Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 105

سورة الأنبياء

وَ لَقَدۡ کَتَبۡنَا فِی الزَّبُوۡرِ مِنۡۢ بَعۡدِ الذِّکۡرِ اَنَّ الۡاَرۡضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ ﴿۱۰۵﴾

And We have already written in the book [of Psalms] after the [previous] mention that the land [of Paradise] is inherited by My righteous servants.

ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ( ہی ) ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Earth will be inherited by the Righteous Allah tells us of His decree for His righteous servants who are the blessed in this world and in the Hereafter, those who will inherit the earth in this world and in the Hereafter. As Allah says: إِنَّ الاَرْضَ للَّهِ يُورِثُهَا مَن يَشَأءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَـقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ Verily, the earth is Allah's. He gives it as a heritage to whom He wills of His servants; and the (blessed) end is for those who have Taqwa. (7:128) إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ Verily, We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth. (40:51) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءامَنُواْ مِنْكُمْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الاْرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ Allah has promised those among you who believe and do righteous good deeds, that He will certainly grant them succession in the land, as He granted it to those before them, and that He will grant them the authority to practice their religion which He has chosen for them. (24:55) Allah tells us that this is recorded in the Books of Divine Laws and Decrees, and that it will inevitably come to pass. Allah says: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ ... And indeed We have written in Az-Zabur after Adh-Dhikr, Al-A`mash said: "I asked Sa`id bin Jubayr about the Ayah: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ (And indeed We have written in Az-Zabur after Adh-Dhikr, He said: `Az-Zabur means the Tawrah, the Injil and the Qur'an."' Mujahid said, "Az-Zabur means the Book." Ibn Abbas, Ash-Sha`bi, Al-Hasan, Qatadah and others said, "Az-Zabur is that which was revealed to Dawud, and Adh-Dhikr is the Tawrah." Mujahid said: "Az-Zabur means the Books which came after Adh-Dhikr, and Adh-Dhikr is the Mother of the Book (Umm Al-Kitab) which is with Allah." This was also the view of Zayd bin Aslam: "It is the First Book." Ath-Thawri said: "It is Al-Lawh Al-Mahfuz." ... أَنَّ الاَْرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ that My righteous servants shall inherit the land. Mujahid said, narrating from Ibn Abbas, "This means, the land of Paradise." This was also the view of Abu Aliyah, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ash-Sha`bi, Qatadah, As-Suddi, Abu Salih, Ar-Rabi` bin Anas and Ath-Thawri (may Allah have mercy on them). إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَغًا لِّقَوْمٍ عَابِدِينَ

سچافیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس طرح آخرت میں دے گا اسی طرح دنیا میں بھی انہیں ملک ومال دیتا ہے ، یہ اللہ کا حتمی وعدہ اور سچا فیصلہ ہے ۔ جیسے فرمان آیت ( اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٢٨؁ ) 7- الاعراف:128 ) زمین اللہ کی ہے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے ، انجام کارپرہیزگاروں کا حصہ ہے ۔ اور فرمان ہے ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی دنیا میں اور آخرت میں مدد فرماتے ہیں اور فرمان ہے کہ تم میں سے ایمان داروں اور نیک لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں زمین میں غالب بنائے گا جیسے کہ ان سے اگلوں کو بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو قوی کردے گا جس سے وہ خوش ہے ۔ اور فرمایا کہ یہ شرعیہ اور قدریہ کتابوں میں مرقوم ہے ، یقینا ہو کرہی رہے گا ۔ زبور سے مراد بقول سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ تورات انجیل اور قرآن ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں زبور سے مراد کتاب ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی ۔ ذکر سے مراد یہاں پر توراۃ ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ذکر سے مراد قرآن ہے سعید فرماتے ہیں ذکر وہ ہے جو آسمانوں میں ہے یعنی اللہ کے پاس کی ام الکتاب جو سب سے پہلی کتاب ہے یعنی لوح محفوظ ۔ یہ بھی مروی ہے کہ زبور اور وہ آسمانی کتابیں جو پیغمبروں پرنازل ہوئیں اور ذکر مراد پہلی کتاب یعنی لوح محفوظ ۔ فرماتے ہیں توراۃ زبور اور علم الٰہی میں پہلے ہی یہ فیصلہ ہوگیا تھا کہ امت محمد زمین کی بادشاہ بنے گی اور نیک ہو کر جنت میں جائے گی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین سے مراد جنت کی زمین ۔ ابو درداء فرماتے ہیں صالح لوگ ہم ہی ہیں ۔ مراد اس سے باایمان لوگ ہیں اس قرآن میں جو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے پوری نصیحت وکفایت ہے ان کے لئے جو ہمارے عبادت گزار بندے ہیں ۔ جو ہماری مانتے ہیں اپنی خواہش کو ہمارے نام پر قربان کردیتے ہیں پھر فرماتا کہ ہم نے اپنے اس نبی کو رحمۃللعالمین بنا کر بھیجا ہے پس اس نعمت کی شکر گزاری کرنے والا دنیاوآخرت میں شادماں ہے اور ناقدری کرنے والا دونوں جہاں میں برباد وناشاد ہے ۔ جیسے ارشاد ہے کہ کیا تم نے انہیں دیکھا جنہوں نے نعمت ربانی کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو غارت کردیا ۔ اس قرآن کی نسبت فرمایا کہ یہ ایمان والوں کے لئے ہدایت وشفا ہے بے ایمان بہرے اندھے ہیں صحیح مسلم میں ہے کہ ایک موقع پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کافروں کے لئے بدعا کیجئے آپ نے فرمایا کہ میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں میں تو صرف رحمت وہدایت ہوں ۔ اور روایت میں اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مجھے ایک قوم کی ترقی اور دوسری کے تنزل کے ساتھ بھیجا گیا ہے ۔ طبرانی میں ہے کہ اے قریشیو! محمد یثرب میں چلا گیا ہے اپنے طلائیے کے لشکر ادھرادھر تمہاری جستجو میں بھیج رہا ہے ۔ دیکھو ہوشیار رہنا وہ بھوکے شیر کی طرح تاک میں ہے وہ خار کھائے ہوئے ہے کیونکہ تم نے اسے نکال دیا ہے واللہ اس کے جادوگر بےمثال ہیں میں تو اسے یا اس کے ساتھیوں میں سے جس کسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے ساتھ شیطان نظر آتے ہیں تم جانتے ہو کہ اوس اور خزرج ہمارے دشمن ہیں اس دشمن کو ان دشمنوں نے پناہ دی ہے اس پر مطعم بن عدی کہنے لگے ابو الحکم سنو تمہارے اس بھائی سے جسے تم نے اپنے ملک سے جلاوطن کردیا ہے میں نے کسی کو زیادہ سچا اور زیادہ وعدے کا پورا کرنے والا نہیں پایا اب جب کہ ایسے بھلے آدمی کے ساتھ تم یہ بدسلوکی کرچکے ہو تو اب تو اسے چھوڑو تمہیں چاہئے اس سے بالکل الگ تھلک رہو ۔ اس پر ابو سفیان بن حارث کہنے لگا نہیں تمہیں اس پر پوری سختی کرنی چاہئے یاد رکھو اگر اس کے طرفدار تم پر غالب آگئے تو تم کہیں کے نہ رہوگے وہ رشتہ دیکھیں گے نہ کنبہ میری رائے میں تو تمہیں مدینے والوں کو تنگ کر دینا چاہئے کہ یا تو وہ محمد کو نکال دیں اور وہ بیک بینی دوگوش تن تنہا رہ جائے یا ان مدینے والوں کا صفایا کر دینا چاہیے اگر تم تیار ہوجاؤ تو میں مدینے کہ کونے کونے پر لشکر بٹھادوں گا اور انہیں ناکوں چنے چبوا دونگا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم جس کہ ہاتھ میری جان ہے میں ہی انہیں قتل وغارت کروں گا اور قید کر کے پھر احسان کرکے چھوڑوں گا میں رحمت ہوں میرا بھیجنے والا اللہ ہے وہ مجھے اس دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک اپنے دین کو دنیا پر غالب نہ کردے ۔ میرے پانچ نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی ، یعنی میری وجہ سے اللہ کفر کو مٹادے گا ، حاشر اس لئے کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کئے جائیں گے اور عاقب ۔ مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدائن میں تھے بسااوقات احادیث رسول کا مذاکرہ رہا کرتا تھا ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سلمان کے پاس آئے تو حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے حذیفہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ جسے میں نے غصے میں برا بھلا کہہ دیا ہو یا اس پر لعنت کردی ہو تو سمجھ لو کہ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہی ہوں تمہاری طرح مجھے بھی غصہ آجاتا ہے ۔ ہاں البتہ میں چونکہ رحمتہ اللعالمین ہوں تو میری دعا ہے کہ اللہ میرے ان الفاظ کو بھی ان لوگوں کے لئے موجب رحمت بنادے ۔ رہی یہ بات کہ کفار کے لئے آپ رحمت کیسے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ابن جریر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اسی آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ مؤمنوں کے لئے تو آپ دنیا وآخرت میں رحمت تھے اور غیر مؤمنوں کے لئے آپ دنیا میں رحمت تھے کہ وہ زمین میں دھنسائے جانے سے ، آسمان سے پتھر برسائے جانے سے بچ گئے ۔ جیسے کہ اگلی امتوں کے منکروں پر عذاب آئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

105۔ 1 زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پندونصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہوگئے تو اقتدار سے بھی محروم کردئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود و ضابطوں پر کاربند رہنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] اس آیت کے معنی بعض اہل مغرب کے شیدائیوں نے نہایت غلط تعبیر پیش کی ہے۔ وہ اس آیت میں صالحون سے مراد اللہ تعالیٰ کے فرمانروا اور نیک بخت بندے مراد لیتے بلکہ ان کے نزدیک صالحون سے مراد صلاحیت رکھنے والے لوگ ہیں۔ یعنی جو لوگ بھی اس وقت روئے زمین پر حکمرانی کر رہے ہیں یا حکمران کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہی اللہ کے نزدیک صالح ہیں۔ خواہ وہ بدکردارہوں، کافر ہوں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بھی منکر ہوں اور یہ نظریہ کتاب و سنت کی مجموعی تعلیم کے سراسر منافی ہے۔ حالانکہ اس آیت اور اس سے پہلی آیات ٣ میں اخروی زندگی اور جنت کا ذکر ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت اور جنت کی زمین کے وارث صرفو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار اور صالح لوگ ہیں اور اس معنی کی تائید سورة زمر کی درج ذیل آیت سے بھی ہوجاتی ہے : ( وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚفَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ 74؀) 39 ۔ الزمر :74) && اور اہل جنت کہیں گے کہ ہر طرح کی تعریف اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہم سے اپنے وعدہ پورا کردیا اور ہمیں زمین کا وارث بنادیا ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں وہیں رہتے ہیں && رہی اس دنیا کی وراثت تو اس کے متعلق فرمایا : (اِنَّ الاَرْضَ نُوْرِِثُھَا مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ ) (٧: ١٢٨ && ) زمین اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہ اپنے بندوں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے && گویا اس موجودہ دنیا میں زمین کی وراثت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ نیک لوگوں کو ہی ملے۔ بلکہ بدکردار اور فاسق و فاجر بھی اس پر قابض ہوسکتے ہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ضرور ہے کہ جو ایماندار اپنے دعوے ایمان میں اور صالح اعمال کرنے میں سچے اور مخلص ہیں۔ حق و باطل کے معرکہ میں اللہ انھیں ہی کامیاب کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ١٣٩۔ ) 3 ۔ آل عمران :139) اور اگر تم (اپنے اقوال و اعمال میں) مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے && اور ایسے ہی لوگوں کے حق میں اللہ نے فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ 55؀) 24 ۔ النور :55) && تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا && یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ نام نہاد مسلمانوں کے لئے حکمران کا نہیں بلکہ سچ ایمانداروں اور فرمانبرداروں سے خلافت ارضی کا وعدہ ہے جو اقتدار ملنے کے بعد دنیا دار قسم کے حکمران نہیں بلکہ اللہ کی زمین اللہ کا نظام خلافت قائم کرنے والے ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ ۔۔ : زبور کا معنی کتاب ہے، یہاں زبور سے مراد داؤد (علیہ السلام) کی کتاب ہے اور ذکر سے مراد نصیحت ہے، جیسا کہ ترجمہ کیا گیا ہے، کیونکہ موجودہ زبور میں یہ بات موجود ہے۔ یا پھر زبور سے مراد گزشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے، یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہوں گے۔ گویا یہ اللہ تعالیٰ کا کونی فیصلہ بھی ہے اور شرعی بھی۔ اس زمین سے کیا مراد ہے ؟ آیات کے سیاق وسباق کو دیکھنے سے بات صاف سمجھ میں آرہی ہے کہ اس سے مراد زمین و آسمان کی بساط لپیٹنے کے بعد وجود میں آنے والی زمین ہے، جو بطور انعام اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کو عطا کی جائے گی اور وہ ان کی دائمی اور ابدی وراثت ہوگی۔ چناچہ موجودہ زبور اگرچہ تحریف سے خالی نہیں مگر یہ حوالہ اس میں بھی موجود ہے : ” صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔ “ [ زبور، باب : ٣٧، آیت : ٢٩ ] قرآن مجید میں بھی بطور انعام ملنے والی اس وراثت کا ذکر ہے جو ہمیشہ رہے گی، چناچہ فلاح پانے والے مومنوں کے اوصاف ذکر کرنے کے بعد فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَ 10 ۝ ۙالَّذِيْنَ يَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ۭ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) [ المؤمنون : ١٠، ١١ ] ” یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں، جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ “ اور فرمایا : (وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ۚفَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِيْنَ ) [ الزمر : ٧٤ ] ” اور وہ (جنتی) کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنالیں، سو یہ عمل کرنے والوں کا اچھا اجر ہے۔ “ زبور اور قرآن دونوں سے معلوم ہوا کہ صالحین کو بطور انعام ملنے والی وراثت ارض جنت ہے، کیونکہ ہمیشہ کا بسیرا وہی ہے۔ رہی موجودہ زمین، تو اس کی وراثت صالح و طالح، کافر و مسلم دونوں کو ملتی ہے اور صرف انعام کے طور پر نہیں، بلکہ امتحان کے لیے ملتی ہے اور ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ عارضی ہے، جیسا کہ فرمایا : (قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا باللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ١٢٨؁ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ) [ الأعراف : ١٢٨، ١٢٩ ] ” موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، بیشک زمین اللہ کی ہے، وہ اس کا وارث اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے بناتا ہے اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا، ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا، تمہارا رب قریب ہے کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ “ اس زمین کی وراثت نہ نیکی و بدی پر موقوف ہے اور نہ ابدی اور دائمی ہے، فرمایا : (وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ) [ آل عمران : ١٤٠ ] ” اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ “ البتہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر مسلمان صحیح مومن ہوں تو دنیا میں بھی آخر وہی غالب رہیں گے، چناچہ فرمایا : ( وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ) [ آل عمران : ١٣٩ ] ” اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو۔ “ اور فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْن) [ النور : ٥٥ ] ” اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کر امن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “ ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی زَوَی لِيَ الْأَرْضَ فَأُرِیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا وَإِنَّ مُلْکَ أُمَّتِيْ سَیَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِيْ مِنْھَا وَأُعْطِیْتُ الْکَنْزَیْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْیَضَ ) [ أبوداوٗد، الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن و دلائلھا : ٤٢٥٢، و صححہ الألباني ]” اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین تہ کردی تو میں نے اس کے مشرق اور مغرب دیکھ لیے اور میری امت کا ملک وہاں تک پہنچے گا جہاں تک وہ میرے لیے تہ کی گئی ہے اور مجھے سرخ اور سفید (سونا اور چاندی) دو خزانے دیے گئے ہیں۔ “ اور واقعی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق چند ہی سالوں میں مسلمان زمین کے مشرق و مغرب کے مالک بن گئے، مگر جب ان میں ایمان اور عمل صالح کی کمی ہوئی، انھوں نے ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ میں کوتاہی کی اور عیش و عشرت میں پڑگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اور اپنے دشمن سزا دینے کے لیے مسلط کردیے، جس طرح بنی اسرائیل پر بخت نصر کو مسلط کیا تھا۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥ تا ٧) معلوم ہوا ایسا نہیں ہے کہ جو بھی اس زمین کے کسی حصے کا مالک بن جائے وہ صالحین میں شمار ہوگیا، ورنہ فرعون، ہامان، قارون، شداد، نمرود، چنگیز، ہلاکو، ہٹلر، نپولین، بش، کمیونسٹ، گائے اور بتوں کے پجاری اور تثلیث کے فرزند اللہ کے صالح بندے شمار ہوں گے اور آج کل کے روشن خیال یہی چاہتے ہیں کہ مغرب کے مشرکوں، بدکاروں اور ہم جنس پرستوں کو صالح شمار کیا جائے، تاکہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے سے چھٹکارا مل جائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (And We have written in Zabur (Psalms) after the Dhikr (the Torah) that the land will be inherited by My righteous slaves. - 21:105) The word لزَّبُورِ‌(zabur) is the plural of زُبُرّ (zuburr), which means book. It is also the name of the book which was revealed to Sayyidna Dawud (علیہ السلام) . Opinions differ as to the meaning of the word in the present context. According to a version attributed to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) the word ذِکر in the verse refers to Torah, and زبور to all other books revealed after Torah i.e. Zabur (Psalms), Injil (Evangel) and Qur&an. (Ibn Jarir) The same explanation is adopted by Dahhak. However, Ibn Zaid has explained that ذِکر refers to لَوحِ مَحفُوظ (the Preserved Tablet) and زبور relates to all the books which were revealed to the prophets. Zajjaj has also adopted this explanation. (Ruh ul-Ma ani) الْأَرْ‌ضَ (the word &land& in - 21:105) All commentators agree that the word in this verse refers to the land of Paradise. Ibn Jarir has reported this explanation from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . The same explanation is also adopted by Mujahid, Ibn Jubair, Ikrimah, Suddi and Ab Al-` Aaliyah. Imam Razi has said that another verse of the Holy Qur&an supports this explanation. The verse is وَأَوْرَ‌ثَنَا الْأَرْ‌ضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ (And has bequeathed upon us the earth for us to make our dwelling wheresoever we will in Paradise - 39:74) The words used in the verse that the pious will inherit the أَرْ‌ضَ also lend credence to the view that the word أَرْ‌ضَ means land of Paradise, because the land of the earth can be inherited by all, whether believers or non-believers. Also the phrase that the pious will inherit the land (أَرْ‌ضَ ) follows the mention of Qiyamah, and it is well known that after the Qiymah there will be no land of the earth but only the land of the Paradise. Another version of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that the word أَرْ‌ضَ means just land, and includes both the land of the earth as well as of Paradise. It is quite obvious that the land of the Paradise will be inherited by the pious people. As for the land of the world also it is stated in the Holy Qur&an at several places that there will be a time when the entire land of the world will belong to the pious believers. One of such verse is: إِنَّ الْأَرْ‌ضَ لِلَّـهِ يُورِ‌ثُهَا مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (Surely, the land belongs to Allah. He lets whomsoever He wills, from among His slaves, inherit it. And the end-result is in favour of the God-fearing. - 7:128). In another verse it is said: وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ (Allah has promised those of you who believe and do good deeds that He will certainly make them (His) vicegerents in the land. - 24:55). Yet another verse says: إِنَّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (Surely, We shall help Our Messengers and those who have believed in the present life, and upon the day when the witnesses arise. - 40:51). The history has already witnessed the control of the pious believers over the better part of the world, and it will again come under their control during the time of Sayyidna Mahdi (رض) . (Ruh ul-Ma` ani & Ibn Kathir)

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ لفظ زبور، زبر کی جمع ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں اور زبور اس خاص کتاب کا نام بھی ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی۔ اس جگہ زبور سے کیا مراد ہے اس میں اقوال مختلف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک روایت میں یہ ہے کہ ذکر سے مراد آیت میں تورات ہے اور زبور سے مراد وہ سب کتابیں ہیں جو تورات کے بعد نازل ہوئیں۔ انجیل، زبور داؤد۔ اور قرآن (اخرجہ ابن جریر) یہی تفسیر ضحاک سے بھی منقول ہے۔ اور ابن زید نے فرمایا کہ ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور زبور سے مراد تمام کتابیں جو انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہوئی ہیں۔ زجاج نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ (روح المعانی) الْاَرْضَ ، اس جگہ ارض سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک ارض جنت ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس سے یہ تفسیر نقل کی ہے اور یہی تفسیر مجاہد، ابن جبیر، عکرمہ، سدی اور ابو العالیہ سے بھی منقول ہے۔ امام رازی نے فرمایا کہ قرآن کی دوسری آیت اسی کی موید ہے جس میں فرمایا وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاۗءُ ، اور آیت میں جو یہ فرمایا کہ اس ارض کے وارث صالحین ہوں گے یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ ارض سے ارض جنت مراد ہو۔ دنیا کی زمین کے وارث تو مومن کافر سبھی ہوجاتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہاں صالحین کا وارث ارض ہونا ذکر قیامت کے بعد آیا ہے اور قیامت کے بعد جنت کی زمین کے سوا کوئی دوسری زمین نہیں۔ اور حضرت ابن عباس کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس ارض سے مراد عام ارض ہے دنیا کی زمین بھی اور جنت کی زمین بھی جنت کی زمین کے تو تنہا وارث صالحین ہونا ظاہر ہے۔ دنیا کی پوری زمین کے وارث ہونا بھی ایک وقت میں مومنین صالحین کے لئے موعود ہے جس کی خبر قرآن کریم کی متعدد آیات میں دی گئی ہے۔ ایک آیت میں ہے، ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ، ایک دوسری آیت میں ہے وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ الآیة، تیسری ایک آیت میں اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ، مومنین صالحین کا دنیا کے معظم معمورہ پر قابض اور وارث ہونا ایک مرتبہ دنیا پہلے مشاہدہ کرچکی ہے اور زمانہ دراز تک یہ صورت قائم رہی اور پھر مہدی (علیہ السلام) کے زمانے میں ہونے والی ہے (روح المعانی و ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُہَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ۝ ١٠٥ زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠٥) اور ہم داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں توریت کے بعد لکھ چکے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم تمام آسمانی کتابوں میں لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد لکھ چکے ہیں کہ سرزمین جنت کے مالک میرے مؤحد بندے ہوں گے یا یہ کہ ارض مقدسہ کے وارث بنی اسرائیل کے نیکوکار یا اخیر زمانہ کے نیکوکار ہوں گے اور وہاں اتریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٥ (وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ ) ” الفاظ کے مفہوم کے مطابق اس وراثت کی دو امکانی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قیامت سے پہلے اللہ کا دین پوری دنیا پر غالب آجائے گا ‘ اللہ کے نیک بندوں کی حکومت تمام روئے زمین پر قائم ہوجائے گی اور یوں وہ پوری زمین کے مالک یا وارث بن جائیں گے۔ دوسری صورت یہ ہوگی کہ قیام قیامت کے بعد اسی زمین کو جنت میں تبدیل کردیا جائے گا اور اہل جنت کی ابتدائی مہمان نوازی (نُزُل) یہیں پر ہوگی (مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو تشریح سورة ابراہیم : ٤٨) ۔ اور یوں اللہ کے نیک بندے جنت کے وارث بنا دیے جائیں گے۔ اس مفہوم کے مطابق یہاں زمین سے مراد جنت کی زمین ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

47: یعنی آخرت میں ساری زمین پر کسی کافر کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ؛ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں ہی کو ملے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠٥:۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ پہلے لوح محفوظ میں اور لوح محفوظ کے بعد انبیاء پر جو کتابیں نازل کی گئی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے یہی لکھا ہے کہ جنت کی زمین کے وہی لوگ وارث ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں نیک ٹھہر چکے ہیں ‘ صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے ١ ؎ کہ بعضے لوگ تمام عمر جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں لیکن آخر عمر میں لوح محفوظ کے لکھے کے موافق دورخیوں کے سے کام کر کے مرتے ہیں اسی طرح بعضے لوگ تمام عمر دوزخیوں کے سے کام کرتے ہیں لیکن آخر عمر میں لوح محفوظ کے لکھے کے موافق جنتیوں کے سے کام کر کے مرتے ہیں ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اسی واسطے اس نے ہر شخص کے کام کا انجام لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے لیکن انصاف کی نظر سے اللہ تعالیٰ نے جزاو سزا کا دارو مدار اپنے علم غیب پر نہیں رکھا بلکہ ہر شخص کا ایک ٹھکانا دوزخ میں اور ایک جنت میں پیدا کر کے سزا کے طور پر دوزخ میں جھونکے جانے اور جزا کے طور پر جنت میں داخل ہونے کا مدار دنیا کے ظاہری عملوں پر رکھا ہے ہاں اتنی بات ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم غیب سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اسی طرح اس کے علم غیب کے برخلاف کچھ نہیں ہوسکتا اس لیے اگرچہ ہر شخص کا ایک ٹھکانا دوزخ میں اور ایک جنت میں پیدا کیا گیا ہے لیکن آخر کو جنت میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو اللہ کے علم غیب کے موافق پہلے لوح محفوظ میں اور پھر آسمانی کتابوں میں نیک ٹھہر چکے ہیں اسی واسطے قرآن شریف میں جگہ جگہ فرمایا ہے کہ راہ راست پر آنے کی توفیق ان ہی لوگوں کو ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں راہ راست پر آنے کے قابل قرار چکے ہیں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہو کر اپنے اختیار سے جو کوئی جس طرح کے کام کرنے والا تھا۔ لوح محفوظ میں وہ لکھا گیا ہے ‘ کسی کو کسی کام پر مجبور نہیں کیا گیا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠ باب الایمان بالقدر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:105) الزبور۔ اس کا مادہ زبر ہے الزبرۃ لوہے کی بڑی سل کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع زبر ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے اتونی زبر الحدید (18:96) لوہے کی سلیں ہمارے پاس لائو۔ کبھی زبر کا لفظ بالوں کے گچھے پر بولا جاتا ہے اس کی جمع زبر آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پاری کی ہوئی چیز کو بھی زبر کہا جاتا ہے ۔ مثلاً فتقطعوا امرہم بینہم زبرا۔ (23:53) پھر لوگوں نے آپس میں (پھوٹ کر کے) اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ زبرت الکتاب۔ میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا۔ ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہا جاتا ہے۔ لیکن عرف عام میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کا نام ہے جو حضرت دائود (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی۔ قرآن مجید میں ہے واتینا داود زبورا (4:163) اور ہم نے دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ آیت ہذا میں اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک یہاں الزبور سے مراد حضرت دائود پر نازل کی گئی کتاب ہے۔ بعض کے نزدیک یہاں یہ بطور اسم جنس استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد کل کتب آسمانی ہیں۔ یہی قول راجح ہے۔ الذکر۔ اس کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد توراۃ ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ الارض۔ سے بھی مختلف علماء نے مختلف مراد لی ہے بعض کے نزدیک یہ ہماری زمین ہے اور یہ مؤمنین کے حق میں ایک بشارت دنیوی ہے۔ اور ایک گروہ علما کا قائل ہے کہ الارض سے مراد ملک شام ہے اور یہ کہ یہ پیشن گوئی عہد صحابہ میں پوری ہو کر رہی۔ لیکن اکثریت علماء کی اس طرف گئی ہے کہ الارض سے مراد ارض الجنۃ ہے قرآن مجید میں الارض کا اطلاق ارض جنت پر بھی ہوا ہے مثلاً الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشاء (39:74) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں اس زمین کا وارث کردیا۔ کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ الزبور۔ الذکر۔ اور الارض کی تشریح بالا کے بعد آیت کا مطلب ہوا :۔ لوح محفوظ میں لکھ دینے کے بعد ہم نے کتب آسمانی میں بھی (یہ قاعدہ) لکھ دیا کہ زمین بہشت کے وارث میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 ۔ ” اذکر “ سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے ” توارۃ “ مراد لی ہے اور بعض نے اسے اس کی لفظی یعنی ” نصیحت “ میں لیا ہے۔ (شوکانی) 13 ۔ یہاں ” الارض “ سے کونسی زمین مراد ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض علما نے بہشت کی زمین مراد لی ہے کیونکہ دوسری آیت میں جنت کے متعلق و اور ثنا الرض فرمایا ہے۔ یعنی جس نے ہمیں زمین یعنی جنت کا وارث بنایا۔ (زمر : 47) گویا یہ اہل ایمان کے حق میں ایک بشارت اخروی ہے جیسے فرمایا ہو العاقبۃ للمتقین۔ (اعراف) مگر اکثر علما نے اسے بشارت دنیوی پر محمول کیا ہے۔ پھر بعض نے کافر قوموں کی سرزمین مراد لی ہے اور بعض نے ” بیت المقدس “ کی فتح۔ چناچہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة نور آیت 55 ۔ (شوکانی و ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہاں تک سورت کے بڑے حصہ میں توحید و نبوت کی تحقیق اور منکرین کے لئے وعید مذکور ہوئی ہے آے ان مضامین مفیدہ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ان مضامین کی صراحة مدح اور اشارة ان مضامین کے لانے والے کی بھی مدح اور بطور تلخیص سابق کے توحید اور اسلام کی طرف جس کے لوازم میں سے تصدیق نبوت بھی ہے دعوت مکررہ اور بطور تلخیص ہی کے انکار پر وعید مکرر اور وعید کے متعلق اور مناسب مضامین ارشاد ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد………الصلحون (١٠٥) زبور ایک الہامی کتاب تھی جو دائود (علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس سورة میں ذکر سے مراد تو رات ہوگی۔ جو زبور سے پہلے نازل ہوئی۔ یہ کتاب کی صفت ہے یعنی کتاب کا ایک ٹکڑا۔ اصل کتاب کا حصہ بمعنی لوح محفوظ ، جو ایک مکمل نظام ہے ، جو ایک مکمل مرجع ہے او اس کائنات کے ساتھ متعلق تمام قوانین اس کے اندر محفوظ ہیں۔ اس کا حصہ ہیں۔ بہرحال اصل زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مراد کیا ہے۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (٢١ : ١٠٥) ” اور زبور میں نصیحت کے بعد ہم نے لکھ دیا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ “ وراثت کیا ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمین کی وراثت اور اقتدار اعلیٰ کے بارے میں سنت الہیہ کیا ہے ؟ یہ کہ یہاں اقتدار میرے صالح بندوں کو ملے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ صالح بندے کون ہیں ؟ اللہ نے زمین پر آدم کو خلیفہ بنایا تاکہ وہ اس زمین کی تعمیر کرے او اس کی اصلاح کرے۔ اس کو ترقی دے اور اس سے تو جو خزانے ودیعت کئے ہوئے ہیں ، ان سے استفادہ کرے ، اس کے اندر جو طبیعی قوتیں ہیں ان کو کام میں لائے او اس ترقی کو اپنی انتہا تک پہنچائے جہاں تک اللہ چاہے۔ اس خلافت فی الارض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک منہاج بھی انسان کو دے دیا ، جس کے مطابق انسان نے زمین پر کام کرنا ہے۔ یہ منہاج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آخری رسالت میں مکمل و مفصل کردیا ہے اور اس کے لئے قوانین اور ضوابط مقرر کردیئے ہیں۔ اس کے لئے ان قوانین میں مکمل ضمانت ہے۔ اس نظام کے مقاصد میں صرف یہ بات ہی شامل نہیں ہے کہ انسان زمین کے اندر موجود ذخائر کو کام میں لا کر مادی ترقی پر زور دیتا ہے بلکہ انسانی عقل اور انسانی ضمیر اور اس کی روح کو بھی ترقی دے۔ تاکہ اس دنیا میں انسان نے جس قدر مادی اور روحانی ترقی کرنی ہے وہ اس کے آخر تک پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا میں مادی ترقی کرتے کرتے وہ خود محض حیوان بن کر تنزل کا شکار نہ ہوجائے۔ مادی ترقیات تو آسمانوں کو چھو رہی ہوں اور انسان کی انسانیت پستیوں کی آخری حدوں پر (……) میں ہو۔ جب انسان اسلامی نظام زندگی کے مطابق منصب خلافت کے فرائض ادا کرتے ہوئے راہ ترقی پر گامزن ہو ، تو اس راہ میں مادی ترقی اور روحانی ترقی کا توازن کبھی کبھی بگڑ بھی جاتا ہے۔ کبھی ایک پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرا۔ اور توازن باقی نہیں رہتا۔ بعض اوقات اقتدار کے سرچشموں پر ڈکٹیٹر ، ظالم اور سرکش لوگ قابض ہوجاتے ہیں۔ کبھی ان مناصب پر سخت جاہل ، اجڈ اور مہم جو قابض ہوجاتے ہیں ، کبھی ان مناصب پر کفار اور فجار خالص ہوجاتے ہیں جو پوری دنیا کا مادی اور اخلاقی استحصال کرتے ہیں لیکن یہ صرف راستے کے تجربے ہوتے ہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ زمین کے مناصب کی وراثت اللہ کے صالح بندوں کے لئے ہے۔ جن کا ایمان بھی مکمل ہو اور عمل بھی درست ہو۔ ان کی زندگی میں ایمان اور عمل صالح دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے ہوں۔ امت میں جب بھی ایمان اور عمل اسلامی معیار کے مطابق جمع ہوئے ہیں ، تاریخ کے کسی بھی موڑ میں ، تو زمین صالح بندوں کی وراثت بنی ہے لیکن جب ایمان و عمل میں جدائی ہوئی ہے یعنی ایمان نہیں رہا یا عمل نہیں رہا ، تو یہ وراثت ان کے ہاتھ سے چلی گئی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگوں کو غلبہ مل جاتا ہے جو محض مادی وسائل پر تکیہ کرتے ہیں۔ جو لوگ محض زبانی کلامی مومن ہوتے ہیں وہ پیچھے رہ جات یہیں۔ نیز بعض اوقات اہل ایمان کے اندر رسمی ایمان تو وہتا مگر وہ صحیح ایمان نہیں ہوتا جو انسان کو صحیح عمل پر آمادہ کرے اور دنیاوی ترقی کرے تو ایسی صورت میں بھی محض مادی ترقی کرنے والے لوگ زمین کے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ اہل ایمان ، ایمان کے ان تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہوتے جو خلافت فی الارض کے اونچے مقام کے لئے اسلامی نظام کی شکل میں اللہ نے اہل ایمان کے لئے وضع کئے ہیں۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں پر اس وقت ایک ہی فرض ہے ، وہ یہ کہ وہ اپنے دلوں میں ایمان کا حقیقی مفہوم پیدا کریں۔ ایمان کا حقیقی مفہوم عمل صالح ہے۔ پھر خلافت فی الارض کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس کے بعد پھر اللہ کی سنت اپنے ظہور میں ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرتی۔ ان الارض یرثھا عبادی الصلحون (٢١ : ١٠٥) ” زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ “ اب آخر میں عقل و خرد کی تاروں پر اسی مضراب کی ضربات لگتی ہیں جن کے نغمات سورة کے آغاز میں سنے گئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لفظ الزَّبُوْرُسے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ہم نے حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد کا قول لیا ہے کہ الزبور سے آسمانی کتب اور الذکر سے لوح محفوظ مراد ہے۔ عن ابن عباس فی الایۃ قال الزبور و التوراۃ و الانجیل والقرآن، والذکر الاصل الذی نسخت منہ ھذہ الکتب الذی فی السماء، و قال مجاھد الزبور الکتب و الذکرام الکتاب عنداللہ، (الدرالمنثور، ص ٣٤١، ج ٤) کون سی زمین کے بارے میں فرمایا ہے کہ صالحین اس کے وارث ہیں ؟ اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت مجاہد اور حضرت شعبی اور حضرت عکرمہ نے فرمایا ہے کہ اس سے جنت کی سر زمین مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ صالحین جنت کے وارث ہوں گے۔ سورة زمر میں اللہ تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے (وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ ) (اور جنت والے کہیں گے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس سر زمین کا وارث بنا دیا۔ ہم جنت میں جہاں چاہیں قیام کریں) چونکہ اس سے جنت کی سر زمین مراد ہے اس لیے یہ اشکال ختم ہوجاتا ہے کہ ہم تو اس زمین پر کافروں فاسقوں کی حکومتیں بھی دیکھتے ہیں۔ پھر آیت میں جو وعدہ ہے وہ کیسے پورا ہوا ؟ لیکن اگر دنیا والی زمین مراد لی جائے تب بھی اشکال کی بات نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو یہ بتائے کہ زمین پر ہمیشہ صالحین ہی کی حکومت رہے گی۔ اگر کافروں اور فاسقوں کی حکومتیں ہیں تو صالحین کی حکومتیں بھی تو رہی ہیں۔ جن میں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تھے اور ان کے متبعین بھی اور امت محمدیہ علیٰ صاحبھا التحیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا ملک عطا فرمایا۔ حکومت چلانے والوں میں صالحین بھی تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ مسلمانوں کی ایمانی کمزوری اور بد عملی اور غفلت کی وجہ سے بڑے بڑے ملک ہاتھوں سے نکل گئے اور اب جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں وہاں فاسق چھائے ہوئے ہیں۔ اس کا باعث بھی مسلمانوں کی دین و ایمان کی کمزوری ہی ہے کہ وہ صالحین کو اقتدار پر دیکھنا نہیں چاہتے اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر صالحین کا اقتدار ہوا تو قرآن و سنت کی حکومت ہوگی۔ اور من مانی زندگی نہ گزار سکیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

82:۔ ” وَلَقَدْ کَتَبْنَا الخ “ یہ مومنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ زبور سے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی کتاب مراد ہے اور ذکر سے تورات یا صحف ابراہیم مراد ہیں۔ ” اَلْاَرْضُ “ جنت کی زمین۔ احسن ما قیل فیہ انہ یراد بھا ارض الجنۃ کما قال سعید بن جبیر لان الارض فی الدنیا قد ورثھا الصالحون وغیرھم وھو قول ابن عباس و مجاھد وغیرھما الخ (قرطبی ) ۔ یا ارض مقدس یا ارض شام مراد ہے اور یہ امت محمدیہ کے لیے بشارت دنیوی ہے۔ وقیل الارض المقدسۃ یرثھا امة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بحر ج 6 ص 344) ۔ وقیل المراد بھا الارض المقدسۃ وقیل الشام (روح ج 17 ص 104) ۔ 83:۔ ” عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ الخ “ اس سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام مراد ہے۔ یعنی ارض الجنۃ یرثھا امۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (خازن ج 4 ص 263) ۔ قال مجاھد یعنی امۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (معالم) و اکثر المفسرین علی ان المراد بالعباد الصالحین امۃ مھمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قرطبی ج 11 ص 349) ۔ لیکن انسب یہ ہے کہ اگر الارض سے ارض جنت مراد ہو تو عبادی الصلحون۔ تمام صلحاء کو شامل ہو۔ خواہ وہ کسی پیغمبر کی امت ہوں اور اگر الارض سے ارض شام یا بیت المقدس مراد ہو تو عبادی الصلھون سے امت محمدیہ مراد ہو۔ واللہ تعالیی اعلم بالصواب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(105) اور ہم لوح ِ محفوظ میں درج کرنے کے بعد تمام کتب سماویہ میں یہ بات لکھ چکے ہیں کہ جنت کی زمین کے حقیقی مالک میرے نیک بندے ہی ہوں گے۔ اس آیت کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں بعض حضرات نے زبور سے عام کتب سماویہ مرادلی ہے اور ذکر سے لوح محفوظ مراد ہے۔ یعنی لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام کتب ِ سماویہ میں یہ بات کہی اور بتلائی گئی ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ بعض نے کہا زبور سے مراد حضرت دائود (علیہ السلام) کی کتاب ہے اور ذکر سے مراد اسی کے ایک حصہ کا نام ہے اس ذکر کے بعد فرمایا ہے کہ زمین کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے ذکر سے مراد تورات ہے۔ تورات کے بعد جس قدر آسمانی صحائف نازل ہوئے ہیں اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے زمین سے بھی بعض نے دنیوی زمین مراد لی ہے۔ اس تقدیر پر یہ پیشین گوئی تھی جو پوری ہوچکی خواہ عام کفار کی مقبوضہ زمین ہو یا بیت المقدس ہو نیک بندے مالک ہوچکے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ارض سے مراد جنت کی زمین ہے بعض لوگوں نے فرمایا کہ دنیا کے آخری دور میں نزول مسیح (علیہ السلام) کے وقت اس پیشین گوئی کا مکمل ظہور ہوگا۔ (واللہ اعلم) یہ چند اقوال تھے جن کا خلاصہ عرض کردیا گیا۔ راجح قول کو ہم نے ترجمہ میں اور تیسیر میں اختیار کرلیا ہے۔