Giving Charity to Polytheists
Allah says;
لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ
Not upon you (Muhammad) is their guidance, but Allah guides whom He wills. And whatever you spend in good, it is for yourselves, when you spend not except seeking Allah's Face. And whatever you spend in good, it will be repaid to you in full, and you shall not be wronged.
Abu Abdur-Rahman An-Nasa'i recorded that Ibn Abbas said that;
they, "Disliked giving charity to their polytheist relatives, but were later on allowed to give it to them when they inquired about this matter, and this Ayah was revealed."
Allah's statement,
...
وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلنفُسِكُمْ
...
And whatever you spend in good, it is for yourselves,
is similar to His other statement,
مَّنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلِنَفْسِهِ
Whosoever does righteous good deed, it is for (the benefit of) his ownself.
There are many other similar Ayat in the Qur'an.
Allah said next,
وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ
...
When you spend not except seeking Allah's Face.
Al-Hasan Al-Basri commented,
"Whenever the believer spends, including what he spends on himself, he seeks Allah's Face with it."
Ata Al-Khurasani said that the Ayah means,
"You give away charity for the sake of Allah. Therefore, you will not be asked about the deeds (or wickedness) of those who receive it."
This is a sound meaning indicating that when one spends in charity for Allah's sake, then his reward will be with Allah. He will not be asked if the charity unintentionally reached righteous, evil, deserving or undeserving persons, for he will be rewarded for his good intention. The proof to this statement is the Ayah,
...
وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ
And whatever you spend in good, it will be repaid to you in full, and you shall not be wronged.
The Two Sahihs recorded a Hadith by Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said,
قَالَ رَجُلٌ لاَاَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ فَخَرجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لاَاَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ
A man said, "Tonight, I shall give charity." He went out with his charity and (unknowingly) gave it to an adulteress. The next morning the people said that alms were given to an adulteress. The man said, "O Allah! All the praises are for You. (I gave my alms) to an adulteress. Tonight, I shall give alms again."
فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيَ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى غَنِيَ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى غَنِيَ لاََتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ
He went out with his charity and (unknowingly) gave it to a rich person. The next morning (the people) said, "Last night, a wealthy person was given alms." He said, "O Allah! All the praises are for You. (I gave alms) to a wealthy man. Tonight, I shall again give charity."
فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِيَ وَعَلَى سَارِقٍ
So he went out with his charity and (unknowingly) gave it to a thief. The next morning (the people) said, "Last night, a thief was given alms." He said, "O Allah! All the praises are for You. (I have given alms) to an adulteress, a wealthy man and a thief."
فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ قُبِلَتْ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهَا عَنْ زِنَاهَا وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللهُ وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهَا عَنْ سَرِقَتِه
Then, someone came to him and said, "The alms that you gave away were accepted. As for the adulteress, the alms might make her abstain from adultery. As for the wealthy man, it might make him take a lesson and spend his wealth that Allah has given him. As for the thief, it might make him abstain from stealing."
Who Deserves Charity
Allah said,
مستحق صدقات کون ہیں
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مسلمان صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا ناپسند کرتے تھے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری اور انہیں رخصت دی ، فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ صدقہ صرف مسلمانوں کو دیا جائے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرما دیا ہر سائل کو دو ، گو وہ کسی مذہب کا ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت اسماء والی روایت آیت ( لاینھاکم اللہ الخ ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لئے ہی کرو گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ) 45 ۔ الجاثیہ:15 ) اور اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں ، حسن بصری فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے ، عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دِیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو ، یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے ، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ہے ۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے ، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا ۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کرلی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لئے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی ، اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا ، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا ، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا ، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا ، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا ، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا ، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا ، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا ، دے آیا ، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا ، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی ، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی ، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہوگئے ۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رُک جائے اور شاید مالدار کو عبرت اصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے ۔ پھر فرمایا صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کرکے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضامندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے ہیں ، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں ضرب فی الارض کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے آیت ( اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ) 5 ۔ المائدہ:106 ) اور ( يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ ) 73 ۔ المزمل:20 ) میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے ، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ) 48 ۔ الفتح:29 ) ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا ( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ) 47 ۔ محمد:30 ) ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے مومن کی دانائی سے بچو ، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، سنو قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ) 45 ۔ الحجر:75 ) بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں ، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں ، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں ، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں ، دیکھو قرآن کہتا ہے آیت ( لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ) 2 ۔ البقرۃ:273 ) یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مروی ہے ، قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کو ان کی والدہ فرماتی ہیں تم بھی جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگ لاؤ جس طرح اور لوگ جا کر لے آتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں جب گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ فرما رہے تھے کہ جو شخص سوال سے بچے گا اللہ بھی اسے سوال سے بچا لے گا ، جو شخص بےپرواہی برتے گا اللہ اسے فی الواقع بےنیاز کر دے گا ، جو شخص پانچ اوقیہ کے برابر مال رکھتے ہوئے بھی سوال کرے وہ چمٹنے والا سوالی ہے ، میں نے اپنے دِل میں سوچا کہ ہمارے پاس تو ایک اونٹنی ہے جو پانچ اوقیہ سے بہت بہتر ہے ۔ ایک اونٹنی غلام کے پاس ہے وہ بھی پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمت کی ہے پس میں تو یونہی سوال کئے بغیر ہی چلا آیا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید کا ہے اس میں ہے کہ آپ نے مجھ سے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگوں سے کنارہ کرے گا اللہ اسے آپ کفایت کرے گا اور جو ایک اوقیہ رکھتے ہوئے سوال کرے گا وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے ، ان کی اونٹنی کا نام یاقوتہ تھا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ چالیس درہم کے تقریباً دس روپے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس کے پاس بےپرواہی کے لائق ہو پھر بھی وہ سوال کرے ، قیامت کے دن اس کے چہرہ پر اس کا سوال زخم نہ ہوگا اس کا منہ نچا ہوا ہوگا ، لوگوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کتنا پاس ہو تو؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت کا سونا ، یہ حدیث ضعیف ہے ، شام میں ایک قریشی تھے جنہیں معلوم ہوا کہ حضرت ابو ذر ضرورت مند ہیں تو تین سو گنیاں انہیں بھجوائیں ، آپ خفا ہو کر فرمانے لگے اس اللہ کے بندے کو کوئی مسکین ہی نہیں ملا ؟ جو میرے پاس یہ بھیجیں ، میں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چالیس درہم جس کے پاس ہوں اور پھر وہ سوال کرے وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے اور ابو ذر کے گھرانے والوں کے پاس تو چالیس درہم بھی ہیں ، چالیس بکریاں بھی ہیں اور غلام بھی ہیں ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چالیس درہم ہوتے ہوئے سوال کرنے والا الحاف کرنے والا اور مثل ریت کے ہے ۔ پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہوگئے ، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا ، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں ، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے ، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا ، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ حضرت سعد بن ابی وقاص کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا ، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی ، مسند میں ہے کہ مسلمان طلب ثواب کی نیت سے اپنے بال بچوں پر بھی جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس آیت کا شان نزول مسلمان مجاہدین کا وہ خرچ ہے جو وہ اپنے گھوڑوں پر کرتے ہیں ، ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت جبیر فرماتے ہیں حضرت علی کے پاس چار درہم تھے جن میں سے ایک راہ اللہ رات کو دِیا ، ایک دن کو ایک پوشیدہ ایک ظاہر تو یہ آیت اتری ، یہ روایت ضعیف ہے ۔ دوسری سند سے یہی مروی ہے ، اطاعت الٰہی میں جو مال ان لوگوں نے خرچ کیا اس کا بدلہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے لیں گے ، یہ لوگ نڈر اور بےغم ہیں ۔