Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 111

سورة طه

وَ عَنَتِ الۡوُجُوۡہُ لِلۡحَیِّ الۡقَیُّوۡمِ ؕ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ حَمَلَ ظُلۡمًا ﴿۱۱۱﴾

And [all] faces will be humbled before the Ever-Living, the Sustainer of existence. And he will have failed who carries injustice.

تمام چہرے اس زندہ اور قائم دائم اور مدبر اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہونگے یقیناً وہ برباد ہوا جس نے ظلم لاد لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ... And (all) faces shall be humbled before the Ever Living, the Sustainer. Ibn Abbas and others said, "This means that the creatures will be humbled, submissive and compliant to their Compeller, the Ever Living, Who does not die, the Sustainer of all, Who does not sleep." He is the maintainer of everything. He determines the affairs of everything and preserves everything. He is perfect in His Self. He is the One Whom everything is in need of and whom nothing could survive without. Concerning His statement, .... وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا And he who carried wrongdoing, will be indeed a complete failure. meaning on the Day of Resurrection. For verily, Allah will give every due right to the one who deserved it. Even the ram who lost its horn will be given revenge against the one who had horns. In the Sahih, it is recorded that the Prophet said, إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَة Beware of wrongdoing (or oppression), for verily, wrongdoing will be darknesses on the Day of Resurrection. And the true failure is for whoever meets Allah while associating partners with Him. Allah the Exalted says, إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ("Verily, associating partners with Me is the great wrongdoing"). Allah's statement, وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُوْمِنٌ فَلَ يَخَافُ ظُلْمًا وَلاَ هَضْمًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111۔ 1 اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا " لتؤدن الحقوق الی اھلھا " ' ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ' ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔ دوسری حدیث میں فرمایا (اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات، ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَعَنَتِ الْوُجُوْهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ : ” عَنَتِ “ ” عَنَا یَعْنُوْ عُنُوًّا “ (ن) سے واحد مؤنث غائب، ماضی معلوم ہے، اصل میں ” عَنَوَتْ “ تھا، ذلیل اور عاجز ہو کر جھک جانا۔ اس میں سے اسم فاعل ” عَانٍ “ یا ” اَلْعَانِیْ “ آتا ہے، جس کا معنی قیدی ہے، کیونکہ قیدی بیحد عاجز، بےبس اور ذلیل ہوتا ہے۔ یعنی اس دن صرف تمام آوازیں ہی رحمٰن کے لیے پست نہیں ہوں گی بلکہ تمام چہرے، حتیٰ کہ ان سرکش متکبر لوگوں کے چہرے بھی اس حی و قیوم کے سامنے ذلیل قیدیوں کی طرح جھکے ہوں گے جن کی پیشانی دنیا میں کبھی اللہ کے سامنے جھکی نہ تھی۔ کیونکہ وہ سب فانی و محتاج ہیں اور انھیں حی و قیوم کے سامنے جھکے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ ” لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ “ کی تفسیر آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) میں دیکھیے۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا : یہاں ” ظُلْمًا “ پر تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ ” بڑے ظلم کا بوجھ اٹھایا “ کیا ہے۔ بڑے ظلم سے مراد مشرک ہونا اور مسلمان نہ ہونا ہے۔ (طبری) اس کا ترجمہ ” کسی ظلم کا بوجھ اٹھایا “ درست نہیں، کیونکہ گناہ گار مومن و موحد سزا پا کر یا سزا کے بغیر اللہ کے اذن سے جنت میں چلے جائیں گے اور جنت میں پہنچ جانے والا ناکام نہیں۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انعام (٨٢) ، بقرہ (٢٥٤) اور یونس (١٠٦) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَيِّ الْقَيُّوْمِ۝ ٠ۭ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا۝ ١١١ عنت الْمُعَانَتَةُ کالمعاندة لکن المُعَانَتَةُ أبلغ، لأنها معاندة فيها خوف وهلاك، ولهذا يقال : عَنَتَ فلان : إذا وقع في أمر يخاف منه التّلف، يَعْنُتُ عَنَتاً. قال تعالی: لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء/ 25] ، وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران/ 118] ، عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة/ 128] ، وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1» أي : ذلّت وخضعت، ويقال : أَعْنَتَهُ غيرُهُ. وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة/ 220] ، ويقال للعظم المجبور إذا أصابه ألم فهاضه : قد أَعْنَتَهُ. ( ع ن ت ) المعانتۃ : یہ معاندۃ کے ہم معنی ہے معنیباہم عنا داوردشمنی سے کام لینا لیکن معانتۃ اس سے بلیغ تر ہے کیونکہ معانتۃ ایسے عناد کو کہتے ہیں جس میں خوف اور ہلاکت کا پہلو بھی ہو ۔ چناچہ عنت فلان ۔ ینعت عنتا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی شخص ایسے معاملہ میں پھنس جائے جس میں تلف ہوجانیکا اندیشہ ہو ۔ قرآن پاک میں ہے لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ [ النساء/ 25] اس شخص کو ہے جسے ہلاکت میں پڑنے کا اندیشہ ہو ۔ وَدُّوا ما عَنِتُّمْ [ آل عمران/ 118] اور چاہتے ہیں کہ ( جس طرح ہو ) تمہیں تکلیف پہنچے ۔ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ [ التوبة/ 128] تمہاری تکلیف ان کو گراں معلوم ہوتی ہے : اور آیت کریمہ : وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ «1»اور سب ( کے ) چہرے اس زندہ وقائم کے روبرو جھک جائیں گے ۔ میں عنت کے معنی ذلیل اور عاجز ہوجانے کے ہیں اور اعنتہ کے معنی تکلیف میں مبتلا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ [ البقرة/ 220] اور اگر خدا چاہتا تو تم کو تکلیف میں ڈال دیتا ۔ اور جس ہڈی کو جوڑا گیا ہو اگر اسے کوئی صدمہ پہنچے اور وہ دوبارہ ٹو ٹ جائے تو ایسے موقع پر بھی اعتتہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ خاب الخَيْبَة : فوت الطلب، قال : وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] ، وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] ، وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] . ( خ ی ب ) خاب ( ض ) کے معنی ناکام ہونے اور مقصد فوت ہوجانے کے ہیں : قرآن میں ہے : ۔ وَخابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ [إبراهيم/ 15] تو ہر سرکش ضدی نامراد ہوگیا ۔ وَقَدْ خابَ مَنِ افْتَرى [ طه/ 61] اور جس نے افتر ا کیا وہ نامراد رہا ۔ وَقَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها [ الشمس/ 10] اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١١) اس روز تمام چہرے اس اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے ہوں گے اور ایسا شخص تو ہر طرح ناکام رہے گا جو شرک لے کر آیا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١١ (وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ط) ” اور سب کے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے اس ہستی کے حضور جو الحی القیوم ہے۔ “ قرآن مجید کا یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے یہ دو نام الحیّ اور القیوم ایک ساتھ آئے ہیں۔ اس سے پہلے سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٥ (آیت الکرسی) اور سورة آل عمران ‘ آیت ٢ میں یہ دونوں نام اکٹھے آ چکے ہیں۔ الحی القیوم کے بارے میں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ” اسم اللہ الاعظم “ یعنی اللہ کا عظیم ترین نام (اسم اعظم) ہے جس کے حوالے سے جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ (وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا ) ” یعنی کسی طرح کے شرک کا مرتکب ہوا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:111) عنت۔ ماضی واحد مؤنث غائب (لیکن یہاں جمع کے لئے استعمال ہوا ہے) ۔ عنت یعنت عنت (باب سمع) سے عنت کے معنی گناہ۔ بدکاری۔ مشقت، فساد ۔ ہلاکت غلطی ۔ خطا۔ زنا۔ جور۔ اذیت ۔ کئے گئے ہیں۔ لیکن بدنی یا دینی ضرر کے لئے عام استعمال میں آیا ہے۔ جیسے وذوا ما عنتم (3:118) وہ پسند کرتے ہیں جو چیز تمہیں ضرر پہنچائے۔ اور آیت ذلک لمن خشی العنت منکم (4: 25) یہ اس کے لئے ہے جو تم میں سے بدکاری کا اندیشہ رکھتا ہو۔ یہاں بھی بدکاری دینی وبدنی ضرر کے مترادف ہے اور آیت عزیز علیہ ما عنتم (9:128) جو چیز تمہیں ضرر پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گذرتی ہے۔ آیت ہذا میں یہ باب نصر سے آیا ہے عنت یعنت عنو جس کے معنی جھکنا۔ ذلیل ہونا۔ عاجزی وفروتنی کرنا ہے وعنت الوجوہ اور چہرے عاجزی سے جھکے ہوئے ہوں گے۔ خاب۔ ماضی واحد مذکر غائب خیبۃ مصدر (ضرب) وہ نامراد ہوا۔ وہ ناکام رہا۔ ملاحظہ ہو (20:61) ۔ من حمل ظلما۔ جس نے اٹھار کھا ہو ظلم کا بوجھ۔ ” ظلم “ اپنے عام وسیع معنی میں بھی مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں عموما اس سے شرک مراد لیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ان الشرک لظلم عظیم (31:13) بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ ظلم کے اصل معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا۔ خواہ کمی یا زیادتی کر کے یا اسے اس کے صحیح وقت یا اصل جگہ سے ہٹا کر۔ اور اس سے زیادہ کیا ظلم ہوسکتا ہے کہ مخلوق کو خالق کا مقام دے کر شریک ٹھہرایا جائے۔ ظلما۔ یعنی زیادتی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی سب متکبرین و جاحدین کا تکبر و جحود ختم ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : محشر کے دن لوگوں کی جسمانی کیفیت۔ حشر کے دن ناصرف لوگوں کی آواز پست ہوگی بلکہ ہر کوئی ” رَبِّ نَفْسِیْ ، رَبِّ نَفْسِیْ “ کہتا ہوا رب ذوالجلال کے سامنے جھکا جا رہا ہوگا۔ لیکن اس وقت جھکنے اور معافی مانگنے کا ظالم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ لوگو ! تم قیامت کا انکار کرو یا اقرار۔ بہر صورت تمہیں اس رب کے حضور پیش ہونا ہے جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اس کی ذات، صفات اور اقتدار میں کبھی کمزوری واقع ہوئی اور نہ ہوگی۔ بالآخر تمہیں اسی ذات کے سامنے جھکنا اور پیش ہونا ہے۔ لیکن یاد رکھو جو شخص دنیا میں اس کی ذات اور حکم کے سامنے نہ جھکا اسے قیامت کے دن جھکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہر ظالم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ ہاں جس شخص نے حقیقی ایمان کے ساتھ صالح اعمال اختیار کیے اسے کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہیں ہوگا۔ گویا کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا اور نیک کو اس کی نیکی کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ یہاں ظلم سے پہلی مراد کفر اور شرک ہے جو کسی صورت بھی معاف نہیں ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے اس طرح بھی بیان فرمایا کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے پائے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ اور قائم و دائم ہے اور وہ ہمیشہ زندہ اور قائم دائم رہے گا۔ ٢۔ جس نے ظلم کیا وہ نامراد ہوگا۔ ٣۔ جس نے حقیقی ایمان کے ساتھ نیک اعمال کیے اسے کسی زیادتی یا حق تلفی کا اندیشہ نہیں ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وعنت الوجوہ للحی القیوم (٠٢ : ١١١) ” لوگوں کے سر اس حی و قویم کے آگے جھک جائیں گے۔ “ جلال خداوندی کا خوف لوگوں پر چھایا ہوا ہوگا۔ یہ میدان جو حد نظر سے آگے پھیلا ہوا ہوگا اس پر خوف ، خاموشی چھائی ہوئی ہوگی اور لوگ اس میں سہمے کھڑے ہوں ے۔ بات دھیمی ہوگی ، سوال سرگوشی میں ، حالت سہمی ہوئی ، چہرے جھکے ہوئے اور ال لہ ذوالجلال کا ڈرا ماحول پر چھایا ہوا ہوگا۔ کوئی اس میدان میں سفارش نہ کرسکے گا مگر وہ جس کی بات اللہ کو پسند ہو۔ علم سب کا سب اللہ کو ہوگا ، کوئی دوسرا جانتا نہیں ، ظالم اپنے ظلم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ان کو شرمساری سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ان لوگوں میں اہل ایمان بھی کھڑے ہوں گے۔ ان کو نہ یہ خوف ہوگا کہ ان پر حساب و کتاب میں ظلم ہوگا اور نہ یہ ڈر ہوگا کہ ان کے اعمال میں سے کوئی عمل رہ جائے اور اس کی حق تلفی ہوجائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ ) (اور تمام چہرے حی وقیوم کے لیے جھک جائیں گے) یعنی میدان قیامت میں سبھی عاجزی کی حالت میں ہوں گے دلوں میں اور نفسوں میں اور اعضاء میں سب میں جھکاؤ ہوگا جو متکبر تھے ان کا سب تکبر دنیا میں ہی دھرا رہ گیا اب تو الجبار المتکبر کی بار گاہ میں کھڑے ہیں وہاں جھکاؤ بھی ہے عاجزی بھی ہے (وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا) (اور جو شخص ظلم اٹھا کرلے گیا وہ نا کام ہوگیا) سب سے بڑا ظلم کفر اور شرک ہے اور بندوں پر جو مظالم کیے ان کی فہرست بھی وہاں موجود ہوگی، ظلم کرنے والے وہاں نا کام ہوں گے نامراد ہوں گے اور عذاب میں جائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 1 اور اس زندہ اور ہمیشہ رہنے والے کے آگ سب کے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے اور بلاشبہ وہ شخص نامراد اور ناکم ہوگا جو ظلم لے کر آیا ہوگا اور اس پر ظلم لدا ہوا ہوگا۔ یعنی جس پر شرک کا بار عظیم ہوگا اور شرک امداد ہوا ہوگا وہ بالکل ہی ناکام اور نامراد رہے گا چہرے جھکے ہوئے ہوں گے۔ یعنی بڑے بڑے متکبر و سرکش حضرت حق کی جناب میں سرنگوں ہوں گے اور کوئی جاحد و منکر ایسا نہ ہوگا جو حی قیوم کے روبرو سجدہ کناں نہ ہو۔