Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 1

سورة الأنبياء

اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾

[The time of] their account has approached for the people, while they are in heedlessness turning away.

لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hour is at hand but People are heedless Allah says: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ Draws near for mankind their reckoning, while they turn away in heedlessness. This is a warning from Allah of the approach of the Hour, and that people are heedless of it, i.e., they are not working for it or preparing for it. An-Nasa'i recorded that Abu Sa`id reported from the Prophet: ... فِي غَفْلَةٍ مَّعْرِضُونَ (while they turn away in heedlessness), he said, فِي الدُّنْيَا (in this world). Allah says: أَتَى أَمْرُ اللَّهِ فَلَ تَسْتَعْجِلُوهُ The Event ordained by Allah will come to pass, so seek not to hasten it. (16:1) اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ وَإِن يَرَوْاْ ءَايَةً يُعْرِضُواْ The Hour has drawn near, and the moon has been cleft asunder. And if they see a sign, they turn away. (54:1-2) Then Allah states that they do not listen to the revelation (Wahy) that He sends down to His Messenger, which is addressed to the Quraysh and all disbelievers like them.

قیامت سے غافل انسان اللہ تعالیٰ عزوجل لوگوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے پھر بھی لوگوں کی غفلت میں کمی نہیں آئی نہ وہ اس کے لئے کوئی تیاری کررہے ہیں جو انہیں کام آئے ۔ بلکہ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں اور ایسے مشغول اور منہمک ہو رہے ہیں کہ قیامت سے بالکل غافل ہوگئے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ ) امر ربی آگیا اب کیوں جلدی مچا رہے ہو؟ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا الخ ۔ ابو نواس شاعر کا ایک شعر ٹھیک اسی معنی کا یہ ہے ۔ شعر ( الناس فی غفلاتہم ورحی المنیتہ تطحن ) موت کی چکی زور زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک صاحب مہمان بن کر آئے ۔ انہوں نے بڑے اکرام اور احترام سے انہیں اپنے ہاں اتارا اور ان کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی سفارش کی ۔ ایک دن یہ بزرگ مہمان ان کے پاس آئے اور کہنے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فلاں وادی عطا فرما دی ہے میں میں چاہتا ہوں کہ اس بہترین زمین کا ایک ٹکڑا میں آپ کے نام کردوں کہ آپ کو بھی فارغ البالی رہے اور آپ کے بعد آپ کے بال بچے بھی آسودگی سے گزر کریں ۔ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ بھائی مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے کہ ہمیں تو دنیا کڑوی معلوم ہونے لگی ہے ۔ پھر آپ نے یہی اقترب للناس کی تلاوت فرمائی ۔ اس کے بعد کفار قریش اور انہی جیسے اور کافروں کی بابت فرماتا ہے کہ یہ لوگ کلام اللہ اور وحی الٰہی کی طرف کان ہی نہیں لگاتے ۔ یہ تازہ اور نیا آیا ہوا ذکر دل لگا کر سنتے ہی نہیں ۔ اس کان سنتے ہیں اس کان اڑا دیتے ہیں ۔ دل ہنسی کھیل میں مشغول ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تمہیں اہل کتاب کی کتابوں کی باتوں کے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے ؟ انہوں نے تو کتاب اللہ میں بہت کچھ ردوبدل کرلیا تحریف اور تبدیلی کرلی ، کمی زیادتی کرلی اور تمہارے پاس تو اللہ کی اتاری ہوئی خالص کتاب موجود ہے جس میں ملاوٹ نہیں ہونے پائی ۔ یہ لوگ کتاب اللہ سے بےپرواہی کررہے ہیں اپنے دلوں کو اس کے اثر سے خالی رکھنا چاہتے ہیں ۔ بلکہ یہ ظالم اوروں کو بھی بہکاتے ہیں کہتے ہیں کہ اپنے جیسے ایک انسان کی ماتحتی تو ہم نہیں کر سکتے ۔ تم کیسے لوگ ہو کہ دیکھتے بھالتے جادو کو مان رہے ہو ؟ یہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے آدمی کو اللہ تعالیٰ رسالت اور وحی کے ساتھ مختص کردے ، پھر تعجب ہے کہ لوگ باجود علم کے اس کے جادو میں آجاتے ہیں؟ ان بد کرداروں کے جواب میں جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ یہ جو بہتان باندھتے ہیں ان سے کہئے کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تمام باتیں جانتا ہے جس پر کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ اس نے اس پاک کلام قرآن کریم کو نازل فرمایا اس میں اگلی پچھلی تمام خبروں کا موجود ہونا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ اس کا اتارنے والا عالم الغیب ہے ۔ وہ تمہاری سب باتوں کا سننے والا اور تمہارے تمام حالات کا علم رکھنے والا ہے ۔ پس تمہیں اس کا ڈر رکھنا چاہیے ۔ پھر کفار کی ضد ، ناسمجھی اور کٹ حجتی بیان فرما رہا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خود حیران ہیں کسی بات پر جم نہیں سکتے ۔ کبھی کلام اللہ کو جادو کہتے ہیں تو کبھی شاعری کہتے ہیں کبھی پراگندہ اور بےمعنی باتیں کہتے ہیں اور کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازخود گھڑلیا ہوا بتاتے ہیں ۔ خیال کرو کہ اپنے کسی قول پر بھروسہ نہ رکھنے والا جو زبان پر چڑھے بک دینے و الا بھی مستقل مزاج کہلانے کامستحق ہے ؟ کبھی کہتے تھے اچھا اگر یہ سچا نبی ہے تو حضرت صالح علیہ السلام کی طرح کوئی اونٹنی لے آتا یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح کا کوئی معجزہ دکھاتا یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی معجزہ ظاہر کرتا ۔ بیشک اللہ ان چیزوں پر قادر تو ضرور ہے لیکن اگر ظاہر ہوئیں اور پھر بھی یہ اپنے کفر سے نہ ہٹے تو عادت الٰہی کی طرح عذاب الٰہی میں پکڑ لئے جائیں گے اور پیس دئیے جائیں گے ۔ عموما اگلے لوگوں نے یہی کہا اور ایمان نصیب نہ ہوا اور غارت کرلئے گئے ۔ اسی طرح یہ بھی ایسے معجزے طلب کررہے ہیں اگر ظاہر ہوئے تو ایمان نہ لائیں گے اور تباہ ہوجائینگے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ ) 10- یونس:96 ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ گو تمام تر معجزے دیکھ لیں ، ایمان قبول نہ کریں گے ۔ ہاں عذاب الیم کے معائنہ کے بعد تو فورا تسلیم کرلیں گے لیکن وہ محض بےسود ہے بات بھی یہی ہے کہ انہیں ایمان لانا ہی نہ تھ اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بیشمار معجزات روز مرہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھے ۔ بلکہ آپ کے یہ معجزے دیگر انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ ظاہر اور کھلے ہوئے تھے ۔ ابن ابی حاتم کی ایک بہت ہی غریب روایت میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مجمع مسجد میں تھا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلاوت قرآن کررہے تھے اتنے میں عبداللہ بن سلول منافق آیا اپنی گدی بچھا کر اپنا تکیہ لگا کر وجاہت سے بیٹھ گیا ۔ تھا بھی گورا چٹا بڑھ بڑھ کر فصاحت کے ساتھ باتیں بنانے والا کہنے لگا ابو بکر تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ آپ کوئی نشان ہمیں دکھائیں جیسے کہ آپ سے پہلے کے انبیاء نشانات لائے تھے مثلا موسیٰ علیہ السلام تختیاں لائے ، داؤد علیہ السلام اونٹنی لائے ، عیسیٰ علیہ السلام انجیل لائے اور آسمانی دسترخوان ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر رونے لگے ۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو آپ نے دوسرے صحابہ سے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاؤ ۔ اور اس منافق کی فریاد دربار رسالت میں پہنچاؤ ۔ آپ نے ارشاد فرمایا سنو میرے لئے کھڑے نہ ہوا کرو ۔ صرف اللہ ہی کے لئے کھڑے ہوا کرو ۔ صحابہ نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس منافق سے بڑی ایذاء پہنچی ہے ۔ آپ نے فرمایا ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے تھے اور مجھ سے فرمایا کہ باہر جاؤ اور لوگوں کے سامنے اپنے فضائل ظاہر کرو اور ان نعمتوں کا بیان کرو جو اللہ نے آپ کو عطاء فرمائی ہیں میں ساری دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھے حکم ہوا ہے کہ میں جنات کو بھی پیغام الٰہی پہنچادوں ۔ مجھے میرے رب نے اپنی پاک کتاب عنایت فرمائی ہے حالانکہ محض بےپڑھا ہوں ۔ میرے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرمادئیے ہیں ۔ میرا نام اذان میں رکھا ہے میری مدد فرشتوں سے کرائی ہے ۔ مجھے اپنی امدادونصرت عطاء فرمائی ہے ۔ رعب میرا میرے آگے آگے کردیا ہے ۔ مجھے حوض کوثر عطا فرمایا ہے جو قیامت کے دن تمام اور حوضوں سے بڑا ہوگا ۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود کا وعدہ دیا ہے اس وقت جب کہ سب لوگ حیران وپریشان سرجھکائے ہوئے ہوں گے مجھے اللہ نے اس پہلے گروہ میں چنا ہے جو لوگوں سے نکلے گا ۔ میری شفاعت سے میری امت کے ستر ہزار شخص بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائیں گے ۔ مجھے غلبہ اور سلطنت عطا فرمائی ہے مجھے جنت نعیم کا وہ بلند وبالا اعلیٰ بالاخانہ ملے گا کہ اس سے اعلیٰ منزل کسی کی نہ ہوگی ۔ میرے اوپر صرف وہ فرشتے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ میرے اور میری امت کے لئے غنیمتوں کے مال حلال کئے گئے حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہ تھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔ 1۔ 2 یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بیخبر ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی قیامت کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی آخرالزمان کی بعثت ہی اس بات کی علامت ہے کہ زمین میں بنی آدم کی آبادی کا آخری دور ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی شہادت کی اور وسطی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : && میں اور قیامت ایسے ہی جیسے یہ دو انگلیاں && (بخاری : کتاب الرقاق، باب بعثت انا والساعہ کھاتین۔۔ ) اس حدیث کے بھی دو مطلب ہیں : ایک یہ کہ جتنی لمبائی شہادت کی انگلی کی ہے۔ یہ حضرت آدم سے لے کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کا زمانہ ہے اور جتنی وسطی انگلی شہادت کی انگلی سے بڑی ہے یہ مجھ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ اس لحاظ سے تقریباً پانچ حصے عرصہ گزر چکا ہے اور ایک حصہ باقی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ان دو انگلیوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں۔ اسی طرح میرے بعد تاقیامت کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ یہ بات بھی قریب قیامت کی علامت ہوئی۔ نیز اس جملہ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور موت کے ساتھ ہی ان کا حساب اور جزاء و سزا کام سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگرچہ یہ حساب اور جزاء و سزا کا سلسلہ قیامت کی نسبت بہت ہلکے پیمانہ پر ہوگا اور اس مطلب پر دلیل آپ کا یہ ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص مرگیا، اس کی قیامت قائم ہوگئی۔ (مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن۔ باب فی قرب الساعۃ)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ : ” اِقْتَرَبَ “ ” قَرِبَ یَقْرَبُ “ (ع، ک) میں سے باب افتعال کا ماضی معلوم ہے۔ حروف میں اضافے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” بہت قریب آگیا۔ “ ” غَفْلَةٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” بھاری غفلت “ کیا گیا ہے۔ ” اَلنَّاسُ “ کا لفظ عام ہے، یعنی سب لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا، اس کے باوجود انھیں اس کی کچھ فکر نہیں، بلکہ وہ بھاری غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی دنیا کی دلچسپیوں میں محو ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” فِيْ غَفْلَةٍ “ کی تفسیر ” غَفْلَۃُ أَھْلِ الدُّنْیَا “ (دنیا والوں کی غفلت) فرمائی ہے۔ [ بخاري : ٤٧٣٠ ] دیکھیے سورة مریم (٣٩) ۔ حِسَابُهُمْ : حساب کے لفظ میں دنیا و آخرت دونوں کا محاسبہ شامل ہے۔ دنیا میں محاسبہ جیسا کہ کفار قریش کو بدر اور فتح مکہ کی صورت میں پیش آیا اور ہر انسان کو سال میں ایک دو دفعہ پیش آتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٦ ] ” اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ “ دنیا کے محاسبے کے فوراً بعد موت کی صورت میں محاسبہ پیش آئے گا، فرشتے کفار کی جانیں نکالتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے : (اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ ) [ الأنعام : ٩٣ ] ” نکالو اپنی جانیں، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اللہ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔ “ موت کے بعد قبر کے سوال و جواب کی صورت میں محاسبہ اور آخر میں قیامت کے دن حساب ہوگا۔ حساب کے لفظ میں یہ تمام محاسبے شامل ہیں مگر یوم حساب کے طور پر قیامت کا دن مشہور ہے، اس لیے اکثر مفسرین نے یہاں صرف اسی کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کے یہ تمام مرحلے بالکل قریب ہیں۔ حساب کی کچھ صورتیں تو زندگی ہی میں ہر روز پیش آتی رہتی ہیں، پھر موت کے قرب میں کسی کو شک نہیں، رہی قیامت تو اگرچہ وہ لوگوں کو دور دکھائی دیتی ہے مگر ہر آنے والی چیز قریب ہے، خواہ کتنے انتظار کے بعد آئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اِنَّهُمْ يَرَوْنَهٗ بَعِيْدًا ۝ ۙوَّنَرٰىهُ قَرِيْبًا ) [ المعارج : ٦، ٧ ] ” بیشک وہ اسے دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ “ نیز دیکھیے سورة نحل (١) ، حج (٤٧) اور قمر (١) اس لحاظ سے بھی یوم حساب بہت قریب آگیا ہے کہ دنیا کی مدت کا اکثر حصہ گزر چکا۔ اب آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا، بلکہ قیامت ہی آئے گی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ یَعْنِيْ إِصْبَعَیْنِ )” میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) بھیجے گئے ہیں۔ “ [ بخاري، الرقاق، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : بعثت أنا والساعۃ کھاتین : ٦٥٠٥، عن أنس (رض) ] مُّعْرِضُوْن : یعنی لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنا حساب نہایت قریب آنے کے باوجود ایسی بھاری غفلت میں پڑے ہیں کہ ہر نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ” اَلنَّاسُ “ کے لفظ سے تمام لوگوں کو حساب کے بہت قریب آنے سے ڈرایا مگر آئندہ آیات میں کفار و مشرکین کی غفلت اور اعراض کو زیادہ اجاگر فرمایا ہے۔ اس آدمی کی غفلت و اعراض میں کیا شک ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی خبردار نہیں ہوتا کہ مجھے یقیناً مرنا ہے، صرف اس لیے کہ موت یا قیامت کا دن اسے متعین کرکے نہیں بتایا گیا۔ اس کی مثال اس نکمّے طالب علم کی سی ہے جسے معلوم ہے کہ امتحان یقیناً ہونا ہے مگر وہ اس لیے بےپروا ہے کہ ابھی امتحان کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے یہاں ابوالعتاہیہ کا ایک شعر نقل فرمایا ہے ؂ اَلنَّاسُ فِيْ غَفَلاَتِھِمْ وَ رَحَی الْمَنِیَّۃِ تَطْحَنُ ” لوگ اپنی غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں، جب کہ موت کی چکی پیستی چلی جا رہی ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Importance of Surah Al-Anbiya& Sayyidna Abdullah Ibn Mas’ ud (رض) has said that four Surah viz Al-Kahf, Maryam, Taha and Al-Anbiya& are among the earlier revelations which I value a lot and keep them close to my heart. (Qurtubi) اقْتَرَ‌بَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ (The reckoning of the people has drawn near - 21:1) It means that the time is near when people will have to give an account of their deeds. Here, the reference is to the Day of Judgment, and its approach is in relation to bygone ages, as the ummah of Sayyidna Muhammad Al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the last of them all. And if the meaning of the word حِسَاب reckoning) is taken in its general sense then reckoning in the grave is also included, which each individual faces immediately after death. It is for this reason that an individual&s death is regarded as his Day of Reckoning. مَن مَات فقد قامت قیامتہ for a person who has died his Day of Reckoning has arrived) so the latter explanation makes the verse very clear in that the individual reckoning for everyone is not very far, no matter how long one lives, because death is certain and no one knows when it will befall. The underlying message of this verse is to warn those people, whether believers or non-believers, who are in a state of slumber due to indulgence in worldly affairs, unmindful of the certainty that all this will come to an end one day. In fact it is this disregard of the Day of Judgment which is the root cause of all ills.

خلاصہ تفسیر ان (منکر) لوگوں سے ان کا (وقت) حساب نزدیک آپہنچا (یعنی قیامت وقتاً فوقتاً نزدیک ہوتی جاتی ہے) اور یہ (ابھی) غفلت (ہی) میں (پڑے) ہیں (اور اس کے یقین کرنے اور اس کے لئے تیاری کرنے سے) اعراض کئے ہوئے ہیں (اور ان کی غفلت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت تازہ (حسب حال ان کے) آتی ہے (بجائے اس کے ان کو تنبہ ہوتا) یہ اس کو ایسے طور سے سنتے ہیں کہ (اس کے ساتھ) ہنسی کرتے ہیں (اور) ان کے دل (اصلاً ادھر) متوجہ نہیں ہوتے اور یہ لوگ یعنی ظالم (اور کافر) لوگ (آپس میں) چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں (اس لئے نہیں کہ ان کو اہل اسلام کا خوف تھا کیونکہ مکہ میں کفار ضعیف نہ تھے بلکہ اس لئے کہ اسلام کے خلاف خفیہ سازش کر کے اس کو مٹائیں) کہ یہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض تم جیسے ایک (معمولی) آدمی ہیں (یعنی نبی نہیں اور یہ جو ایک دلکش و دلربا کلام سناتے ہیں اس پر اعجاز کا شبہ اور اس اعجاز سے نبوت کا خیال نہ کرنا کیونکہ وہ حقیقت میں سحر آمیز کلام ہے) تو کیا (باوجود اس بات کے) پھر بھی تم جادو کی بات سننے کو (ان کے پاس) جاؤ گے حالانکہ تم (اس بات کو خوب) جانتے (بوجھتے) ہو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کا حکم ہوا اور انہوں) نے (موافق حکم کے جواب میں) فرمایا کہ میرا رب ہر بات کو (خواہ) آسمان میں ہو اور (خواہ) زمین میں ہو اور خواہ ظاہر ہو یا خفی ہو خوب) جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے (سو تمہارے ان اقوال کفریہ کو بھی جانتا ہے اور تم کو خوب سزا دے گا اور انہوں نے کلام حق کو صرف جادو کہنے پر اکتفا نہیں کیا) بلکہ یوں (بھی) کہا کہ یہ (قرآن) پریشان خیالات ہیں (کہ واقع میں دلکش بھی نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر نے) اس کو (قصداً و اختیاراً اپنے دل سے) تراش لیا ہے (اور خواب کے خیالات میں تو انسان قدرے بےاختیار اور معذور اور مبتلائے اشتباہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ افتراء کچھ قرآن ہی کے ساتھ خاص نہیں) بلکہ یہ تو ایک شاعر شخص ہیں (ان کی تمام باتیں ایسی ہی تراشیدہ اور خیالی ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ رسول نہیں ہیں اور بڑے مدعی رسالت کے ہیں) تو ان کو چاہئے کہ ایسی کوئی (بڑی) نشانی لاویں جیسا پہلے لوگ رسول بنائے گئے (اور بڑے بڑے معجزات ظاہر کئے اس وقت ہم رسول مانیں اور ایمان لائیں اور یہ کہنا بھی ایک بہانہ تھا ورنہ انبیاء سابقین کو بھی نہ مانتے تھے حق تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ) ان سے پہلے کوئی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ہے (باوجود ان کے فرمائشی معجزات ظاہر ہوجانے کے) ایمان نہیں لائے سو کیا یہ لوگ (ان معجزات کے ظاہر ہونے پر) ایمان لے آویں گے ( اور ایسی حالت میں ایمان نہ لانے پر عذاب نازل ہوجاوے گا اس لئے ہم وہ معجزات ظاہر نہیں فرماتے اور قرآن معجزہ کافی ہے) اور (رسالت کے متعلق جو ان کا یہ شبہ ہے کہ رسول بشر نہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے آپ سے قبل صرف آدمیوں ہی کو پیغمبر بنایا ہے جن کے پاس ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو ( اے منکرو) اگر تم کو (یہ بات) معلوم نہ ہو تو اہل کتاب سے دریافت کرلو (کیونکہ یہ لوگ اگرچہ کافر ہیں مگر خبر متواتر میں راوی کا مسلمان یا ثقہ ہونا شرط نہیں، پھر تم ان کو اپنا دوست سمجھتے ہو تو تمہارے نزدیک ان کی بات معتبر ہونی چاہئے) اور (اسی طرح رسالت کے متعلق جو اس شبہ کی دوسری تقریر ہے کہ رسول فرشتہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے ان رسولوں کے (جو کہ گذر چکے ہیں) ایسے بدن نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہیں (یعنی فرشتہ نہ بنایا تھا) اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کے انتظار میں خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ کذا فی المعالم، یہ وفات بھی منافی نبوت نہیں کیونکہ) وہ (گزشتہ حضرات (بھی دنیا میں) ہمیشہ رہنے والے نہیں ہوئے (پس اگر آپ کی بھی وفات ہوجاوے تو نبوت میں کیا اعتراض لازم آیا، غرض یہ کہ جیسے پہلے رسول تھے ویسے ہی آپ بھی ہیں اور یہ لوگ جس طرح آپ کی تکذیب کرتے ہیں اسی طرح ان حضرات کی بھی اس زمانے کے کفار نے تکذیب کی) پھر ہم نے جو ان سے وعدہ کیا تھا ( کہ مکذبین کو عذاب سے ہلاک کریں گے اور تم کو اور مؤمنین کو محفوظ رکھیں گے ہم نے) اس (وعدہ) کو سچا کیا ان کو اور جن جن کو (نجات دینا) منظور ہوا ( اس عذاب سے) ہم نے نجات دی اور (اس عذاب سے) حد (اطاعت) سے گزرنے والوں کو ہلاک کیا ( سو ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے اے منکرو اس تکذیب کے بعد تم پر دنیا و آخرت میں عذاب آوے تو تعجب نہیں کیونکہ) ہم تمہارے پاس ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اس میں تمہاری نصیحت (کافی) موجود ہے کیا (باوجود ایسی تبلیغ موعظت کے) پھر بھی تم نہیں سمجھتے (اور نہیں مانتے) ۔ معارف و مسائل سورة انبیاء کی فضیلت : حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ سورة کہف اور مریم اور طہ اور انبیاء یہ چاروں سورتیں نزول کے اعتبار سے ابتدائی سورتیں اور میری یہ قدیم دولت اور کمائی ہیں جن کی ہمیشہ حفاظت کرتا ہوں (قرطبی) اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ ، یعنی وہ وقت قریب آگیا جبکہ لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جاوے گا مراد اس سے قیامت ہے اور اس کا قریب آجانا دنیا کی پچھلی عمر کے لحاظ سے ہے کیونکہ یہ امت آخر الامم ہے اور اگر حساب عام مراد لیا جائے تو حساب قبر بھی اس میں شامل ہے جو ہر انسان کو مرنے کے فوراً بعد دینا ہوتا ہے اور اسی لئے ہر انسان کی موت کو اس کی شخصی قیامت کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامتہ، یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی اس معنے کے اعتبار سے حساب کا وقت قریب ہونا تو بالکل ہی واضح ہے کہ ہر شخص کی موت خواہ کتنی ہی عمر ہو کچھ دور نہیں خصوصاً جبکہ عمر کی انتہا نامعلوم ہے تو ہر دن ہر گھنٹہ موت کا خطرہ سامنے ہے۔ مقصود اس آیت سے غفلت شعار لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جس میں سب مومن و کافر داخل ہیں کہ دنیا کی خواہشات میں مشغول ہو کر اس حساب کے دن کو نہ بھلائیں کیونکہ اس کو بھلا دینا ہی ساری خرابیوں اور گناہوں کی بنیاد ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ۝ ١ۚ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١) کتاب اللہ میں جس عذاب کا ان مکہ والوں سے وعدہ کیا ہے، ان کے اس عذاب کا وقت قریب ہے اور یہ ابھی اس سے غافل ہیں اور اس کو جھٹلا رہے ہیں اور انہوں نے اس کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. “Draws near for mankind their reckoning”: the time of Resurrection. This is to warn the people that the time of Resurrection when they will have to appear before their Lord to render their accounts is not far. This was because the coming of the Prophet (peace be upon him) was a sign and a clear evidence of the fact that mankind had entered into the last stage of its history. The Prophet (peace be upon him) has himself explained it by holding out two of his adjoining fingers and said: I have been sent at a time which joins to the time of Resurrection just as these two fingers adjoin. By this he meant to say: No other Prophet is coming between me and the Resurrection. Therefore mend your ways now, for after me no guide is coming with good news and warning. 2. That is, they do not pay heed to any warning nor reflect on their end nor listen to the admonition of the Messenger.

سورة الْاَنبیَآء حاشیہ نمبر :1 مراد ہے قرب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے ۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے ۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے ۔ آپ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا : بُعِثتُ انا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتینِ ، میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں ۔ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے ۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے ۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جاؤ ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :2 یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا ہے اور نہ اس پیغمبر کی بات سنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ١٠:۔ مشرکین مکہ نے دین ابراہیمی کو بگاڑ کر بت پرستی اور طرح طرح کی خرابیاں اس میں پیدا کرلی تھیں جب قرآن شریف میں بت پرستی اور اس کی خرابیوں کی مذمت روز بروز اترنے لگی تو وہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت طرح طرح کی باتیں اور مشورے کرتے تھے۔ کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتا تھا ‘ کوئی شاعر کہتا تھا ‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ جس طرح شاعر لوگ عقل کے برخلاف خیالی باتیں اپنے شعروں میں باندھتے ہیں۔ ویسی ہی خیالی باتیں قرآن شریف میں ہیں کوئی کہتا تھا کہ رات کو انہیں فرشتہ ہونا چاہئے۔ کوئی کہتا تھا اگر یہ رسول ہیں تو پہلے رسولوں کی طرح کوئی ایسا معجزہ کیوں نہیں لاتے جس سے ہم سب قائل ہوجائیں ‘ قریش کی باتوں کا جواب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنا ہی دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ تمہاری بےادب کی باتوں اور خفیہ مشوروں کو خوب سنتا اور جانتا ہے ‘ ایک دن اس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑے گا لیکن قریش کے شبہات جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی نسبت تھے ‘ ان کا جواب ادا ہوجانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ نبی آخر الزمان یہی ہیں دنیا کی مدت ان نبی آخرالزمان کے بعد بہت تھوڑی رہ گئی ہے ‘ حساب و کتاب قریب آن لگا ہے۔ قریش کو غفلت چھوڑ دینی چاہیے اور ان کے آس پاس جو اہل کتاب رہتے ہیں ان سے ان کو پوچھا لینا چاہیے کہ ہمیشہ سے رسول انسان ہی آتے رہے ہیں ‘ فرشتے نہیں آئے ‘ اور جو قریش کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ایسا پچھلے انبیاء کا سا ظاہر ہوجانا چاہیے۔ جس سے ہم سب قائل ہوجائیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ تجارت کی غرض سے شام کے ملک کو جب یہ لوگ جاتے ہیں تو قوم ثمود کی اور قوم لوط کی بہت سی بستیاں ان کو اجڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پھر ان کو یہ کیونکر معلوم ہوا کہ پہلے رسولوں کے معجزے سے پہلی امتیں قائل ہوگئیں ‘ اور ایمان لے آئیں ‘ یہ نہیں جانتے کہ اگر ایسا ہوتا تو یہ انجام ان پچھلی قوموں کا کیوں ہوتا جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ طرح طرح کے عذابوں سے وہ قومیں اجڑ گئیں ‘ پھر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پہلے رسولوں سے وعدہ سچا کیا ‘ وہی اب ہونے والا ہے کہ باوجود فہمائش کے یہ لوگ راہ پر نہ آویں گے تو اجڑ جاویں گے۔ چناچہ بدر کی لڑائی میں اس وعدہ کا ظہور ہوا ‘ جس کا خلاصہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ کے رسول اور قرآن شریف کی شان میں بےادبی کے الفاظ منہ سے نکالنے والے بڑے بڑے سرکش مشرکین مکہ میں کے بڑی ذلت سے اس لڑائی میں مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پا لیا ١ ؎۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان اور انسان کی سب ضروریات کی چیزوں کو اس طرح پیدا کیا کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ‘ پھر بلاسبب جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں اور قرآن شریف کی نئی نئی آیتوں کی نصیحت سے جب ان کو شرک کی برائی جتلائی جاتی ہے تو قرآن کی اس طرح کی نصیحت کو سن کر اسے مسخراپن میں اڑا دیتے ہیں اور اس میں مشورے کر کے اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کی شان میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کو ہشیار ہوجانا چاہیے کہ ان کی باتوں اور ان کے کاموں کے حساب و کتاب کا وقت بہت جلدی ان کے سر پر آرہا ہے ‘ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ کا رسول آدمی نہیں ہوسکتا ‘ فرشتہ ہونا چاہیے اس کا یہ جواب بھی کئی جگہ قرآن میں ان کو سمجھا دیا گیا کہ فرشتہ کو اصلی صورت میں دیکھنا انسان کی طاقت سے باہر ہے اس لیے کوئی فرشتہ بھی اگر اللہ کا رسول ہو کر آتا تو وہ بھی ضرور آدمی کی صورت میں ہوتا ‘ اس واسطے پچھلے سب رسول آدمی تھے۔ عام بنی آدم کی طرح کھانا ‘ پینا ‘ مرنا سب کچھ ان کے پیچھے لگا ہوا تھا ‘ آخر آیت میں قریش کو یہ جتلایا کہ اس قرآن کے تمہاری زبان میں نازل ہونے کے سبب اگر تم سمجھو تو تمہاری بڑی ناموری ہے ‘ معتبر سند سے طبرانی میں روایت ہے جس میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے ذکر کی تفسیر ناموری کو قرار دیا ہے ‘ مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ قریش نادانی سے اللہ کے رسول اور قرآن کی شان میں طرح طرح کی بےادبی کے لفظ منہ سے نکالتے ہیں لیکن ان میں سے جو لوگ اللہ کے رسول کو سچا اور قرآن کو اللہ کا کلام جانیں گے ‘ ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ ان کو اور ان کی اولاد کو بڑی ناموری حاصل ہوگی ‘ قرآن کی یہ ایک پیشین گوئی ہے ‘ جس کے ظہور کے انتظام کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معجزہ کے طور پر صحیح بخاری ومسلم کے عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہ کی ٢ ؎ روایتوں میں جو فرمایا اس کا حاصل یہ ہے کہ جب بہت سی غیر قومیں دائرہ اسلام میں داخل ہوں گی تو اس وقت سردار سوائے قوم قریش کے اور قوم کا کوئی شخص نہ ہوگا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت سے لے کر عباسیہ کی خلافت کے عروج تک قرآن کی اس پیشین گوئی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس معجزہ کا جو ظہور ہوا ٣ ؎ تاریخ الخلفاء کے دیکھنے سے اس کا حاصل اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے، اس مضمون کی آیت سورة الزخرف میں آوے گی۔ اس کو بھی اس آیت کی تفسیر میں دخل ہے حاصل کلام یہ ہے کہ قریش کی اس عزت کا سبب اللہ کے رسول کا اس قوم میں ہونا اور قرآن کا قریش کی زبان میں اترنا ہے۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٥٢٢ ج ٢۔ باب قتل ابی جہل۔ ٢ ؎ مشکوٰۃ باب مناقب قریش۔ ٣ ؎ حافظ سیوطی (رح) کی مشہور تالیف اور مصر وہسد میں مطبوع اور مستد اول کتاب ہے (ع۔ ح)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:1) اقترب۔ اقتراب (افتعال) سے ماضی واحض مذکر غائب۔ نزدیگ ہوا۔ قریب آگیا۔ مادہ قرب۔ معرضون۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر۔ رخ گردانی کرنے والے ۔ منہ موڑنے والے۔ اعراض (افعال) مصدر۔ اگر اعرض کے بعد عن آئے تو بمعنی رخ پھیرنا۔ اجتناب کرنا ہے اور اگر اس کے بعد لام آئے جیسے اعرض لی (وہ میرے سامنے آیا۔ میرے سامنے نمودار ہو) تو سامنے آنے کے معنی دیتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے بغیر عن کے بھی رخ پھیرنے کے معنی دیتا ہے گویا اعراض کے معنی ہی رخ گردانی اور اجتناب ہوگیا۔ حسابہم۔ ان کا حساب یعنی ان کے اعمال کے حساب (کا وقت) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس میں کفار کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے اس لئے کہ ہر وہ چیز جو یقینا آنیوالی ہو اسے قریب ہی سمجھنا چاہیے یا اس لئے کہ جو زمانہ گزر گیا ہے اس کے مقابل ہمیں جو باقی ہے نہایت ہی قلیل ہے اور پھر آنحضرت کی بعثت اور آپ پر ختم نبوت بھی قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ حدیث میں ہے آنحضرت نے فرمایا : بعثت انا والساعۃ کھاتین یعنی ایک مرتبہ آپ نے اپنی دو انگلیاں (انگشت شہادت اور وسطیٰ ) اٹھا کر فرمایا۔” میں ایسے وقت میں مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہیں۔ (شوکانی)3 عظمت یہ کہ اس دن کی جواب دہی کے لے تیاری نہیں کرتے اور اعراض یہ کہ قرآن کی کسی نصیحت اور تنبیہ پر کان نہیں دھرتے یا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں مشغول ہو کر آخرت سے اعراض برت رہے ہیں۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الانبیاء : (رکوع نمبر ١) اسرارومعارف سورة انبیاء مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ، اس میں سات رکوع اور ایک سو بارہ آیات ہیں اس میں وہی مضمون مسلسل ارشاد ہوتا ہے کہ لوگ دنیا کے کاموں میں اور دولت کے انبار جمع کرنے میں یا پھر جسمانی ضروریات کی تکمیل میں اس قدر انہماک سے لگے ہوئے ہیں کہ آخرت ، حساب کتاب اور عذاب قبر سے بالکل غافل ہوچکے ہیں کہ اللہ جل جلالہ کی آیات میں ایک سے ایک بڑھ کر اور نئی سے نئی دلیل ہوتی ہے مگر یہ اسے مذاق یا کھیل تماشہ سمجھتے ہیں یا اپنے شغل میں لگے رہتے ہیں اور ان دلائل کی پروا نہیں کرتے حالانکہ امور دنیا میں آدمی ساری عمر بھی جو کام کرتا ہے اگر اسے کوئی کہہ دے کہ اس کام میں اور زیادہ نفع کمایا جاسکتا ہے تو فورا اور پوری توجہ سے آدمی وہ نئی بات سننا چاہتا ہے اور آخرت جو ابدی ہے اور پیش آنے والی ہے اس کے بارے نہ تو کچھ کر رہے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں حتی کہ دلائل پہ غور کرنا بھی گوارا نہیں ایسا اس لیے ہے کہ ان کے قلوب اس طرف سے غافل ہوچکے ہیں ۔ (قلب ذاکر نہ ہو تو آخرت سے غافل ہوجاتا ہے) اور دنیا ہی کے مشاغل سے بھر چکے ہیں یعنی اگر قلب ذاکر نہ ہو آخرت سے غافل ہو کر پوری طرح دنیا کی لذات میں گم ہوجاتا ہے اور پھر بڑی سے بڑی دلیل بھی اس پر اثر نہیں کرتی یہ ظالم آپس میں خفیہ خفیہ بات تو ضرور کرتے ہیں کہ آدمی فطرتا آخرت سے لا تعلق نہیں ہو سکتا چناچہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے کہتے ہیں کہ یہ بندہ جو نبوت کا دعوی کرتا ہے بھلا ہم جیسا انسان اور بنی آدم ہی تو ہے یعنی اگر نبی ہوتا تو بشری خصوصیات سے بالاتر ہوتا شاید یہ جادو جانتا ہے اور دلوں کو مسخر کرنے کا کوئی علم جانتا ہے کہ اس سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے اور لوگ اس کی بات ماننے لگتے ہیں ، بظاہر تو کہتے ہیں کہ ہم اس معاملہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے مگر اندر ہی اندر خود کو تسلیاں دیتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ بندوں سے تو پردہ کرلو گے مگر میرا پروردگار زمین وآسمان میں اور کائنات میں ہونے والی ہر سرگوشی بھی سنتا ہے بھلا اس کی ذات سے کیسے چھپا پاؤ گے کہ وہ خود سننے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی کہ جو بات لبوں تک نہ بھی پہنچے وہ اسے بھی جانتا ہے پھر اپنی بات پر بھی قائم نہیں رہتے کہ اس کی کوئی بنیاد تو ہے نہیں کہتے ہیں یہ محض پریشان خیال اور الٹے سیدھے خواب ہیں اور انہیں اللہ جل جلالہ کی طرف سے وحی کہہ کر اللہ جل جلالہ پر بہتان باندھا جا رہا ہے یا یہ شخص قادر الکلام شاعر ہے اور مرصع ومقفع عبارتیں جوڑ لیتا ہے اگر ایسا نہیں تو جس طرح پہلی امتوں نے انبیاء کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات طلب کیے تھے تو انہوں نے وہی پیش کردیے تھے یہ ہمارے مطلوبہ معجزات کیوں پیش نہیں کرتے ، ان سے کہیے ساری بات کرو ان سے امتوں نے معجزات مانگے جب وہ معجزات ظاہر ہوئے تو وہ لوگ ایمان نہ لائے اور اس کے نتیجہ میں ہلاک ہوگئے ، بھلا یہ کیا ایمان لے آئیں گے ؟ یعنی علم الہی میں ہے کہ یہ بھی ایمان لانے کے لیے معجزہ طلب نہیں کر رہے اور من حیث القوم اللہ ہلاک نہیں کرنا چاہتا لہذا ان کا ہر مطلوبہ معجزہ ظاہر نہیں فرماتا یہ بھی اس کا انداز کرم گستری ہے ۔ (جاہل پر عالم کی تقلید واجب ہے) آپ سے پہلے بھی جس قدر انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور وحی کی دولت سے نوازے گئے سب انسان اور بنی آدم ہی میں سے تھے ان سے کہیے کہ خود تو جاہل ہیں علم رکھنے والوں سے یعنی پہلی کتابوں کے جو علماء ایمان لا چکے ہیں ان سے پوچھ لیں ، یہاں سے علماء نے ثابت فرمایا ہے کہ جاہل پر عالم کی تقلید واجب ہے ۔ کسی نبی کو ایسا مافوق الفطرت وجود نہیں بخشا گیا کہ اس میں بشری خصوصیات نہ ہوں کہ وہ کھاتا پیتا نہ ہو یا کبھی اسے موت نہ آئے ، پھر ان سب سے کیے گئے وعدے پورے ہوئے ان سب کو اللہ جل جلالہ کی رحمت اور ہر پریشانی سے دو عالم میں نجات نصیب ہوئی اور جن لوگوں کو ایمان نصیب ہوا ساتھ ان کو بھی اور ہمیشہ زیادتی کرنے والوں کو تباہ کردیا گیا یہی فطری قانون ہے جسے یہ تمام اقوام کے حالات ہیں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اے اہل عرب تم پر خصوصا اور اہل ایمان پر عموما اللہ جل جلالہ کا احسان ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں تمہارا تذکرہ فرما کر تمہیں ہدایت ہی نہیں دی دوام بھی بخش دیا اور دنیا کی کامیابی بھی عطا فرما دی ، اگر اللہ جل جلالہ کی کتاب نہ ہوتی تو عربوں کی تاریخ مختلف ہوتی اور کوئی انھیں جاننے والا نہ ہوتا کیا ان لوگوں میں اتنی عقل بھی نہیں کہ اللہ جل جلالہ کے احسانات کو سمجھ پائیں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 1 تا 10 اقترب قریب آگیا۔ محمدیث نیا۔ استمعوہ وہ اس کو سنتے۔ یلعبون وہ کھیل کود میں لگے ہیں۔ لاھیۃ غفلت، بھولے ہوئے۔ اسروا چپکے چپکے کرتے ہیں۔ النجویٰ سرگوشی مشورے۔ اضغاث پراگندہ، پریشان خیال۔ احلام خواب۔ اسئلوا پوچھ لو، سوال کرو۔ جسد جسم۔ صدقنا ہم نے سچ کر دکھایا۔ المسرفین حد سے گزرنے والے۔ تشریح :- آیت نمبر 1 تا 10 اعلان نبوت کے بعد ابتداء میں سرداران مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کی تعلیمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جو شخص بھی آپ کی باتوں کو سنتا اس کا مذاق اڑاتا، بھبتیاں کستا اور ہر طرح کی اذیتیں پہنچانے میں کسر نہ چھوڑتا تھا ان کا گمان یہ تھا کہ یہ سب کچھ وقتی تحریک اور عارضی باتیں ہیں بہت جلد یہ تحریک دم توڑ دے گی۔ لیکن جب سرداران مکہ نے دیکھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مقناطیسی اور انقلابی شخصیت اور دلوں کو گرما دینے والی تعلیمات کو بےپناہ مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور ہر گھر اور ہر فرد بڑی یزی سے متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ تو انہیں اس تمام صورتحال پر سنجیدگی سے فیصلہ کرنے کی فکر لاحق ہوگئی بنو قریش کی ایک اہم ترین شخصیت حضرت امیر حمزہ (رض) کے اسلام قبول کرنے سے سرداران مکہ اور بھی بوکھلا اٹھے اور اس نئی تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ سب کے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور نہایت خاموشی اور راز داری سے یہ طے کیا کہ نبی کیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے جانثار صحابہ اور قرآنی تعلیمات کا مسلسل مذاق اڑایاجائے اور لوگوں میں خوف و ہر اس پھیلا دیا جائے جس سے ہر شخص ان کے قریب جانے سے گھبرانے لگے یا نفرت کرنے لگے۔ چناچہ ابن ہشام نے جلد اول میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ قریشی سردار عتبہ ابوالولید قریشی سرداروں کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا جس میں اسی بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اس صورتحال کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟ ابوالولید نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ اس قصے کو ختم کرنے کے لئے میں خود جا کر محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) سے یہ معلوم کرلوں کہ آخر وہ ان تمام باتوں سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کچھ چاہتے ہیں تو اس معاملے کو آپس میں بیٹھ کر طے کرلیتے ہیں اور ان کو کچھ رعایتیں دیدیتے ہیں قریشی سرداروں کو ابوالولید کی فہم و فراست پر پورا اعتماد تھا کہنے لگے کہ تم اٹھو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرو چناچہ عتبہ ابوالولید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا کہنے لگا کہ ” بھتیجے تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم تمہیں کتنی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں تمہارا نسب بھی اعلیٰ ترین ہے مگر تم مکہ والوں سے ایسی باتیں کر رہے ہو جس سے ان میں شدید انتشار اور زبردست اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ تم ان کے معبودوں کو برا کہتے ہو “ تم ان کے گذرے ہوئے لوگوں کی برائیاں بیان کرتے ہو میری بات غور سے سنو، میں چند باتیں بتاتا ہوں اگر سمجھ میں آجائیں تو ان پر عمل کرلینا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت تحمل اور برد باری سے فرمایا کہ اے عتبہ ابو الولید تم کہو میں تمہاری باتیں سن رہا ہوں۔ ابوالولید نے کہا اگر تم یہ سب کچھ مال و دولت کے لئے کر رہے ہو تو ہم سب مل کر تمہیں اتنا مال جمع کر کے دیدیں گے جس سے تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ گے۔ اگر تم ان باتوں کے ذریعے حکومت کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اگر تمہارے اوپر کسی جن وغیرہ کا سایا ہے تو ہم اپنا مال خرچ کر کے تمہارا علاج کرا سکتے ہیں اور اس سے تمہیں نجات دلانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ جب عتبہ ابوالولید یہ باتیں کرچکا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابو لولید تم نے کہا میں نے سن لیا اب تم میری چند باتیں بھی سن لو، اس نے کہا سنائیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سورة حم السجدہ کی آیتیں تلاوت کرنا شروع کیں اور کافی دیر تک تلاوت فرماتے رہے جب آیت سجدہ آئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ فرمایا۔ عتبہ ابوالولید ان تمام آیات کو غور سے سنتا رہا۔ پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھیوں کے پاس آگیا۔ سب نے عتبہ کے بدلے ہوئے انداز اور چال سے سمجھ لیا تھا کہ عتبہ میں تبدیلی آ چکی ہے اور اس کا رنگ ڈھنگ بدلا ہوا ہے منتظر لوگوں نے پوچھا ابو الولید کیا خبر لائے ہو اس نے کہا اللہ کی قسم جو کچھ انہوں نے مجھے سنایا ہے آج تک میں نے ایسا کلام نہیں سنا، وہ شعر، جادو یا کہانت نہیں ہے۔ عتبہ نے کہا اے قریشیو ! تم وہ کرو جو میں کہتا ہوں۔ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو اور ان سے الگ رہو، کیونکہ جو بات میں نے سنی ہے اس کی بڑی اہمیت ہے اگر عرب کے لوگ اس پر غالب آگئے تو تمہارے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہوگا۔ دوسروں پر ہوگا۔ اور اگر یہ عربوں پر غالب آگئے تو ان کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی۔ ان کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اس وقت موجود تمام لوگوں نے کہا کہ ابوالولید تمہارے اوپر بھی اس کا جادو چل گیا ہے۔ عتبہ ابوالولید نے صرف اتنا کہا کہ یہ میری رائے ہے باقی تمہیں جو کچھ کرنا ہے وہ کرو۔ یہ تھے وہ واقعات جنہوں نے پورے قریش کو اس نقطہ پر جمع کردیا تھا کہ اگر اب بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے متعلق پروپیگنڈے کی مہم کو تیز نہ کیا گیا تو سارا عرب مسلمان ہوجائے گا اور ان سرداروں کی اجارہ داریاں ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی مہم کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) تو ہمارے ہی جیسے بشر ہیں کھاتے ہیں، پیتے ہیں، بازاروں میں چلتے پھرتے اور بیوی بچے رکھتے ہیں ان میں اور ہمارے درمیان وہ کونسی خاص بات ہے جس کی بنیاد پر ہم ان کو نبی مان لیں۔ اگر اللہ کو نبی بنا کر بھیجنا ہی تھا تو ان کے ساتھ کچھ نشانیاں اور معجزات بھیجتے جنہیں دیکھ کر ہم ایمان لاتے کبھی کہتے کہ یہ تو جادوگر ہے جو بھی ان کے قریب جاتا ہے وہ اس پر جادو کردیتے ہیں اور کوئی ان کے جادو سے بچ نہیں سکتا۔ وہ لوگ سے خود ہی سوال کرتے کہ کیا تم جانتے بوجھتے ان کے جادو کے چکر میں پھنسنا گوارا کرو گے ؟ کبھی وہ کہتے کہ یہ محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) کوئی کاہن یا شاعر ہیں ان کے بکھرے ہوئے پراگندہ خیالات ہیں جن کو وہ خود گھڑ کر اور بنا کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے ان تمام سوالات اور پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ اعتراض کرنے والے اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اگر نبی بشر نہیں ہوتا تو اللہ کی مخلوقات میں آخر وہ کونسی مخلوق ہے جوب شر سے زیادہ محترم ہے۔ فرمایا کہ اللہ کے نبی اور رسول بشر ہی ہوتے ہیں جن کی طرف اللہ وحی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے گویا یہ فرمایا ہے کہ اے لوگو ! تمہارے دل اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام بشر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انہیں مزید یقین حاصل کرنا ہے تو وہ ان اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لیں جن سے وہ ہر بات پر مشورہ کرنے پر اعتماد محسوس کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر یقین بھی کرلیتے ہیں ان سے پوچھئے جتنے نبی اور رسول آئے ہیں کیا وہ بشر نہیں تھے ؟ کیا وہ فرشتے تھے ؟ کیا ان کو بھوک پیاس نہیں ستاتی تھی وہ موت کے دروازے سے نہیں گذرتے تھے ؟ کیا کوئی ایسا جسم بھی ہے جس پر موت طاری نہ ہوگی ؟ وغیرہ وغیرہ یقینا انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہر شخص کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ان باتوں سے کہیں اس طرح کا عذاب نازل نہ ہوجائے جس طرح پہلے نافرمانوں پر نازل ہوئے تھے جنہوں نے قوموں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ اللہ کا یہ نظام ہے کہ وہ اپنے فرماں برداروں کو بچا لیتا ہے اور نافرمانوں کو ان کے برے انجام تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ فرمایا کہ اے نبی آپ ان لوگوں کے غلط بےبنیاد پروپیگنڈوں اور باتوں کا خیال نہ کیجیے بلکہ اللہ نے آپ کو جس کتاب سے نوازا ہے اور جو پیغام عطا فرمایا ہے اس کو ہر شخص تک پہنچا دیجیے۔ کیونکہ یہ کتاب انہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اس نے جو وعدے کئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ ان کو کوئی طاقت و قوت اور کسی کا پروپیگنڈا روک نہیں سکتا۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائی ہیں۔ یہ ملاحظہ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ ارشاد ہے لوگوں کے حساب کتاب کا وقت بہت قریب آگیا ہے مگر وہ اپنی غفلت اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے منہ پھیر کر چل رہے ہیں ان کے پاس جب بھی کوئی نئی آیت آتی ہے تو وہ اس کو لاپرواہی سے سن کر پھر اپنے کھیل کود اور تماشوں میں لگ جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ان کے دل غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، وہ چپکے چپکے سرگوشیوں کے انداز میں باتیں کر کے کہتے ہیں یہ تو تمہارے جیسا ہی بشر ہے کیا پھر تم جانتے بوجھتے ان کے جادو کے جال میں پھنسنا چاہتے ہو (نعوذ باللہ) فرمایا پروردگار تو ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں ہے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ کفار یہ کہتے ہیں کہ یہ تو پریشان اور بکھرے ہوئے خیالات ہے۔ جن کو اس شخص نے خود ہی گھڑ لیا ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ تو شاعر ہے ورنہ یہ اور نبیوں کی طرح کوئی نشانی (معجزہ) لے کر کیوں نہیں آئے۔ اللہ نے فرمایا کہ ان سے پہلے کوئی بستی ایسی نہیں ہے جس کے تمام لوگوں نے اللہ کے معجزات (نشانیاں) دیکھ کر ایمان قبول کیا ہو بلکہ انکار ہی کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کو ہلاک اور برباد کردیا گیا۔ اگر آج ان کو کوئی معجزہ دکھا دیا جائے تو کیا وہ اس پر ایمان لائیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے ہیں وہ انسان ہی تھے جن کی طرف ہم نے وحی نازل کی تھی آپ کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں اس کا علم نہیں ہے تو جاننے والے اہل کتاب سے پوچھ کر دیکھ لو۔ ہم نے ان انبیاء کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ ہمیشہ جینے والے ہوں اور پھر ہم نے ان سے کئے ہوئے وعدوں کو سچا کر دکھایا۔ ہم نے جس کو چاہا بچایا اور حد سے گذرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ فرمایا کہ اللہ نے جس کتاب کو نازل کیا ہے اس میں تمہارا ہی ذکر ہے یعنی یہ کتاب تمہاری ہدایت کے لئے نازل کی گئی ہے کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے ؟

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ یعنی قیامت وقتا فوقتا نزدیک ہوتی جاتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة طٰہٰ کا اختتام اس بات پر ہوا تھا۔ اے لوگو ! جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو اس کا انتظار کرو۔ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ سورة الانبیاء کی ابتداء اس بات سے ہو رہی ہے کہ منکرین حق جس عذاب کا انتظار کر رہے ہیں وہ تو قریب آن پہنچا ہے۔ احتساب اور عذاب کا دن قریب آپہنچا ہے۔ لیکن منکرین حق غفلت کی بناء پر اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے شغل کے طور پر لیتے اور سنتے ہیں۔ انھیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو قیامت کے دن تم اس میں مبتلا کیے جاؤ گے۔ منکرین حق کے لیے یہ انتقام اور سخت عذاب کا دن ہوگا جو قریب ہی آن پہنچا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت پہلے لوگوں کی نسبت تمہارے زیادہ قریب آچکی ہے قیامت سے مراد قیامت کبریٰ بھی ہے اور ہر انسان کی موت بھی جو اس کے لیے قیامت ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو ہر آنے والا دن اسے موت کے قریب کر رہا ہے۔ اس طرح ہر شخص دن بدن قیامت کے قریب تر ہوا جا رہا ہے لیکن لوگ غفلت کی بنا پر اس سے لاپرواہی کیے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب بھی نصیحت کی جائے تو وہ اسے شغل کے طور پر سنتے ہیں۔ یہی حالت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کی تھی کہ جب بھی ان کے سامنے نازل ہونے والی نئی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اس سے یہ کہہ کر اعراض کرتے ہیں کہ یہ تو اس شخص کا روز مرّہ کا کام ہے اور یہ نئی سے نئی پیشگوئی اور دھمکی دیتا ہے۔ اس پر انھیں انتباہ کیا گیا کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب تمہاری یا وہ گوئی کا حساب چکا دیا جائے گا۔ (مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ )[ لسلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ ] ” جو شخص مرگیا اس پر قیامت قائم ہوگئی “ (عَنْ شُعْبَۃَ (رض) عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ اَنَاو السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ قَالَ شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ قَتَادَۃَیَقُوْلُ فِیْ قَصَصِہٖ کَفَضْلِ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَلَا اَدْرِیْ اَذَکَرَہُ عَنْ اَنَسٍٍٍ اَوْ قَالَہُ قَتَادَۃُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] حضرت شعبہ، قتادہ ; سے اور وہ حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا جیسا کہ ان دونوں انگلیوں میں سے ایک کو دوسری پر برتری حاصل ہے شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے حضرت انس (رض) سے بیان کیا ہے یا قتادہ کا قولنقل ہے۔ “ (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت کے دن کے درمیان کوئی اور نبی نہیں آنا) مسائل ١۔ قیامت ہر شخص کے قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص کا حساب چکا دیا جائے گا۔ ٣۔ لوگ قیامت کے بارے میں غفلت کا روّیہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ٤۔ حق کے منکر حق بات کو بھی شغل کے طور پر لیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن منکرین کا حق کے ساتھ رویہّ : ١۔ منکرین کے پاس جب نصیحت آتی ہے تو اسے ہنسی کھیل کے طور پر لیتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢) ٢۔ جب ان کے پاس حق آتا ہے تو کہتے ہیں یہ سراسر جادو ہے۔ (یونس : ٧٦) ٣۔ منکرین نے حق کی تکذیب کی اور یہ لوگ بےبنیاد بات پر جمے ہوئے ہیں۔ (ق : ٥) ٤۔ منکرین حق کے مقابلہ میں ظن کی پیروی کرتے ہیں اور ظن حق کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم : ٢٨) ٥۔ جب ان کے پاس حق آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ جادو ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ ( الزخرف : ٣٠) ٦۔ جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا تو کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی وہ چیز عطا کی جاتی جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ (القصص : ٤٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سورة الانبیآء مکیۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واھلکنا المسرفین (١ : ٩) یہ نہایت ہی زور دار آغاز ہے ‘ کسی بھی غافل شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ حساب سر پر ہے اور لوگ غفلت اور لاپرواہی میں بیٹھے ہیں۔ بڑی بےتابی سے رسول ان کے سامنے آیات الہیہ پیش کررہے ہیں اور وہ منہ موڑ کر دوسری جانب جارہے ہیں۔ فوراً چوکنا ہونے کی ضورت ہے اور یہ لوگ ہیں کہ خطرے کا شعور بھی نہیں رکھتے بلکہ جب بھی ان کو متنبہ کرنے کی نئی کوشش کی جاتی ہے یہ مذاق کرتے ہیں اور دعوت کو غیر اہم سمجھ کر کھیل میں لگ جاتے ہیں۔ لاھیۃ قلو بھم (١٢ : ٣) ” ان کے دل غافل ہیں “۔ ان کے دل و دماغ اور شعور و وجدان کے تار بالکل خاموش ہیں۔ ان کے اندر کوئی نغمہ نہیں ہے۔ یہ ان شخصیات کی تصویر کشی ہے جو غایت درجہ لاابالی ہیں اور سنجیدگی ان میں مفقود ہے ‘ جو نہایت ہی خطرناک مقامات پر بھی غیر سنجیدہ رہتے ہیں ‘ جو نہایت محتاط رہنے کے مقام پر بھی گپ لگاتے ہیں ‘ نہایت ہی مقدس موقف اور مقدس مقام میں بھی گندگی گراتے ہیں۔ یہ قرآن جو ان کو منایا جارہا ہے ‘ یہ تو رب ذوالجلال کی طرف سے ایک پیغام ہے اور یہ اس سے لاپرواہ ہیں۔ کوئی وقار ‘ کوئی پاکیزگی ان میں نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سنجیدگی ‘ وقار ‘ پاکیزگی ‘ جدت نظر نہیں ہوتی وہ آخرکار اس قدر ہلکے ‘ خشک ہوجاتے ہیں اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ کسی اونچے مشن یا اہم فرائض کی ادائیگی اور بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ان کی زندگی ڈھیلی ‘ ان کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی اقدار ارزاں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک قسم کی بےباکی پیدا ہوجاتی ہے او وہ مقدس سے مقدس قدر کو بھی ہلکا سمجھتے ہیں۔ یہ شتر بےمہار ہوتے ہیں ‘ کس یدستور اور ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ اور ان کو خیر و شر کا شعور ہی نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اس قرآن مجید کو سنجیدگی سے نہ لیتے تھے حالانکہ یہ قرآن مجید تو دستور حیات ‘ نظام زندگی ‘ نظام عمل ‘ نظام معاملہ تھا۔ اس کو سنجیدگی سے دیکھا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں نے اسے نہایت ہی لا بالی پن سے ایک ستر بےمہار شخص کی طرح غفلت سے لیا اور مذاق کرنے لگے ۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جب روح انسان اس طہارت اور اقدا کے اس تقدس کو خیر باد کہہ دے تو پھر معاشرہ مریض انسان پیدا کرتا ہے ‘ ستر بےمہار انسان پیدا کرتا ہے ‘ لا ابالی انسان پیدا کرتا ہے ‘ جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کسی چیز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان نے اس سورة کو اس سندیگی ‘ اور اس اہمیت سے لیا کہ ان کے دل دنیا ومافیہا سے بےنیاز ہوگئے۔ ترجمہ آمدی میں عامر ابن ربیعہ کا یہ واقعہ آیا ہے کہ ان کے پاس عرب کا ایک آدمی آیا۔ اس نے ان کی بڑی قدر و منزلت کی اور عزت سے ٹھہرایا۔ اس کے بعد وہ شخص دوبارہ عامر کے پاس آیا۔ اس وقت اسے زمین الاٹ ہوچکی تھی اور کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرزمین عرب کی ایک پوری وادی بطور جاگیر الاٹ کرالی ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ اس میں سے ایک ٹکڑا تمہیں دے دوں تاکہ وہ تمہیں اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کے کام آئے۔ اس پر عامر نے کہا ‘ مجھے تمہاری اس جاگیر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ آج ایک سورة نازل ہوئی ہے ‘ اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (١٢ : ١) ” قریب آگیا ہے ‘ لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں “۔ یہ ہے فرق دلوں میں۔ ایک طرف ہیں زندہ ‘ قبول کنندہ اور اثر گثرندہ دل اور دوسری جانب ہیں مردہ ‘ بجھے ہوئے اور ایسے دل جن میں فکر و شعور کے داخلے کی تمام کھڑکیاں بند ہیں۔ ان مردہ دلوں پر لہو و لعت کے کفن ہیں اور ان کو بےمہاری کے لا ابالی پن کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ قرآن کا ان پراثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے دل بجھ گئے ہیں اور وہ اس طرح ہوگئے ہیں کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے۔ واسروا۔۔۔۔۔ ظلموا (١٢ : ٣) ” اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں “۔ اہل مکہ ہر وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی تحریک کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ پھر یہ سرگوشیاں ان کی سازشوں کی شکل اختیار کرتی تھیں اور پھر یوں تبصرے کرتے تھے۔ ھل ھذآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم تبصرون (١٢ : ٣) ” یہ شخص آخر تم جیسا بشر ہی تو ہے تو کیا پھر تم آنکھوں دیکھتے (سمجھتے بوجھتے) جادو کے پھندے میں پھنس جائو گے “۔ یہ لوگ تو درحقیقت مرچکے ہیں اور ان کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے اس لیے یہ قرآن سے خود تو متاثر ہوتے نہیں تھے لیکن جن دوسرے لوگوں پر قرآن کے اثرات ہوتے تھے ان کو یہ لوگ یوں بدراہ کرتے تھے کہ لوگوں دیکھو ‘ یہ محمد تو ہم جیسا انسان ہے ‘ تو اس پر کیوں ایمان لاتے ہو۔ اس کلام کا تم پر جو اثر ہوتا ہے تو وہ ایک جادو ہے۔ تم دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے اس جادو کا اثر لیتے ہو۔ جب وہ ایسے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے تو رسول اللہ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں۔ یہ جو مشورے کررہے ہیں اور قرآن کے اثرات سے بچنے کے لیے جو بہانے اور پرو پیگنڈے کرتے ہیں ان کا کوئی اثر نہ ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین کے عناد کا تذکرہ اور ان کی معاندانہ باتوں کا جواب یہاں سے سورة الانبیاء شروع ہو رہی ہے۔ اس میں چوتھے رکوع کے ختم تک معاندین اور منکرین توحید و رسالت اور منکرین آخرت کی تردید ہے۔ پھر پانچوں رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ انہوں نے جو اپنی قوم سے خطاب کیا اور بتوں کو توڑنے پر جو قوم نے ان سے سوال و جواب کیے اور انہیں آگ میں ڈالا اس کا تدکرہ ہے۔ اس کے بعد حضرت لوط، حضرت نوح، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان اور حضرت ایوب اور حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل اور حضرت ذوالنون (یعنی حضرت یونس) اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے پھر آخر سورة تک مختلف مواعظ ہیں اور انہیں کے ذیل میں یاجوج و ماجوج کے خروج اور وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اول تو یہ فرمایا گیا کہ لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ اپنی غفلتوں میں رو گردانی کیے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ قیامت ہوگی اور حساب ہوگا اور یہ ان کی غفلت اس لیے ہے کہ وقوع قیامت کو مانتے ہی نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی نئی نصیحت ان کے پاس آتی ہے یعنی کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو اسے کھیلتے ہوئے سنتے ہیں اور ان کے دل غافل ہوتے ہیں اور رسول اللہ کی تکذیب بھی کرتے ہیں اور چپکے چپکے آپس میں یوں کہتے ہیں کہ یہ شخص جو یوں کہتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں یہ تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہے اور یہ جو کچھ معجزہ کے نام سے تمہیں دکھاتا ہے یہ جادو ہے۔ کیا تم جانتے بوجھتے جادو کو مان لو گے اور اس پر ایمان لاؤ گے ؟ ان کی ان باتوں کا جواب رسول اللہ نے یوں دیا کہ آسمان میں اور زمین میں جو بات ہوتی ہے کیسی ہی خفیہ اور پوشیدہ ہو میرا رب اسے خوب جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تمہاری باتوں کا اسے علم ہے وہ ان کی سزا دے گا۔ ان لوگوں نے قرآن مجید کو ماننے سے بھی انکار کیا اور کہنے لگے کہ یہ تو خوابوں کی گٹھڑیاں ہیں۔ ان کو خواب میں کچھ باتیں سمجھ میں آجاتی ہیں انہیں کو پیش کردیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا۔ اس سے بڑھ کر انہوں نے یوں کہا کہ یہ باتیں خود ہی اپنے پاس سے بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہیں اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ شاعر ہے۔ وہ لوگ یہ سب عناد اور ضد میں کہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آپ شاعر نہیں اور جو اللہ کا کلام پیش کرتے ہیں وہ نہ شعر ہے نہ شاعری ہے۔ شاعروں کی تک بندیوں اور دنیائے خیالات کی باتوں سے بلند اور بالا ہے۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ جو نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں اگر یہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو جیسے ان سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) نشانیاں لے کر آئے یہ بھی کوئی ایسی نشانی لے کر آئیں۔ معجزات تو بہت تھے جنہیں بارہا دیکھتے رہتے تھے اور سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے جس کی چھوٹی سی ایک سورة کے مقابلہ میں ذرا سی عبارت بنا کر لانے سے بھی عاجز تھے۔ لیکن ان معجزات موجودہ کے علاوہ اپنے فرمائشی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ معاندین کی اس بات کا ذکر قرآن مجید میں کئی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ لوگوں کا پابند نہیں کہ جو لوگ معجزہ چاہیں وہی بھیجے۔ اور ان سے پہلے بعض امتوں کے پاس فرمائشی معجزہ آیا وہ پھر بھی ایمان نہ لائے لہٰذا ہلاک کردیئے گئے۔ اسی کو فرمایا (مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا) ان سے پہلے کسی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا (فرمائشی معجزات ظاہر ہونے پر بھی) ایمان نہ لائے (اَفَھُمْ یُؤْمِنُوْنَ ) (کیا یہ ایمان لے آئیں گے) اگر یہ ایمان نہ لائے تو پرانی امتوں کی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہوجائے گا اور چونکہ ابھی عذاب نازل فرمانا قضا و قدر میں نہیں ہے اس لیے فرمائشی معجزات ظاہر نہیں کیے جاتے۔ وہ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ صاحب جو نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں یہ تو تمہاری طرح کے آدمی ہیں اور ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔ ان کے جواب میں اللہ جل شانہ نے فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رْجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ ) (اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ہیں وہ سب مرد ہی تھے۔ یعنی آدمی ہی تھے۔ ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے) نبی اور غیر نبی میں وحی آنے نہ آنے کا فرق ہے۔ ایسا کوئی قانون نہیں کہ جو نبی ہو وہ بشر نہ ہو۔ (فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ) (اگر تم اس بات کو نہیں جانتے تو اہل ذکر یعنی اہل کتاب سے پوچھ لو) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں فسئلوا ایھا الجھلۃ اھل الکتاب الواقفین علی احوال الرسل السالفۃ علیھم الصلوۃ والسلام لتزول شبھتکم مطلب یہ ہے کہ اے جاہلو اہل کتاب سے پوچھ لو جنہیں گزشتہ رسولوں کے حالات معلوم ہیں۔ وہ تمہیں بتادیں گے کہ انبیاء (علیہ السلام) انسان تھے، بشر تھے۔ تم اہل کتاب سے یہ مشورہ تو کرتے ہو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان کرنے کے لیے آپ سے کیا پوچھیں۔ ذرا یہ بھی تو پوچھ لو کہ پہلے جو انبیاء کرام تشریف لائے تھے کیا وہ بشر کے علاوہ کسی دوسری جنس کے افراد تھے۔ تمہیں تو انبیاء سابقین ( علیہ السلام) کی خاص خبر بھی نہ تھی۔ اہل کتاب ہی کے بتانے سے تمہیں ان کے بارے میں کچھ علم ہوا ہے اور اہل کتاب ہی کے سمجھانے سے تم نے یہ کہا ہے (فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ) تم ان سے معلوم کرتے رہتے ہو تو یہ بھی معلوم کرو کہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) بشر تھے یا بشر کے علاوہ اور کسی جنس سے تھے ؟ جب تم ان سے پوچھو گے اور وہ صحیح جواب دیں گے تو یہی بتائیں گے کہ انبیاء سابقین ( علیہ السلام) انسان تھے بشر تھے۔ جب وہ حضرات بشر تھے تو خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہوتے ہوئے نبی ہونے پر کیا اعتراض ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ زجر مع شکوی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ” النَّاس “ سے مشرکین مراد ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ بوقت نزول اگرچہ اس سے اشارہ مشرکین قریش کی طرف تھا۔ مگر اب یہ سب کے لیے عام ہے۔ اور حساب سے حساب آخرت مراد ہے یعنی قیامت سر پر ہے۔ مگر یہ لوگ غفلت میں وقت ضائع کر رہے ہیں اور حساب آخرت کے لیے کسی قسم کی تیاری نہیں کر رہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 ان منکرین کے حساب کا وقت قریب آ لگا ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ یہ ابھی غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اعراض و بےاعتنائی کا برتائو کر رہے ہیں۔ یعنی قیامت صغریٰ اور قیامت کبریٰ ہر روز قریب ہو رہی ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ یہ غفلت و جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر کوئی نصیحت کی بات سنائوتو اس کو ٹلا جاتے ہیں اور اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور بےپروائی کا برتائو کرتے ہیں۔