Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 44

سورة البقرة

اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴۴﴾

Do you order righteousness of the people and forget yourselves while you recite the Scripture? Then will you not reason?

کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Condemnation of commanding Others to observe Righteousness while ignoring Righteousness Allah said أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ... Enjoin you Al-Birr (piety and righteousness and every act of obedience to Allah) on the people and you forget (to practice it) yourselves, while you recite the Scripture (Tawrah)! Have you then no sense! Allah said, "How is it, O People of the Book, that you command people to perform Al-Birr, which encompasses all types of righteousness, yet forget yourselves and do not heed what you call others to! And you read Allah's Book (the Tawrah) and know what it promises to those who do not fulfill Allah's commandments. ... أَفَلَ تَعْقِلُونَ Have you then no sense! of what you are doing to yourselves, so that you might become aware of your slumber and restore your sight from blindness" Abdur-Razzaq said that Ma`mar stated that Qatadah commented on Allah's statement, أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ (Enjoin you Al-Birr (piety and righteousness and every act of obedience to Allah) on the people and you forget (to practice it) yourselves), "The Children of Israel used to command people to obey Allah, fear Him and perform Al-Birr. Yet, they contradicted these orders, so Allah reminded them of this fact." As-Suddi said similarly. Ibn Jurayj said that the Ayah: أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ (Enjoin you Al-Birr on the people), "Is about the People of the Book and the hypocrites. They used to command people to pray and fast. However, they did not practice what they commanded others. Allah reminded them of this behavior. So whoever commands people to do righteousness, let him be among the first of them to implement that command." Also, Muhammad bin Ishaq narrated that Ibn Abbas said that, وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ (And you forget yourselves), means, "You forget to practice it yourselves, وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَ تَعْقِلُونَ (While you recite the Scripture (Tawrah)! Have you then no sense!). You forbid the people from rejecting the Prophethood and the covenant that you have mentioned with you in the Tawrah, while you yourselves have forgotten it, meaning that `you have forgotten the covenant that I made with you that you will accept My Messenger. You have breeched My covenant, and rejected what you know is in My Book."' Therefore, Allah admonished the Jews for this behavior and alerted them to the wrongs that they were perpetrating against themselves by ordering righteousness, yet refraining themselves from righteousness. We should state that Allah is not criticizing the People of the Book for ordering righteousness, because enjoining good is a part of righteousness and is an obligation for the scholars. However, the scholar is himself required to heed, and adhere to, what he invites others to. For instance, Prophet Shu`ayb said, وَمَأ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَأ أَنْهَـكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الاِصْلَـحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِى إِلاَّ بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ I wish not, in contradiction to you, to do that which I forbid you. I only desire reform to the best of my power. And my guidance cannot come except from Allah, in Him I trust and unto Him I repent. (11:88) Therefore, enjoining righteousness and performing righteousness are both required. Neither category is rendered not necessary by the practice of the other, according to the most correct view of the scholars among the Salaf (predecessors) and the Khalaf. Imam Ahmad reported that Abu Wa'il said, "While I was riding behind Usamah, he was asked, `Why not advise `Uthman?' He said, `Do you think that if I advise him I should allow you to hear it I advise him in secret, and I will not start something that I would hate to be the first to start. I will not say to a man, `You are the best man,' even if he was my leader, after what I heard from the Messenger of Allah.' They said, `What did he say?' He said, `I heard him say, يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامةِ فَيُلْقَى فِي النَّار فَتَنْدَلِقُ بِه أَقْتَابُهُ فيَدُورُ بِهَا فِي النَّار كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ فيُطِيفُ بِهِ أَهْلُ النَّار فَيَقُولُون يَا فُلَنُ ما أَصَابَكَ أَلَمْ تَكُنْ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوف وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ فَيَقُولُ كُنْتُ امرُكُمْ باِلْمَعْرُوفِ وَلاَ اتِيهِ وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاتِيه A man will be brought on the Day of Resurrection and thrown in the Fire. His intestines will fall out and he will continue circling pulling them behind him, just as the donkey goes around the pole. The people of the Fire will go to that man and ask him, `What happened to you? Did you not used to command us to do righteous acts and forbid us from committing evil?' He will say, `Yes. I used to enjoin righteousness, but refrained from performing righteousness, and I used to forbid you to perform from evil while I myself did it."' This Hadith was also recorded by Al-Bukhari and Muslim. Also, Ibrahim An-Nakhai said, "I hesitate in advising people because of three Ayat: أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ Enjoin you Al-Birr on the people and you forget (to practice it) yourselves. يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لاأَ تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُواْ مَا لاَ تَفْعَلُونَ O you who believe! Why do you say that which you do not do! Most hateful it is to Allah that you say that which you do not do! (61:2-3)." And Allah informed us that the Prophet Shu`ayb said, وَمَأ أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَأ أَنْهَـكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الاِصْلَـحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِى إِلاَّ بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ I wish not, in contradiction to you, to do that which I forbid you. I only desire reform to the best of my power. And my guidance cannot come except from Allah, in Him I trust and unto Him I repent. (11:88)

دوغلاپن اور یہودی یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے ۔ حضرت ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ۔ مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت٭٭ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہئے جیسے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ) 11 ۔ ہود:88 ) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی ۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہئے ۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں ، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے ۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا ۔ طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے ۔ ابو وائل فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضرت اسامہ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان سے کچھ نہیں کہتے آپ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لئے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ حضرت آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا ( مسند احمد ) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت ( هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) 39 ۔ الزمر:9 ) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے حضور علیہ السلام نے فرمایا ۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے ۔ حضرت ابن عباس سے ایک شخص نے کہا حضرت میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو ۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا ایک تو آیت ( اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:44 ) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟ دوسری آیت آیت ( لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ Ą۝ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ Ǽ۝ ) 61 ۔ الصف:2-3 ) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو ۔ تیسری آیت حضرت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت ( وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰي مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ ۭ اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ ) 11 ۔ ہود:88 ) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا ، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بےخوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو ۔ ( تفسیر مردویہ ) ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے ۔ حضرت ابراہیم نخعی نے بھی حضرت ابن عباس والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٣] بعض یہودی علماء اپنے عزیزوں کو جو مسلمان ہوگئے تھے۔ کہتے تھے کہ اسی دین (اسلام) پر قائم رہو کیونکہ یہ دین برحق ہے۔ مگر بعض دنیوی مفادات کی بنا پر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ حکم سب کے لیے عام ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہو اور خود بھول جاتے ہو کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم بھی موجود ہے۔ (ابن ابی حاتم عن ابن عباس : ١؍١٢٢، ح : ٤٧٤، ٤٧٥) قتادہ (رض) نے فرمایا : ” بنی اسرائیل لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور نیکی کا حکم دیتے اور خود عمل نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں عار دلائی۔ “ (عبد الرزاق) اب مسلمانوں کا حال بھی بنی اسرائیل جیسا ہوگیا، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جو شخص خود عمل نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے، کیونکہ یہود کو اس بات پر عار دلائی ہے کہ وہ عمل نہیں کرتے، اس پر نہیں کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور جو شخص دعوت دے کر خود عمل نہ کرے اسے دوسروں سے زیادہ سزا ملے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا، اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اس کی انتڑیاں آگ میں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی، وہ ان کے گرد ایسے گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے۔ آگ والے اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں ! تیرا کیا معاملہ ہے ؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہمیں برائی سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا، میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود وہ کام نہیں کرتا تھا اور تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ٣٢٦٧، عن أسامۃ (رض) ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

An admonition to preachers without practice Verse 44 addresses the religious scholars of the Jews, and reprimands them for a strange contradiction in their behaviour - they used to advise their friends and relatives to follow the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and to be steadfast in their Islamic faith, which shows that they regarded Islam as the true faith, but, being enslaved to their desires, were not prepared to accept this faith themselves, although they were regular readers of the Torah and knew how emphatically it denounces the scholar who does not act upon his knowledge. Though externally addressed to the Jewish scholars, the verse, in a larger sense, condemns all those who preach good deeds to others but do not act upon this principle, who ask others to have fear of Allah but show no such fear in their own behaviour. The Hadith speaks in detail of the dreadful punishments these men will have to bear in the other world. The blessed Companion Anas (رض) reports that on the Night of the Ascension (معراج), the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) passed by some people whose lips and tongues were being cut with scissors made of fire; on being questioned as to who they were, the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) (Gabriel) explained that they were certain avaricious preachers of the Holy Prophet&s Ummah who made others to good deeds but ignored themselves. (Ibn Kathir). According to a hadith reported by Ibn ` Asakir, certain people living in Paradise will find some of their acquaintances in the fire of hell, and ask them, |"How is it that you find yourselves in hell, while we have attained Paradise just on account of the good deeds we had learnt from you|"; those in hell will reply: |"We used to say all that with our tongues, but never acted upon what we said.|" (Ibn Kathir) All this should not be taken to mean that it is not permissible for a man who has himself been slack in good deeds, or is in some way a transgressor, to give good counsel or preach to others, nor that a man who has been indulging in a certain sin may not try to dissuade others from committing that sin. For, doing a good deed is one form of virtue, and persuading others to do this good deed is another form of virtue in its own right. Obviously, if one has given up one form of virtue it does not necessarily follow that he should give up the other form as-well. For example, if a man does not offer his prescribed Salah نماز ، it is not necessary for him to give up fasting too. Similarly, if a man does not offer his prayers, it does not argue that he should not be allowed to ask others to offer their prayers. In the same way, doing something prohibited by the Shari&ah is one kind of sin, and not to dissuade those whom he can influence from this misdeed is another kind, and committing one kind of sin does not necessarily entail committing the other sin as well. (Ruh al-Ma&an~i ( Imam Malik (رح) has cited Sa’ id ibn Jubayr (رض) as saying that if everyone decides to refrain from persuading others to good deeds and dissuading them from evil deeds on the assumption that he himself is a sinner and can have no right to preach to others until and unless he has purged himself of all sins, there would be no one left to give good counsel to people, for who can be totally free of sins? According to Hasan (رح) of Basra, this is exactly what Satan wants that, obsessed by this false notion of purity, people should neglect their obligation to, provide religious instruction and good counsel to others. (Qurtubi) Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) used to say that when he became aware of a certain bad habit in himself, he would expressly denounce this particular tendency in his sermons so that the barakah of the sermon should help him to get rid of it. In short, verse 44 does not imply that the man who has been indif¬ferent to good deeds in his own life is not allowed to preach or to give good counsel, but that the man who preaches should not neglect good deeds in his own life. Now, a new question arises here - it is not per¬missible for a preacher and non-preacher alike to neglect good deeds, then why should the preacher alone be specifically discussed in this context? We would reply that such negligence is, no doubt, impermissi¬ble for both, but the crime of the preacher is more serious and repre¬hensible than that of the non-preacher, for the former commits a crime knowing that it is crime, and cannot plead ignorance as an excuse. On the contrary, the non-preacher, especially if he is illiterate , may be committing the sin of not trying to acquire knowledge, but, as far as the transgression of the Shari&ah is concerned, he can, to a certain de¬gree plead ignorance of the law as his excuse. Moreover, if a scholar or a preacher commits a sin, he is actually mocking at the Shari&ah. The blessed Companion Anas (رض) reports from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that on the Day of Judgment, Allah will forgive illiterate and ignorant people much more readily than He will the scholars.

بےعمل واعظ کی مذمت : اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ اس آیت میں خطاب اگرچہ علمائے یہود سے ہے ان کو ملامت کی جارہی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو یہ تلقین کرتے کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے رہو اور دین اسلام پر قائم رہو (جو علامت ہے اس بات کی کہ علمائے یہود دین اسلام کو یقینی طور پر حق سمجھتے تھے) مگر خود نفسانی خواہشات سے اتنے مغلوب تھے کہ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے لیکن معنی کے اعتبار سے یہ ہر اس شخص کی مذمت ہے جو دوسروں کو تو نیکی اور بھلائی کی ترغیب دے مگر خود عمل نہ کرے دوسروں کو خدا سے ڈرائے مگر خود نہ ڈرے ایسے شٰخص کے بارے میں احادیث میں بڑی ہولناک وعیدیں آئی ہیں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ شب معراج میرا گذر کچھ لوگوں پر ہوا جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچوں سے کترے جارہے تھے میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں ! جبرئیل نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے دنیادار واعظ ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے (ابن کثیر) ابن عساکر نے ذکر کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بعض جنتی بعض دوخیوں کی آگ میں دیکھ کر پوچھیں گے کہ تم آگ میں کیونکر پہنچ گئے ؟ حالانکہ ہم تو بخدا انہی نیک اعمال کی بدولت جنت میں داخل ہوئے ہیں جو ہم نے تم سے سیکھے تھے اہل دوزخ کہیں گے ہم زبان سے کہتے ضرور تھے لیکن خود عمل نہیں کرتے تھے (ابن کثیر) کیا فاسق وعظ و نصیحت نہیں کرسکتا ؟: لیکن مذکورہ بیان سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ بےعمل یا فاسق کے لئے دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں اور جو شخص کسی گناہ میں مبتلا ہو وہ دوسروں کو اس گناہ سے باز رہنے کی تلقین نہ کرے کیونکہ کوئی اچھا عمل الگ نیکی ہے اور اس اچھے عمل کی تبلیغ دوسری مستقل نیکی ہے اور ظاہر ہے کہ ایک نیکی کو چھوڑنے سے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ دوسری نیکی بھی چھوڑدی جائے، جیسے ایک شخص اگر نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ لازم نہیں کہ وہ روزہ بھی ترک کردے بالکل اسی طرح اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑہتا تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ دوسروں کو نماز پڑھنے کے لئے بھی نہ کہے اسی طرح کسی ناجائز فعل کا ارتکاب الگ گناہ ہے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو اس ناجائز فعل سے نہ روکنا دوسرا گناہ ہے اور ایک گناہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسرا گناہ بھی ضرور کیا جائے (روح المعانی) چنانچہ امام مالک نے حضرت سعید بن جبیر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر ہر شخص یہ سوچ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑدے کہ میں خود گنہگار ہوں جب گناہوں سے خود پاک ہوجاؤں گا تو لوگوں کو تبلیغ کروں گا تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تبلیغ کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے گا کیونکہ ایسا کون ہے جو گناہوں سے بالکل پاک ہو ؟ حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اسی غلط خیال میں پڑ کر تبلیغ کا فریضہ چھوڑ بیٹھیں (قرطبی) بلکہ حضرت سیدی حکیم الامت تھانوی تو فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے اپنی کسی بری عادت کا علم ہوتا ہے تو میں اس عادت کی مذمت اپنے مواعظ میں خاص طور سے بیان کرتا ہوں تاکہ وعظ کی برکت سے یہ عادت جاتی رہے، خلاصہ یہ ہے کہ آیت، اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بےعمل آدمی کو وعظ کہنا جائز نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ واعظ کو بےعمل نہیں ہونا چاہئے اور دونوں میں فرق واضح ہے مگر یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ بےعمل ہونا نہ تو واعظ کیلئے جائز ہے نہ غیر واعظ کیلئے پھر واعظ کی تخصیص کیوں ؟ جواب یہ ہے کہ ناجائز تو دونوں کے لئے ہے مگر واعظ کا جرم غیر واعظ کے جرم کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور زیادہ قابل ملامت ہے کیونکہ واعظ جرم کو جرم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر کرتا ہے اس کے پاس یہ عذر نہیں ہوتا کہ مجھے اس کا جرم ہونا معلوم نہ تھا برخلاف غیر واعظ کے اور ان پڑھ جاہل کے کہ اس کو خواہ علم حاصل نہ کرنے کا الگ گناہ ہو لیکن ارتکاب گناہ میں اس کے پاس کسی درجہ میں عذر موجود ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہ تھا اس کے علاوہ عالم اور واعظ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو یہ دین کے ساتھ ایک قسم کا استہزاء ہے چناچہ حضرت انس سے روایت ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے جتنا ان پڑھ لوگوں کو معاف کرے گا اتنا علماء کو معاف نہیں کریگا، دو نفسیاتی بیماریاں اور ان کا علاج : حب مال اور حب جاہ یہ دونوں قلب کی ایسی بیماریاں ہیں جن کے باعث انسان کی دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسانی تاریخ میں اب تک جتنی انسانیت سوز لڑائیاں لڑی گئیں اور جو فساد برپا ہوئے ان میں سے اکثر وبیشتر کو انہی دو بیماریوں نے جنم دیا تھا، حب مال کے نتائج یہ نکلتے ہیں : (١) کنجوسی اور بخل پیدا ہوتا ہے جس کا ایک قومی نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی دوسرا نقصان خود اس کی ذات کو پہنچتا ہے کہ معاشرہ میں کوئی ایسے شخص کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، (٢) خود غرضی پیدا ہوتی ہے جو مال کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے اسے اشیاء میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی رشوت ستانی، مکروفریب اور دغا بازی کے نت نئے حیلے سجھاتی ہے وہ اپنی تجوری پہلے سے زیادہ بھرنے کے لئے دوسروں کا خون نچوڑ لینا چاہتا ہے بالآخر سرمایہ دار اور مزدور کے جھگڑے جنم لیتے ہیں، (٣) ایسے شخص کو کتنا ہی مال مل جائے لیکن مزید کمانے کی دھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ تفریح اور آرام کے وقت بھی یہی بےچینی اسے کھائے جاتی ہے کہ کسی طرح اپنے سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کروں بالآخر جو مال اس کے آرام و راحت کا ذریعہ بنتا وہ اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے ؛ (٤) حق بات خواہ کتنی ہی روشن ہو کر سامنے آجائے مگر وہ ایسی کسی بات کو ماننے کی ہمت نہیں کرتا جو اس کی ہوس مال سے متصادم ہو یہ تمام چیزیں بالآخر پورے معاشرہ کا امن وچین برباد کر ڈالتی ہیں : غور کیا جائے تو قریب قریب یہی حال حب جاہ کا نظر آئے گا کہ اس کے نتیجہ میں تکبر خود غرضی حقوق کی پامالی ہوس اقتدار اور اس کے لئے خوں ریز لڑائیاں اور اسی طرح کی بیشمار انسانیت سوز خرابیاں جنم لیتی ہیں جو بالآخر دنیا کو دوزخ بنا کر چھوڑتی ہیں ان دونوں بیماریوں کا علاج قرآن کریم نے یہ تجویز فرمایا، وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (اور مدد لو صبر اور نماز سے) یعنی صبر اختیار کرو یعنی اپنی لذات وشہوات پر قابوحاصل کرلو اس سے حب مال گھٹ جائے گی کیونکہ مال کی اندھا دھند پیروی چھوڑنے پر ہمت باندھ لو گے تو شروع میں اگرچہ شاق گذرے گا لیکن رفتہ رفتہ یہ خواہشات اعتدال پر آجائیں گی اور اعتدال تمہاری عادت بن جائے گا تو پھر مال کی فراوانی کی ضرورت نہ رہے گی نہ اس کی محبت ایسی آئے گی کہ اپنے نفع نقصان سے اندھا کردے، اور نماز سے حب جاہ کم ہوجائے گی کیونکہ نماز میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کی عاجزی اور پستی ہے جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہوجائے گی تو ہر وقت اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور پستی کا تصور رہنے لگے گا جس سے تکبر و غرور اور حب جاہ گھٹ جائے گی

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۝ ٤٤ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ برَّ البَرُّ خلاف البحر، وتصوّر منه التوسع فاشتق منه البِرُّ ، أي : التوسع في فعل الخیر، وينسب ذلک إلى اللہ تعالیٰ تارة نحو : إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] ، وإلى العبد تارة، فيقال : بَرَّ العبد ربه، أي : توسّع في طاعته، فمن اللہ تعالیٰ الثواب، ومن العبد الطاعة . وذلک ضربان : ضرب في الاعتقاد . وضرب في الأعمال، وقد اشتمل عليه قوله تعالی: لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] وعلی هذا ما روي «أنه سئل عليه الصلاة والسلام عن البرّ ، فتلا هذه الآية» «1» . فإنّ الآية متضمنة للاعتقاد والأعمال الفرائض والنوافل . وبِرُّ الوالدین : التوسع في الإحسان إليهما، وضده العقوق، قال تعالی: لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] ، ويستعمل البِرُّ في الصدق لکونه بعض الخیر المتوسع فيه، يقال : بَرَّ في قوله، وبرّ في يمينه، وقول الشاعر : أكون مکان البرّ منه«2» قيل : أراد به الفؤاد، ولیس کذلک، بل أراد ما تقدّم، أي : يحبّني محبة البر . ويقال : بَرَّ أباه فهو بَارٌّ وبَرٌّ مثل : صائف وصیف، وطائف وطیف، وعلی ذلک قوله تعالی: وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] . وبَرَّ في يمنيه فهو بَارٌّ ، وأَبْرَرْتُهُ ، وبَرَّتْ يميني، وحجّ مَبْرُور أي : مقبول، وجمع البارّ : أَبْرَار وبَرَرَة، قال تعالی: إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] ، وقال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] ، وقال في صفة الملائكة : كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] فَبَرَرَةٌ خصّ بها الملائكة في القرآن من حيث إنه أبلغ من أبرار «1» ، فإنه جمع برّ ، وأبرار جمع بار، وبَرٌّ أبلغ من بَارٍّ ، كما أنّ عدلا أبلغ من عادل . والبُرُّ معروف، وتسمیته بذلک لکونه أوسع ما يحتاج إليه في الغذاء، والبَرِيرُ خصّ بثمر الأراک ونحوه، وقولهم : لا يعرف الهرّ من البرّ «2» ، من هذا . وقیل : هما حكايتا الصوت . والصحیح أنّ معناه لا يعرف من يبرّه ومن يسيء إليه . والبَرْبَرَةُ : كثرة الکلام، وذلک حكاية صوته . ( ب رر) البر یہ بحر کی ضد ہے ( اور اس کے معنی خشکی کے ہیں ) پھر معنی دسعت کے اعتبار سے اس سے البر کا لفظ مشتق کیا گیا ہے جس کے معنی وسیع پیمانہ پر نیکی کرنا کے ہیں اس کی نسبت کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے جیسے إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ [ الطور/ 28] بیشک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے ۔ اور کبھی بندہ کی طرف جیسے بدالعبدربہ ( یعنی بندے نے اپنے رب کی خوب اطاعت کی ) چناچہ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ طرف ہو تو اس کے معنی ثواب عطاکرنا ہوتے ہیں اور جب بندہ کی طرف منسوب ہو تو اطاعت اور فرمانبرداری کے البر ( نیکی ) دو قسم پر ہے اعتقادی اور عملی اور آیت کریمہ ؛۔ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ [ البقرة/ 177] ( آلایۃ ) دونوں قسم کی نیکی کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اسی بنا ہر جب آنحضرت سے بد کی تفسیر دریافت کی گئی ثو آن جناب نے جوابا یہی آیت تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں عقائد و اعمال فرائض و نوافل کی پوری تفصیل بتائی جاتی ہے ۔ برالوالدین کے معنی ہیں ماں اور باپ کے ساتھ نہایت اچھا برتاؤ اور احسان کرنا اس کی ضد عقوق ہے ۔ قرآں میں ہے ۔ لا يَنْهاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ [ الممتحنة/ 8] جن لوگون میں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی ۔۔۔ کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا ہے ۔ اور بد کے معنی سچائی بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی خیر ہے جس میں وسعت کے معنی پائے جانے ہیں چناچہ محاورہ ہے ؛۔ برفی یمینہ اس نے اپنی قسم پوری کردکھائی اور شاعر کے قول (43) اکون مکان البر منہ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ بد بمعنی فؤاد یعنی دل ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی بد بمعنی نیکی ہے یعنی میرا مقام اس کے ہاں بمنزلہ بر کے ہوگا ۔ بر اباہ فھو بار و بر صیغہ صفت جو کہ صائف وصیف وطائف وطیف کی مثل دونوں طرح آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَبَرًّا بِوالِدَتِي [ مریم/ 32] اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے ۔ اور مجھے اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ( بنا) بر فی یمینہ فھوباز ابررتہ قسم پوری کرنا ۔ برت یمینی میری قسم پوری ہوگئی ۔ حج مبرور حج جس میں رفت وفسق اور جدال نہ ہو ۔ البار کی جمع ابرار وبررۃ آتی ہے قرآن میں ہے ۔ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيمٍ [ الانفطار/ 13] بیشک نیکو کار نعمتوں ( کی بہشت ) میں ہوں گے ۔ كَلَّا إِنَّ كِتابَ الْأَبْرارِ لَفِي عِلِّيِّينَ [ المطففین/ 18] اور یہ بھی سن رکھو کہ نیکو کاروں کے اعمال علیین میں ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 16] . جو سردار اور نیکو کار ہیں ۔ میں خاص کر فرشتوں کو بررۃ کہا ہے کیونکہ ابرار ( جمع ) زیادہ بلیغ ہے ۔ اس لئے کہ بررۃ ، بر کی بنسبت عدل میں مبالغہ پایا جاتا ہے اسی طرح بد میں بار سے زیادہ مبالغہ ہے البر یر خاص کر پیلو کے درخت کے پھل کو کہتے ہیں عام محاورہ ہے : فلان لایعرف البر من الھر ( وہ چوہے اور بلی میں تمیز نہیں کرسکتا ) بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں لفظ حکایت کی صورت کے طور پر بولے جاتے ہیں مگر اس محاورہ کے صحیح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے خیر خواہ اور بدخواہ میں امتیاز نہیں کرسکتا ۔ البربرۃ بڑبڑ کرنا یہ بھی حکایت صورت کے قبیل سے ہے ۔. نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) اب اللہ تعالیٰ جل شانہ سرداروں کی حالت کو بیان کرتے ہیں کہ تم کمتر اور ذلیل لوگوں کو تو، توحید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلائے بیٹھے ہو، خود اتباع نہیں کرتے اور ان کو خود کتاب پڑھ کر سناتے ہو، کیا تمہارے پاس سمجھ اور عقل نہیں

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ) ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ‘ جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ‘ لیکن ان کے اپنے کردار کو اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی درحقیقت علماء یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چناچہ ان سے کہا گیا کہ ” کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟ “ (وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط) ” تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔ یعنی تورات پڑھتے ہو ‘ تم صاحب تورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا ‘ جنہیں ہم علماء سوء کہتے ہیں ‘ یہی حال ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؂ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق ! قرآن حکیم کے ترجمے میں ‘ اس کے مفہوم میں ‘ اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ (اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ) ”

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

علمائے یہود اپنی قوم کے جاہل لوگوں کو نیک کام کرنے کی نصیحت تورات کے موافق کرتے تھے اور خود آپ اسی نیک کام کے کرنے کے پابند نہ ہوتے تھے۔ ان میں یہ بات بھی تھی کہ یوں کہنے کو تو تورات کی آیتوں کے موافق عمل کرنے کو اپنی قوم کے لوگوں سے کہتے تھے۔ مگر تورات میں نبی آخر الزمان کی نشانیوں کی جو آیتیں تھیں ان کو چھپاتے تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ تنبیہ فرمائیں۔ صحیحین میں اسامہ بن زید سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دوزخ میں ایک شخص کی انتڑیاں باہر نکلی ہوئی پڑی ہوں گی اور وہ اپنی انتڑیوں کے گرد پھرتا ہوگا اور عذاب میں مبتلا ہوگا۔ دوزخی لوگ اس سے کہویں گے کہ اے شخص تو تو ہم کو نیک کاموں کی نصیحت کیا کرتا تھا۔ وہ کہوے گا ہاں یہ تو سچ ہے مگر اس نصیحت کے موافق عمل نہیں کرتا تھا۔ ٣۔ مسند امام احمد اور صحیح ابن حبان میں حضرت انس بن مالک سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شب معراج میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے دوزخ کے فرشتے کاٹ رہے تھے۔ آپ نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں۔ حضرت جبرئیل نے جواب دیا یہ آپ کی امت کے وہ عالم ہیں جو لوگوں کو تو نیک کام کرنے کی نصیحت کرتے تھے اور خود نیک کام کرنے میں غفلت کرتے تھے ٤ ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے علما پر طرح طرح کا عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کے علماء کو اس بلا سے بچنے کی توفیق دیوے۔ آمین

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:44) اتامرون ۔ الف استفہامیہ ہے اور جملہ تامرون الناس ۔۔ الخ پر داخل ہے یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا مت کرو۔ تامرون مضارع جمع مذکر حاضر امر مصدر (باب نصر) تم حکم دیتے ہو۔ اتامرون الناس بالبر۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کرنے کا حکم دیتے ہو (اور ۔۔ الخ) البر۔ نیکی کرنا۔ بھلائی کرنا۔ نیکوکاری مصدر ہے۔ وانتم تتلون الکتب ۔ یہ جملہ حال ہے ضمیر فاعل تنسون۔ سے۔ تتلون۔ مضارع جمع مذکر حاضر تلاوۃ (باب نصر) مصدر۔ تم پڑھتے ہو، تم تلاوت کرتے ہو۔ الکتب سے مراد یہاں توراۃ ہے۔ افلا تعقلون۔ الف استفہامیہ ہے اور فاء عاطفہ ہے۔ اس صورت کی مندرجہ ذیل توجیہات ہیں۔ (1) جیسا کہ اجزائے جملہ معطوفہ کا عام قاعدہ ہے کہ حرف استفہام حرف عطف کے بعد آتا ہے مثلاً فاین تذھبون فکیف تتقون وغیرہ۔ لیکن ہمزہ استفہامیہ حرف عطف پر اس امر پر آگاہ کرنے کے لئے پہلے لایا جاتا ہے کہ صدر کلام میں آنے کے واسطے اصلی حرف یہی ہے۔ اس کی چند اور مثالیں قرآن مجید میں یہ ہیں۔ اوکلما عھدوا عھدا (2:100) افا من اہل القری (7:97) اور اثم اذا ماوقع (10:51) (2) ہمزہ استفہامیہ کے بعد عبارت مقدر ہے جو اگلے جملہ معطوف کے لئے معطوف علیہ ہے۔ یعنی تقدیر کلام یہ ہے اتتلون الکتب فلا تعقلون۔ کیا تم کتاب پڑھتے ہو ۔ پھر کیوں نہیں سمجھتے ؟

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یا تم اپنے آپ کو کیوں نہیں روکتے قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہودی علماء کے اس طرز عمل پر عاردلائی ہے جو دوسروں کے سامنے اسلامن کی تعریف کرتے اور خود اسلام قبول نہ کرتے تھے اس سے یہ نہیں سمجھنا چا ہیئے کہ جو شخص خود عمل پیرا نہ ہو وہ دسرو کو بھی منع نہ کرے کیونکہ یہود کر زجر ان کے امربا لمعروف پر نہیں ہے بلکہ ترک عمل پر ہے زیادہ سزا ملے گی۔ حدیث میں ہے قیاتم کے روز ایک شخص کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں نکل کر ڈھیر ہوجائیں گی اور وہ شخص آگ میں ان کے گرد یوں کھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے لوگ اس سے دریافت کریں گے کیا تم ہم کو نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے وہ جواب دے گا بیشک مگر میں خود عمل نہیں کرتا تھا۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اس سے یہ مسئلہ نہیں نکلتا کہ بےعمل کو واعظ بننا جائز نہیں بلکہ یہ نکلتا ہے کہ واعظ کو بےعمل بننا جائز نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے مذہبی راہنماؤں کا کردار کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے مگر اپنے آپ کو بھول جاتے تھے جو دانشمندی کے خلاف ہے۔ بنی اسرائیل کے علماء نے دین اور اس کی تبلیغ کو پیشہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا دین ہی تھا۔ لیکن دین کو محض ڈیوٹی اور پیشہ کے طور پر اختیار کئے ہوئے تھے۔ دینی فرائض کی بظاہر ادائیگی اور نیکی کی نمائش کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ دینی مشغلے سے تمہیں وقتی مفاد تو حاصل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقی اور دائمی فائدے سے محروم رہو گے۔ کتاب اللہ کا علم جاننے اور منصب امامت سنبھالنے کے باوجود ایسا کرنا عقل مندی کا تقاضا نہیں۔ اہل کتاب کے مذہبی پیشواؤں کا کردار : ” تاریخ اخلاق یورپ “ کے فاضل مؤلف نے اس شرمناک اور وحشت ناک صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ... that inveterate prevalanceof incest among theclergy, which rendered it necessary angain and again to issue the most stringent enactments that priests should not be permitted to livewith their mothers and sisters. (W.Lecky: op.cit., p.231 -- H.C.Lea:op.cit., p.138) ” اہل کلیسا میں محرمات سے مباشرت کا چلن اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ پادریوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ رہنے سے روکنے کی خاطر بار بار انتہائی سخت قوانین جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ “ گریگوری دہم نے لے اونر (Lyons) کی دوسری کونسل میں شریک ہونے والے معزز ترین پادریوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : You are the ruin of the world. (Ibid., p.353) ” تم دنیا کی اخلاقی تباہی کے باعث ہو۔ “ The History of Christian monasticism ...... during the1, 000 years of the Church&s complete domination of europe, is the most sordid chapter in the history of civilized religions ....... at least four-fiths of themonasteries of europe during the1, 000 years were corrupt ..... a monastery was generally a nursery of sloth, sensuality and vice. (Rationalist encyclopaedia pp.398-399) ” مسیحی رہبانیت کی ان ہزار سالوں کی تاریخ جب یورپ پر کلیسا کا مکمل تسلط تھا ‘ مہذب مذاہب کی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔۔ ان ہزار سالوں کے دوران کم از کم ٥/٤ راہب خانے بدمعاشی کے اڈے تھے۔ ایک راہب خانہ عموماً کاہلی ‘ شہوت پرستی اور اخلاقی خرابی کا گہوارہ ہوتا تھا۔ “ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ : مؤلف پروفیسر ساجد میر ] بد عمل علماء کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : (یُجَآء بالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہٗ فِي النَّارِ فَیَدُوْرُ کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ فَیَجْتَمِعُ أَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُوْنَ أَيْ فُلَانُ مَاشَأْنُکَ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ قَالَ کُنْتُ آمُرُکُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَلَآ اٰتِیْہِ وَأَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار ...) ” قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کر آگ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں آگ میں باہر نکل آئیں گی وہ ان کے گرد ایسے چکر کاٹے گا جیسے گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے جہنمی اس کے پاس جمع ہو کر پوچھیں گے اے فلاں ! تجھے کیا ہوا کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم اور برے کاموں سے منع نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا میں تمہیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں برے کاموں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا۔ “ مسائل ١۔ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا خود اس پر عمل نہ کرنا بےعقلی کی دلیل ہے۔ ٢۔ مبلغ کو سب سے پہلے نیکی کے کام پر عمل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قول وفعل کے تضاد کی ممانعت : ١۔ ایمان داروں کے قول وفعل میں تضاد کیوں ؟۔ (الصف : ٢) ٢۔ عمل نہ کرنے والوں کی مثال گدھوں جیسی ہے۔ ( الجمعۃ : ٥) ٣۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ (البقرۃ : ٤٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

“ اس کے بعد یہودیوں کو عموماً اور ان کے مذہبی پیشواؤں کو خصوصاً اس بات کی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ مشرکین اہل عرب میں اپنے آپ کو ایمان کا داعی کہتے ہیں اور اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے وہ ایسے ہیں بھی ، اس لئے کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں اہل توحید ہیں ، لیکن اس کے باوجود ، خود اپنی قوم کو ، اللہ کے اس دین پر ایمان لانے سے روکتے ہو ، جو تمام سابق ادیان کی تصدیق کرتا ہے۔ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلا تَعْقِلُونَ تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لئے کہتے ہو ، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ۔ “ اگرچہ ابتداء میں یہ آیت اس وقت بنی اسرائیل کے اندر موجود کمزوریوں کی عکاسی کررہی ہے ، تاہم یہ نفس انسانی اور بالخصوص ہر مذہب وملت کے دینی پیشواؤں کے لئے سرمہ بصیرت ہے ۔ کسی قوم اور ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ نہ کسی خاص فعل اور زمانے تک محدود ہے ۔ جب کوئی دین ایک زندہ اور موجزن نظریہ حیات کے بجائے محض ایک پیشہ اور کاروبار بن جاتا ہے تو دین کے پیشواؤں کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے جو کچھ کہتے ہیں ، وہ ان کے دل میں نہیں ہوتا ! وہ بھلائی کا وعظ کرتے ہیں اور خود کار دیگر میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ لوگوں کو بر اور تقویٰ کی دعوت دیتے ہیں ، لیکن بر وتقویٰ جس چیز کا نام ہے ، وہ خود انہیں چھوکر بھی نہیں گزری ہوتی۔ وہ سیدھی بات کو غلط معنی پہناکر بتنگڑ بناتے ہیں ، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے قطعی نصوص میں تاویلات کرتے ہیں ۔ وہ ایسی ایسی حسین تاویلات اور ایسے ایسے مدلل فتوے میدان میں لاڈالتے ہیں جو بظاہر آیات ونصوص کے ظاہر مفہوم سے بالکل موافق ہوتے ہیں لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دین کی حقیقت اور اصلیت سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ یہ لوگ اپنے مفادات اور دلی خواہشات کے لئے کرتے ہیں اور ان لوگوں کی خاطر جو یا تو مالدار ہوتے ہیں یا اہل اقتدار ۔ یہودیوں کے مذہبی پیشوا یہی کام کرتے تھے ۔ لوگوں کو بھلائی کی طرف دعوت دینا ، اور پھر اپنی عملی زندگی میں خود ، اس کے خلاف چلنا ، ایک ایسا مرض ہے اور ایک ایسی وبا ہے جو نہ صرف یہ کہ خود داعیوں کے دلوں میں شبہات وشکوک پیدا کردیتی ہے ، بلکہ دعوت بھی اس سے مشکوک ہوجاتی ہے ۔ قول وفعل کے اس تضاد کی وجہ سے لوگوں کے دلوں اور ان کے افکار میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ لوگ کانوں سے تو بہترین بات سنتے ہیں لیکن آنکھوں سے قبیح ترین افعال دیکھتے ہیں ۔ قول وفعل کا یہ تضاد دیکھ کر وہ بےچارے حیران رہ جاتے ہیں ۔ ان کے ایمان نے یہ دعوت ووعظ سن کر جو دیا ان کی روحانی دنیا میں روشن کیا تھا ، وہ بجھ جاتا ہے ، دلوں سے ایمان کی روشنی ختم ہوجاتی ہے اور جب انہیں مذہبی پیشواؤں میں سے کوئی عقیدت نہیں رہتی ، تو اس کے نتیجہ میں پھر خود دین سے ان کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ داعی بےعمل کی بات بےجان ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسی چنگاری ہوتی ہے جو دوسروں تک پہنچتے پہنچتے بجھ جاتی ہے ۔ ایسے داعیوں کی بات بےاثر ہوتی ہے ۔ اگرچہ وہ بات مقفع ومسجع ، چکنی چپڑی اور جوش و خروش سے پر ہو ، کیونکہ یہ بات ایسے دل سے نکلی ہی نہیں جو اس پر یقین رکھتا ہو۔ اثر تو اسی بات میں ہوتا ہے جو دل سے نکلتی ہے ۔ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔ ایک داعی اپنی بات کا صحیح مومن اسیوقت ہوسکتا ہے ، جب وہ اپنے کردار کے اعتبار سے اس بات کی تفسیر اور ترجمہ ہو ، جو دعوت وہ دے رہا ہے ، وہ خود اس کی زندگی کی صورت میں عملاً مجسم ہو۔ جب کوئی انسان اس معیار تک پہنچ جاتا ہے ، تو پھر لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس پر یقین کرتے ہیں ۔ اگرچہ اس کی باتیں چکنی چپڑی نہ ہوں اور اس کی تقریر ، دھواں دھار نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس بات کے اندر اس کی چرب لسانی سے نہیں بلکہ اس کی واقعیت اور حقیقت پسندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس وقت کلام کی صداقت ہی اس کا حسن ہوتا ہے ۔ چرب لسانی سے زور کلام پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود قول وفعل میں تطابق ، ایمان وعمل کے درمیان ہم آہنگی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ یہ کوئی آسان طریقہ نہیں ہے جسے بسہولت اختیار کرلیا جائے ۔ اسے حاصل کرنے کے لئے سخت ریاضت اور جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے تعلق باللہ ، اللہ کی اعانت وتوفیق اور اس کی ہدایت سے مدد لینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ عملی زندگی کے مختلف احوال ، اس کی ضرورت اور اس کی مجبوریاں ، انسان کو اپنے دلی معتقدات سے یا ان باتوں سے جن کی طرف اسے دوسرے لوگ بلا رہے ہوتے ہیں ، دور پھینک دیتی ہیں یہ انسان ، خواہ کسی عظیم قوت کا مالک کیوں نہ ہو ، جب تک مالک الملک اور قادر مطلق ہستی کا دامن نہیں تھامے گا ، کمزور اور ناتواں ہی رہے گا ، کیونکہ شر ، فساد اور انسان کے لئے گمراہ کن شیطانی قوتیں ہر طرف جال بچھائے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ انسان بسا اوقات اور بار بار ان پر غالب آسکتا ہے ۔ لیکن جوں ہی کسی لمحہ وہ کمزوری دکھاتا ہے ، تو گرجاتا ہے ، ذلیل ہوجاتا ہے ، اپنے ماضی ، حال اور مستقبل سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ۔ لیکن جب انسان کا اعتماد اس ازلی اور ابدی طاقت پر ہوتا ہے ، تو پھر اس کی قوت کے کیا کہنے ، وہ ہر چیز پر غالب آجاتا ہے ۔ وہ اپنی کمزوریوں اور اپنی خواہشات نفس تک کو مغلوب کرلیتا ہے ۔ وہ اپنی ضروریات اور اپنی مجبوریوں پر بھی غالب آجاتا ہے ۔ وہ ان تمام قوتوں پر غالب آجاتا ہے جو اس کا سامنا کرتی ہیں۔ اس لئے قرآن کریم یہاں پہلے تو یہود کو اس طرف متوجہ کرتا ہے ، کیونکہ روئے سخن ان کی طرف ہے اور پھر ان کے بعد پوری دنیا کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ اس مشکل کام اور کٹھن معرکے کو سر کرنے کے لئے صبر وثبات اور نماز ونیاز سے مددحاصل کریں ۔ یہودیوں سے مطلوب یہ تھا کہ مذہبی خدمات ، یا پوری دنیا کا مال ومتاع جو انہیں حاصل تھا ، اسے متاع قلیل سمجھیں اور اس کے مقابلے میں حق کو ترجیح دیں ۔ کیونکہ مدینہ میں اپنی مذہبی حیثیت اور مذہبی معلومات کی وجہ سے وہ اس سچائی وصد اقت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔ اس لئے ان کا فرض ہے کہ جلد قافلہ ٔ ایمان کے ہمرکاب ہوجائیں کیو ن کہ وہ پہلے سے لوگوں کو ایمان کی طرف بلا رہے ہیں ۔ چونکہ یہودیوں کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کے لئے قوت و شجاعت کی ایک بڑی مقدار کی ضرورت تھی ، اس لئے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ صبر وثبات اور نیاز و نماز سے مدد لیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مبلغ اور داعی اپنے نفس کو نہ بھولے اس آیت میں بھی یہودیوں سے خطاب کیا گیا ہے، چونکہ یہ لوگ قرآن کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق جانتے تھے، اس لیے پوشیدہ طور پر کبھی کبھی اپنے عوام اور رشتہ داروں کو اسلام قبول کرنے کا مشورہ دیتے تھے اور خود اسلام قبول نہیں کرتے تھے۔ تفسیر ابن کثیر اور در منثور میں حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بات نقل کی ہے ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک یہودی لڑکے کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو آپ کی خدمت کیا کرتا تھا آپ تشریف لائے اور اس کے سر کے پاس تشریف فرما ہوگئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، جو وہاں موجود تھا اس کے باپ نے کہا کہ أبو القاسم (محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مان لے چناچہ اس نے اسلام قبول کیا اور آپ وہیں سے یہ کہتے ہوئے باہر تشریف لائے کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اسے دوزخ سے بچا دیا۔ (صحیح بخاری) اس کے علاوہ بھی علماء یہود میں بےعملی عام تھی لوگوں کو نماز روزے کا حکم کرتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کو عار دلائی اور فرمایا کہ جو خیر کا حکم کرے اسے خیر میں دوسروں سے آگے بڑھنا چاہیے۔ (قالہ ابن جریج کما فی تفسیر ابن کثیر) یہاں یہ بات اگرچہ یہودیوں کی بےعملی ظاہر کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے لیکن اس کا حکم سب کے لیے عام ہے جو بھی کوئی شخص لوگوں کو بھلائی کا حکم کرے گا اور گناہوں سے روکے گا اور خود بےعمل ہوگا اس کا انجام برا ہوگا۔ اور اس طریقہ کار کی شناعت اور قباحت اسے لے ڈوبے گی۔ بعض روایات میں ہے کہ جو عالم لوگوں کو خیر سکھاتا ہے اور خود عمل نہیں کرتا وہ اس چراغ کی طرح سے ہے جس کی بتی جلتی رہتی ہے لوگوں کو روشنی پہنچتی ہے لیکن بتی خود جل جاتی ہے۔ (ابن کثیر عن الطبرانی فی المعجم الکبیر) بے عمل واعظوں کی سزا : حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ جب کٹ جاتے ہیں تو پھر ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہیں حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں کیا ان کو سمجھ نہیں ہے۔ (درمنثور ص ٦٤ ج ١ عن البیہقی عن شعب الایمان، وعزاہ صاحب المشکوٰۃ ص ٤٣٨ الی شرح السنۃ) حضرت اسامہ بن زید (رض) نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا پھر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جس میں اس کے پیٹ کی آنتیں نکل پڑیں گی اور وہ اپنی آنتوں کے ساتھ گھومتا پھرے گا جیسے گدھا چکی کو لے کر گھومتا ہے۔ دوزخ والے اس کے پاس جمع ہوجائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں تجھے کیا ہوا ؟ کیا تو ہمیں اچھی باتیں نہیں بتاتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا۔ وہ جواب دے گا کہ میں تم کو اچھی باتوں کا حکم کرتا تھا اور خود نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے روکتا تھا اور خود اس برائی کو کرتا تھا۔ (صحیح مسلم ص ٤١٢ ج ٢) فائدہ : مذکورہ بالا آیات اور احادیث شریفہ کا مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں ( نیکیوں کا حکم دیں، برائیوں سے روکیں) اور خود بھی عمل کریں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ نہ عمل کریں نہ امر بالمعروف کریں نہ نہی عن المنکر کریں۔ مبلغ اور مصلح کو عمل کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ جو عمل نہ کرے وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ بیٹھے اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے۔ قال ابن کثیر فکل من الامر بالمعروف و فعلہ واجب ولا یسقط احدھما بترک الاخر علی اصح قول العلماء من السلف و الخلف والصحیح ان العالم یامر بالمعروف و ان لم یفعلہ و ینھی عن المنکر و ان ارتکبہ۔ (علامہ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں نیکی کا حکم کرنا اور خود نیکی کرنا ہر ایک پر واجب ہے کوئی دوسرے کے ترک کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا علمائے سلف و خلف کا صحیح قول یہی ہے۔ اور صحیح یہی ہے کہ عالم نیکی کا حکم کرے اگرچہ خود نہ کر رہا ہو اور دوسروں کو برائی سے روکے اگرچہ خود مرتکب ہو رہا ہو۔ (ص ٨٥ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

102 ۔ یہاں استفہام اظہار حیرت وتعجب کے لیے ہے یعنی تمہارا حال قابل تعجب ہے کہ تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو مگر خود نیکی نہیں کرتے ہو۔ یہ خطاب علمائے یہود سے ہے کہ وہ لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ تورات میں نبی کریم (علیہ السلام) کی صداقت کی نشانیاں موجود تھیں مگر انہوں نے آپ کو نہ مانا۔ ان الیھود کانوا یامرون غیرھم باتباع التورۃ ثم انھم خالفوہ لانھم وجدوا فیھا ما یدل علی صدق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثم انھم ما امنوا بہ (کبیر ص 490 ج 1) بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب مشرکین مکہ یا یہودیوں کے مسلمان رشتہ داروں میں سے کوئی شخص پوشیدہ طور پر علمائے یہود سےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پوچھتا تو اسے کہتے کہ وہ پیغبر سچا ہے اسے مان لو لیکن خود اسے نہیں مانتے تھے کیونکہ انہیں اپنی نذروں اور نیازوں کے بند ہوجانے کا ڈر تھا۔ اذا جاء ھم احد فی الخفیۃ لاستعلام امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ققالوا ھو صادق فیما یقول وامرہ حق فاتبعوہ وھم کانوا لا یتبعونہ لطمعہم فی الھدایا والصلاۃ التی کانت تصل الیھم من اتباعھم (کبری ص 494 ج 1) نزلت فی علماء الیھود وذلک ان الرجل منھم کان یقول لقریبہ وحلیفہ من المومنین اذا سالہ عن امر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اثبت علی دینہ فان امرہ حق وقولہ صدق (معالم ص 46 ج 1) وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۔ اور تم تورات کے عالم ہو۔ اور اسے پڑھتے رہتے ہو۔ اس میں حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات و علامات مذکور ہیں۔ نیز اس میں نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہے۔ معناہ تقرءون التورۃ وتدرسونھا و تعلمون ما فیھا من الحث علی افعال البر والاعراض عن افعال الاثم (کبیر ص 490 ج 1) اَفَلَاتَعْقِلُوْن۔ تعجب ہے کہ مندرجہ بالا امور کے باوجود تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور حق کو باطل اور ناحق کے ساتھ مخلوق نہ کرو اور حق بات کو جان بوجھ کر چھپائو نہیں اور نماز کی پابندی کرو اور زکوٰۃ ادا کیا کرو اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھا کرو کیا تم اور لوگوں کو بھلے اور نیک کام کرنی کی تعلیم دیتے ہو اور حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو اس بھلے کام سے فراموش کئے بیٹھے ہو حالانکہ تم کتاب توریت پڑھتے ہو تو کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے کہ دوسروں کو نیک کام کی ترغیب دینا اور خود اس کام کو نہ کرنا کیسا برا ہے۔ ( تیسیر) خود غرض اور حرض و ہوا کے بندے احکام شرعیہ کو دو طرح بدلتے تھے ایک تو حق بات کو چھپالیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات توریت میں نہیں ہے اور اگر کوئی بات آ ہی پڑتی تھی تو اس میں توجیہ اور تاویل کردیا کرتے تھے جیسا کہ آج کل بھی علماء سوء کا یہی طریقہ ہے کہ امر حق کا کتمان کرتے ہیں اور اگر کوئی آیت یا حدیث پیش کردے تو اس کا مطلب میں عجیب و غریب تاویلات کرتے ہیں اور کوئی عبادت مقدر نکال دیتے ہیں یا حقیقت اور مجاز کی بحث شروع کردیتے ہیں غرض ان دونوں طریقوں سے علماء یہود کو منع کیا گیا کہ نہ تو سچی بات کو چھپائو اور نہ حق و باطل کو خلط ملط کرو جبکہ تم ان باتوں کی برائی کو جانتے بھی ہو تو جان بوجھ کر ایسا کرنا اور بھی سخت گناہ ہے اس کے ساتھ ان کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا گیا اور یہ جو فرمایا رکوع کرنیوالوں کے ساتھ رکوع کرو تو شاید اس غرض سے فرمایا ہو کہ یہود کی نماز میں رکوع نہیں تھا یا رکوع سے مراد نماز ہو کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھا کرو یعنی علیحدہ علیحدہ نماز نہ پڑھا کرو بلکہ جماعت سے پڑھا کرو کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پڑھنے سے پچیس یا ستائیس درجے فضلیت رکھتی ہے یا یہ مطلب ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب ساتھ نمازپڑھا کرو۔ پہلی آیت میں پیغمبر (علیہ السلام) اور قرآن پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا اور اس آیت میں اعمال کی پابندی کے لئے تاکید کی گئی تا کہ ایمان کامل ہوجائے اور یہ ظاہر ہے کہ اعتقاد اور اعمال کی جس قدر اصلاح ہوگی اسی قدر سیات اور بد اعمالیوں سے نفرت بڑھے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وارکعوا مع الراکعین کے معنی یہ ہوں کہ عاجزی اور انکساری کی خو اختیارکرو اور عجازی کرنیوالوں کے ساتھ عاجزی اختیار کرو تا کہ اپنے کو بڑا سمجھنے کی بیماری کم ہو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی طرف رغبت ہو۔ واللہ اعلم آگے ان کی ایک مذموم حرکت پر ان کو تنبیہ فرماتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی شیوہ تھا کہ اگر کوئی یہودیوں میں سے اسلام قبول کرلیتا تھا اور ان سے دریافت کرتا تھا کہ ہمارا یہ فعل کیسا ہے تو اس کی تحسین کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ پیغمبر واقعی وہی نبی آخر الزماں ہے جس کی تعریف توریت میں کی گئی اور اسی طرح اپنے احباب کی خاص مجالس میں بھی اس کا اظہار کرتے تھے اور جب کوئی بھی ان سے کہتا تھا کہ آئو پھر ہم تم سب اس نبی کی اطاعت قبول کرلیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو یہ کم بخت خود تیار نہ ہوتے تھے اور دوسروں سے کہہ دیا کرتے تھے کہ تم چاہو تو مسلمان ہو جائو تم کو اختیار ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے اس کو فرمایا کہ دوسروں کو تو بھلی بات کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے کو فراموش کئے ہوئے ہوحالان کہ تم توریت پڑھتے ہو تو کیا تم کو یہ مسئلہ نہیں معلوم کہ تمہاری کتاب میں بےعمل واعظوں کی کیسی وعید آئی ہے اور یہ کتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسروں کو تو نصیحت کرو اور خود عمل نہ کرو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی عام عادت خود تو فسق و فجور کی ہو رشوت اور سود کھاتے ہو ۔ جھوٹ بولتے ہوں لیکن جب سہیکل میں تقریر کرتے ہوں تو ان سب باتوں کو حرام کہتے ہوں اس پر تنبیہ فرمائی ہو بہر حال آیت میں بےعمل عالموں کی مذمت ہے احادیث صحیحہ میں ایسے بےعمل لوگوں کی سخت مذمت اور وعیدہ موجود ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بےعمل اور فاسق کسی کو نصیحت ہی نہ کرے اگر کوئی بھلی بات کسی کو معلوم ہو خواہ وہ خود بےعمل ہی کیوں نہ ہو مگر دوسرے کو بتاسکتا اور سمجھا سکتا ہے غرض ایک بےعمل عالم کو وعظ اور پند و نصیحت کا حق باقی رہتا ہے آگے کی آیت میں ان کے مرض کا علاج فرماتے ہیں کیونکہ اسلام قبول کرنے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے روکنے کے دو سبب تھے ایک حب جاہ اور ایک حب مال او انہی دو بیماریوں سے ان میں حسد بھی پیدا ہوگیا تھا وہ کہتے تھے کہ اگر ہم مسلمان ہوگئے اور نبی آخر الزمان کے فرمانبردار ہوگئے تو ہمارے نذرانے اور رشوتیں سب بند ہوجائیں گی اور ہمیں مالی نقصان ہاتھ سے نکل جائیں گے اگر وہ سب مسلمان ہوگئے تب بھی ہم سے گئے اور اگر وہ یہودی رہے تب بھی وہ ہمارے نہ رہیں گیان ہی دو بیماریوں کا آگے کی آیت میں علاج مذکور ہے۔ ( تسہیل)