Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 276

سورة البقرة

یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡمٍ ﴿۲۷۶﴾

Allah destroys interest and gives increase for charities. And Allah does not like every sinning disbeliever.

اللہ تعالٰی سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالٰی کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Does Not Bless Riba Allah says; يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ... Allah will destroy Riba and will give increase for Sadaqat. Allah states that He destroys Riba, either by removing this money from those who eat it, or by depriving them of the blessing, and thus the benefit of their money. Because of their Riba, Allah will torment them in this life and punish them for it on the Day of Resurrection. Allah said, قُل لاَّ يَسْتَوِى الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ Say: "Not equal are Al-Khabith (evil things) and At-Tayyib (good things), even though the abundance of Al-Khabith may please you." (5:100) وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعاً فَيَجْعَلَهُ فِى جَهَنَّمَ And put the wicked (disbelievers and doers of evil deeds) one over another, heap them together and cast them into Hell. (8:37) and, وَمَأ ءَاتَيْتُمْ مِّن رِّباً لِّيَرْبُوَاْ فِى أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَ يَرْبُواْ عِندَ اللَّهِ And that which you give in gift (to others), in order that it may increase (your wealth by expecting to get a better one in return) from other people's property, has no increase with Allah. (30:39) Ibn Jarir said that Allah's statement, يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا (Allah will destroy Riba), is similar to the statement reported of Abdullah bin Mas`ud, "Riba will end up with less, even if it was substantial." Imam Ahmad recorded a similar statement in Al-Musnad. Allah Increases Charity, Just as One Raises His Animal Allah's statement, ... وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ... And will give increase for Sadaqat, means, Allah makes charity grow, or He increases it. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلاَ يَقْبَلُ اللهُ إِلاَّ الطَّيِّبَ فَإِنَّ اللهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَل Whoever gives in charity what equals a date from honest resources, and Allah only accepts that which is good and pure, then Allah accepts it with His right (Hand) and raises it for its giver, just as one of you raises his animal, until it becomes as big as a mountain. This was recorded in the book of Zakah. Allah Does not Like the Disbelieving Sinners Allah's statement, ... وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ And Allah likes not the disbelievers, sinners. indicates that Allah does not like he who has a disbelieving heart, who is a sinner in tongue and action. There is a connection between the beginning of the Ayah on Riba and what Allah ended it with. Those who consume Riba are not satisfied with the permissible and pure resources that Allah provided them. Instead, they try to illegally acquire people's money by relying on evil methods. This demonstrates their lack of appreciation for the bounty that Allah provides. Praising Those Who Thank Allah Allah praised those who believe in His Lordship, obey His commands, thank Him and appreciate Him. They are those who are kind to His creation, establish prayer and give charity due on their money. Allah informed them of the honor that He has prepared for them and that they will be safe from the repercussions of the Day of Resurrection. Allah said, إِنَّ الَّذِينَ امَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُواْ الصَّلَةَ وَاتَوُاْ الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ

سود کا کاروبار برکت سے محروم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ سود کو برباد کرتا ہے یعنی یا تو اسے بالکل غارت کر دیتا ہے یا سودی کاروبار سے خیر و برکت ہٹا دیتا ہے علاوہ ازیں دنیا میں بھی وہ تباہی کا باعث بنتا ہے اور آخرت میں عذاب کا سبب ، جیسے ہے آیت قل لا یستوی الخبیث والطیب الخ ، یعنی ناپاک اور پاک برابر نہیں ہوتا گو تمہیں ناپاک کی زیادتی تعجب میں ڈالے ۔ ارشاد فرمایا آیت ویجعل الخبیث بعضہ علی بعض فیر کم فیجعلہ فی جہنم ۔ الایہ خباثت والی چیزوں کو تہ و بالا کرکے وہ جہنم میں جھونک دے گا اور جگہ ہے آیت ( وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ) 30 ۔ الروم:39 ) یعنی سود دے کر جو مال تم بڑھانا چاہتے ہو وہ دراصل بڑھتا نہیں ، اسی واسطے حضرت عبداللہ بن مسعود والی روایت میں ہے کہ سود سے اگر مال میں اضافہ ہو بھی جائے لیکن انجام کار کمی ہوتی ہے ( مسند احمد ) مسند کی ایک اور روایت میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق مسجد سے نکلے اور اناج پھیلا ہوا دیکھ کر پوچھا یہ غلہ کہاں سے آیا ؟ لوگوں نے کہا بکنے کیلئے آیا ہے ، آپ نے دعا کی کہ اللہ اس میں برکت دے ، لوگوں نے کہا یہ غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے پہلے ہی جمع کر لیا تھا ، پوچھا کس نے جمع کیا تھا ، لوگوں نے کہا ایک تو فروخ نے جو حضرت عثمان کے مولی ہیں اور دوسرے آپ کے آزاد کردہ غلام نے ، آپ نے دونوں کو بلوایا اور فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا ؟ جواب دیا کہ ہم اپنے مالوں سے خریدتے ہیں اور جب چاہیں بیچیں ، ہمیں اختیار ہے ، آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں میں مہنگا بیچنے کے خیال سے غلہ روک رکھے اسے اللہ مفلس کردے گا ، یہ سن کر حضرت فروخ تو فرمانے لگے کہ میری توبہ ہے میں اللہ سے اور پھر آپ سے عہد کرتا ہوں کہ پھر یہ کام نہ کروں گا لیکن حضرت عمر کے غلام نے پھر بھی یہی کہا کہ ہم اپنے مال سے خریدتے ہیں اور نفع اٹھا کر بیچتے ہیں ، اس میں کیا حرج ہے؟ راوی حدیث حضرت ابو یحییٰ فرماتے ہیں میں نے پھر دیکھا کہ اسے جذام ہو گیا اور جذامی ( کوڑھ ) بنا پھرتا تھا ، ابن ماجہ میں ہے جو شخص مسلمانوں کا غلہ گراں بھاؤ بیچنے کیلئے روک رکھے اللہ تعالیٰ اسے مفلس کر دے گا یا جذامی ۔ پھر فرماتا ہے وہ صدقہ کو بڑھاتا ہے ۔ یربی کی دوسری قرأت یربی بھی ہے ، صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور بھی خیرات کرے اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی داہنے ہاتھ لیتا ہے پھر اسے پال کر بڑا کرتا ہے ( جس طرح تم لوگ اپنے بچھڑوں کو پالتے ہو ) اور اس کا ثواب پہاڑ کے برابر بنا دیتا ہے اور پاک چیز کے سوا وہ ناپاک چیز کو قبول نہیں فرماتا ، ایک اور روایت میں ہے کہ ایک کھجور کا ثواب حد پہاڑ کے برابر ملتا ہے ، اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ مثل احد کے ہو کر ملتا ہے ، پس تم صدقہ خیرات کیا کرو ، پھر فرمایا ناپسندیدہ کافروں ، نافرمان زبان زور اور نافرمان فعل والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا ، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صدقہ خیرات نہ کریں اور اللہ کی طرف سے صدقہ خیرات کے سبب مال میں اضافہ کے وعدہ کی پرواہ کئے بغیر دنیا کا مال دینار جمع کرتے پھریں اور بدترین اور خلاف شرع طریقوں سے کمائیاں کریں لوگوں کے مال باطل اور ناحق طریقوں سے کھا جائیں ، یہ اللہ کے دشمن ہیں ان ناشکروں اور گنہگاروں سے اللہ کا پیار ممکن نہیں ۔ پھر ان بندوں کی تعریف ہو رہی ہے جو اپنے رب کے احکام کی بجا آوری کریں ، مخلوق کے ساتھ سلوک و احسان قائم کریں ، نمازیں قائم کریں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، یہ قیامت کے دن تمام دکھ درد سے امن میں رہیں گے کوئی کھٹکا بھی ان کے دل پر نہ گزرے گا بلکہ رب العالمین اپنے انعام و اکرام سے انہیں سرفراز فرمائے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

276۔ 1 یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩٥] اگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ [٣٩٦] یہاں ناشکرے سے مراد وہ سود خور ہے جس کی پاس اپنی ضروریات سے زائد رقم موجود ہے۔ جیسے وہ اپنے کسی محتاج بھائی کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ اسے صدقہ دینا چاہتا ہے نہ قرض حسنہ دیتا ہے بلکہ الٹا اس سے اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی سود کے ذریعہ کھینچنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ زائد روپیہ اس پر محض اللہ کا فضل تھا اور صدقہ یا قرض دے کر اسے اللہ کے اس فضل کا شکر ادا کرنا چاہئے تھا۔ مگر اس نے زائد رقم کو سود پر چڑھا کر اللہ کے فضل کی انتہائی ناشکری کی۔ لہذا اس سے بڑھ کر بدعملی اور گناہ کی بات اور کیا ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا : یعنی سود کا مال بظاہر جتنا بھی بڑھ جائے حقیقت میں نہیں بڑھتا، فرمایا : (وَمَآ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۟ فِيْٓ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ ۚ ) [ الروم : ٣٩ ] ” اور جو کوئی سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ لوگوں کے اموال میں بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام اس کا قلت ہی ہوگا۔ “ [ أحمد : ١؍٤٢٤، ح : ٤٠٢٥، عن ابن مسعود و صححہ محققہ و وافقہ الألبانی فی صحیح ابن ماجہ ] وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سودی مال میں خیر و برکت عطا نہیں فرماتا، چناچہ سود خور پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہیں ملے گی۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتا ہے اور ان میں خیر و برکت ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص پاک کمائی میں سے ایک کھجور بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ پاک مال ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے، پھر اسے صدقہ کرنے والے کے لیے اس طرح پالتا پوستا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ صدقہ (بڑھ کر) پہاڑ کی طرح ہوجاتا ہے۔ “ [ بخاری، الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب : ١٤١٠۔ مسلم : ١٠١٤، عن أبی ہریرۃ (رض) ] كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ : یعنی مال دار ہو کر محتاج کو قرض بھی مفت نہ دے جب تک سود نہ رکھ لے، یہ نعمت کی سخت ناشکری ہے۔ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sayings Of The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) About ربا riba or Interest: عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : اجتنبوا السبع المبقات ، قالوا (سَٔلوا): یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قال : اَلشِّرک والسحر، وقتل النفس التی حرم اللہ الا بالحق ، واکل الربوا ، واکل مال الیتیم والتولی یوم الزحف ، وقذف المحصنات الغافلات (رواہ البخاری و مسلم و ابوداؤد والنسای) |"Abstain from the seven disasters.|" The people asked him: |"What are they, 0 Messenger of Allah?|" He replied: |"To as¬cribe partners to Allah, to practice sorcery, to unjustly kill one whom Allah has declared inviolable, to take ربا riba (interest or usury), to exploit the property of an orphan, to escape at the time of war and to slander the chaste women who are believ¬ers, unwary.|" قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : رءیت اللیلۃ رجلین آتیانی ، فاَخرجانی إلی ارض مقدسۃ فانطلقنا حتی اتینا علی نھر من دم فیہ رجل قایٔم و علی شط النھر رجل بین یدیہ حجارۃ، فأقبل الرجل الذی فی النھر، فاذا اراد ان یخرج رمی الرجل بحجر فی فیہ، فردہ ، حیث کان ، فجعل کلما جاء لیخرج رمی فی فیہ بحجر، فیرجع کما کان، فقلت : ماھذا الذی رأیتہ فی النھر ؟ قال : اکل الربا (رواہ البخاری، ھذا فی البیوع مختصراً ) This night I saw two men who came to me and brought me to a sacred land. We walked until we reached a river of blood, wherein a man was standing, and another man was standing on the bank of the river with some stones before him. Then the man who was standing in the river came forward, and when he intended to come out of the river, the other man threw a stone at his mouth, and turned him back to the place where he was earlier - thus he began to do the same with him whenever he tried to come out of the river by throwing a stone at him and turning him back. I asked him, |"What is that which I have just seen going on?|" He replied, |"He is the one who used to take ربا riba (interest or usury). لعن الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکل الربا موکلہ و کاتبۃ، و شاھدیۃ، و قال : ھم سواء (رواہ مسلم وغیرہ) The Messenger of Allah cursed the one who accepts ربا riba (interest or usury), the one who pays it, the one who writes it and the persons who gives witness to it, and said, |"They are all alike.|" عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : اَربع حق علی اللہ ان لا یدخلھم الجنۃ ولا یذیقھم نعیمھا : مد من الخمر، و اکل الربا و اکل مال الیتیم بغیر حق، والعاق لوالدیہ (رواہ الحاکم) There are four kinds of people about whom Allah has decided not to admit them to Paradise and not to let them taste its bliss: The one who is addicted to wine, the one who takes the ربا riba , the one who exploits the property of an orphan and the man who is disobedient to his parents.mmmm18 عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : الدرھم یصیبہ الرجل من الربا اعظم عنداللہ من ثلاثۃ وثلثین زنبۃ یزنیھا فی اسلام (رواہ الطبرانی) A dirham a man receives as ربا riba (interest or usury) is, in the sight of Allah, more serious than thirty three acts of fornica¬tion or adultery in Islam. عن ابن عباس (رض) قال : نھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَن تشتری الثمرہ حتی تطعم وقال : اِذا ظھرالزنا والربافی قریۃ فقد احلوا باَنفسھم عذاب اللہ (رواہ الحاکم) The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has forbidden the fruits to be sold or pur¬chased before they are eatable, and said, |"When zinc (adultery) and ربا riba (usury or interest) become rampant in the people of a town they themselves invite the punishment of Al¬lah. ما من قوم یظھر الربا الا اخذ وا بالسنۃ ، وما من قوم یظھر فیھم الرشاء الااخذ وا بالرعب (رواہ احمد) The society in which ربا riba becomes rampant is punished with famine, and the society where bribe is rampant is punished with horror (of others). قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : رایت لیلۃ أسری بی لما انتھینا الی السماء السابعہ فنظرت فوقی ، فاذا اَنا برعد و بروق و صواعق، قال فأتیت علی قوم بطونھم کالبیوت فیھا الحیات تری من خارج بطونھم ، قلت : یا جبریل ! من ھؤلاء ؟ قال ھؤلاء اَکلۃ الربا (رواہ احمد) On the night (of Ascension: Mi` raj) when we reached the sev¬enth sky, I looked upwards and saw thunder, lightning and thunder-claps. Then I came across some people whose stom¬achs seemed to be houses full of snakes - one could see them from the the outside of their stomachs. I asked Jibra&il: |"Who are they?|" He replied: |"They are those who used to take ربا riba (interest or usury) |". وروی عن عوف بن مالک (رض) قال : قالَ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایاک والذنوب التی لا تغفر، الغلول ، فمن غل شیٔا أتی بہ یوم القیامہ واکل الربا (الحدیث) Abstain from sins which are not forgiven: Embezzling of the spoils, for whoever embezzles anything will come with it on the Day of Judgment, and the other sin is ربا riba. عن انس (رض) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : اِذا اَقرض الرجل الرجل فلا یاخذ ھدیۃ (مشکوٰۃ) When a man gives a loan to a person he must not accept a gift (presented by the debtor). To sum up, presented here were seven verses of the Holy Qur&an and ten sayings from the ahadith of the noble Prophet which concern the definition of ربا riba, and its nature, and point out to the disasters it brings in the world. This much is enough for a thinking and feeling Muslim. For those interested in a more comprehensive research on the subject and a more detailed discussion on the remaining aspects may see مسأیل السُود Mas&ala-i-sud, a separate book in Urdu on the problem of interest published by this humble writer. In the second verse (276), it was said that Allah Almighty eradicates ربا riba and lets sadaqat (charities) grow. Here sadaqat were introduced with ربا riba by virtue of a unique congruity. It will be noted that there is contradiction in the very nature of ربا riba and صدقہ sadaqah, then their outcomes are also contradictory, and generally, those who engage in these two have contradictory intentions and objectives. The contradiction in nature can be explained by the fact that in صدقہ sadaqah one gives to others what belongs to him without any reward or return, while in ربا riba, that which belongs to others is taken without any compensation or return. The intention and the objective of those who are engaged in these two activities is contradictory because one who gives صدقہ sadaqah, elects to lessen or exhaust what belongs to him exclusively for seeking the pleasure of Allah Almighty and for earning merit in the Hereafter; while the ربا riba-taker is eager to collect impermissible increase on the capital he already has. That the outcome of both is contradictory is made clear by this verse which says that Allah Almighty erases the gains obtained through riba or takes away its barakah بَرَکَہ (blissful abundance); and increases the wealth, or its barakah بَرَکَہ for the giver of صدقہ sadaqah. The result is that the objective of the greedy in pursuit of wealth is not achieved, while one who spends in the way of Allah, and who was quite happy with a little decrease in his belongings, finds it full of Divine barakah بَرَکَہ whereby his wealth increases, or its end-products do, and their benefits accumulate. At this point, it may be interesting to find out what is the meaning of erasing ربا riba and increasing صدقہ sadaqat in the verse. Some commentators have said that this erasing and increasing relates to the Hereafter where the ربا riba-consumer will find his wealth of no avail; it might as well become a curse for him; while those who are engaged in acts of صدقہ sadaqah and خیرات khayrat will find that their wealth has become a source of eternal blessings. This is absolutely obvious in which there is no doubt. However, according to the consensus of commentators, the position is that the erasing of ربا riba and the increasing of صدقہ sadaqah is most certainly related to the Hereafter, but some of its traces are observed in this world as well. The money or property of which ربا riba becomes a part is sometimes destroyed taking with it all that was before it. This is a common sight in markets of ربا riba and stocks where millionaires and capitalists of yesterday become insolvents and paupers of today. No doubt, there are chances of profit and loss in ربا riba-free business activities and there are many businessmen who face losses in business deals but a loss that turns a millionaire into a beggar is witnessed only in riba markets and stock exchanges. There are so many statements of the experienced and the knowledgeable which say that the wealth collected through riba may increase faster and higher, but it generally does not survive long enough to run through children and their successors. In between, comes some calamity and effaces everything out. Sayyidna Ma&mar said that they have heard from their elders that forty years hardly pass on the riba-consumer when muhaq (major loss) overtakes his wealth. May be, the wealth or property does not go to ruins outwardly, but this much is quite certain that its benefits, utilities, and blessings will go away. Since this is no secret that gold and silver are not desirable or useful as such. They cannot remove hunger or thirst. They cannot help beat the heat or serve as quilt and wrap in winter. Neither can they be used as clothes or utensils. The only purpose for which a wise person goes through thousands of exercises to procure and secure these can hardly be anything else except that gold and silver are means to procure things that go to make man&s life pleasant and that he may live a life of comfort and self-respect. Then comes man°s natural wish that his children and relatives should also enjoy the same comfort and self-respect as he did. These are the sort of things that can be called the benefits and utilities of wealth and property. As a result, we can safely say that one who procures these benefits and utilities has his wealth increased in a sense, even though it may appear to have decreased, and one who procures these benefits and utilities on a lower scale has his wealth decreased in a sense even though it may appear to have increased. After having understood this, let us compare the two activities of ربا riba dealings and صدقہ sadaqah and خیرات khayrat. It will soon be noticed that the wealth of the ربا riba-consumer, no doubt, appears to be increasing, but that increase is akin to the swelling of the human body. The increase in swelling is after all an increase of the body itself. But no sane person would like to have this sort of increase because he knows that this increase is a certain knock of death. Similarly, no matter how increased is the wealth of the ربا riba-consumer, he remains, for ever, deprived of its fruits, that is, comfort and honour. Perhaps, at this point, a doubt may bother someone in view of the comfort and status enjoyed by the ربا riba-consumers of today. Here they are with their mansions and villas, living in every luxury money can buy, attended by servants and maids, having the best to eat, drink and sleep - necessities and absurdities all rolled in one. A little thought here would lead every sane person to differentiate between the articles of comfort and comfort itself. There is a big difference between the two. The articles of comfort are made in factories and sold in markets. These can be procured against gold and silver, but that which is known as comfort, peace and bliss, is neither made in any factory nor sold in any market. This is mercy رحمہ (rahmah) which comes directly from Allah Almighty. There are occasions when this cannot be procured no matter how much one holds in his possession. Just think of the comfort of a sound sleep. In order to have it, we can certainly do our best - make a sleep-oriented house which is the best possible, perfect arrangement of air and light, cooling, heating, handsome looking furniture, the bed, the mattress, the pillows, all chosen ideally - but can we be sure that sleep will come just because all this helpful paraphernalia is there? If you have never personally experienced this, there are thousands who cannot sleep due to some disease, and who would say no. Reports from a country, so wealthy and &civilized& as USA, reveal that seventy per cent people cannot sleep without sleeping pills. There are times when even these do not work. You can buy from stores things to make you sleep but you cannot buy sleep from any store at any price. Similar is the case of other articles of comfort and enjoyment. You can buy these articles against money but it is not necessary that you do experience comfort and enjoyment. Again, after having understood this, if we look closely at what happens to the consumers of ربا riba, we shall find that they have everything in the world except what we know as real peace and comfort. So intoxicated they are in turning their ten million into fifteen and fifteen into twenty that they have no time to eat, or dress up, or be with their wives and children. There are factories to take care of. There are foreign ships to watch. Anxieties after anxieties chase them day and night. With them they sleep and with them they rise. How terrible of these crazy people who have confused comfort with articles of comfort, and therefore, they are far away from it. This is a view of their so-called &comfort&. Now let us think of their ideas of status, prestige and fair name. The fact is that such people become hard-hearted and merciless. Taking advantage of the poverty of the poor and the low income of the low-income people becomes their very occupation. Like parasites, they suck their blood to feed their own bodies. Since that is that, it is just not possible that people will ever respect them. Revealing are the accounts of the money-lenders of India and the Jews of Syria. If you see them as they are, you will find that their coffers are filled with gold and silver and precious stones yet they are given no respect in any group of human beings in any corner of the world. Moreover, the inevitable outcome of this cruel practice of theirs is that the poor start grudging and hating them, so much so that in the world of today most wars are an expression of this grudge and hate. It is the confrontation between labour and capital that introduced the ideologies of socialism and communism in the world. The subversive activities of communism are a result of this grudge and hate. The whole world has become a burning cauldron of killings and confrontations because of these. This much accounts for their personal comfort and social prestige. Experience bears out that ribs-earnings never make even the life of their children pleasant. Either the earnings go to waste or, because of its curse, they too, remain disgraced and deprived of the real fruits of wealth. People may perhaps be deceived by the example of the ribs-consumers of the West, wondering how rich they all are and how do their next and their next generations flourish. To this, I have already answered by presenting a brief outline of their so-called prosperity. Here it can only be added that they really are like some man-eater who nurses his body by feeding on the blood of other human beings, and then a group of some such people go to live in a community of their own, and you take someone to that locality to show him how healthy and prosperous all of them happen to be. But an intelligent visitor who is interested in the welfare of humanity will never want to limit his visit to this locality alone; on the contrary, he would also want to see those localities where the blood of people has been sucked dry leaving them half dead. One who has seen the totality of such localities can never be happy with the locality of fat man-eaters. He can never say that this act of theirs is the way of human progress; on the contrary, he will have no option but to declare this as destruction of all that is human. Set against this is the case of those who give صدقہ sadaqah and خیرات khayrat. You will never find them running after money so anxiously. They may have lesser articles of comfort but they shall be found having more satisfaction and peace of heart, which is real comfort, as compared to those who have all those supporting articles. Consequently, they shall be looked at with respect and admiration by every human being of the world. يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّ‌بَا وَيُرْ‌بِي الصَّدَقَاتِ Allah destroys ربا riba and nourishes charities. In short, the above statement of the verse is very clear in relation to the Hereafter. However, if we wish to understand, with a little effort, it is equally open in respect of this worldly life. This is what is meant by the hadith in which the Holy Prophet said: ان الربو و اِن کثر فاِن عاقبتہ تصیر الی قل No matter how much ربا riba increases, it will decrease ultimately. (Musnad Ahmad and Ibn Majah) At the end of the verse (276), it is said: وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ‌ أَثِيمٍ ; which means that Allah Almighty does not like any disbeliever, any sinner. Here it has been indicated that those who just do not hold riba ربا as حرام حرام haram have fallen into kufr کفر (disbelief); and those who do know it to be حرام haram, yet get involved with it, are sinners, transgressors or fasiq فاسق .

دوسری آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں، یہاں سود کے ساتھ صدقات کا ذکر ایک خاص مناسبت سے لایا گیا ہے کہ سود اور صدقہ دونوں کی حقیقت میں بھی تضاد ہے، اور ان کے نتائج بھی متضاد ہیں، اور عموماً ان دونوں کاموں کے کرنے والوں کی غرض ونیت بھی متضاد ہوتی ہے۔ حقیقت کا تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں تو بغیر کسی معاوضہ کے اپنا مال دوسروں کو دیا جاتا ہے، اور سود میں بغیر کسی معاوضہ کے دوسرے کا مال لیا جاتا ہے، ان دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض اس لئے متضاد ہے کہ صدقہ کرنے والا محض اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی اور ثواب آخرت کے لئے اپنے مال کو کم یا ختم کردینے کا فیصلہ کرتا ہے، اور سود لینے والا اپنے موجودہ مال پر ناجائز زیادتی کا خواہشمند ہے اور نتائج کا متضاد ہونا قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ سود سے حاصل شدہ مال کو یا اس کی برکت کو مٹا دیتے ہیں، اور صدقہ کرنے والے کے مال یا اس کی برکت کو بڑھاتے ہیں، جس کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ مال کی ہوس کرنیوالے کا مقصد پورا نہیں ہوتا، اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والا جو اپنے مال کی کمی پر راضی تھا اس کے مال میں برکت ہو کر اس کا مال یا اس کے ثمرات وافوائد بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آیت میں سود کو مٹانے اور صدقات کو بڑھانے کا کیا مطلب ہے ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ مٹانا اور بڑھانا آخرت کے متعلق ہے کہ سود خور والوں کا مال آخرت میں کچھ کام نہ آئے گا بلکہ اس پر وبال بن جائے گا، اور صدقہ خیرات کرنے والوں کا مال آخرت میں ان کے لئے ابدی نعمتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا اور یہ بالکل ظاہر ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں اور عامہ مفسرین نے فرمایا ہے کہ سود کا مٹانا اور صدقہ کا بڑھانا آخرت کے لئے تو ہے ہی، مگر اس کے کچھ آثار دنیا میں بھی مشاہدہ میں آجاتے ہیں۔ سود جس مال میں شامل ہوجاتا ہے، بعض اوقات وہ مال خود ہلاک و برباد ہوجاتا ہے، اور پچھلے مال کو بھی ساتھ لے جاتا ہے، جسے کہ ربوٰ اور سٹہ کے بازاروں میں اس کا ہمیشہ مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ اور فقیر بن جاتے ہیں، بےسود کی تجارتوں میں بھی نفع و نقصان کے احتمالات رہتے ہیں اور بہت سے تاجروں کو نقصان بھی کسی تجارت میں ہوجاتا ہے، لیکن ایسا نقصان کہ کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کو بھی محتاج ہے، یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں میں ہی ہوتا ہے، اور اہل تجربہ کے بیشمار بیانات اس بارے میں مشہور و معروف ہیں کہ سود کا مال فوری طور پر کتنا ہی بڑھ جائے لیکن وہ عموماً پائیدار اور باقی نہیں رہتا، جس کا فائدہ اولاد اور نسلوں میں چلے، اکثر کوئی نہ کوئی آفت پیش آکر اس کو برباد کردیتی ہے، حضرت معمر نے فرمایا کہ ہم نے بزرگوں سے سنا ہے کہ سود خور پر چالیس سال گذرنے نہیں پاتے کہ اس کے مال پر محاق (یعنی گھاٹا) آجاتا ہے۔ اور اگر ظاہری طور پر مال ضائع و برباد بھی نہ ہو تو اس کے فوائد و برکات وثمرات سے محرومی تو یقینی اور لازمی ہے، کیونکہ یہ بات کچھ مخفی نہیں کہ سونا چاندی خود تو نہ مقصود ہے نہ کارآمد، نہ اس سے کسی کی بھوک مٹ سکتی ہے، نہ پیاس نہ سردی، نہ گرمی سے بچنے کے لئے اوڑھا بچھایا جاسکتا ہے، نہ وہ کپڑوں برتنوں کا کام دے سکتا ہے، پھر اس کو حاصل کرنے اور محفوظ کرنے میں ہزاروں مشقتیں اٹھانے کا منشاء ایک عقلمند انسان کے نزدیک اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ سونا چاندی ذریعہ ہیں ایسی چیزوں کے حاصل کرنے کا کہ جن سے انسان کی زندگی خوشگوار بن سکے، اور وہ راحت و عزت کی زندگی گزار سکے، اور انسان کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ یہ راحت وعزت جس طرح اسے حاصل ہوئی اس کی اولاد اور متعلقین کو بھی حاصل ہو۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو مال و دولت کے فوائد وثمرات کہلا سکتے ہیں، اس کے نتیجہ میں یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ جس شخص کو یہ ثمرات و فوائد حاصل ہوئے اس کا مال ایک حیثیت سے بڑھ گیا اگرچہ دیکھنے میں کم نظر آئے اور جس کو یہ فوائد وثمرات کم حاصل ہوئے اس کا مال ایک حیثیت سے گھٹ گیا اگرچہ دیکھنے میں زیادہ نظر آئے۔ اس بات کو سمجھ لینے کے بعد سود کا کاروبار اور صدقہ و خیرات کے اعمال کا جائزہ لیجئے تو یہ بات مشاہدہ میں آجائے گی کہ سود خور کا مال اگرچہ بڑھتا ہوا نظر آتا ہے مگر وہ بڑھنا ایسا ہے کہ جیسے کسی انسان کا بدن ورم وغیرہ سے بڑھ جائے ورم کی زیادتی بھی تو بدن ہی کی زیادتی ہے، مگر کوئی سمجھدار انسان اس زیادتی کو پسند نہیں کرسکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زیادتی ہے موت کا پیغام ہے اسی طرح سود خور کا مال کتنا ہی بڑھ جائے مگر مال کے فوائد وثمرات یعنی راحت وعزت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ یہاں شاید کسی کو یہ شبہ ہو کہ آج تو سودخوروں کو بڑی سے بڑی راحت وعزت حاصل ہے وہ کوٹھیوں بنگلوں کے مالک ہیں عیش و آرام کے سارے سامان مہیا ہیں کھانے پینے پہننے اور رہنے سہنے کی ضرورت بلکہ فضولیات بھی سب ان کو حاصل ہیں نوکر چاکر اور شان و شوکت کے تمام سامان ہیں لیکن غور کیا جائے تو ہر شخص سمجھ لے گا کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو فیکٹریوں اور کارخانوں میں بنتا اور بازاروں میں بکتا ہے وہ سونے چاندی کے عوض حاصل ہوسکتا ہے لیکن جس کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے نہ کسی منڈی میں بکتی ہے، وہ ایک ایسی رحمت ہے جو براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بعض اوقات ہزاروں سامان کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتی، ایک نیند کی راحت کو دیکھ لیجئے کہ اس کے حاصل کرنے کے لئے یہ تو کرسکتے ہیں کہ سونے کے لئے مکان کو بہتر سے بہتر بنائیں، ہوا اور روشنی کا پورا اعتدال ہو، مکان کا فرنیچر دیدہ زیب دل خوش کن ہو، چارپائی اور گدے اور تکئے حسب منشا ہوں، لیکن کیا نیند کا آجانا ان سامانوں کے مہیا ہونے پر لازمی ہے ؟ اگر آپ کو کبھی اتفاق نہ ہوا ہو تو ہزاروں وہ انسان اس کا جواب نفی میں دیں گے جن کو کسی عارضہ سے نیند نہیں آتی۔ اب امریکہ جیسے مال دار متمدن ملک کے متعلق بعض رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ وہاں پچھتر فیصد آدمی خواب آور گولیوں کے بغیر سو ہی نہیں سکتے اور بعض اوقات خواب آور دوائیں بھی جواب دیدیتی ہیں نیند کے سامان تو آپ بازار سے خرید لائے مگر نیند آپ کسی بازار سے کسی قیمت پر نہیں لاسکتے، اسی طرح دوسری راحتوں اور لذتوں کا حال ہے کہ ان کے سامان تو روپیہ پیسے کے ذریعہ حاصل ہو سکتے ہیں مگر راحت ولذت کا حاصل ہونا ضروری نہیں۔ یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر راحت کا نام نہ پائیں گے وہ اپنے کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ اور ڈیڑھ کروڑ کو دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آئیں گے کہ نہ ان کو اپنے کھانے پہننے کا ہوش ہے نہ اپنی بیوی بچوں کا، کئی کئی مل چل رہے ہیں، دوسرے ملکوں سے جہاز آرہے ہیں ان کی ادھیڑ بن ہی میں صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجاتی ہے، افسوس ہے کہ ان دیوانوں نے سامان راحت ہی کا نام راحت سمجھ لیا ہے اور حقیقت میں راحت سے کوسوں دور ہیں۔ یہ حال تو ان کی راحت کا ہے اب عزت کو دیکھ لیجئے یہ لوگ چونکہ سخت دل اور بےرحم ہوجاتے ہیں ان کا پیشہ ہی یہ ہوتا ہے کہ مفسلوں کی مفلسی سے یا کم مایہ لوگوں کی کم مائگی سے فائدہ اٹھائیں ان کا خون چوس کر اپنے بدن کو پالیں اس لئے ممکن نہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی کوئی عزت و وقار ہو اپنے ملک کے بنیوں اور ملک شام کے یہودیوں کی تاریخ پڑھ جائیے، ان کے حالات کو دیکھ لیجئے ان کی تجوریاں کتنے ہی سونے چاندی اور جواہرات سے بھری ہوں لیکن دنیا کے کسی گوشہ میں انسانوں کے کسی طبقہ میں ان کی کوئی عزت نہیں بلکہ ان کے اس عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب مفلس لوگوں کے دلوں میں ان کی طرف سے بغض ونفرت پیدا ہوتی ہے اور آجکل تو دنیا کی ساری جنگیں اسی بغض ونفرت کی مظاہر ہیں، محنت وسرمایہ کی جنگ نے ہی دنیا میں اشتراکیت اور اشتمالیت کے نظرئیے پیدا کئے کمیونزم کی تخریبی سرگرمیاں اسی بغض ونفرت کا نتیجہ ہیں جن سے پوری دنیا قتل و قتال اور جنگ وجدال کا جہنم بن کر رہ گئی ہے، یہ حال تو اپنی راحت وعزت کا ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ سود کا مال سود خور کی آنے والی نسلوں کی زندگی کو بھی کبھی خوشگوار نہیں بناتا یا ضائع ہوجاتا ہے یا اس کی نحوست سے وہ بھی مال و دولت کے حقیقی ثمرات سے محروم و ذلیل رہتے ہیں لوگ یورپ کے سود خوروں کی مثال سے شاید فریب میں آئیں کہ وہ لوگ تو سب کے سب خوش حال ہیں اور ان کی نسلیں بھی پھولتی پھلتی ہیں لیکن اول تو ان کی خوش حالی کا اجمالی خاکہ عرض کرچکا ہوں۔ دوسرے ان کی مثال تو ایسی ہے کہ کوئی مردم خور دوسرے انسانوں کا خون چوس کر اپنا بدن پالتا ہو اور ایسے کچھ انسانوں کا جتھہ ایک محلہ میں آباد ہوجائے آپ کسی کو اس محلہ میں لے جاکر مشاہدہ کرائیں کہ یہ سب کے سب بڑے صحت مند اور سرسبز و شاداب ہیں لیکن ایک عقل مند آدمی کو جو انسانیت کی فلاح کا خواہشمند ہے صرف اس محلہ کا دیکھنا نہیں بلکہ اس کے مقابل ان بستیوں کو بھی دیکھنا ہے جن کا خون چوس کر ان کو ادھ موا کردیا گیا ہے اس محلہ اور ان بستیوں کے مجموعہ پر نظر ڈالنے والا کبھی اس محلہ کے فربہ ہونے پر خوش نہیں ہوسکتا اور مجموعی حیثیت سے ان کے عمل کو انسانی ترقی کا ذریعہ نہیں بتاسکتا بلکہ اس کو انسان کی ہلاکت و بربادی ہی کہنے پر مجبور ہوگا۔ اس کے بالمقابل صدقہ خیرات کرنے والوں کو دیکھئے کہ ان کو کبھی اس طرح مال کے پیچھے حیران و سرگردان نہ پائیں گے ان کو راحت کے سامان اگرچہ کم حاصل ہوں مگر سامان والوں سے زیادہ اطمینان اور سکون قلب جو اصلی راحت ہے ان کو حاصل ہوگی، دنیا میں ہر انسان ان کو عزت کی نظر سے دیکھے گا۔ يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقہ کو بڑھاتا ہے یہ مضمون آخرت کے اعتبار سے تو بالکل صاف ہے ہی، دنیا کے اعتبار سے بھی اگر ذرا حقیقت سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بالکل کھلا ہوا ہے، یہی ہے مطلب اس حدیث کا جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان الربوٰا وان کثر فان عاقبتہ تصیر الیٰ قل۔ یعنی سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہوجائے مگر انجام کار نتیجہ اس کا قلت ہے۔ آیت کے آخر میں ارشاد ہے۔ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ یعنی اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے کسی کفر کرنے والے کو کسی گناہ کا کام کرنے والے کو، اس میں اشارہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ سود کو حرام ہی نہ سمجھیں وہ کفر میں مبتلا ہیں اور جو حرام سمجھنے کے باوجود عملاً اس میں مبتلا ہیں وہ گنہگار فاسق ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ۝ ٢٧٦ محق المَحْقُ : النّقصان، ومنه : المِحَاقُ ، لآخر الشهر إذا انْمَحَقَ الهلال، وامْتَحَقَ ، وانْمَحَقَ ، يقال : مَحَقَهُ : إذا نقصه وأذهب بركته . قال اللہ تعالی: يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وقال : وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] . ( م ح ق ) المحق کے معنی گھٹنے اور کم ہونے کے ہیں اور اسی سے المحاق قمری مہینہ کی ان آخری راتوں کو کہتے ہیں جن میں چاند نمودار نہیں ہوتا ۔ انمحق وامتحق کے معنی کم ہونا اور مٹ جانا ہیں اور محقہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے اور اس سے برکت کو ختم کردینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ؛ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] خدا سود کرنا بود ( یعنی بےبرکت کرتا ) اور خیرات ( کی برکت ) کو بڑھاتا ہے ۔ وَيَمْحَقَ الْكافِرِينَ [ آل عمران/ 141] اور کافروں کو نابود کردے ۔ رِّبَا : الزیادة علی رأس المال، لکن خصّ في الشرع بالزیادة علی وجه دون وجه، وباعتبار الزیادة قال تعالی: وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، ونبّه بقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، أنّ الزیادة المعقولة المعبّر عنها بالبرکة مرتفعة عن الرّبا، ولذلک قال في مقابلته : وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم/ 39] الربا ( سود ) راس المال یعنی اصل سرمایہ پر جو بڑھوتی لی جائے وہ ربو کہلاتی ہے ۔ لیکن شریعت میں خاص قسم کی بڑھوتی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ زیادہ ہونے کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] اور تم کو جو چیز ( عطیہ ) زیادہ لینے کے لئے دو تاکہ لوگوں کے اموال میں بڑھوتی ہو وہ اللہ کے یہاں نہیں بڑھے گی ۔ اور آیت : ۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] اللہ سود کو بےبرکت کرتا ہے اور خیرات کو بڑھاتا ہے ۔ میں محق کا لفظ لا کر اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ ربا ، ، یعنی سود میں برکت نہیں ہوتی اس کے مقابلہ میں زکوۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَما آتَيْتُمْ مِنْ زَكاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ [ الروم/ 39] اور تم ( محض ) خدا کی رضا جوئی کے ارادے سے زکوہ دیتے ہو تو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیئے ہوئے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ إثم الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة/ 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ { فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ } ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧٦ (یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط) ہمارے زمانے میں شیخ محمود احمد (مرحوم) نے اپنی کتاب Man & Money میں ثابت کیا ہے کہ تین چیزیں سود کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جتنا سود بڑھے گا اسی قدر بےروزگاری بڑھے گی ‘ افراطِ زر (inflation) میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں شرح سود (interest rate) بڑھے گا۔ شرح سود کے بڑھنے سے بےروزگاری مزید بڑھے گی اور افراطِ زر میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ یہ ایک دائرۂ خبیثہ (vicious circle) ہے اور اس کے نتیجے میں کسی ملک کی معیشت بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ یہ تباہی ایک وقت تک پوشیدہ رہتی ہے ‘ لیکن پھر یک دم اس کا ظہور بڑے بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ابھی جو کو ریا کا حشر ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے روس کا جو حشر ہوچکا ہے وہ پوری دنیا کے لیے باعث عبرت ہے۔ سودی معیشت کا معاملہ تو گویا شیش محل کی طرح ہے ‘ اس میں تو ایک پتھر آکر لگے گا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس معاملہ صدقات کا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ پالتا ہے ‘ بڑھاتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الروم کی آیت ٣٩ میں ارشاد ہوا۔ (وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ) اللہ تعالیٰ کو وہ سب لوگ ہرگز پسند نہیں ہیں جو ناشکرے اور گناہگار ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

320. The fact stated in this verse is a truism from a moral and spiritual as well as from an economic and social viewpoint. For, although wealth apparently multiplies through interest and shrinks as a result of charity, in actual fact the opposite is the case. By God's decree, the law of nature is such that interest not only serves as a strain on moral and spiritual well-being, and social and economic growth, it also causes actual regression and decline. Charity, however, (including such acts as lending money to people with the stipulation that they should return it if they can. and at their convenience) leads to the growth and expansion of man's moral and spiritual qualities and to the growth of human society and economy. Looked at from moral and spiritual standpoints, it is evident that interest is not only the outcome of selfishness, miserliness and callousness but also encourages their growth. Charity, on the other hand, is the outcome of generosity, compassion, large -heartedness and magnanimity, with the result that the more one practises charity the more these qualities develop. It is obvious that if there is a society whose individuals are selfish in their dealings with one another, in which none is prepared to assist the other without self-interest, in which every person considers the other's need an opportunity to capitalize and exploit, in which the interests of the rich are directly opposed to the interests of the common people, that society does not rest on stable foundations. In such a society, instead of love and compassion there is bound to grow mutual spite and bitterness, apathy, indifference and callousness. The elements which compose such a society are bound to remain inclined towards disintegration and chaos; acute internal conflict and strife are sure to occur. Contrast this with the society which is based on mutual sympathy and co-operation, whose individuals deal with one another magnanimously, in which, when a person is in need, people willingly come forward to accord generous help, in which the 'haves' assist the 'have-nots' with compassion and at least engage in just and equitable co-operation. In such a society mutual cordiality. goodwill and fellow-feeling are bound to flourish. The various components of such a society will be closely knit together and prove a source of mutual support. In such a society internal conflict and strife will make few inroads. Also, owing to mutual co-operation and goodwill the pace of development should be faster than in the other kind of society. Let us now look at the matter from an economic viewpoint, from which inte rest- bearing loans are seen to be of two kinds. The first category, consists of loans incurred by people in genuine need, who are compelled to borrow for their personal consumption requirements. The second consists of the loans incurred by businessmen for investment in trade and industry or agriculture. The first category is generally acknowledged to lead to ruin. Nevertheless, there is not one country in the world where financiers and financial institutions are not sucking the blood of poor labourers, peasants and ordinary low-income people through interest on consumption loans. The burden of interest makes it extremely difficult, often impossible, for borrowers to pay off the original loan. They may even have to resort to fresh borrowing from elsewhere to pay if off. Because of the way interest works, the sum outstanding against them often remains even after they, have paid twice or three times its amount in interest. The bulk of the income of labourers is snatched away from them by lenders, leaving them without enough for the bare necessities of life for themselves and their families. This situation steadily erodes their interest in their jobs. For if someone else is to reap the benefit of a man's hard work, why should he work hard at all? Moreover, oppressed by the worries of debt, the health and strength of labourers is gradually destroyed by undernourishment and lack of medical treatment. In short, a minority of people continually fatten themselves by sucking the blood of millions of ordinary people, but the total production level of the people remains much lower than its optimum potential. Ultimately, of course, these exploiters are seldom spared the evil consequences of their actions. Their callous selfishness causes such widespread misery among the masses that anger and resentment against the rich smoulder in their hearts ready to erupt in times of revolutionary unrest. The exploiters then have to pay very dearly: their ill-earned riches are not only wrested from them, they are either killed mercilessly or subjected to ignominy and humiliation. The second category of loans, those invested in productive enterprises, also cause harm because of the infliction of a predetermined rate of interest on such borrowings. The most significant are the following: (1 ) Projects which do not promise a higher rate of profit than the current rate of interest fail to attract sufficient funds, no matter how useful and necessary they may, be from the viewpoint of larger national interests. Loanable funds flow towards those business enterprises which are likely to yield at least the same, if not a higher rate of profit on investments than the current rate of interest, even though they may be of very little or no benefit to the nation at large. (2) There can be no guarantee that a business investment, whether it is in trade, industry or agriculture, will always yield a rate of profit which is higher than the rate of interest. Not only can there be no such assurance, there can never be an assurance about any business that it will always remain profitable. What really happens, therefore, is that the financier is assured interest at a predetermined rate whereas the business in which the loan is invested is exposed to risk and possible losses. (3) Since the lender does not share the profit and loss of the business but lends out funds on the assurance of a fixed rate of interest, he is in no way concerned with the fortunes of the business itself. He is solely concerned, and in a totally selfish spirit, with his own pecuniary benefit. Hence, whenever the lender senses the faintest sign of depression, he begins to withdraw money from the market. The result is that sometimes imaginary fears and anxieties spark off an actual depression in the economy. And if the economy is depressed owing to other factors, the excessive selfishness of the financiers tends to escalate the situation into a full-scale economic crisis. These three evils of interest are obvious to every student of economics. Can anyone then deny the truth of the Natural law, enunciated by Allah that interest decreases the national economic wealth? Let us now look at the economic effects of charity. Suppose the general attitude of the prosperous members of a society, is that within the limits of their means they spend generously on the fulfilment of their own requirements and on the requirements of their family, and then devote the surplus to helping the poor. After that they, either use their funds to provide interest-free loans to businessmen, invest them in business with the stipulation that they shall be co-sharers in both the profit and loss of the business, or deposit them with the government so that it may use them on projects of public welfare. A little reflection will make it obvious that trade, industry, and agriculture in such a society, will attain maximum prosperity; the standard of living of its people will continually rise and production in it will be much higher than in societies where economic activity is fettered by interest. 321. It is clear that only those who have a surplus of earnings over their basic requirements can lend out money at interest. This surplus, according to the Qur'an, constitutes God's bounty. And true thankfulness for this bounty requires that a person should be bountiful towards other creatures of God even as the Creator has been to him. If, instead of doing this, the person tries to become richer at the expense of those whose present earnings are insufficient to meet their needs, he is at once guilty of ungratefulness to God, and blatantly unjust, cruel and wicked.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :320 ”اس آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے ، جو اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی ۔ اگرچہ بظاہر سود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ خدا کا قانون فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی و روحانی اور معاشی و تمدنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزل کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اور اس کے برعکس صدقات سے ( جن میں قرض حسن بھی شامل ہے ) اخلاق و روحانیت اور تمدن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے ۔ اخلاقی و روحانی حیثیت سے دیکھیے ، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سود دراصل خود غرضی ، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ انہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے ۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیاضی ، ہمدردی ، فراخ دلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا ، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں ۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموعے کو بدترین اور دوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ تمدنی حیثیت سے دیکھیے ، تو بادنٰی تامل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں ، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے ، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اٹھائے ، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے ، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی ۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی ۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے ۔ اور اگر دوسرے اسباب بھی اس صورت حال کے لیے مددگار ہو جائیں ، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے ۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو ، جس کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے ، اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی ۔ اس کے اجزا ایک دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے پشتیبان ہوں گے ۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا ۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی ۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے ۔ معاشیات کے نقطہ نظر سے سودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں ۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں ۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دنیا جانتی ہے کہ اس پر سود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کن ہے ۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدوروں کا ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چوس رہے ہوں ۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل ، بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جا تا ہے ۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں ۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سود دے چکنے پر بھی اصل رقم جوں کی توں باقی رہتی ہے ۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا ۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے ۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دوسرا لے اڑے تو وہ کبھی دل لگا کر محنت نہیں کر سکتے ۔ پھر سودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھلا دیتی ہے ، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے ، کہ ان کی صحتیں کبھی درست نہیں رہ سکتیں ۔ اس طرح سودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چوس چوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں ، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائش دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے ، اور مآل کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اٹھتا اور گھٹتا رہتا ہے ، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے ۔ رہا دوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے ، تو اس پر ایک مقرر شرح سود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں : ( ١ ) جو کام رائج الوقت شرح سود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں ، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں ، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہاؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے ، جو بازار کی شرح سود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں ، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کا فائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو ۔ ( ۲ ) جن کاموں کے لیے سود پر سرمایہ ملتا ہے ، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد ، مثلاً پانچ ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اوپر اوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا ۔ اس کی ضمانت ہونا تو درکنار ، کسی کاروبار میں سرے سے اسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا ، نقصان کبھی نہ ہوگا ۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو ، نقصان اور خطرے کے پہلوؤں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا ۔ ( ۳ ) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرح منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے ، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور برائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے ، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے ۔ اس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے ، اور کبھی اگر دوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کن حد تک پہنچا دیتی ہے ۔ سود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت کی رو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے ۔ اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے ۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریق کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں ، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں ، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سود قرض دیں ، یا شرکت کے اصول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصہ دار بن جائیں ، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے ، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت ، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا ۔ اس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت مجموعی دولت کی پیداوار اس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سود کا رواج ہو ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :321 ظاہر ہے کہ سود پر روپیہ وہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصہ ملا ہو ۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے ، قرآن کے نقطہ نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے ۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے ، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دوسرے بندوں پر فضل کرے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصہ پارہے ہیں ، ان کے قلیل حصے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے ، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم ، جفا کار اور بد عمل بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:276) یمحق مضارع واحد مذکر غائب محق (باب فتح) وہ گھٹاتا ہے۔ محق مٹانا۔ گھٹانا۔ کسی چیز کی طرکت زائل کردینا۔ بےبرکت بنانا۔ یربی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ ارباء (افتعال) مصدر۔ ربو۔ ربوۃ۔ رباط۔ ٹیلہ۔ بلندی۔ وہ بڑھاتا ہے۔ الصدقت۔ زکوتیں۔ خیراتیں۔ کفار اثیم۔ موصوف وصفت۔ کفار۔ کافر سے مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت ناشکرا۔ اثم۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل (اثم) گنہگار۔ اثم یاثم (باب ضرب) اثم واثام و اثم۔ مصدر ۔ بمعنی گناہ کا ارتکاب کرنا۔ کل کفار اثیم۔ ہر گنہگار۔ ناشکرا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی سود کا مال بظاہر کتنا ہی بڑھ جائے۔ اللہ تعالیٰ اس میں خیر و برکت عطا فرماتا چناچہ سود خوار پر دنیا بھی لعنت بھیجتی ہے اور آخرت میں بھی اسے وہ سزا ملے گی جو کسی دوسرے مجرم کو نہ ملے گی۔ ایک حدیث میں ہے کہ سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام کا روبار وہ کم ہی ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) اس کے مقا بلہ میں صدقہ و خیرات میں برکت ہوتی ہے۔ صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی پاکیز ہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ دیا اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے اور بڑھاتا ہے حتی کہ وہ احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ (قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ کبھی تو دنیا ہی میں سب برباد ہوجاتا ہے ورنہ آخرت میں تو یقینا بربادی ہے کیونکہ وہاں اس پر عذاب ہوگا۔ 3۔ کبھی تو دنیا میں بھی ورنہ آخرت میں تو یقینا بڑھتا ہے کیونکہ وہاں اسپر بہت ثواب ملے گا جیسا اوپرآیات میں مذکور ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سود کے بارے میں اسلام نے صرف انفرادی اور اخلاقی سطح پر مذّمت نہیں کی بلکہ اسے قانونی شکل دے کر انفرادی اور اجتماعی نظام میں سرکاری سطح پر حرام قرار دیا۔ اس فرمان میں پھر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو ہر صورت مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جو لوگ سود کے حق میں پروپیگنڈہ اوراقدام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ فکری ونظری اور علمی و عملی طور پر نافرمان اور مجرم ٹھہریں گے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر یہ اعلان فرمایا کہ آج کے بعد سود کے واجبات کا لین دین حرام قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس کے واجبات کو چھوڑتا ہوں۔ آپ کے اعلان کے بعد مسلمانوں نے جو غیر مسلموں اور ایک دوسرے سے سودی واجبات لینے تھے انہیں یکسر چھوڑ دیا۔ اسی بنیاد پر آئمہ کرام اور فقہاء نے اسلامی حکومت میں کسی غیر مسلم کو بھی سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدات کیے تو ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر تم نے اسلامی مملکت میں سودی کاروبار کا دھندا کیا تو ہماری طرف سے یہ معاہدہ فی الفور ختم ہوجائے گا۔ [ فتوح البلدان ‘ کتاب الخراج امام ابو یوسف ] سود کا متبادل عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں جب کبھی سود کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو سود خور اور اس نظام سے منسلک افراد یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ علماء کرام کو چاہیے کہ وہ سودی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس کا متبادل نظام پیش کریں۔ حالانکہ متبادل نظام پیش کرنا معاشیات کے ماہر سرکاری کارندوں کی ذمّہ داری ہے جن میں اکثریت کو بھاری تنخواہوں پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ علماء کا کام تو دینی رہنمائی کرنا ہے اگر حکومت اس استحاصلی نظام سے مخلصانہ طور پر نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسلام نے دو واضح صورتیں پیش کی ہیں جنہیں صدیوں مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنایا اور اس کے نتیجے میں مسلمان بین الاقوامی منڈیوں پر غالب آئے اور معاشیات میں قوموں کے رہبر و رہنما بنے۔ مسلمان تاجروں نے تجارت میں اپنی دیانت اور امانت کے ذریعے عام لوگوں پر وہ اثرات مرتب کیے۔ جن کی وجہ سے بڑی بڑی قومیں حلقۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ قدیم تاریخ کے مطابق شام اور جدید دنیا میں انڈونیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یاد رہے کہ انڈو نیشیا کو مسلمانوں نے تلوار کی بجائے کاروباری اخلاق اور دینی اطوار کے ذریعے فتح کیا تھا۔ اسلام میں تجارت کی دو بڑی قسمیں مضاربت اور مشارکت ہیں۔ مضاربت کا معنیٰ یہ ہے کہ مال ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی اور دونوں نفع و نقصان میں شامل ہوں۔ نقصان ہونے کی صورت میں صاحب ثروت کا مال ضائع ہوگا اور محنت کرنے والے کی محنت رائیگاں جائے گی۔ مشارکت آج کے مالی ادارے اور کمپنیوں کے مترادف ہے۔ ماضی کی طرح یہ نظام آج بھی بابرکت اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ درج ذیل اصولوں کی پاسداری کی جائے اور یہی سودی نظام کا متبادل ہے۔ حکومت کی طرف سے مشار کہ کمپنیوں اور کاروباری افراد کو اندرون اور بیرون ملک نفع بخش پراجیکٹ فراہم کیے جائیں جس طرح ترقی یافتہ ملک کرتے ہیں۔ شراکت داروں کے نمائندوں کا خفیہ انتخاب کے ذریعے بورڈ بنایا جائے جو شراکت داروں کو نفع و نقصان سے آگاہ رکھیں۔ بد دیانت افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کے ساتھ ان سے پائی پائی وصول کی جائے۔ کھاتہ داروں کو قانونی تحفظ اور بھرپور اعتماد فراہم کیا جائے۔ صدقہ : اللہ تعالیٰ سود کے خاتمہ کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے رب کا فرمان اور منشا یہ ہے کہ سود لینے دینے کی بجائے صدقہ و خیرات عام کیا جائے اس کی روشنی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔ “ (عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء ] ” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔ “ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ٍ ٢۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ............... ” اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اس کی وعید بھی یقینی ہے ۔ ہمارے اس دور میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دورجدید میں جو معاشرے بھی سودی کاروبار کرتے ہیں ان کے افراد کے دلوں میں سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہے ان معاشروں سے برکت اٹھ گئی ہے اور خوشحالی اور اطمینان قلب ختم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ربا کو محو کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ ایسے معاشرے پر اپنے فیوض وبرکات نازل نہیں فرماتا جس میں ربا کی گندگی پائی جاتی ہو ۔ ایسے معاشروں کو وہ قحط اور بدنصیبی سے دوچار کرتا ہے بظاہر تو یوں نظرآتا ہے کہ معاشرے میں ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی ہے ۔ ہر طرف وافر پیداوار نظر آتی ہے ۔ ہر طرف سے وافر مقدار میں آمدن ہورہی ہے لیکن جس قدر زیادہ آمدن ہورہی ہے اس قدر برکت نظر نہیں آتی ۔ اس طرح کہ انسان اس وافر آمدنی سے پاکیزہ طریقے سے امن و اطمینان کے ساتھ فائدہ اٹھائے ۔ اس سے پہلے ہم اس محرومی اور بدنصیبی کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جو مغرب کے مالدار اور کثیر آمدنیوں والے ممالک میں لوگوں کے چہروں سے ٹپکی پڑتی ہے اور اس روحانی قلق اور پریشانی کا بیان بھی ہم اس سے قبل بیان کرچکے ہیں ۔ جس میں زیادہ دولت مندی کی وجہ سے اضافہ ہی ہورہا ہے ، کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ ان ممالک کی جانب سے یہ قلق و اضطراب اور یہ محرومی اور بدحالی تمام دنیا میں پھیل رہی ہے ۔ اس لئے کہ ان ممالک میں انسانیت ایک دائمی اور مسلسل مہلک جنگ میں مصروف ہے ۔ وہاں کے لوگ صبح وشام سرد جنگ میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ یہ شب وروز کے بعد ان اعصاب پر زندگی کا بوجھ بھاری ہوتا جارہا ہے۔ چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس ذہنی اور اعصابی کشمکش کی وجہ سے نہ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، نہ عمر میں برکت ہوتی ہے ، نہ ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے اور نہ ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس جو معاشرہ اجتماعی تعاون اور باہم کفالت پر استوار ہو ، چاہے یہ تعاون بذریعہ سدقات واجبہ ہو یا صدقات نافلہ ہو اور اس معاشرے میں باہم محبت ، باہم احسان ، باہم رضامندی کی روح کارفرما ہو اور جس میں ہر فرد تگ و دو محض اس لئے ہو کہ وہ اللہ کی رضامندی حاصل کرکے اس کے اجر کا مستحق بنے اور جسے ہر وقت اطمینان ہو کہ اللہ اس کا مددگار ہے اور وہ صدقہ اور احسان کا اجر اس سے کئی گنا دے گا تو ایسے تمام معاشروں پر اللہ تعالیٰ اپنی برکت نازل کرتا ہے ، جو معاشرے کے افراد پر بھی برکات نازل ہوتی ہیں اور ایسے معاشرہ کی جماعتوں پر بھی فیوض نازل ہوتے ہیں ۔ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، ان کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے ، ان کی صحت میں برکت ہوتی ہے ، ان کی قوت میں برکت ہوتی ہے اور ان کے دل اطمینان سے سرشار ہوتے ہیں اور دل برقرار ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں کو انسان کی موجودہ صورتحال میں یہ حقائق نظر نہیں آتے ، وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو ان حقائقب کو درحقیقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے ، اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ان حقائق کو نہ دیکھیں ۔ یہ لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں اور یہ پردے انہوں نے قصداً ڈالے ہوئے ہیں اور یہ لوگ وہ سود خوار ہیں جن کی ذاتی مصلحت اس میں ہے کہ یہ سودی نظام دائم وقائم رہے ، اس لئے ان حقائق کو نہ دیکھ سکے ۔ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ............... ” اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے ، بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اس تعقیب اور اس نتیجے سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ سودی نظام اقتصادیات کی حرمت کے بعد بھی اگر کچھ لوگ اسے جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ گناہ گار اور کفار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قراردیتے ہیں ان پر کفر اور گناہ گاری کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنی زبان سے ایک ہزار مرتبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰہِ............... کہتے رہیں ، اس لئے کہ اسلام صرف زبانی کلمات کا نام نہیں ہے وہ تو ایک مکمل نظام حیات اور طریقہ عمل ہے اور اس کے سوا کسی ایک جزو کا انکار اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ سب کا انکار کردے ۔ ربا اور سود خوری کی حرمت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے حلال تصور کرنے اور اس کی اساس پر اپنی اقتصادیات کو استوار کرنے پر یقیناً ایک شخص گناہ گار ہوتا ہے اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے ۔ نعوذ باللہ منہ ۔ اس کفریہ اور غیر صالح نظام زندگی کے بالمقابل اور سودی اقتصادیات کے حاملین اور حامیوں کے لئے اس حقارت آمیز ڈراوے کے مقابلے میں ، قرآن کریم اور عمل صالح کے باب کا آغاز کرتا ہے جو اس معاملے میں جماعت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں اور اس ظالمانہ سودی نظام کے بالمقابل جو صالح اسلامی نظام ہے ، اس کا مرکزی نکتہ یہاں بیان کیا جاتا ہے ، یعنی نظام ربا کے مقابلے میں نظام زکوٰۃ ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

صدقات کی برکات اور سود کی بربادی سود خوروں کی مذمت بیان فرمانے کے بعد اس آیت شریفہ میں سود اور صدقات کے درمیان ایک فرق عظیم بتایا ہے اور وہ یہ کہ صدقات کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور سود کے مال کو بےبرکت کردیتا ہے اور اس کو برباد اور تلف فرما دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ سود اگرچہ بہت ہوجائے اس کا انجام کمی کی طرف ہوجائے گا۔ (رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان و احمد کما فی المشکوٰۃ ص ٢٤٦) دنیا میں سودی مالوں کی بےبرکتی تو سب کی نظروں کے سامنے ہے، سود خور ہمیشہ ایک کے دس کرنے ہی کے فکر میں رہتا ہے اور پیسہ ہی اس کی زندگی بن جاتا ہے۔ خدائے پاک کی رضا کے لیے کوئی کام کرے اس سے تو اس کا ذہن فارغ ہی رہتا ہے اس میں بےرحمی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ حاجت مند کی حاجت دیکھتا ہے اور اس کی مجبوری سے مال حاصل کرنے کا راستہ نکالتا ہے اور مجبور اور بےکس کو سود پر قرض دے دیتا ہے اور خیر کے کاموں میں اس کا مال خرچ ہونے کا تو ذکر ہی کیا ہے ؟ پھر سود سے جو مال جمع ہوتا ہے اس سے اسباب معیشت تو جمع ہوجاتے ہیں لیکن سکون و اطمینان سلب ہوجاتا ہے۔ اسباب راحت ہیں۔ راحت نہیں، پھر یہ سودی اموال ہلاک ہوجاتے ہیں مالوں سے بھرے ہوئے جہاز ڈوب جاتے ہیں اور بینک دیوالیے ہوتے رہتے ہیں، یہ سب باتیں نظروں کے سامنے ہیں اگر کسی سود خود کا مال دنیا میں ہلاک اور برباد نہ ہوا تو آخرت میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص حرام مال کما کر صدقہ کرے گا تو وہ قبول نہ ہوگا اور جو کچھ اس میں سے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے گا تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آگ میں لیجانے والا توشہ بنے گا۔ (رواہ احمد کمافی المشکوٰۃ ص ٢٤٢) پھر جو حرام مال آل و اولاد پر زندگی میں خرچ ہوتا ہے اور جو موت کے بعد ان کو پہنچے گا اور ان پر خرچ ہوگا وہ ان کے لیے بھی و بال ہوگا۔ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو گوشت حرام سے بڑھا ہو، جنت میں داخل نہ ہوگا اور جو گوشت حرام سے بڑھا دوزخ کی آگ اس کی زیادہ مستحق ہوگی۔ (احمد و دارمی، مشکوٰۃ ص ٢٤٢) اس مال کی کثرت کس کام کی جو صاحب مال کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے دوزخ میں جانے کا ذریعہ بنے اور دنیا میں بےبرکت ہو اور اس کی وجہ سے آرام و چین مفقود ہو، بر خلاف حلال مال کے کہ وہ خواہ تھوڑا ہی ہو اس میں برکت ہوتی ہے۔ اس میں سے جو صدقہ کردیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوتا ہے اور تھوڑا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے تو بہت زیادہ چند در چند مضاعف کردیا جاتا ہے جس کا بےانتہا ثواب آخرت میں ملے گا۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ ) یعنی جو شخص سود کی حرمت کا قائل نہ ہو اس کو حلال سمجھے اور کفر اختیار کرے اور سود کھا کھاکر خدائے پاک کی نافرمانی کرے اللہ تعالیٰ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے وہ شخص اللہ کا مبغوض ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

541 محق کے معنی باطل کرنے اور گھٹانے کے ہیں والمحق النقصد والذھاب (قرطبی۔ ص 362 ج 3) مطلب یہ ہے کہ ربا سے کمائی ہوئی دولت میں برکت نہیں ہوتی اگرچہ مقدار میں وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور جس مال میں سود کی ملاوٹ ہوجائے گی اس کا انجام ضیاع ہوگا اور وہ مال کبھی نہ کبھی ضائع اور برباد ہو کر رہے گا۔ یذھب ببرکتہ ویھلک المال الذی یدخل فیہ (مدارک ص 108 ج 1) اس کے برعکس اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور خیرات دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مال بڑھتا ہے۔ ینمیھا ویزیدھا ای یزید المال الذی اخرجت منہ الصدقۃ ویبارک فیہ (مدارک ص 108 ج 1) وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيْمٍ ۔ کفار، کافر کا مبالغہ ہے۔ یعنی جو لوگ سود کو حلال سمجھنے کے کفر عظیم کے مرتکب ہیں اور ساتھ ہی سودی کاروبار کے گناہ میں ملوث ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں پسند نہیں کرتا۔ عظیم الکفر باستحلال الربا متمار فی الاثم باکلہ (مدارک ص 108 ج 1) سود خوروں اور سود کو حلال سمجھنے والوں کو عذاب کی خوشخبری کا بیان ہے۔ جو ایمان لانے کے بعد آگے ان لوگوں کیلئے اجر آخرت کی خوشخبری کا بیان ہے جو ایمان لانے کے بعد تمام بدنی اور مالی عبادتیں ادا کرتے ہیں اور سود لینا تو درکنار وہ اللہ کی راہ میں دل کھولکر مال خرچ کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی نا سپاس کفر کرنے والے گناہ کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ ( تیسیر) مطلب صاف ہے کہ سود کو ہماری حمایت اور ہمدردی حاصل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانے کے درپے ہے اگر دنیا میں سود خوار کو مالی نقصان نہ بھی ہو تو آخرت میں تو یقینا خالی ہاتھ بلکہ مجنون و پاگل ہو کر اٹھے گا اور دنیا میں بھی اتنا تو ہوتا ہی ہے کہ سود خوار کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور سود خوار کی طبیعت میں اس جرم سے بہت سی اخلاقی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ لالچ حرص ، بخل ، بےرحمی ، طاعت کی توفیق کا سلب ہوجانا یہ وہ بیماریاں ہیں جو ہر شخص کو سود خوار میں نظر آتی ہیں ۔ ہاں سود کے مقابلہ میں صدقات و خیرات کو ہماری سرپرستی حاصل ہے ہم صدقات کرنے والے کے مال کو بڑھاتے ہیں اور ان کے ثواب کو زیادہ کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے جس نے اپنی پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نہیں قبول کرتا مگر پاک چیز کو پھر اللہ تعالیٰ اس صدقہ کو بڑھاتا اور پا لتا ہے جیسے تم اپنی گھوڑی کو بچھڑے کو پالتے ہو۔ مطلب یہ کہ جس گھوڑی کے بچھڑے کی حفاظت کرتے ہو اور اس کی پرورش کا خیال رکھتے ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کے صدقہ کی پرورش اور نگرانی کرتا ہے۔ طبرانی نے ابو برزدہ اسلمی (رض) سے مرفوعا ً روایت کیا ہے کہ ایک روٹی کا ٹکڑا اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سود کا مال خواہ بڑھتا ہوا نظر آئے مگر وہ حقیقتاً گھٹتا ہے اور صدقہ دینے سے مال خواہ کم ہوتا دکھائی دے مگر وہ بڑھتا اور زیادہ ہوتا ہے ہم نے دوسرے پارے میں بھی ایک موقع پر عرض کیا تھا کہ قرآن کا ایک خاص فلسفہ اور خاص نظریہ ہے دنیا تعداد کی کمی بیشی کو جانتی ہے جو چیز تعداد میں زیادہ ہو اس کو زیادہ اور جو تعداد میں کم ہو اس کو کم سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ تعداد کی کمی بیشی قابل اعتبار نہیں بلکہ یہ دیکھو کہ پاک کیا ہے اور نا پاک کیا ہے حرام کیا ہے اور حلال کیا ہے۔ لا یستوی الخبیث و الطیب ولو اعجبک کثرۃ الخبیث یعنی ناپاک اور پاک دونوں برابر نہیں ہوسکتے ۔ خواہ نا پاک کی زیادتی اور کثرت کتنی ہی خوش نما معلوم ہوتی ہو یہی وہ چیز ہے جس کا اپنے خاص انداز میں قرآن کریم بار بار اعلان کرتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دنیا کی مادی آنکھیں ہمیشہ انکار کرتی ہیں مگر یہ کہ خدا تعالیٰ جس کو صحیح فہم عطا کر دے وہ اس کو سمجھتا اور دیکھتا ہے اس کو ہم اپنے الفاظ میں انوار و برکات کے سلب ہوجانے سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حرام کے ارتکاب سے توفیق طاعت سلب ہوجاتی ہے ۔ عمل کی برکت اور نور جاتا رہتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو بحث مباحثہ سے سمجھ میں مشکل سے آتی ہے ۔ البتہ ارباب سلوک اور اصحاب ذوق اس کو خوب سمجھتے ہیں اس فلسفہ کو ظاہر کردینے کے بعد آخر میں کفار اور اثیم سے بیزاری کا اظہار فرمایا ہوسکتا ہے کہ کفار سے مراد وہ لوگ ہوں جو سود کو حلال اور بیع کو مثل کہنے پر اصرار کرتے ہوں اور اثیم سے وہ مراد ہوں جو حرام کے ارتکاب میں مشغول رہتے اور انہماک رکھتے ہوں اور ہوسکتا ہے کہ آیت عام ہو اور ہر ناسپاس اور مرتکب جرائم سے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہو ۔ حضرت حق جل مجدہ ٗ کی شان اس سے برتر اور بلند ہے کہ وہ کسی خوگر کفر اور جرائم پیشہ شخص کی جانب التفات فرمائے بلکہ وہ ایسے لوگوں کو ناپسند کرتا ہے اور ایسے نا لائقوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی مال دار ہو کر محتاج کو قرض بھی مفت نہ دے جب تک سود نہ رکھ لے یہ نعمت کی نا شکری ہے۔ (موضح القرآن) محق ۔ محاق کے معنی ہیں تدریجی طور پر کسی چیز کا کم ہونا یہاں تک کہ وہ چیز بالکل ختم ہوجائے جیسے چاند کا نور کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجاتا ہے بھلا جس چیز کے کم کرنے اور گھٹانے کے درپے خود حق تعالیٰ جل شانہٗ ہو اس کو زیادتی اور بڑھوتری کا سبب سمجھنا اس سے بڑھ کر بھی کوئی نا دانی ہوسکتی ہے۔ ( تسہیل)