ‘Iman (faith) and Itmi&nan (peace) also comes out from this discussion. ایمان ‘Iman is the name of that voluntary belief or certainty, which man receives about something not seen or known, by trusting the Rasul (messenger of Allah) while Itmi&nan اطمنان refers to peace of the heart. There are times when one does perfectly believe in something not seen, but there is no peace of heart because its modes and forms are not known. This peace can come only by visual experience. Sayyidna Ibrahim Khalilullah (علیہ السلام) was also a perfect believer in life after death -- his question was simply concerned with the modality of man&s being raised to life. 2. When Sayyidna Ibrahim Khalilullah (علیہ السلام) had simply asked as to how the dead will be raised and had no doubt in the actual raising of the dead, the question is: How can the Divine interrogation: أَوَلَمْ تُؤْمِن it that you do not believe?& be explained? It would seem that there was no occasion for it. The answer is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had meant to say that there is no doubt in the actual happening, but the question can be taken in two senses, the obvious one relates to this very position, that is, he wished to inquire how the dead will be raised. But the words of the question may also point out to a second sense which is prompted by doubt in or denial of the real power. For instance, you see a heavy package and you are sure that such and such a person cannot lift it and then, to test his capacity, you challengingly tell him -- let&s see how you lift it. Since anybody could have taken Sayyidna Ibrahim&s (علیہ السلام) question in this wrong sense, therefore, Allah Almighty, in order to free Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) from this possibility, addressed him with أَوَلَمْ تُؤْمِن so that he could say ] (bala بلٰی : yes, why not) in reply, and thus get past the ambush laid out by liars and accusers. 3. At least, Sayyidna Ibrahim&s question settles this much that he was not at peace concerning the problem of life after death, although it has been reported from Sayyidna ` Ali (رض) that he said: If curtain is raised from that which is unseen, it will add nothing to my certainty and peace since I enjoy perfect peace through my very faith in the unseen&. Now, when some of his followers enjoy such an elevated state of peace how can it be that the very &friend of Allah& will remain without it? In this connection, let us be clear that Itmi&nan اطمنان or peace of heart has its own gradations. There is an Itmi&nan اطمنان that the men of Allah (awlia& Allah اولیاء اللہ ) and the True (siddiqin صِدِقین) have. Then there is an exalted grade of Itmi&nan اطمنان which is given to the general line of prophets (علیہم السلام) . And there is a grade even above it which is bestowed upon the special ones in the form of visual experience. Surely, Sayyidna Ibrahim Khalilullah (علیہ السلام) had the degree of peace which Sayyidna ` Ali (رض) had, even a higher degree of Itmi&nan اطمنان which is special to the station of prophethood. In this degree of Itmi&nan اطمنان ، Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was superior to all his followers. Now what he is respectfully asking for is that highest degree of Itmi&nan اطمنان which is bestowed upon the very special prophets -- as it was with our Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) who was granted special Itmi&nan اطمنان by means of a visual experience of Paradise and Hell. In short, using this question as an excuse to say that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) did not have peace of heart is not correct. Avoiding that, we can simply say that the absolutely perfect peace of heart which comes in the wake of visual experience was not there and that was why he had made this request. Towards the end of the verse it was said أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ, that is, Allah Almighty is All-Powerful and All-Wise. Through ` Aziz عَزِيز ٌ, the perfect power of Allah was pointed to, and through &Hakim حَكِيمٌ & (the All-Wise), it was indicated that it is in Allah&s wisdom that visual experience of life after death is not granted to everyone, otherwise it is not at all difficult for Allah to make every man see it for himself. But, in that case, the superior quality of having faith without seeing (الایمان بالغیب ‘Iman bi l&ghayb) will not be there.

خلاصہ تفسیر : اور اس وقت (کے واقعہ) کو یاد کرو جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے (حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھ کو (یہ) دکھلا دیجئے کہ آپ مردوں کو (قیامت میں مثلا) کس کیفیت سے زندہ کریں گے (یعنی زندہ کرنے کا یقین ہے لیکن زندہ کرنے کی مختلف صورتیں اور کیفیتیں ہوسکتی ہیں وہ معلوم نہیں اس لئے وہ معلوم کرنے کو دل چاہتا ہے اس سوال سے کسی کم سمجھ آدمی کو اس کا شبہ ہوسکتا تھا کہ معاذ اللہ ابراہیم (علیہ السلام) کو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان و یقین نہیں اس لئے حق تعالیٰ نے خود یہ سوال قائم کرکے بات کھول دی۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) سے اس سوال کے جواب میں اول) ارشاد فرمایا کہ کیا تم (اس پر) یقین نہیں لاتے انہوں نے (جواب میں) عرض کیا کہ یقین کیوں نہ لاتا لیکن اس غرض سے یہ درخواست کرتا ہوں تاکہ میرے قلب کو (معین صورت زندہ کرنے کی مشاہدہ کرنے سے) سکون ہوجاوے (ذہن دوسرے احتمالات سے چکر میں نہ پڑے) ارشاد ہوا کہ اچھا تو تم چار پرندے لو پھر ان کو (پال کر) اپنے لئے ہلالو، (تاکہ ان کی خوب شناخت ہوجاوے) پھر سب کو ذبح کرکے اور ہڈیوں پروں سمیت ان کا قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کرو اور کئی پہاڑ اپنی مرضی سے انتخاب کرکے) ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو (اور) پھر ان سب کو بلاؤ (دیکھو) تمہارے پاس زندہ ہوکر) دوڑے دوڑے چلے آویں گے اور خوب یقین رکھو اس بات کا کہ حق تعالیٰ زبردست (قدرت والے) ہیں (سب کچھ کرسکتے ہیں پھر بھی بعض باتیں نہیں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) حکمت والے (بھی) ہیں (ہر کام حکمت و مصلحت کے مطابق کرتے ہیں) معارف و مسائل : حضرت خلیل اللہ کی درخواست حیات بعد الموت کا مشاہدہ اور شبہات کا ازالہ : یہ تیسرا قصہ ہے جو آیت مذکورہ میں بیان فرمایا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ سے یہ درخواست کی کہ مجھے اس کا مشاہدہ کرا دیجئے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے ؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس درخواست کی کیا وجہ ہے ؟ کیا آپ کو ہماری قدرت کاملہ پر یقین نہیں کہ وہ ہر چیز پر حاوی ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا واقعی حال عرض کیا کہ یقین تو کیسے نہ ہوتا کیونکہ آپ کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہر لحظہ ہر آن مشاہدہ میں آتے رہتے ہیں اور غور وفکر کرنے والے کے لئے جس کام کا مشاہدہ نہ ہو خواہ وہ کتنا ہی یقینی ہو اس میں اس کے خیالات منتشر رہتے ہیں کہ یہ کیسے اور کس طرح ہوگا ؟ یہ ذہنی انتشار سکون قلب اور اطمینان میں خلل انداز ہوتا ہے اس لئے یہ مشاہدہ کی درخواست کی گئی کہ احیاء موتی کی مختلف صورتوں اور کیفیتوں میں ذہنی انتشار واقع نہ ہو کر قلب کو سکون و اطمینان حاصل ہوجائے۔ حق تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرما کر ان کے مشاہدہ کی بھی ایک ایسی عجیب صورت تجویز فرمائی جس میں منکرین کے تمام شبہات وخدشات کے ازالہ کا بھی مشاہدہ ہوجائے وہ صورت یہ تھی کہ آپ کو حکم دیا گیا کہ چار پرندے جانور اپنے پاس جمع کرلیں پھر ان کو پاس رکھ کر ہلالیں کہ وہ ایسے ہل جائیں کہ آپ کے بلانے سے آجایا کریں اور ان کی پوری طرح شناخت بھی ہوجائے یہ شبہ نہ رہے کہ شاید کوئی دوسرا پرندہ آگیا ہو پھر ان چاروں کو ذبح کرکے اور ہڈیوں اور پروں سمیت ان کا خوب قیمہ سا کرکے اس کے کئی حصے کردیں اور پھر اپنی تجویز سے مختلف پہاڑوں پر اس قیمہ کا ایک ایک حصہ رکھ دیں پھر ان کو بلائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ سے زندہ ہو کر دوڑے دوڑے آپ کے پاس آجائیں گے۔ تفسیر روح المعانی میں بسند ابن المنذر حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا پھر ان کو پکارا تو فوراً ہڈی سے ہڈی پر سے پر خون سے خون گوشت سے گوشت مل ملا کر سب اپنی اپنی اصلی ہیئت میں زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آگئے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم قیامت کے روز اسی طرح سب اجزاء واجساد کو جمع کرکے ایک دم سے ان میں جان ڈالدوں گا۔ قرآن کے الفاظ میں يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا آیا ہے کہ یہ پرندے دوڑتے ہوئے آئیں گے، جس سے معلوم ہوا کہ اڑ کر نہیں آئیں گے کیونکہ آسمان میں اڑ کر آنے میں نظروں سے اوجھل ہو کر بدل جانے کا شبہ ہوسکتا ہے زمین پر چل کر آنے میں یہ بالکل سامنے رہیں گے، اس واقعہ میں حق تعالیٰ نے قیامت کے بعد حیات بعد الموت کا ایسا نمونہ حضرت خلیل اللہ کو دکھلا دیا جس نے مشرکین اور منکرین کے سارے شبہات کا ازالہ مشاہدہ سے کرادیا۔ حیات بعد الموت اور عالم آخرت کی زندگی پر سب سے بڑا اشکال منکرین کو یہی ہوتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی ہوجاتا ہے پھر یہ مٹی کہیں ہوا کے ساتھ اڑ جاتی ہے کہیں پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے کہیں درختوں اور کھیتوں کی شکل میں برآمد ہوتی ہے، پھر کہیں ذرہ ذرہ دنیا کے اطراف بعیدہ میں پھیل جاتا ہے ان منتشر ذروں اور اجزاء انسانی کو جمع کردینا اور پھر ان میں روح ڈال دینا سطحی نظر والے انسان کی اس لئے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سب کو اپنی قدرت و اپنی حیثیت پر قیاس کرتا ہے وہ اپنے سے مافوق اور ناقابل قیاس قدرت میں غور نہیں کرتا، حالانکہ اگر وہ ذرا سا اپنے ہی وجود میں غور کرلے تو اسے نظر آئے گا کہ آج بھی اس کا وجود ساری دنیا میں بکھرے ہوئے اجزاء وذرات کا مجموعہ ہے انسان کی آفرینش جن ماں اور باپ کے ذریعے ہوتی ہے اور جن غذاؤں سے ان کا خون اور جسم بنتا ہے وہ خود جہان کے مختلف گوشوں سے سمٹے ہوئے ذرات ہوتے ہیں پھر پیدائش کے بعد انسان جس غذا کے ذریعے نشوونما پاتا ہے جس سے اس کا خون اور گوشت پوست بنتا ہے اس میں غور کرے تو اس کی غذاؤں میں ایک ایک چیز ایسی ہے جو تمام دنیا کے مختلف ذرات سے بنی ہوئی ہے دودھ پیتا ہے تو وہ کسی گائے، بھینس یا بکری کے اجزاء ہیں اور ان جانوروں میں یہ اجزاء اس گھاس دانے سے پیدا ہوئے جو انہوں نے کھائے ہیں یہ گھاس دانے معلوم نہیں کس کس خطہ زمین میں سے آئے ہیں اور ساری دنیا میں پھرنے والی ہواؤں نے کہاں کہاں کے ذرات کو ان کی تربیت میں شامل کردیا ہے اسی طرح دنیا کا دانہ دانہ اور پھل اور ترکاریاں اور انسان کی تمام غذائیں اور دوائیں جو اس کے بدن کا جزو بنتی ہیں وہ کس کس گوشہ عالم سے کس کس طرح حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نظام محکم نے ایک انسان کے بدن میں جمع فرما دیئے اگر غافل اور کوتاہ نظر انسان دنیا کو چھوڑ کر اپنے ہی تن بدن کی تحقیق (ریسرچ) کرنے بیٹھ جائے تو اس کو یہ نظر آئے گا کہ اس کا وجود خود ایسے بیشمار اجزاء سے مرکب ہے جو کوئی مشرق کا ہے کوئی مغرب کا کوئی جنوبی دنیا کا کوئی شمالی حصہ کا، آج بھی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اجزاء قدرت کے نظام محکم نے اس کے بدن میں جمع فرمادئیے ہیں اور مرنے کے بعد یہ اجزاء پھر اسی طرح منتشر ہوجائیں گے تو اب دوسری مرتبہ پھر ان کا جمع فرمادینا اس کی قدرت کاملہ کے لئے کیا دشوار ہے جس نے پہلی مرتبہ اس کے وجود میں ان منتشر ذرات کو جمع فرما دیا تھا۔ واقعہ مذکورہ پر چند سوالات مع جوابات : آیت متذکرہ بالا کے مضمون میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اول : یہ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ سوال ہی کیوں پیدا ہوا جبکہ وہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے میں اس وقت کی ساری دنیا سے زیادہ یقین پر تھے ؟ اس کا جواب اس تقریر کے ضمن میں آچکا ہے جو اوپر کی گئی ہے کہ درحقیقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال کسی شک وشبہ کی بناء پر تھا ہی نہیں بلکہ سوال کا منشاء صرف یہ تھا کہ حق تعالیٰ قیامت میں مردوں کو زندہ کریں گے ان کی قدرت کاملہ سے یہ کسی طرح بھی مستبعد یا حیرت انگیز نہیں بلکہ یقینی ہے لیکن مردہ کو زندہ کرنے کا کام انسان کی طاقت سے باہر ہے اس نے کبھی کسی مردہ کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا نہیں اور مردہ کو زندہ کرنے کی کیفیات اور صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں انسان کی فطرت ہے کہ جو چیز اس کے مشاہدہ میں نہ ہو اس کی کیفیات کی کھوج لگانے کی فکر میں رہا کرتا ہے اس میں اس کا خیال مختلف راہوں پر چلتا ہے، جس میں ذہنی انتشار کی تکلیف بھی برداشت کرتا ہے اس ذہنی انتشار کو رفع کرکے قلب کو سکون مل جانے ہی کا نام اطمینان ہے اسی کے لئے حضرت خلیل اللہ نے یہ درخواست پیش فرمائی تھی۔ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ایمان اور اطمینان میں کیا فرق ہے ایمان اس اختیاری یقین کا نام ہے جو انسان کو رسول کے اعتماد پر کسی غیب کی بات کے متعلق حاصل ہوجائے اور اطمینان سکون قلب کا نام ہے بعض اوقات نظروں سے غائب کسی چیز پر یقین کامل تو ہوتا ہے مگر قلب کو سکون اس لئے نہیں ہوتا کہ اس کی کیفیات کا علم نہیں ہوتا یہ سکون صرف مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت خلیل اللہ کو بھی حیات بعد الموت پر تو کامل ایمان و یقین تھا سوال صرف کیفیت احیاء کے متعلق تھا۔ دوسرا سوال : یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال زندہ کرنے کی کیفیت سے متعلق تھا اصل حیات بعد الموت میں کوئی شک وشبہ نہ تھا تو پھر ارشاد ربانی اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ یعنی کیا آپ کو یقین نہیں فرمانے کا کوئی موقع نہیں رہتا ؟ جواب یہ ہے کہ جو سوال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش فرمایا کہ اصل واقعہ میں کوئی شک نہیں لیکن اس سوال کا ایک مفہوم تو یہی ہے کہ زندہ کرنے کی کیفیت دریافت کرنا منظور ہے۔ انہی الفاظ سوال کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہوسکتا ہے جو اصل قدرت میں شبہ یا انکار سے پیدا ہوا کرتا ہے جیسے آپ کسی بوجھ کے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ فلاں آدمی اس کو نہیں اٹھا سکتا اور آپ اس کا عاجز ہونا ظاہر کرنے کے لئے کہیں کہ دیکھیں تم کیسے اس بوجھ کو اٹھا تے ہو چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا یہ غلط مفہوم بھی کوئی لے سکتا تھا اس لئے حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس غلط بات سے بری ثابت کرنے کے لئے ہی یہ ارشاد فرمایا اَوَلَمْ تُؤ ْمِنْ تاکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے جواب میں بلیٰ فرما کر افتراء پردازوں کی زد سے نکل جائیں۔ تیسرا سوال : یہ ہے کہ اس سوال ابراہیمی سے کم ازکم اتنا تو معلوم ہوا کہ ان کو حیات بعد الموت پر اطمینان حاصل نہ تھا حالانکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر عالم غیب سے پردہ اٹھا دیا جائے تو میرے یقین و اطمینان میں کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ مجھے ایمان بالغیب ہی سے اطمینان کامل حاصل ہے تو جب بعض امتیوں کو درجہ اطمینان حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ کے خلیل کو اطمینان کا درجہ حاصل نہ ہو ؟ اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اطمینان کے بھی بہت سے درجات ہیں ایک وہ اطمینان ہے جو اولیاء اللہ اور صدیقین کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو عام انبیاء کو حاصل ہوتا ہے اور ایک اس سے بھی مافوق ہے جو خاص خاص کو بصورت مشاہدہ عطا فرمایا جاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو جو درجہ اطمینان کا حاصل تھا وہ بلاشبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل تھا بلکہ اس سے اعلیٰ درجہ اطمینان کا حاصل جو مقام نبوت کے ساتھ خاص ہے اس اطمینان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور سب امتیوں سے فائق تھے، پھر جس کو وہ طلب فرما رہے ہیں وہ سب سے اعلیٰ مقام اطمینان ہے جو خاص خاص انبیاء (علیہم السلام) کو عطا فرمایا جاتا ہے جیسے سرور کائنات سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت و دوزخ کا مشاہدہ کرا کر اطمینان خاص بخشا گیا۔ الغرض اس سوال کی وجہ سے یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان حاصل نہ تھا یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اطمینان کامل جو مشاہدہ سے حاصل ہوا کرتا ہے وہ نہ تھا اسی کے لئے یہ درخواست فرمائی تھی۔ آیت کے آخر میں اَنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ یعنی اللہ تعالیٰ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں، زبردست ہونے میں قدرت کاملہ کا بیان فرمایا اور حکمت والا کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردیا کہ بمقتضائے حکمت ہر ایک کو حیات بعد الموت کا مشاہدہ نہیں کرایا جاتا ورنہ حق جل شانہ کے لئے کوئی دشوار نہیں کہ ہر انسان کو مشاہدہ کرادیں مگر پھر ایمان بالغیب کی جو فضیلت ہے وہ قائم نہیں رہ سکتی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِيْ كَيْفَ تُـحْيِ الْمَوْتٰى۝ ٠ ۭ قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ۝ ٠ ۭ قَالَ بَلٰي وَلٰكِنْ لِّيَطْمَىِٕنَّ قَلْبِىْ۝ ٠ ۭ قَالَ فَخُـذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُہُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۝ ٠ ۭ وَاعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ٢٦٠ ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ فَصُرْهُنَ وقوله تعالی: فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ جزء جُزْءُ الشیء : ما يتقوّم به جملته، كأجزاء السفینة، وأجزاء البیت، وأجزاء الجملة من الحساب قال تعالی: ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة/ 260] ، وقال عزّ وجل : لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ، أي : نصیب، وذلک جزء من الشیء، وقال تعالی: وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف/ 15] ، وقیل : ذلک عبارة عن الإناث، من قولهم : أَجْزَأَتِ المرأة : أتت بأنثی «1» . وجَزَأَ الإبل : مَجْزَءاً وجَزْءاً : اکتفی بالبقل عن شرب الماء . وقیل : اللّحم السمین أجزأ من المهزول «2» ، وجُزْأَة السکين : العود الذي فيه السیلان، تصوّرا أنه جزء منه . ( ج ز ء) جزء الشئی چیز کا وہ ٹکڑا جس سے وہ چیز مل کر بنے ۔ جیسے اجزاء السفینۃ اجزاء البیت اور حساب میں اجزا الجملۃ ( یعنی کل مجموعہ کے اجزاء ) وغیرہ محاورات بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثُمَّ اجْعَلْ عَلى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءاً [ البقرة/ 260] پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہرا یک پہاڑ پر رکھو اور ۔ لِكُلِّ بابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ [ الحجر/ 44] ہر ایک دروازے کے لئے ان میں ایک حصہ تقسیم کردیا گیا ہے ۔ وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبادِهِ جُزْءاً [ الزخرف/ 15] اور انہوں نے اس کے بندوں میں سے اس کے لئے اولاد مقرر کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جزاء ا سے مراد انا ث ہیں میں انہوں نے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیا اور یہ اجزات المرءۃ کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی مادیتہ اولاد کو جنم دینا کے ہیں ۔ جزء الابل مجزء وجزا اونٹ ترگھاس کھانے کی وجہ سے پانی سے بےنیاز ہوگئے محاورہ ہے :۔ الحم السمین اجزء من المھزول موٹا گوشت وبلے گوشت سے زیادہ کفایت کرنے والا ہوتا ہے ۔ جزءۃ السلین چھری کا وستہ کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٠) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی عرض کیا تھا کہ پروردگار آپ کس طرح مرے ہوئے لوگوں کو زندہ کریں گے ارشاد باری ہوا کیا تم اس پر یقین نہیں لائے، عرض کیا میں کیوں نہ لاتا لیکن اس لیے گزارش ہے تاکہ (مشاہدہ کرکے) میرے دل کو اطمینان ہوجائے اور بطور مشاہدہ کے یہ چیز بھی واضح ہوجائے کہ میں آپ کا دوست مستجاب الدعوت ہوں، ارشاد ہوا کہ مختلف قسم کے چار پرندے لے لو یعنی مور، مرغا، کوا اور بطخ اور پھر ان سب کا اچھی طرح باریک قیمہ کرکے اور ان کو اچھی طرح ملا کر چار پہاڑوں پر ان میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو پھر ان کا نام لے کر بلاؤ وہ سب زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا گیا کہ اس بات کا خوب یقین رکھو کہ جو شخص مردوں کے زندہ کرنے پر ایمان نہ لائے اللہ تعالیٰ اس پر عذاب نازل کرنے میں زبردست ہیں اور مردوں کی ہڈیاں جمع کرنے اور پھر ان کے زندہ کرنے میں جیسا کہ ان پرندوں کو زندہ کیا ہے حکمت والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٠ (وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط) (قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط) (قَالَ بَلٰی (وَلٰکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ط) یہ تمام انبیاء کرام ( علیہ السلام) کا معاملہ ہے کہ انہیں عین الیقین اور حق الیقین کے درجے کا ایمان عطا کیا جاتا ہے۔ انہیں چونکہ ایمان اور یقین کی ایک ایسی بھٹیّ (furnace) بنانا ہوتا ہے کہ جس سے ایمان اور یقین دوسروں میں سرایت کرے ‘ تو ان کے ایمان و یقین کے لیے ان کو ایسے مشاہدات کروا دیے جاتے ہیں کہ ایمان ان کے لیے صرف ایمان بالغیب نہیں رہتا بلکہ وہ ایمان بالشہادۃ بھی ہوجاتا ہے۔ سورة الانعام میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کے نظام حکومت کا مشاہدہ کرایا تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ٌمحمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب معراج میں آسمانوں پر لے جایا گیا کہ وہ ہر شے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان مشاہدات سے انبیاء کو ان ایمانی حقائق پر یقین کامل ہوجاتا ہے جن کی وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ گویا وہ خود ایمان اور یقین کی ایک بھٹیّ بن جاتے ہیں۔ (قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ ) انہیں اپنے ساتھ اس طرح مانوس کرلو کہ وہ تمہاری آواز سن کر تمہارے پاس آجایاکریں۔ (ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءً ‘ ا) (ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط) ۔ اس کی تفصیل میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چاروں پرندوں کے سر ‘ دھڑ ‘ ٹانگیں اور ان کے َ پر علیحدہ علیحدہ کیے۔ پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر ‘ دوسرے پہاڑ پر چاروں کے دھڑ ‘ تیسرے پہاڑ پر چاروں کی ٹانگیں اور چوتھے پہاڑ پر چاروں کے َ پر رکھ دیے۔ اس طرح انہیں مختلف اجزاء میں تقسیم کردیا۔ پھر انہیں پکارا تو ان کے اجزاء مجتمع ہو کر چاروں پرندے اپنی سابقہ ہیئت میں زندہ ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس دوڑتے ہوئے آگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

296. That is, the rest and inner peace that one attains as a result of direct personal observation. 297. People have subjected this incident and the one above to very strange interpretations. If one bears in mind, however, God's dealings with the Prophets, one will not feel any need to strain one's energies in hammering out such artificially-contrived interpretations. The truth of the matter is that the kind of function that ordinary believers are required to perform requires of them no more than believing in certain truths without perceiving them through their senses. The function entrusted by God to the Prophets is such that they ought to have direct knowledge of the truths, the acceptance of which they are required to invite others to. Thanks to the nature of their mission, the Prophets had to tell the world that while others resorted to conjecture and fancy, they spoke from personal direct observation and experience; that while others could claim to possess only imagination, they possessed reliable knowledge; that while others were blind, they alone had the God-given capacity to perceive the Truth. It is for this reason that the angels come to the Prophets and they see them with their own eyes. It is for the same reason that the Prophets were allowed a glimpse of the system of governance of the heavens and the earth. It is for the same reason, again, that they were enabled to observe Heaven and Hell and witness scenes of resurrection. The Prophets are in possession of faith in the Unseen at the time they are invested with prophethood. After being designated to prophethood, they are further honoured by special favours and privileges, and initiated into what may be termed as 'faith in the seen' (for the 'Unseen' is changed for them to the 'seen') . This favour is a special prerogative of the Prophets. (For a further explanation see Suah 9, nn. 17, 18, 19 and 34.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :296 یعنی وہ اطمینان ، جو مشاہدہ عینی سے حاصل ہوتا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :297 اس واقعے اور اوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے ، اسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ، تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آسکتی ۔ عام اہل ایمان کو اس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے ، اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب ( بے دیکھے ماننا ) کافی ہے ۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دنیا کو دینی تھی ۔ ان کو دنیا سے پورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دوڑاتے ہو ، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہےہیں ۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے ، تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں ۔ اسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں ، ان کو آسمان و زمین کے نظام حکومت ( ملکوت ) کا مشاہدہ کرایا گیا ہے ، ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے ، اور بعث بعد الموت کا ان کے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے ۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوت پر مامور ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں ۔ نبی ہونے کےبعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت انہی کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳٤ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

176: اس سوال وجواب کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے یہ بات صاف کردی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ فرمائش خدانخواستہ کسی شک کی وجہ سے نہیں تھی، انہیں اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر پورا یقین تھا۔ لیکن آنکھوں سے دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف مزید اطمینان حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کے بعد انسان دوسروں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں، دلائل سے اس کا علم حاصل کرنے کے علاوہ آنکھوں سے دیکھ کر کہہ رہا ہوں۔ 177: یعنی اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ ہر وقت مردے کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کراسکتی ہے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو یہ مشاہدہ نہ کرایا جائے۔ اور بات دراصل یہ ہے کہ یہ دُنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے یہاں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے، اور انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ان حقائق پر آنکھوں سے دیکھے بغیر دلائل کی بنیاد پر ایمان لائے۔ البتہ انبیائے کرام کا معاملہ عام لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ جب غیب کے حقائق پر غیر متزلزل ایمان لا کر یہ ثابت کرچکے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان نہ کسی شک کی گنجائش رکھتا ہے اور نہ وہ آنکھ کے کسی مشاہدے پر موقوف ہے تو ان کے ایمان بالغیب کا امتحان اسی دُنیا میں پورا ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں حکمت خداوندی کے تحت بعض غیبی حقائق آنکھوں سے بھی دِکھا دئیے جاتے ہیں، تاکہ ان کے علم واطمینان کا معیار عام لوگوں سے زیادہ ہو، اور وہ ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ سکیں کہ وہ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں اس کی حقانیت انہوں نے آنکھوں سے بھی دیکھ رکھی ہے۔ بعض وہ لوگ جو خلافِ عادت باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، انہوں نے اس آیت میں بھی ایسی کھینچ تان کی ہے جس سے یہ نہ ماننا پڑے کہ وہ پرندے واقع مر کر زندہ ہوگئے تھے۔ لیکن قرآنِ کریم کا پورا سیاق اور جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کا اُسلوب ایسی تأویلات کی تردید کرتا ہے۔ جو شخص عربی زبان کے محاورات اور اَسالیب سے واقف ہو وہ ان آیات کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں نکالے گا جو ترجمے میں بیان کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود سے یہ کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ شوق ہوا کہ حشر سے پہلے ہی خدا کی اس قدرت کا تماشا دیکھا جاوے۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں کچھ شک نہیں تھا کہ ایک دن حشر ہونے والا ہے اور اس دن اللہ تعالیٰ سب اگلے پچھلے مردوں کو زندہ کرے گا کیونکہ حشر پر ایمان لانا سب انبیاء کا ایک اجماعی مسئلہ ہے اسی واسطے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم (علیہ السلام) سے پوچھا اَوَلَمْ تُؤْمِنْ تو انہوں نے لفظ بَلٰی سے جواب ادا کیا لیکن اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش حضرت ابراہیم نے فقط اس لئے کی تھی کہ مرنے کے بعد متفرق اجزا مردہ کے کیوں کر جمع ہوتے ہیں اور پر یشان اجزا کے جمع ہونے اور ان سے جسم کے تیار ہوجانے کے بعد اس جسم سے روح کا تعلق کیونکر ہوتا ہے اس سب کیفیت کو آنکھوں سے دیکھ کر حشر سے پہلے ہی اس کیفیت پر اطمینان حاصل کر لیویں کیونکہ معتبر خبر کے ذریعہ سے ایک کیفیت کو سن کر اس کا یقین کرنا اور چیز ہے اور اس کیفیت کو آنکھ سے دیکھ لینا اور چیز ہے اس لئے معائنہ احوالہ محشر کے بعد لوگوں سے یہ ارشاد ہوگا { فَکَشَفْنْا عَنْکَ عِظَائَ کَ فَبَصُرکَ لَایَوْم حَدِیْد } (٥٠۔ ٢٢) جس کا مطلب یہ ہے کہ معائنہ احوال محشر کے بعد وہ احوال لوگوں کی نظروں میں جچ جائیں گے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی وہ حدیث جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہ نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم شک کے زیادہ مستحق ہیں۔ ١۔ اس کے معنی بھی معتبر علماء نے بیان کئے ہیں کہ اتباع ملت ابراہیمی کا ہم کو کم ہے اور ہم کو اس مسئلہ میں کچھ شک نہیں ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے جو خواہش کی تھی وہ علم الیقین سے عین القین کے درجہ تک ترقی حاصل کرنے کے لئے کی تھی کسی شک کے لئے وہ خواہش نہیں کی کیونکہ انبیاء کی شان اس شک سے بری ہے مجاہد اور عکرمہ کے قول کے موافق وہ چار جانور یہ تھے ایک مور دوسرا مرغ تیسرا کوا چوتھا کبوتر اللہ کے حکم کے موافق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان جانوروں کو ذبح کر کے ان کے پر ودں اور اعضاء کو ملا دیا اور چار پہاڑوں پر اس کی ایک ایک ڈھیری رکھ دی۔ پھر ان کے سر ہاتھ میں لے کر ایک ایک کو پکارا جس کو پکارا ہر ایک ڈھیری میں سے ایک کے پر اور اعضاء خود بخود چھنٹے۔ اور ان چھنٹے ہوئے پروں اور اعضاء سے اس جانور کا دھڑ تیار ہوا اور فورا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس دوڑ کر آگیا ٢۔ حکم الٰہی کی یہ عظمت بھی غور کے قابل ہے کہ ایک جانور کا سر دوسرے جانور کے دھڑ پر لگانے کے لئے بطور امتحان کے جو حضرت ابراہیم علی السلام نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ تو وہ دھڑ پیچھے ہٹ گیا اور اصلی دھڑ پر اس سر لگانا چاہا تو وہ سر آگے آگیا۔ غرض اصلی دھڑوں پر وہ سر آخر کو لگ گئے اور خدا کے حکم سے ان میں جان پڑگئی اور جانور ذبح کرنے سے پہلے جیسے تھے ویسے ہی ہوگئے۔ جن کو دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے اس قول کی پوری تصدیق ہوئی کہ ” اللہ زبر دست ہے حکمت والا ہے یہ قصہ جسمانی حشر کی شہادت ممکن ہونے کی پوری دلیل ہے اور اسی شہادت کے ظاہر کرنے کے لئے آیت نازل فرمائی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:260) واذ قال ابراہیم میں اذ سے قبل عبارت مقدر ہے ای اذکر الوقت اذ یا واذکر الواقعۃ اذ۔ اور وہ وقت یاد کرو جب۔ یا وہ واقعہ یاد کرو جب۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی واؤ آیا ہے وہاں لفظ اذکر محذوف ہے۔ یعنی آپ ان سے ذکر کیجئے یا آپ ازخود یاد کیجئے اذ اسم ظرف ہے۔ قال فعل ابراہیم فاعل۔ رب ارنی کیف تحی الموتی۔ یہ جملہ مقولہ ہے اور کیف تحی الموتی جملہ مفعول ہے ارنی کا۔ ترجمہ ہوگا : اور (اے نبی) اس واقعہ کو یاد کرو جب حضرت ابراہیم نے کہا اے میرے رب ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا ؟ ارنی میں ار امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے۔ ن وقایہ اور ی ضمیر واحد متکلم کی۔ قال اولم نؤمن۔ قال۔ ای قال اللہ۔ ہمزہ استفہامیہ و حرف عطف۔ حرف عطف سے پہلے کلام مقدر ہے ای الم تعلم ولم تؤمن کیا تو نہیں جانتا۔ اور تجھے یقین نہیں آیا۔ قال بلی۔ ای قال ابراہیم بلی۔ ہاں کیوں نہیں۔ نیز ملاحظہ ہو (3:76) ۔ ولکن لیطمئن قلبی۔ لیطمئن کالام محذوف سے متعلق ہے تقدیر کلام یوں ہے ! سئلتک لیطمئن قلبی۔ میں نے اطمینان دل کے لئے تجھ سے سوال کیا ہے۔ اطمینان (افعیعال) مصدر ہے۔ خذ۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر اخذ (باب نصر) مصدر تولے۔ تو پکڑ۔ من الطیر صفت ہے اربعۃ کی جو مفعول ہے فعل خذ کا۔ صرھن الیک۔ صاریصور (باب نصر) وصار یصیر (باب ضرب) صیر و صور۔ مصدر سے۔ مائل کرنا۔ ہلانا۔ سدھانا (باب ضرب) سے بمعنی ٹکڑے کرنا بھی ہے۔ صار الی کذا۔ کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانے کے ہیں۔ صیر الباب۔ دروازہ کا شگاف یا جھروکا۔ اسے صیر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نقل و حرکت کا منتہیٰ ہوتا ہے اس لئے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل و حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : والیہ المصیر (5:18) یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے یا وللذین کفروا بربھم عذاب جھنم وبئس المصیر (27:6) اور جو لوگ اپنے رب کے منکر ہوئے ان کے لئے دوزخ کا عذاب ہے اور بری جگہ ہے وہ پہنچنے کی۔ صرھن۔ صر۔ فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ بمعنی پھر ان کو اپنی طرف مانوس کرلے (ضیاء القرآن) پھر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو۔ (تفسیر کبیر) پھر ان کو اپنی طرف آنے کے لئے سدھاؤ۔ (عبد اللہ یوسف علی) منھن۔ میں ھن ضمیر جمع مؤنث اربعۃ من الطیر کی طرف راجع ہے۔ جزئ۔ ایک حصہ۔ کچھ حصہ۔ اجزاء جمع ۔ اجعل کا مفعول اجعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر جعل (باب فتح) سے مصدر۔ تو رکھ۔ تو بنا دے۔ ادعھن۔ ادع فعل امر ، واحد مذکر حاضر۔ دعوۃ (باب نصر) سے مصدر۔ بمعنی بلانا۔ پکارنا۔ دعا کرنا۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ تو ان کو پکار۔ تو ان کو بلا۔ یاتینک سعیا۔ یاتین مضارع جمع مؤنث غائب اتیان (باب ضرب) مصدر ۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ آئیں تیری طرف یا تیرے پاس۔ سعیا مصدر ۔ موضع حال میں ہے۔ دوڑتے ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے اور حکم ان کے پاس آتے رہتے تھے ان کو مردوں کے جی آٹھنے میں کوئی شک نہ تھا لیکن آنکھ سے دیکھ لیا چاہنا انسانی عادت ہے کہ وہ علم کے بعد عینی مشاہدہ چاہتی ہے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے علم الیقین کے بعد عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ (وحیدی۔ ابن کثیر)3 فصرھن کے معنی عموما املھن کئے گئے ہیں یعنی ان کو ہلالے شاہ صاحب اپنے فائدے میں لکھتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہلانے کو اس لیے فرمایا گیا تاکہ زندہ ہونے کے بعد وہ خوب پہچانے جاسکیں کہ واقعی وہی ہیں جو ذبح کر کے پہاڑ پر رکھے گئے تھے اور کوئی اشتباہ نہ رہے اس صورت میں ثم اجعل سے پہلے قطعھن مخذوف ماننا پڑے گا اور کہا جائے گا بعد کا جملہ چونکہ اس پر دلالت کررہا ہے اس لیے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ (معالم صحابہ وتابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے صرھن کے معنی قطھن بھی بتائے ہیں یعنی ان کو پارہ پارہ کردے چناچہ ابن جیریر طبری نے اس معنی پر بہت سے شواہد پیش کئے ہیں اصل میں یہ لفظ صار یصور یصیر سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی قطع کرنا بھی آئے ہیں اور مائل کرنا بھی اور اس میں قرات کے اختلاف نے اور زیادہ استباہ اور وسعت پیدا کردی اور علمائے لغت نے اسے اضداد میں ذکر کیا ہے۔ (اضداد ابی الطیب مجا زابی عبیدہ) اس جگہ سوال و جواب کے انداز اور سیاق کلام سے قطع کے معنی راجح معلوم ہوتے ہیں اور اس پر سلف مفسرین بھی تقریبا متفق نظر آتے ہیں واللہ اعلم۔ ان چار جانوروں کی تعین میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے بعض نے مور۔ مرغ۔ کوا اور کبوتر بتائے ہیں اور بعض نے دوسرے نام ذکر کیے ہیں اور پھر چار پہاڑوں پر ان کو الگ الگ رکھنے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر ہر ایک کا نام لے کر پکارنے کی کیفیت بھی بعض تابعین سے منقول ہے مگر حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں جانوروں کی یہ تعین لاطائل اور بےفائدہ ہے اس کی کچھ اہمیت ہوتی تو قرآن خاموش نہ رہتا (ترجمان نواب) تاہم ان جانوروں کے ذبح اور زندہ ہونے کی اجمالی کیفیت پر علمائے سلف کا اجماع ہے۔ (کبیر) اس اجماعی تفسیر کے خلاف سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی معتزلی نے اپنی ذاتی رائے سے اس کانیا مطلب بیان کیا ہے جسے آجکل کے جدت پسند طبقہ نے عمدا اختیار کیا ہے یعنی یہ کہ فھر ھن سے صرف ان جانوروں کو ہلا لینا مراد ہے کاٹنا اور ان کے اجزا کو بکھیر نامراد نہیں ہے آلوسی زادہ ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یہ تفسیر اجماعی کے خلا اور ایک قسم کی بکواس ہے۔ ارباب کے نزدیک یہ تفسیر قابل التفا نہیں ہے۔ ظاہر آیت کے خلاف ہونے کے علاوہ ان آثار صحیحہ راجھہ کے بھی خلاف ہے جن سے آیت کے ظاہری معنی کی تائید ہوتی ہے لہذا حق یہ ہے کہ جماعت کی اتباع کی جائے (روح المعانی)4 یعنی اللہ تعالیٰ جمیع ممکنات پر غلبہ اور قدرت حاصلی ہے اور وہ ہر چیز کے انجام اور غایت کو خوب جانتا ہے ( رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 260 رب (میرے پروردگار (اصل میں ربی تھا یا گر گئی اور رب رہ گیا) ۔ ارنی (مجھے دکھا دیجئے (ار، دکھائے، ن وقایہ ، ی، مجھے) ۔ تحی (تو زندہ کرتا ہے) ۔ اولم تؤمن (کیا تجھے یقین نہیں ہے (ا، و، لم، تومن) ۔ لیطمئن (تا کہ اطمینان ہوجائے) ۔ خذ (پکڑ لے) ۔ الطیر (پرندہ) صرھن (ان کو مانوس کرلے (صر، امر، ھن، ضمیر) ۔ جبل (پہاڑ) جزء (حصے، ٹکڑے) ۔ ادع (پکار (صیغہ امر) ۔ سعی (دوڑ، دوڑتے ہوئے) ۔ تشریح : آیت نمبر 260 نبی سے زیادہ اللہ کی ذات وصفات اور قدرت کا کس کو یقین ہو سکتا ہے وہ تو پیکر ایمان و یقین ہوا کرتا ہے ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) نے محض کیفیت کے بارے میں پوچھا ہے کہ اے اللہ مجھے کامل یقین ہے مگر میں دیکھ کر عین الیقین حاصل کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کی قدرت کا مشاہدہ کرسکوں۔ فرمایا چار پرندے پاک کر اپنے آپ سے مانوس کرلو۔ یعنی ان کے کوئی نام وغیرہ رکھ لو اور پھر ان چاروں پرندوں کو ذبح کر کے ان کے جسم کے مختلف حصوں کو مختلف پہاڑوں پر رکھ دو ۔ نام لے کر آواز دو پھر مشاہدہ کرلینا کہ وہ کس طرح زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آجائیں گے۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور وہ پرندے زندہ ہو کر دوڑتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آگئے فرمایا بس اسی طرح جب ہم اپنے بندوں کے لئے صور پھونکیں گے تو تمام انسان بھی دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے حضور حاضر ہوجائیں گے۔ یہ واقعہ اور اس سے پہلے جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے اور مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے وہی زندگی دیتا ہے وہی موت اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5 یعنی زندہ کرنے کا تو یقین ہے مگر عقلا اس کی مختلف کیفیتیں ممکن ہیں ان میں سے معلوم نہیں کون سی کیفیت ہوگی۔ 1۔ اس واقعہ کو دکھلا کر اللہ نے کیفیت احیاء یوم قیامت کی بتلادی کہ اس طرح اول اجزاء جمع ہو کر اجسار تیار ہوں گے پھر ان میں روح پڑجائے گی

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مردہ کو زندہ کرنے کی ایک اور مثال۔ اللہ تعالیٰ نے سورة التّکاثر میں انسانی علم کے تین مدارج ذکر فرمائے ہیں۔ علم، علم الیقین اور عین الیقین۔ عین الیقین ایسا علم ہے جو تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو عین الیقین کے تناظر میں سمجھنا چاہیے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حیات بعد الممات کے بارے میں کبھی بھی تشکیک کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں دو ٹوک انداز میں الانعام ٥٧ میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے روز سے ہی رشد و ہدایت سے نوازا تھا۔ انبیاء کرام نبوت سے پہلے بھی کفر اور شرک کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو ابتداء ہی سے اپنی نگرانی میں رکھتے اور پالتے ہیں اور ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق اپنی قدرت کے نشانات دکھلایا کرتے ہیں تاکہ ان کے کلام اور خطاب میں انقلابی تاثیر پیدا ہوجائے اس انقلابی تاثیر کی بنا پر لوگ انبیاء کا انکار کرنے کے باوجوددل میں ان کی سچائی کے قائل ہوا کرتے تھے۔ یہاں عین الیقین کے درجے کو پانے کے لیے جناب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور سوال پیش کر رہے ہیں۔ رب حکیم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے الزام سے بچانے کے لیے ہی یہ سوال فرمایا کہ کیا ابراہیم (علیہ السلام) تم بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے ؟ ابراہیم (علیہ السلام) جواباً عرض کرتے ہیں کہ میرے رب کیوں نہیں ! میں تو اطمینان قلب کے لیے یہ درخواست کر رہا ہوں تاکہ قیامت کو اٹھنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میرے دل کا ایک ایک گوشہ اور ریشہ گواہی دے رہا ہو کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اللہ کے حضور پیش ہونا یقینی ہے۔ حکم ہوا کہ ابراہیم چار پرندے پکڑ کر انہیں کچھ مدّت کے لیے اپنے ساتھ مانوس کرو۔ اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کے اعضاء مختلف پہاڑوں پر رکھ کر انہیں اپنی طرف آنے کے لیے آواز دو ‘ آواز سنتے ہی وہ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ پرندے زندہ ہونے کے بعد ڈر کر ادھر ادھر نہ اڑ جائیں۔ اُڑ کر آنے کے بجائے چل کر آنے کی وضاحت فرمائی کہ بعد میں آنے والے قیامت کے منکر لوگ یہ نہ کہہ پائیں کہ ذبح ہونے والے پرندے زندہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کوئی اور پرندے اتفاقاً اڑ کر موقع پر پہنچ گئے تھے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پرندے اڑنے کے بجائے چل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جس سے ہر قسم کے شبہات کا ازالہ کردیا گیا۔ پرندوں کے اجزاء اس لیے مختلف چٹانوں پر بکھیر دیے گئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آدمی جس حال میں مرے اللہ تعالیٰ اسے ہر صورت میں اپنے سامنے پیش کرے گا۔ مر کر اٹھنے کے عقیدے کو قرآن مجید اس طرح زور دار طریقے سے بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد اس عقیدے کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْحَدِیْدًا۔ أَوْخَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ ) [ بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١] ” اے پیغمبر ! قیامت کے منکروں کو فرما دو ۔ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا ایسی مخلوق بن جاؤ جو تمہارے خیالات میں بڑی ہو۔ “ (اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں اٹھائے گا) (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلًا کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالًا فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوْا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ فَإِذَا مِتُّ فَأَحْرِ قُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُوْنِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء، باب حدیث الغار ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ نے مال سے نوازا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میں تمہارا کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے جواب دیا آپ بہترین باپ ہیں۔ اس آدمی نے کہا میں نے کبھی اچھا کام نہیں کیا لہٰذا میرے مرنے کے بعد مجھے جلا کر میری راکھ تیزہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسے ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کر کے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ اس نے عرض کی : الٰہی ! تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے معاف کردیا۔ “ مسائل ١۔ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا جائز ہے۔ ٢۔ مشاہدہ انسان کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسان کے ایک ایک جز کو اکٹھا کریں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد حقیقت موت وحیات کے سلسلے میں ایک تیسرا تجربہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کرایا گیا ۔ جو امت مسلمہ کے ترنبی گزرے ہیں۔ یہ قدر الٰہیہ کی کاریگریوں تک رسائی کا ایک شوق ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو نہایت ہی حلیم الطبع اور مطیع فرمان اولوالعزم نبی تھے ان کی جانب سے شوق اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ بعض اوقات اللہ کے برگزیدہ اور اقرب المقربین بندوں کے دل میں بھی یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کاریگریوں کے راز ہائے پس پردہ تک رسائی حاصل کریں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے راضی برضا ، خشوع و خضوع کرنے والے اور عبادت گزار بندے کی جانب سے اس خواہش کا اظہار دراصل اسی قسم کی امنگ کا نتیجہ ہے ۔ اس امنگ کا تعلق ایمان ، کمال ایمان یا ایمان کی پختگی اور ثبوت وقرار کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس امنگ کے ذریعہ حضرت ابراہیم کسی قوی دلیل کا مطالبہ نہ کررہے تھے یا ایمان کی کمزوری دور کرکے اس میں پختگی حاصل نہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چیزیں تو انہیں پہلے سے حاصل تھیں ۔ راز ہائے درون پردہ تک رسائی دراصل ایک دوسرا ہی ذوق ہے ۔ یہ ایک قسم کا روحانی شوق ہے ۔ بندہ مومن راز ہائے الٰہیہ کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے ۔ عملاً ان واقعات کو رونما ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ وجود انسانی میں یہ ذوق وشوق ایک فطری امر ہے ۔ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے نہیں ہے۔ ایمان بالغیب کمال درجہ میں موجود ہوتا ہے ۔ پھر بھی یہ جذبہ کمال درجہ موجود ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ذات باری سے ہمکلام ہیں ۔ رب کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہمکلام ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس ہمکلامی سے زیادہ کس ایمان کی ضرورت تھی ، کس دلیل وبرہان کی ضرورت تھی ؟ وہ جو چیز دیکھنا چاہتے تھے وہ یہ تھی کہ کارخانہ قدرت میں قدرت کو کام کرتے ہوئے دیکھیں تاکہ ان کے اس جذبہ حصول رازہائے دروں کو تسکین حاصل ہو ۔ وہ ان رازوں کے ہم نفس ہوجائیں ۔ اور ان میں گھل مل جائیں ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس نفس ایمان سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی کے ایمان کے لئے کوئی اور ایمان درکار نہیں ہوتا وہ تو درجہ کمال میں ہوتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گفتگو اور ان کا یہ تجربہ مکمل ہوتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے نتیجے میں قلب مومن میں متعدد قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور مومن کامل کے دل میں پیدا ہونے والی یہ امنگیں اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ حریم قدرت کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ” جب ابراہیم نے کہا ” مجھے دکھادے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟ “ فرمایا :” کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ “ اس نے عرض کیا ” ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل اک اطمینان درکار ہے ۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مطلب یہ تھا کہ قلبی اطمینان تب حاصل ہوتا جب وہ دست قدرت کو کام کرتے دیکھ لیں ۔ اور جذبہ افشائے راز ہاں درون خانہ کی تسکین تب ہوتی ہے جب انسان ان رازوں کو کھول دیتا ہے اور وہ اس پر عیاں ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس کا بندہ اور دوست پکا مومن ہے لیکن اس کا یہ سوال محض تسکین شوق اور اعلان ذوق کی خاطر ہے ۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ اللہ کریم کی جانب سے اپنے اس مطیع فرمان اور حلیم الطبع بندے کے ساتھ ایک قسم کا اظہار لطف وکرم تھا اور ذرہ نوازی تھی ۔ غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس شوق تجسس کی تسکین کا سامان فراہم فرمادیا۔ اور اس کو راہ راست ایک ذاتی تجربے سے دوچار کردیا۔ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ” فرمایا تو چار پرندے لے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کرلے ۔ پھر ان کا ایک جزء ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر ان کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اب چار پرندے لیں ۔ ان کو اپنے ساتھ مانوس کرلیں ۔ ان کی خصوصیات اور ان کی نشانیاں اچھی طرح جان لیں تاکہ انہیں جاننے میں غلطی واقعہ نہ ہو ۔ پھر انہیں ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور ان کے اجزاء کو ارد گرد کے پہاڑوں پر بکھیر دیں ۔ اور پھر ان کو پکاریں ۔ اب ان کے یہ متفرق اعضاء دوبارہ صحیح ہونے لگیں گے ۔ ان میں زندگی لوٹ آئے گی اور دوڑ کر وہ تمہاری طرف لوٹ آئیں گے ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے راز تخلیق کو عیاں پایا۔ یہ وہ راز ہے جو ہر لحظہ دہرایا جارہا ہے ۔ لیکن لوگ اس راز کی تکمیل کے بعد صرف اس کے آثار دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ راز عطائے حیات کا راز تھا ۔ یہ وہ حیات ہے جو اس کائنات کو عطا کی گئی جبکہ پہلے کچھ نہ تھا ۔ اور اب وہ ہر زندہ مخلوق کی شکل میں دہرائی جارہی ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے اس راز کو دیکھ لیا ۔ چند پرندے تھے ، جن سے زندگی الگ ہوگئی تھی ۔ ان کا قیمہ مختلف مقامات پر بکھیر دیا گیا ۔ اب ان کے اجزاء جمع ہورہے ہیں اور ان میں دوبارہ زندگی ڈالی جارہی ہے ۔ اور وہ آکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ کیونکر ہوا ؟ یہی تو وہ راز ہے جس کا ادراک اس بشر کے حیطہ قدرت سے وراء ہے ۔ کبھی انسان اس راز کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا ۔ وہ اس کی تصدیق اس طرح کرتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی تصدیق فرمائی۔ لیکن وہ اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا ۔ اس کا طریقہ واردات اسے معلوم نہیں ہے ۔ یہ امر الٰہی ہے ۔ اور لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ علوم الٰہیہ میں سے ایک محدود مقدار کو جان اور پاسکتے ہیں ، وہ جسے وہ چاہے دے دے لیکن راز حیات سے اس کسی کو آگاہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت بڑا راز ہے ۔ اس نے کسی کو آگاہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت ہی بڑا راز ہے ۔ اس کو عبث ہمارے حس وادراک کی نوعیت سے مختلف ہے ۔ اور اس کرہ ارض پر ادائیگی فریضہ خلافت کے سلسلے میں انہیں اس تکوینی علم کی قدرت بھی نہیں ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص شان ہے اور مخلوقات کا شملہ علم اس کے مقابلے میں بہت ہی کوتاہ ہے اور اگر انسان دروازہ مستورات میں جھانکنے کی سعی بھی کرے تو اسے پردے ہی پردے نظر آئیں گے اور حجاب در حجاب نظر آئے گا ۔ اس کی یہ سعیٔ لاحاصل ہوگی اور علم الغیب کا دائرہ علوم النبوت تک ہی محدود رہے گا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال پر پرندوں کا زندہ ہونا اس آیت شریفہ میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کا ایک سوال اور پھر خداوند قدوس کی طرف سے عینی مشاہدہ کرا کر ان کے سوال کا جواب ذکر فرمایا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بہت بڑے موحد تھے حشر و نشربعث بعد الموت کے قائل تھے پھر بھی انہوں نے نظروں سے دیکھنے کے لیے اللہ جل شانہ سے سوال کیا کہ آپ مجھے دکھا دیجیے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ کریں گے، اللہ جل شانہٗ نے فرمایا کیا تمہیں اس کا یقین نہیں ہے کہ میں مردوں کو زندہ کردونگا انہوں نے عرض کیا کہ یقین ضرور ہے پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ علم الیقین سے آگے مجھے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہوجائے۔ اور اپنی آنکھوں سے مردوں کو زندہ ہوتے دیکھ لوں تاکہ طبعی طور پر انسان کو جو اطمینان دیکھنے سے حاصل ہوجاتا ہے وہ مجھے بھی حاصل ہوجائے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دیگر حضرات سے منقول ہے کہ جب فرشتہ نے ان کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنا لیا ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور آپ کی دعا سے مردوں کو زندہ فرمائے گا تو اس پر انہوں نے یہ سوال کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چار پرندے لے لو اور پہلے ان کو اپنے پاس رکھو اور مانوس کرلو اور ہلالو، جب وہ تم سے مانوس ہوجائیں اور ہل جائیں تو ان چاروں کو ذبح کرنا اور ان کے گوشت کو اور پروں کو ایک ساتھ ملا دینا اور ان کا ایک ایک حصہ پہاڑ پر رکھ دینا پھر ان کو پکارنا وہ پرندے تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے، چناچہ حسب الحکم انہوں نے ایسا ہی کیا اور وہ پرندے زندہ ہو کر ان کی آواز پر دوڑتے ہوئے چلے آئے، پرندے ہونے کے باوجود وہ اڑ کر نہ آئے بلکہ پیروں سے چل کر آئے کیونکہ نظروں کے سامنے اس کا ظہور بدرجہ اتم ہے۔ آخر میں فرمایا (وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) (کہ اللہ غالب ہے اور حکمت والا ہے) اسباب عادیہ وغیر عادیہ سب اس کے قبضہ میں ہیں۔ اس کے سب کاموں میں حکمت ہے۔ (من روح المعانی، ص ٢٦ تا ٣١، ج ٣ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

516 یہ واقعہ بھی پہلے قاعدہ پر متفرع ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اگرچہ اللہ کی قدرت علی الحیاء کا پورا پورا یقین تھا۔ وہ اس کی کیفیت کا مشاہدہ کر کے مزید اطمینانِ قلب حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کیا۔ کیونکہ جو علم مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے وہ بدیہی اور ضروری ہوتا ہے اور علم استدلالی سے زیادہ محکم اور پائیدار ہوتا ہے۔ معناہ بلی امنت ولکن لازید سکرنا وطمانیۃ ببضاعۃ علم المقدرۃ علم الاستدلال وتظاھرالادلۃ اسکن للقلوب وازید للبصیرۃ (مدارک ص 103 ج 1) لم یکن ابراہیم علیہ اسلام شاکا احیاء اللہ الموتی قط وانما طلب المعاینۃ (قرطبی ص 297 ج 3) ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ سوال کہ کیا تمہیں میری قدرت علی الاحیاء پر ایمان نہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ جواب کہ ایمان تو ہے۔ لیکن آنکھوں سے مشاہدہ کر کے مزید اطمینان چاہتا ہوں۔ اس سوال و جواب سے اسی حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہے۔ تاکہ سامعین میں سے کسی کو حضرت خلیل (علیہ السلام) کے ایمان کے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔ 517 صُرْ ، صار یصور صوراً سے امر ہے جس کے معنی ہلانے ور مائل کرنے کے ہیں۔ یعنی چار پرندے لو اور انہیں اپنے ساتھ خوب مانوس کرلو اور بلا لو تاکہ بعد میں پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ المعنی املھن الیک ای اضممھن واجمعھن الیک (قرطبی ص 301 ج 3) ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰي كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا۔ پھر انہیں ذبح کر کے اور ان کے ٹکڑے اکر کے ان کے اجزاء کو قرب و جوار کے پہاڑوں پر رکھ دو ۔ فقولہ " الیک " علی تاویل الامالۃ والضم متعلق بصرھن وفی الکلام متروک فاملھن الیک ثم قطعھن (قرطبی ص 301 ج 3) ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَاْتِيْنَكَ سَعْيًا۔ پھر انہیں اپنی طرف بلاؤ۔ تو وہ زندہ ہو کر صحیح سلامت دوڑتے ہوئے تمہارے پاس چلے آئیں گے۔518 یہ کیفیت دیکھ کر تمہیں علم شہود حاصل ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعا الیٰ بڑا زبردست ہے۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں مگر وہ کرتا وہی کچھ ہے۔ جو حکمت کے عین مطابق ہو اب آگے پھر انفاق فی سبیل اللہ کا بیان شروع ہوتا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ مگر پہلے جہاد کا مضمون زیادہ تھا اور انفاق کا کم تھا۔ اب یہاں سے انفاق کا مضمون تفصیل سے بیان ہوتا ہے۔ یہ تفصیل مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ سے لے کروَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ تک چلی گئی ہے۔ یعنی پورے تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ پہلے رکوع میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا ثواب بیان فرما کر خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ریاکاری سے بچنے اور اخلاص کو اپنا معمول بنانے کا حکم دیا ہے۔ اخلاص اور ریاکاری کی مثالیں دے کر اخلاص کا اجر اور ریا کا برا نتیجہ واضح فرمایا ہے۔ دوسرے رکوع میں حلال اور طیب مال خرچ کرنے کا حکم دیا فرمایا ہے اور تیسرے رکوع میں انفاق بطور قرض کی ایک مذموم اور ناجائز صورت سے منع فرمایا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 ۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا ۔ اے میرے پروردگار ! مجھ کو یہ چیز دکھا دیجئے کہ آپ قیامت میں مردوں کو کس کیفیت سے زندہ کریں گے اور مرنے کے بعد تمام اجسام کو کس طرح جمع کر کے زندہ کردیں گے۔ حضرت حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ابراہیم ! کیا تم مردوں کے زندہ ہونے پر یقین نہیں لائے انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں بیشک میں مردوں کے زندہ ہونے پر یقین رکھتا ہوں لیکن یہ گزارش اس لئے کررہا ہوں تا کہ زندہ ہونے کی کیفیت کو مشاہدہ اور معائنہ کرنے سے میرے قلب کو اطمینان اور سکون حاصل ہوجائے اور جس چیز کو علم الیقین کا مرتبہ حاصل ہے اس عین الیقن کا درجہ حاصل ہوجائے۔ حضرت حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اچھا اگر تم یہ چاہتے ہو تو چار پرندے لے لو اور پھر ان کو اپنے سے ہلا لو اور مانوس کرلو ۔ پھر ہر ایک پہاڑ پر ان پرندوں میں سے ایک ایک ٹکڑا اور ایک ایک حصہ رکھ دو اور ان کے پارچے اور ٹکڑے مختلف پہاڑوں پر رکھنے کے بعد ان پرندوں کو بلائو اور پکارو اوس پر وہ سب پرندے زندہ ہوکر تمہارے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے اور اس بات پر خوب یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کمال قوت وقدرت اور کمال حکمت کے مالک ہیں۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ احیاء موتی کا یقین تو حاصل ہے اور اس پر ایمان ہے کہ آپ قیامت میں تمام مرنے والوں کو زندہ کریں گے اور سب زندہ ہو کر آپ کے روبرو حاضر ہوں گے ۔ لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ زندہ ہونے کی کیفیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تا کہ مشاہدہ سے قلب کو اطمینان حاصل ہو ، چناچہ اس پر یہ حکم دیا گیا کہ چار اڑنے والے جانور لے کر اپنے سے مانوس کرلو۔ عام مفسرین نے فصرھن کا یہی ترجمہ کیا ہے البتہ عبد اللہ بن عباس نے اس کا ترجمہ ٹکڑے ٹکڑے کرنا کیا ہے یعنی ان پرندوں کو ذبح کر کے اور ان کو چاک کر کے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرلو۔ جیسا کہ لفظ جزاء سے اس معنی کو تقویت ہوتی ہے ہر پہاڑ کا مطلب یہ ہے کہ جس جس پہاڑ کو تم مناسب سمجھو اور جس جس پہاڑ پر رکھنا ممکن ہو ان پرندوں کے ٹکڑے او پارچے رکھ دو ۔ دوڑتے ہوئے آنے کا مطلب یہ ہے کہ پائوں سے چل کر آئیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اڑ کر تیرے پاس آجائیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضر ت خلیل کے آواز دیتے ہی سب گوشت اور پر وغیرہ اپنی اپنی جگہ آگئے اور ان میں زندگی پیدا کردی گئی اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف بھاگے ہوئے چلے آئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان چاروں پرندوں کے سر اپنے پاس رکھے اور ان کے ٹکڑے اور بوٹیاں مختلف پہاڑوں پر رکھ کر ان کو بلایا ۔ وہ درست ہو کر آئے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے اپنے اپنے سروں سے جڑ گئے ہوسکتا ہے کہ ایسا ہوا ہو اور ہوسکتا ہے پہاڑوں پر سے پوری طرح زندہ ہو کر اپنے اپنے سروں کے ساتھ آئے ہوں۔ علامہ ابن قیم نے مدارج السالکین میں عزیز کا ترجمہ کمال قوت اور حکیم کا ترجمہ کمال حکمت کیا ہے۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ اس بات کا یقین رکھو کہ میں کمال قوت کا مالک ہوں دنیا میں بھی مردوں کو زندہ کرسکتا ہوں ، لیکن ایسا نہیں کرتا کیونکہ میں کمال حکمت کا مالک ہوں ۔ وہی کرتا ہوں جو میری حکمت کا تقاضا ہوتا ہے اور حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا۔ بعض حضرات نے یہاں چند باتیں بیان کی ہیں ۔ اول تو حضرت علی (رض) کا ایک قول نقل کیا ہے جو مشہور ہے لیکن اس کی صحت کا علم نہیں وہ قول یہ ہے کہ حضرت علی (رض) کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے سامنے سے پردے ہٹا دیئے جائیں تو میرے یقین میں کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ حضرت علی (رض) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دوزخ جنت میرے سامنے آجائے اور میں میدان محشر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں تب بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ ہوگا لیکن حضرت علی (رض) کے اس قول کا کوئی تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ سے نہیں ہے کہ اس پر بحث کی جائے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اگر یہ فرماتے کہ مشاہدہ سے میرا یقین بڑھ جائے گا تب کوئی بات کہی جاسکتی تھی یہاں تو محض کیفیت کا معائنہ مطلوب ہے ایمان اور یقین کا سوال تو بلی کہنے کے بعد ختم ہوگیا ۔ حضر ت علی (رض) نے یقین کی زیادتی سے انکار فرمایا نہ یہ کہ میدان حشر کا معائنہ کرنے اور تفصیلی حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد معلومات میں بھی اضافہ ہوگا یہ امر یقینی ہے کہ مثلاً شہر مکہ پر یقین رکھنے والوں کا مکہ معظمہ کی زیارت کرنے کے بعد یقین زیادہ نہیں ہوتا لیکن مکہ معظمہ کے تفصیلی حالات ضرور معلوم ہوجاتے ہیں جو اس زیارت سے پہلے معلوم نہ تھے اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مشاہدے سے پرندوں کے گوشت کا سمٹنا ہڈیوں کا ڈھانچہ بننا ان پر گوشت وغیرہ کا چڑھنا ۔ پروں کا گوشت پر لگنا ، پھر زندہ ہونا اور آوازدینے پر دوڑتے ہوئے چلے آنا یہ سب کیفیت ملاحظہ فرمائی جو اس منظر کے مشاہدہ کرنے سے پہلے ان کو معلوم نہ تھی ۔ مردوں کے زندہ ہونے پر کوئی بےاطمینانی نہ تھی مگر شاید یہ خیال ہوتا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تو ہر صورت سے زندہ کرنے پر قادر ہیں گمر آخر زندہ کرنے کے وقت کیا صورت اختیار فرمائیں گے اسی کی درخواست تھی اور اسی درخواست کو پورا کرنے کی غرض سے یہ امور مشاہدہ کرائے گئے کہ پہلے چار جانوروں کو پالنے اور شناخت کرنے کا حکم دیا گیا ۔ پھر ان کو ذبح کرنے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم ہوا پھر ارشاد ہوا مختلف پہاڑوں پر ان کے قطعات میں سے ایک ایک حصہ رکھ دو پھر آواز دے کر مردوں کے زندہ کرنے کی کیفیت دیکھو کہ کیونکر ہر ایک چیز سمٹ سمٹ کر ڈھانچہ تیارہوتا ہے اور پھر جب مادہ جمع ہو کر ایک شکل اختیار کرلیتا ہے تو مبدا ٔ فیاض کی جانب سے روح حیات عطا کردی جاتی ہے ۔ چناچہ ان تمام امور کو مشاہدہ کرنے کے بعد احیاء کی اس کیفیت کا علم ہوگیا جو اس سے پہلے نہ تھا، نیز اس بحث میں یہ امر بھی ملحوظ رکھناچاہئے کہ وہ یقین جو ایک پیغمبر کو حاصل تھا وہ اس یقین سے کہیں زیادہ تھا جو ایک صحابی کو میسر تھا۔ دوسری بات جو اس موقعہ پر زیر بحث ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول ہے جو کتب احادیث میں مروی ہے یعنی نحن احق بالشک من ابراہیم حالانکہ اس جملہ کا مطلب علماء محدثین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلہ میں تو ہم لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم کو احیاء موتی میں شک ہوتا لیکن جب ہم کو ہی شک نہیں تو بھلا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کیونکر شک ہوسکتا ہے ۔ اس مطلب کے پیش نظر تو یہ حدیث شک کی نفی کرتی ہے ، نہ یہ کہ معاذ اللہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے شک کو ظاہر کرتی ہے۔ تیسری بات حضرت ابن عباس کا ایک قول ہے۔ ما فی القرآن عندی ایۃ رجی منھا یعنی قرآن میں اس سے زیادہ کوئی آیت میرے نزدیک امید دلانے اور امید بندھا نے والی نہیں ہے۔ حالانکہ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو شک تھا اور ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوا لہٰذا شک اور تردد بھی قابل عفو ہے اور قابل مواخذہ نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ درخواست ان کے مرتبہ خلت پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس سوال کو بھی پورا کردیا جو انہوں نے اپنی دوستی کے اعتماد پر کیا تھا اور جو عام طور سے دنیا میں کسی کو نہیں دیکھا جاتا ، اس لئے یہ آیت سب سے زیادہ اس امر میں ارجی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی بات پوری کردیتا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ نجات کے لئے تنہا ایمان کافی ہے زیادہ کرید کرنے کی ضرورت نہیں اور اس اعتبار سے یہ آیت ارجی ہے۔ بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ سوال معاذ اللہ کسی شک کی بناء پر نہ تھا بلکہ محض احوال کا معائنہ مطلوب تھا جیسا کہ لفظ کیف سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ اسی روایت میں حاکم نے ایک ٹکڑا اور بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے۔ فرضی من ابراہیم قولہ بلے۔ اس کے بعد اب عبد اللہ بن عباس کا مطلب بالکل صاف ہوجاتا ہے پوری روایت ابن مسیب نے اس طرح بیان کی ہے کہ ابن عباس اور ابن عمرو ایک دفعہ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ بتائو قرآن کریم میں سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت کون سی ہے۔ اس پر عبد اللہ بن عمرو نے قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم کی آیت پڑھی ۔ تب حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا ۔ اس آیت سے بھی زیادہ ارجی اس امت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے۔ رب ارنی کیف تحی الموتی قال اولم تومن قال بنی ولکن لیطمئن قلبی فرضی من ابراہیم قولہ بلے۔ مطلب یہ ہے کہ دل اور زبان کا اقرار کافی ہے اور اس اقرار کے بعد کسی قسم کا وسوسہ مضر نہیں ۔ اس لئے یہ آیت اس امت کے لئے زیادہ امید بندھانے والی ہے اور اس میں رعایت زیادہ ہے۔ اس بنا پر ابن عطیہ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس کی بالغ نظری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس نے وہ بات سمجھی جس کو سمجھے سے عبد اللہ بن عمرو کا فہم حاضر رہا۔ ( واللہ اعلم بالصواب) بعض لوگوں نے اس دور میں آیت زیر بحث کے ساتھ ایک عجیب جدت اختیار کی ہے انہوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ حکم ہوا تھا کہ چار جانور لیکر انکو اپنے سے بلا لو ۔ یہاں تک کہ جب آواز دو تو وہ تمہاری آواز پر چلے آئیں ۔ پھر ایک ایک جانور کو ایک ایک پہاڑ پر بٹھا دو اور ان کو بلائو تو وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ جیسے کوئی کبوتر باز کبوتروں کو آواز دیتا ہے وہ وہ آجاتے ہیں ۔ جب یہ آواز پر لگے ہوئے پرندے آجائیں تو سمجھ لو کہ اللہ بڑ ا ہی قدرت والا بڑی حکمت والا ہے۔ اسی طرح مردے خدا کی آواز پر بھاگے چلے آئیں گے ۔ یہ ترجمہ اور تفسیر عجیب دلچسپ ہے۔ کاش قرآن کریم کے الفاظ بھی اس لغو اور مہمل تفسیر کی مساعدت کرتے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مردوں کے آنے کی حالت معلوم کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کبوتر باز یا مرغ باز کا طریقہ بتا کر ان کو دکھا دیا ان کا سوال مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت سے نہ تھا۔ اعاذنا اللہ من ذلک نیز یہ کہ زندہ جانور کو پہاڑ پر بٹھانے یا چھوڑنے کے لئے ثم اجعل علی کل جبل منھن اجزا نہیں بولا جاتا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں چار جانور لائے ، ایک مور ، ایک مرغ ، ایک کوا ، ایک کبوتر ان کو اپنے ساتھ ہلایا کہ پہچان رہے، پھر ذبح کیا ، ایک پہاڑ پر چاروں کے سر رکھے ایک پر پر ۔ ایک پر دھڑ ۔ ایک پر پائوں ۔ پہلے بیچ میں کھڑے ہو کر ایک کو پکارا اس کو سر اٹھ کر ہوا میں کھڑا ہوا ۔ پھر دھڑ ملا ۔ پھر پر لگے ، پھر پائوں وہ دوڑتا چلا آیا اسی طرح چاروں آئے۔ فائدہ :۔ یہ تین قصے فرمائے اس پر کہ اللہ آپ ہدایت کرنے والا ہے جس کوا ہے اگر شبہ پڑے تو ساتھ ہی جواب بھیجے۔ اب آگے پھر جہاد کا ذکر ہے اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا۔ ( موضح القرآن) بعض حضرات نے کبوتر کی جگہ بطخ کہا ہے۔ بہر حال مردوں کو زندہ کرنا اور جانوروں کو تجویز کرنا۔ پھر جانور بھی مخصوص مقرر کرنا۔ یہ سب باتیں قدرت و حکمت سے متعلق ہیں ۔ اس لئے آخر میں فرمایا۔ واعلم ان اللہ عزیز حکیم چونکہ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت وغیرہ کا ذکر تھا اس کی مناسبت سے یہ تین قصے ذکر فرمائے۔ اب آگے وہی سابقہ مضمون بیان ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور جہاد کے لئے خرچ کرنا اور مال دینا، چونکہ انفاق فی سبیل اللہ کی صورتیں مختلف ہیں اور ان کے اجر وثواب کی حالتیں بھی مختلف ہیں اس لئے اس کو مختلف عنوان سے مسلسل بیان فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)