Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 39

سورة الأنبياء

لَوۡ یَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا حِیۡنَ لَا یَکُفُّوۡنَ عَنۡ وُّجُوۡہِہِمُ النَّارَ وَ لَا عَنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۳۹﴾

If those who disbelieved but knew the time when they will not avert the Fire from their faces or from their backs and they will not be aided...

کاش! یہ کافر جانتے کہ اس وقت نہ تو یہ کافر آگ کو اپنے چہروں سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لاَ يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلاَ عَن ظُهُورِهِمْ ... If only those who disbelieved knew (the time) when they will not be able to ward off the Fire from their faces, nor from their backs, meaning, if only they knew for certain that it will inevitably come to pass, they would not seek to hasten it. If only they knew how the torment will overwhelm them from above them and from beneath their feet. لَهُمْ مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ They shall have coverings of Fire, above them and coverings (of Fire) beneath them. (39:16) لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ Theirs will be a bed of Hell (Fire), and over them coverings (of Hellfire). (7:41) And in this Ayah Allah says: ... حِينَ لاَ يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلاَ عَن ظُهُورِهِمْ ... when they will not be able to ward off the Fire from their faces, nor from their backs, And Allah says: سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَى وُجُوهَهُمْ النَّارُ Their garments will be of tar, and fire will cover their faces. (14:50) The torment will surround them on all sides, ... وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ and they will not be helped. means, and they will have no helper. This is like the Ayah: وَمَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ And they have no guardian against Allah. (13:34)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقینا جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] یعنی ان کے اس مطالبہ کی وجہ صرف یہ ہے کہ جس آگ کے عذاب سے انھیں ڈرایا جاتا ہے اس پر ان کا یقین ہی نہیں۔ اگر ان پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے اور وہ اس ہولناک گھڑی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں تو کبھی ایسی درخواست نہ کریں۔ پھر جب وہ وقت سامنے آجائے گا اور انھیں آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے، اوپر سے، نیچے سے غرض ہر طرف سے آگ گھیرے ہوئے ہوگی تو اس سے بچاؤ کی انھیں کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ اور آج جو کچھ یہ باتیں بنا رہے ہیں اس دن ایسے حواس باختہ ہوں گے کہ ان میں سے کوئی بات بھی انھیں یاد نہ رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : یعنی ان لوگوں کے عذاب کو جھٹلانے اور اسے ناممکن سمجھنے کی اصل وجہ ان کا جہل ہے، انھیں اس وقت کا علم ہی نہیں جب آگ انھیں چاروں طرف سے گھیر لے گی۔ یہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو روک سکیں گے، جو ان کے جسم کا سب سے اہم اور خوبصورت حصہ ہے اور نہ پشتوں سے، جو جسم کا سب سے مضبوط حصہ ہے۔ جب ان اعضا کو آگ سے نہ بچا سکے تو دوسرے اعضا کو کیسے بچائیں گے ؟ کفار کو آگ کے چاروں طرف سے گھیرنے کا ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ دیکھیے سورة کہف (٢٩) ، اعراف (٤١) ، زمر (١٦) ، ابراہیم (٥٠) ، مومنون (١٠٤) اور دوسری آیات۔ ” لو “ کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ یہ حرف شرط ہے اور اس کی جزا محذوف ہے، جو خودبخود سمجھ میں آرہی ہے، یعنی اگر کافر لوگ اس وقت کو جان لیں تو نہ کبھی اسے جلدی طلب کریں، نہ اس کا مذاق اڑائیں اور نہ اس کا انکار کریں۔ دوسری تفسیر یہ کہ یہ حرف تمنی ہے، یعنی ” کاش کہ کافر لوگ اس وقت کو جان لیں “ اس صورت میں جزا کی ضرورت نہیں۔ وَلَا هُمْ يُنْــصَرُوْنَ : کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا اور نہ وہ اپنی یا ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ دیکھیے سورة طارق (١٠) ، صافات (٢٥، ٢٦) اور شعراء (٩٢ تا ٩٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حِيْنَ لَا يَكُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْہِہِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُہُوْرِہِمْ وَلَا ہُمْ يُنْــصَرُوْنَ۝ ٣٩ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩) کاش ان لوگوں کو جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر ہیں اس وقت کی خبر ہوتی کہ عذاب میں ان کی کیا درگت بنے گی تو یہ ہرگز نزول عذاب کے بارے میں جلدی نہ کرتے، نزول عذاب کے وقت تو یہ لوگ اس عذاب کی آگ کو نہ اپنے سامنے سے روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے سے اور نہ ان کی کوئی حمایت کرے گا کہ اس عذاب کو ان سے دور کر دے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:39) لا یکفون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ کف یکف (نصر) کف روکنا دفع کرنا۔ وہ نہیں روک سکیں گے۔ وہ دور نہیں کرسکیں گے۔ لو۔ حرف شرط ہے تو جواب شرط محذوف ہے۔ ای لو یعلم الذین کفروا حین لا یکفون عن وجوہم النار ولا عن ظہورہم ولاہم ینصرون لما فعلوا ما فعلوا من الاستعجال۔ اگر کافر لوگ اس وقت کو جانتے ہوتے جب یہ آگ کو نہ روک سکیں گے اپنے چہروں سے نہ اپنی پشتوں کی طرف سے اور ان کو مدد نہ پہنچ سکے گی تو وہ شتابی کی بات جو کر رہے ہیں نہ کرے۔ یا لو یہاں بطور حرف تمنا ہے۔ اس صورت میں جواب درکار نہیں ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اے کاش ان کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی جب یہ آگ کو نہ روک سکیں گے اپنے چہروں سے اور نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ہی انہیں مدد پہنچ سکے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

10۔ یعنی اگر اس مصیبت کا علم ہوتا تو ایسے باتیں نہ بناتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس عذاب کے لیے کفار جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی ہولناکیوں کی ایک جھلک۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب اور قیامت کا بار بار مطالبہ کرتے تھے۔ عذاب کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے کفار کو ان کے مطالبہ سے یہ کہہ کر ڈرایا اور روکا جا رہا ہے کہ اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ رب ذوالجلال کا عتاب اور عذاب کس قدر سخت اور شدید تر ہوتا ہے تو یہ بھول کر بھی ایسا مطالبہ نہ کریں۔ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ جب ان پر رب ذوالجلال کا عذاب نازل ہوگا تو وہ اپنے آپ کو بچانا چاہیں تو ہرگز بچا نہیں سکیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی مذاق ہوتا رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ جب مذاق کرنے والوں کو عذاب نے آلیا تو اس وقت انھیں کوئی پناہ دینے والانہ تھا۔ جہاں تک جہنم کے عذاب کا معاملہ ہے اس کی آگ اس قدر سخت اور تیز ہوگی کہ وہ ان کے چہروں اور پیٹھوں کو جھلس دے گی۔ اس وقت کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اس دن عذاب ان پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔ ظالم بدحواس ہوجائیں گے نہ اسے ٹالنے کی ان کے پاس طاقت ہوگی اور نہ انھیں مہلت ملے گی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کر تمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ “ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاق کرنے والوں کا دنیا میں انجام : (اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ ) [ الحجر : ٩٥] ” یقیناً ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نپٹ لیں گے۔ “ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے تھے ؟ “ (تفسیر رازی : جلد ٨، سورة التوبہ) مسائل ١۔ جہنم کا عذاب مجرموں کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا اور اس وقت ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ قیامت اچانک نازل ہوگی جس کو دیکھ کر ظالم بدحواس ہوجائیں گے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق کرنے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت اور ان کا مذاق اڑانے والوں کا انجام : ١۔ آپ سے پہلے بھی انبیا سے مذاق کیا جاتا رہا تب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ (الانبیاء : ٤١) ٢۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ : ٦٥) ٣۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( الحجر : ١١) ٤۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( یٰس : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لویعلم الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ ماکانوا بہ یستھزء ون (٩٣ : ١٤) ” اگر انکو علم ہوجائے کہ ان کی حالت کیا ہوگی ‘ تو ان کا رویہ یہ نہ ہوتا ‘ جواب ہے۔ یہ عذاب میں نہ جلدی کا مطالبہ کرتے اور نہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاق کرتے۔ ان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس وقت ہوگا کیا۔ وہاں ان کی حالت یہ وہگی کہ ہر طرف سے آگے کے شعلے انہیں نوچ رہے ہوں گے ‘ جھلسا رہے ہوں گے اور یہ اپنے آپ کو بچانے کی نااکم کوششیں کررہے ہوں گے ‘ قرآن اس کی تصویر اس طرح کھینچتا ہے کہ چہروں پر شعلے حملہ کریں گے ‘ پیٹھوں پر کریں گے اور یہ کسی طرح کا دفاع نہ کرسکیں گے بلک یہ آگ ہمہ جہست ان پر شعلہ بار ہوگی اور یہ کسی شعلے کو رد نہ کرسکیں گے ‘ نہ موخر کرسکیں اور نہ انکو اس عذاب سے ذرا سی مہلت ملے گی۔ یہ آگ اچانک ان پر آئے گی ‘ اس لیے کہ یہ لوگ بہت جلدی کرتے تھے۔ ان لوگوں کا تو تکیہ کلام ہی یہ تھا۔ متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین (١٢ : ٨٣) ” یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو “۔ اس کا جواب تو یہ ہوا کہ اچانک ان پر ہر طرف سے شعلہ باری ہوگی۔ وہ حیران ہوجائیں گے اور ان کی عقل اب کچھ نہ کرسکے گی۔ نہ سوچ سکیں اور نہ کوئی دفاع کرسکیں گے اور نہ دفاعی منصوبہ بندی کے لیے کوئی مہلت ملے گی۔ یہ تو ہوگا آخرت کا عذاب۔ رہا دنیا کا عذاب تو وہ اس قسم کے مذاق کرنے والوں پر تاریخ میں بار بار آیا ہے۔ مشرکین مکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر چہ اللہ نے ان کے لیے سرے سے مٹانے کا عذاب مقدر نہیں کیا لیکن قتل ‘ قید اور مغلوبیت کا عذاب تو تم پر آسکتا ہے۔ لہٰذا اس کم درجے کے عذاب سے بھی یہ مذاق کرنے والے محفوظ نہیں ہیں۔ ورنہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کا انجام تو تاریخ نے بار ہاریکارڈ کیا ہے۔ جب یہ سنت الہیہ کے مطابق آتا ہے تو پھر ملتا نہیں ہے اور اس کے نظارے ان لوگوں کی تاریخ میں کئی ہیں جو رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے رہے ہیں۔ آیا رحمن کے سوا اور کوئی ہے جو رات اور دن انہیں بیشمار مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ کیا دنیا کے عذاب یا آخرت کے عذاب سے ‘ اللہ کے سوا انہیں کوئی اور بچانے والا ہے کہ یہ اس قدر شتابی کرتے ہیں ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہاں ان کے جواب میں فرمایا (لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَکُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْھِھِمُ النَّارَ وَ لَا عَنْ ظُھُوْرِھِمْ وَ لَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ بَلْ تَاْتِیْھِمْ بَغْتَۃً فَتَبْھَتُھُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّھَا وَ لَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ) (اگر کافروں کو اس وقت کی خبر ہوتی جب وہ نہ اپنے چہروں سے آگ کو ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پشتوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی، بلکہ وہ آگ ان کے پاس اچانک آجائے گی سو وہ انہیں بد حواس بنا دے گی پھر وہ اسے ہٹا نہ سکیں گے اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی) یعنی جب وہ لوگ دوزخ کی آگ کی لپیٹ میں اور اس کی لپٹوں میں گھریں گے اگر انہیں اس وقت کی حالت کا علم ہوجاتا تو ایسی باتیں نہ بناتے، جب وہ لوگ انہیں گھیرے میں لیں گے تو ان کے حواس باختہ ہوجائیں گے۔ اس وقت اسے نہ ہٹا سکیں گے اور نہ ان کو یہ مہلت دی جائے گی کہ زندہ ہو کر دنیا میں واپس آکر مومن بن جائیں اور دوبارہ مر کر پھر حاضر ہوں اور عذاب سے بچ جائیں، جب عذاب دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو بس داخل ہوگئے اور ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ اب وہاں سے نکلنے کا اور مہلت ملنے کا کوئی موقع نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ شکوی ” لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ “ تا ” وَ لَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ “ جواب شکوی مع تخویف اخروی مشرکین ماننے کے بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن نادانوں کو پتہ نہیں لیکن نادانوں کو پتہ نہیں جب اللہ کا عذاب آجائے گا تو وہ اپنے کو اس سے ہرگز نہیں بچا سکیں گے۔ ” فَتَبْھَتُھُمْ “ ان کو حواس باختہ اور حیران و پریشان کردے گی۔ قال الفراء (فَتَبْھَتُھُمْ ) ای تحیرھم (قرطبی ج 11 ص 290) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

39 کاش ان کافروں کو اگر اس وقت کی خبر ہوتی اور یہ اس وقت کی خرابیوں کو جانتے کہ جب ان کو آگ سب طرف سے گھیر لے گی اور یہ لوگ دوزخ کی آگ نہ اپنے سامنے سے روک سکیں گے اور نہ اپنے پیچھے سے اس آگ کو روک سکیں گے اور نہ ان کی کہیں سے کوئی مدد کی جائے گی تو یہ کبھی عذاب کی جلدی نہ کرتے۔ یعنی ان کو عذاب کی حقیقت معلوم نہیں اگر ان کو معلوم ہوتی تو یہ کبھی جلدی نہ کرتے اور مسلمانوں سے متیٰ ہذا الوعد نہ کہتے۔