Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 112

سورة طه

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلۡمًا وَّ لَا ہَضۡمًا ﴿۱۱۲﴾

But he who does of righteous deeds while he is a believer - he will neither fear injustice nor deprivation.

اور جو نیک اعمال کرے اور ایمان والا بھی ہو تو نہ اسے بے انصافی کا کھٹکا ہوگا نہ حق تلفی کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And he who works deeds of righteousness, while he is a believer, then he will have no fear of injustice, nor of any curtailment. After Allah mentions the wrongdoers and their threat, He then commends the pious people and mentions the judgement they receive. Their judgement is that they will not be wronged nor oppressed. This means that their evils will not be increased and their good deeds will not be decreased. This was stated by Ibn Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Qatadah and others. Zulm means an increase that comes from the sins of others being placed upon the person, and Hadm means a decrease.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 بےانصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٠] یعنی اعمال کی جزا کے لئے دو شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایمان بالغیب کے تمام اجزاء پر ایمان لانا، دوسرے ایسے اعمال صالحہ جو شریعت کی پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر بجا لائے گئے ہوں۔ مثلا ً ان میں ریاکاری نہ ہو، سنت کے مطابق ہوں اور بعد میں احسان جتلا کر یا شرک کرکے ان اعمال کو برباد نہ کردیا گیا ہو۔ ایسے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا اور پورا پورا ملے گا، ان میں ہرگز کسی طرح کمی نہیں کی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ : ” مِنَ الصّٰلِحٰتِ “ میں ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ نیک اعمال “ کیا ہے۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے تمام اعمال صالحہ تو کر ہی نہیں سکتا، جیسا کہ فرمایا : (ۭكَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ ) [ عبس : ٢٣ ] ” ہرگز نہیں، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔ “ اس لیے وہ اتنے عمل ہی کا مکلف ہے جتنی اس میں طاقت ہے، فرمایا : (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ) [ البقرۃ : ٢٨٦ ] ” اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ “ اور فرمایا : (فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ) [ التغابن : ١٦ ] ” سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو۔ “ مفسرین نے اس سے مراد فرائض لیے ہیں۔ 3 عمل کی قبولیت کے لیے دو شرطیں بیان فرمائیں۔ عمل کا صالح ہونا یعنی کتاب و سنت کے مطابق ہونا اور عمل کرنے والے کا صاحب ایمان ہونا۔ نہ کافر کا کوئی عمل قبول ہے اور نہ وہ عمل جو کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو۔ دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت۔ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا هَضْمًا : بےانصافی یہ ہے کہ کسی کو ان گناہوں پر سزا دی جائے جو اس نے نہیں کیے اور حق تلفی یہ ہے کہ کی ہوئی نیکیوں پر پانی پھیر دیا جائے۔ اسی کو سورة جن (١٣) میں ” بَخْساً “ اور ” رَھَقًا “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن نے متعدد آیات میں جزا و سزا میں عدل و انصاف کا اعلان کیا ہے، مگر گناہ گار مومنوں کو معاف کردینا فضل ہے جو عدل کے منافی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَا يَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ہَضْمًا۝ ١١٢ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں هضم الْهَضْمُ : شدخ ما فيه رخاوة، يقال : هَضَمْتُهُ فَانْهَضَمَ ، وذلک کالقصبة الْمَهْضُومَةِ التي يزمّر بها، ومزمار مُهْضَمٌ. قال تعالی: وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] أي : داخل بعضه في بعض كأنما شدخ، والْهَاضُومُ : ما يَهْضِمُ الطّعام وبطن هَضُومٌ ، وکشح مِهْضَمٌ وامرأة هَضِيمَةٌ الکشحین، واستعیر الْهَضْمُ للظّلم . قال تعالی: فَلا يَخافُ ظُلْماً وَلا هَضْماً [ طه/ 112] . ( ھ ض م ) الھضم ( ض ) کے اصل معنی کسی نرم چیز کو کچلنا کے ہیں محاورہ ہے : ۔ ھضمتہ فانھضم میں نے است توڑ چناچہ وہ ٹوٹ گیا اور باریک سر کنڈا جسے بانسری کی طرح بجایا جاتا ہے اسے مھزو مۃ کہتے ہیں اور اسی سے نازک بانسری کو مزمار مھضم کہا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ونخل طلعھا حضیم اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہونے کی وجہ سے کچلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ الھا ضوم کھانا ہضم کرنے کا چورن بطن ھضوم پچکا ہوا پیٹ ۔ کشح مھضم پتلی کمر ۔ امرءۃ ھضیمۃ الکشحین پتلی کمر والی عورت اور استعمارہ کے طورپر ھضم بمعنی ظلم بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : فَلا يَخافُ ظُلْماً وَلا هَضْماً [ طه/ 112] تو ان کو نہ ظلم کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) اور جس نے نیک کام کیے ہوں گے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا سو اسے نہ تو پورے اعمال کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوگا اور نہ اپنے اعمال میں کسی قسم کی کمی کا کوئی خطرہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87. From this, it is clear that in the Hereafter the case of every individual will be decided on merits. If a man had been guilty of iniquity and injustice in regard to the rights of God or the rights of man or even his own rights, he shall be dealt with accordingly. On the other hand, those, who are both believers and workers of righteous deeds, shall have no fear that they would be deprived of their rights or punished even though they were innocent.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :87 یعنی وہاں فیصلہ ہر انسان کے اوصاف ( Merits ) کی بنیاد پر ہو گا ۔ جو شخص کسی ظلم کا بار گناہ اٹھائے ہوئے آئے گا ، خواہ اس نے ظلم اپنے خدا کے حقوق پر کیا ہو ، یا خلق خدا کے حقوق پر ، یا خود اپنے نفس پر ، بہرحال یہ چیز اسے کامیابی کا منہ نہ دیکھنے دے گی ۔ دوسری طرف جو لوگ ایمان اور عمل صالح ( محض عمل صالح نہیں بلکہ ایمان کے ساتھ عمل صالح ، اور محض ایمان بھی نہیں بلکہ عمل صالح کے ساتھ ایمان ) لیے ہوئے آئیں گے ، ان کے لیے وہاں نہ تو اس امر کا کوئی اندیشہ ہے کہ ان پر ظلم ہو گا ۔ یعنی خواہ مخواہ بے قصوران کو سزا دی جائے گی ، اور نہ اسی امر کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا جائے گا اور ان کے جائز حقوق مار کھائے جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:112) ھضما۔ مصدر باب ضرب۔ نقصان ۔ کم کرنا۔ توڑنا (یعنی شکست حق) نیکیوں کی کمی۔ ھضم کے اصل معنی ہیں کسی نرم چیز کو کچلنا۔ قرآن مجید میں ہے ونخل طلعھا ھضیم (26:178) اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہونے کی وجہ سے کچلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ھضم حقہ۔ کسی کے حق کو کم کرنا۔ ھضم لہ من حقہ اپنے حق میں سے کسی کو کچھ حصہ بخوشی دینا۔ ھضمت المعدۃ الطعام۔ معدے کا خوراک کو ہضم کرنا۔ الھاضم۔ ہضم کرنے والی دوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 بےانصافی یہ ہے کہ تاکہ وہ گناہوں پر سزا دی جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ کی ہوئی نیکیوں پر پانی پھیر دیا جائے اسی کو دوسری آیت الجن 13 میں بخس اور رھق سے تعبیر فرمایا ہے اور قرآن نے متعدد آیات میں جزا و سزا میں عدل و انصاف کا اعلان کیا ہے مگر گنہگار مومنوں کو معاف کردینا اس عدل کے منافی نہیں ہے ( )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا ھَضْمًا) (اور جس شخص نے مومن ہونے کی حالت میں اچھے عمل کیے سو اسے کسی طرح کے ظلم کا اور کسی طرح کی کمی کا اندیشہ نہ ہوگا) جیسے ظالم نا کام ہوں گے ایسے ہی اہل ایمان کامیاب اور بامراد ہوں گے، ان لوگوں نے جو بھی کوئی نیکی کی تھی اس سب کا پورا پورا بدلہ ملے گا نہ کوئی نیکی ماری جائے گی اور نہ ثواب میں کچھ کمی ہوگی۔ جہاں ایک نیکی کا ثواب کئی گنا دیا جائے گا وہاں اصل ثواب میں کمی ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔ سورة نساء میں فرمایا (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَ اِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْھَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ ذرہ بھر بھی ظلم نہ فرمائے گا اور اگر ایک نیکی ہوگی تو اس کو چند در چند کر دے گا۔ اور اپنے پاس سے بڑا ثواب عطا فرمائے گا) سورة جن میں فرمایا (فَمَنْ یُّؤْمِنْ بِرَبِّہٖ فَلاَ یَخَافُ بَخْسًا وَّلاَ رَھَقًا) (سو جو شخص اپنے رب پر ایمان لے آیا سو اسے کسی کمی کا اور کسی طرح کے ظلم کا اندیشہ نہ ہوگا) وھو مومن کی قید سامنے رہنی چاہئے۔ غیر مومن کو وہاں کسی نیکی کا کچھ بھی بدلہ نہ ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:۔ یہ نیکو کاروں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ ” وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰهُ الخ “ کاف بیان کمال کے لیے ہے اور یہ قرآن پر عمل کرنے کی ترغیب ہے۔ یعنی ایسا مدلل اور جامع قرآن نازل کرنا ہمارا کام ہے۔ لہذا تم اس عظیم الشان کتاب پر عمل کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 12 اور جو شخص نیک عمل کا پابند رہا ہوگا اور آنحالیکہ وہ مومن بھی ہو تو اس کو نہ کسی ناانصافی کا خوف ہوگا اور نہ کسی نقصان اور دبائو کا ۔ یعنی جو مسلمان نیک اعمال کا پابند ہوگا تو اس کو کامل ثواب ملے گا اور ثواب کے ملنے میں کسی بےانصافی اور دبائو کا اندیشہ نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اس پر زور نہ ہوگا اللہ کے ہاں انصاف ہے۔