Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 32

سورة البقرة

قَالُوۡا سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳۲﴾

They said, "Exalted are You; we have no knowledge except what You have taught us. Indeed, it is You who is the Knowing, the Wise."

ان سب نے کہا اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They (angels) said: "Glory is to You, we have no knowledge except what you have taught us. Verily, it is You, the Knower, the Wise." Here the angels are praising Allah's holiness, and perfection above every kind of deficiency, affirming that no creature could ever acquire any part of Allah's knowledge, except by His permission, nor could anyone know anything except what Allah teaches them. This is why they said, سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ("Glory is to You, we have no knowledge except what you have taught us. Verily You are the Knower, the Wise) meaning, Allah is knowledgeable of everything, Most Wise about His creation, and He makes the wisest decisions, and He teaches and deprives whom He wills from knowledge. Verily, Allah's wisdom and justice in all matters is perfect. Adam's Virtue of Knowledge is demonstrated Allah said, قَالَ يَا ادَمُ أَنبِيْهُم بِأَسْمَأيِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَأيِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کو صرف انہی امور کا علم دیا گیا ہے جن پر وہ مدبرات امر کی حیثیت سے مامور ہیں۔ مثلاً بادلوں اور پانی کا فرشتہ، پانی کے متعلق تو جملہ معلومات رکھتا ہے مگر دوسری تمام اشیاء کے افعال و خواص سے بالکل بیخبر ہے۔ یہی حال دوسرے فرشتوں کا ہے۔ جبکہ انسان کو تمام اشیاء کا سرسری علم دیا گیا تھا۔ پھر وہ تحقیق اور جستجو کے ذریعہ اس میں ازخود اضافہ کرسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اور جس وقت حکم دیا ہم نے سب فرشتوں کو (اور جنوں کو بھی جیسا کہ بعض روایات میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے غرض ان سب کو یہ حکم دیا گیا کہ) سجدہ میں گرجاؤ آدم کے سامنے سو سب سجدہ میں گر پڑے بجز ابلیس کے کہ اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا اور ہوگیا کافروں میں سے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۝ ٠ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۝ ٣٢ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سبحان و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة/ 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة . ( س ب ح ) السبح ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم/ 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔ علم ( تعلیم) اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق/ 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام/ 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة/ 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لهذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) فرشتوں نے جوابا عرض کیا کہ ہم اپنے قول سے رجوع کرتے ہیں ہمیں جو تو نے بتایا اتنا ہی علم ہے تو ہم سے اور ان سے اور ہماری باتوں اور ان کی باتوں سے زیادہ باخبر ہے

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (قَالُوْا سُبْحٰنَکَ ) آپ ہر نقص سے ‘ ہر عیب سے ‘ ہر ضعف سے ‘ ہر احتیاج سے مبرا اور منزہ ہیں ‘ اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ ّ (لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط) اس کی یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائناتی حکومت میں ملائکہ کی حیثیت درحقیقت اس کے کارندوں (یا civil servants) کی ہے۔ چناچہ ہر ایک کو صرف اس کے شعبے کے مطابق علم دیا گیا ہے ‘ ان کا علم جامع نہیں ہے اور ان کے پاس تمام چیزوں کا مجموعی علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ مثلاً کوئی فرشتہ بارش کے انتظام پر ماموؤ ہے ‘ کوئی پہاڑوں پر مامور ہے ‘ جس کا ذکر سیرت میں آتا ہے کہ جب طائف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پتھراؤ ہوا تو اس کے بعد ایک فرشتہ حاضر ہوا کہ میں ملک الجبال ہوں ‘ اللہ نے مجھے پہاڑوں پر مامور کیا ہوا ہے ‘ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں تو میں ان دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے درمیان طائف کی یہ وادی واقع ہے اور اس طرح اہل طائف پس کر سرمہ بن جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف خدمات پر مامور ہیں اور ان کو جو علم دیا گیا ہے وہ صرف ان کے اپنے فرائضِ منصبی اور ان کے اپنے اپنے شعبے سے متعلق دیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو علم کی جامعیتّ بالقوۃ (potentially) دے دی گئی ‘ جو بڑھتے بڑھتے اب ایک بہت تناور درخت بن چکا ہے۔ (اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ ) آپ ہی کی ذات ہے جو کلُ کے کل علم کی مالک ہے اور جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ باقی تو مخلوق میں سے ہر ایک کا علم ناقص ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

43. It seems that the knowledge of each angel and each genre of angel is confined to its own sphere of competence. The angels appointed to administer, let us say, things relating to air have full knowledge about this subject but have no knowledge, say, about water, and so on and so forth. Man's range of knowledge, however, is comprehensive. Even if man's information in a particular area may be narrower than that of the angel directly concerned with it, the total range of his knowledge has a comprehensiveness which has not been granted to the angels.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :43 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدُود ہے جس سے اس کا تعلق ہے ۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں ، وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں ، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے ۔ یہی حال دُوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے ۔ انسان کو ان کے برعکس جامع عِلم دیا گیا ہے ۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو ، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیّت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے ، وہ فرشتوں کو میسّر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30 : بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے تھے، اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے۔ اس صورت میں ان سے ان ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ جتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدم علیہ السلام کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نہ دے سکے۔ اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہوسکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کردیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:32) سبحنک۔ مضاف مضاف الیہ ۔ تو پاک ہے۔ الا ما علمتنا۔ الا حرف استثناء ۔ ما موصولہ۔ علمتنا فعل فاعل اور مفعول مل کر جملہ فعلیہ ہوکر صلہ ۔ موصول وصلہ مل کر مستثنی اپنے مستثنی منہ (علم) کا (ہمیں تو کچھ علم نہیں) مگر وہی جو تو نے ہمیں علم دیا۔ العلیم بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بڑا دانا ۔ خوب جاننے والا۔ الحکیم۔ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے حکمت والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 سبحانک۔ کہ کلمہ تنز یہ یہ ہے یعنی تیری ذات ہر قسم کے نقائص سے پاک ہے اس میں فرشتوں نے اپنی عاجزی اور نادانی کا اعتراف کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے کمال علم و حکمت کا اعتراف۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتوں کا عجز اور اقرار جب فرشتوں نے دیکھ لیا کہ اس نئی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے نواز دیا اور جو علوم اس کو دیئے ہیں وہ ہم میں نہیں ہیں تو انہوں نے اپنی عاجزی کا اقرار کرلیا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ ہم ان چیزوں کے نام نہیں بتاسکتے۔ ہمیں جو کچھ علم ہے ہے اسی قدر ہے جو آپ نے عطا فرمایا ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کی کہ آپ نے جو اس مخلوق کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا ہے بالکل صحیح ہے۔ آپ ہر عیب اور نقص سے پاک ہیں آپ نے جو کچھ ارادہ فرمایا، اس کے متعلق کسی قسم کا کوئی سوال اٹھانا درست نہیں اور آپ علیم ہیں سبھی کچھ جانتے ہیں اور حکیم بھی ہیں آپ کا کوئی ارادہ اور فعل حکمت سے خالی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81 ۔ فرشتوں نے اپنے عجز اور قصور علم کا اعتراف کرلیا کہ اے اللہ ! ہمیں تو صرف وہی چیزیں معلوم ہیں جن کا علم تو نے ہمیں ہماری استعداد کے مطابق عطا فرمایا ہے اور جو چیزیں ہماری قابلیت اور استعداد سے بالا ہیں ان کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ لا علم لنا الا ما علمتنا بحسن قابلیتنا من العلم المناسبۃ لعالمنا ولا قدرۃ لنا علی ما ھو خارج عن دارۃ استعدادنا (ابو السعود ص 494 ج 1) ۔ 82 ۔ تو ہی علیم و حکیم ہے۔ تیرا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، مختلف مخلوق میں مختلف استعدادیں رکھنے کی حکمت کو تو ہی اچھی طرح جانتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi