Commentary Importance of Surah Al-Anbiya& Sayyidna Abdullah Ibn Mas’ ud (رض) has said that four Surah viz Al-Kahf, Maryam, Taha and Al-Anbiya& are among the earlier revelations which I value a lot and keep them close to my heart. (Qurtubi) اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ (The reckoning of the people has drawn near - 21:1) It means that the time is near when people will have to give an account of their deeds. Here, the reference is to the Day of Judgment, and its approach is in relation to bygone ages, as the ummah of Sayyidna Muhammad Al-Mustafa (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the last of them all. And if the meaning of the word حِسَاب reckoning) is taken in its general sense then reckoning in the grave is also included, which each individual faces immediately after death. It is for this reason that an individual&s death is regarded as his Day of Reckoning. مَن مَات فقد قامت قیامتہ for a person who has died his Day of Reckoning has arrived) so the latter explanation makes the verse very clear in that the individual reckoning for everyone is not very far, no matter how long one lives, because death is certain and no one knows when it will befall. The underlying message of this verse is to warn those people, whether believers or non-believers, who are in a state of slumber due to indulgence in worldly affairs, unmindful of the certainty that all this will come to an end one day. In fact it is this disregard of the Day of Judgment which is the root cause of all ills.
خلاصہ تفسیر ان (منکر) لوگوں سے ان کا (وقت) حساب نزدیک آپہنچا (یعنی قیامت وقتاً فوقتاً نزدیک ہوتی جاتی ہے) اور یہ (ابھی) غفلت (ہی) میں (پڑے) ہیں (اور اس کے یقین کرنے اور اس کے لئے تیاری کرنے سے) اعراض کئے ہوئے ہیں (اور ان کی غفلت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت تازہ (حسب حال ان کے) آتی ہے (بجائے اس کے ان کو تنبہ ہوتا) یہ اس کو ایسے طور سے سنتے ہیں کہ (اس کے ساتھ) ہنسی کرتے ہیں (اور) ان کے دل (اصلاً ادھر) متوجہ نہیں ہوتے اور یہ لوگ یعنی ظالم (اور کافر) لوگ (آپس میں) چپکے چپکے سرگوشی کرتے ہیں (اس لئے نہیں کہ ان کو اہل اسلام کا خوف تھا کیونکہ مکہ میں کفار ضعیف نہ تھے بلکہ اس لئے کہ اسلام کے خلاف خفیہ سازش کر کے اس کو مٹائیں) کہ یہ (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محض تم جیسے ایک (معمولی) آدمی ہیں (یعنی نبی نہیں اور یہ جو ایک دلکش و دلربا کلام سناتے ہیں اس پر اعجاز کا شبہ اور اس اعجاز سے نبوت کا خیال نہ کرنا کیونکہ وہ حقیقت میں سحر آمیز کلام ہے) تو کیا (باوجود اس بات کے) پھر بھی تم جادو کی بات سننے کو (ان کے پاس) جاؤ گے حالانکہ تم (اس بات کو خوب) جانتے (بوجھتے) ہو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کا حکم ہوا اور انہوں) نے (موافق حکم کے جواب میں) فرمایا کہ میرا رب ہر بات کو (خواہ) آسمان میں ہو اور (خواہ) زمین میں ہو اور خواہ ظاہر ہو یا خفی ہو خوب) جانتا ہے اور وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے (سو تمہارے ان اقوال کفریہ کو بھی جانتا ہے اور تم کو خوب سزا دے گا اور انہوں نے کلام حق کو صرف جادو کہنے پر اکتفا نہیں کیا) بلکہ یوں (بھی) کہا کہ یہ (قرآن) پریشان خیالات ہیں (کہ واقع میں دلکش بھی نہیں) بلکہ (اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ) انہوں نے (یعنی پیغمبر نے) اس کو (قصداً و اختیاراً اپنے دل سے) تراش لیا ہے (اور خواب کے خیالات میں تو انسان قدرے بےاختیار اور معذور اور مبتلائے اشتباہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ افتراء کچھ قرآن ہی کے ساتھ خاص نہیں) بلکہ یہ تو ایک شاعر شخص ہیں (ان کی تمام باتیں ایسی ہی تراشیدہ اور خیالی ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ رسول نہیں ہیں اور بڑے مدعی رسالت کے ہیں) تو ان کو چاہئے کہ ایسی کوئی (بڑی) نشانی لاویں جیسا پہلے لوگ رسول بنائے گئے (اور بڑے بڑے معجزات ظاہر کئے اس وقت ہم رسول مانیں اور ایمان لائیں اور یہ کہنا بھی ایک بہانہ تھا ورنہ انبیاء سابقین کو بھی نہ مانتے تھے حق تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ) ان سے پہلے کوئی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ہے (باوجود ان کے فرمائشی معجزات ظاہر ہوجانے کے) ایمان نہیں لائے سو کیا یہ لوگ (ان معجزات کے ظاہر ہونے پر) ایمان لے آویں گے ( اور ایسی حالت میں ایمان نہ لانے پر عذاب نازل ہوجاوے گا اس لئے ہم وہ معجزات ظاہر نہیں فرماتے اور قرآن معجزہ کافی ہے) اور (رسالت کے متعلق جو ان کا یہ شبہ ہے کہ رسول بشر نہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے آپ سے قبل صرف آدمیوں ہی کو پیغمبر بنایا ہے جن کے پاس ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو ( اے منکرو) اگر تم کو (یہ بات) معلوم نہ ہو تو اہل کتاب سے دریافت کرلو (کیونکہ یہ لوگ اگرچہ کافر ہیں مگر خبر متواتر میں راوی کا مسلمان یا ثقہ ہونا شرط نہیں، پھر تم ان کو اپنا دوست سمجھتے ہو تو تمہارے نزدیک ان کی بات معتبر ہونی چاہئے) اور (اسی طرح رسالت کے متعلق جو اس شبہ کی دوسری تقریر ہے کہ رسول فرشتہ ہونا چاہئے اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے ان رسولوں کے (جو کہ گذر چکے ہیں) ایسے بدن نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہیں (یعنی فرشتہ نہ بنایا تھا) اور (یہ لوگ جو آپ کی وفات کے انتظار میں خوشیاں منا رہے ہیں لقولہ تعالیٰ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ کذا فی المعالم، یہ وفات بھی منافی نبوت نہیں کیونکہ) وہ (گزشتہ حضرات (بھی دنیا میں) ہمیشہ رہنے والے نہیں ہوئے (پس اگر آپ کی بھی وفات ہوجاوے تو نبوت میں کیا اعتراض لازم آیا، غرض یہ کہ جیسے پہلے رسول تھے ویسے ہی آپ بھی ہیں اور یہ لوگ جس طرح آپ کی تکذیب کرتے ہیں اسی طرح ان حضرات کی بھی اس زمانے کے کفار نے تکذیب کی) پھر ہم نے جو ان سے وعدہ کیا تھا ( کہ مکذبین کو عذاب سے ہلاک کریں گے اور تم کو اور مؤمنین کو محفوظ رکھیں گے ہم نے) اس (وعدہ) کو سچا کیا ان کو اور جن جن کو (نجات دینا) منظور ہوا ( اس عذاب سے) ہم نے نجات دی اور (اس عذاب سے) حد (اطاعت) سے گزرنے والوں کو ہلاک کیا ( سو ان لوگوں کو ڈرنا چاہئے اے منکرو اس تکذیب کے بعد تم پر دنیا و آخرت میں عذاب آوے تو تعجب نہیں کیونکہ) ہم تمہارے پاس ایسی کتاب بھیج چکے ہیں کہ اس میں تمہاری نصیحت (کافی) موجود ہے کیا (باوجود ایسی تبلیغ موعظت کے) پھر بھی تم نہیں سمجھتے (اور نہیں مانتے) ۔ معارف و مسائل سورة انبیاء کی فضیلت : حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ سورة کہف اور مریم اور طہ اور انبیاء یہ چاروں سورتیں نزول کے اعتبار سے ابتدائی سورتیں اور میری یہ قدیم دولت اور کمائی ہیں جن کی ہمیشہ حفاظت کرتا ہوں (قرطبی) اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُهُمْ ، یعنی وہ وقت قریب آگیا جبکہ لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جاوے گا مراد اس سے قیامت ہے اور اس کا قریب آجانا دنیا کی پچھلی عمر کے لحاظ سے ہے کیونکہ یہ امت آخر الامم ہے اور اگر حساب عام مراد لیا جائے تو حساب قبر بھی اس میں شامل ہے جو ہر انسان کو مرنے کے فوراً بعد دینا ہوتا ہے اور اسی لئے ہر انسان کی موت کو اس کی شخصی قیامت کہا گیا ہے من مات فقد قامت قیامتہ، یعنی جو شخص مر گیا اس کی قیامت تو ابھی قائم ہوگئی اس معنے کے اعتبار سے حساب کا وقت قریب ہونا تو بالکل ہی واضح ہے کہ ہر شخص کی موت خواہ کتنی ہی عمر ہو کچھ دور نہیں خصوصاً جبکہ عمر کی انتہا نامعلوم ہے تو ہر دن ہر گھنٹہ موت کا خطرہ سامنے ہے۔ مقصود اس آیت سے غفلت شعار لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جس میں سب مومن و کافر داخل ہیں کہ دنیا کی خواہشات میں مشغول ہو کر اس حساب کے دن کو نہ بھلائیں کیونکہ اس کو بھلا دینا ہی ساری خرابیوں اور گناہوں کی بنیاد ہے۔