Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 79

سورة البقرة

فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ٭ ثُمَّ یَقُوۡلُوۡنَ ہٰذَا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ لِیَشۡتَرُوۡا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ فَوَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا کَتَبَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ وَیۡلٌ لَّہُمۡ مِّمَّا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۷۹﴾

So woe to those who write the "scripture" with their own hands, then say, "This is from Allah ," in order to exchange it for a small price. Woe to them for what their hands have written and woe to them for what they earn.

اُن لوگوں کے لئے ـ ویل ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالٰی کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں ، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل ( ہلاکت ) اور افسوس ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلً ... Then Waylun (woe) to those who write the book with their own hands and then say, "This is from Allah," to purchase with it a little price!. This is another category of people among the Jews who called to misguidance with falsehood and lies ab... out Allah, thriving on unjustly amassing people's property. `Waylun (woe)' carries meanings of destruction and perishing, and it is a well-known word in the Arabic language. Az-Zuhri said that Ubadydullah bin Abdullah narrated that Ibn Abbas said, "O Muslims! How could you ask the People of the Book about anything, while the Book of Allah (Qur'an) that He revealed to His Prophet is the most recent Book from Him and you still read it fresh and young Allah told you that the People of the Book altered the Book of Allah, changed it and wrote another book with their own hands. They then said, `This book is from Allah,' so that they acquired a small profit by it. Hasn't the knowledge that came to you prohibited you from asking them By Allah! We have not seen any of them asking you about what was revealed to you." This Hadith was also collected by Al-Bukhari. Al-Hasan Al-Basri said, "The little amount here means this life and all that it contains." Allah's statement, ... فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ Woe to them for what their hands have written and woe to them for that they earn thereby. means, "Woe to them because of what they have written with their own hands, the lies, falsehood and alterations. Woe to them because of the property that they unjustly acquired." Ad-Dahhak said that Ibn Abbas commented, فَوَيْلٌ لَّهُم (Woe to them), "Means the torment will be theirs because of the lies that they wrote with their own hands, وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ (And woe to them for that they earn thereby), which they unjustly acquired from people, be they commoners or otherwise."   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 2 یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بےنیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔ (احمد، ترمذی، اب... ن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] غلط فتو وں کی کمائی :۔ علماء یہود کا یہ حال تھا کہ انہوں نے تورات کی شروح اور علماء کے فتاویٰ کو بھی تورات میں ہی خلط ملط کر ڈالا تھا۔ پھر عام لوگوں سے اسے یوں بیان کرتے تھے گویا یہ سب کچھ ہی منزل من اللہ ہے۔ اور اس سے غرض محض دنیوی مال و دولت کا حصول ہوتا تھا اور ان کے مفسروں کی تاویلات، مفکر... وں کے فلسفیانہ خیالات اور فقہاء کے قانونی اجتہادات اور اپنے قومی تاریخی واقعات، یہ سب چیزیں بائیبل میں شامل کردی تھیں اور اس سب کچھ پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا تھا۔ ایسے مجموعہ میں سے انہیں کسی بھی قسم کا فتویٰ دینے یا لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے اپنے فتو وں کے منہ مانگے دام وصول کرتے تھے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ تعلیم یافتہ طبقے کی حالت ہے کہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے غلط فتوے دیتے رہتے ہیں۔ وہ محض دنیا کمانے کے لیے عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق باتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انھیں بڑی جرأت اور ڈھٹائی سے اللہ اور رسول کی طرف منسوب کردیتے ہیں، ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو وہ اللہ ... اور اس کے رسول کا فرمان بتانے کے بجائے اپنا یا اپنے کسی بزرگ کا قول پیش کر کے باور یہ کرواتے ہیں کہ یہ عین شریعت ہے۔ افسوس اکثر مسلمانوں کا بھی یہی حال ہوگیا ہے کہ انھوں نے امیتوں کے اقوال کو شریعت قرار دے دیا اور قرآن و حدیث پر چلنے والوں کو لا مذہب قرار دے دیا۔ (وَيْلٌ) کا معنی ہلاکت اور تباہی ہے، اس پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ بڑی ہلاکت کیا گیا ہے۔ سنن ترمذی کی جس مرفوع روایت میں ہے : ” ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے، کافر ستر سال تک اس کی گہرائی میں چلا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا “ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ علامہ البانی (رض) نے ضعیف ترمذی (٣١٦٤) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس آیت پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے صحیح احادیث کو چھوڑ کر تورات، انجیل اور تلمود کے ساتھ شوق فرماتے ہیں، جن میں تحریف کی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے اور جن میں انبیاء پر تہمتیں، بےسرو پا باتیں اور آیات کا باہمی تضاد، لفظی تحریف کا واضح ثبوت ہیں۔ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” تم اہل کتاب سے کسی بھی خبر کے متعلق کیوں پوچھتے ہو، جب کہ تمہاری کتاب جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی، سب سے نئی ہے ؟ تم اسے خالص اور ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک پڑھتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بتایا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل دیا اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے دریافت کرنے سے روکتا نہیں ؟ قسم ہے اللہ کی ! ہم نے ان میں سے کسی شخص کو نہیں دیکھا کہ وہ تم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کرتا ہو جو تم پر نازل کی گئی۔ “ [ بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٧٣٦٣ ] بعض لوگوں نے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے، مگر اس آیت کا یہ مطلب نہیں، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیوی مفاد کے لیے اپنے پاس سے غلط باتیں لکھ کر اسے اللہ کا کلام باور کرواتے ہیں۔ دیکھیے سورة بقرہ (٤١) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۝ ٠ ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِــيَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا۝ ٠ ۭ فَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْہِمْ وَوَيْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ۝ ٧٩ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّح... َسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے مونفں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔ كتب ( لکھنا) الْكَتْبُ : ضمّ أديم إلى أديم بالخیاطة، يقال : كَتَبْتُ السّقاء، وكَتَبْتُ البغلة : جمعت بين شفريها بحلقة، وفي التّعارف ضمّ الحروف بعضها إلى بعض بالخطّ ، وقد يقال ذلک للمضموم بعضها إلى بعض باللّفظ، فالأصل في الْكِتَابَةِ : النّظم بالخطّ لکن يستعار کلّ واحد للآخر، ولهذا سمّي کلام الله۔ وإن لم يُكْتَبْ- كِتَاباً کقوله : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، وقوله : قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] . ( ک ت ب ) الکتب ۔ کے اصل معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملاکر سی دینے کے ہیں چناچہ کہاجاتا ہے کتبت السقاء ، ، میں نے مشکیزہ کو سی دیا کتبت البغلۃ میں نے خچری کی شرمگاہ کے دونوں کنارے بند کرکے ان پر ( لوہے ) کا حلقہ چڑھا دیا ، ، عرف میں اس کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعہ باہم ملا دینے کے ہیں مگر کبھی ان حروف کو تلفظ کے ذریعہ باہم ملادینے پر بھی بولاجاتا ہے الغرض کتابۃ کے اصل معنی تو تحریر کے ذریعہ حروف کو باہم ملادینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی بمعنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا ہے اور بناپر کلام الہی کو کتاب کہا گیا ہے گو ( اس وقت ) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی ۔ قرآن پاک میں ہے : الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں ۔ قالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتانِيَ الْكِتابَ [ مریم/ 30] میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) شری الشِّرَاءُ والبیع يتلازمان، فَالْمُشْتَرِي دافع الثّمن، وآخذ المثمن، والبائع دافع المثمن، وآخذ الثّمن . هذا إذا کانت المبایعة والْمُشَارَاةُ بناضّ وسلعة، فأمّا إذا کانت بيع سلعة بسلعة صحّ أن يتصور کلّ واحد منهما مُشْتَرِياً وبائعا، ومن هذا الوجه صار لفظ البیع والشّراء يستعمل کلّ واحد منهما في موضع الآخر . وشَرَيْتُ بمعنی بعت أكثر، وابتعت بمعنی اشْتَرَيْتُ أكثر، قال اللہ تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، أي : باعوه، ( ش ر ی ) شراء اور بیع دونوں لازم ملزوم ہیں ۔ کیونکہ مشتری کے معنی قیمت دے کر اس کے بدلے میں کوئی چیز لینے والے کے ہیں ۔ اور بائع اسے کہتے ہیں جو چیز دے کہ قیمت لے اور یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب ایک طرف سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان ہو لیکن جب خریدو فروخت جنس کے عوض جنس ہو ۔ تو دونوں میں سے ہر ایک کو بائع اور مشتری تصور کرسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیع اور شراء کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں اور عام طور پر شربت بمعنی بعت اور ابتعت بمعنی اشتریت آتا ہے قرآن میں ہے ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالا ۔ ثمن قوله تعالی: وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] . الثَّمَنُ : اسم لما يأخذه البائع في مقابلة البیع، عينا کان أو سلعة . وکل ما يحصل عوضا عن شيء فهو ثمنه . قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمانِهِمْ ثَمَناً قَلِيلًا [ آل عمران/ 77] ، ( ث م ن ) الثمن اصل میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو فروخت کرنے والا اپنی چیز کے عوض خریدار سے وصول کرتا ہے خواہ وہ زر نقد ہو یا سامان ۔ قرآن میں ہے :۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اسے تھوڑی سی قیمت یعنی چند درہموں پر بیچ ڈالا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٩) لہٰذا ان کے لیے سخت قسم کا عذاب ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور آپ کی صفات کو اپنی کتاب میں بدل دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ” ویل “ دوزخ کے ایک خاص مقام کا نام ہے پھر اس تبدیلی اور تحریف کے بعدکہتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تاکہ اس تحریف کے بدلے کھانے ... پینے کی حقیر سی چیز حاصل کریں اور ان لوگوں کے لیے بہت عذاب ہے جو اپنے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تبدیلی کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بھی سخت عذاب ہے جو اسکے ذریعہ حرام اور رشوت کا مال کماتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” فویل للذین “۔ (الخ) اس آیت کے متعلق نسائی (رح) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت شریفہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، ابن ابی حاتم (رح) نے عکرمہ (رح) کے ذریعہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت شریفہ یہودی علماء کے بارے میں ہے انہوں نے تورات کے اندر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت لکھی ہوئی پائی تھی کہ آپ سرمگین آنکھوں والے، درمیانے قد والے اور خوبصورت چہرے والے ہوں گے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال نہ بالکل سیدھے ہوں گے اور نہ بالکل ٹیڑھے، یہودیوں نے حسد اور بعض اور عداوت میں اس صفت کو مٹا کر وہاں یہ لکھ دیا کہ آپ بڑے نیلی آنکھوں اور سیدھے بالوں والے ہوں گے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی )  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ق) ۔ “ ” وَیْل “ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ جہنم کا وہ طبقہ ہے جس سے خود جہنم پناہ مانگتی ‘ ہے۔ (ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ) (لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَناً قَلِیلاً ط) یعنی لوگ علماء یہود سے شرعی مسا... ئل دریافت کرتے تو وہ اپنے پاس سے مسئلے گھڑ کر فتویٰ لکھ دیتے اور لوگوں کو باور کراتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ یہی دین کا تقاضا ہے۔ اب اس فتویٰ نویسی میں کتنی کچھ واقعتا انہوں نے صحیح بات کہی ‘ کتنی ہٹ دھرمی سے کام لیا اور کس قدر کسی رشوت پر مبنی کوئی رائے دی ‘ اللہ ‘ کے حضور سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔ علامہ اقبال نے علماء سوء کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : ؂ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق ! علماء یہود کا کردار اسی طرح کا تھا۔ (فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ ) (وَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ ) ۔ “ یہ فتویٰ فروشی اور دین فروشی کا جو سارا دھندا ہے اس سے وہ اپنے لیے تباہی اور بربادی مول لے رہے ہیں ‘ اس سے ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اب آگے ان کی بعض ” اَمَانِیّ “ کا تذکرہ ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

90. These observations relate to their rabbis. They were not content with misinterpreting the Word of God. They also interjected into it their readings of the Scriptures and their explanatory comments thereof, stories from their national history, superstitious ideas and fancies, philosophical doctrines and legal rules. The result was that the Divine and the human became inextricably mixed. They cl... aimed, nevertheless, that the entire thing was divine! Every historical anecdote, the interpretation of every commentator, the doctrine of every theologian, and the legal deduction of every jurist that managed to find its way into the Bible became the 'Word of God'. It was thus obligatory to believe in all that, and every deviation from it became tantamount to deviation from the true faith.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :90 یہ ان کے علما کے متعلق ارشاد ہو رہا ہے ۔ ان لوگوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلام الہٰی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو ، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائیبل میں اپنی تفسیروں کو ، اپنی قومی تاریخ کو ، اپنے اوہام اور قیاسات کو ، اپنے خیالی فلسفوں کو ، اور اپنے ا... جتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلام الہٰی کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں ۔ ہر تاریخی افسانہ ، ہر مُفَسِّر کی تاویل ، ہر مُتَکلِّم کا الہٰیاتی عقیدہ ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد ، جس نے مجمُوعہٴ کتب مقدّسہ ( بائیبل ) میں جگہ پالی ، اللہ کا قَول ( Word of God ) بن کر رہ گیا ۔ اس پر ایمان لانا فرض ہو گیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہو گئے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

56: یہاں قرآن کریم نے ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے ان یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو تورات میں جان بوجھ کر رد وبدل کرتے تھے پھراُن ان پڑھ یہودیوں کا جنہیں تورات کا علم تو تھا نہیں مگر انہیں مذکورہ بالا علماء نے ان جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر رکھا تھا کہ سارے یہودی اللہ کے لاڈلے ہیں اور وہ بہر صورت جنت می... ں جائیں گے، ان کا ساراعلم اسی قسم کے گمانوں پر مشتمل تھا ؛ چونکہ ان کے اس گمان کی بنیادی وجہ علماء کی تحریفات تھیں اس لئے آٰت نمبر 96 میں ان کی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:79) ویل۔ اسم مرفوع۔ ہلاکت، عذاب، دوزخ کی ایک وادی کا نام ، عذاب کی شدت، رسوائی ، کلمہ حسرت و ندامت، اگر ویل : ویلہ کی اضافت ضمیر کی جانب ہو تو غیبت، خطاب اور تکلم کی علامات بدلتی رہتی ہیں۔ مثلاً ویلتنا مضاف مضاف الیہ (ہائے ہماری ہلاکت) (18:49) ویلک۔ مضاف مجاف الیہ ، تو مرے ویلنا (21:14) ہائے ہمار... ی موت (کلمہ حسرت) ۔ تفسیر حقانی میں ہے ویل زبان عرب میں ناراضگی کے موقع پر استعمال ہوتا ہے جیسا کہ ہماری زبان میں تف اور پھٹے منہ بولتے ہیں پس وہ جو امام احمد اور ترمذی اور ابو یعلیٰ وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ ویل جہنم میں ایک کنواں ہے اور ابن جریر (رح) نے روایت کیا ہے کہ وہ جہنم میں پہاڑ ہے ۔ سو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے کلمہ ویل کا مظہر ہیں یعنی ان کی ناراضگی ان صورتوں میں ظہور کرے گی۔ سو یہ سب سچ ہے۔ مما۔ مرکب ہے من تعلیلیہ (متعلق بہ ویل) اور ما موصولہ ہے۔ یعنی تُف ہے ان کے لئے بوجہ اس کے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔ کتبت ایدیہم ۔ ایدی جمع ید کی۔ مضاف، ھم مضاف الیہ مضاف الیہ مل کر فاعل کتبت کا ان کے ہاتھوں نے لکھا۔ یہ جملہ صلہ ہے اپنے موصول کا۔ باوجود یہ کہ لکھتے ہاتھوں ہی سے ہیں نہ کہ پاؤں سے۔ پھر اس کو جو ذکر کیا تو تاکید کے لئے ہے۔ مایکسبون۔ بوجہ اس کے جو انہوں نے کمایا۔ مما کے لئے اوپر تحریر ہوچکا۔ ییسبون۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے کسب (باب ضرب) مصدر سے۔ وہ کماتے ہیں۔ وہ کمائی کرتے ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ تعلم یافتہ طبقہ کی حالت ہے جو خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے فتوے دیتے رہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ عوام کو ‏محض دنیا کمانے کے لیے ان کی خواہشات مطابق پاتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انہیں بڑی ڈھٹائی اور جرات سے خدا اور رسول کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ( فتح البیان) ایسے لوگوں کے لیے و... یل ہے ترمذی میں مرفوعا روایت ہے کہ دیل جہنم میں یاک وادی کا نام ہے کافر ستر سال کی مسافت تک اس کی گہرائی میں چلا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا۔ اور دیل کے معنی ہلاکت اور تبا ہی ہلاکت کے بھی آتے ہیں۔ (ابن کثیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مسلمانوں ! جب اللہ نے تمہیں بتادیا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل ڈالا ہے وہ خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر اور اسے اللہ کی کتاب ٹھہر اکر سستے داموں فروخت کر ڈالتے ہیں اور تمہارے پاس اللہ کی تازہ کتاب قرآن مجید موجود ہے پھر تم کو اہل کتاب سے کچھ دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات ہی کیا ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس کے اس قول پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو صحیح احادیث کر چھوڑ کر توریت، انجیل اور تلمودے کے محرف اقوال سے شغف فرماتے ہیں نیز اس آیت پر ان لوگوں کو بھی غور کرنا چاہیے جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی بےسند کتابوں کو اپنا دین بنائے ہوئے ہیں۔ مسئلہ الدارامنثور میں الجلال السیوطی نے سلف سے چند ایسے آثار نقل کیے ہیں جس نے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصحف (قرآن مجید) کی بیع مکروہ سمجھتے ہیں کہ مصاحف کی خریدو فر خت جائز ہے۔ لا باس بھا یعنی اس میں کچھ حرج کی بات نہیں ہے۔ فتح القدیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

علمائے یہود کا غلط مسائل بتانا اور رشوت لینا اس آیت شریفہ میں یہودی علماء کی بد عملی اور دھاندلی اور حب دنیا کی وجہ سے ان کی بربادی کا تذکرہ فرمایا ہے عوام جب علماء کے پاس جاتے تھے اور ان سے مسائل معلوم کرتے تھے اور ساتھ ہی رشوت بھی دیتے تھے تو وہ لوگ سائل کی رضا جوئی کے لیے اس کی مرضی کے مطابق مسئ... لہ بتادیتے تھے، خود اپنے ہاتھ سے مسئلہ لکھ دیتے تھے اور عوام کو باور کراتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور توریت شریف میں یوں ہی نازل ہوا ہے جو شخص رشوت نہ لاتا اس کے لیے مسئلہ میں ادل بدل نہیں کرتے تھے۔ ان کے علماء تحریف کتاب اللہ کے مجرم بھی تھے اور رشوت خوری کے گناہ میں بھی مبتلا تھے۔ اللہ جل شانہ، نے ان کا حال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کے لیے دونوں وجہ سے ہلاکت اور بربادی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تحریف کی وجہ سے بھی اور اس وجہ سے بھی کہ وہ حرام مال کماتے ہیں۔ اور باقی رہنے والی آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں حقیر دنیا کی کچھ نقدی لینے پر راضی ہیں۔ سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے اپنے عوام کو بھی اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت اور صفت جو توریت شریف میں موجود پاتے تھے اسے واضح طور پر بتاتے تو اس میں ممکن تھا کہ ظاہری دنیا میں کمی ہوجاتی لیکن آخرت کے ثواب سے مالا مال ہوجاتے لیکن انہوں نے حقیر دنیا کو ترجیح دی۔ اور تھوڑے سے فانی کے مقابلہ میں آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور مستحق عذاب ہوئے۔ ان کے عوام میں اگرچہ بےپڑھے لوگ بھی تھے لیکن اتنا تو ہر عقلمند سمجھتا ہے کہ جو شخص پیسہ لے کر ایک بات بتایا ہے اور جو پیسہ نہ دے اسے دوسری بات بتاتا ہے ایسا شخص کیسے اہل حق ہوسکتا ہے ایسے شخص پر دین میں اعتماد کرنا سراسر حماقت ہے جس میں سراسر ہلاکت ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

153 یہ چوتھا گروہ ہے اور یہ بھی ان کے خواص اور علمائ ہی کی ایک جماعت ہے۔ انہوں نے یہ کیا کہ اپنی طرف سے تورات کے چند نسخے تیار کیے اور تورات میں جہاں کہیں توحید کا بیان تھا یاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اور آپ کی نعت تھی اسے اس طرح بدل ڈالا کہ اصل سے اسے کوئی نسبت ہی نہ رہی۔ پھر اصل تورات ... کے نسخے چھپا ڈالے اور اپنے ہاتھوں سے تیار کیے ہوئے محرف نسخے اپنے عوام اور مشرکین عرب میں تقسیم کردئیے اور کہتے یہ تھے کہ دیکھو یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں تو اس نبی کا کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی اس توحید کا بیان ہے جو وہ پیش کرتا ہے (روح ص 302 ج 1) اس جرم کی سنگینی اور ان بدکردار علمائ کی تحقیر وتذلیل کے پیش نظر ان کا ذکر ویل وہلاکت اور ذلت ورسوائی کی وعید شدید کے ساتھ کیا ہے۔ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَــمَنًا قَلِيْلًا۔ اس تحریف وتبدیل سے ان کا مقصد کوئی دین کی خدمت نہیں بلکہ محض دولت دنیا کی خاطر انہوں نے ایسا کیا۔ دولت دنیا خواہ ڈھیروں ہو مگر آخرت اور دین کے مقابلے میں وہ بالکل حقیر اور بےحقیقت ہے اس حقارت کے پیش نظر اسے قلیل فرمایا۔154 یہ ماقبل کی تفصیل ہے۔ پہلے وعید کا صرف اجمالی ذکر تھا اب اس کے ساتھ اس کی علت کا بھی ذکر ہے۔ اور لفظ ویل کے تکرار سے وعید میں شدت اور مبالغہ پیدا ہوگیا ہے۔ الفائ لتفصیل ما اجمل مافیہ من التنصیس بالعلۃ ولا یخفی ما فی ھذا الاجمال والتفصیل من المبالغۃ فی الوعید والزجر والتھویل (روح ص 303 ج 1) یعنی ان کی اس وعید کا سبب ان کی تحریف وتبدیل اور وہ حرام کمائی ہے جو وہ تحریف کے ذریعے کماتے ہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اور انہی یہود میں کچھ ایسے امی اور ناخواندہ لوگ بھی ہیں جو توریت کے علم کی تو خبر نہیں رکھتے اور کتابی علم سے ناواقف ہیں مگر انہوں نے محض سنی سنائی اور بےسند باتوں پر آرزوئیں اور امیدیں باندھ رکھی ہیں اور وہ لوگ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ محض بےبنیاد خیالات اور اندازے لگایا کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں ک... ے لئے بڑی خرابی ہوگی جو اپنے ہاتھوں سے تحریف کر کے توریت لکھتے ہیں اور لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے پاس سے یہی حکم نازل ہوا ہے اور اس تحریف اور کذب بیان سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ کچھ قلیل اور تھوڑی سی رقم وصول کرلیں۔ لہٰذا جو تحریف شدہ کتاب ان کے ہاتھوں نے لکھی ہے اس کی وجہ سے ان کو بڑی خرابی پیش آنیوالی ہے اور جو رقم اور ثمن قلیل اس کے ذریعہ کماتے اور وصول کیا کرتے تھے اس کی وجہ سے بھی بڑی ہلاکت اور خرابی ان کو پیش آنے والی ہے۔ (تیسیر) امیون سے مراد یہود کے وام ہیں اور ہوسکتا ہے کہ عرب کے نصاریٰ یا مجوس ہوں۔ امی اصل میں اس کو کہتے ہیں جسے نہ تو لکھنا آتا ہو اور نہ وہ کسی لکھی ہوئی چیز کو صحیح طور پر پڑھ سکتا ہو اور یہ واقعہ ہے کہ ہر قوم میں کچھ پڑھے لکھے اور سمجھ دار آدمی ہوتے ہیں اور کچھ عوام اور جاہل و ناخواندہ ہوتے ہیں اور ان کی معلومات کا ذریعہ وہی پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں یہی انہی کی بات مانتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عالم اور غیر عالم مراد ہوں۔ بہرحال عوام کی حالت تو یہ تھی کہ وہ خود تو کتاب توریت کو نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے مگر چند جھوٹی اور بےسند باتوں پر بھروسہ کئے بیٹھے تھے۔ مثلاً ہم نبیوں کی اولاد ہیں اور جنت ہمارا حق ہے یا جنت میں سوائے یہود و نصاریٰ کے اور کوئی نہیں جائیگا یا اگر ہم لوگ دوزخ میں گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے جائیں گے اور چونکہ اس قسم کی باتیں محض سن سنا کر بڑوں کی تقلید میں کہا کترے تھے اس لئے پورا یقین بھی حاصل نہیں تھا اسی کو فرمایا وان ھم الایظنون کہ یہ ان پڑھ لوگ محض خیالات باندھا کرتے ہیں ان عوام اور ناخواندہ لوگوں کی حالت بیان کرنے کے بعد ان کے علماء کا حال بیان فرمایا کہ چھوٹے تو چھوٹے مگر بڑے سبحانہ اللہ ! ان کی حالت یہ تھی کہ وہ کتاب کی تحریف کر کے لکھتے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تحریف ان سے پہلے لوگوں نے کی ہو اور یہ اس تحریف شدہ کتاب کو لکھتے ہوں اور ان کو معلوم ہو کہ یہ کتاب محرف ہے بہرحال ایک طرف تحریف کرتے تھے اور دوسری طرف اس کو خدا کا کلام اور منزل من اللہ بتاتے تھے اور منشا صرف یہ ہوتا تھا کہ اس کارروائی سے کچھ پیسے حاصل کریں یعنی رشوت لیکر کتاب اللہ کی غلط تفسیر اور غلط معنی بتاتے تھے۔ جیسا آدمی دیکھا اس کو ویسا ہی مسئلہ بتادیا۔ ویل کی تفسیر میں ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جہنم کی ایک بہت عمیق اور گہری وادی ہے۔ دوسری آیت میں پھر دو جگہ لفظ ویل آیا ہے تو یا تو یہ پہلے لفظ ویل کی تاکید ہے اور یا اس وجہ سے کہ ان کے گناہ بھی متعدد تھے اس لئے بار بار ان کے لئے لفظ ویل استعمال کیا گیا تحریف لفظی اور معنوی کے مرتکب ہوتے تھے یعنی ایک غلط بات کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے اور پھر اس کے ذریعہ دنیاوی منافع اور رشوت بھی حاصل کرتے تھے جب کسی کے لئے خربای اور ہلاکت اور تباہی وغیرہ کا اظہار کرنا ہوتا ہے تو اہل عرب ویل، ویح، ویس، ویہ، ویک اور ویب وغیرہ الفاظ بولا کرتے ہیں اور ان سب لفظوں کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں غرض یہود کے عوام اور خواص کی جہالت اور دنیا طلبی کا انجام بیان کرنے کے بعد ان کے ایک اور دعویٰ کا رد فرماتے ہیں اور ان کے لغو اور بیہودہ دعویٰ کا رد فرما کر اپنے صحیح اصول اور ضابطہ کا اعلان کرتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کو ان کی خوشی کے موافق باتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور نسبت کرتے ہیں طرف خدا کے اور رسول کے (موضح القرآن) (تسہیل)  Show more