Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 11

سورة طه

فَلَمَّاۤ اَتٰىہَا نُوۡدِیَ یٰمُوۡسٰی ﴿ؕ۱۱﴾

And when he came to it, he was called, "O Moses,

جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی اے موسٰی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The First Revelation to Musa Allah, the Exalted, says, فَلَمَّا أَتَاهَا ... And when he came to it, This is referring to the fire when he approached it. ... نُودِي يَا مُوسَى He was called by name: "O Musa!" In another Ayah it says, نُودِىَ مِن شَاطِىءِ الْوَادِى الاَيْمَنِ فِى الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَن يمُوسَى إِنِّى أَنَا اللَّهُ He was called from the right side of the valley, in the blessed place, from the tree: "O Musa! Verily, I am Allah." (28:30) However, here Allah says,

اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک میدان کے دائیں جانب کے درختوں کی طرف سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں تیرا رب ہوں تو جوتیاں اتار دے ۔ یا تو اس لئے یہ حکم ہوا کہ آپ کی جوتیاں گدھے کے چمڑے کی تھیں یا اس لئے کہ تعظیم کرانی مقصود تھی ۔ جیسے کہ کعبہ جانے کے وقت لوگ جوتیاں اتار کر جاتے ہیں ۔ یا اس لئے کہ اس بابرکت جگہ پر پاؤں پڑیں اور بھی وجوہ بیان کئے گئے ہیں ۔ طوی اس وادی کا نام تھا ۔ یا یہ مطلب کہ اپنے قدم اس زمین سے ملا دو ۔ یا یہ مطلب کہ یہ زمین کئی کئی بار پاک کی گئی ہے اور اس میں برکتیں بھر دی گئی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں ۔ لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِذْ نَادٰىهُ رَبُّهٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى 16؀ۚ ) 79- النازعات:16 ) میں نے تجھے اپنا برگزیدہ کر لیا ہے ، دنیا میں سے تجھے منتخب کر لیا ہے ، اپنی رسالت اور اپنے کلام سے تجھے ممتاز فرما رہا ہوں ، اس وقت کے روئے زمین کے تمام لوگوں سے تیرا مرتبہ بڑھا رہا ہوں ۔ کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا جانتے بھی ہو کہ میں نے تجھے دوسرے تمام لوگوں میں سے مختار اور پسندیدہ کر کے شرف ہم کلامی کیوں بخشا ؟ آپ نے جواب دیا اے اللہ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں فرمایا گیا اس لئے کہ تیری طرح اور کوئی میری طرف نہیں جھکا ۔ اب تو میری وحی کو کان لگا کر دھیان دے کر سن ۔ میں ہی معبود ہوں کوئی اور نہیں ۔ یہی پہلا فریضہ ہے تو صرف میری ہی عبادت کئے چلے جانا کسی اور کی کسی قسم کی عبادت نہ کرنا ، میری یاد کے لئے نمازیں قائم کرنا ، میری یاد کا یہ بہترین اور افضل ترین طریقہ ہے یا یہ مطلب کہ جب میں یاد آؤں نماز پڑھو ۔ جیسے حدیث میں ہے کہ تم میں سے اگر کسی کو نیند آ جائے یا غفلت ہو جائے تو جب یاد آ جائے نماز پڑھ لے کیونکہ فرمان الٰہی ہے میری یاد کے وقت نماز قائم کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے جو شخص سوتے میں یا بھول میں نماز کا وقت گزار دے اس کا کفارہ یہی ہے کہ یاد آتے ہی نماز پڑھ لے اس کے سوا اور کفارہ نہیں ۔ قیامت یقیناً آنے والی ہے ممکن ہے میں اس کے وقت کے صحیح علم کو ظاہر نہ کروں ۔ ایک قرأت میں ( اخفیھا ) کے بعد ( من نفسی ) کے لفظ بھی ہیں کیونکہ اللہ کی ذات سے کوئی چیز مخفی نہیں ۔ یعنی اس کا علم بجز اپنے کسی کو نہیں دوں گا ۔ پس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوا جسے قیامت کے قائم ہونے کا مقرر وقت معلوم ہو ۔ یہ وہ چیز ہے کہ اگر ہو سکے تو خود میں اپنے سے بھی اسے چھپادوں لیکن رب سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ ملائیکہ سے پوشیدہ ہے انبیاء اس سے بےعلم ہیں ۔ جیسے فرمان ہے ( قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ ۭ وَمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ 65؀ ) 27- النمل:65 ) زمین آسمان والوں میں سے سوائے اللہ واحد کے کوئی اور غیب دان نہیں اور آیت میں ہے قیامت زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے وہ اچانک آ جائے گی یعنی اس کا علم کسی کو نہیں ۔ ایک قرأت میں اخفیھا ہے ۔ ورقہ فرماتے ہیں مجھے حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ نے اسی طرح پڑھایا ہے ۔ اس کے معنی ہیں اظہرھا اس دن ہر عامل اپنے عمل کا بدل دیا جائے گا خواہ ذرہ برابر نیکی ہو خواہ بدی ہو اپنے کرتوت کا بدلہ اس دن ضرور ملنا ہے ۔ پس کسی کو بھی بے ایمان لوگ بہکا نہ دیں ۔ قیامت کے منکر ، دنیا کے مفتوں ، مولا کے نافرمان ، خواہش کے غلام ، کسی اللہ کے بندے کے اس پاک عقیدے میں اسے تزلزل پیدا نہ کرنے پائیں اگر وہ اپنی چاہت میں کامیاب ہو گئے تو یہ غارت ہوا اور نقصان میں پڑا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 موسیٰ (علیہ السلام) جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورة قصص۔ 30 میں صراحت ہے) آواز آئی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَمَّا أَتَاهَا (So when he came to it - 20:11): means that he approached the fire which he had seen from a distance. Musnad by Ahmad, on the authority of Wahb Ibn Munabbih (رح) reports that when Sayyidna Musa (علیہ السلام) drew near the fire he saw a very strange scene. A fire was blazing on a green tree without scorching even a leaf or a branch. On the other hand the flame added manifold to the beauty and the freshness of the tree. He stood there quite a while watching this strange sight waiting for a chance to pick up a piece of burning wood. At last he collected some dry grass and tried to light it but as soon as he pushed the grass towards the fire, it retracted. It is also related that the fire advanced towards him and he drew back in consternation. Consequently he was unable to collect any fire. And as he stood, not knowing what to do, a mysterious voice called him. This happened in a plain called Tuwa which was to his right side and at the foot of this mountain.

فَلَمَّآ اَتٰىهَا، یعنی جو آگ دور سے دیکھی جب اس کے پاس پہنچے۔ مسند احمد وغیرہ میں وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کی طرف چلے اور اس کے قریب پہنچے تو ایک عجیب حیرت انگیز منظر دیکھا کہ ایک بڑی آگ ہے جو ایک ہرے بھرے درخت کے اوپر شعلے مار رہی ہے مگر حیرت یہ ہے کہ اس درخت کی کوئی شاخ یا پتہ جلتا نہیں بلکہ آگ نے درخت کے حسن اور تروتازگی اور رونق میں اور زیادتی کردی ہے۔ یہ حیرت انگیز منظر کچھ دیر تک اس انتظار میں دیکھتے رہے کہ شاید کوئی چنگاری آگ کی زمین پر گرے تو یہ اٹھالیں۔ جب دیر تک ایسا نہ ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے گھاس وغیرہ کے کچھ تنکے جمع کر کے اس آگ کے قریب کیا کہ ان میں آگ لگ جائے گی تو ان کا کام ہوجائے گا مگر جب گھانس پھونس آگ کے قریب کئے تو آگ پیچھے ہٹ گئی، اور بعض روایات میں ہے کہ آگ ان کی طرف بڑھی یہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے، بہرحال آگ حاصل کرنے کا مطلب پورا نہ ہوا۔ یہ عجیب و غریب آگ سے حیرت کے عالم میں تھے کہ ایک غیبی آواز آئی (روح) یہ واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑ کے دامن میں پیش آیا جو ان کی داہنی جانب تھا اور جس کا نام طویٰ تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّآ اَتٰىہَا نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى۝ ١١ۭ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٢) چناچہ جب وہاں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سبز رنگ کا درخت ہے اس میں سے سفید آگ چمک رہی ہے فوراً اللہ کی طرف سے آواز دی گئی کہ اے موسیٰ میں تمہارا رب ہوں اپنے جوتے اتار دو ، اس لیے کہ وہ مردہ ہوئے گدھے کی کھال کے بنے ہوئے تھے کیوں کہ تم ایک پاکیزہ میدان یعنی طوی میں یا یہ کہ طوی اس لیے کہا گیا کہ اس سے پہلے اور انبیاء کرام کا ادھر سے گزر ہوچکا تھا یا یہ کہ اس وادی میں جس میں یہ درخت تھا ایک کنواں تھا جس کے چاروں طرف پتھر لگا دیے گئے تھے اس بنا پر اس وادی کو طوی کہا گیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:11) نودی۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب نداء مصدر۔ اس کو پکارا گیا۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ (62:9) جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یہ آواز ایک درخت سے آرہی تھی۔ (دیکھیے قصص آیت 30)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلمآ اتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتردی (٢١ : ٦١) ’ اور میں نے تجھ و چن لیا ہے ‘ سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے۔ میں ہی اللہ ہوں ‘ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے ‘ پس تو میری بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے۔ میں اس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر متنفس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ پس کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہیں لاتا اور اپنی خواہش نفس کا بندہ بن گیا ہے تجھ کو اس گھڑی کی فکر سے نہ روک دے ‘ ورنہ تو ہلاکت میں پڑجائے گا “۔ انسان کا خون خشک ہوجاتا ہے اور جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ محض اس منظر کے تصور سے ‘ ایک غیر آباد پہاڑی پر موسیٰ اکیلے کھڑے ہیں۔ تاریک اور سیاہ رات ہے۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ‘ عجیب اور خوفناک خاموشی ہے ‘ طور کے دامن سے انہوں نے آگ دیکھی تھی ‘ وہ اس کی تلاش میں نکلے تھے ‘ لیکن ان کو ہر طرف سے پوری کائنات کی طرف سے یہ ندا آرہی ہے : انی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لما یوحی (٣١) (٠٢ : ٢١۔ ٣١) ” اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے ‘ تو وادی مقدس طوی میں ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے “۔ یہ چھوٹا سا ذرہ ناچیز ‘ یہ محدود بشر لامحدود رب ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہے ‘ جسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ عظمت و جلال جس کے مقابلے میں یہ نظر آنے والی کائنات زیمن و آسمان سب حقیر ہیں یہ ذرہ ضعیف ‘ انسانی قوائے مدر کہ کے ساتھ ‘ ایک لامحود ذلت کے ساتھ مربوط ہوگیا ‘ اس کی آواز سن رہا ہے ‘ کس طرح ؟ اللہ کی خاص رحمت ہے ‘ ورنہ کیسے ممکن ہے۔ محدود اور لامحدود کا اتصال ؟ پوری انسانیت اب موسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اٹھائی جارہی ہے ‘ سربلند کی جارہی ہے کہ ایک لمحے کے لئے وہ بشری شخصیت کو لئے ہوئے ہی لامحدود فیض و صول کررہی ہے۔ اس انسانیت کے لئے کیا یہ کوئی کم شرف ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کا اتصال اور رابطہ ‘ اس انداز میں ‘ رب ذوالجلال کے ساتھ ہوگیا ‘ لیکن ہم نہیں جانتے کہ کیونکر وہ گیا یہ ؟ کیونکہ انسانی قوائے مدر کہ اس حقیقت کا نہ ادراک کرسکتی ہیں اور نہ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے سکتی ہیں۔ انسان کی قوائے مدرکہ کا بس یہ کام ہے کہ وہ حیران رہ کر اپنے قصور کا اعتراف کریں ‘ ایمان لائیں اور شہادت دیں کہ یہ حق ہے۔ فلما۔۔۔۔۔۔۔ یموسی (١١) انی اناربک (٢١) (١٢ : ١١۔ ٢١) ” جب وہاں پہنچا تو پکارا گیا اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں “۔ پکارا گیا ‘ ماضی مجہول کا صیغہ استعمال ہوا۔ کیونکہ آواز کے مصدر اور جہت کا تعین ممکن نہیں ہے۔ نہ آواز کی صورت اور کیفیت کا تعین ممکن ہے۔ نہ اس بات کا تعین ممکن ہے کہ کس طرح سنا اور کس طرح سمجھے۔ پکارا گیا جس طرح پکارا گیا اور انہوں نے سمجھا جس طرح سمجھا۔ کیونکہ یہ اتصال ان امور میں سے ہے جن پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ ایسا ہوا مگر اس کی کیفیت کے بارے میں نہیں پوچھتے کیونکہ یہ کیفیت انسانی قوت مدر کہ اور انسانی دائرہ تصور سے وراء ہے۔ انی انا۔۔۔۔۔۔۔ طوی (٠٢ : ٢١) ” اے موسیٰ ‘ میں ہی تیرا رب ہوں ‘ جو تیاں اتار دے تو وادی مقدس طوی میں ہے “۔ تم بار گاہ رب العزت میں ہو ‘ اس لیے پائوں سے جوتے اتار دو تاکہ تم ننگے پائوں آئو ‘ ایک ایسی وادی میں جس پر پاکیزہ انوار کا نزول ہورہا ہے۔ اس لیے اس وادی کو اپنے جوتوں سے نہ روندو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 سو جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچا تو اس کو آواز دی گئی اور اس کو پکارا گیا اے موسیٰ یہ ندا حضرت حق تعالیٰ کی جانب سے آئی۔