Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 272

سورة البقرة

لَیۡسَ عَلَیۡکَ ہُدٰىہُمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلِاَنۡفُسِکُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡہِ اللّٰہِ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ یُّوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۷۲﴾

Not upon you, [O Muhammad], is [responsibility for] their guidance, but Allah guides whom He wills. And whatever good you [believers] spend is for yourselves, and you do not spend except seeking the countenance of Allah . And whatever you spend of good - it will be fully repaid to you, and you will not be wronged.

انہیں ہدایت پر لاکھڑا کرنا تیرے ذمّہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالٰی دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تم جو بھلی چیز اللہ کی راہ میں دو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے ۔ تمہیں صرف اللہ کی رضامندی کی طلب کے لئے ہی خرچ کرنا چاہئے تم جو کچھ مال خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ تمہیں دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائیگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Giving Charity to Polytheists Allah says; لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلنفُسِكُمْ وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ Not upon you (Muhammad) is their guidance, but Allah guides whom He wills. And whatever you spend in good, it is for yourselves, when you spend not except seeking Allah's Face. And whatever you spend in good, it will be repaid to you in full, and you shall not be wronged. Abu Abdur-Rahman An-Nasa'i recorded that Ibn Abbas said that; they, "Disliked giving charity to their polytheist relatives, but were later on allowed to give it to them when they inquired about this matter, and this Ayah was revealed." Allah's statement, ... وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ فَلنفُسِكُمْ ... And whatever you spend in good, it is for yourselves, is similar to His other statement, مَّنْ عَمِلَ صَـلِحاً فَلِنَفْسِهِ Whosoever does righteous good deed, it is for (the benefit of) his ownself. There are many other similar Ayat in the Qur'an. Allah said next, وَمَا تُنفِقُونَ إِلاَّ ابْتِغَاء وَجْهِ اللّهِ ... When you spend not except seeking Allah's Face. Al-Hasan Al-Basri commented, "Whenever the believer spends, including what he spends on himself, he seeks Allah's Face with it." Ata Al-Khurasani said that the Ayah means, "You give away charity for the sake of Allah. Therefore, you will not be asked about the deeds (or wickedness) of those who receive it." This is a sound meaning indicating that when one spends in charity for Allah's sake, then his reward will be with Allah. He will not be asked if the charity unintentionally reached righteous, evil, deserving or undeserving persons, for he will be rewarded for his good intention. The proof to this statement is the Ayah, ... وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ And whatever you spend in good, it will be repaid to you in full, and you shall not be wronged. The Two Sahihs recorded a Hadith by Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, قَالَ رَجُلٌ لاَاَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ فَخَرجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لاَاَتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ A man said, "Tonight, I shall give charity." He went out with his charity and (unknowingly) gave it to an adulteress. The next morning the people said that alms were given to an adulteress. The man said, "O Allah! All the praises are for You. (I gave my alms) to an adulteress. Tonight, I shall give alms again." فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيَ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى غَنِيَ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى غَنِيَ لاََتَصَدَّقَنَّ اللَّيْلَةَ بِصَدَقَةٍ He went out with his charity and (unknowingly) gave it to a rich person. The next morning (the people) said, "Last night, a wealthy person was given alms." He said, "O Allah! All the praises are for You. (I gave alms) to a wealthy man. Tonight, I shall again give charity." فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِيَ وَعَلَى سَارِقٍ So he went out with his charity and (unknowingly) gave it to a thief. The next morning (the people) said, "Last night, a thief was given alms." He said, "O Allah! All the praises are for You. (I have given alms) to an adulteress, a wealthy man and a thief." فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ قُبِلَتْ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهَا عَنْ زِنَاهَا وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللهُ وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهَا عَنْ سَرِقَتِه Then, someone came to him and said, "The alms that you gave away were accepted. As for the adulteress, the alms might make her abstain from adultery. As for the wealthy man, it might make him take a lesson and spend his wealth that Allah has given him. As for the thief, it might make him abstain from stealing." Who Deserves Charity Allah said,

مستحق صدقات کون ہیں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ مسلمان صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنا ناپسند کرتے تھے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری اور انہیں رخصت دی ، فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ صدقہ صرف مسلمانوں کو دیا جائے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے فرما دیا ہر سائل کو دو ، گو وہ کسی مذہب کا ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت اسماء والی روایت آیت ( لاینھاکم اللہ الخ ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ ، یہاں فرمایا تم جو نیکی کرو گے اپنے لئے ہی کرو گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ اَسَاۗءَ فَعَلَيْهَا ) 45 ۔ الجاثیہ:15 ) اور اس جیسی اور آیتیں بھی بہت ہیں ، حسن بصری فرماتے ہیں ایماندار کا ہر خرچ اللہ ہی کیلئے ہوتا ہے گو وہ خود کھائے پئے ، عطا خراسان اس کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اپنی مرضی سے مولا اور رضائے رب کیلئے دِیا تو لینے والا خواہ کوئی بھی ہو اور کیسے ہی اعمال کا کرنے والا ہو ، یہ مطلب بھی بہت اچھا ہے ، حاصل یہ ہے کہ نیک نیتی سے دینے والے کا اجر تو اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا ہے ۔ اب خواہ وہ مال کسی نیک کے ہاتھ لگے یا بد کے یا غیر مستحق کے ، اسے اپنے قصد اور اپنی نیک نیتی کا ثواب مل گیا ۔ جبکہ اس نے دیکھ بھال کرلی پھر غلطی ہوئی تو ثواب ضائع نہیں جاتا اسی لئے آیت کے آخر میں بدلہ ملنے کی بشارت دی گئی ، اور بخاری و مسلم کی حدیث میں آیا کہ ایک شخص نے قصد کیا کہ آج رات میں صدقہ دوں گا ، لے کر نکلا اور چپکے سے ایک عورت کو دے کر چلا آیا ، صبح لوگوں میں باتیں ہونے لگیں کہ آج رات کو کوئی شخص ایک بدکار عورت کو خیرات دے گیا ، اس نے بھی سنا اور اللہ کا شکر ادا کیا ، پھر اپنے جی میں کہا آج رات اور صدقہ دوں گا ، لے کر چلا اور ایک شخص کی مٹھی میں رکھ کر چلا آیا ، صبح سنتا ہے کہ لوگوں میں چرچا ہو رہا ہے کہ آج شب ایک مالدار کو کوئی صدقہ دے گیا ، اس نے پھر اللہ کی حمد کی اور ارادہ کیا کہ آج رات کو تیسرا صدقہ دوں گا ، دے آیا ، دن کو پھر معلوم ہوا کہ وہ چور تھا تو کہنے لگا ، اللہ تیری تعریف ہے زانیہ عورت کے دئیے جانے پر بھی ، مالدار شخص کو دئیے جانے پر بھی اور چور کو دینے پر بھی ، خواب میں دیکھتا ہے کہ فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے تیرے تینوں صدقے قبول ہوگئے ۔ شاید بدکار عورت مال پا کر اپنی حرام کاری سے رُک جائے اور شاید مالدار کو عبرت اصل ہو اور وہ بھی صدقے کی عادت ڈال لے اور شاید چور مال پا کر چوری سے باز رہے ۔ پھر فرمایا صدقہ ان مہاجرین کا حق ہے جو دنیوی تعلقات کاٹ کر ہجرتیں کرکے وطن چھوڑ کر کنبے قبیلے سے منہ موڑ کر اللہ کی رضامندی کیلئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے ہیں ، جن کے معاش کا کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو انہیں کافی ہو اور وہ سفر کر سکتے ہیں کہ چل پھر کر اپنی روزی حاصل کریں ضرب فی الارض کے معنی مسافرت کے ہیں جیسے آیت ( اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ ) 5 ۔ المائدہ:106 ) اور ( يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ ) 73 ۔ المزمل:20 ) میں ان کے حال سے جو لوگ ناواقف ہیں وہ ان کے لباس اور ظاہری حال اور گفتگو سے انہیں مالدار سمجھتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے مسکین وہی نہیں جو دربدر جاتے ہیں کہیں سے دو ایک کھجوریں مل گئیں کہیں سے دو ایک لقمے مل گئے ، کہیں سے دو ایک وقت کا کھانا مل گیا بلکہ وہ بھی مسکین ہے جس کے پاس اتنا نہیں جس سے وہ بےپرواہ ہو جائے اور اس نے اپنی حالت بھی ایسی نہیں بنائی جس سے ہر شخص اس کی ضرورت کا احساس کرے اور کچھ احسان کرے اور نہ وہ سوال کے عادی ہیں تو انہیں ان کی اس حالت سے جان لے گا جو صاحب بصیرت پر مخفی نہیں رہتیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ) 48 ۔ الفتح:29 ) ان کی نشانیاں ان کے چہروں پر ہیں اور فرمایا ( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ ) 47 ۔ محمد:30 ) ان کے لب و لہجہ سے تم انہیں پہچان لو گے ، سنن کی ایک حدیث میں ہے مومن کی دانائی سے بچو ، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ، سنو قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ) 45 ۔ الحجر:75 ) بالیقین اس میں اہل بصیرت کیلئے نشانیاں ہیں ، یہ لوگ کسی پر بوجھل نہیں ہیں ، کسی سے ڈھٹائی کے ساتھ سوال نہیں کرتے نہ اپنے پاس ہوتے ہوئے کسی سے کچھ طلب کرتے ہیں ، جس کے پاس ضرورت کے مطابق ہو اور پھر بھی وہ سوال کرے وہ چپک کر مانگنے والا کہلاتا ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک دو کھجوریں اور ایک دو لقمے لے کر چلے جانے والے ہی مسکین نہیں بلکہ حقیقتاً مسکین وہ ہیں جو باوجود حاجت کے خودداری برتیں اور سوال سے بچیں ، دیکھو قرآن کہتا ہے آیت ( لَا يَسْــَٔـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ) 2 ۔ البقرۃ:273 ) یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے مروی ہے ، قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کو ان کی والدہ فرماتی ہیں تم بھی جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگ لاؤ جس طرح اور لوگ جا کر لے آتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں جب گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ فرما رہے تھے کہ جو شخص سوال سے بچے گا اللہ بھی اسے سوال سے بچا لے گا ، جو شخص بےپرواہی برتے گا اللہ اسے فی الواقع بےنیاز کر دے گا ، جو شخص پانچ اوقیہ کے برابر مال رکھتے ہوئے بھی سوال کرے وہ چمٹنے والا سوالی ہے ، میں نے اپنے دِل میں سوچا کہ ہمارے پاس تو ایک اونٹنی ہے جو پانچ اوقیہ سے بہت بہتر ہے ۔ ایک اونٹنی غلام کے پاس ہے وہ بھی پانچ اوقیہ سے زیادہ قیمت کی ہے پس میں تو یونہی سوال کئے بغیر ہی چلا آیا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید کا ہے اس میں ہے کہ آپ نے مجھ سے فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگوں سے کنارہ کرے گا اللہ اسے آپ کفایت کرے گا اور جو ایک اوقیہ رکھتے ہوئے سوال کرے گا وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے ، ان کی اونٹنی کا نام یاقوتہ تھا ، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے ۔ چالیس درہم کے تقریباً دس روپے ہوتے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جس کے پاس بےپرواہی کے لائق ہو پھر بھی وہ سوال کرے ، قیامت کے دن اس کے چہرہ پر اس کا سوال زخم نہ ہوگا اس کا منہ نچا ہوا ہوگا ، لوگوں نے کہا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کتنا پاس ہو تو؟ فرمایا پچاس درہم یا اس کی قیمت کا سونا ، یہ حدیث ضعیف ہے ، شام میں ایک قریشی تھے جنہیں معلوم ہوا کہ حضرت ابو ذر ضرورت مند ہیں تو تین سو گنیاں انہیں بھجوائیں ، آپ خفا ہو کر فرمانے لگے اس اللہ کے بندے کو کوئی مسکین ہی نہیں ملا ؟ جو میرے پاس یہ بھیجیں ، میں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ چالیس درہم جس کے پاس ہوں اور پھر وہ سوال کرے وہ چمٹ کر سوال کرنے والا ہے اور ابو ذر کے گھرانے والوں کے پاس تو چالیس درہم بھی ہیں ، چالیس بکریاں بھی ہیں اور غلام بھی ہیں ۔ ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چالیس درہم ہوتے ہوئے سوال کرنے والا الحاف کرنے والا اور مثل ریت کے ہے ۔ پھر فرمایا تمہارے تمام صدقات کا اللہ کو علم ہے اور جبکہ تم پورے محتاج ہوگئے ، اللہ پاک اس وقت تمہیں اس کا بدلہ دے گا ، اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔ پھر ان لوگوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں جو ہر وقت اللہ کے فرمان کے مطابق خرچ کرتے رہتے ہیں ، انہیں اجر ملے گا اور ہر خوف سے امن پائیں گے ، بال بچوں کے کھلانے پر بھی انہیں ثواب ملے گا ، جیسے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے سال جبکہ آپ حضرت سعد بن ابی وقاص کی عیادت کو گئے تو فرمایا ایک روایت میں ہے کہ حجۃ الوداع والے سال فرمایا تو جو کچھ اللہ کی خوشی کیلئے خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تیرے درجات بڑھائے گا ، یہاں تک کہ تو جو اپنی بیوی کو کھلائے پلائے اس کے بدلے بھی ، مسند میں ہے کہ مسلمان طلب ثواب کی نیت سے اپنے بال بچوں پر بھی جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس آیت کا شان نزول مسلمان مجاہدین کا وہ خرچ ہے جو وہ اپنے گھوڑوں پر کرتے ہیں ، ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت جبیر فرماتے ہیں حضرت علی کے پاس چار درہم تھے جن میں سے ایک راہ اللہ رات کو دِیا ، ایک دن کو ایک پوشیدہ ایک ظاہر تو یہ آیت اتری ، یہ روایت ضعیف ہے ۔ دوسری سند سے یہی مروی ہے ، اطاعت الٰہی میں جو مال ان لوگوں نے خرچ کیا اس کا بدلہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے لیں گے ، یہ لوگ نڈر اور بےغم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

272۔ 1 تفسیری روایات میں اس کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی تم جو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے دار کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا باعث اجر ہے تاہم زکاۃ صرف مسلمان کا حق ہے کسی غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٨] ابتدا مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور دوسرے غیر مسلم محتاجوں کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف مسلمان محتاجوں کی مدد کرنا ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ آپ نے حق بات پہنچا دی، آگے ان کو راہ راست سمجھا دینا اللہ کا کام ہے۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجات پوری کرنا تو اللہ کی رضا کے لیے تم جس حاجت مند کی بھی مدد کرو گے اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ ۔۔ : اس آیت سے پہلے اور بعد میں صدقے کے مسائل و فضائل بیان ہو رہے ہیں، درمیان میں یہ کہنا کہ ” تیرے ذمے ان کی ہدایت نہیں “ کیا مناسبت رکھتا ہے ؟ اکثر مفسرین نے تو ” لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُم “ سے مراد کفار کی ہدایت لی ہے اور اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ رشتے دار یا ضرورت مند اگر کافر ہے تو اس پر بھی صدقہ کرو، کافر ہونے کی وجہ سے صدقے سے ہاتھ نہ روکو، کیونکہ ان (کفار) کی ہدایت تمہارے ذمے نہیں۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کو تھوڑی سی چیز دینا بھی ناپسند کرتے تھے، پھر انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دے دی اور یہ آیت اتری : (لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) [ السنن الکبرٰی للنسائی، التفسیر، باب قولہ : ( لیس علیک ھداھم ) : ١٠؍٣٧، ح : ١٠٩٨٦ ] صلح حدیبیہ کی مدت میں اسماء بنت ابی بکر (رض) کی والدہ، جو مشرکہ تھی، ان کے پاس آئی تو انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : ” میری والدہ آئی ہے، کیا میں ان سے صلہ رحمی کروں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہاں، اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔ “ [ بخاری، الأدب، باب صلۃ المرأۃ أمھا۔۔ : ٥٩٧٩ ] اسلام کی رحمت عام کو دیکھیے کہ مشرک پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے، بشرطیکہ وہ حالت جنگ میں نہ ہو، بلکہ کسی جانور پر خرچ کرنا بھی باعث ثواب ہے، جیسا کہ پیاسے کتے کو پانی پلانے والے شخص کی اس عمل کی وجہ سے بخشش ہوگئی۔ صحابہ نے پوچھا : ” کیا جانوروں کے بارے میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے ؟ “ فرمایا : ” جو بھی تر جگر والا (جاندار) ہے اس میں اجر ہے۔ “ [ بخاری، الأدب، باب رحمۃ الناس و البہائم : ٦٠٠٩] لیکن یاد رہے کہ کفار پر صرف نفل صدقہ جائز ہے، فرض زکوٰۃ نہیں، اس پر امت کا اجماع ہے، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” وہ مسلمانوں کے اغنیاء سے لی جاتی ہے اور انھی کے فقراء پر لوٹائی جاتی ہے۔ “ [ بخاری، الزکوٰۃ، باب وجوب الزکٰوۃ : ١٣٩٥ ] صدقہ فطر چونکہ فرض ہے، اس لیے اس کا بھی یہی حکم ہے۔ بعض مفسرین نے ” ھُدٰىھُمْ “ سے مراد وہ مسلمان لیے ہیں جن کی ہدایت میں خامی ہے اور جن کا تذکرہ پچھلی آیات میں آیا ہے، یعنی ریا سے صدقہ کرنے والے، صدقہ کرکے تکلیف دینے والے، یا احسان رکھنے والے، یا نکمّی چیز خرچ کرنے والے۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان لوگوں کا رویہ دیکھ کر تنگ دل نہ ہوں، انھیں ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ ۭ : یعنی مسلمانوں پر خرچ کرو یا کفار پر، جس مال یا وقت یا اثر و رسوخ یا علم سے کسی کو فائدہ پہنچاؤ اس کا فائدہ تمھی کو ہے، یعنی دنیا میں سعادت و برکت اور آخرت میں ثواب اور دخول جنت۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْهِ اللّٰهِ : عام طور پر اس کا ترجمہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیا جاتا ہے، مگر جو لطف ” اللہ کا چہرہ طلب کرنے کے لیے “ میں ہے، وہ دوسرے لفظ میں کبھی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ” وَجْهِ “ کا اصل معنی چہرہ ہے اور حقیقی معنی مراد لینے میں کوئی خرابی بھی نہیں، کیونکہ مومن کی سب سے بڑی طلب اور تمنا اللہ تعالیٰ کے چہرے کا دیدار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ نعمت عطا فرمائے۔ (آمین) یہاں لفظ اگرچہ نفی کے ہیں مگر مراد نہی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طلب کے سوا خرچ مت کرو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(6) Verse 272: لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ (الی قولہ) وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ : |"It is not for you to put them on the right path ... and you shall not be wronged.|" It has been clarified in this verse that a صدقہ sadaqah given to a non-Muslim also carries a reward in the life to come. As the basic purpose of a Muslim in making a sadaqah صدقہ is to get that reward, he should not confine himself to giving it to the Muslims only and to avoid giving it to the poor non-Muslims in the hope that this attitude will persuade them towards Islam, because a Muslim is not charged with bringing non-Muslims to the right path. He should seek his own benefit (the reward in the Hereafter) which can also be achieved through giving sadaqah صدقہ to a non-Muslim. Let us be clear at this point that sadaqah صدقہ referred to here is nafl نفل supererogatory or voluntary charity) which can be given to a dhimmi (a non-Muslim citizen of a Muslim state) as well. The obligatory زکاۃ Zakah is not meant here since it is not permissible to give that to anyone ex¬cept a Muslim (Mazhari). It is not permissible to give any kind of sadaqah صدقہ to a harbi (a non-Muslim citizen of a non-Muslim state) and, however, it is permissible to give the dhimmis ذمیوں all other types of sadaqat, obliga¬tory or supererogatory. زکاۃ Zakah is not included in the verse.

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ (الیٰ قولہ) وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ نیت بھی تمہاری اصل میں اپنے ہی نفع حاصل کرنے کی ہے اور واقع میں بھی حاصل خاص تم ہی کو ہوگا پھر ان زوائد پر کیوں نظر کی جاتی ہے کہ یہ نفع خاص اسی طریق سے حاصل کیا جاوے کہ مسلمان ہی کو صدقہ دیں اور کافر کو نہ دیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ اس صدقہ سے مراد صدقہ نفلی ہے جس کا ذمی کافر کو بھی دینا جائز ہے زکوٰۃ مراد نہیں ہے کیونکہ وہ سوائے مسلمان کے کسی دوسرے کو دینا جائز نہیں (مظہری) (١) مسئلہ : حربی کافر کو کسی قسم کا صدقہ وغیرہ دینا جائز نہیں۔ (٢) مسئلہ : کافر ذمی یعنی غیر حربی کو صرف زکوٰۃ وعشر دینا جائز نہیں اور دوسرے صدقات واجبہ ونفل سب جائز ہیں اور آیت میں زکوٰۃ داخل نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَاۗءَ وَجْہِ اللہِ۝ ٠ ۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۝ ٢٧٢ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ وجه ( ذات باري) عبّر عن الذّات بالوجه في قول اللہ : وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] قيل : ذاته . وقیل : أراد بالوجه هاهنا التّوجّه إلى اللہ تعالیٰ بالأعمال الصالحة، وقال : فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة/ 115] ، كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص/ 88] ، يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 38] ، إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان/ 9] قيل : إنّ الوجه في كلّ هذا زائد، ويعنی بذلک : كلّ شيء هالك إلّا هو، وکذا في أخواته . وروي أنه قيل ذلک لأبي عبد اللہ بن الرّضا فقال : سبحان اللہ ! لقد قالوا قولا عظیما، إنما عني الوجه الذي يؤتی منه ومعناه : كلّ شيء من أعمال العباد هالک و باطل إلا ما أريد به الله، وعلی هذا الآیات الأخر، وعلی هذا قوله : يُرِيدُونَ وَجْهَهُ [ الكهف/ 28] ، تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 39] نیز ہر چیز کے اشرف حصہ اور مبدا پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے وھہ کذا اس کا اول حصہ ۔ وجھہ النھار دن کا اول حصہ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَبْقى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات ( بابرکت ) جو صاحب جلال و عظمت ہے ۔ باقی رہ جائے گی ۔ میں بعض نے وجہ سے ذات باری تعالیٰ مراد لی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ وجھ ربک سے اعمال صالحہ مراد ہیں ۔ جن سے ذات باری تعالیٰ کی رجا جوئی مقصود ہوتی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ [ البقرة/ 115] تو جدھر تم رخ کروا ادھر اللہ کی ذات ہے ۔ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ [ القصص/ 88] اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ [ الروم/ 38] جو لوگ رضائے خدا کے طالب ہیں ۔ إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ [ الإنسان/ 9] اور کہتے ہیں کہ ہم تو خالص خدا کے لئے کھلاتے ہیں ۔ ان تمام آیات میں بعض نے کہا ہے کہ وجہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات مراد ہے لہذا آیت کل شئی ھالک کے معنی یہ ہیں کہ باستثنا ذات باری تعالیٰ ہر چیز نابود ہونے والی ہے ۔ اور اسی قسم کی دوسری آیات میں بھی یہی معنی ہیں ۔ مروی ہے کہ ابی عبد اللہ بن الر ضائے نے کہا ہے سبحان اللہ لوگ بہت بڑا کلمہ کہتے ہیں ۔ وُفِّيَتْ وتَوْفِيَةُ الشیءِ : ذله وَافِياً ، واسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

صدقہ کے مال میں سے مشرک کو کچھ دینا قول باری ہے (لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشآء وما تنفقوا من خیر فلانفسکم (a) تمہارے ذمہ ان کی ہدایت نہچیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلا ہے) ۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اس خطاب کے گزشتہ حصے اور اس کی ترتیب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری (لیس علیک ھدھم) (a) کا معنی غیر مسلموں کو صدقہ کا مال دینے میں آپ کے ذمہ ان کی ہدایت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے خطاب کی ابتدا اس قول (ان تندوا الصدقات فنعماھی) (a) سے کی پھر اس پر اس قول (لیس علک ھداھم) (a) کو عطف کیا۔ پھر اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا (وما تنفقوا من خیر فلانفسکم) (a) یہ ساری ترتیب نیز ابتدائے خطاب اور صدقہ کے ذکر کا تاخر اس پر دلاتے کرتے ہیں کہ اس سے مرادان لوگوں کو صدقہ دینے کی اباحت ہے خواہ وہ دین اسلام پر نہ بھی ہوں۔ یہ بات سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے : جعفر بن ابی المغیرہ سے مروی ہے کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ الا تصدقوا الاعلیٰ اھل ینکم (a) صرف اپنے دینی مذہب والوں کو صدقہ دو ) اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لیس علیک ھداھم) (a) اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (تصدقوا علی اھل الادیان (a) تم مختلف مذاہب والوں کو صدقہ دے سکتے ہو) حجاج نے سالم المکی سے، انہوں نے ابن الحنفیہ سے روایت کی ہے کہ لوگ مشرکین کو صدقہ دینا ناپسند کرتے تھے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی (لیس علیک ھداھم ) (a) اس کے بعد لوگ انہیں نفلی صدقہ دینے لگے۔ ابو جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ” پھر لوگ انہیں نفلی صدقہ دینے لگے “ کس کا کلام ہے۔ اس میں یہ گنجائش ہے اس سے مراد زکوٰۃ اور مویشیوں کی صدقات واجب نہ ہوں بلکہ دوسرے صدقات مثلاً قسموں کے کفارے وغیرہ مراد ہوں۔ نیز درج بالا قول آیت کی تخصیص کو واجب نہیں کرتا کیونکہ ان کا یہ فعل و جوب کا مقتضی نہیں ہے لیکن انہیں یہ اختیار ہے کہ چاہیں تو غیر مسلموں کو صدقہ دے دیں اور چاہیں تو نہ دیں۔ اعمش نے جعفر بن ایاس سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی بنو قریظہ اور بنو نظیر کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں وہ انہیں صدقات و خیرات دینے سے پرہیز کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ پہلے مسلمان ہوجائیں پھر انہیں صدقات دیئے جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشاء) (a) تاآخر آیت ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ اسماء سے روایت کی کہ حضرت اسماء (رض) نے فرمایا ۔ میری والدہ قریش کے زمانے میں میرے پاس کچھ لینے کی غرض سے آئی، وہ ابھی مشرک تھی، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسے کچھ دینے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ اس معنی پر زیر بحث آیت کی دلالت کی نظر وہ دلالت ہے جو اس قول باری (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما اسیرا۔ (a) اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں) میں موجود ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ قیدی ہیں جو مشرکین میں سے گرفتار ہوکر آئے تھے۔ سعید بن جبیر (رض) اور عطاء سے مروی ہے کہ اس سے مراد اہل قبلہ یعنی مسلمان واہل کتاب اور مشرکین مراد ہیں۔ ابو بکر جصاص کہتے کہ پہلی بات زیادہ واضح ہے کیونکہ دارالسلام میں مشرک کے علاوہ اور کوئی اسیر جنگ نہیں ہوتا۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (لآ ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطو الیھم (a) اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان کے ساتھ نیکی نہ کرو اور انصاف سے پیش نہ آئو) اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ نیکی کرنے کو مباح قرار دیا خواہ وہ مشرکین ہی کیوں نہ ہوں بشرطیکہ ہمارے ساتھ برسر پیکار نہ ہوں۔ اور صدقات بھی بر (a) یعنی نیکی کی ایک صورت ہے۔ اس بنا پر آیت انہیں صدقہ دینے کے جواز کا تقاضا کرتی ہے۔ گزشتہ آیات کے ظواہرکا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام صدقات خواہ نفلی ہوں یا فرض، انہیں دیئے جاسکتے ہیں۔ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس قول (امرت ان آخذ الصدقۃ من اغنیاء کم ورد ھا فی فقراء کم (a) مجھے یہ حکم ملا ہے کہ تمہارے مال داروں سے صدقات لے کر تمہارے فقراء کو دے دوں) کے ذریعے ہر قسم کی زکوٰۃ اور مویشیوں کے صدقات نیز صدقات کی ایسی مدات جن کی وصولی امام المسلمین کی ذمہ داری ہے آیات کے اس عمومی حکم سے خاص کردی ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت معاذ (رض) کو آپ کا یہ حکم بھی موجود ہے (اعلمھم ان اللہ فرض علیھم حقا فی اموالھم یوخذ من اغنیاء ھم ویرد علی فقراء ھم (a) اہل یمن کو بتادو کہ اللہ نے ان کے اموال میں ایک حق فرض کردیا ہے۔ یہ حق یعنی زکوٰۃ ان کے مال داروں سے لے کر ان کے فقراء کو لوٹا دیا جائے گا) اس طرح ایسے صدقات جو امام المسلمین وصول کرتا ہے انہیں منجملہ صدقات سے خاص کردیا گیا ہے۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ہر ایسا صدقہ جس کی وصولی امام کی ذمہ داری نہیں ہے اسے اہل ذمہ کو دے دینا جائز ہے لیکن جو صدقہ امام وصول کرتا ہو اس کا دینا جائز نہیں۔ امام ابوحنیفہ نے کفارے کی مختلف صورتوں میں دی جانے والی رقمیں صدقہ فطر اور نذر کی رقم اہل ذمہ کو دے دینا جائز قرار دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مال کی زکوٰۃ کی وصولی امام کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن اسے اہل ذمہ کو دینا بھی جائز نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مال کی زکوٰۃ کی وصولی دراصل امام المسلمین کی ذمہ داری ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) اپنے عہد میں اس کی وصولی کرتے تھے، لیکن حضرت عثمان (رض) جب خلیفہ بنے تو آپ نے لوگوں سے کہہ دیا کہ ” یہ مہینہ تمہاری زکوٰۃ کی ادائیگی کا مہینہ ہے۔ اس لئے جس شخص پر قرض ہو وہ اپنا قرض ادا کردے اور پھر باقی ماندہ مال کی زکوٰۃ نکال دے۔ گویا آپ نے مال والوں کو زکوٰۃ کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنا وکیل یا کارندہ مقرر کردیا اور اس کی وصولی کے بارے میں امام المسلمین کے حق کو ساقط نہیں کیا۔ امام ابویوسف کا قول ہے کہ ہر قسم ک واجب صدقہ کافر کو دینا جائز نہیں۔ آپ نے واجب صدقہ کو زکوٰۃ پر قیاس کرتے ہوئے یہ قول اختیار کیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ ان کافروں کو راہ راست پر لانا واجب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان فقراء اہل کتاب اور مشرکین سے (صدقہ و خیرات کو روکیں محض اس بنا پر کہ ممکن ہے وہ اس طرح ایمان لے آئیں) اور جو تم اپنا مال خرچ کرتے ہو وہ اپنے ثواب کے لیے کرتے ہو اور تم فقراء پر محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہو اور فقراء مثلااصحاب صفہ پر جو تم مال خرچ کررہے ہو، اس کا پورا پورا ثواب تمہیں قیامت کے دن میں مل جائے گا نہ تمہاری نیکیوں میں کچھ کمی کی جائے گی، اور نہ برائیوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ ہوگا۔ شان نزول : (آیت) ” لیس علیک “۔ (الخ) امام نسائی (رح) حاکم (رح) ، بزار (رح) طبرانی (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) اپنے ان رشتہ داروں کو جو کہ مشرک تھے کچھ دینا اچھا نہیں جانتے تھے چناچہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکو اس کی اجازت عطا فرمائی، اس پر (آیت) ” لیس علیک “۔ وانعم لاتظلمون “۔ تک آیت کریمہ نازل ہوئی اور ابن ابی حاتم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کا حکم دیتے تھے کہ صرف مسلمانوں ہی کو دیا جائے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧٢ (لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰٹہُمْ ) ان کو ہدایت دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ذمہّ داری تبلیغ کی ہے۔ ہم نے آپ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ط) (وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاََنْفُسِکُمْ ط) اس کا اجر وثواب بڑھا چڑھا کر تم ہی کو دیا جائے گا ‘ سات سو گنا ‘ چودہ سو گنا یا اس سے بھی زیادہ۔ (وَمَا تُنْفِقُوْنَ الاَّ ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ ط) تبھی تمہیں اس قدر اجر ملے گا۔ اگر ریاکارانہ خرچ کیا تھا تو اجر کا کیا سوال ؟ وہ تو شرک بن جائے گا۔ (وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ ) تمہاری ذرا بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ اب واضح کیا جا رہا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

313. In the beginning Muslims tended to hesitate in helping either their non-Muslim relatives or other non-Muslims who were in need. They thought that helping Muslims only constituted 'spending in the way of Allah'. This verse rejects this attitude. The purpose of this verse is to point out that Muslims are not responsible for forcing true guidance down the throats of people; conveying the message of Truth to people absolves them of the obligation incumbent upon them. It is, then, for God either to favour the recipients of the message with true perception or not. In addition Muslims should not shrink from helping their relatives in the affairs of the world on the ground that they are not following the true guidance; they will he rewarded by God for whatever help they render to needy persons for the sake of God.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :313 ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہل حاجت کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے ۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے ۔ ارشاد الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہدایت اتار دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوچکے ۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نور عطا کرے یا نہ کرے ۔ رہا دنیوی مال و متاع سے ان کی حاجتیں پوری کرنا ، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامل نہ کرو کہ انہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے ۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے ، اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

182: بعض انصاری صحابہ کے کچھ غریب رشتہ دار تھے مگر چونکہ وہ کافر تھے اس لئے وہ ان کی امداد نہیں کرتے تھے، اور اس انتظار میں تھے کہ وہ اسلام لے آئیں توان کی امداد کریں۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ نے بھی یہی ہدایت فرمائی تھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (روح المعانی) اس طرح مسلمانوں کو بتایا گیا کہ آپ پر ان کے اسلام لانے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، اور اگر آپ ان غریب کافروں پر بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کچھ خرچ کریں گے تو اس کا بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(272 ۔ 273) ۔ نسائی حاکم ابن ابی حاتم طبرانی اور بزاز نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اسلام سے پہلے اکثر صحابہ اور یہود میں قرابت تھی اور اس قرابت کی وجہ سے صحابہ ان سے طرح طرح کے سلوک کیا کرتے تھے اسلام کے بعد اس سلوک سے صحابہ کی اجازت آنحضرت سے چاہی آپ نے بھی اس خیال سے کہ شاید یہ طریقہ یہود کو کچھ راہ راست پر لاوے صحابہ کو اس کی اجازت دے دی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ اور فرما دیا کہ جس کسی کی ہدایت اللہ کو منظور ہوتی ہے وہ ہر طرح راہ راست پر آجاتا ہے۔ بدوں مرضی اللہ کے تمہاری ایسی باتوں سے کیا ہدایت ہوگی اور اللہ کو اس طرح کی مجبوری کا ایمان کب پسند ہے کہ کوئی کھانا بند کرنے سے ایمان لائے اور کوئی پانی اس لئے تم اپنے قرابت دروں سے جو کچھ سلوک کیا کرتے تھے وہ کئے جاؤ اور اللہ کی ہدایت کے منتظر رہو اس آیت کے بعد آپ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ بلا لحاظ دین کے جو کوئی جس سے کچھ سلوک کرتا تھا وہ کرے جائے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے جو روایت اس شان ِنزول کے ہم معنی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مسکین وہ نہیں جو گھر گھر مانگتا پھر تاے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو اتنا نہیں رکھتا کہ اس کے خرچ ضروری کے لئے کافی ہو ٢۔ وہ حدیث اس شان نزول کی موید ہے مفسرین نے لکھا ہے فقراء سے مراد مہاجرین اہل صفہ ہیں باوجود تنگی کے کسی سے سوال نہیں کرتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:272) لیس علیک ھدہم۔ ھدہم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ ان کی ہدایت۔ ان کی ہدایت یابی۔ ان کو سیدھے راہ پر چلانا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کفار کے لئے ہے۔ ان کو سیدھے راہ پر چلانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ فائدہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اہل اسلام کو خیرات دینے کا حکم دیتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔ اس کے بعد ہر مذہب کے آدمی کو خیرات دینے کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دے دیا۔ ھدی۔ الھدایۃ۔ کے معنی لطف و کرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں کفار کو دوزخ کی طرف دھکیلنے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے وہ بطور مذاق و تہکم آیا ہے مثلاً فاھدددددوھم الی صراط الجحیم (37:23) پھر ان کو جہنم کے راستہ پر چلا دو ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کفار کے لئے عذاب کی بشارت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مثلاً فبشرھم بعذاب الیم (84:24) تو (اے پیغمبر) انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔ امام راغب (رح) رقمطراز ہیں : ” انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کی ہے : (1) وہ ہدایت جو عقل و فطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے سے کی ہے ۔ اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمیع مکلفین کو شامل ہے بلکہ ہر جاندار چیز کو حسب ضرورت اس سے حصہ ملا ہے چناچہ ارشاد ہے ربنا الذی اعطی کل شیء کلقہ ثم ھدی (20:50) ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کو اس کی (خاص طرح کی) بناوٹ عطا فرمائی پھر (ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی) راہ دکھائی۔ (2) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ نجات کی طرف دعوت دی ہے ۔ چناچہ وجعلناہم ائمۃ یھدون بامرنا ۔۔ (21:73) اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے (لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے (ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں۔ (3) سوم ہدایت بمعنی توفیق خاص آیا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے۔ چناچہ فرمایا : والذین اھتدوا زادہم ھدی (47:17) اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں (قرآن سننے سے) خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔۔ (4) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے۔ چناچہ فرمایا : ونزعنا ما فی صدروھم من غل تجری من تحتھا الانھر وقالوا الحمدللہ الذی ھدنا لھذا (7:43) اور جو کینے ان کے (اصحاب الجنہ کے) سینوں میں ہوں گے ہم سب نکال دیں گے۔ ان کے (محلوں کے) نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے ہم کو یہاں کا راستہ دکھایا ۔۔ جن آیات میں ہدایت کی نسبت پیغمبر یا کتاب یا دوسرے انسانوں کی طرف کی گئی ہے وہاں صرف راہ حق کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہے “۔ وما تنفقوا۔ واؤ عاطفہ ہے ما شرطیہ جازمہ ہے۔ تنفقوا مضارع مجزوم (بوجہ عمل ما) جمع مذکر حاضر۔ من تبعیضیہ ہے۔ خیر ای مال جملہ شرطیہ ہے اور جو مال بھی تم خیرات کرو گے ! فلا نفسکم۔ جواب شرط ف جواب شرط کے لئے ہے۔ تو وہ خود اپنے ہی لئے کرو گے۔ یعنی اس کا نفع لوٹ کر تم کو ہی ملے گا۔ وما تنفقون الا ابتغاء وجہ اللہ۔ واؤ حالیہ ہے اور تنفقوا کی ضمیر فاعلی ذوالحال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تم خیرات کرو جس کی غرض سوائے حصول خوشنودی رب کے اور کچھ نہ ہو تو وہ تمہارے ہی لئے مفید ہے۔ علامہ پانی پتی اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں : مطلب یہ ہے کہ : اے مسلمانو ! تمہاری خیر خیرات تو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ کہ اپنی خیرات کا احسان فقیر پر رکھتے ہو یا ناپاک مال دیتے ہو۔ تو یا یہ جملہ خبر یہ ہے جس میں مسلمانوں کے حال کے تقاضے کو بیان کیا ہے یا ما تنفقون لفظا جملہ منفی ہے اور معنی کے لحاظ سے نہی ہے۔ مراد یہ کہ تمہاری خیرات کا مقصود خوشنودی رب کی طلب ہونا چاہیے۔ سوائے خدا کی رضا کی طلب کے اور کسی غرض کے لئے خیرات نہ دو ۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ سوائے رضائے خداوندی کی طلب کے اور کسی غرض کے لئے خیرات کرنی ممنوع ہے۔ ورنہ مفت میں مال کی بربادی ہوگی (تفسیر مظہری) ما موصولہ ہے تنفقون جمع مذکر حاضر۔ تم خیرات کرو گے۔ ابتغاء چاہنا۔ تلاش کرنا۔ بروزن افتعال مصدر ہے۔ ابتغاء سخت کوشی کے لئے مخصوص ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو تو محمود ہے ورنہ مذموم مذموم کی مثال ہے۔ فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ۔ و ابتغاء تاویلہ (3:7) تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ سب متشابہات کا اتباع کرتے ہیں (ان کا مقصد) فتنہ انگیزی اور (غلط) معنی کی تلاش ہے۔ وجہ اللہ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی خوشنودی۔ اللہ کی رضا۔ ثواب۔ وما تنفقوا من خیر یوف الیکم۔ واؤ عاطفہ ہے پہلا شرطیہ دوسرا جواب شرط ہے۔ یوف مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ توفیہ (تفعیل) مصدر۔ اس کو پورا پورا دیا جائے گا۔ فائدہ : صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں : مذکورہ بالا تینوں جملوں کے درمیان حرف عطف ذکر کیا گیا ہے حالانکہ بظاہر یہ جملہ سابق جملہ شرطیہ کی تاکید ہے اس لئے حرف عطف نہ ہونا چاہیے۔ حرف عطف کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ آخری جملہ سے پہلے جملہ کی صرف تاکید ہی مقصود نہیں بلکہ منت الٰہی اور ایداء رسانی کی برائی کو الگ الگ دلائل سے مدلل کرنا مقصود ہے۔ پہلے جملہ کا مفادیہ ہے کہ جس چیز کے دینے میں خود تمہارا فائدہ ہے اس کے دینے کا فقیر پر احسان رکھنا درست نہیں۔ دوسرے جملہ کا مفادیہ ہے کہ جس چیز کو دینے سے تمہارے پیش نظر صرف اللہ کی خوشنودی کا حصول ہے اس کا فقیر پر احسان رکھنا تو گویا ایسے شخص سے عوض کا طلب کرنا ہے جس سے عوض طلب کرنے کے لئے عطا نہیں کی گئی۔ تیسرے جملہ اس مضمون پر دلالت کر رہا ہے کہ جس چیز کا ایک بار بھی بدل لے لیا جائے اس کا احسان نہیں ہوتا ۔ جیسے بالغ جب اپنی چیز کی قیمت لے لیتا ہے تو خریدار پر اس کا احسان نہیں ہوتا اور تم کو تو کئی گناہ معاوضہ ملے گا۔ پھر فقیر پر تمہارا کیا احسان ؟ وانتم لا تظلمون۔ جملہ حالیہ ہے ضمیر الیکم سے۔ اور تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم کے ساتھ صلہ رحمی جائز ہے اور اگر وہ محتاج ہو تو نفلی صدقات سے اس کی مدد کر نا بھی جائز ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں حکم دیتے کہ صدقات صرف مسلمانوں کو دیئے جائیں گے مگر جب یہ آتی نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر ضرورت مند سائل کو صدقہ دینے کی اجازت دے دی۔ البتہ قرآن نے بتایا کہ اجر تب ملے گا جب وہ صدقہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔ (شوکانی۔ ابن کثیر) لیکن واضح رہے کہ فرض زکوہ صرف مسلمانوں کا حق ہے غیر مسلم پر اس کا صرف کرنا جائز نہیں ہے اس پر تمام ائمہ کرام کا اجماع ہے۔ (معالم السنن) صدقہ فطر بھی صرف مسلمانوں کا حق ہے۔ صرف امام ابوحنیفہ کے نزدیک غیر مسلم پر صرف ہوسکتا ہے۔ (المغنی۔ ردالمختات)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی تم کو اپنے عوض سے مطلب رکھنا چاہیے اور عوض ہر حال میں ملے گا تم کو اس سے کیا بحث کہ ہمارا صدقہ مسلمان ہی کو ملے کافر کو نہ ملے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نیت بھی تمہاری اصل میں اپنے ہی نفع حاصل کرنے کی کہے اور واقع میں بھی حاصل خاص تم ہی کو ہوگا۔ اس پر نظر کیوں کی جاتی ہے کہ یہ نفع خاص اسی طریق سے حاصل کیا جاوے کہ مسلمان ہی کو صدقہ دیں کافر کو نہ دیں۔ اور جاننا چاہیے کہ حدیث میں جو آیا کہ تیرا کھانا خاص متقی کھایاکریں تو مراد اس سے طعام دعوت ہے اور اس آیت میں طعام حاجت مراد ہے پس تعارض کا شبہ کیا جائے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح حکمت و دانائی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اسی طرح ہدایت پانا اور صدقہ کی توفیق ملنا بھی اسی کا کرم ہے۔ اے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہاری ذمہ داری لوگوں کو سمجھانا ہے۔ ہدایت سے ہمکنار کرنا آپکا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور حکمت ہے جسے چاہے ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ صدقات کے بیان میں یہ جملہ اس لیے لایا گیا ہے کہ ابتدائی دور میں بیشمار ایسے صحابہ کرام (رض) تھے جن کی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مال دار صحابہ ایمان لانے کے بعد بھی کفار کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے ایمان کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا جس میں وضاحت فرمائی کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہ (رض) کی بہن حضرت اسماء (رض) کے ساتھ پیش آیا ان کی والدہ اپنی بیٹی اسماء (رض) سے تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئی جس پر حضرت اسماء (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتی ہیں کہ میری والدہ مجھ سے تعاون کی امید رکھتی ہے۔ کیا میں مشرکہ والدہ کے ساتھ تعاون کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الھدیۃ للمشرکین ] بعض اہل علم نے یہ تفسیر فرمائی ہے کہ عام صدقہ مستحق کافر اور مشرک کو دیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کافر کو نہیں دینا چاہیے البتہ قربانی کا گوشت مشرک، کافر کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ صدقہ اور خیرات کی وسعتوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔ “ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِيْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مََتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر ] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہر قدم کا بدلہ صدقہ ہے۔ کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا کَلْبٌ یُطِیْفُ بِرَکِیَّۃٍ کَادَ یَقْتُلُہُ الْعَطْشُ إِذْ رَأَتْہُ بَغِیَّۃٌ مِّنْ بَغَایَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَھَا فَسَقَتْہُ فَغُفِرَلَھَا بِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ایک کتا کنوئیں کے کنارے چکر لگارہا تھا قریب تھا وہ پیاس سے مرجائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ کر اپنے موزے کے ذریعے اسے پانی پلایا۔ اس وجہ سے اس عورت کو بخش دیا گیا۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے نبی کا کام رہنمائی کرنا ہے کسی کو ہدایت پر گامزن کرنا نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ ٣۔ صدقہ کرنے میں بہتری ہے۔ ٤۔ صدقہ کرنے والے کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی توفیق سے ہی ہدایت ملتی ہے : ١۔ ہدایت پر چلانا انبیاء کی ذمہ داری نہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی شخص ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٣۔ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ (القصص : ٥٦) ٤۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے۔ (الکہف : ١٧) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) کے ذریعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حکم فرماتے تھے کہ صرف اہل اسلام پر صدقہ کیا جائے ۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ” لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ................“ تو آپ نے حکم دیا کہ جس دین کے پیروکار بھی تم سے سوال کریں انہیں صدقہ دیا کرو۔ دل اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ اللہ کی مخلوق میں سے یہ بات کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ کسی کو ہدایت دے یا گمراہ کردے ۔ اگرچہ وہ خود رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود ہوں۔ ہدایت دینا یا گمراہ کرنا اللہ وحدہ کی ذات کا کام ہے ۔ اس لئے کہ وہ دلوں کا خالق ہے ۔ دلوں پر صرف اللہ کی حکمرانی ہے ۔ صرف اللہ ہی دلوں کو موڑسکتا ہے ۔ وہی ہے جو دلوں کو حکم دے سکتا ہے ۔ رسول کا کام صرف یہ ہے کہ وہ پیغام اچھی طرح پہنچادے ۔ رہی ہدایت تو یہ صرف اللہ کا کام ہے ۔ وہ جسے چاہے ہدایت نصیب کردے کیونکہ وہی ہدایت دینے کا مستحق ہے ۔ ہدایت دینا صرف اللہ کا استحقاق ہے ۔ انسان سے اس استحقاق کو لے لینا ، محض اس لئے ہے کہ ایک مومن طلب ہدایت کے لئے صرف اللہ کی طرف رجوع کرے اور وہ صرف اللہ ہی سے دلائل اخذ کرے ۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس استحقاق کو صرف خاصہ خدا قرار دینے کے بعد اب ایک داعی کے لئے یہ جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ گمراہ لوگوں کے ساتھ نفرت کرے یا ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دلی تنگی محسوس کرے ۔ اس لئے کہ وہ انہیں مسلسل دعوت دیتا رہے گا ۔ ان کے ساتھ رحیمانہ برتاؤ کرے گا اور اس بات کا انتظار کرے گا کہ کب اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ راہ راست پر آجائیں ؟ کب انہیں توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس سمت قدم اٹھائیں اور اپنے اللہ کو پہچانیں۔ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ............... ” لوگوں کو ہدایت دینے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ ہدایت تو اللہ ہی ہے جسے چاہتا ہے بخشتا ہے ۔ “ لہٰذا تم انہیں کھلے دل کے ساتھ دعوت دو اور ان کے لئے سینہ کھول دو ۔ ان پر اپنی رحمت اور حسن عمل کا فیضان کرو ۔ اس کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اور ان کے لئے مددگار ثابت بنو جہاں تک وہ تمہاری امداد کے محتاج ہوں ۔ انہیں حکم دیتے رہو کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور اس امداد کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔ یہاں آکر ہم ان بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کے آفاق وسیع اور روشن ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کے دل و دماغ کو ان بلندیوں تک پہنچادیتے ہیں اور ان پر ان کے دلوں کو مستحکم کردیتے ہیں ۔ اسلام نہ صرف یہ کہ مذہبی آزادیوں کا اصول متعین کرتا ہے ، نہ صرف یہ کہ وہ دینی امور میں جبر وتشدد کا ہی قلع قمع کرتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہنی رواداری کی ایسی فضا قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایات پر مبنی ہے اور وہ یہ اصول طے کرتا ہے کہ بلا امتیاز مذہب و عقیدہ ، معاشی تعاون اور معاشی امداد کے دروازے تمام لوگوں پر کھلے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ امت مسلمہ کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہوں۔ وہ یہ یقین دلاتا ہے کہ ایسے حالات میں غیر مسلموں پر خرچ کرنے والوں کا اجر بھی عنداللہ محفوظ ہے ، بشرطیکہ یہ انفاق فی سبیل اللہ محض رضائے الٰہی کے لئے ہو۔ انسانیت کی یہ ایک ایسی سربلندی ہے جس سے ایک جست میں وہ ایک مقام بلند تک پہنچ جاتی ہے اور یہ مقام بلند اسے صرف اسلام کے طفیل ہی نصیب ہوسکتا ہے اور صرف وہی لوگ اس مقام بلند کی حقیقت پاسکتے ہیں ۔ جو صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلأنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ ” اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لئے بھلائی ہے ۔ آخر تم اسی لئے خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کروگے ، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا ۔ اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی شان کی جو جھلک دکھائی ہے ، وہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اہل ایمان جب خرچ کرتے ہیں تو وہ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ............... ” تم اسی لئے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ “ ایک مومن کی صفت بس یہی ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ صرف وہ رضائے الٰہی کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ وہ خواہشات نفسانیہ یا کسی غرضب اور مطلب براری کے لئے نہیں خرچ کرتا۔ وہ یوں انفاق فی سبیل اللہ نہیں کرتا کہ انفاق کرے اور پھر کان لگا کر بیٹھ جائے اور سنے کہ لوگ کیا کہتے ہیں ۔ وہ اس لئے خرچ نہیں کرتا کہ وہ اپنے انفاق کے ذریعہ لوگوں کی گردنوں پر سوار ہوجائے ۔ ان پر اپنی برتری ثابت کرے اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑ ثابت کرے ۔ وہ اس لئے نہیں خرچ کرتے کہ ان سے صاحبان اقتدار لوگ راضی ہوں یا وہ انہیں اس کا کوئی بدلہ دیں ۔ وہ تو صرف رضائے الٰہی کی لئے خرچ کرتے ہیں ۔ خالص اللہ کے لئے ۔ اس لئے دل مومن اس مطمئن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو ضرور قبول فرمائیں گے ۔ نیز اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت دے گا ۔ اسے یہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ اللہ نہ صرف یہ کہ اسے پورا پورا اجر دے گا بلکہ اس پر مزید انعام بھی ہوگا ۔ اسے پورا اطمینان ہوتا ہے کہ اللہ کی مخلوق پر احسان اور انفاق کے نتیجے میں اللہ کی جانب سے وہ احسان اور بھلائی کا مستحق ہے ۔ چناچہ اسی دادوہش کی وجہ سے اس کا تزکیہ نفس ہوتا ہے ۔ اس کے اخلاق پاکیزہ ہوتے ہیں ۔ اور اس کی شخصیت بلند ہوجاتی ہے ۔ جب تک وہ اس جہاں میں زندہ ہوتا ہے رہی جزائے آخرت تو وہ بہرحال اعلیٰ و افضل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ خیرات وصدقات کے مصارف میں سے خصوصاً ایک مصرف کا ذکر فرماتے ہیں ۔ مومنین میں سے ایک گروہ کی تصویر پیش کی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہے ۔ شریفانہ اور باوقار ہے ۔ اس تصویر کو دیکھ کر انسانی شعور میں طلاطم برپا ہوتا ہے ۔ اس تصویر کو دیکھ کر دل مومن حرکت میں آتا ہے اور نفس انسانی ایسی شخصیات کا ادراک کرلیتا ہے جو کسی جانب سے ، کسی قسم کی امداد حاصل کرنے کو پسند نہیں کرتیں ۔ اس لئے ان کی عزت نفس کو کسی طرح بھی ٹھیس نہ لگے ۔ اور وہ طلب حاجت نہیں کرتیں ۔ مبادا کہ انہیں حقیر سمجھ لیا جائے ۔ اس لئے وہ دست سوال دراز کرنے پر آمادہ نہیں ہوپاتیں ۔ اور نہ وہ اس سلسلے میں اظہار مطلب کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو کچھ بھی اچھا مال خرچ کرو گے اس کا بدلہ تمہیں مل جائے گا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت محنت و کوشش فرماتے تھے اور اہل کفر کو حق کی دعوت دیتے تھے۔ وہ لوگ جب قبول نہیں کرتے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طبعی طور پر رنج ہوتا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے آیات نازل ہوتی تھیں، ایسی آیات قرآن کریم میں کئی جگہ موجود ہیں انہی میں سے ایک یہ آیت بھی ہے کہ آپ کا کام راہ دکھانا ہے۔ صحیح بات بتانا ہے، حق کا قبول کرانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ہادی ہے۔ وہ جس کو چاہے۔ ہدایت دے، آپ کو غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ صاحب روح المعانی (ص ٤٥ ج ٣) نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کا سبب نزول یہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ ہم صرف اہل اسلام پر خرچ کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ نیز حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی منقول ہے کہ انصار کی رشتہ داریاں تھیں جن میں بعض لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے وہ حضرات ان کو صدقہ دینے سے بچتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرلیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، سبب نزول کو سامنے رکھنے کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہدایت پر لانا آپ کا کام نہیں ہے کہ صدقہ روک کر لوگوں کو اسلام پر لانے کی صورت پیدا کی جائے صدقات نافلہ غیر مسلم ضرورت مندوں کو دینے میں بھی ثواب ہے اسلام قبول کرنا نہ کرنا ان کا کام ہے۔ پھر فرمایا : (وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ ) صاحب روح المعانی اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جو مال بھی نیک کاموں میں خرچ کرو گے اس کا نفع تم ہی کو ہوگا۔ لہٰذا من اور اذیٰ اور ریا کاری سے اسے ضائع نہ کرو یا یہ مطلب ہے کہ فقراء کو دے دیا کرو، خواہ وہ کافر ہی ہوں تمہیں ثواب ملنے سے مطلب ہے۔ پھر فرمایا : (وَ مَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ ) کہ تم تو صرف اللہ کی رضا ہی کے لیے خرچ کرتے ہو، لہٰذا ان آداب کی رعایت کرو جن سے اللہ کی رضا حاصل ہو اور ان اعمال سے بچو جن سے اللہ کی ناراضگی ہوتی ہو اور جن سے صدقات باطل ہوجاتے ہوں۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ نفی نہی کے معنی میں ہے یعنی تم نہ خرچ کرو مگر اللہ کی رضا کے لیے۔ پھر فرمایا (وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ ) یعنی جو مال بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا اور ذرا سی بھی کمی نہ ہوگی اس میں پچھلے جملہ کی تاکید ہے۔ اور بعض مفسرین نے اس کا یہ معنی بتایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ تم کو تمہارے خرچ کرنے کے بعد مزید مال عطا فرمائے گا۔ بحکم حدیث اللّٰھم اعط منفقا خلفا یہ معنی لینا بھی بعید نہیں ہے۔ (من روح المعانی ج ٣ ص ٤٦) مسئلہ : کافر کو نفلی صدقات دینا جائز ہے اس میں بھی ثواب ہے۔ البتہ کافر کو زکوٰۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

534 بعض مسلمان اس خیال سے اپنے کافر رشتہ داروں کو صدقہ نہیں دیتے تھے کہ شاید تنگدستی اور مفلسی کی وجہ سے ایمان لے آئیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان کو صدقہ دیا کرو۔ باقی رہی ان کی ہدایت تو تم اس کے ذمہ دار نہیں ہو۔ وہ اللہ کے اختیار میں ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ کان ناس من الانصار لھم قرابات من بنی قریظةوالنضیر وکانوا لا یتصدقون علیھم رغبة منھم فی ان یسلموا اذا احتاجوا نزلت الایة بسبب اولئک (قرطبی ص 337 ج 3)535 تمہارے صدقات سے اگرچہ محتاجوں کو فائدہ پہنچتا ہے مگر یہ فائدہ دنیویو اور فانی ہے ان سے اصل فائدہ تو تم اٹھاؤگے جب آخرت میں ان صدقات کا ثواب تمہیں ملیگا۔ وَمَا تُنْفِقُوْنَ ۔ یہ لفظا خبر ہے مگر معنیً نہی ہے یعنی تم اللہ کی رضاجوئی کے سوا کسی اور غرض مثلا ریاکاری وغیرہ کے لیے خیرات مت کرو۔ الثانی ان ھذا وان کان ظاھر لاخبرا الا ان معناہ نھی ای ولا تنفقوا الا ابتغاء وجہ اللہ (کبیر ص 523 ج 2) وَمَا تُنْفِقُوْا الخ۔ یہ جملہ ماقبل کی تاکید ہے اور اس میں اخلاص نیت کی ترغیب ہے۔ مطلب یہ کہ اخلاص نیت سے تمہارا خرچ کیا ہوا مال رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ تمہیں اس کا وپرا پورا اجر وثواب ملے گا اور تمہاری ذرہ بھر حق تلفی نہیں ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اے پیغمبر ! ان کافروں کو ہدایت پر لے آنا اور صحیح راہ پر لگا دینا اور اوامرو نواہی کا پابند کردینا آپ کے ذمہ ضروری اور لازم نہیں ہے البتہ یہ کام تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہ جس کو چاہے صحیح راہ سے بہرہ ور کر دے اور مقصود مطلوب تک اس کو پہنچا دے اور مسلمانو ! تم جو کچھ بھی اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہو اور جو کچھ بھی صدقہ خیرات کرتے ہو سو اپنے ہی نفع کی غرض سے اور اپنے ہی بھلے کو کرتے ہ اور تم سوائے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور اس کی خوشنودی کے اور کسی غرض کے لئے خرچ نہیں کرتے تمہارا مقصد تو صدقات و خیرات سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنا ہوتا ہے اور جو کچھ تم اپنے مال میں سے خرچ کرو گے اور جو کچھ صدقہ خیرات کرو گے وہ سب تم کو پورا پورا دیا جائے گا یعنی اس کا ثواب بےکم وکاست تم کو پورا مل جائے گا اور تمہارے حق میں کوئی کمی اور کوتاہی نہ کی جائے گی اور کسی طرح تمہاری حق تلفی نہ ہوگی۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ اس خیال سے کسی کافر کے ساتھ سلوک نہ کرنا کہ وہ مسلمان ہوجائے اور اسلام قبول کرلے۔ یہ طریقہ کسی کو ہدایت کرنے کا نہیں ہے اور نہ پیغمبر پر یہ واجب اور فرض ہے کہ وہ ہر شخص کو یہ ہدایت پر لائے بلکہ ہدایت کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ ہے پیغمبر کا کام نصیحت کرنا ہے اور صحیح راہ کا بتادینا ہے باقی راہ پر لگا دینا یہ حضرت حق تعالیٰ کی شان اور ان کا کام ہے اور جب بات یہ ہے کہ ہدایت خداوند کریم کے قبضے میں ہے تو پھر حسن سلوک اور نفلی خیرات سے کافروں کو محروم کرنا یہ کوئی صحیح جذبہ نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس طرح انصار یا بعض مسلمان کافروں کو صدقہ دینا پسند نہیں کرتے تھے اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی منع فرما دیا تھا کہ چونکہ اب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اس لئے صرف مسلمانوں ہی کو خیرات دی جائے ان دونوں روایتوں کو ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب خیرات کرنے سے تمہارا منشا بھی یہی ہے کہ تم کو نفع پہنچے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ صدقات و خیرات کا فائدہ تم کو ہی پہنچتا ہے تو پھر اس بحث میں کیوں پڑتے ہو کہ مسلمان کو دو اور کافر کو نہ دو ۔ باقی رہا بعض مسلمانوں کا یہ خیال کہ اس طرح کافر اسلام کا فر اسلام کی طرف راغب ہوں گے اور یہ سمجھیں گے کہ اگر ہم اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں تو ہم کو بھی مالی فائدہ حاصل ہوگا اور مسلمان ہم کو بھی صدقات و خیرات سے مستفید کریں گے تو اس خیال کو چھوڑ دو یہ ہمارا کام ہے ہم جس کو چاہیں اسلام کی توفیق عطا فرمائیں تم کو جو کچھ دینا ہے تم بنی نوع انسان کی ہمدردی کا خیال رکھ کردو۔ وما تنفقون الا اتبغاء وجہ اللہ ۔ کا بعض حضرات نے یوں ترجمہ کیا ہے جب تک نہ خرچ کرو گے مگر اللہ کی خوشی چاہ کر۔ بعض نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کسی غرض سے خرچ نہ کیا کرو بہرحال سب معنی کی گنجائش ہے وما تنفقون میں جو ما ہے وہ نفی کا بھی ہوسکتا ہے اور نہی کا بھی ہوسکتا ہے اور وما تنفقو امن خیر کی قید بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ شاہ صاحب نے اختیار کیا ہے یعنی جو کچھ تم خیرات کرو گے سو اپنے ہی بھلے کو کرو گے بشرطیکہ تم بجز اللہ کی رضا جوئی کے اور کسی غرض کے لئے خرچ نہ کرو۔ (واللہ اعلم) آیت میں جننفقات کا ذکر فرمایا وہ نفلی صدقات ہیں اس آیت میں زکوۃ کا حکم نہیں ہے جس طرح کافروں کی حالت مختلف ہے اسی طرح ان کے احکام بھی مختلف ہیں۔ مثلاً جو کافر عربی ہو اسے کسی قسم کا صدقہ خواہ فرض ہو یا نفل دینا جائز نہیں ا لبتہ جو کافر ذمی ہوں ان کو زکوۃ اور عشر کے علاوہ دوسرے صدقات دینے جائز ہیں خواہ وہ دوسرے صدقات واجبہ ہوں جیسے صدقہ فطریانافلہ ہوں جیسے عام صدقہ یہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ بعض علماء کا قول ہے لو انفقت علے شرخلق اللہ لکان لک ثواب نفق تک یعنی اگر تو بد ترین خلق پر بھی خیرات کرے گا تو اس کا بھی تجھ کو ثواب عطا کیا جائے گا۔ بعض لوگوں نے حدیث لایا کل طعامک الاتقے تقی سے ممانعت پر استدلال کیا ہے حالانکہ حدیث میں جس طعام کی پرہیز گاروں کے ساتھ تخصیص کی گئی ہے وہ دعوت کا کھانا ہے اور کافر کو جس طعام کے دینے کی اجازت ہے وہ حاجت کا کھانا ہے یعنی اپنی دعوت پر بلائو اور گھر پر دعوت کرو تو نیک لوگوں کی کرو اور کوئی حاجت مند آجائے تو خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اس کو کھانا کھلا دو ورنہ اگر حدیث سے عموم لیا جائے تو فاسق مسلمان کو بھی خیراث دینا ممنوع ہوجائے گا۔ (واللہ اعلم) اب آگے مستحقین کا تعارف کراتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ہر حاجت مند اس امر کا مستحق ہے کہ جب اس کی حاجت معلوم ہو تو اس کو پورا کردو لیکن حقیقی مستحق تمہارے صدقات و نفقات کے وہ لوگ ہیں جن کی صفتیں آگے بیان کی جاتی ہیں تم جب صدقہ دو تو ایسے ہی لوگوں کو تلاش کر کے دو اور یوں کوئی بھی ضرورت مند آجائے اور تم کو کسی حاجت مند کی حاجت کا پتہ لگ جائے تو اس کی حاجت پوری کرنے میں دریغ نہ کرو۔ (تسہیل)