Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
طَوَى |
يَطْوِي |
اِطْوِ |
طَوٍ |
مَطْوِيّ |
طَيّ |
طَوَیْتُ الشَّیئَ طَیًّا: کے معنی ہیں کسی چیز کو اس طرح لپیت لینا۔ جیساکہ کپڑے کو اس کی درز پر لپیٹ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی معنی میں فرمایا: (یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ) (۲۱:۱۰۴) جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے کاغذوں کا طومار لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسی سے طَوَیْتُ الْفَلَاۃَ (جنگل کو قطع کرنا) کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی مسافت کو قطع کیا گویا راستوں کو لپیٹ لیا طَوَی اﷲُ عُمُرَہٗ: اﷲ تعالیٰ نے اس کی عمر ختم کردی گویا اس کی مدتِ عمر کو کپیٹ دیا۔ شاعر نے کہا ہے(1) (الوافر) (۲۹۵) طَوَتْکَ خَطُوْبُ دَھْرِکَ بَعْدَ نَشْرٍ حوادثات زمانہ نے پھیلانے کے بعد تمہیں لپیٹ دیا (یعنی تمہاری عمر ختم کردی) اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ: (وَ السَّمٰوٰتُ مَطۡوِیّٰتٌۢ بِیَمِیۡنِہٖ) (۳۹:۶۷) اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ میں مَطْوِیَّاتٌ کا لفظ یا تو طَوَیْتُ الشَّیْئَ کے محاورہ سے ماخوذ ہوگا جس کے معنی لپیٹ دینا کے ہیں اور یاطَوؒی اﷲُ عُمُرَہ سے ماخوذ ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز آسمان کو فنا کردیا جائے گا اور آیت: (اِنَّکَ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًی ) (۲۰:۱۲) تم (یہاں) پاک میدان (یعنی) طوی میں ہو۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ طُوی اسی وادی المقدس کا نام ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پہنچ چکے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ طوی اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہیں اجتباء کے طور پر نوازا گیا تھا اگر وہ اس مرتبہ کو مساعی اور اجتہاد کی راہ سے حاصل کرسکتے تھے وادی نبوت تک پہنچنے کی تمام مسافتیں ان کے لیے لپیٹ دی گئیں پھر اگراسے اس وادی کا نام قرار دیا جائے تو اسے غیر منصرف بھی پڑھ سکتے ہیں اور منصرف بھی(2) اور اگر اسے طَوَیْتُ کا مصدر مانا جائے تو منصرف ہی پڑھا جائے گا اور ثَنًی وثِنیً کی طرح فاکلمہ (ط) پر دونوں حرکتیں جائز ہوں گی اور اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے موسیٰ کو دو مرتبہ پکارا۔
Surah:20Verse:12 |
طوی کی (مقدس وادی میں ہو)
(of) Tuwa
|
|
Surah:79Verse:16 |
طویٰ کی
(of) Tuwa
|