VerbPersonal Pronoun

تَنظُرُونَ

(were) looking

تم دیکھ رہے تھے

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
نَظَرَ
يَنْظُرُ
اُنْظُرْ
نَاظِر
مَنْظُوْر
نَظَر/نَظْر
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلنَّظَرُ کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جولانی دینے کے ہیں۔پھر کبھی اس سے محض غوروفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غوروفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ محاورہ ہے:نَظَرْتَ فَلَمْ تَنْظُرْ تو نے دیکھا لیکن غور نہیں کیا۔چنانچہ آیت کریمہ: (قُلِ انۡظُرُوۡا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ) (۱۰۔۱۰۱) ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے۔میں اُنْظُرُوْا کے معنی غور کرنے کے ہیں اگرچہ کچھ عوام کے نزدیک زیادہ تر نظر کا لفظ رؤیۃ بصری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن خواص کے نزدیک یہ عام طور پر بصیرت کے معنی میں آتا ہے۔جیسے فرمایا: (وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ …… اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (۷۵۔۲۲،۲۳) اس روز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے اور اپنے پروردگار کے محودیدار ہوں گے۔ (نَظَرْتُ اِلٰی کَذَا) کے معنی کسی چیز کی طرف نظر اٹھانے کے ہیں۔خواہ وہ نظر آئے یا نہ آئے اور نَظَرْتُ فِیْہ کا معنی کسی چیز کو دیکھ کر اس میں غور کرنے کے ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ) (۸۸۔۱۷) کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے (عجیب) پیدا کیے گئے ہیں۔ (نَظَرْتُ فِیْ کَذَا) کے معنی کسی چیز میں غور کرنے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے: (فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ … فَقَالَ اِنِّیۡ سَقِیۡمٌ ) (۳۷۔۸۸،۸۹) تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی اور کہا میں تو بیمار ہوں۔ اور آیت کریمہ: (اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۷۔۱۸۵) کیا انہوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں نظر نہیں کی۔میں آسمان و زمین کی خلقت میں جو جو حکمتیں مضمر ہیں۔ان پر فکر و تامل کی ترغیب دی گئی ہے۔پھر اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں کی طرف نظر کرنے سے ان پر احسان اور لطف کرنا مراد ہوتا ہے۔اور کفار کی طرف نظر نہ کرنے کے معنی ان سے لطف و کرم اور افاضہ انعامات کو روک لینے کے ہوتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ وَ لَا یَنۡظُرُ اِلَیۡہِمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ) (۳۔۷۷) ان سے خدا نہ تو کلام کرے گا اور نہ قیامت کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور آیت کریمہ: (کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ) (۸۳۔۱۵) بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے۔بھی اس معنی پر محمول ہے۔اور اَلنَّظْرُ بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے۔چنانچہ نَظَرْتُہٗ وَانْتَظَرْتُہٗ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں جیسے فرمایا: (وَ انۡتَظِرُوۡا ۚ اِنَّا مُنۡتَظِرُوۡنَ) (۱۱۔۱۲۲) اور (نتیجہ اعمال کا) تم بھی انتظار کرو۔ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ (فَہَلۡ یَنۡتَظِرُوۡنَ اِلَّا مِثۡلَ اَیَّامِ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ قُلۡ فَانۡتَظِرُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ ) (۱۰۔۱۰۲) سو جیسے برے دن ان سے پہلے لوگوں پر گذرچکے ہیں اسی طرح کے دنوں کے یہ منتظر ہیں کہدو کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ) (۵۷۔۱۳) کہ ہماری طرف نظر شفقت کیجیے۔کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ (اِلٰی طَعَامٍ غَیۡرَ نٰظِرِیۡنَ اِنٰىہُ) (۳۳۔۵۳) کھانے کے لئیے اور اس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ (فَنٰظِرَۃٌۢ بِمَ یَرۡجِعُ الۡمُرۡسَلُوۡنَ) (۲۷۔۳۵) اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں۔ (ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا السَّاعَۃَ اَنۡ تَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ) (۴۳۔۶۶) یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت ان پر ناگہاں آموجود ہو۔اور ان کو خبر تک نہ ہو۔ (ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ ظُلَلٍ مِّنَ الۡغَمَامِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ) (۲۔۲۱۰) کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا (کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آنا نازل ہو اور فرشتے بھی (اتر آئیں) (وَ مَا یَنۡظُرُ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً ) (۵۸۔۱۵) اور یہ لوگ تو صرف ایک آواز کا انتظار کرتے ہیں۔اور اَنْظَرْتُہُ کے معنی اَخَّرْتُہُ یعنی مؤخر کرنے اور مہلت دینے کے ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ مَا کَانُوۡۤا اِذًا مُّنۡظَرِیۡنَ) (۱۵۔۸) اور اس وقت ان کو مہلت نہیں ملتی۔ (قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ … قَالَ اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ) (۷۔۱۴،۱۵) اس نے کہا کہ مجھے اس دن تک مہلت عطا فرماؤ جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔فرمایا (اچھا) (فَکِیۡدُوۡنِیۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ لَا تُنۡظِرُوۡنِ) (۱۱۔۵۵) تجھ کو مہلت دی جاتی ہے میرے بارے میں جو تدبیر (کرنی چاہو) کرلو اور مجھے مہلت نہ دو۔ (لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ) (۳۲۔۲۹) کہ کافروں کو ان کا ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ (فَمَا بَکَتۡ عَلَیۡہِمُ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَا کَانُوۡا مُنۡظَرِیۡنَ) (۴۴۔۲۹) پھر ان پر نہ تو آسمان و زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت دی گئی یہاں ان سے اِنْظَارٌ کی نفی کرکے اس معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس پر کہ آیت کریمہ: (فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ) (۷۔۳۴) جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں اور نہ جلدی۔میں متنبہ کیا ہے اور آیت کریمہ: (رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ) (۷۔۱۴۳) اے میرے پروردگار!مجھے جلوہ دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی) کروں۔کی کچھ تشریح پہلے گذرچکی ہے اور اس کے حقائق پر مفصل بحث اس کے بعد دوسری کتاب (تفسیر القرآن) میں بیان ہوگی۔اور نَظْرٌ کا لفظ کسی معاملہ میں متحیر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔جیسے فرمایا: (فَاَخَذَتۡکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ ) (۲۔۵۵) تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔ (وَ تَرٰىہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ ) (۷۔۱۹۸) آنکھیں کھولے تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں۔مگر (دراصل) کچھ نہیں دیکھتے۔نیز فرمایا: (وَ تَرٰىہُمۡ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا خٰشِعِیۡنَ مِنَ الذُّلِّ یَنۡظُرُوۡنَ مِنۡ طَرۡفٍ خَفِیٍّ) (۴۲۔۴۵) اور تم ان کو دیکھو گے کہ دوزخ کے سامنے لائے جائیں گے۔ذلت سے عاجزی کرتے ہوئے چھپی (اور نیچی) نگاہ سے دیکھ رہے ہوں گے۔ (وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡظُرُ اِلَیۡکَ ؕ اَفَاَنۡتَ تَہۡدِی الۡعُمۡیَ وَ لَوۡ کَانُوۡا لَا یُبۡصِرُوۡنَ ) (۱۰۔۴۳) اور بعض ایسے ہیں کہ تمہاری طرف دیکھتے ہیں تو کیا تم اندھوں کو راستہ دکھاؤگے۔اگر کچھ بھی دیکھتے (بھالتے) نہ ہوں۔ان تمام آیات میں نَظْرٌ کے معنی حیرت زدہ ہوکر دیکھنے کے ہیں۔اور ظاہر ہے کہ اس طرح دیکھنا بے معنی ہوتا ہے۔اور آیت کریمہ: (وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ) (۲۔۵۰) اور فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے۔میں بعض نے تَنْظُرُوْنَ کے معنی مشاہدہ کے لکھے ہیں اور بعض نے عبرت حاصل کرنے کے اور شاعر کے قول (1) (الرمل) (۴۲۳) (نَظَرَ الدَّھْرُ اِلَیْھِمْ فَابْتَھَلْ) میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ زمانہ نے خیانت کی اور انہیں ہلاک کرڈالا۔اور حَیٌّ نَظَرٌٌ اس قوم کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کے اس قدر قریب فردکش ہوں کہ ان کے خیمے آمنے سامنے نظر آتے ہوں اور آبادی میں اسی قسم کے قریب سے حدیث میں کفار سے دور رہنے کا حکم دیتے ہیں فرمایا (2) (۱۳۰) (لَایُتَرَایئَ نَارَاھمُاَ) کہ مسلمان کفار سے اتنی دور ہوں کہ ایک دوسرے کی آگ نظر نہ آئے۔اور نَظِیْرٌ کے معنی ہم مثل کے ہیں۔اصل میں نظیر بمعنی مُنَاظِرٌ ہے گویا ایک دوسرے کو دیکھ کر باہم موازنہ کرتے ہیں۔وَبِہ نَظَرَۃٌ (وہ آسیب زدہ ہے) شاعر نے اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے (3) (۴۳۳) (وَقَالُوْابِہ مِنْ اَْعْیُنِ الْجِنِّ نَظْرَۃٌ) اور لوگوں نے کہا ہے کہ یہ آسیب زدہ ہے اور اسے کسی جن کی نظر لگی ہوئی ہے۔ اَلْمُنَاظَرَۃُ:کے معنی مباحثہ یعنی بحث و نظر میں باہم مقابلہ کرنے اور ہر ایک کے اپنی رائے علی وجہ البصیرۃ ظاہر کرنے کے ہیں اور نَظَرٌ کے معنی بحث کرنا بھی آتے ہیں اور قیاس سے عام ہے کیونکہ ہر قیاس کو نَظَرٌ کہہ سکتے ہیں لیکن ہر نظر قیاس نہیں ہوتی ۔

Lemma/Derivative

87 Results
نَظَرَ
Surah:2
Verse:50
تم دیکھ رہے تھے
(were) looking
Surah:2
Verse:55
تم دیکھ رہے تھے
(were) looking
Surah:2
Verse:104
ہماری طرف نظر کیجئے
"Unzurna"
Surah:2
Verse:210
وہ انتظار کر رہے۔ وہ دیکھ رہے
they waiting
Surah:2
Verse:259
پس دیکھ
Then look
Surah:2
Verse:259
اور دیکھو
and look
Surah:2
Verse:259
اور دیکھو
And look
Surah:3
Verse:77
وہ دیکھے گا
look
Surah:3
Verse:137
پھر دیکھو
and see
Surah:3
Verse:143
تم دیکھ رہے تھے
looking on