Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 27

سورة الأنبياء

لَا یَسۡبِقُوۡنَہٗ بِالۡقَوۡلِ وَ ہُمۡ بِاَمۡرِہٖ یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۷﴾

They cannot precede Him in word, and they act by His command.

کسی بات میں اللہ پر پیش دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They speak not until He has spoken, and they act on His command. meaning, they do not initiate any matter before Him or go against His commands; on the contrary, they hasten to do as He commands, and He encompasses them with His knowledge so that nothing whatsoever is hidden from Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۙلَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ یعنی ان کی بندگی اور فرماں برداری کا یہ حال ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر بات تک نہیں کرتے۔ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ : ” بِاَمْرِهٖ “ کو پہلے لانے سے دو باتیں واضح ہوئیں، ایک یہ کہ وہ جو کرتے ہیں اس کے حکم سے کرتے ہیں، اس کے حکم کے بغیر نہیں کرتے۔ دوسری یہ کہ وہ ہر کام صرف اس کے حکم سے کرتے ہیں، کسی اور کے حکم سے نہیں۔ غور کرو، بندگی اور غلامی کی انتہا ہے کہ مولا کی مرضی کے بغیر نہ بولتے ہیں نہ کچھ کرتے ہیں، بھلا اولاد بھی اس طرح ہوتی ہے ؟ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ سے اولاد کی نفی فرمائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِ‌هِ يَعْمَلُونَ (They do not precede Him in speech and only under His command they act. 21:27) This verse refutes the claim of pagans of Makkah that angels were daughters of Allah. How can angels be Allah&s children when they stand in such awe in His presence that they neither initiate any talk nor act against His commands. They simply await His words and act accordingly. This also points towards an important etiquette of behaving in the company of elders. That is, when a matter is brought forth in front of a group of people, the people before speaking themselves first, should wait until the elder among such a group has spoken. Speaking prior to the elder is contrary to the manners governing respect of elders.

لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ ، یعنی فرشتے حق تعالیٰ کی اولاد تو کیا ہوتے وہ تو ایسے خائف اور مؤ دب رہتے ہیں کہ نہ قول میں اللہ تعالیٰ سے سبقت کرتے ہیں نہ عمل میں اس کے خلاف کبھی کچھ کرتے ہیں۔ قول میں سبقت نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک حق تعالیٰ ہی کی طرف سے کوئی ارشاد نہ ہو خود کوئی کلام کرنے میں مسابقت کی ہمت نہیں کرتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بڑوں کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب مجلس میں کوئی بات آئے تو جو اس مجلس کا بڑا ہے اس کے کلام کا انتظار کیا جائے پہلے ہی کسی اور کا بول پڑنا خلاف ادب ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَ۝ ٢٧ سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ ) ” فرشتے اللہ تعالیٰ کے آگے بڑھ کر بات نہیں کرتے۔ وہ اللہ کے احکام کے منتظر رہتے ہیں اور اس کے ہر فرمان کی تعمیل کرتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:27) لا یسبقونہ۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب ہ ضمیر واحد مذکر غائب سبق (ضرب) سے مصدر ۔ اس سے وہ سبقت نہیں کرتے۔ پہل نہیں کرتے (بالقول۔ بات کرنے میں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی ان کی اطاعت اور انقیاد کا حال یہ ہے کہ ہر قول و عمل میں اللہ تعالیٰ کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ نہ اس کی اجازت کے بغیر لب کشائی کرت یہیں اور نہ اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم ہی اٹھاتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عباد مکرمون کی عاجزی کی انتہا ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اللہ کے اس قدر عاجز بندے اور غلام ہیں کہ ” اللہ “ کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عَبَدٌکی جمع ” عِبَادٌ“ ہے اور اہل لغت نے اس کا معنی بندہ اور غلام لکھا ہے۔ ظاہر ہے غلام کتنا ہی قابل صد احترام کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے آقا کا بندہ اور اس کے سامنے عاجز ہو کر ہی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس لیے ملائکہ ہوں یا انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء وہ سب کے سب اپنے رب کے غلام ہیں۔ وہ اپنے عظیم بےمثال آقا جو صرف ان کا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا آقا، خالق، رازق اور مالک ہے۔ وہی ہمہ صفت موصوف اور تمام اختیارات کا مالک اور معبود برحق ہے، اس کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کی ملائکہ اور انبیائے کرام (علیہ السلام) جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں ” عباد “ سے مراد ملائکہ ہیں۔ جن کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ملائکہ اپنے رب کے سامنے اپنی مرضی سے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور ہر حال میں اس کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے وہ اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے بغیر کسی کی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتے۔ اگر ان میں سے کوئی اِلٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے ” اللہ “ جہنم میں جھونک دے گا کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ میں ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتا ہوں۔ اس فرمان سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ملائکہ میں بھی یہ جرأت اور ہمت نہیں کہ وہ معبود ہونے اور حاجت روا، مشکل کشا ہونے کا دعویٰ کریں۔ بالفرض ان میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ کرے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ ملائکہ کے حوالے سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ لوگو ! تم انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے سمجھ کر انہیں مشکل کشا، حاجت روا اور سجدہ کے لائق سمجھ لیتے ہو غور کرو ! یہ تو اپنے رب کے بندے تھے۔ اپنا اپنا وقت گزار کر اللہ کے حضور پہنچ چکے۔ یہی حال اولیاء کا ہے۔ ان کے مقابلے میں ملائکہ وہ مخلوق ہیں جو گناہ کے تصور سے پاک اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہتے ہیں۔ انھیں بھی جرأت نہیں کہ حاجت روا، مشکل کشا یعنی کسی کا معبود بننے کی کوشش کریں۔ یہ بات ناممکنات میں سے ہے بافرض محال اگر ان میں سے کوئی ایسی حرکت کرے گا تو وہ بھی جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ ان کے مقابلے میں خاکی مخلوق کی کیا مجال ہے ؟ کہ وہ شرک کرے اور جہنم سے بچ سکے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں ‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کے ارشاد کا بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند ہے اور بڑا ہے۔ مسائل ١۔ ملائکہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز نہیں کرتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتا۔ ٤۔ ملائکہ میں سے کوئی الٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جہنم میں جھونک دے گا۔ تفسیر بالقرآن جس نے ” اللہ “ کے ساتھ شریک بنایا اسے عذاب ہوگا : ١۔ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نبوت، کتاب اور حکومت دے اسے بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے۔ ( آل عمران : ٧٩) ٢۔ جس نے شرک کیا اس پر جنت حرام ہے۔ ( المائدہ : ٧٢) ٣۔ اگر آپ بھی شرک کرتے تو آپ کے اعمال غارت کر دئیے جاتے۔ (الزمر : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 باوجود مقرب اور محترم ہنے کے حضرت حق تعالیٰ سے بات کرنے میں پیش قدمی نہیں کرسکتے اور اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اور وہ سب فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یعنی باوجود ذی مرتبت ہونے کے ان کی یہ مجال نہیں کہ حضرت حق کی مرضی کے خلاف زبان کھول سکیں یا اس کے آگے بڑھ کر بول سکیں اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔