Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 263

سورة البقرة

قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیۡمٌ ﴿۲۶۳﴾

Kind speech and forgiveness are better than charity followed by injury. And Allah is Free of need and Forbearing.

نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالٰی بے نیاز اور بردبار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ ... Kind words, meaning, compassionate words and a supplication for Muslims. ... وَمَغْفِرَةٌ ... and forgiving, meaning, forgiving an injustice that took the form of actions or words. ... خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَأ أَذًى ... are better than Sadaqah (charity) followed by injury. ... وَاللّهُ غَنِيٌّ ... And Allah is Rich, not needing His creation. ... حَلِيمٌ Most Forbearing. forgives, releases and pardons them. There are several Hadiths that prohibit reminding people of acts of charity. For instance, Muslim recorded that Abu Dharr said that the Messenger of Allah said, ثَلَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِم وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِب Three persons whom Allah shall neither speak to on the Day of Resurrection nor look at nor purify, and they shall receive a painful torment: he who reminds (the people) of what he gives away, he who lengthens his clothes below the ankles and he who swears an oath while lying, to sell his merchandise. This is why Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

263۔ 1 سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مغَفِرَتْ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو یہ چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اس لئے حدیث میں کہا گیا ہے۔ الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ (پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے) نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلق۔ (مسلم کتاب البر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧٩] آپ نے فرمایا : ہر مسلمان کو صدقہ دینا ضروری ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا : && یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کے پاس مال نہ ہو ؟ && آپ نے فرمایا : && وہ ہاتھ سے محنت کرے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔ && صحابہ (رض) نے عرض کیا : && اگر یہ بھی نہ ہو سکے ؟ && : فرمایا : && اچھی بات پر عمل کرے اور بری سے پرہیز کرے۔ اس کے لیے یہ بھی صدقہ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ، باب علی کل مسلم صدقہ۔۔ الخ) ٢۔ نیز آپ نے فرمایا : آگ سے بچو، خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنے سے ہی ہو۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ۔۔ الخ) ٣۔ ایک آدمی نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے ؟ فرمایا : جو رمضان میں دیا جائے (ترمذی، ابو اب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی فضل الصدقہ) ٤۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ && کونسا صدقہ افضل ہے ؟ && && فرمایا : تنگ دست جو اپنی محنت میں سے صدقہ کرے اور ان سے ابتدا کر جو تیرے زیر کفالت ہیں۔ && (ابو داؤد، کتاب الزکوٰۃ، باب الرجل یخرج من مالہ۔۔ ) ٥۔ ایک دفعہ ایک اور آدمی نے آپ سے یہی سوال کیا کہ کونسا صدقہ افضلے ؟ && آپ نے جواب دیا : && جو صدقہ تو تندرستی کی حالت میں کرے۔ جبکہ تو حرص رکھتا ہو اور فقر سے ڈرتا ہو، اور دولت کی طمع رکھتا ہو۔ لہذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو ، اتنا فلاں کو دے دو ، حالانکہ اس وقت مال اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔ && (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقہ صدقہ الصحیح الشحیح )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ ۔۔ : یعنی اگر کوئی صدقہ نہیں کرسکتا تو اچھے الفاظ کے ساتھ معذرت کرلے اور سائل کے اصرار اور بدتمیزی پر غصے ہونے کے بجائے مغفرت یعنی معافی اور درگزر سے کام لے اور سوچ لے کہ اللہ تعالیٰ کتنا غنی ہے، پھر بھی کتنا بردبار ہے جو ہماری خطاؤں کے باوجود حلم سے کام لیتا ہے۔ ہمیں بھی اس طرح حلم سے کام لینا چاہیے۔ جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر نیکی صدقہ ہے اور نیکی میں سے یہ بھی ہے کہ تو اپنے بھائی کو کھلے چہرے کے ساتھ ملے اور یہ کہ اپنے ڈول میں سے اس کے ڈول میں (پانی) انڈیل دے۔ “ [ ترمذی، البر والصلۃ، باب ما جاء فی طلاقۃ ۔۔ : ١٩٧٠، و صححہ الألبانی ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse: قَوْلٌ مَّعْرُ‌وفٌ (saying something proper), these two conditions for acceptance of charitable gifts in the sight of Allah have been further explained. Incidentally, these were introduced in the earlier verse. To repeat, when you spend in the way of Allah, do not show off the favour, and when you give something to somebody do nothing to make him feel insulted, or to cause him pain. This was explained by saying that it is a thousand times better to offer some reasonable and appropriate excuse before the person who asks, if the giver feels he is unable to give under conditions of duress; and should the person asking anger the giver by impolite behaviour, it is also a thousand times better to forgive than to give him a charity which is followed by giving him pain. Allah Almighty is Himself Ghani غنی and Halim حلیم ، need-free and forbearing. He needs nothing from anyone. One who spends does so for his own good. That being so, an intelligent human being should keep this in mind while spending in the way of Allah, that he is not favouring anybody, and that he is spending for his own good. And should one sense ingratitude on the part of people treated well, he should subject himself to the divine attribute of &forbearing&, show obedience and forgive and forget.

تیسری آیت قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ میں بھی صدقات و خیرات کے اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی ان دو شرطوں کی مزید وضاحت کی گئی ہے جن کا بیان اس سے پہلی آیت میں ہوچکا ہے ایک یہ کہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کر کے کسی پر احسان نہ جتائیں دوسرے یہ کہ جس کو دیں اس کے ساتھ کوئی ایسا برتاؤ نہ کریں جس سے وہ اپنی ذلت و حقارت محسوس کرے یا جس سے اس کو ایذاء پہنچے۔ وضاحت اس طرح کی گئی کہ ناداری یا معذوری کی حالت میں سائل کے جواب میں کوئی معقول و مناسب عذر پیش کردینا اور اگر سائل بدتمیزی سے غصہ دلادے تو اس سے درگذر کرنا ہزار درجے بہتر ہے ایسی خیرات دینے سے جس کے بعد اس کو ایذاء پہنچائی جائے اور اللہ تعالیٰ خود غنی وحلیم ہیں ان کو کسی کے مال کی حاجت نہیں جو خرچ کرتا ہے اپنے نفع کے لئے کرتا ہے تو ایک عاقل انسان کو خرچ کرنے کے وقت اس کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ میرا کسی پر احسان نہیں میں اپنے نفع کے لئے کرچ کر رہا ہوں اور اگر لوگوں کی طرف سے کوئی نہ شکری بھی محسوس کرے تو اخلاق الہیہ کے تابع ہو کر عفو و درگذر سے کام لے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۝ ٠ ۭ وَاللہُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ۝ ٢٦٣ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] والقَوْلُ يستعمل علی أوجه : أظهرها أن يكون للمرکّب من الحروف المبرز بالنّطق، مفردا کان أو جملة، فالمفرد کقولک : زيد، وخرج . والمرکّب، زيد منطلق، وهل خرج عمرو، ونحو ذلك، وقد يستعمل الجزء الواحد من الأنواع الثلاثة أعني : الاسم والفعل والأداة قَوْلًا، كما قد تسمّى القصیدة والخطبة ونحوهما قَوْلًا . الثاني : يقال للمتصوّر في النّفس قبل الإبراز باللفظ : قَوْلٌ ، فيقال : في نفسي قول لم أظهره . قال تعالی: وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] . فجعل ما في اعتقادهم قولا . الثالث : للاعتقاد نحو فلان يقول بقول أبي حنیفة . الرابع : في الإلهام نحو : قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] فإنّ ذلک لم يكن بخطاب ورد عليه فيما روي وذكر، بل کان ذلک إلهاما فسماه قولا . ( ق و ل ) القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ قول کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) عام طور پر حروف کے اس مجموعہ پر قول کا لفظ بولاجاتا ہے جو بذریعہ نطق کت زبان سے ظاہر ہوتے ہیں خواہ وہ الفاظ مفرد ہوں جملہ کی صورت میں منفرد جیسے زید خرج اور مرکب جیسے زید منطق وھل خرج عمر و نحو ذالک کبھی انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف میں ہر ایک کو قول کہا جاتا ہے جس طرح کہ تصیدہ اور خطبہ وغیرہ ہما کو قول کہہ دیتے ہیں ۔ ( 2 ) جو بات ابھی ذہن میں ہو اور زبان تک نہ لائی گئی ہو اسے بھی قول کہتے ہیں اس بناء پر قرآن میں آیت کریمہ : ۔ وَيَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ لَوْلا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ [ المجادلة/ 8] اور اپنے دل میں اگتے ہیں ( اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو ) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا ۔ یعنی دل میں خیال کرنے کو قول سے تعبیر کیا ہے ۔ ( 3 ) رائے خیال اور عقیدہ پر بھی قول کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جیسے فلان یقول بقول ابی حنیفه ( فلان ابوحنیفہ کی رائے کا قائل ہے ) ( 4 ) الہام کرنا یعنی کسی کے دل میں کوئی بات ڈال دینا جیسے فرمایا ؛ قُلْنا يا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ [ الكهف/ 86] ہم نے کہا ذولقرنین تم ان کو تکلیف دو ۔ یہاں قول بمعنی الہام اور القا کے ہے ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ حلم الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور/ 32] ، قيل معناه : عقولهم ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل وقد حَلُمَ وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] ، ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٣) اپنے مسلمان بھائی کے پیٹھ پیچھے اس کے لیے اچھی طرح بات کہنا اور اس کے حق میں دعا کرنا اور اس کی غلطیوں سے درگزر کرنا یہ تیرے لیے اور اس کے لیے ایسے صدقہ خیرات سے اچھا اور بہتر ہے کہ جس کے بعد تو اس پر احسان جتلانے والے کے صدقہ سے غنی ہیں اور حلیم ہیں کہ ایسے شخص پر جلد عذاب نازل نہیں کرتے۔ جس کو دیا ہے اس کے ساتھ تکبر کرکے اور اس سے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقات کے ثواب کو اس شخص کی طرح ضائع نہ کرو جو دکھاوے کے لیے صدقہ کرتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ قیامت کے دن پر بھی ایمان نہیں رکھتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٣ (قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ) (خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَآ اَذًی ط) اگر آپ کے پاس کوئی ضرورت مند آگیا ہے ‘ کسی نے ہاتھ پھیلا دیا ہے تو اگر آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے تو دلداری کا ایک کلمہ کہہ دیجیے ‘ نرمی کے ساتھ جواب دے دیجیے ‘ معذرت کر لیجیے۔ یا اگر کسی سائل نے آپ کے ساتھ درشت رویہ اختیار کیا ہے تو پھر بھی اسے ڈانٹئے نہیں : (وَاَمَّا السَّآءِلَ فَلَا تَنْھَرْ ) (الضحٰی) بلکہ درگزر سے کام لیجیے۔ یہ طرز عمل اس سے کہیں بہتر ہے کہ ضرورت مند کو کچھ دے تو دیا لیکن اس کے بعد اسے دوچار جملے بھی سنا دیے ‘ اس کی دلآزاری بھی کردی۔ تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ) وہ بےنیاز بھی ہے اور بردبار بھی۔ اگر تم کسی کو کچھ دے رہے ہو تو اصل میں اللہ کو دے رہے ہو۔ اس ضمن میں ایک حدیث قدسی میں بڑی وضاحت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہیں کی۔ وہ کہے گا : اے پروردگار ! میں تیری تیمارداری کیسے کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی تیمار داری نہیں کی ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا : اے میرے ربّ ! میں تجھ کو کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا ‘ تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا : پروردگار ! میں تجھ کو کیسے پانی پلاتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا ‘ تو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا ‘ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اپنے اس عمل کو میرے پاس موجود پاتا ! (٣٤) چنانچہ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کسی ضرورت مند کو دے رہے ہو وہ درحقیقت اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ جس نے تمہیں سب کچھ عطا کیا ہے۔ اور تمہارے طرز عمل کے باوجود بھی اگر وہ تم سے درگزر کررہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلیم ہے ‘ بردبار ہے۔ اگر تم اپنے دل سے اتری ہوئی شے اللہ کے نام پر دیتے ہو ‘ کوئی بےکار اور ردّی چیز اللہ کے نام پردے دیتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت اگر اسی وقت جوش میں آجائے تو تمہیں ہر نعمت سے محروم کر دے۔ وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے ‘ لیکن نہیں کرتا ‘ اس لیے کہ وہ حلیم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

302 This implies two things. First, Allah does not stand in need of anybody's charity, for He is Self-Sufficient. Secondly, He likes those people who are generous and large-hearted, but does not like frivolous and narrow-minded people, for He Himself is Generous, Clement and Forbearing. How, then Allah, Who bestows on the people the necessities of life without stint, and forgives and pardons them over and over again in spite of their errors, would like those who mar the self-respect of a person by sending repeated reminders of their charity and making pointed references to it even though they might have given only a farthing. A Tradition of the Holy Prophet says that on the Day of Resurrection, Allah will neither speak a word nor even so much as look at a person who makes pointed references to the gift he gave to some one.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :302 اس ایک فقرے میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ تمہاری خیرات کا حاجت مند نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بردبار ہے ، اس لیے اسے پسند بھی وہی لوگ ہیں ، جو چھچورے اور کم ظرف نہ ہوں ، بلکہ فراخ حوصلہ اور بردبار ہوں ۔ جو خدا تم پر زندگی کے اسباب و وسائل کا بے حساب فیضان کر رہا ہے اور تمہارے قصوروں کے باوجود تمہیں بار بار بخشتا ہے ، وہ ایسے لوگوں کو کیونکر پسند کر سکتا ہے ، جو کسی غریب کو ایک روٹی کھلادیں ، تو احسان جتا جتا کر اس کی عزت نفس کو خاک میں ملا دیں ۔ اسی بنا پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے روز شرف ہمکلامی اور نظر عنایت سے محروم رکھے گا ، جو اپنے عطیے پر احسان جتاتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

179: مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سائل کسی سے مانگے اور کسی وجہ سے دے نہ سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کرلینا اور اگر وہ مانگنے پر ناروا اصرار کرے تو اس کی غلطی سے درگزر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کرکے تکلیف پہنچائے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:263) قول معروف۔ اچھی بات، مناسب بات یعنی معذرت کی نرم بات کہنا۔ قول معروف موصوف و صفت۔ مبتدائ۔ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی خبر۔ مغفرۃ۔ معاف کرنا۔ درگزر کرنا۔ غفر یغفر کا مصدر باب ضرب ہے۔ مغفرۃ کے مندرجہ ذیل معانی ہوسکتے ہیں : (1) خدا سے مغفرت مانگنا (ا) اپنے لئے سائل کو کچھ نہ دے سکا۔ (ب) سائل کے لئے کہ سوال کرنا معیوب ہے۔ (2) سائل کے الحاح اور تلخ کلامی پر چشم پوشی کرنا۔ (بیضاوی) (3) سائل سے معافی مانگنا اور معذرت کرنا۔ (بیضاوی۔ کشاف) (4) سائل کی پردہ پوشی کرنا۔ (الخازن) بعض نے اس آیت کی تقدیر یوں کی ہے : قول معروف اولی والمغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھما اذی۔ یعنی نرم بات کہنا بہت اچھا ہے لیکن مغفرت اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد دکھ دیا جائے۔ اس میں قول معروف کی خبر محذوف لی گئی ہے۔ اور مغفرۃ مبتداء اور خیر من صدقۃ اس کی خبر لی گئی ہے۔ غنی۔ کلی طور پر بےنیاز ۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔ حلیم۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ بردبار۔ تحمل کرنے والا۔ حلم۔ جس کے معنی نفس و طبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ و غضب کے موقعہ پر بھڑک نہ اٹھے۔ قرآن مجید میں حلم بمعنی عقل بھی آیا ہے۔ مثلاً ام تامرھم احلامھم بھذا (52:32) کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سکھاتی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھی بات صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی ہے کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ (فتح البیان)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ ناداری کی قید اس لیے لگائی کہ استطاعت کے وقت حاجت مند کی اعانت نہ کرنا خود برا ہے اس کو بہتر کیوں کہا جاتا البتہ ناداری کے وقت نرمی سے جواب دے دینا اور سائل کو سختی کو ٹال دینا چونکہ موجب ثواب ہے اس لیے اس کو خیر فرمایا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ جس صدقہ کے بعد نادار کو اذیت دی جاتی ہو ، ایسے صدقے کے سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس سے تو ایک میٹھا بول اور ایک نرم بات ہی بہتر ہے ۔ ایک اچھی بات سے دلوں کے زخم جڑجاتے ہیں ۔ اس سے خوشی اور رضاجوئی پیدا ہوتی ہے ، جس سے زخم بھر آتے ہیں ۔ معافی اور چشم پوشی سے دلوں کی میل دور ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے بدلے بھائی چارہ اور دوستی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسے حالات میں میٹھابول اور عفو و درگزر دوستی اور اخوت کے راستے میں خشت اول کا کام دیتے ہیں ۔ اس سے نفوس میں پاکیزگی اور دودلوں میں یگانگت پیدا ہوتی ہے ۔ یہ بات کہنے کے بعد کہ صدقہ عطا کنندہ کی طرف سے گیرندپر کوئی برتری نہیں اس لئے کہ صدقہ کرکے ایک شخص دراصل اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے ، تو اس کے بعد کیا جاتا ہے وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ................ ” اور اللہ بےنیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے ۔ “ وہ عطاکنندہ کی ایسی عطا سے مستغنی ہے جس کے بعد وہ ایک نادار کو اذیت دیتا ہو ، اور وہ برد بار ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور پھر بھی وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی شتابی سے انہیں اذیت دیتے ہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور سب کچھ دینے سے پہلے انہیں وجود عطا کرتا ہے ۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے بردباری سیکھیں ۔ وہ اگر اللہ کے دیئے میں سے کسی کو کچھ دے بھی دیں تو فوراً ہی اس احسان مند کے درپے آزار نہ ہوجائیں ۔ ایسے حالات میں جبکہ انہیں ان کی کوئی بات پسند نہ ہو یا یہ کہ وہ احسان مند شخص ان کا شکر ادا کررہاہو۔ قرآن کریم بار بار لوگوں کے سامنے صفات باری کا ذکر کرتا ہے ۔ اور مطلوب یہ ہے کہ لوگ حتی الوسع اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں ۔ اسلامی زندگی کے آداب میں سے یہ ایک اہم طرز عمل ہے کہ ایک مسلم اپنے اندر صفت باری پیدا کرتاہرے اور اس راہ کے مختلف مراحل مسلسل طے کرتا رہے ۔ اور ان صفات میں سے جو حصہ اس کا ہے وہ اسے حاصل کرتا رہے ۔ اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کی صلاحتیوں کے مطابق ۔ جب یہ وجدانی تاثر اپنی انتہاؤں کو چھولیتا ہے اور جو لوگ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، جب ان کے سامنے ترقی پذیر اور مفید زندگی کے طبعی مطاہر پیش کردئیے جاتے ہیں ، اور یہ انفاق ایسا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی احسان مندی ، احسان جتلاکر اذیت رسانی نہیں ہوتی اور یہ اشارہ دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے انفاق اور ایسے صدقات اور احسانات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جن کے بعد ایذا رسانی ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ رازق اور داتا ہے۔ وہ اپنا قہر وغضب نازل کرنے میں اور اذیت رسانی میں جلد بازی نہیں کرتا ۔ غرض جب یہ وجدانی تاثر اپنی ان اتہاؤں تک جاپہنچتا ہے ۔ تو اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو اہل ایمان ہیں کہ وہ احسان جتاکر اور احسان کے بعد اذیت دے کر اپنے صدقات اور نیکیوں کو ضائع نہ کریں ۔ قرآن یہاں ان کے سامنے ایک عجیب صورتحال کی منظر کشی کرتا ہے ۔ یہ وہ مناظر ہیں جو بڑے خوبصورت ہیں ۔ جو پہلے منظر کے ساتھ ایک جگہ چلتے ہیں ۔ پہلا منظر یہ تھا کہ ایک کھیت ہے جو نشوونما پارہا ہے ۔ لیکن ان دونئے مناظر میں اس انفاق فی سبیل اللہ کا مزاج بتایا جارہا ہے جو خالص للّٰہ ہو اور اس انفاق کی حقیقت بھی بتائی جاتی ہے جو احسان مندی اور اذیت رسانی کے ساتھ ہو اور یہ مناظر قرآن کریم کے اسلوب میں ہیں جو وہ فن کارانہ تصویر کشی کے لئے اختیار کرتا ہے یعنی مفہوم اور معنی کو ایک مشخص شکل میں پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں کسی عمل کے اثرات متحرک شکل میں ہوتے ہیں اور یہ منظر کشی ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ پورا نظارہ ہمارے تخیل کے سامنے ہوتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

521 قول معروف سے مراد ہے سائل کو نرمی سے ٹال دینا اور مغفرۃ سے مراد یہ ہے کہ اگر سائل درشتی سے پیش آئے تو اس سے درگذر کیا جائے اور ناشائستہ الفاظ استعمال نہ کیے جائیں۔ ای کلام جمیل یرد بہ السائل مثلا یرحمک اللہ ویرزقکم اللہ انشاء اللہ تعالیٰ اعطیک بعد ھذا ومغفۃ ای ستر لما وقع من السائل من الالحاف فی المسئلۃ وغیرہ مما یثقل علی المسئول وصفح عنہ (روح ص 34 ج 3) وَاللّٰهُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے صدقات کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے تمہاری ہی اصلاح مقصود ہے اور وہ برد با رہے۔ گناہوں پر فوراً گرفت نہیں کرتا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو سائل پر جس کو دیا ہے کوئی احسان جتاتے ہیں اور نہ اس کو کوئی تکلیف دیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو ان کے پروردگار کے ہاں ان کا ثواب ملے گا اور ان کا اجر ان کے رب کے پاس موجود ہے اور ان کو کسی قسم کا خوف پیش آئے گا اور نہ وہ کبھی غمگین اور مغموم ہوں گے سائل کو نرم ، بھلی اور مناسبت بات کہہ دینا یعنی جب دینے کو کچھ نہ ہو اور سائل کو معاف کردینا اور اس کو درگذر کردینا یہ اس صدقہ اور خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے پیچھے ایذا رسانی اور سائل کو تکلیف پہونچانا ہو اور اللہ تعالیٰ تمہاری خیرات سے بےنیاز اور بےپروا ہے اور نافرمانوں اور کوتاہی کرنے والوں کے ساتھ اس کا برتائو حلیمانہ ہے اور وہ بڑا تحمل والا ہے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ نیک کام کرنے اور کسی خیرات دینے کے بعد احسان جتاتے ہیں اور اپنی خیرات کو بار بار دہراتے ہیں یا سائل کو جتاتے ہیں یا سائل کو قول اور فعل سے تکلیف پہونچاتے ہیں۔ مثلاً طعنہ دیتے ہیں کہ میں نے تم کو اتنا دیا اور تمہارے ساتھ ایسا سلوک کیا یا دینے کے بعد اس سے کوئی خدمت لیتے ہیں یا اور کسی برتائو سے اذیت پہنچاتے ہیں۔ غرض اسی قسم کی تمام باتیں ثواب کو نقصان پہنچاتی ہیں جو لوگ اپنی خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ کو ایسی باتوں سے محفوظ رکھتے ہیں نہ احسان جتاتے ہیں نہ سائل کو اذیت پہونچاتے ہیں تو ایسے لوگوں کے عمل کا ثواب ان کے رب کے پاس محفوظ ہے اور ان کے جانے پر ان کے عمل کا اجر ان کو عطا کیا جائے گا اور قیامت کے دن نہ تو ان کو خوف پیش آئے گا اور نہ گزشتہ اعمال کے متعلق وہ کبھی غمگیں ہوں گے۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ خوف کا تعلق آنے والے واقعات سے ہوتا ہے اور غم کا تعلق پچھلے واقعات سے ہوتا ہے یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دارین میں ہر قسم کے خوف اور غم سے محفوظ رہیں گے ہوسکتا ہے کہ آیت حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمان بن عوف (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہو کیونکہ یہ دونوں بزرگ ہمیشہ مجاہدین کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے اور ہر جہاد میں اپنے مال سے حصہ لیتے تھے اور ان کے دل میں کبھی احسان جتانے یا کسی کو تکلیف پہونچانے کا خطرہ تک نہ پیدا ہوتا تھا۔ بعض علماء نے فرمایا ہے احسان جتانا نفاق کے مشابہ ہے اور ایذا رسانی ریا کے مشابہ ہے۔ بہرحال اپنے صدقات کو جو شخص من اور اذی سے محفوظ رکھے گا وہ ہر قسم کے خوف اور غم سے محفوظ رہے گا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن زید فرماتے ہیں کہ میرے والد کہا کرتے تھے اگر کسی کو کچھ دو اور تم دیکھو کہ جب تم اس کو آتے جاتے کہیں سلام کرتے ہو تو وہ شرمندہ ہوتا ہے یا تمہارا اسلام کرنا اس پر گراں ہوتا ہے تو اس کو سلام نہ کیا کرو کبھی یہ من اور اذی میں داخل نہ ہوجائے۔ دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب نادار ہو اور دینے کو کچھ نہ ہو تو سائل کو نرم اور مناسب بات کہہ دو اور اگر سائل بدتمیزی کرے جیسا کہ آج کل سائلوں کی عام عادت ہے تو ضبط نفس سے کام لو اور اس کو در گذر کردو۔ سائل کے جواب میں مناسب و معقول بات کہہ دینا اور سائل کے برا بھلا کہنے کو معاف کردینا یہ ایسے دینے سے بدرجہا بہتر ہے کہ دیکر اس کے ساتھ کوئی ایسا برتائو کرو جو اس کی رنجیدگی اور دل آزاری کا موجب ہو۔ آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ تو خودغنی ہے وہ تمہاری خیرات کا محتاج نہیں ہے یہ دنیا دلانا تو تمہارے ہی بھلے کو ہے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں ہے اس کی ذات تو بےپروا ہے اور وہ چونکہ حلیم ہے اور بڑا تحمل والا ہے اس لئے صدقات کے معاملہ میں جو لوگ بےاحتیاطی کرتے ہیں یا دیکر احسان جتاتے ہیں اور سائل کو دکھ پہنچاتے ہیں ان کی گرفت میں جلد بازی نہیں کرتا اور ان کی پکڑ نہیں کرتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مانگنے کو نرمی سے جواب دینا اور اس کی بدخوئی پر درگزر کرنا بہتر ہے اس سے کہ دیوے پھر اس کو بار بار دبا دے یہ سمجھے کہ میں نے تو اللہ تعالیٰ کو دیا ہے اس کو کیا پرواہ ہے مگر اپنا بھلا کرتا ہوں۔ (موضح القرآن) حدیث میں آتا ہے کلمہ طیبہ صدقہ ہے اور معروف یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ بات کرے حضرت عمرو بن دینار کی روایت میں ہے کہ فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ کوئی صدقہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق بات سے زیادہ محبوب نہیں ہے کیا اے مخاطب تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے۔ قول معروف و مخفرۃ الخ چونکہ ایذا رسانی اک مفہوم عام ہے۔ احسان جتانے سے بھی سائل کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے دوسری آیت میں صرف ایذا رسانی کا ذکر کیا اور من یعنی احسان جتانے کا ذکر نہیں فرمایا۔ اب آگے من اور اذی والے صدقہ کی ایک مثال بیان فرماتے ہیں جس سے ریا کار کی خیرات کا حال بھی معلوم ہوجائے گا اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جو لوگ صدقہ دے کر احسان رکھتے یا خیرات لینے والے کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان کا صدقہ باطل اور بےکار ہے۔ (تسہیل)