Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 271

سورة البقرة

اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ وَ یُکَفِّرُ عَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۲۷۱﴾

If you disclose your charitable expenditures, they are good; but if you conceal them and give them to the poor, it is better for you, and He will remove from you some of your misdeeds [thereby]. And Allah , with what you do, is [fully] Acquainted.

اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اللہ تعالٰی تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِن تُبْدُواْ الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ... If you disclose your Sadaqat, it is well), meaning, "It is well if you make known the charity that you give away." Allah's statement, ... وَإِن تُخْفُوهَا وَتُوْتُوهَا الْفُقَرَاء فَهُوَ خَيْرٌ لُّكُمْ ... But if you conceal them and give them to the poor, that is better for you. this indicates that concealing charity is be... tter than disclosing it, because it protects one from showing off and boasting. However, if there is an apparent wisdom behind disclosing the charity, such as the people imitating this righteous act, then disclosing it becomes better than concealing it. The Messenger of Allah said, الْجَاهِرُ بِالْقُرْانِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ وَالْمُسِرُّ بِالْقُرانِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَة He who utters aloud Quranic recitation is just like he who discloses charity acts. He who conceals Quranic recitation is just like he who conceals charity acts. The Ayah indicates that it is better that acts of charity be concealed, as reiterated by the Hadith that the Two Sahihs recorded from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إلاَّ ظِلُّهُ إِمَامٌ عَادِلٌ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللهِ وَرَجُلَنِ تَحَابَّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْهِ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُه Allah will give shade to seven on the Day when there will be no shade but His. They are: a just ruler, a youth who has been brought up in the worship of Allah, two persons who love each other only for Allah's sake who meet and part in Allah's cause only, a man whose heart is attached to the Masjids from the time he departs the Masjid until he returns to it, a person who remembers Allah in seclusion and his eyes are then flooded with tears, a man who refuses the call of a charming woman of noble birth for illicit intercourse with her and says, `I fear Allah, Lord of the worlds', and a man who gives charitable gifts so secretly that his left hand does not know what his right hand has given. Allah's statement, ... وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّيَاتِكُمْ ... (Allah) will expiate you some of your sins, means, in return for giving away charity, especially if it was concealed. Therefore, you will gain goodness by your rank being raised, and your sins being forgiven. Allah's statement, ... وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ And Allah is Well-Acquainted with what you do. means, "No good deed that you perform escapes His knowledge, and He shall reward for it."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ...  دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکاۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٧] اس آیت سے خفیہ صدقہ کی زیادہ فضیلت ثابت ہوئی، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ١۔ حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب اللہ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ نے پہاڑ پیدا کئے اور کہا کہ اسے (زمین کو) تھامے رہو۔ چناچہ وہ ٹھہر گئی۔ تب فرشتوں کو پہاڑو... ں کی مضبوطی پر تعجب ہوا اور کہنے لگے : & پروردگار ! تیری مخلوق میں سے کوئی چیز پہاڑوں سے بھی سخت ہے ؟ فرمایا ہاں، لوہا ہے۔ فرشتے کہنے لگے، پروردگار کوئی چیز لوہے سے بھی سخت ہے ؟ & فرمایا & ہاں آگ ہے۔ & پھر وہ کہنے لگے : کوئی چیز آگ سے بھی سخت ہے ؟ & فرمایا : ہاں پانی ہے۔ & وہ کہنے لگے : & کوئی چیز پانی سے بھی سخت ہے ؟ & فرمایا ہاں ہوا ہے۔ & پھر وہ کہنے لگے : & کوئی چیز ہوا سے بھی سخت ہے ؟ & فرمایا : ہاں وہ آدمی جو اس طرح صدقہ دے کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں کو خبر تک نہ ہو۔ & (ترمذی، ابو اب التفسیر، سورة الناس) ٢۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) سات قسم کے آدمیوں کو اپنے عرش کے سایہ تلے جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کہیں سایہ نہ ہوگا۔ ایک انصاف کرنے والا حاکم۔ دوسرا وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی عبادت میں گزاری، تیسرا وہ شخص جس کا دل مسجد سے لگا رہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی۔ اللہ کی خاطر ہی مل بیٹھے اور اللہ کی خاطر ہی جدا ہوئے۔ پانچویں وہ مرد جسے کسی مرتبہ والی حسین و جمیل عورت نے (بدکاری کے لیے) بلایا اور اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو صدقہ دیا بائیں ہاتھ کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ) تاہم بعض علماء کہتے ہیں کہ فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ تو اعلانیہ دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو بھی ترغیب ہو اور نفلی صدقہ بہرحال خفیہ دینا ہی بہتر ہے اور یہ تو واضح بات ہے کہ چھپا کر نیکی کرنے سے انسان کی اپنی اصلاح نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ : ” صَدَقَۃٌ“ کا لفظ ” صِدْقٌ“ سے نکلا ہے، یعنی وہ مال جو آدمی صدق دل سے خرچ کرتا ہے، عموماً یہ فقط نفل صدقے پر بولا جاتا ہے لیکن بعض اوقات فرض صدقے پر بھی بولا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ ۔۔ ) [ التوبۃ : ٦٠ ] ” صدقات تو صرف فقیروں اور مسک... ینوں اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافروں میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں) ۔ “ فَنِعِمَّا هِىَ ۚ: یہ اصل میں ” نِعْمَ مَا “ ہے جس میں ” مَا “ بمعنی ” شَیْءٌ“ ہے۔ اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تو یہ اچھی بات ہے “ اس میں علانیہ صدقہ کی تعریف کی گئی ہے، بشرطیکہ خالص نیت سے ہو اور ریا سے خالی ہو، کیونکہ اس سے آدمی بخل اور حقوق ادا نہ کرنے کی تہمت سے بچتا ہے اور اس سے دوسرے اہل خیر کو صدقہ کرنے کی ترغیب ہوتی ہے، جیسا کہ جنگ تبوک کے موقع پر عمر (رض) نے اپنا آدھا مال اور ابوبکر (رض) نے اپنا سارا مال لا کر پیش کردیا، اسی طرح دوسرے صحابہ نے بڑھ چڑھ کر صدقہ کیا۔ وَاِنْ تُخْفُوْھَا : یعنی صدقہ علانیہ دینا بھی گو اچھا ہے مگر پوشیدہ طور پر دینا زیادہ فضیلت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ریا سے بعید ہوتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے نفل صدقات مراد ہیں۔ (شوکانی) اس کے برعکس فرض زکوٰۃ کو پوشیدہ طور پر دینا جائز ہے، مگر اسے لوگوں کے سامنے دینا افضل ہے، ورنہ زکوٰۃ نہ دینے کی تہمت لگے گی، جب کہ نماز اور زکوٰۃ ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ نیز طبری نے اس پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ ( فتح الباری : ٦؍ ٢٢) متعدد احادیث میں نفل صدقات کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سات آدمیوں میں، جن کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا، ایک وہ شخص شمار کیا جس نے دائیں ہاتھ سے صدقہ کیا اور اسے چھپا کر کیا، حتیٰ کہ بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں کہ دائیں نے کیا خرچ کیا۔ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ بالیمین : ١٤٢٣، عن أبی ہریرۃ (رض) ] اس شخص کے واقعہ سے بھی خفیہ صدقے کی فضیلت اور برکت معلوم ہوتی ہے جس نے ایک رات خفیہ صدقہ ایک چور، ایک رات ایک زانیہ اور ایک رات ایک غنی کو دے دیا۔ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب إذا تصدق علی ۔۔ : ١٤٢١، عن أبی ہریرۃ (رض) ] وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ : چھپا کر فقراء کو دینے میں ان کی پردہ پوشی ہوتی ہے اور ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ : ” مِّنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ گناہ “ کیا ہے، یعنی کم یا زیادہ جتنا مال خرچ کرے گا، اس کے لحاظ سے گناہ معاف ہوں گے۔ علاوہ ازیں کچھ گناہ ایسے ہیں جو مال خرچ کرنے سے معاف نہیں ہوتے، بلکہ ان کے لیے توبہ ضروری ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(5) Verse 271: إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ (الی قولہ) وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِير : |"If you give the alms openly, it is good enough, ... and Allah is All-Aware of what you do|" Obviously, this verse covers all types of charity, whether obligatory or supererogatory, and it is more preferable to perform all of them as secretly as possible. To observe secrecy in a charitable ... act has religious merits, because it is far from the possibility of riya& ریاء (show off), and more graceful for the receiver who can feel shy about receiving charity in public. It is also beneficial from an earthly point of view, because it does not disclose the amount of wealth one owns. It should, however, be kept in mind that the preferability of observing secrecy is a matter of principle. There may be situations where it becomes more preferable to perform an act of charity openly for some external reasons, such as removing some accusation (of not paying زکاۃ Zakah, for instance) or to persuade others to follow the example. Such exceptional cases do not negate the basic principle in any way. Immediately after the instruction of concealing the &Sadaqat صداقات &, the holy verse says, وَيُكَفِّرُ‌ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ (This will write off part of your sins). It does not mean that the expiation of evil-deeds is confined to the charity made in secret only. In fact, a charity made in public also carries the same benefit. But the reference to expiation here is in the context that even if someone feels a secret charity as useless in this world, he should not feel depressed, because Allah will forgive his sins, and that is a great gain for him.  Show more

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ (الیٰ قولہٖ ) وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ بظاہر یہ آیت فرض اور نفل سب صدقات کو شامل ہے اور سب میں اخفاء ہی افضل ہے اس میں دینی مصلحت بھی ہے کہ ریاء سے ابعد ہے لینے والا بھی نہیں شرماتا، اور دنیوی مصلحت بھی ہے کہ اپنے مال کی مقدار عام لوگوں پر ظاہ... ر نہیں ہوتی اور مراد افضلیت اخفاء سے آیت میں افضلیت فی نفسہ ہے، پس اگر کسی مقام پر کسی عارض سے مثلا رفع تہمت یا امید اقتداء وغیرہ سے اظہار کو ترجیح ہوجاوے تو افضلیت فی نفسہ کے منافی نہیں وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ کفارہ سیات کچھ اخفاء کے ساتھ تو خاص نہیں صرف اس بات پر تنبیہ کرنے کے لئے اخفاء کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے کہ اخفاء میں تجھے اگر کوئی ظاہری فائدہ نظر نہ آئے تو منقبض نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ تمہارے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے اور یہ تمہارے لئے فائدہ عظیمہ ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِىَ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَاۗءَ فَھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۝ ٠ ۭ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۝ ٢٧١ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ ... اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ فنعما میں ف جواب شرط کے لئے ہے نعما ہی وہ کیا ہی اچھا ہے۔ اصل میں نعم ما ہی تھا۔ دونوں میموں میں ادغام ہوگیا اور عین پر جوان نون کی وجہ سے کسرہ آگیا۔ ہی ضمیر واحد مؤنث مراد اظہار الصدقہ ہے۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ فقر الفَقْرُ يستعمل علی أربعة أوجه : الأوّل : وجود الحاجة الضّرورية، وذلک عامّ للإنسان ما دام في دار الدّنيا بل عامّ للموجودات کلّها، وعلی هذا قوله تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] ، وإلى هذا الفَقْرِ أشار بقوله في وصف الإنسان : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] . والثاني : عدم المقتنیات، وهو المذکور في قوله : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] ، إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] . وقوله : إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] . الثالث : فَقْرُ النّفس، وهو الشّره المعنيّ بقوله عليه الصلاة والسلام : «كاد الفَقْرُ أن يكون کفرا» «1» وهو المقابل بقوله : «الغنی غنی النّفس» «1» والمعنيّ بقولهم : من عدم القناعة لم يفده المال غنی. الرابع : الفَقْرُ إلى اللہ المشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : ( اللهمّ أغنني بِالافْتِقَارِ إليك، ولا تُفْقِرْنِي بالاستغناء عنك) «2» ، وإيّاه عني بقوله تعالی: رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وبهذا ألمّ الشاعر فقال : 354- ويعجبني فقري إليك ولم يكن ... ليعجبني لولا محبّتک الفقر ويقال : افْتَقَرَ فهو مُفْتَقِرٌ وفَقِيرٌ ، ولا يكاد يقال : فَقَرَ ، وإن کان القیاس يقتضيه . وأصل الفَقِيرِ : هو المکسورُ الْفِقَارِ ، يقال : فَقَرَتْهُ فَاقِرَةٌ ، أي داهية تکسر الفِقَارَ ، وأَفْقَرَكَ الصّيدُ فارمه، أي : أمكنک من فِقَارِهِ ، وقیل : هو من الْفُقْرَةِ أي : الحفرة، ومنه قيل لكلّ حفیرة يجتمع فيها الماء : فَقِيرٌ ، وفَقَّرْتُ للفسیل : حفرت له حفیرة غرسته فيها، قال الشاعر : ما ليلة الفقیر إلّا شيطان فقیل : هو اسم بئر، وفَقَرْتُ الخَرَزَ : ثقبته، وأَفْقَرْتُ البعیر : ثقبت خطمه . ( ف ق ر ) الفقر کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کا نہ پایا جانا اس اعتبار سے انسان کیا کائنات کی ہر شے فقیر و محتاج ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا يا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَراءُ إِلَى اللَّهِ [ فاطر/ 15] لوگو ! تم سب خدا کے محتاج ہو ۔ اور الانسان میں اسی قسم کے احتیاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں ۔ ضروریات زندگی کا کما حقہ پورا نہ ہونا چناچہ اس معنی میں فرمایا : لِلْفُقَراءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا [ البقرة/ 273] ، إلى قوله : مِنَ التَّعَفُّفِ [ البقرة/ 273] تو ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کے راہ میں رے بیٹھے ہیں ۔إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ النور/ 32] اگر وہ مفلس ہونگے تو خدا ان گو اپنے فضل سے خوشحال کردے گا ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَالْمَساكِينِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں اور محتاجوں ۔۔۔ کا حق ہے ۔ فقرالنفس : یعنی مال کی ہوس۔ چناچہ فقر کے اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا : کا دالفقر ان یکون کفرا ۔ کچھ تعجب نہیں کہ فقر کفر کی حد تک پہنچادے اس کے بلمقابل غنی کے معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الغنیٰ عنی النفس کو غنا تو نفس کی بےنیازی کا نام ہے ۔ اور اسی معنی میں حکماء نے کہا ہے ۔ من عدم القناعۃ لم یفدہ المال غنی جو شخص قیامت کی دولت سے محروم ہوا سے مالداری کچھ فائدہ نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف احتیاج جس کی طرف آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا (73) اللھم اغننی بالافتقار الیک ولا تفتونی بالاستغناء عنک ( اے اللہ مجھے اپنا محتاج بناکر غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کرکے فقیر نہ بنا ) اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : رَبِّ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] کہ پروردگار میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (342) ویعجبنی فقری الیک ولم یکن لیعجبنی لولا محبتک الفقر مجھے تمہارا محتاج رہنا اچھا لگتا ہے اگر تمہاری محبت نہ ہوتی تو یہ بھلا معلوم نہ ہوتا ) اور اس معنی میں افتقر فھو منتقر و فقیر استعمال ہوتا ہے اور فقر کا لفظ ) اگر چہ قیاس کے مطابق ہے لیکن لغت میں مستعمل نہیں ہوتا ۔ الفقیر دراصل اس شخص کو کہتے ہیں جس کی ریڑھ ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو چناچہ محاورہ ہے ۔ فقرتہ فاقرہ : یعنی مصیبت نے اس کی کمر توڑدی افقرک الصید فارمہ : یعنیشکار نے تجھے اپنی کمر پر قدرت دی ہے لہذا تیر ماریئے بعض نے کہا ہے کہ یہ افقر سے ہے جس کے معنی حفرۃ یعنی گڑھے کے ہیں اور اسی سے فقیر ہر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے ۔ فقرت اللفسیل : میں نے پودا لگانے کے لئے گڑھا کھودا شاعر نے کہا ہے ( الرجز) (343) مالیلۃ الفقیر الاالشیطان کہ فقیر میں رات بھی شیطان کی مثل ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں الفقیر ایک کنویں کا نام ہے۔ فقرت الخرز : میں نے منکوں میں سوراخ کیا ۔ افقرت البیعر اونٹ کی ناک چھید کر اس میں مہار ڈالنا ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ان تبدوا الصدقات فنعماھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم، (a) اگر اپنے صدقات علانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو یہ بھی اچھا ہے) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے لیکن صدقہ واجبہ کا اظہار افضل ہے تاکہ عدم ادائیگی کے الزا... م سے دامن بچا رہے۔ حسن بصری، یزید بن ابی حبیب اور قتادہ کا قول ہے کہ تمام صدقات میں اخفا افضل ہے اللہ تعالیٰ نے صدقہ کے اظہار کی اسی طرح تعریف کی ہے جس طرح صدقہ کے اخفاء کی۔ قول باری ہے (الذین ینفقون اموالھم باللیل والنھار سراً وعلانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم، (a) جو لوگ اپنا مال رات اور دن میں چھپا کر اور علانیہ (اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک اجر ہے) ۔ اور یہ جائز ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم) (a) نفلی صدقہ کے متعلق ہو جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ قول باری ان تمام صدقات کے متعلق ہو جن کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرنے والوں پر ہو خواہ وہ نفلی صدقات ہوں یا صدقات واجبہ۔ اور وہ صدقات ان میں داخل نہ ہوں جن کی وصولی امام المسلمین کے ذمہ ہو۔ تاہم آیت کا عموم تمام صدقات کا متقاضی ہے کیونکہ ’ الصدقات ‘ (a) الف لام جنس کے لئے ہے اس بنا پر یہ صدقہ کی تمام اقسام کو شامل ہے۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ تمام صدقات کا مصرف فقراء ہیں اور فقراء صرف فقر کی بنا پر ان کے مستحق ہیں۔ کسی اور وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (انما الصدقات للفقراء والمساکین) (a) میں صدقات کے جن مصارف کا ذکر فرمایا ہے ان کا استحقاق بھی فقر کی بنا پر ہے کسی اور وجہ سے نہیں۔ اصناف کا ذکر اس لئے ہوا ہے کہ ان تمام میں جو بات مشترک پائی جاتی ہے وہ فقر ہے۔ اور اسباب فقران سب کو عام ہے۔ البتہ ان مصارف میں سے مولفتہ القلوب اور عالمین زکوٰۃ صدقہ کو بطور صدقہ نہیں لیتے بلکہ امام المسلمین کے ہاتھوں میدں یہ صدقات فقراء کے لئے آتے ہیں پھر ان کو مؤلفتہ القلوب اور عالمین پر صدقہ کی بنا پر خرچ نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے عمل کے عوض کے طور پر خرچ کیا جاتا ہے یا اہل اسلام سے ان کی ایذاء رسانی کو دور رکھنے یا انہیں اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔ اس آیت سے ہمارے مخالفین نے یہ استدلال کیا ہے کہ صدقات کی تمام مدیں فقراء کو دینا جائز ہے۔ امام المسلمین کو ان کی ادائیگی ضروری نہیں، نیز یہ کہ جب لوگ مویشیوں کی زکوٰۃ فقراء کو دے دیں تو پھر امام کا حق باقی نہیں رہتا کہ وہ ان سے اس کی وصولی کرے۔ کیونکہ قول باری ہے (وان تخفوھا وتوتوھا الفقرآء فھو خیرلکم) (a) یہ آیت تمام صدقات کے لئے عام ہے کیونکہ لفظ ’ الصدقۃ ‘ اسم جنس ہے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں ہمارے نزدیک کوئی ایسی دلالت موجود نہیں ہے جس سے ان مخالفین کا قول ثابت ہوجائے۔ اس لئے کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کرنے والے کے لئے یہ طریقہ بہتر ہے۔ اس سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ وصولی کے سلسلے میں امام کا حق ساقط ہوگیا۔ نیز از خود ادائیگی کا بہتر ہونا وصولی کے سلسلے میں امام کے حق کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ از خود ادائیگی کرکے بہتر صورت حال حاصل کرلی جائے اور امام کو دوبارہ ادا کرکے اس خیر کو اور بڑھالیا جائے۔ علاوہ ازیں ہم نے پہلے ذکر کردیا ہے کہ بعض لوگوں کا قول ہے کہ زیر بحث آیت نفلی صدقہ کے متعلق ہے۔ صدقہ واجبہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ بعض اہل علم کا یہ قول ہے کہ اس بات پر گویا اجماع ہوگیا ہے کہ صدقہ واجبہ یعنی زکوٰۃ و عشر وغیرہ کی اعلانیہ ادائیگی چھپا کر ادا کرنے سے افضل ہے۔ جیسا کہ فرض نمازوں کے متعلق فقہاء کا قول ہے۔ اسی بنا پر اہل اسلام کو حکم دیا گیا کہ وہ فرض نمازوں کے لئے اذان دیں اقامت کہیں اور اعلانیہ جماعت کی صورت میں اس کی ادائیگی کریں۔ یہی حکم تمام فرض عبادتوں کا ہے تاکہ کسی زکوٰۃ یا نماز کی عدم ادائیگی کا الزام عائد نہ ہوسکے۔ ان حضرات کا قول ہے کہ درج بالا تشریح کی روشنی میں یہ ضروری ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھو خیر لکم) (a) کا تعلق نفلی صدقہ کے ساتھ ہو کیونکہ نفلی عبارات کی پس پردہ ادائیگی اعلانیہ ادائیگی سے افضل ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ریاکاری کا کم سے کم شائبہ ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے آپ نے فرمایا (سبعۃ یظلھم اللہ فی ظل عرشہ احدھم دجل تصدق بصدقۃ لم تعلم شمالہ ماتصدقت بہ یمینہ، (a) سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں رکھے گا۔ ان میں سے ایک وہ ہوگا جس نے اللہ کی راہ میں صدقہ دیا ہوگا لیکن اس قدر چھپا کر کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلا ہوگا کہ اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے کیا دیا) یہ صورت صرف نفلی صدقہ کی ہے فرض کی نہیں۔ آیت سے نفلی صدقہ مراد ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنے مویشیوں کی زکوٰۃ نہ نکالی ہو اور اس کے پاس اس کی وصولی کے لئے عامل یعنی سرکاری کارندہ آجائے تو اس صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ زکوٰۃ سرکاری کارندہ کے حوالے کردے۔ اس لئے اس صورت میں زکوٰۃ کی اعلانیہ ادائیگی اس پر فرض ہوجائے گی۔ اس میں یہ دلیل پوشیدہ ہے کہ قول باری (وان تخفوھا وتوتوھا الفرآء) (a) سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب !  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧١) ظاہر کرکے یا چھپا کر صدقہ و خیرات کرنا ان میں سے کون سا طریقہ زیادہ اچھا ہے، اب اللہ تعالیٰ اس کو بیان فرماتے ہیں، اگر صدقہ واجبہ کو ظاہر کرکے ادا کرو تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر صدقات نفلیہ کو پوشیدہ طریقے پر مثلا اصحاب صفہ کو دے دو تو یہ ظاہر کرنے سے بہتر ہے اور دونوں طریقے اللہ کے ہاں مقبول ہ... یں اور تمہارے صدقات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ اہل کتاب اور مشرکین پر نفلی صدقات وغیرہ خرچ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور سبب یہ ہوا کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) یا بنت ابوالنضر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہمارے لیے اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا، صدقات دینا جائز ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧١ (اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاہِیَ ج) ۔ خاص طور پر زکوٰۃ کا معاملہ تو علانیہ ہی ہے۔ تو اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ کم سے کم فقراء کا حق تو ادا ہوگیا ‘ کسی کی ضرورت تو پوری ہوگئی۔ (وَاِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط)...  ۔ یاد رہے کہ یہ بات صدقات نافلہ کے لیے ہے۔ لیکن جو صدقات واجبہ ہیں ‘ جو لازماً دینے ہیں ‘ مثلاً زکوٰۃ اور عشر ‘ ان کے لیے اخفاء نہیں ہے۔ یہ دین کی حکمت ہے ‘ اس کو ذہن میں رکھیے کہ فرض عبادات علانیہ ادا کی جائیں گی۔ یہ وسوسہ بھی شیطان بہت سوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ کیا پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے لوگوں پر اپنے تقویٰ کا رعب ڈالنا چاہتے ہو ؟ گھر میں پڑھ لیا کرو ! یا داڑھی اس لیے رکھو گے کہ لوگ تمہیں سمجھیں کہ بڑا متقی ہے ؟ ایسے وساوس شیطانی کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور جو چیز فرض و واجب ہے ‘ وہ علی الاعلان کرنی چاہیے ‘ اس کے اظہار میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ہاں جو نفلی عبادات ہیں ‘ صدقات نافلہ ہیں یا نفل نماز ہے اسے چھپا کر کرنا چاہیے۔ نفل عبادت کا اظہار بہت بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم اپنے صدقات چھپا کر چپکے سے ضرورت مندوں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

311. If charity is of an obligatory nature it is preferable to dispense it openly. Non-obligatory charity should preferably be dispensed secretly. This principle applies to all acts. As a rule, it is more meritorious to perform obligatory acts openly and non-obligatory acts of goodness, secretly . 312. The performance of good deeds in secret leads to the continual improvement of one's life and ch... aracter. One's good qualities develop fully and one's bad qualities gradually wither away. This makes a man so acceptable to God that He pardons the sins that he might have committed.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :311 جو صدقہ فرض ہو ، اس کو علانیہ دینا افضل ہے ، اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو ، اس کا اخفا زیادہ بہتر ہے ۔ یہی اصول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا افضلیت رکھتا ہے اور نوافل کو چھپا کر کرنا اولیٰ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :312 یعنی چھپا کر ... نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے ، اس کے اوصاف حمیدہ خوب نشونما پاتے ہیں ، اس کی بری صفات رفتہ رفتہ مٹ جاتی ہیں ، اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامہ اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:271) ان تبدوا الصدقت۔ جملہ شرطیہ ہے۔ فنعما ہی جواب شرط۔ ان شرطیہ تبدوا مضارع مجزوم جمع مذکر حاضر۔ ابداء (افعال) مصدر (اگر) تم ظاہر کرو۔ الصدقت صدقۃ کی جمع۔ خیراتیں۔ زکوتیں۔ فنعما میں ف جواب شرط کے لئے ہے نعما ہی وہ کیا ہی اچھا ہے۔ اصل میں نعم ما ہی تھا۔ دونوں میموں میں ادغام ہوگیا اور عین پر جوان...  نون کی وجہ سے کسرہ آگیا۔ ہی ضمیر واحد مؤنث مراد اظہار الصدقہ ہے۔ وان تخفوھا۔ جملہ شرطیہ۔ ان شرطیہ۔ تخفوا مضارع جمع مذکر حاضر۔ اخفاء (افعال) مصدر۔ ان شرطیہ کے آنے سے نون اعرابی مضارع سے ساقط ہوگیا ۔ ھا ای الصدقۃ ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ وتؤتوھا الفقرا۔ واؤ عاطفہ جملہ کا عطف جملہ ماقبل پر ہے ای وان تؤتوھا الفقراء الفقراء مفعول ثانی ہے فعل تؤتوا کا (اگر تم صدقات کو پوشیدہ رکھو اور دو ان کو حاجتمندوں کو) یہ جملہ بھی شرطیہ ہے۔ دونوں شرطیہ جملوں کا جواب اگلا جملہ فھو خیرلکم ہے۔ ھا ضمیر مفعول اول واحد مؤنث غائب ۔ فھو میں ف جواب شرط کے لئے ہے۔ ھو ضمیر واحد مذکر غائب سے مراد اخفاء الصدقۃ ہے ویکفر۔ جملہ فعلیہ ہے ای واللہ یکفر عنکم من سیئاتکم اور ما قبل پر معطوف نہیں ہے ۔ یکفر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ تکفیر (تفعیل) مصدر وہ دور کر دے گا وہ ساقط کر دے گا۔ من سیئاتکم میں من زائدہ بھی ہوسکتا ہے اور تبعیضیہ بھی۔ سیئاتکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے گناہ۔ سیئۃ کی جمع۔ من کے زائدہ ہونے کی صورت میں ترجمہ ہوگا۔ وہ تمہارے گناہ ساقط کر دے گا۔ اور اس کے تبعیضیہ ہونے کی صورت میں ترجمہ ہوگا : وہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا۔ یعنی صغیرہ گناہ معاف کر دے گا واللہ بما تعلمون خبیر۔ اللہ مبتدا خبیر۔ خبر۔ بما یعلمون متعلق خبر۔ ما موصولہ بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور ما مصدریہ بھی ہوسکتا ہے۔ اللہ تمہارے اعمال کی نیت اور غرض سے واقف ہے۔ خبیر۔ خبر سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔ قرآن مجید میں یہ ذات باری تعالیٰ ہی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ خبر وخبر وخبرۃ بمعنی حقیقت حال سے پوری طرح باخبر ہونا۔ خبیر۔ جو پوشیدہ چیز کو جاننے والا ہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی صدقہ علا نیہ دینا بھی گو اچھا ہے مگر پوشیدہ طو پر دینا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے نفلی صدقات مراد ہیں۔ (شوکانی) اس کے بر عکس فرض زکوہ گوپوشیدہ طور پر دینا جائز ہے مگر اس کا اظہار افضل ہے۔ اما طبری لکھتے ہیں کہ اس امت کا اجماع ہے۔ (فتح الباری ج 6 ص 22) متعدد احادیث میں...  نفلی صدقت کو پوشیدہ طور پر دینے کی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نفلی صدقہ چھپا کردینے والا قیامت کے دن ان سات شخصو میں سے ایک ہوگا جنکو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس روز کہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری مسلم )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 271 تا 272 تبدوا (تم ظاہر کرتے ہو) ۔ نعما (بہتر ہے) ۔ تخفوا (تم چھپاتے ہو) ۔ تؤتوا (تم دیتے ہو) ۔ یکفر (وہ دور کر دے گا) ۔ سیات (گناہ، خطائیں) ۔ یھدی (ہدایت دیتا ہے) ۔ یوف (پورا کردیا جائے گا) ۔ تشریح : آیت نمبر 271 تا 272 صدقات کی ادائیگی میں بنیادی بات تو یہی ہے کہ اس کو ... اس انداز سے دیا جائے کہ داہنے ہاتھ سے دینے پر بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہو۔ لیکن اگر ظاہر کرنے میں دوسروں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دینا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ کسی اجتماعی مہم کے لئے لوگوں کو ابھارنا اور شوق دلانا مقصود ہو تو اس میں یہ دکھاوا اور ریا کاری نہیں کہلائے گی۔ اگر ایسے حالات نہ ہوں تو بہتر یہی ہے کہ پوشیدہ طریقے سے غریبوں کی امداد کی جائے تا کہ حق حق داروں تک پہنچ جائے اور ریا کاری اور نمائش کے فتنے سے بھی محفوظ رہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ صدقات واجبہ جیسے زکوٰۃ اور متعین منت وغیرہ ہو تو اس کو کھلے عام دے تا کہ دوسروں کو اس فرض کی ادائیگی پر رغبت اور شوق پیدا ہو لیکن وہ صدقات جو انسان پر واجب نہیں ہوتے وہ محض اللہ کی رضا کے لئے نکالتا ہے ایسے صدقات کو جس قدر خاموشی اور پوشیدہ طریقہ سے دے گا اسی قدر اللہ کے ہاں اس کی قدرو منزلت ہوگی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہ آیت فرض اور نفل صدقات کو شامل ہے اور سب میں اخفاء ہی افضل ہے اور مراد فضیلت اخفاء ہی افضل ہے اور مراد افضلیت اخفاء سے آیت میں افضلیت فی نفسی ہے پس اگر کسی مقام پر کسی عارض سے مثلا رفع تہمت یا امید کو ترجیح ہوجائے تو افضلیت فی نفسہ کے منافی نہیں اور یہ جو کہا کچھ گناہ تو وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسے...  حسنات سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں۔  Show more

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : صدقہ کے متعلق وضاحت اور اخروی فائدہ۔ نیت خالص ہو تو دوسرے کی خود داری کو مدنظر رکھ کر حالات کے مطابق خفیہ کی بجائے علانیہ صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ زکوٰۃ اور فرضی صدقات علانیہ طور پر دینا چاہییں تاکہ لوگوں کو ترغیب دی جاسکے۔ عام صدقات خفیہ طور پر دینا زیاد... ہ افضل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت کا مزاج یہی ہے کیونکہ اکثر اوقات خفیہ طور پر صدقہ کرنے سے دینے اور لینے والوں پر نہایت ہی دور رس اور پاکیزہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے مسکین کی خود داری اور صدقہ کرنے والے کی لِلّٰہیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات انسان کی نیت اور مساکین کے حالات پر منحصر ہے کہ صدقہ کب اور کس انداز میں دینا چاہیے ؟ یہاں اعلانیہ کو بہتر اور خفیہ کو خیر قرار دیا ہے اور یہ بھی ضمانت دی گئی ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ صدقہ کرنے والے کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ آخری الفاظ اس بات کے ترجمان ہیں کہ صدقہ خفیہ ہو یا اعلانیہ تم جن جذبات کے ساتھ صدقہ کرو گے اللہ تعالیٰ اس جذبے اور صدقہ کے ایک ایک ذرّے سے باخبر ہے۔ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک آدمی نے کہا میں ضرور صدقہ کروں گا وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا تو اس نے صدقہ ایک چور کو دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے باتیں کیں کہ رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا ہے۔ اس نے کہا اے اللہ ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں میں پھر صدقہ کروں گا۔ وہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے ایک بدکار عورت کو صدقہ دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات زانیہ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا : میں پھر صدقہ کروں گا۔ تیسری مرتبہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے صدقہ ایک مالدار کو دے دیا تو صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات کسی شخص نے مالد ار کو صدقہ دیا ہے۔ تو اس نے کہا : اے اللہ ! چور، بدکارہ اور مالدار کو صدقہ دینے پر تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں۔ پھر اس کو خواب میں کہا گیا کہ شاید تیرے صدقہ دینے سے چور چوری اور بدکار بدکاری سے باز آجائے اور مالدار عبرت پکڑ کر اللہ کے دیئے ہوئے مال سے صدقہ کرنے لگے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب إذا تصدق علی غنی وہو یعلم ] مسائل ١۔ صدقہ علانیہ اور خفیہ دونوں طرح دیا جاسکتا ہے۔ ٢۔ صدقہ کرنے والے کے گناہ معاف اور اسے برکت نصیب ہوتی ہے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

صدقہ اگر نفلی ہو تو اس صورت میں اللہ کے ہاں پسندیدہ یہ ہے کہ وہ خفیہ ہو ، اور اس لائق ہے کہ اس میں ریاکاری اور دکھاوے کا شائبہ تک نہ ہو ۔ لیکن اگر صدقہ ، صدقات واجبہ اور فرائض میں سے ہو ، تو اس میں اطاعت اور حکم کی بجاآوری کا پہلو بھی ہوتا ہے ۔ اور اس پہلو کا اظاہر اور اشاعت زیادہ مطلوب ہے ۔ یہی وجہ...  ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ................ ” اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو تو تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ “ اس میں ان دوحالتوں کا ذکر کردیا گیا ہے ۔ اس لئے ہر صورت کو اس وقت کے موجودہ حالات کی نسبت اختیار کیا جاتا ہے اور ہر بات عملاً موجودہ حالت کے مطابق اچھی یابری شمار ہوتی ہے۔ بہرحال اہل ایمان انفاق فی سبیل اللہ کے لئے جو صورت بھی اختیار کریں ، اس پر ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے کہ یہ ان گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ................ ” تمہاری بہت سی برائیاں محو کردے گا ۔ “ ایک طرف اہل ایمان کے دل خدا خوفی اور برائی کے مقابلے میں پرجوش اور ہوشمند ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف وہ راحت ، اطمینان کا صلہ پاتے ہیں ۔ اور نیت اور اعمال کے ہر مرحلے اور ہر حال میں وہ تعلق باللہ قائم رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ................ ” اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ کو بہرحال اس کی خبر ہے۔ “ یہاں مناسب ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی ان طویل ہدایات پر قدرے غور کریں ۔ ان ہدایات میں مختلف انداز میں ترغیب و ترہیب سے بھی کام لیا گیا ہے ۔ اس غو روفکر سے ہمیں دو باتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ پہلی یہ کہ اسلامی نظام میں انسان کے مزاج اور اس کی طبیعت کا پورا خیال رکھا گیا ہے ۔ انسانی مزاج میں بخل اور کنجوس داخل ہے ۔ انسان مال سے بےحد محبت کرتا ہے ۔ اور اس بات کی ضرورت ہے کہ بار بار اسے انفاق فی سبیل اللہ پر آمادہ کیا جائے ۔ اس کے سر انجام دینے کے لئے اسے بار بار جوش دلاتے رہنا چاہئے تاکہ وہ اس بخل اور لالچ سے ذرا بلند ہوکر سوچے اور بخل وکنجوسی کے بندھنوں سے رہائی پائے ۔ اور اس رتبہ بلندپر فائز ہو جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے پسند کیا ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ عربی معاشرہ میں جودوکرم ایک عام صفت تھی لیکن وہ لوگ جودوکرم محض اس لئے کرتے تھے کہ انہیں شہرت عام نصیب ہو ، ان کی فیاضی کا ڈھنڈورہ پٹ جائے ۔ شہروں اور بازاروں میں ان کا تذکرہ ہو ۔ اسلام کے لئے یہ آسان نہ تھا کہ وہ ابتدائے کار ہی میں لوگوں سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ ان امور میں سے کسی کا انتظار کئے بغیر ہی اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔ اور ان امور میں سے کسی کا کوئی لحاظ نہ رکھیں ۔ صرف اللہ کی ذات پیش نظر ہو اور عوام الناس ہو خاطر ہی میں نہ لائیں ۔ یہ مقام تو ایک طویل تعلیم وتربیت ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ وہ بھی ایک طویل جدوجہد کے بعد ۔ یہ تو تب حاصل ہوگا کہ لوگوں کو یہ بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مسلسل پکارا جائے اور ان کو تزکیہ اور اخلاص کی تربیت دی جائے ۔ چناچہ تحریک اسلامی نے مسلسل یہ کام جاری رکھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اب اہل ایمان سے روئے سخن پھیر کر ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اور روئے سخن اس لئے پھیر دیا جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق یہاں ذہن نشین کردئیے جائیں جن کا اسلامی تصور حیات کی نشوونما میں بہت زیادہ دخل ہے ، اور اسلامی نظام زندگی کے حوالے سے اسلامی طرز عمل اختیار کرنے اور انسانی طرز عمل کو درست کرنے میں وہ بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صدقات کو ظاہر کر کے یا پوشیدہ طریقہ پر دینا اس آیت شریفہ میں صدقات دینے کے بارے میں ایک بہت اہم بات ذکر فرمائی ہے اور وہ صدقات ظاہر کرکے دینے اور چھپا کردینے کے متعلق ہے اول تو یہ سمجھنا چاہئے کہ ریا کاری جس کا نام ہے وہ خواہ مخواہ چپکتی نہیں پھرتی وہ تو نیت اور ارادہ کا نام ہے، جو کوئی شخص نماز پڑ... ھے یا ذکر کرے یا زکوٰۃ دے یا صدقہ نافلہ دے اور اس کی نیت یہ ہو کہ لوگ مجھے نیک سمجھیں، میرا نام ہو، میری شہرت ہو تو یہ ریا کاری ہوگی اور گناہ ہوگا جس سے اعمال اکارت ہوجائیں گے، لیکن اگر کوئی شخص صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جانی و مالی عبادت کرے چاہے لوگوں کے سامنے ہی ہو اور اس سے نام و نمود شہرت مقصود نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اگر یہ نیت ہو کہ لوگوں کے سامنے عمل کرنے سے دوسروں کو بھی ترغیب ہوگی تو اس نیت کا مستقل ثواب ملے گا، حضرت ابوہریرہ (رض) نے اپنا واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے گھر کے اندر اپنی نماز کی جگہ نماز پڑھ رہا تھا کہ آدمی داخل ہوا اس نے مجھے دیکھ لیا اس کے آنے سے مجھے یہ بھلا معلوم ہوا کہ اس نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ عرض کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ تجھ پر اللہ کی رحمت ہو اس میں تیرے لیے دو اجر ہیں، پوشیدہ عمل کرنے کا اجر بھی اور ظاہراً عمل کرنے کا اجر بھی۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابوہریرہ (رض) نے جو یہ بیان کیا کہ ” مجھے یہ بھلا معلوم ہوا کہ اس نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا “ اس کے بیان کرنے میں یا تو ان کا یہ مطلب تھا کہ میرے نفس میں ریا کاری کا وسوسہ آگیا کہ مجھے ایک آدمی نے تنہائی میں نماز پڑھتے دیکھ لیا یا یہ مطلب تھا کہ نفس کو اس بات کی خوشی ہوئی کہ یہ جو آدمی آیا ہے یہ میرا عمل دیکھ کر خود بھی عمل کرے گا۔ بہر حال جو بھی صورت ہو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دوہرے اجر کی خوشخبری دی۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ ریا لوگوں کے سامنے عمل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ تو اندر کے اس جذبہ کا نام ہے کہ لوگ میرے معتقد ہوں اور مجھے اچھا کہیں اور عبادت کی وجہ سے میری تعریف ہو۔ اس تمہید کے بعد آیت بالا کی تفسیر ذہن نشین کر لینی چاہئے، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ اگر تم صدقات ظاہر کر کے دے دو تو یہ بھی اچھی بات ہے، جب نیت خالص ہے اور اللہ کی رضا مقصود ہے تو یہ ادائیگی ریا کاری نہ رہی اور اس میں اس فائدہ کی امید ہے کہ دوسروں کو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہوگی پھر فرمایا اور اگر تم صدقات کو چھپا کردو تو تو یہ تمہارے لیے ظاہر کرکے دینے سے زیادہ بہتر ہے۔ ظاہر کر کے دینے کو اچھی بات بتایا اور چھپا کردینے کو زیادہ بہتر بتایا، کیونکہ چھپا کردینے میں احتمال ریا کا ختم ہوجاتا ہے اور نفس کے پھولنے کا احتمال باقی نہیں رہتا۔ اور اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جس کو صدقہ دیا جائے وہ تنہائی میں لینے سے شرماتا نہیں اور اپنی خفت بھی محسوس نہیں کرتا۔ الفاظ آیت کے عموم سے معلوم ہو رہا ہے کہ چھپا کردینا ہی زیادہ بہتر ہے۔ بعض حالات کے اعتبار سے لوگوں کے سامنے خرچ کرنا زیادہ باعث فضیلت ہوجائے وہ دوسری بات ہے مثلاً کسی جگہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا رواج نہیں ہے لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے ہیں فریضہ زکوٰۃ زندہ کرنے اور اس کا رواج ڈالنے کے لیے لوگوں کے سامنے دے یا کوئی ایسا شخص ہو جس کی اقتداء میں لوگوں کو خرچ کرنے کی طرف توجہ ہوگی تو ایسی صورت میں لوگوں کے سامنے دینے اور خرچ کرنے میں چھپا کردینے سے زیادہ ثواب ہوسکتا ہے اصل چیز اخلاص نیت ہے اور نفس پر قابو پانا چونکہ ہر شخص کے بس کا نہیں ہے اس لیے چھپا کر خرچ کرنے کو زیادہ بہتر اور افضل بتایا ہے، بہت سے لوگ دیتے تو تنہائی میں ہیں لیکن اخبارات کے ذریعے شہرت حاصل کرتے ہیں اور مساجد و مدارس کی روئیدا دوں میں اپنا نام لانے کی کوشش کرتے ہیں اور بڑے بڑے القاب و آداب کے ساتھ اپنا نام چھپنے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ تنہائی میں دینے کا کیا فائدہ ہوا ؟ جبکہ دل میں ریا کاری کی موجیں اٹھ رہی ہیں۔ عمل ظاہر میں کرے یا پوشیدہ کرے صرف اللہ کی رضا مقصود ہو اور عمل کی جو خوبی ظاہر میں ہو وہی پوشیدہ حالت میں ہو تو یہ دلیل اخلاص ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بندہ جب لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور اچھی طرح نماز پڑھتا ہے اور پوشیدہ طور پر نماز پڑھتا ہے تب اچھی نماز پڑھتا ہے تو اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ واقعی یہ میرا بندہ ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٥٥) صاحب روح المعانی (ص ٤٤ ج ٣) لکھتے ہیں کہ چھپا کر صدقہ کرنے کے بارے میں کثیر تعداد میں احادیث و آثار و ارد ہوئے ہیں پھر مسند احمد سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوذر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کون سا صدقہ افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ جو صدقہ کسی فقیر کو چپکے سے دے دیا جائے یا ایسا شخص صدقہ کر دے جو تنگدست ہوتے ہوئے محنت اور کوشش کر کے مال حاصل کرے اور صدقہ دے دے اس کے بعد آپ نے آیت بالا تلاوت فرمائی۔ صحیح بخاری ص ٩١ ج ١ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سات افراد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، ان سات آدمیوں میں ایک وہ شخص ہے جس نے دائیں ہاتھ سے اس طرح چھپا کر صدقہ دیا کہ اس سے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

533 صدقات سے یہاں جمہور کے نزدیک نفلی صدقات مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اگر نفلی صدقات علانیہ غریبوں کو دئیے جائیں تو یہ بھی اچھا ہے کیونکہ اس سے دوسروں کے دلوں میں بھی خیرات کا جذبہ بیدار ہوگا اور اگر نفلی صدقات پوشیدہ طور پر مستحقین کو دے دئیے جائیں تو یہ علانیہ دینے سے بہتر ہے کیونکہ اس طرح عمل ری... اکاری سے محفوظ رہتا ہے لیکن اعمال مفروضہ مثلاً زکوۃ، صوم رمضان اور فرض نماز کا اظہار بہتر ہے۔ تاکہ ترک فرض کے الزام سے محفوظ رہے۔ والمراد من الصدقات علی ما ذھب الیہ جمھور المفسرین صدقات التطوع (روح ص 44 ج 3) ذھب جمہور المفسرین الی ان ھذہ الایۃ فی صدقۃ التطوع لان الاخفاء فیھا افضل من الاظھار وکذالک سائر العبادات الاخفاء افض (رح) فی تطوعھا لانتفاء الریاء عنھا ولیس کذالک الواجبات قال الحسن اظھار الزکوۃ احسن واخفاء التطوع افضل (کبیر ص 519 ج 2) ۔ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّاٰتِكُمْ ۭ۔ ان نیکیوں کی برکت سے اللہ تمہاری خطائیں معاف کردے گا۔ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عالم الغیب خبیر وبصیر اور حاضر وناظر ہونے کے نظرئیے کو بار بار دہرایا ہے۔ کیونکہ گناہوں سے بچنے کا سب سے زیادہ مؤثر اور اکسیری نسخہ یہی ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو اور علانیہ خیرات کردو تو بھی یہ اچھی بات ہے اگر ان صدقات کو پوشیدہ رکھو اور پوشیدہ طور پر فقیروں کو پہنچا دو اور فقرا کو دیدو تو یہ چھپا کر فقیروں کو دینا تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کچھ گناہ تم سے دور کر دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ...  تمہارے کئے ہئے سب کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔ (تیسیر) چونکہ لوگوں کے حالات مختلف ہیں کوئی علانیہ دینے کو پسند کرتا ہے کوئی چاہتا ہے چھپا کر دے حضرت حق تعالیٰ نے دونوں طرح دینے کی اجازت فرما دی اگرچہ اخفا کو ترجیح دی کہ یہ طریقہ ہر اعتبار سے مامون و محفوظ ہے اس میں ریا کا بھی کوئی موقعہ نہیں اور فقیر کو بھی شرمندگی نہیں ہوتی اور اگر کسی کو پورا اطمینان ہو اور اس کی نیت یہ ہو کہ دوسروں کو بھی خیرات کی ترغیب ہو تو علانیہ خیرات میں بھی مضائقہ نہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے صدقات واجبہ کا ظاہر کر کے دنیا بہتر ہے اور صدقات نافلہ کا چھپا کردینا بہتر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا ایک قول ہے کہ نفلی خیرات کا خفیہ دینا علانیہ دینے سے ستر درجے زیادہ افضل ہے اور صدقات مفروضہ کا علانیہ دینا چھپا کردینے سے پچیس درجے زیادہ افضل ہے اور یہی حال دوسرے فرائض و نوافل کا ہے کہ فرائض کو ظاہر کر کے ادا کرے اور نوافل کو پوشیدہ رکھے۔ بعض حضرات نے صدقات نافلہ اور صدقات مفروضہ دونوں میں اخفا کو افضل کہا ہے۔ بہرحال سب قسم کی گنجائش ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ ہر شخص کی حالت جدا ہے اور ہر شخص اپنے قلب کی کیفیت کا خود ہی صحیح اندازہ لگا سکتا ہے۔ اگرچہ صدقات کا کفارئہ سیات ہونا ظاہر ہے خواہ علانیہ ہوں یا خفیہ یہ مطلوب نہیں کہ صرف خفیہ صدقات سے سیئات دور کئے جائیں گے علانیہ سے نہیں مگر یہاں دونوں احتمال ہیں کہ یہ جملہ یکفر عنکم یا تو مستقل جملہ ہے اور یا ان تحفوھا کی قید ہ۔ ہم نے جو کچھ عرض کیا ہے وہ پہلی تقدیر پر عرض کیا ہے اور اگر دوسری صورت ہ تب بھی اس معنی کو متلزم نہیں کہ علانیہ صدقہ دینے سے گناہ معاف نہ ہوں گے۔ بلکہ اس تخصیص کا منشا صرف اس قدر ہوگا کہ خفیہ دینے والے کو ایک ایسے فائدے سے آگاہ کرنا ہوگا جو قریب الحصول ہے ۔ آیت کی دوسری ترکیب کی بنا پر ترجمہ یوں ہوگا۔ اگر تم اپنے صدقات چھپا کردو گے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے کچھ گناہ اس اخفا سے معاف ہوجائیں گے یا یہ اخفا تمہارے کچھ گناہ تم سے دور کر دے گا۔ (واللہ اعلم) گناہ سے مراد صغیرہ گناہ ہیں اور یہی جمہور کا مذہب ہے کہ اعمال خیر سے صغائر دور ہوجاتے ہیں وہاں اخفش نے اس من کو زائدہ قرار دیا ہے اور اس تقدیر پر یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ تم سے دور کر دے گا ۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ یہ معنی بھی کچھ مستبعد یا جمہور کے خلاف نہیں ہیں۔ صغائر تو صرف صدقات کی برکت سے زائل کردیئے جائیں گے اور کبائر کے لئے انہی صدقات کی برکت سے … توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے گی اور اس طرح تمام سیئات زائل کردیئے جائیں گے کیونکہ کبائر کی معافی کے لئے علمائنے دو ہی صورتیں فرمائی ہیں ایک توبہ دوسرے فضلو رحمت البتہ کسی عمل خیر کا مقبول ہوجانا شرط ہے اور اگر بدنصیبی سے کوئی عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہ کرسکے تو پھر صغائر کی بھی توقع نہیں چہ جائیکہ کبائر آخر میں ارشاد ہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے خواہ کوئی عمل علانیہ ہو یا خفیہ ہم سے کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے اسی طرح تمہارے صدقات بھی خواہ علانیہ ہوں یا پوشیدہ بہرحال ہم سے مخفی نہیں ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے قیامت کے دن سات قسم کے آدمی عرش الٰہی کے سایہ میں ہوں گے ان سات میں ایک وہ شخص بھیہو گا جو سیدھے ہاتھ سے دیتا ہے اور الٹے ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی ایک اور حدیث میں ہے پوشیدہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے۔ انس بن مالک سے ایک روایت مروی ہے جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو پیدا کیا تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے اللہ ! بھلا اس مخلوق سے بھی کوئی مخلوق سخت آپ نے پیدا کی ہے۔ ارشاد ہوا ! لوہا اس سے زیادہ سخت ہے فرشتوں نے عرض کی لوہے سے بھی کوئی سخت ہے ارشاد ہوا۔ ہاں آگ ہے پھر فرشتوں نے عرض کی۔ الٰہی ! آگ سے بھی کوئی چیز زیادہ سخت ہے ارشاد ہوا پانی پھر فرشتوں نے عرض کیا الٰہی ! پانی سے بھی کوئی چیز سخت ہے ارشاد ہوا ہم نے ہوا کو پیدا کیا ہے پھر فرشتوں نے عرض کیا اے پروردگار ! بھلا ہوا سے بھی کوئی چیز سخت تر ہے ارشاد ہوا ہمارے وہ بند وہ بندہ جو سیدھے ہاتھ سے دیتا ہے اور الٹے ہاتھ کو خبر نہیں ہونے دیتے۔ حضرت حسن بصری (رض) کا قول بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں صدقات مفروضہ اور نافلہ دونوں مراد ہیں اور دونوں میں بجائے اعلان کے اخفاء افضل ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اگر نیت دکھاوے کی نہ ہو تو خیرات کھلی بھی بہتر کہ اوروں کو شوق آوے اور چھپی بھی بہتر ہے کہ لینے والا نہ شرما دے ۔ (موضح القرآن) اب آگے صدقات کے متعلق ایک اور بات ارشاد ہوتی ہے۔ بعض لوگ صرف مسلمانوں کو خیرات دیتے تھے اور کافروں کو نہیں دیا کرتے تھے۔ مدینہ کے بعض انصار اس خیال سے اپنے کافر رشتہ داروں کو خیرات نہیں دیتے تھے کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور خیرات کی رکاوٹ سے اسلام قبول کرلیں اس پر آگے کی آیت نازل ہوئی۔ (تسہیل)  Show more