Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 104

سورة الأنبياء

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ ؕ کَمَا بَدَاۡنَاۤ اَوَّلَ خَلۡقٍ نُّعِیۡدُہٗ ؕ وَعۡدًا عَلَیۡنَا ؕ اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیۡنَ ﴿۱۰۴﴾

The Day when We will fold the heaven like the folding of a [written] sheet for the records. As We began the first creation, We will repeat it. [That is] a promise binding upon Us. Indeed, We will do it.

جس دن ہم آسمان کو یوں لپیٹ لیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے ۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کرکے ( ہی ) رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Heavens will be rolled up on the Day of Resurrection Allah says: this will happen on the Day of Resurrection: يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاء كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ... And (remember) the Day when We shall roll up the heaven like a Sijill for books. This is like the Ayah: وَمَا قَدَرُواْ اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالاٌّرْضُ جَمِيعـاً قَبْضَـتُهُ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ وَالسَّمَـوَتُ مَطْوِيَّـتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَـنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ They made not a just estimate of Allah such as is due to Him. And on the Day of Resurrection the whole of the earth will be grasped by His Hand and the heavens will be rolled up in His Right Hand. Glorified be He, and High be He above all that they associate as partners with Him! (39:67) Al-Bukhari recorded that Nafi` reported from Ibn Umar that the Messenger of Allah said: إِنَّ اللهَ يَقْبِضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الاَْرَضِينَ وَتَكُونُ السَّمَوَاتُ بِيَمِينِه On the Day of Resurrection, Allah will seize the earth and the heavens will be in His Right Hand. This was recorded by Al-Bukhari, may Allah have mercy on him. ... كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ... like a Sijill rolled up for books. What is meant by Sijill is book. As-Suddi said concerning this Ayah: "As-Sijill is an angel who is entrusted with the records; when a person dies, his Book (of deeds) is taken up to As-Sijill, and he rolls it up and puts it away until the Day of Resurrection." But the correct view as narrated from Ibn Abbas is that; As-Sijill refers to the record (of deeds). This was also reported from him by Ali bin Abi Talhah and Al-`Awfi. This was also stated by Mujahid, Qatadah and others. This was the view favored by Ibn Jarir, because this usage is well-known in the (Arabic) language. Based on the above, the meaning is: the Day when the heaven will be rolled up like a scroll. This is like the Ayah: فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ Then, when they had both submitted themselves (to the will of Allah), and he had laid him prostrate on his forehead. (37:103) There are many more linguistic examples in this respect. Allah knows best. ... كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ As We began the first creation, We shall repeat it. (It is) a promise binding upon Us. Truly, We shall do it. means, this will inevitably come to pass on the Day when Allah creates His creation anew. As He created them in the first place, He is surely able to re-create them. This must inevitably come to pass because it is one of the things that Allah has promised, and He does not break His promise. He is able to do that. Because He says: إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (Truly, We shall do it). Imam Ahmad recorded that Ibn Abbas said: "The Messenger of Allah stood among us exhorting us, and said: إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلاً كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ You will be gathered before Allah barefoot, naked and uncircumcised. As We began the first creation, We shall repeat it. (It is) a promise binding upon Us. Truly, We shall do it. And he mentioned the entire Hadith. It was also recorded in the Two Sahihs, and Al-Bukhari mentioned it in his Tafsir of this Ayah.

اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں تمام کائنات یہ قیامت کے دن ہوگا جب ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے جیسے فرمایا آیت ( وما قدروا اللہ حق قدرہ الخ ) ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی تھی ، جانا ہی نہیں ۔ تمام زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے ۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر چیز سے جسے لوگ اس کا شریک ٹھیرا رہے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ساتوں آسمانوں کو اور وہاں کی کل مخلوق کو ، ساتوں زمینوں کو اور اس کی کل کائنات کو اللہ تعالیٰ اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا وہ اس کے ہاتھ میں ایسے ہوں گے جیسے رائی کا دانہ سجل سے مراد کتاب ہے ۔ اور کہا گیا ہے کہ مراد یہاں ایک فرشتہ ہے ۔ جب کسی کا استغفار چڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے اسے نور لکھ لو ۔ یہ فرشتہ نامہ اعمال پر مقرر ہے ۔ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی کتاب کو اور کتابوں کے ساتھ لپیٹ کر اسے قیامت کے لئے رکھ دیتا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ نام ہے اس صحابی کا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کاتب وحی تھا ۔ لیکن یہ روایت ثابت نہیں اکثر حفاظ حدیث نے ان سب کو موضوع کہا ہے خصوصا ہمارے استاد حافظ کبیر ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ نے ۔ میں نے اس حدیث کو ایک الگ کتاب میں لکھا ہے امام جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر بہت ہی انکار کیا ہے اور اس کی خوب تردید کی اور فرمایا ہے کہ سجل نام کا کوئی صحابی ہے ہی نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاتبوں کے نام مشہور ومعروف ہیں کسی کا نام سجل نہیں ۔ فی الواقع امام صاحب نے صحیح اور درست فرمایا یہ بڑی وجہ ہے اس حدیث کے منکر ہونے کی ۔ بلکہ یہ بھی یاد رہے کہ جس نے اس صحابی کا ذکر کیا ہے اس نے اسی حدیث پر اعتماد کرکے ذکر کیا ہے اور لغتا بھی یہی بات ہے پس فرمان ہے جس دن ہم آسمان کو لپیٹ لیں گے اس طرح جیسے لکھی ہوئی کتاب لپیٹی جاتی ہے ۔ لام یہاں پر معنی میں علیٰ کے ہے جیسے تلہ للجبین میں لام معنی میں علیٰ ہے ۔ لغت میں اس کی اور نظیریں بھی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ یہ یقینا ہوکر رہے گا ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نئے سرے سے مخلوق کو پہلے کی طرح پیدا کرے گا ۔ جو ابتدا پر قادر تھا وہ اعادہ پر بھی اس سے زیادہ قادر ہے ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اس کے وعدے اٹل ہوتے ہیں ، وہ کبھی بدلتے نہیں ، نہ ان میں تضاد ہوتا ہے ۔ وہ تمام چیزوں پر قادر ہے وہ اسے پورا کرکے ہی رہے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اپنے ایک وعظ میں فرمایا تم لوگ اللہ کے سامنے جمع ہونے والے ہو ۔ ننگے پیر ننگے بدن بےختنے جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا اسی طرح دوبارہ لوٹائینگے یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم پورا کرکے رہیں گے ۔ الخ ( بخاری ) سب چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی پھر بنائی جائیں گی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

104۔ 1 یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ) 39 ۔ الزمر :87) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے ' ' سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٢] یعنی آسمانوں کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا : (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 67؀) 39 ۔ الزمر :67) یعنی تمام آسمانوں کو لپیٹ کر اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے گا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کا آغاز کیا تھا۔ اسی طرح موجودہ زمین و آسمان کی ایک ایک جز کو ختم کرکے نئی زمین، نئے آسمان اور نئی کائنات کو وجود میں لایا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ : ” طَوٰی یَطْوِيْ طَیًّا “ لپیٹنا۔ ” السِّجِلِّ “ کا معنی ہے صحیفہ، کتاب بھی ہے اور کاتب بھی۔ (قاموس) یہاں کاتب معنی زیادہ موزوں ہے، کیونکہ کاتب کاغذات لکھنے کے بعد آخر میں لپیٹ کر اکٹھے کرلیتا ہے۔ (ابن عاشور) بعض لوگوں نے ایک فرشتے کا نام ” سجل “ بتایا ہے اور بعض نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کاتب کا نام ” سجل “ بتایا ہے، مگر یہ دونوں درست نہیں، نہ کسی فرشتے کا نام ” سجل “ ثابت ہے اور نہ کسی صحابی کا۔ ” یَوْمَ “ یعنی جن چیزوں کا ذکر اوپر گزرا یہ سب اس دن ہوں گی جس دن۔۔ (أَيْ تَکُوْنُ ھٰذِہِ الْأَشْیَاءَ یَوْمَ ) ۔ (بقاعی) نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ : یعنی جس طرح کاتب اپنے اوراق لپیٹ لیتا ہے اسی طرح ہم آسمانوں کو لپیٹ دیں گے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بات کچھ تفصیل سے آئی ہے، چناچہ فرمایا : (وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ڰ وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ ) [ الزمر : ٦٧ ] ” اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ “ اور ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقْبِضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْأَرْضَ وَتَکُوْنُ السَّمَاوَاتُ بِیَمِیْنِہِ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( لما خلقت بیدی ) : ٧٤١٢ ] ” بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام زمینوں کو مٹھی میں لے لے گا اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ “ مزید تفصیل سورة زمر (٦٧) میں دیکھیے۔ سلف صالحین کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح قرآن و حدیث میں آئی ہیں ان کا اسی طرح عقیدہ رکھنا چاہیے اور انھیں اسی طرح بیان کرنا چاہیے، نہ ان کا انکار کیا جائے اور نہ تاویل، نہ یہ کہا جائے کہ ان الفاظ کا معنی ہی ہمیں معلوم نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کے مشابہ نہ سمجھا جائے۔ كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۔۔ : ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں نصیحت کی خاطر خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا : ( یَا أَیُّھَا النَّاسُ ! إِنَّکُمْ تُحْشَرُوْنَ إِلَی اللّٰہِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ) [ مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہا، باب فناء الدنیاء : ٥٨؍٢٨٦٠۔ بخاري : ٤٧٤٠ ] ” اے لوگو ! تم اللہ کی طرف اس حال میں اٹھائے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، ختنے کے بغیر ہو گے۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ (The Day when We roll up the sky like a scroll rolls up the writings. - 21:104.) According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) the word سِّجِلِّ means a sheet of a book. ` Ali Ibn Abi Talhah, &Aufi’, Mujahid, Qatadah, Ibn Jarir and Ibn Kathir have all adopted the same meaning of the word. The word کُتُب in the verse is used for المَکتُوب that is something written. So the meaning of the verse is that the sky will be rolled up like a scroll with its writings. (Ibn Kathir) Sahih al-Bukhari contains a story on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that on the Day of Judgment Allah Ta` ala would roll up all the seven skies and the seven worlds along with all the created things thereon in His hand, and all of them together would be no more than a grain of rye in His hand. (Ibn Kathir)

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ لفظ سجل کے معنے حضرت ابن عباس سے صحیفہ کے منقول ہیں علی بن طلحہ، عوفی، مجاہد، قتادہ وغیرہ نے بھی یہی معنے بیان کئے ہیں۔ ابن جریر ابن کثیر وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور کتب اس جگہ بمعنے المکتوب ہے معنی یہ ہیں کہ آسمان کو اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس طرح کوئی صحیفہ اپنے اندر لکھی ہوئی تحریر کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا ہے (کذا قالہ ابن کثیر و ذکرہ فی الروح) سجل کے متعلق دوسری روایات کہ وہ کسی شخص یا فرشتہ کا نام ہے محدثین کے نزدیک ثابت نہیں (فصلہ ابن کثیر) آیت کے مفہوم کے متعلق صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب زمینوں اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں رکھیں گے ابن ابی حاتم نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کو ان کے اندر کی تمام مخلوقات کے ساتھ اور ساتوں زمینوں کو ان کی تمام مخلوقات کے ساتھ لپیٹ کر ایک جگہ کردیں گے اور وہ سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ایک رائی کے دانے کی مثل ہوں گے (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۝ ٠ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۝ ٠ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا۝ ٠ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ۝ ١٠٤ طوی طَوَيْتُ الشیءَ طَيّاً ، وذلک كَطَيِّ الدَّرَجِ وعلی ذلک قوله : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ [ الأنبیاء/ 104] ، ومنه : طَوَيْتُ الفلاةَ ، ويعبّر بِالطَّيِّ عن مُضِيِّ العمر . يقال : طَوَى اللهُ عُمرَهُ ، قال الشاعر : طَوَتْكَ خطوبُ دهرک بعد نشر«1» وقوله تعالی: وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] ، يصحّ أن يكون من الأوّل، وأن يكون من الثاني، والمعنی: مهلكات . وقوله :إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه/ 12] ، قيل : هو اسم الوادي الذي حصل فيه «2» ، وقیل : إن ذلک جعل إشارة إلى حالة حصلت له علی طریق الاجتباء، فكأنّه طَوَى عليه مسافةً لو احتاج أن ينالها في الاجتهاد لبعد عليه، وقوله : إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه/ 12] ، قيل : هو اسم أرض، فمنهم من يصرفه، ومنهم من لا يصرفه، وقیل : هو مصدر طَوَيْتُ ، فيصرف ويفتح أوّله ويكسر «3» ، نحو : ثنی وثنی، ومعناه : نادیته مرّتين «4» ، والله أعلم . ( ط و ی ) طویت الشئی طیا کے معنی ہی کسی چیز کو اس طرح لپیٹ لینا ۔ جیسا کہ کپڑے کو اس کی درز پر لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : يَوْمَ نَطْوِي السَّماءَ كَطَيِّ السِّجِلِ [ الأنبیاء/ 104] جس دن ہم آسمان کو اسی طرح لپیٹ لیں گے جسطرح لکھے ہوئے کاغذوں کا طو مار لپیٹ دیا جاتا ہے ۔ اسی سے طویت الفلان ( جنگل کو قطع کرنا ) کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جنگل کی مسافت کو قطع کیا گویا راستوں کو لپیٹ لیا طوی اللہ عمرہ اللہ تعالیٰ نے اس کی عمر ختم کردی گویا اس کی مدت عمر کو لپیٹ دیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 295 ) طوتک خطوب دھرک بعد نشر حوادثات زمانہ نے پھیلا نے کے بعد تمہیں لپیٹ دیا ( یعنی تمہاری عمر ختم کردی اور بعض نے کہا ہے کہ آیت کریمہ : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوں گے ۔ میں مطویات کا لفظ یا تو طویت الشئی کے محاورہ سے ماخوذ ہوگا جس کے معنی لپیٹ دینا کے ہیں اور یا طوی اللہ عمر سے ماخوذ ہوگا اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز آسمان کو فنا کردیا جائے گا ۔ اور آیت ؛إِنَّكَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً [ طه/ 12] تم ( یہاں ) پاک میدان ( یعنی ) طوی میں ہو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ طوی اسی وادی المقدس کا نام ہے جہا حضرت موسٰی پہنچ چکے تھے ۔ اور بعض کہتے ہیں کہ طوی اس مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس سے انہیں اجتباء کے طور پر نوازا گیا تھا اگر وہ اس مرتبہ کو مساعی اور اجتہاد کی راہ سے حاصل کرنا چاہتے تو اس قدر طویل مسافت کو طے نہیں کرسکتے تھے وادی نبوت تک پہنچنے کی تما م مسافتیں ان کے لئے لپیٹ دی گئیں پھر اگر اسے اس وادی کا نام قرار دیا جائے تو اسے غیر منصرف بھی پڑھ سکتے ہیں اور منصرف بھی اور اگر اسے طویت کا مصدر ماناجائے تو منصرف ہی پڑھا جائیگا اور ثنی وثنی کی طرح فا کلمہ ( ط ) پر دونوں حرکتیں جائز ہوں گی اور اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے موسٰی (علیہ السلام) ہ کو دو مرتبہ پکارا ۔ سجل والسِّجِّيلُ : حجر وطین مختلط، وأصله فيما قيل : فارسيّ معرّب، والسِّجِلُّ : قيل حجر کان يكتب فيه، ثم سمّي كلّ ما يكتب فيه سجلّا، قال تعالی: كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء/ 104] «6» ، أي : كطيّه لما کتب فيه حفظا له . ( س ج ل ) السجل ۔ السجیل سنگ گل کو کہتے ہیں اور اصل میں جیسا کہ کہا گیا ہے ۔ یہ لفظ فارسی سے معرب ہے بعض نے کہا ہے کہ السجل کے اصل معنی اس پتھر کے ہیں جس پر لکھا جاتا تھا بعد ہ ہر اس چیز کو جس پر لکھا جائے سجل کہنے لگے ہیں ۔ قرآن میں ہے : كطيّ السّجلّ للکتاب [ الأنبیاء/ 104] جیسے خطول کا مکتوب لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ یعنی لکھی ہوئی چیزوں کی حفاظت کے لئے اسے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔ بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٤) اور قیامت کا دن بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جس دن ہم آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ پر اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے اور جس طرح پہلی بار ان کو ہم نے نطفہ سے پیدا کیا تھا، اسی طرح پھر دوبارہ قبروں سے پیدا کردیں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم ضرور مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٤ (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط) ” یہاں پر ” السَّمَوٰت “ (جمع ) کے بجائے صرف السَّمَآء (واحد) استعمال ہوا ہے ‘ جس سے اس رائے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے کہ یہ صرف آسمان دنیا کے لپیٹے جانے کی خبر ہے اور یہ کہ قیامت کے زلزلے کا عظیم واقعہ : (اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ ) ( الح ج) صرف ہمارے نظام شمسی کے اندر ہی وقوع پذیر ہوگا۔ اسی نظام کے اندر موجودُ کرّے آپس میں ٹکرائیں گے : (وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ) (القیامہ) اور یوں یہ پورا نظام تہہ وبالا ہوجائے گا۔ فرمایا کہ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے کتابوں کے طومار (scrolls) لپیٹے جاتے ہیں۔ (کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ط) ” اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے Theory of the Expanding Universe کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس نظریہ (Theory) کے مطابق یہ کائنات مسلسل وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ اس میں موجود ہر کہکشاں مسلسل چکر لگا رہی ہے اور یوں ہر کہکشاں کا دائرہ ہر لحظہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر نظر کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ قیامت برپا کرنے کے لیے کائنات کے پھیلنے کے اس عمل کو الٹا دیا جائے گا ‘ اور اس طرح یہ پھر سے اسی حالت میں آجائے گی جہاں سے اس کے پھیلنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا۔ اس تصور کو سمجھنے کے لیے گھڑی کے ” فَنّر “ کی مثال سامنے رکھی جاسکتی ہے ‘ جس کا دائرہ اپنے نقطۂ ارتکاز کے گرد مسلسل پھیلتا رہتا ہے ‘ لیکن جب اس میں چابی بھری جاتی ہے تو یہ پھر سے اسی نقطۂ ارتکاز کے گرد لپٹ کر اپنی پہلی حالت پر واپس آجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٤:۔ تفسیر ابن حریر وغیرہ میں علی بن طلحہ کی سند سے سجل کے لفظ کے معنی خط اور دفتر کے جو بیان کیے گئے ہیں وہی معنی صحیح ہیں اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان کو لپیٹ لے گا ‘ جس طرح کوئی کاغذ کو لپیٹ لیتا ہے۔ ابوداؤد اور نسائی میں یہ روایت ہے کہ سجل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کاتب کا نام ہے اس روایت کی سند میں اکثر علمائے محدثین کو کلام ہے ‘ بعضے مفسرین نے یہ جو لکھا ہے کہ دوسرے آسمان پر ایک فرشتہ ہے جس کے پاس کراما کاتبین پیر اور جمعرات کے روز بنی آدم کے اعمال پیش کرتے ہیں ١ ؎‘ اس اس فرشتہ کا نام سجل ہے ‘ اس روایت کا پتہ صحیح تفسیروں سے اس قدر لگتا ہے کہ پہلے انسان کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو کراما کاتبین لکھ لیتے ہیں پھر جمعرات کے روز اس میں سے آسمان پر صرف وہ باتیں چھانٹ لی جاتی ہیں جو ثواب یا عذاب کے قابل ہیں غرض اس کام کا دفتر جو آسمان پر ہے ‘ اس دفتر کے اہل دفتر میں سے سجل نام کا کوئی فرشتہ ہو تو عجب نہیں لیکن جب تک کوئی صحیح روایت اس باب میں نہ ملے۔ عقل سے ایسے ابواب میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ جس وقت پہلا صور پھونکا جاکر تمام دنیا فنا ہوجاوے گی اور چالیس برس تک ساری دنیا ویران پڑی رہے گی۔ بڑے بڑے ملک اور حکومت کے دعوے کرنے والے جو ہیں یہ سب مٹ جاویں گے اور خاک کے ڈھیر ہو کر پڑے ہوئے ہوں گے اس وقت اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کو اور تمام عالم کو لپیٹ کر اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور فرمائے گا آج کہاں گئے وہ ملک اور بادشاہت کا دعویٰ کرنے والے جب کوئی جواب دینے والا پیدا نہ ہوگا تو آخر کو فرمائے گا سب ملک اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہی بادشاہ ہے زیادہ تفسیر اس کی سورة زمر اور سورة مومن میں آئے گی۔ صحیح بخاری ومسلم وغیرہ کی روایتیں جو اس بات میں ہیں وہ بھی ان ہی سورتوں کی تفسیر میں آویں گی ‘ صحیح بخاری ومسلم ٢ ؎ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب لوگ ننگے پاؤں ننگے بدن بغیر ختنہ کیے ہوئے قبروں سے اٹھیں گے یہ حدیث کما بدانا اول خلق نعیدہ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس طرح اب بچہ ننگے پاؤں ‘ ننگے بدن ‘ بغیر ختنہ کیا ہوا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے قیامت کے دن سب لوگ قبروں سے اسی حالت میں اٹھیں گے آگے فرمایا دوبارہ پیدا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا ایک یقینی وعدہ ہے جس کا ظہور ضرور ہوگا۔ (١ ؎ پیر اور جمعرات کے دن عملوں کے پیش ہونے والی روایات کے لیے ملا حظہ ہو الترغیب والترہیب ١٢٤ ج ٢ کتاب الصوم ” سجل “ کان میں نام نہیں (ع۔ ح ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب الحشرص ٤٨٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:104) نطوی۔ مضارع جمع متکلم طی مصدر (باب ضرب) ہم لپیٹ دیں گے۔ طوی مادہ طویت الشیء طیا۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو لپیٹ دینا اس طرح جیسا کہ کپڑے کو اس کی درز پر لپیٹ دیا جاتا ہے (درز کپڑے کی سیون) یعنی یاد کرو وہ دن جب ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے کاغذوں کا طومار لپیٹ دیا جاتا ہے۔ (طومار جمع طوامیر کاغذ وغیرہ کا سکرول ۔ مٹھا) اور جگہ قرآن مجید میں ہے والسموت مطویات بیمینہ (39:67) اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ کطی۔ ک تشبیہ کے لئے ہے ۔ طی۔ طوی یطوی (ضرب) لپیٹنا۔ کا مصدر ہے۔ السجل۔ کاغذ کا طومار (سکرول مٹھا) صحیفہ۔ محضر۔ کطی السجل کاغذ کے طومار کی طرح لپیٹنا۔ بدانا۔ بدء وابتداء سے ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہم نے پہلے شروع کیا۔ ہم نے ابتدا میں بنایا۔ (باب فتح) نعیدہ۔ اعادۃ مصدر سے مضارع کا صیغہ جمع متکلم۔ ہم اسے دوبارہ کردیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے تخلیق اول کی ابتدا کی تھی (فناء کے بعد) اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے (یعنی اسے پھر پیدا کردیں گے) ۔ کما۔ جیسے ۔ جس طرح۔ کاف تشبیہ کا ہے اور ما موصولہ۔ جملہ مابعد اس کا صلہ۔ وعدا علینا۔ وعدا مصدر منصوب جس کا فعل محذوف ہے مصدر کو فعل کی تاکید کے لئے لایا گیا ہے۔ علینا ای لازما علینا (یہ) وعدہ (پورا کرنا) ہم پر لازم ہے۔ یقینا ہم (ایسا) کرنے والے ہیں۔ یعنی یہ ایک وعدہ ہمارے ذمے ہے اور ہم اس کو ضرور پورا کرینگے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ۔ جیسے دوسری آیت (زکر :76) میں فرمایا : والسموات مطویات بمینہ : کہ آسمان اس کی دائیں مٹھی میں لپٹے ہوں گے۔ ایک حدیث میں بھی یہ صریحاً ثابت ہے بعض کا قول ہے کہ یہاں ” سجل “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک کاتب کا نام ہے مگر یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔ (ابن کثیر) 11 ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ” تم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ننگے پائوں، ننگے بدن اور غیر محتون جمع کئے جائو گے “ (قرطبی بحوالہ مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 104 تا 106 نطوی ہم لپیٹ دیں گے۔ طی لپیٹ دینا۔ ال سجل لکھے ہوئے کاغذ کا بنڈل۔ بدانا ہم نے ابتدا کی تھی۔ نعید ہم لوٹا دیں گے۔ یرت وارث ہوگا۔ ، مالک ہوگا۔ بلغ پہنچا دینا۔ تشریح : آیت نمبر 104 تا 106 گزشتہ آیات میں قیامت کے ہولناک دن کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان آیات میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن ہم اس آسمان کو جو دنیا والوں کو بہت بڑا نظر آتا ہے اس طرح لپیٹ کر رکھ دیں گے جس طرح لکھے ہوئے کاغذوں کو لپیٹ دیا جاتا ہے اور جس طرح اللہ نے پہلی مرتبہ انسان کو پیدا کیا تھا اسی طرح اس کو دوبارہ تخلیق فرما دیں گے یہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کی قدرت کے سامنے اس کام کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ فرمایا کہ اللہ کا ایک وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زبور میں اور اس کے بعد آنے والی کتابوں میں بھی لکھ دیا ہے کہ روئے زمین کے وارث اللہ کے نیک اور صالح بندے ہوں گے اور اللہ کی عبادت اور بندگی کرنے والوں کے لیئے یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ علما مفسرین نے اس بات پر غور و فکر کیا ہے کہ اس میں خاص طور پر زبور کا ذکر کیوں کیا گیا ہے۔ کیا اس سے مراد صرف زبور ہی ہے اس کے لئے بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ زبور سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں اور ذکر سے مراد قرآن کریم ہے۔ اس کا مطالب یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے نیک بندوں سے ہر زمانہ میں اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ جب بھی وہ نیکی اور پرہیز گاری کا کردار پیش کریں گے تو ان کو زمین کا وارث بنا دیا جائے گا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ زمین سے مراد جنت کی زمین ہے۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ کفار کی سر زمین ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ پیشین گوئی فرما دی تھی کہ بہت جلد اہل ایمان کو کفار کی سر زمین پر غلبہ عطا کیا جائے گا۔ بہرحال اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جب بھی اہل ایمان اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ان کو ہر جگہ سربلندی نصیب ہوگی اور یہی چیز ان کو جنت کی راحتوں تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس دن بروں کو سزا اور نیک لوگوں کو جزا دی جائے گی اس کی ابتداء اس طرح ہوگی۔ جب پہلا صور پھونکا جائے گا تب قیامت برپا ہوجائے گی۔ ہر چیز فنا اور ہر نفس ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور آسمان کو تحریر شدہ کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ اسی حالت میں کردیں گے جس حالت میں پہلے تھی یعنی دنیا کی ہر چیز ختم کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسا ضرور کرے گا کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ یہ وعدہ ہے جسے ہم ضرور پورا کریں گے زمین کے وارث نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل کی گئی، کتاب زبور میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ زبور کا اس لیے ذکر ہے کہ انبیاء کرام میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے نبی ہیں جو بیک وقت نبی اور باضابطہ حکمران بنائے گئے تھے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اپنے رب کی غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن آسمان کے لپیٹے جانے کی نوعیت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے جس طرح کھلے کاغذات کو لکھنے والا اپنی تحریر سے فارغ ہونے کے بعد سلیقے کے ساتھ اوپر، نیچے رکھ کر ایک دستے کی شکل دیتا ہے۔ یا بڑے کاغذات کو رول بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسی انداز میں آسمانوں کو تہہ بہ تہہ جوڑ کر ایک طرف رکھ دیں۔ اس کے بعد نیک لوگوں کو نئی زمین یعنی جنت کا وارث بنایا جائے گا۔ کچھ جدت پسندوں نے اس آیت کا من ساختہ مفہوم لے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ” صَالِحُوْنَ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اقتدار سنبھالنے اور مستحکم نظام چلانے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں اور انہیں ہی حکمران بنایا جاتا ہے۔ یہ ایسا معنی ہے جو سراسر انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی جدوجہد کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد دنیا کا اقتدار لیا جائے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیونکہ فرعون نمرود اور قریش مکہ سے بڑھ کر کس کا نظام مستحکم ہوسکتا ہے۔ جدت پسندوں کا استدلال اس لیے بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ دنیا میں صالح لوگوں کو اقتدار خال خال ہی نصیب ہوا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم اس کے سیاق وسباق کے حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب اس دنیا کو ختم کرکے ایک نئی دنیا معرض وجود میں لائی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تبدیل شدہ زمین کا وارث نیک لوگوں کو بنائے گا۔ جسے جنت قرار دیا گیا ہے اور اسی کا جنتی شکرانے کے طور پر اظہار کریں گے۔ گویا کہ وہ یہ زمین نہیں بلکہ جنت کی زمین ہوگی۔ (وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ ) [ الزمر : ٧٤] ” وہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے اپنے وعدے کو سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جس مقام میں چاہیں رہیں کتنا اچھا اجر ہے نیک عمل کرنے والوں کا۔ “ کچھ مفسرین نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا کہ زمین سے مراد جنت نہیں بلکہ یہ زمین ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ مفسروں نے اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس جنت کا قرآن ذکر کرتا ہے وہ آسمان پر نہیں بلکہ زمین میں چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ تصور بھی قرآن اور حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت اور جہنم کا مشاہدہ آسمانوں پر کروایا گیا تھا نہ کہ زمین پر۔ اللہ تعالیٰ جنت کا وارث صالح لوگوں کو بنائے گا۔ اس کے لیے ١٠٥ آیت پیش کی جاتی ہے۔ جس کا بظاہر ان آیات کے ساتھ سیاق وسباق نہیں ملتا۔ تاہم اگر کوئی اس آیت سے مراد دنیا کی خلافت لیتا ہے تو صالح سے مراد صرف توحید کے قائل اور نماز، روزہ کرنے والے نیک لوگ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ صالح لوگ ہیں جو دین کے انفرادی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اس کے اجتماعی تقاضے بالخصوص جہاد اور اتحاد کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمانوں کو کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کرنے کا وعدہ ہر صورت پورا کرئے گا۔ ٣۔ جنت کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت میں داخل ہونے والے حضرات کے اوصاف : ١۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : ١٤، حم السجدۃ : ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٨٢) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (النساء : ١٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (الرحمن : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم نطوی السماء کطی السجل للکتب (٢١ : ١٠٣) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ آسمان اس طرح لپیٹ دیا جائے گا جس طرح ریکارڈ کی پر ریکارڈ کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اب یہ منظر ختم ہوتا ہے اور یہ کائنات اس طرح لپیٹ دی جاتی ہے جس طرح ہمارے کاغذات اب کیا ہے ایک نئی دنیا اور ایک نئی کائنات اور نیا جہاں۔ کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فعلین (٢١ : ١٠٣) ” جس طر ہم نے پہلے تخلیق کی ابتداء کی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔ “ کائنات کے خاتمہ کے اس خوبصورت منظر کو پیش کرنے کے بعد اور آخرت میں دوبارہ جہاں کو پیدا کرنے کے لئے ، روئے سخن پھر اس زمین کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کی آل سنت بیان کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے اقتدار اعلیٰ کی وراثت کا حق میرے صالح بندوں کا ہے اور یہ حق ان کو اس لئے دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی بندگی کر کے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرچکے ہیں ان دونوں مناظر کے درمیان پورا ربط ہے۔ آخرت بھی نیک بندوں کی اور دنیا بھی نیک بندوں کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن آسمان کا لپیٹا جانا، جس طرح ابتدائے آفرینش ہوئی اسی طرح دوبارہ پیدا کیے جائیں گے گزشتہ آیات میں مشرکین اور ان کے باطل معبودوں کے دوزخ میں داخل ہونے اور اس میں ہمیشہ رہنے کا اور ان حضرات کے اہل جنت ہونے کا ذکر تھا جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی سے بھلائی مقدر ہوچکی ہے۔ ان حضرات کے بارے میں فرمایا کہ اپنی جی چاہی چیزوں میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ کہ انہیں بڑی گھبراہٹ غم میں نہ ڈالے گی اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور یوں کہیں گے کہ یہ تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ چونکہ ان چیزوں کا تعلق وقوع قیامت سے ہے اس لیے اس کے بعد اس کا تذکرہ فرمایا کہ قیامت کا واقع کرنا ہمارے لیے معمولی سی بات ہے۔ تمہاری نظروں کے سامنے سب سے بڑی چیز آسمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں۔ اسی کو فرمایا کہ اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جیسے مضمون لکھی ہوئی کتاب کو لپیٹ دیا جاتا ہے۔ جس طرح لکھنے والے کاغذ کو لپیٹ دیتے ہیں ہم اسی طرح آسمان کو لپیٹ دیں گے۔ جب آسمان کا یہ حال ہوگا تو دوسری مخلوق کی تو حیثیت ہی کیا ہے۔ ھذا علی احد الاقوال فی معنی السجل و الکتاب، و فی الدر المنثور، ص ٣٤٧، ج ٤، عن ابن عباس (رض) کطی الصحیفۃ ” علی الکتاب “ الدال علی المکتوب۔ دوسری آیات میں آسمان کے پھٹنے کا اور رنگی ہوئی اون کے گالوں کی طرح ہوجانے کا ذکر ہے۔ یہ مختلف احوال کے اعتبار سے ہے۔ پہلے لپیٹ دیا جائے پھر وہ پھٹ جائے اس میں کوئی تعارض کی بات نہیں ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والے جو یہ سوال اٹھاتے تھے کہ دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے اس کے جواب میں فرمایا (کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ) (جس طرح ہم نے مخلوق کی پہلی بار ابتدا کی تھی ہم اس طرح لوٹا دیں گے) یہ بات عجیب ہے کہ پہلی بار جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا منکرین بعث اس کو مانتے ہیں اور دوبارہ پیدا کیے جانے کے منکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جیسے پہلے پیدا فرمایا پھر اسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے۔ سمجھ کی بات تو یہ ہے کہ جس نے بےمثال تخلیق کردی اسے دو بارہ پیدا کرنے میں اور زیادہ آسانی ہونی چاہیے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے لیے ابتدا اور اعادہ دونوں برابر ہیں۔ پھر دو بارہ پیدا کرنے کا انکار کیوں ہے ؟ (وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ ) (یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے بلاشبہ ہم کرنے والے ہیں) کوئی مانے یا نہ مانے قیامت آئے گی، فیصلے ہوں گے۔ جنتی جنت میں، دوزخی دوزخ میں جائیں گے۔ اس کے بعد فرمایا کہ ذکر یعنی لوح محفوظ کے بعد آسمانی کتابوں میں ہم نے لکھ دیا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات لوح محفوظ میں اور آسمانی کتابوں میں لکھ دی اور بتادی ہے کہ زمین کے وارث صالحین ہوں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

79:۔ ” یَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ الخ “” یوم “ کا عامل ” اذکر “ محذوف مانا گیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے اصول کے مطابق اس کا عامل لا یحزنھم یا تتلقھم ہے۔ منصوب باذکر وقیل ظرف للا یحزنم وقیل ظر لتتلقاھم (روح) ۔ اعلم ان التقدیر لا یحزنھم الفزع الاکبر یوم نطوی السماء او وتتلقھم الملئکۃ یوم نطوی السماء (کبیر ج 6 ص 200) ۔ 80:۔ ” کَطَیِّ السِّجِل الخ “ جس طرح بہت سے کاغذوں کے طومار کو لپیٹ دیا جاتا ہے اس طرح قیامت کے دن آسمانوں کی صفوں کو لپیٹ دیا جائے گا۔ یہ نظام عالم کے درہم برہم کرنے سے کنایہ ہے۔ آسمانی تعلیم از آدم تا خاتم النبیین علیہم الصلوۃ والسلام اس پر ناطق ہے کہ یہ عالم کون و فساد حادث ہے اور وہ فنا ہوجائیگا۔ فلاسفہ ملاحدہ نے اس میں اختلاف کیا ہے اور وہ عالم کو ازلی و ابدی مانتے ہیں جو صریح البطلان ہے البتہ صدر الدین شیرازی نے اپنی کتاب اسفار اربعہ میں لکھا ہے کہ متقدین میں اساطین فلاسفہ فناء عالم کے قائل تھے البتہ متاخرین کوتاہ نظری اور بےبصیرتی کی وجہ سے عالم کی ابدیت کے قائل ہیں۔ متقدمین فلاسفہ جو فناء عالم کے قائل ہیں ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں۔ انکسیمائس ملطی۔ فیثا غورث۔ افلاطون اور اس کا شاگرد ارسطا طالیس (کذا فی الروح ج 17 ص 100) ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ 81:۔ ” کَمَا بَدَاْنَا اَوَّلَ خَلْقٍ الخ “ جس طرح آسانی اور سہولت کے ساتھ ہم نے اس ساری مخلوق کو پیدا کیا تھا۔ بالکل اس طرح ہم دوبارہ پیدا کرلیں گے یہ نہایت پختہ بات ہے اور ہم اس پر قادر ہیں اور لا محالہ ایسا کریں گے۔ ” وَعْدًا “ مفعول مطلق ہے۔ فعل مقدر کا۔ ای وعدنا وعدا۔ ” عَلَیْنَا “ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای علینا انجازہ والوفاء بہ ای من البعث والاعادۃ (قرطبی ج 11 ص 348) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(104) اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن ہم آسمانوں کو اس طرح لپیٹ لیں گے جس طرح لکھے ہوئے مضمون کا کاغذ لپیٹ لیا جاتا ہے جس طرح ہم نے اول مرتبہ مخلوقات کو پیدا کرنے کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم اس کا دوبارہ اعادہ کریں گے یہ ہمارے ذمہ وعدہ ہے ہم اس کور ضرور کرنے والے ہیں۔ یعنی جس طرح کسی لمبے اور طویل کاغذ کی بتی بنالیتے ہیں جیسا کہ قبالہ نویس کیا کرتے تھے اسی طرح حضرت حق جل مجدہ آسمانوں کو لپیٹ لیں گے اور یہ نضخہ اولیٰ کے وقت ہوگا آگے مخلوق کے دوبارہ پیدا کرنے کا ذکر ہے کہ نفخہ ثانیہ کے وقت سب کو دوبارہ زندہ کرلیا جائے گا جس طرح پہلی مرتبہ آفرینش کی ابتداء ہوئی تھی اسی طرح پھر اعادہ کیا جائے گا۔ آگے تاکیداً فرمایا یہ دوبارہ پیدا کرنا ہمارے ذمہ وعدہ ہے جس کو ہم ضرور پورا کرنے والے ہیں۔